14. دعوت الی الخیر امربالمعروف نہی عن المنکر
ہدایت و ارشاد اور دعوت الی الخیر کا اجر و ثواب
حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے کسی نیک کام کی طرف (کسی بندے کی) رہنمائی کی تو اس کو اس نیک کام کے کرنے والے بندے کے اجر کے برابر ہی اجر ملے گا۔ (صحیح مسلم) تشریح اللہ تعالی کی طرف سے انبیاء علیہم سلام اس لئے بھیجے جاتے تھے کہ اس کے بندوں کو نیکی اور بھلائی کی دعوت دیں پسندیدہ اعمال و اخلاق اور ہر طرح کے اعمال خیر کی طرف ان کی رہنمائی کرے اور ہر نوع کی برائیوں سے ان کو روکنے اور بچانے کی کوشش کریں تاکہ دنیا و آخرت میں وہ اللہ کی رحمت اور رضا کے مستحق ہوں اور اس کے غضب و عذاب سے محفوظ رہیں اسی کا جامعہ عنوان “دعوت الی الخیر، امربالمعروف ونہی عن المنکر ” ہے۔ جب خاتم النبیین سیدنا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت کا سلسلہ ختم کردیاگیا تو قیامت تک کے لیے اس پیغمبرانہ کام کی پوری ذمہ داری آپ کی امت کے سپرد کی گئی قرآن پاک میں فرمایا گیا۔ وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ۚ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (آل عمران 104:3) ترجمہ: اور لازم ہے کہ تم میں ایک ایسی امت ہو جو (لوگوں کو) دعوت دے خیر اور بھلائی کی اور حکم کرے معروف (اچھی باتوں) کا اور روکے ہر طرح کی برائیوں سے اور وہی بندے فلاح یاب ہوں گے (جو یہ فریضہ ادا کریں گے) پھر چند ہی آیتوں کے بعد اس صورت میں فرمایا گیا ہے: كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ (آل عمران 110:3) ترجمہ: اے پیروان محمد تم (تمام امتوں میں) وہ بہترین امت ہو جو لوگوں (کی اصلاح و ہدایت) کے لئے ظہور میں لائی گئی ہے تمہارا کام (اور تمہاری ذمہ داری) یہ ہے کہ نیکی کا حکم دیتے ہو برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو (اور ایمان والی زندگی گزارتے ہو)۔ بہرحال سلسلہ نبوت ختم ہو جانے کے بعد اس پیغمبرانہ کام کی پوری ذمہ داری ہمیشہ کے لئے امت محمدیہ پر عائد کر دی گئی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات میں وضاحت فرمائی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو امتی اس ذمہ داری کو کماحقہ ادا کریں گے وہ اللہ تعالی کے کیسے عظیم انعامات کے مستحق ہونگے اور جو اس میں کوتاہی کرینگے وہ اپنے نفسوں پر کتنا بڑا ظلم کریں گے اور ان کا انجام اور حشر کیا ہوگا۔ اس تمہید کے بعد اس سلسلہ کی مندرجہ ذیل حدیث پڑھی جائیں۔ تشریح ..... اس حدیث کا مطلب و مدعا اس مثال سے اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ مثلا ایک شخص نماز کا عادی نہیں تھا آپ کی دعوت ترغیب اور محنت کے نتیجہ میں وہ پابندی سے نماز پڑھنے لگا وہ قرآن پاک کی تلاوت و ذکر اللہ سے غافل تھا آپ کی دعوت اور کوشش کے نتیجے میں وہ قرآن پاک کی روزانہ تلاوت کرنے لگا ذکر و تسبیح کا عادی ہو گیا وہ زکوۃ ادا نہیں کرتا تھا آپ کی مخلصانہ دعوت وتبلیغ کے اثر سے وہ زکوۃ بھی ادا کرنے لگا اسی طرح اور بھی اعمال صالحہ کا پابند ہوگیا۔ تو اس کو عمر بھر کی نمازوں ذکر و تلاوت زکوۃ و صدقات اور دیگر اعمال صالحہ کا جتنا اجر و ثواب آخرت میں ملے گا (اس حدیث کی بشارت کے مطابق) اللہ تعالی اتنا ہی اجر و ثواب بطور انعام کے اپنے لامحدود خزانہ کرم سے اس داعی الخیر بندے کو بھی عطا فرمائے گا جس کی دعوت و تبلیغ نے اس کو ان اعمال صالحہ پر آمادہ کیا اور عادی بنایا۔ واقعہ یہ ہے کہ اس راستہ سے جتنا اجر و ثواب اور آخرت میں جو درجہ حاصل کیا جاسکتا ہے وہ کسی دوسرے راستہ سے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ بزرگان دین کی اصطلاح میں یہ طریق نبوت کا سلوک بشرطیکہ خالصا لوجہ اللہ صرف رضائے الہی کی طلب میں ہوں۔
ہدایت و ارشاد اور دعوت الی الخیر کا اجر و ثواب
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے فرمایا کہ جس بندے نے کسی نیکی کے راستہ کی طرف (لوگوں کو) دعوت دی تو اس داعی کو ان سب لوگوں کے اجروں کے برابر اجر ملے گا جو اس کی بات مان کر نیکی کے اس راستہ پر چلیں گے اور عمل کریں گے اور اس کی وجہ سے ان عمل کرنے والوں کے اجروں میں کوئی کمی نہ ہوگی۔ (اور اسی طرح) جس نے (لوگوں کو) کسی گمراہی (اور بد عملی) کی دعوت دی تو اس داعی کو ان سب لوگوں کے گناہوں کے برابر گناہ ہوگا جو اس کی دعوت پر اس گمراہی اور بد عملی کے مرتکب ہونگے اور اس کی وجہ سے ان لوگوں کے گناہوں میں (اور ان کے عذاب میں) کوئی کمی نہ ہوگی۔ (صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں داعیان حق و ہدایت کو بشارت سنانے کے ساتھ داعیان ضلالت کی بدانجامی بھی بیان فرمائی گئی ہے حقیقت یہ ہے کہ جن خوش نصیبوں کو دعوت الی الخیر اور ارشاد و ہدایت کی توفیق ملتی ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلکہ تمام انبیاء علیہ السلام کے مشن کے خادم اور ان کے لشکر کے سپاہی ھیں اور جن کی بدبختی نے انکو گمراہی اور بدعملی کا داعی بنا دیا ہے وہ شیطان کے ایجنٹ اور اسکے لشکری ہیں اور ان دونوں کا انجام وہ ہے جو اس حدیث میں بیان فرمایا گیا ہے۔
ہدایت و ارشاد اور دعوت الی الخیر کا اجر و ثواب
حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ بات کہ اللہ تعالی تمہارے ہاتھ اور تمہارے ذریعہ کسی آدمی کو ہدایت دے دی تمہارے لئے اس ساری کائنات سے بہتر ہے جس پر آفتاب طلوع ہوتا ہے اور غروب ہوتا ہے۔ (معجم کبیر للطبرانی) تشریح ظاہر ہے کہ اس دنیا کا کوئی حصہ ایسا نہیں ہے جس پر آفتاب طلوع اور غروب نہ ہوتا ہو تو حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ اگر اللہ تعالیٰ تمہارے ذریعہ کسی ایک آدمی کو بھی ہدایت دے دے تو یہ تمہارے حق میں اس سے بہتر اور زیادہ نفع بخش ہے کہ مشرق سے مغرب تک کی ساری دنیا تم کو مل جائے۔ اللہ تعالی ان حقائق کا یقین نصیب فرمائے اور عمل کی توفیق دے۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تاکید اور اس میں کوتاہی پر سخت تہدید
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اے اہل ایمان) قسم اس پاک ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے تم پر لازم ہیں اور تم کو تاکید ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے رہو (یعنی اچھی باتوں اور نیکیوں کی لوگوں کو ہدایت و تاکید کرتے رہو اور بری باتوں اور برے کاموں سے ان کو روکتے رہو) یا پھر ایسا ہوگا کہ (اس معاملہ میں تمہاری کوتاہی کی وجہ سے) اللہ تم پر اپنا کوئی عذاب بھیج دے گا پھر تم اس سے دعائیں کرو گے اور وہ تمہاری دعائیں قبول نہیں کی جائیں گے۔ (جامع ترمذی) تشریح اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو واضح الفاظ میں آگاہی دی ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میری امت کا ایسا اہم فریضہ ہے کہ جب اس کی ادائیگی میں غفلت اور کوتاہی ہوگی تو اللہ تعالی کی طرف سے وہ کسی فتنہ اور عذاب میں مبتلا کر دی جائے گی۔ اور پھر جب دعا کرنے والے اس عذاب اور فتنہ سے نجات کے لئے دعائیں کریں گے تو ان کی دعائیں بھی قبول نہ ہوں گی۔ اس عاجز کے نزدیک اس میں قطعا شبہ کی گنجائش نہیں کہ صدیوں سے یہ امت طرح طرح کے جن فتنوں اور عذابوں میں مبتلا ہے اور امت کے اخیار اور صلحاء کی دعاؤں اور التجاؤں کے باوجود ان عذابوں سے نجات نہیں مل رہی ہے تو اس کا بہت بڑا سبب یہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے اللہ تعالی کے حکم سے امت کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی جو ذمہ داری سپرد کی تھی اور اس سلسلہ میں جو تاکیدی احکام دیئے تھے اور اس کا جو عمومی نظام قائم فرمایا تھا وہ صدیوں سے تقریبا معطل ہے امت کی مجموعی تعداد میں اس فریضہ کے ادا کرنے والے فی ہزار ایک کے تناسب سے بھی نہیں ہیں الغرض یہ وہی صورتحال ہے جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد میں واضح آگاہی دی تھی۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تاکید اور اس میں کوتاہی پر سخت تہدید
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ قرآن پاک کی یہ آیت پڑھتے ہو “يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لاَ يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ” (اے ایمان والو تم پر لازم ہے اپنے نفسوں کی فکر تمہارا کچھ نہ بگاڑیں گے گمراہ ہونے والے لوگ جب تم راہ ہدایت پر ہو) (حضرت صدیق اکبر نے اس آیت کا حوالہ دے کر فرمایا کہ کسی کو اس آیت سے غلط فہمی نہ ہو) میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ جب لوگوں کا یہ حال ہو جائے کہ وہ شریعت کے خلاف کام ہوتے دیکھیں اور اس کی تغییر و اصلاح کے لئے کچھ نہ کریں تو قریبی خطرہ ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے ان سب ہی پر عذاب آجائے۔ (سنن ابن ماجہ جامع ترمذی) تشریح سورہ مائدہ کی یہ 125 ایک سو پچسویں آیت ہے جس کا حوالہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہٗ نے دیا ہے اس آیت کے ظاہری الفاظ سے کسی کو یہ غلط فہمی ہو سکتی ہے کہ اہل ایمان کی ذمہ داری بس یہ ہے کہ وہ اس کی فکر کریں کہ وہ خود اللہ اور رسول کے بتلائے ہوئے راستہ پر چلتے رہیں دوسروں کی اصلاح و ہدایت کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے اگر دوسرے لوگ اللہ و رسول کے احکام کے خلاف چل رہے ہیں ہم کو ان کی گمراہی اور غلط کاری سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہٗ نے اس غلط فہمی کو رفع کرنے کے لئے فرمایا کہ آیت سے ایسا سمجھنا غلط ہوگا میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ وسلم سے سنا ہے آپ فرماتے تھے کہ جب لوگوں کا رویہ یہ ہو جائے کہ دوسرے لوگوں کو خلاف شریعت کام کرتے دیکھے اور ان کی اصلاح کے لیے کچھ نہ کریں بلکہ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیں تو اس بات کا قریبی خطرہ ہوگا کہ خدا کی طرف سے ایسا عذاب آئے جو سب ہی کو اپنی لپیٹ میں لے لے۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی اس حدیث اور قرآن و حدیث کے دوسرے نصوص کی روشنی میں سورہ مائدہ کی اس آیت کا مفاد اور مدعی یہ ہوگا کہ اے اہل ایمان جب تم راہ ہدایت پر ہو اللہ و رسول کے احکام کی تعمیل کر رہے ہو (جس میں امر بالمعروف نہی عن المنکر اور بقدر امکان بندگان خدا کی اصلاح و ہدایت کی کوشش بھی شامل ہے) تو اس کے بعد جو ناخدا ترس لوگ ہدایت قبول نہ کریں اور گمراہی کی حالت میں رہیں تو اس کی اس گمراہی اور معاشیت کوشی کی تم پر کوئی ذمہ داری نہیں تم عند اللہ بری الذمہ ہو۔ (حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث “مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ الحديث” اس سلسلہ معارف الحدیث کی کتاب الایمان میں درج ہو چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص کوئی خلاف شریعت کام ہوتا دیکھے تو اگر اس کے لئے اس کا امکان ہے کہ طاقت استعمال کرکے اس کو روک دے تو ایسا ہی کرے اور اگر اس کی استطاعت اور قدرت نہیں ہے تو زبان ہی سے نصیحت اور اظہار ناراضی کرے اگر اس کی بھی استطاعت اور قدرت نہیں ہے تو دل ہی سے اس کو برا سمجھے اور دل میں اس کے خلاف جذبہ رکھے)
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تاکید اور اس میں کوتاہی پر سخت تہدید
حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ وسلم سے سنا آپ فرماتے تھے کہ کسی قوم (اور جماعت) میں کوئی آدمی ہوں جو ایسے اعمال کرتا ہو جو گناہ اور خلاف شریعت ہیں اور اس قوم اور جماعت کے لوگ اس کی قدرت اور طاقت رکھتے ہوں کہ اس کی اصلاح کر دیں اور اس کے باوجود اصلاح نہ کریں (اسی حال میں اس کو چھوڑے رکھیں) تو ان لوگوں کو اللہ تعالی مرنے سے پہلے کسی عذاب میں مبتلا فرمائے گا۔ (سنن ابی داؤد سنن ابن ماجہ) تشریح مطلب یہ ہے کہ استطاعت اور قدرت کے باوجود غلط کار اور بگڑے ہوئے لوگوں کی اصلاح و ہدایت کی کوشش نہ کرنا اور بے پروائی کا رویہ اختیار کرنا اللہ کے نزدیک ایسا گناہ ہے جس کی سزا آخرت سے پہلے اس دنیا میں بھی دی جاتی ہے۔ اللهم اغفر لنا وارحمنا ولا تعذبنا
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تاکید اور اس میں کوتاہی پر سخت تہدید
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ اللہ تعالی نے جبرئیل علیہ السلام کو حکم دیا کہ فلاں بستی کو اس کی پوری آبادی کے ساتھ الٹ دو! جبرائیل نے عرض کیا خداوندا اس شہر میں تیرا فلاں بندہ بھی ہے جس نے پل جھپکنے کے برابر بھی کبھی تیری نافرمانی نہیں کی اللہ تعالی کا حکم ہوا کہ اس بستی کو اس بندے پر اور اس کے دوسرے سب باشندوں پر الٹ دو کیوں کہ کبھی ایک ساعت کے لیے بھی میری وجہ سے اس بندہ کا چہرہ متغیر نہیں ہوا۔ (شعب الایمان للبیہقی) تشریح اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے کسی زمانہ کا یہ واقعہ بیان فرمایا کہ کوئی بستی تھی جس کے باشندے عام طور سے سخت فاسق فاجر تھے اور ایسی بد اعمالیاں کرتے تھے جو اللہ تعالی کے قہر و جلال کا باعث بن جاتی ہیں لیکن اس بستی میں ایک ایسا بندہ بھی تھا جو اپنی ذاتی زندگی کے لحاظ سے اللہ تعالی کا پورا فرما بردار تھا اور اس سے کبھی معصیت سرزد نہیں ہوئی تھی مگر دوسری طرف اس کا حال یہ تھا کہ بستی والوں کے فسق و فجور اور ان کی بداعمالیوں پر کبھی اس کو غصہ بھی نہیں آتا تھا اور اس کے چہرے پر شکن بھی نہیں پڑتی تھی۔ اللہ تعالی کے نزدیک یہ بھی اس درجہ کا جرم تھا کہ جبرائیل علیہ السلام کو حکم ہوا کہ بستی کے فاسق فاجر باشندوں کے ساتھ اس بندے پر بھی بستی کو الٹ دو۔ اللہ تعالی اس حدیث سے عبرت حاصل کرنے اور سبق لینے کی توفیق دے۔ (آمین)
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تاکید اور اس میں کوتاہی پر سخت تہدید
حضرت عرس بن عمیرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کسی سرزمین میں گناہ کیا جائے تو جب لوگ وہاں موجود ہوں اور اس گناہ سے ناراض ہوں تو (اللہ کے نزدیک) وہ ان لوگوں کی طرح ہیں جو وہاں موجود نہیں ہیں (یعنی ان سے اس گناہ کے بارے میں کوئی باز پرس نہ ہوگی) اور جو لوگ اس گناہ والی سرزمین میں موجود نہ ہوں مگر اس گناہ سے راضی ہوں وہ ان لوگوں کی طرح ہیں جو وہاں موجود تھے (اور گویا شریک گناہ تھے)۔ (سنن ابی داود) تشریح اس باب کی دوسری حدیثوں کی روشنی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مطلب یہ ہوگا کہ جن لوگوں کے سامنے اللہ و رسول کے احکام اور شریعت کے خلاف کام کیے جائیں وہ اگر ان سے ناراض ہوں اور حسب استطاعت اصلاح و تغییر کی کوشش کریں ورنہ کم از کم دل ہی میں اس کے خلاف جذبہ رکھیں تو خواہ ان کی ناراضی اور کوششوں کا کوئی اثر نہ ہو اور معصیتوں کا سلسلہ اسی طرح جاری رہے تب بھی ان سے کوئی بازپرس نہ ہوگی (بلکہ وہ ان شاء اللہ ماجور ہوں گے) اور جن لوگوں کو ان کے خلاف شریعت کاموں سے ناگواری اور ناراضی بھی نہ ہو وہ اگرچہ گناہوں کی جگہ سے دور ہوں پھر بھی وہ مجرم ہونگے اور شریک گناہ سمجھے جائیں گے اللہ تعالی توفیق دے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں ہم اپنا احتساب کریں۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تاکید اور اس میں کوتاہی پر سخت تہدید
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مثال ان لوگوں کی جو اللہ کی حدود اور اس کے احکام کے بارے میں مداہنت (یعنی سہل انگاری اور ڈھیلے پن) سے کام لیتے ہیں (روک ٹوک نہیں کرتے) اور ایسے لوگوں کی جو خود اللہ کی حدود کو پامال اور اس کے احکام کی خلاف ورزی کرتے ہیں ایک ایسے گروہ کی سی مثال ہے جو باہم قرعہ اندازی کرکے ایک کشتی پر سوار ہوا تو کچھ لوگوں نے کشتی کے نیچے کے درجہ میں جگہ پائی اور کچھ نے اوپر والے درجہ میں۔ تو نیچے کے درجہ والا آدمی پانی لے کر اوپر کے درجہ والوں پر سے گزرتا تھا اس سے انہوں نے تکلیف محسوس کی (اور اس پر ناراضی کا اظہار کیا) تو نیچے کے درجے والے نے کلہاڑا لیا اور لگا صاف کرنے کشتی کے نیچے کے حصے میں (تاکہ نیچے ہی سے دریا سے براہ راست پانی حاصل کرلے اور پانی کے لئے اوپر آنا جانا نہ پڑے) تو اوپر کے درجہ والے اس کے پاس آئے اور کہا کے تم کو کیا ہو گیا ہے؟ (یہ کیا کر رہے ہیں؟) اس نے کہا کہ (پانی کے لئے میرے آنے جانے سے) تم کو تکلیف ہوئی (زندگی کی) ناگزیر ضرورت ہے (میں دریا سے پانی حاصل کرنے کے لئے یہ سوراخ کر رہا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) تو اگر یہ کشتی والے اس آدمی کا ہاتھ پکڑ لیں (اور اس کو کشتی میں سوراخ نہ کرنے دیں) تو اس کو بھی ہلاکت سے بچا لیں گے اور اپنے کو بھی اور اور اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیں گے (اور کشتی میں سوراخ کرنے دینگے) تو اس کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیں گے۔ اور اپنے کو بھی (سب ہی غرقاب ہو جائیں گے)۔ (صحیح بخاری) تشریح حدیث کی بقدر ضرورت تشریح ترجمہ ہی کے ضمن میں کردی گئی ہے بڑی ہی عام فہم اور سبق آموز مثال ہے۔ حدیث کا پیغام یہ ہے کہ جب کسی بستی یا کسی گروہ میں اللہ کی حدود پامال کی جاتی ہوں اور اس کے احکام کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہوتی ہو وہ بد اعمالیاں ہوتی ہوں جو خداوند ذوالجلال کے قہر و عذاب کو دعوت دیتی ہیں تو اگر ان میں کے اچھے اور نیک لوگ اصلاح و ہدایت کی کوئی کوشش نہیں کریں گے تو جب خدا کا عذاب نازل ہوگا تو یہ بھی اس کی لپیٹ میں آجائیں گے اور انکی ذاتی نیکی اور پرہیزگاری ان کو نہ بچا سکے گی۔ قرآن پاک میں بھی فرمایا گیا ہے “وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَّا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنكُمْ خَاصَّةً ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ” (الانفال نمبر 25) (اور اس عذاب سے ڈرو اور بچنے کی کوشش کرو جو صرف ظالموں، مجرموں ہی پر نہیں آئے گا اور خود جان لو کہ اللہ کی سزا بڑی ہی سخت ہے)
کن حالات میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی ذمہ داری ثابت ہوجاتی ہے
حضرت ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے اللہ تعالی کے ارشاد “يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لاَ يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ” کے بارے میں (ایک صاحب کے سوال کے جواب میں) فرمایا کہ میں نے اس آیت کے بارے میں اس ہستی سے پوچھا تھا جو (اس کے مطلب اور مدعی سے اور اللہ کے حکم سے) سب سے زیادہ باخبر تھی (یعنی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تھا تو آپ نے ارشاد فرمایا (اس آیت سے غلط فہمی میں نہ پڑو) بلکہ تم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر برابر کرتے رہو یہاں تک کہ جب (وہ وقت آ جائے کہ) تم دیکھو کہ بخل اور دولت اندوزی کے جذبہ کی اطاعت کی جاتی ہے اور (اللہ اور رسول کے احکام کے مقابلہ میں) اپنی نفسانی خواہشات کا اتباع کیا جاتا ہے اور (آخرت کو فراموش کرکے) بس دنیا ہی کو مقصود بنا لیا گیا ہے اور ہر شخص خود رائی اور خود بینی کا مریض ہے (تو جب عام لوگوں کی حالت یہ ہو جائے) تو اس وقت بس اپنی ذات ہی کی فکر کرو اور عوام کو چھوڑو (ان کا معاملہ خداکے حوالہ کردو) کیونکہ تمہارے بعد میں ایسا دور بھی آئے گا کہ صبر اور ثابت قدمی (کے ساتھ دین پر قائم رہنا اور شریعت پر چلنا) ایسا (مشکل اور صبر آزما) ہوگاجیسا ہاتھ میں انگارہ لے لینا ان دنوں میں شریعت پر عمل کرنے والے پچاس آدمیوں کے برابر اجر و ثواب ملے گا (جامع ترمذی) تشریح حضرت ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ سے ایک تابعی ابو امیہ شعبانی نے سورہ مائدہ کی اس آیت نمبر 125 کے متعلق جس کے بارے میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا ارشاد اوپر گزر چکا ہے سوال کیا تھا تو انھوں نے یہ جواب دیا کہ میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کے بارے میں دریافت کیا تھا (کیونکہ اس کے ظاہری الفاظ سے یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ اگر ہم خود اللہ و رسول کی ہدایت کے مطابق چل رہے ہیں تو دوسرے لوگوں کے دین کی فکر اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر ہماری ذمہ داری نہیں ہے) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ جواب ارشاد فرمایا جو حدیث میں مذکور ہوا جس کا حاصل یہ ہے کہ اپنے دین کی فکر کے ساتھ دوسرے بندگان خدا کے دین کی فکر اور اس سلسلہ میں امربالمعروف ونہی عن المنکر بھی دینی فریضہ اور خداوندی مطالبہ ہے اس لیے اس کے کو برابر کرتے رہو۔ ہاں جب امت کا حال یہ ہو جائے کہ بخل و کنجوسی اس کا مزاج بن جائے اور دولت کی پوجا ہونے لگے اور اللہ و رسول کے احکام کے بجائے بس خواہشات نفس کا اتباع کیا جانے لگے اور آخرت کو بھلا کر دنیا ہی کو مقصود بنا لیا جائے اور خود بینی اور خود رائی کی وبا عام ہوجائے تو اس بگڑی ہوئی فضا میں چونکہ امر بالمعروف نہی عن المنکر کی تاثیر و افادیت اور عوام کی اصلاح پذیری کی امید نہیں ہوتی اس لئے چاہیے کہ بندہ عوام کی فکر چھوڑ کے بس اپنی ہی اصلاح اور معصیت سے حفاظت کی فکر کرے۔ آخر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بعد میں ایسے دور بھی آئیں گے جب دین پر قائم رہنا اور اللہ و رسول کے احکام پر چلنا ہاتھ میں آگ لینے کی طرح تکلیف دہ اور صبر آزما ہو گا۔ ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں خود دین پر قائم رہنا ہی بہت بڑا جہاد ہوگا اور دوسروں کی اصلاح کی فکر اور اس سلسلہ میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی ذمہ داری باقی نہیں رہے گی۔ اور ایسی ناموافق فضا اور سخت حالات میں اللہ و رسول کے احکام پر صبروثابت قدمی کے ساتھ عمل کرنے والوں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کو پچاس پچاس تمہارے جیسے عمل کرنے والوں کی برابر اجر و ثواب ملے گا۔
فی سبیل اللہ جہاد و قتال اور شہادت
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک دن) ارشاد فرمایا کہ جس بندے نے دل سے برضا و رغبت اللہ تعالی کو اپنا مالک و پروردگار اسلام کو اپنا دین اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو اللہ کا رسول و ہادی مان لیا اس کے لئے جنت واجب ہوگئی (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ بشارت سن کر حدیث کے راوی) ابو سعید خدریؓ کو بڑی خوشی ہوئی اور انہوں نے (حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے) عرض کیا کہ یارسول اللہ یہی بات پھر ارشاد فرما دیں! چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر وہی بعد دوبارہ ارشاد فرمائی (اسی کے ساتھ مزید یہ بھی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک اور دینی عمل ہے (جو اللہ تعالی کے نزدیک اتنا عظیم ہے کہ) اس عمل کرنے والے کو اللہ تعالی جنت میں سو درجے بلند فرمائے گے جن میں سے دو درجوں کے درمیان زمین و آسمان کا سا فاصلہ علیہ (یہ سن کر) ابو سعید خدریؓ نے عرض کیا کہ حضرت وہ کون سا عمل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا وہ ہے جہاد فی سبیل اللہ جہاد فی سبیل اللہ جہاد فی سبیل اللہ (صحیح مسلم) تشریح جیسا کہ معلوم ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمام نبی و رسول اسی لئے بھیجے گئے کہ اس کے بندوں کو دین حق یعنی زندگی کے اس خدا پرستانا اور شریفانہ طریقہ کی دعوت و تعلیم دیں اور اس پر چلانے کی کوشش کریں جو ان کے خالق و پروردگار نے ان کے لئے مقرر کیا ہے اور جس میں اس کی دنیا و آخرت کی سکول آف صلاح و فلاح ہے اور جس پر چلنے والوں کیلئے خدا کی رضا ورحمت اور جنت کی ضمانت ہے۔ قرآن مجید کا بیان اور ہمارا ایمان ہے کہ سب ہیں انبیاء و رسل علیہم السلام نے اپنے اپنے دور اور دائرہ میں اس کی دعوت دی اور اسی کیلئے جدوجہد کی۔ لیکن قریبا سب ہی کے ساتھ ایسا ہوا کہ ان کے زمانے اور ان کی قوم کے شریر و بد نفس لوگوں نے نہ صرف یہ کہ ان کی دعوت حق کو قبول نہیں کیا بلکہ شدید مخالفت و مزاحمت کی اور دوسروں کا بھی راستہ روکا اور اگر ان کے ہاتھ میں طاقت ہوئی تو انہوں نے اللہ کے نبیوں اور ان پر ایمان لانے والوں کو ظلم و جبر کا بھی نشانہ بنایا بلاشبہ انبیاء علیہم السلام اور ان کی دعوت حق کے یہ دشمن انسانوں اور انسانیت کے حق میں سانپوں اور اژدہوں سے بھی زیادہ زہریلے اور خطرناک تھے اس لیے اکثر ایساہوا کہ ایسے لوگوں اور ایسی قوموں پر خدا کا عذاب نازل ہوا اور صفحہ ہستی سے ان کا نام و نشان تک مٹا دیا گیا اور وہ اسی کے مستحق تھے “وَمَا ظَلَمَهُمُ اللَّـهُ وَلَـٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ” قرآن مجید میں حضرات انبیاء علیہم السلام اور ان کے شریر و بد نفس مکذبین کے یہ حالات تفصیل سے بیان فرمائے گئے ہیں۔ سب سے آخر میں خاتم النبیین سیدنا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے انبیائے سابقین کی طرح آپ نے بھی قوم کو دین حق کی دعوت دی کچھ نیک فطرت بندگان خدا نہیں آپ کی دعوت کو قبول کیا اور کفر و شرک فسق و فجور اور ظلم و عدوان کی جاہلی زندگی چھوڑ کے وہ خدا خدا پرستانہ پاکیزہ زندگی اختیار کرلی جس کی آپ دعوت دیتے تھے لیکن قوم کے اکثر بڑوں اور سرداروں نے شدید مخالفت اور مزاحمت کا رویہ اختیار کیا خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی سے ستایا اور آپ پر ایمان لانے والوں پر خاص کر بےچارے غرباء اور ضعفاء پر مظالم و مصائب کے پہاڑ توڑے مکہ کے یہ اشرار ابو جہل ابو لہب وغیرہ بلاشبہ اس کے مستحق تھے کہ اگلی امتوں کے معذین کی طرح ان پر بھی آسمانی عذاب آتا اور صفحہ ہستی کو ان کے وجود سے پاک کر دیا جاتا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے سید المرسلین و خاتم النبیین کے علاوہ رحمت للعالمین بنا کر بھی بھیجا تھا اور اس بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے طے فرما دیا گیا تھا کہ آپ کے مخالفین و مکذبین ین اور ستانے والے خبیث ترین دشمنوں پر بھی آسمانی عذاب نازل نہیں کیا جائے گا اور بجائے اسکے آپ پر ایمان لانے والوں ہی کے ذریعہ ان کا زور توڑا جائے گا اور دین حق کی دعوت کا راستہ صاف کیا جائے گا اور انہی کے ہاتھوں سے ان مجرمین کو سزا دلوائی جائے گی اور اس عمل میں ان کی حیثیت اللہ کی لشکریوں اور خداوندی کارندوں کی ہوگی چنانچہ جب وہ وقت آگیا جو اللہ تعالی کی طرف سے اس کے لیے مقرر تھا تو نبوت کے تیرہویں سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ پر ایمان لانے والوں کو مکہ معظمہ سے ہجرت کا حکم ہوا یہ ہجرت دراصل دین حق کی دعوت کے اس دوسرے مرحلہ کی ابتدا تھی جس کیلئے ایمان لانے والے حاملین دعوت کو اللہ تعالی کا حکم تھا کہ وہ مزاحمت کرنے والے اور اہل ایمان پر ظلم و ستم کرنے والے اشرار ناہنجار کا زور توڑنے کے لیے اور دعوت حق کا راستہ صاف کرنے کے لیے حسب ضرورت اپنی جان اور اپنی ہر چیز قربان کرنے کے لیے تیار ہو جائیں اور میدان میں آجائیں اسی کا عنوان جہاد و قتال فی سبیل اللہ ہے اور اس راستہ میں اپنی جان قربان کردینے کا نام شہادت ہے۔ ناظرین کرام نے اس تمہید سے سمجھ لیا ہوگا کہ کفر و اہل کفر کے خلاف اہل ایمان کی مسلح جدوجہد (ہوا اقدامی ہوں یا مدافعانہ) اللہ و رسول کے نزدیک اور شریعت کی زبان میں جب ہی جہاد و قتال فی سبیل اللہ ہے جبکہ اس کا مقصد دین حق کی حفاظت و نصرت یا اس کے لیے راستہ صاف کرنا اور اللہ کے بندوں کو خدا کی رحمت کا مستحق اور جنتی بنانا ہو۔ لیکن اگر جنگ اور طاقت آزمائی کا مقصد ملک و مال ہو یا اپنی قوم یا وطن کا جھنڈا اونچا رکھنا ہو تو وہ ہرگز جہاد و قتال فی سبیل اللہ نہیں ہے۔ سطور بالا میں جو کچھ عرض کیا گیا اس سے ناظرین کو یہ بھی معلوم ہوگیا ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت میں جہاد کا حکم و قانون اس لحاظ سے بڑی رحمت ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی دعوت حق کی تکذیب اور مزاحمت کرنے والوں پر جس طرح کے آسمانی عذاب پہلے آیا کرتے تھے اب قیامت تک کبھی نہیں آئیں گے گویا جہاد کسی درجہ میں اس کا بدل ہے۔ واللہ اعلم۔ اس تمہید کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مندرجہ ذیل ارشادات پڑھے جائیں جن میں مختلف عنوانات سے جہاد اور شہادت کی سبیل اللّٰہ کے فضائل بیان فرمائے گئے ہیں۔ تشریح ..... ظاہر ہے کہ جو شخص بشرح صدر اور دل و جان سے اللہ تعالی کو اپنا رب اور سیدنا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول برحق اور اسلام کو اپنا دین بنا لے گا اس کی زندگی بھی اسلامی ہو گی اور اپنے رب کا فرمانبردار اور رسول پاک صلی اللہ ھو علیہ وسلم کا تابعدار ہوگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے بندوں کو بشارت سنائی کے ان کے لئے اللہ تعالی کی طرف سے جنت کا فیصلہ ہو چکا ہے اور جنت ان کے لئے واجب ہو چکی ہے حضرت ابو سعید خدری کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ بشارت سن کر بے حد خوشی ہوئی (غالبا اس لئے کہ اللہ تعالی کے فضل کرم سے یہ دولت ان کو نصیب تھی) انہوں نے (اسی وجد و مسرت کی حالت میں) حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ حضرت اسکو دوبارہ ارشاد فرما دیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ ارشاد فرما دیا اور اس کے ساتھ مزید ارشاد فرمایا کہ جس کے عامل کو اللہ تعالیٰ جنت میں سو (100) درجے بلند فرمائیں گے حضرت ابوسعید کے یہ دریافت کرنے پر کہ وہ کون سا عمل ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا وہ ہے جہاد فی سبیل اللہ جہاد فی سبیل اللہ جہاد فی سبیل اللہ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں تین دفع ارشاد فرمایا “الْجِهَاد‘ فِىْ سَبِيْلِ اللهِ” اس سے ہر صاحب ذوق سمجھ سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک میں جہاد کی کیسی عظمت اور کیسی رغبت و محبت تھی آگے درج ہونے والی حدیث سے یہ بات اور زیادہ واضح ہو جائے گی۔ واضح رہے کہ آخرت اور جنت و دوزخ کے بارے میں قرآن و حدیث میں جو کچھ فرمایا گیا ہے اس کی پوری حقیقت وہاں پہنچ کر ہی معلوم ہوگی ہماری اس دنیا میں اس کی کوئی نظیر اور مثال بھی موجود نہیں ہے..... ہمیں بس دل سے مان لینا اور یقین کر لینا چاہئے کہ اللہ و رسول نے جو کچھ ارشاد فرمایا وہ برحق ہے اور جب وقت آئے گا انشاءاللہ اس کو ہم بھی دیکھ لیں گے۔
فی سبیل اللہ جہاد و قتال اور شہادت
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس پاک ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر یہ بات نہ ہوتی کہ بہت سے اہل ایمان کے دل اس پر راضی نہیں کہ وہ جہاد کے سفر میں میرے ساتھ نہ جائیں اور میرے پاس ان کے لیے سواریوں کا انتظام نہیں ہے (اگر یہ مجبوری حائل نہ ہوتی) تو میں راہ خدا میں جہاد کے لیے جانے والی ہر جماعت کے ساتھ جاتا (اور جہاد کی ہر مہم میں حصہ لیتا) قسم اس ذات پاک کی جس کے قبضے میں میری جان ہے میری دلی آرزو ہے کہ میں راہ خدا میں شہید کیا جاؤں مجھے پھر زندہ کر دیا جائے اور میں پھر شہید کیا جاؤں اور پھر مجھے زندہ کیا جائے اور میں پھر شہید کیا جاؤں اور مجھے پھر زندگی عطا فرمائی جائے اور میں پھر شہید کیا جاؤں۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح حدیث کا مقصد ومدعا جہاد اور شہادت فی سبیل اللہ کی عظمت اور محبوبیت بیان فرمانا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا حاصل یہ ہے کہ میرے دل کا داعیہ اور جذبہ تو یہ ہے کہ راہ خدا میں جہاد کے لیے جانے والے ہر لشکر اور ہر دستہ کے ساتھ جاؤں اور ہر جہادی مہم میں میری شرکت ہو لیکن مجبوری یہ دامن گیر ہے کہ مسلمانوں میں بہت سے ایسے فدائی ہیں جو اس پر راضی نہیں ہوسکتے کہ میں جاؤں اور وہ میرے ساتھ نہ جائیں اور میرے پاس ان سب کے لئے سواریوں کا بندوبست نہیں ہے اس لئے ان کی خاطر میں اپنے جذبہ کو دبا لیتا ہوں اور انتہائی دلی خواہش کے باوجود ہر جہادی مہم میں نہیں جاتا اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلہ میں اپنے دلی داعیہ اور جذبے کا اظہار فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا اور قسم کے ساتھ فرمایا کہ میری میری دلی آرزو یہ ہے کہ میں میدان جہاد میں دشمنان حق کے ہاتھوں قتل کیا جاؤں اس کے بعد اللہ تعالی مجھے پھر زندہ فرمائیں اور میں پھر اس کی راہ میں اسی طرح قتل کیا جاؤں اور پھر اللہ تعالی مجھے زندگی عطا فرمائیں اور پھر اسی طرح شہیدکیاجاؤں اور پھر مجھے زندگی عطا ہو اور میں پھر اس کو قربان کروں اور شہید کیا جاؤں۔
فی سبیل اللہ جہاد و قتال اور شہادت
حضرت انس رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جنت میں پہنچ جانے کے بعد کوئی شخص بھی نہیں چاہے گا اور نہیں پسند کرے گا کہ اس کو پھر دنیا میں اس حال میں واپس کر دیا جائے کہ دنیا کی ساری چیزیں اسکی ہوں (وہ سب کا مالک ہوں) البتہ جو راہ خدا میں شہید ہو کر جنت میں پہنچے گا وہ اس کی آرزو کرے گا کہ اس کو پھر دنیا میں واپس کر دیا جائے اور وہ پھر (ایک دفعہ نہیں) دس دفعہ راہ خدا میں شہید کیا جائے وہ یہ آرزو اس لیے کرے گا کہ جنت میں دیکھے گا کہ اللہ تعالی کی طرف سے شہیدوں کا کیسا اکرام و اعزاز ہے۔ (اور وہاں ان کا کیا مقام و مرتبہ ہے)۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
فی سبیل اللہ جہاد و قتال اور شہادت
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا راہ خدا میں شہید ہونا سب گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے سوائے قرض کے۔ (صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ بندے سے اللہ تعالی کے احکام کی تعمیل اور حقوق کی ادائیگی میں جو کوتاہیاں اور جو قصور و گناہ ہوئے ہونگے راہ خدا میں جان کی مخلصانہ قربانی اور فی سبیل اللہ شہادت ان سب کا کفارہ بن جائیگی شہادت کے طفیل وہ سب معاف ہو جائیں گے ہاں اس پر جو کسی بندے کا قرض ہوگا اور اس کے علاوہ بھی بندوں کے جو حقوق ہوں گے وہ شہادت سے بھی معاف نہیں ہونگے اس حدیث سے شہادت فی سبیل اللہ کی عظمت بھی معلوم ہوئی اور قرض وغیرہ حقوق العباد کی غیرمعمولی سنگینی بھی اللہ تعالیٰ اس سے سبق لینے کی توفیق دے۔
فی سبیل اللہ جہاد و قتال اور شہادت
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا راہ خدا میں شہید ہونے والا بندہ قتل کئے جانے کی بس اتنی ہی تکلیف محسوس کرتا ہے جتنی تکلیف تم میں سے کوئی آدمی چیونٹی کے کاٹ لینے کی محسوس کرتا ہے۔ (جامع ترمذی، سنن نسائی، سنن دارمی) تشریح جس طرح ہماری اس دنیا میں آپریشن کی جگہ کو دوا یا انجکشن کے ذریعے سن کر کے بڑے بڑے آپریشن کیے جاتے ہیں اور اس کی وجہ سے آپریشن کی تکلیف برائے نام ہی محسوس ہوتی ہے اس طرح سمجھنا چاہیے کہ جب کوئی بندہ رہا ہے خدا میں شہید کیا جاتا ہے تو اللہ تعالی کی طرف سے اس پر ایسی کیفیت طاری کردی جاتی ہے کہ اس کو اس سے زیادہ تکلیف محسوس نہیں ہوتی جتنی کسی کو چیونٹی کے کاٹنے سے ہوتی ہے۔ جامع ترمذی ہی کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب کوئی بندہ راہ خدا میں شہید کیا جاتا ہے تو اسی وقت جنت میں اسکا جو ٹھکانا ہے وہ اس کے سامنے کر دیا جاتا ہے (يرى مقعده من الجنة) جنت کے اس نظارہ کی لذت و محویت بھی ایسی چیز ہے جس کی وجہ سے قتل کی تکلیف محسوس نہ ہونا قرین قیاس ہے۔
فی سبیل اللہ جہاد و قتال اور شہادت
حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو بندہ صدق قلب سے اللہ تعالی سے شہادت کی استدعا کرے گا اللہ تعالی اس کو شہیدوں ہی کے مقام و مرتبہ پر پہنچا دے گا اگرچہ اپنے بستر ہی پر اس کا انتقال ہوا۔ (صحیح مسلم) تشریح ہمارے زمانے میں قتال فی سبیل اللہ اور شہادت کا دروازہ گویا بند ہے لیکن اس حدیث نے بتلایا کہ جو بندہ شہادت کے مندرجہ بالا فضائل پر نگاہ رکھتے ہوئے سچے دل سے اس کے طالب اور آرزو مند ہوں گے اللہ تعالیٰ ان کی طلب اور نیت کی بنا پر ان کو شہیدوں ہی کا مقام و مرتبہ عطا فرمائے گا۔
فی سبیل اللہ جہاد و قتال اور شہادت
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک سے جب واپس ہوئے اور مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو آپ نے فرمایا کہ مدینہ میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اس پورے سفر میں تمہارے ساتھ رہے اور جب تم نے کسی وادی کو عبور کیا تو اس وقت بھی وہ تمہارے ساتھ ہے بعض رفقاء سفر نے عرض کیا کہ حضرت وہ مدینہ میں تھے (اور پھر بھی سفر میں ہمارے ساتھ رہے؟) آپ صلی اللہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہاں وہ مدینہ ہی میں رہے کسی عذر اور مجبوری کی وجہ سے وہ ہمارے ساتھ سفر نہیں کر سکے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ مدینہ منورہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کچھ ایسے لوگ تھے جو غزوہ تبوک کے سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جانا چاہتے تھے اور ان کا پکا ارادہ تھا لیکن کسی وقت معذوری اور مجبوری کی وجہ سے نہیں جاسکے تو چونکہ ان کی نیت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جانے کی تھی اس لئے اللہ تعالی کے دفتر میں وہ جانے والوں ہی میں لکھے گئے اس حدیث کی ایک روایت میں یہ الفاظ بھی “الا شركوكم فى الاخر” یعنی وہ مومنین مخلصین اپنی صادق نیت کی وجہ سے آج غزوہ تبوک کے اجر و ثواب میں تمہارے شریک اور حصہ دار قرار پائے اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی بندہ کسی نیک عمل میں شرکت کی نیت رکھتا ہوں لیکن کسی معذوری اور مجبوری کی وجہ سے وہ بروقت شرکت نہ کر سکے تو اللہ تعالی اس کی نیت ہی پر عملی شرکت کا اجروثواب عطا فرمائیں گے۔
فی سبیل اللہ جہاد و قتال اور شہادت
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جنت کے دروازے تلواروں کے سائے تلے ہیں۔ (صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ میدان جہاد میں جہاں تلواریں سروں پر کھیلتی ہیں اور اللہ کے راستہ میں جان کی بازی لگانے والے مجاہد شہید ہوتے ہیں وہیں جنت کے دروازے کھلے ہوئے ہیں جو بندہ راہ خدا میں شہید ہوتا ہے وہ اسی وقت جنت کے دروازے سے اس میں داخل ہو جاتا ہے...... صحیح مسلم میں اس حدیث کی جو روایت ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ ہو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کسی جہاد کے میدان میں ایسے وقت سنایا تھا جب میدان کار راز گرم تھا آگے روایت میں ہے کہ حضرت ابوموسیٰ اشعری کی زبان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سن کر اللہ کا ایک بندہ کھڑا ہوا جو دیکھنے میں خستہ حال سا تھا اس نے کہا کہ اے ابو موسی کیا تم نے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ھوئے سنا ہے؟ انہوں نے کہا ہاں میں نے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ سنا ہے تو وہ شخص اپنے ساتھیوں کے پاس آیا اور کہا کہ میں تم کو آخری سلام کرنے آیا ہوں میرا رخصتی کا سلام لو اس کے بعد اس نے اپنی تلوار کا نیام توڑ کے پھینک دیا اور ننگی تلوار لے کر دشمن کی صفوں کی طرف بڑھتا چلا گیا پھر وہ شمشیر زنی کرتا رہا یہاں تک کہ شہید ہو گیا اور اپنی مراد کو پہنچ گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق جنت کے دروازے سے داخل جنت ہوگیا۔
فی سبیل اللہ جہاد و قتال اور شہادت
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے فرمایا کہ مجاہد فی سبیل اللہ (اللہ کے نزدیک) اس بندہ کی مانند ہے جو برابر روزے رکھتا ہو اللہ کے حضور میں کھڑے ہو کر عبادت کرتا ہو اور آیات الہی کی تلاوت کرتا ہوں اور اس روزے اور نماز سے تھک کر سستاتا نہ ہو اور جب تک گھر واپس آئے۔ (اللہ کے نزدیک اسی حال میں ہیں) (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ جو بندہ راہ خدا میں جہاد کے لیے گھر سے نکلا وہ گھر واپس آنے تک اللہ کے نزدیک مسلسل عبادت میں ہے اور اس عبادت گزار بندے کی طرح ہے جو مسلسل روزے رکھتا ہو اور اللہ کے حضور میں کھڑے ہو کر نماز پڑھتا ہو اور اللہ کی آیات کی تلاوت کرتا ہو۔
فی سبیل اللہ جہاد و قتال اور شہادت
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کے دو آنکھیں ایسی ہیں جن کو دوزخ کی آگ چھو بھی نہیں سکے گی ایک وہ آنکھ جو اللہ کے خوف سے روئی ہو اور دوسری وہ آنکھ جس نے جہاد میں (رات کو جاگ کر) چوکیداری اور پہراداری کی خدمت انجام دی ہو۔ (جامع ترمذی)
فی سبیل اللہ جہاد و قتال اور شہادت
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ایک صبح کو راہ خدا میں نکلنا یا ایک شام کو نکلنا دنیا و ما فیہا سے بہتر ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ راہ خدا میں تھوڑے سے وقت کا نکلنا بھی اللہ کے نزدیک دنیا و ما فیہا سے بہتر ہے اور یقین کرنا چاہیے کے آخرت میں اس کا جو اجر ملے گا اس کے مقابلے میں یہ ساری دنیا اور جو کچھ اس میں ہے ہیچ ہے دنیاومافیہا فانی ہیں اور وہ اجر لافانی۔
فی سبیل اللہ جہاد و قتال اور شہادت
حضرت ابو عبس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے فرمایا یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی بندے کے قدم راہ خدا میں چلنے سے گرد آلود ہوئے ہو پھر ان کو دوزخ کی آگ چھو سکے۔ (صحیح بخاری) تشریح اس حدیث کا مضمون کسی توضیح و تشریح کا محتاج نہیں البتہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ حضرت ابو عبس کی اس حدیث کو امام ترمذی نے بھی روایت کیا ہے اس میں یہ اضافہ ہے کہ اس حدیث کے ایک راوی یزید بن ابی مریم نے بیان کیا کے میں جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے (جامع مسجد کی طرف) جا رہا تھا تو مجھے عبایہ بن رفاعہ تابعی ملے اور انہوں نے مجھ سے فرمایا : أَبْشِرْ، فَإِنَّ خُطَاكَ هَذِهِ فِي سَبِيلِ اللهِ، سَمِعْتُ أَبَا عَبْسٍ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ اغْبَرَّتْ قَدَمَاهُ فِي سَبِيلِ اللهِ فَهُمَا حَرَامٌ عَلَى النَّارِ. ترجمہ : تم کو بشارت ہو کہ تمہارے یہ قدم (جن سے چل کر تم جامع مسجد کی طرف جا رہے ہو) یہ راہ خدا میں ہیں اور میں نے ابو عبس رضی اللہ عنہ سے سنا ہے وہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس بندے کے قدم راہ خدا میں گرد آلود ہوئے تو وہ قدم دوزخ پر حرام ہیں (یعنی دوزخ کی آگ ان کو چھو بھی نہ سکے گی) عبایہ بن رفاعہ تابعی کے اس بیان سے معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک فی سبیل اللہ جہاد و قتال ہی سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس میں وسعت ہے نماز ادا کرنے کے لئے جانا اور اسی طرح دین کی خدمت اور اللہ کی مرضیات کے لیے دوڑ دھوپ کرنا بھی اس کے وسیع مفہوم میں شامل ہے اسی طرح اس سے پہلی حضرت انس رضی اللہ عنہ والی حدیث (لَغَدْوَةٌ فِىْ سَبِيْلِ اللهِ اَوْ رَوْحَةٌ) کے بارے میں بھی سمجھنا چاہیے کے اللہ کیلئے اور دین کی خدمت کے سلسلہ کی ہر مخلصانہ جدوجہد اور دوڑ دھوپ کرنے والوں کا بھی اس بشارت میں حصہ ہے۔
فی سبیل اللہ جہاد و قتال اور شہادت
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے اس حال میں انتقال کیا کہ نہ تو کبھی جہاد میں عملی حصہ لیا اور نہ کبھی جہاد کو سوچا (نہ اس کی نیت کی) تو اس نے ایک قسم کی منافقت کی حالت میں انتقال کیا۔ (صحیح مسلم) تشریح قرآن پاک سورہ حجرات میں فرمایا گیا ہے: إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ۚ أُولَـٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ (حجرات : 49) ترجمہ : اصلی ایمان والے بس وہی بندے ہیں جو ایمان لائے اللہ اور اس کے رسول پر پھر (ان کے دل میں) کوئی شک شبہ نہیں آیا اور انہوں نے اپنے جان و مال سے راہ خدا میں جہاد کیا وہی سچے پکے ہیں۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ راہ خدا میں جہاد ایمان صادق کے لوازم میں سے ہے اور سچے پکے مومن وہی ہیں جن کی زندگی اور جن کے اعمال نامہ میں جہاد بھی ہو (اگر عملی جہاد نہ ہو تو کم از کم اس کا جذبہ اور اسکی نیت اور تمنا ہو) پس جو شخص دنیا سے اس حال میں گیا کہ نہ تو اس نے جہاد میں عملی حصہ لیا اور نہ جہاد کی نیت اور تمنا ہی کبھی کی تو وہ مومن صادق کی حالت میں دنیا سے نہیں گیا بلکہ ایک درجہ کی منافقت کی حالت میں گیا۔ بس یہی اس حدیث کا پیغام اور مدعا ہے۔
فی سبیل اللہ جہاد و قتال اور شہادت
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو بندہ اس حال میں اللہ کے حضور پیش ہو گا کہ اس میں جہاد کا کوئی اثر و نشان نہ ہو تو اس کی یہ پیشی ایسی حالت میں ہوگی کہ اس میں (یعنی اس کے دین) نقص اور رکھنا ہوگا۔ (جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ) تشریح حضرت ابوہریرہؓ ہی کی اوپر والی حدیث کی تشریح میں جو کچھ عرض کیا گیا ہے اسی سے اس حدیث کی بھی تشریح ہوجاتی ہے۔ اس حدیث اور اس طرح کی دوسری حدیثوں کے مطالعہ کے وقت یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ قرآن و سنت کی زبان میں “جہاد” صرف قتال اور مسلح جنگ ہی کا نام نہیں ہے بلکہ دین کی نصرت و خد مت کے سلسلہ میں جس وقت جس قسم کی جدوجہد کا امکان ہو وہی اس وقت کا جہاد ہے اور جو بندے اخلاص و للہیت کے ساتھ اس دور میں وہ جدوجہد کریں اور اس کے سلسلہ میں اپنی جان و مال اور اپنی صلاحیتوں کو قربان کریں وہ عنداللہ “مجاہدین فی سبیل اللہ” ہیں۔ عنقریب انشاءاللہ اس موضوع پر کسی قدر تفصیل سے عرض کیا جائے گا۔
فی سبیل اللہ جہاد و قتال اور شہادت
حضرت زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے فرمایا کہ جس کسی نے راہ خدا میں جہاد کرنے والے کسی غازی کو سامان جہاد فراہم کیا تو (اللہ کے نزدیک) اس نے بھی جہاد اور غزوے میں حصہ لیا اور جس کسی نے جہاد میں جانے والے کسی غازی کے اہل و عیال کی اس کی نیابت میں خدمت کی اور خبر لی اس نے بھی جہاد میں عملی حصہ لیا (یعنی ان دونوں آدمیوں کو بھی جہاد کا ثواب حاصل ہو گا اور اللہ کے دفتر میں وہ بھی مجاہدین نے لکھے جائیں گے)۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے یہ اصولی بات معلوم ہوئی کے دین کی کسی بڑی خدمت کرنے والوں کے لیے اس کا سامان فراہم کرنے والے اور اسی طرح خدمت دین اور نصرت دین کے سلسلہ میں باہر جانے والوں کے اہل و عیال کی خبر گیری کرنے والے اللہ کے نزدیک دین کی اس خدمت و نصرت میں شریک اور پورے اجر کے مستحق ہیں ہم میں جو لوگ اپنے خاص حالات اور مجبوریوں کی وجہ سے دین کی نصرت و خدمت کے کسی بڑے کام میں براہ راست حصہ نہیں لے سکتے وہ دوسروں کے لئے اس کا سامان فراہم کر کے اور ان کے گھر والوں کی خدمت اور دیکھ بھال اپنے ذمہ لے کے دین کے خدام و انصار کی صف میں شامل ہو سکتے ہیں اللہ تعالی توفیق عطا فرمائے۔
فی سبیل اللہ جہاد و قتال اور شہادت
حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے فرمایا کہ جہاد کرو مشرکوں سے اپنے جان و مال اور اپنی زبانوں سے (سنن ابی داؤد سنن نسائی سنن دارمی) تشریح مطلب یہ ہے کہ کفار و مشرکین کو توحید اور دین حق کے راستہ پر لانے اور ان کا زور توڑ کے دعوت حق کا راستہ صاف کرنے کے لئے جیسا موقع اور وقت کا تقاضہ ہو اپنے جان و مال سے جدوجہد کرو اور ان کی قربانی دو اور زبان و بیان سے بھی کام لو۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دعوت حق کے راستہ میں پیسے خرچ کرنا اور زبان و بیان (اور اسی طرح قلم) سے کام لینا بھی جہاد کے وسیع مفہوم میں شامل ہیں۔ جہاد کے بارے میں ضروری وضاحت ہماری اردو زبان میں جہاد اس مسلح جنگ ہی کو کہتے ہیں جو اللہ و رسول کے حکم کے مطابق دین کے حفاظت و نصرت کے لئے دشمنان حق سے کی جائے لیکن اصل عربی زبان اور قرآن و حدیث کی اصطلاح میں جہاد کے معنیٰ حریف کے مقابلہ میں کسی مقصد کے لئے پوری جدوجہد اور امکانی طاقت صرف کرنے کے ہیں جو احوال و ظروف کے لحاظ سے جنگ و قتال کی شکل میں بھی ہوسکتی ہے اور دوسرے طریقوں سے بھی۔ (قرآن مجید میں جہاد کا لفظ جابجا اسی وسیع معنی میں استعمال ہوا ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منصب نبوت پر سرفراز ہونے کے بعد قریبا 13 برس مکہ معظمہ میں رہے اس پوری مدت میں دین کے دشمنوں، کافروں، مشرکوں سے نہ صرف یہ کہ جہاد بالسیف اور جنگ و قتال کی اجازت نہیں تھی بلکہ اس کی ممانعت تھی اور حکم تھا “كُفُّوْا اَيْدِيَكُمْ” (یعنی جنگ اور قتال سے اپنے ہاتھ روکے رکھو) سورۃالفرقان اسی مکی دور میں نازل ہوئی ہے اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرکے ارشاد فرمایا گیا ہے “ فَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَجَاهِدْهُم بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا ” (آیت نمبر 52) مطلب یہ ہے کہ اے ہمارے نبی و رسول آپ ان منکروں کی بات نہ مانئے اور ہمارے نازل کئے ہوئے قرآن کے ذریعہ ان سے بڑا جہاد کرتے رہیے! ظاہر ہے کہ اس آیت میں جس جہاد کا حکم ہے اس سے مراد جہاد بالسیف اور جنگ و قتال نہیں ہے بلکہ قرآن کے ذریعہ دعوت و تبلیغ کی جدوجہد ہی مراد ہے اور اسی کو اس آیت میں صرف “جہاد” نہیں بلکہ “جہاد کبیر” اور “جہاد عظیم” فرمایا گیا ہے۔ اسی طرح سورۃ “عنکبوت” بھی ہجرت سے پہلے مکہ معظمہ ہی کے زمانہ قیام میں نازل ہوئی ہے اس میں فرمایا گیا ہے “وَمَن جَاهَدَ فَإِنَّمَا يُجَاهِدُ لِنَفْسِهِ” (آیت نمبر 6) مطلب یہ ہے کہ جو بندہ (راہ خدا میں) جہاد کرے گا وہ اپنے ہی نفع کے لئے کرے گا (خدا کو اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا) خدا سب سے بے نیاز ہے۔ اور اسی سورہ عنکبوت کی آخری آیت ہے “وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ وَإِنَّ اللَّـهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ ” یعنی جو بندہ ہماری راہ میں یعنی ہماری رضا حاصل کرنے کے لیے جہاد و مجاہدہ کریں گے اور مشقتیں جھیلیں گے ان کو ہم اپنے راستوں (یعنی اپنے قرب و رضا کے راستوں) کی ہدایت کی نعمت سے نوازیں گے۔ ظاہر ہے کہ سورۃ عنکبوت کی ان دونوں آیتوں میں بھی جہاد سے جہاد باسیف مراد نہیں لیا جاسکتا بلکہ راہ خدا میں اور اس کے قرب و رضا کے لیے جدوجہد اور محنت و مشقت ہی مراد ہے جس صورت میں بھی ہو۔ بہرحال دین کی راہ میں اور اللہ کے لئے ہر مخلصانہ جدوجہد اور جان و مال اور عیش و آرام کی قربانی اور اللہ تعالی کی عطا فرمائی ہوئی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال، یہ سب بھی اپنے اپنے درجہ میں جہاد فی سبیل اللہ کی شکلیں ہیں اور ان کا راستہ ہر وقت اور دنیا کے ہر حصے میں آج بھی کھلا ہوا ہے۔ ہاں جہاد بالسیف اور قتال فی سبیل اللہ بعض پہلوؤں سے اعلی درجہ کا جہاد ہے اور اس راہ میں جان کی قربانی اور شہادت مومن کی سب سے بڑی سعادت ہے جس کے لیے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دلی شوق اور تمنا کا اظہار فرمایا ہے جیسا کہ گزر چکا ہے۔ آگے درج ہونے والی حضرت فضالہ بن عبیدؓ کی حدیث بھی جہاد کے مفہوم کی اس وسعت کی ایک مثال ہے۔
فی سبیل اللہ جہاد و قتال اور شہادت
حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ ارشاد فرماتے تھے کہ مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس کے خلاف جہاد کرے۔ (جامع ترمذی) تشریح قرآن پاک میں فرمایا گیا “إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ” (یعنی انسان کا نفس برائی اور گناہ کا تقاضہ کرتا ہے) پس اللہ کا جو بندہ اپنی نفسانی خواہشات سے جنگ کرے ان کی پیروی کے بجائے احکام الہی کی تابعداری کرے اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں فرمایا کہ وہ اصل “مجاہد” ہے۔ اسی طرح اس سلسلہ معارف الحدیث کتاب المعاشرہ میں والدین کی خدمت کے بیان میں وہ حدیث ذکر کی جاچکی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے والدین کی خدمت کو بھی جہاد قرار دیا ہے۔ (ففيهما فجاهد)
شہادت کے دائرہ کی وسعت
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک روز صحابہؓ کو مخاطب کرکے) فرمایا کہ تم لوگ اپنے میں کس کو “شہید” شمار کرتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ حضرت (ہمارے نزدیک تو) جو بندہ راہ خدا میں قتل کیا گیا وہی شہید ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس صورت میں تو میری امت کے شہداء تھوڑے ہی ہونگے۔ (سنو!) جو بندہ راہ خدا میں شہید کیا گیا وہ شہید ہے، اور جس بندہ کا انتقال راہ خدا میں ہوا (یعنی جہاد کے سفر میں جس کو موت آ گئی) وہ بھی شہید ہے، اور جس بندہ کا طاعون میں انتقال ہوا وہ بھی شہید ہے، اور جس بندہ کا پیٹ کے مرض میں مبتلا ہو کر انتقال ہوا (جیسے کہ ہیضہ، تخمہ، اسہال، استسقاء وغیرہ) وہ بھی شہید ہے۔ (صحیح مسلم) تشریح پھر جس طرح جہاد کے مفہوم میں یہ وسعت ہے اور جہاد بالسیف میں محدود نہیں ہے اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اطلاع دی ہے کہ شہادت کا دائرہ بھی وسیع ہے اور بہت سے وہ بندے بھی اللہ کے نزدیک شہیدوں میں شامل ہیں جو جہاد بالسیف اور قتال کے میدان میں اہل کفر و شرک کی تلواروں یا گولیوں سے شہید ہوتے بلکہ ان کی موت کا سبب کوئی ناگہانی حادثہ یا کوئی غیرمعمولی مرض ہوتا ہے۔ تشریح ..... واقعہ یہ ہے کہ حقیقی “شہید” تو وہی خوش نصیب بندے ہیں جو میدان جہاد میں اہل کفر و شرک کے ہاتھوں شہید ہوں (شریعت میں ان کے لیے خاص احکام ہیں مثلا یہ کہ ان کو غسل نہیں دیا جاتا اور وہ اپنے ان کپڑوں ہی میں دفن کیے جاتے ہیں جن میں وہ شہید ہوئے) لیکن اللہ تعالی کی رحمت نے بعض غیر معمولی امراض یا حادثوں سے مرنے والوں کو بھی آخرت میں شہید کا درجہ دینے کا وعدہ فرمایا ہے جن میں سے کچھ کا ذکر اس حدیث میں اور بعض کہ آئندہ درج ہونے والی حدیثوں میں کیا گیا ہے امتیاز کے لیے پہلی قسم کے شہید کو “شہید حقیقی” اور دوسری قسم والوں کو “شہید حکمی” کہا جاتا ہے غسل اور کفن کے معاملہ میں ان کا حکم وہ نہیں ہے جو حقیقی شہداء کا ہے بلکہ عام اموات کی طرح ان کو غسل بھی دیا جائے گا اور کفن بھی۔
شہادت کے دائرہ کی وسعت
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “شہداء” پانچ (قسم) ہیں، طاعون میں مرنے والا اور پیٹ کی بیماری میں مرنے والا اور ڈوب کے مرنے والا اور عمارت وغیرہ ڈھے جانے کے نتیجہ میں مرنے والا اور راہ خدا میں (یعنی میدان جہاد میں) شہید ہونے والا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
شہادت کے دائرہ کی وسعت
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسافرت کی موت شہادت ہے۔ (سنن ابن ماجہ) تشریح ان حدیثوں میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جن بندوں کی موت کسی بھی ناگہانی حادثہ میں یا کسی درد ناک اور قابل ترحم مرض میں ہو ان سب کو اللہ تعالی اپنے خاص رحم و کرم سے کسی درجہ میں شہادت کا اجر عطا فرمائے گا۔ ظاہر ہے کہ اس میں اس طرح مرنے والوں کے لیے بڑی بشارت اور انکے متعلقین اور پسماندگان کے لیے تسلی کا بڑا سامان ہے اللہ تعالیٰ یقین نصیب فرمائے۔ ہمارے اس زمانے میں موٹروں وغیرہ کے ایکسیڈنٹ میں یا ریلوں ہوائی جہازوں کے حادثوں میں اسی طرح قلبی دورے جیسے مفاجاتی امراض کے نتیجہ میں بندگان خدا کی زندگیاں ختم ہوتی ہیں، اللہ تعالی کی رحمت سے پوری امید ہے کہ ان سب کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کا معاملہ یہی ہوگا بلاشبہ اللہ تعالی کی رحمت بے حد وسیع ہے۔