15. کتاب الفتن

【1】

امت میں پیدا ہونے والے دینی انحطاط و زوال اور فتنوں کا بیان

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یقینا ایسا ہوگا کہ تم (یعنی میری امت کے لوگ) اگلی امتوں کے طریقوں کی پیروی کرو گے بالشت برابر بالشت اور برابر ذراع (یعنی بالکل ان کے قدم بہ قدم چلو گے) یہاں تک کہ اگر وہ گھسے ہوں گے گوہ کے بل میں تو اس میں بھی تم ان کی پیروی کرو گے۔ عرض کیا گیا کہ اے خدا کے رسول کیا یہود و نصاری (مراد ہیں؟) آپ نے فرمایا تو اور کون؟ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح عقائد و ایمانیات، عبادات، اخلاق اور معاشرت و معاملات، امر بالمعروف، نہی عن المنکر اور جہاد فی سبیل اللہ وغیرہ کے بارے میں ہدایت دیں اور امت کی رہنمائی فرمائی اسی طرح مستقبل میں واقع ہونے والے دینی زوال و انحطاط تغیرات اور فتنوں کے بارے میں بھی امت کو آگاہی دی ہے اور ہدایات فرمائی ہیں۔ اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر منکشف فرمایا تھا کہ جس طرح اگلی امتوں میں دینی زوال و انحطاط آیا اور وہ طرح طرح کی گمراہیوں اور غلط کاریوں میں مبتلا ہوئیں اور اللہ تعالی کی نظر عنایت اور نصرت سے محروم ہوئیں ایسے ہی حالات آپ کی امت پر بھی آئیں گے۔ اس انکشاف و اطلاع کا مقصد یہی تھا کہ آپ صلی اللہ وسلم امت کو آنے والے اس خطرہ سے آگاہ کرے اور اس بارے میں ہدایات دیں۔ حدیث کی کتابوں میں “کتاب الفتن” یا “ابواب الفتن” کے زیر عنوان جو حدیثیں روایت کی گئی ہیں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی سلسلہ کے ارشادات ہیں ان کی حیثیت صرف پیشن گوئیوں کی نہیں ہے بلکہ ان کا مقصد و مدعا امت کو آئندہ آنے والے فتنوں سے باخبر کرنا اور انکے اثرات سے تحفظ کا داعیہ پیدا کرنا اور طریق کار کے بارے میں ہدایات دینا ہے۔ اس تمہید کے بعد ذیل میں درج ہونے والی حدیثیں پڑھی جائیں ان میں غور و فکر کیا جائے ان کی روشنی میں خود اپنا اور اپنے ماحول کا جائزہ لیاجائے اوران سے ہدایت و رہنمائی حاصل کی جائے۔ تشریح ..... “شبر” کے معنی بالشت اور “ذراع” کے معنی ہاتھ کی انگلیوں کے سرے سے لے کر کہنی تک کی مقدار جو ٹھیک دو بالشت برابر ہوتی ہے۔ حدیث کے الفاظ “شِبْرًا شِبْرًا وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ” کا مطلب بالکل وہ ہے جو اردو محاورہ میں “قدم بقدم” کا ہوتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ یقینا ایک وقت ایسا آئے گا کہ میری امت کے کچھ لوگ اگلی امتوں کے گمراہ لوگوں کی قدم بقدم پیروی کریں گے جنگ گمراہیوں اور غلط کاریوں میں وہ مبتلا ہوئے تھے یہ بھی ان میں مبتلا ہوں گے یہاں تک کہ اگر ان میں سے کسی سر پھرے پاگل نے ضب (گوہ) کے بل میں گھسنے کی کوشش کی ہوگی تو میری امت میں بھی ایسے پاگل ہوں گے جو یہ مجنونانہ حرکت کریں گے (مطلب یہ ہے کہ اس طرح کی احمقانہ حرکتوں میں بھی ان کی پیروی اور نقالی کریں گے یہ دراصل کامل پیروی اور نقالی کی ایک تعبیر و تمثیل ہے) آگے حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سن کر کسی صحابی نے عرض کیا کہ حضرت! ہم سے پہلی امتوں سے کیا یہودونصاریٰ مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا وہ نہیں تو اور کون ....... مطلب یہ ہے کہ ہاں میری مراد یہودونصاری ہی ہیں۔ جیسا کہ تمہیدی سطروں میں عرض کیا گیا یہ صرف پیشن گوئی نہیں ہے بلکہ بڑے مؤثر انداز میں آگاہی ہے کہ مجھ پر ایمان لانے والے خبردار اور ہوشیار رہیں اور یہود و نصاریٰ کی گمراہیوں اور غلط کاریوں سے اپنے کو محفوظ رکھنے کی فکر سے کبھی غافل نہ ہوں۔

【2】

امت میں پیدا ہونے والے دینی انحطاط و زوال اور فتنوں کا بیان

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال دیں اور (مجھ سے مخاطب ہوکر) فرمایا کہ اے عبداللہ بن عمرو! تمہارا اس وقت کیا حال اور کیا رویہ ہوگا جب صرف ناکارہ لوگ باقی رہ جائیں گے ان کے معاہدات اور معاملات میں دغا فریب ہوگا اور ان میں (سخت) اختلاف (اور ٹکراؤ) ہوگا اور وہ باہم اس طرح گتھ جائیں گے (جیسے میرے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں سے گھتی ہوئی ہیں) عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ پھر مجھے کیسا ہونا چاہیے یا رسول اللہ؟ (یعنی اس فساد عام کے زمانہ میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس بات اور جس عمل کو تم اچھا اور معروف جانو اس کو اختیار کرو اور جس کو منکر اور برا سمجھو اس کو چھوڑ دو اور اپنی پوری توجہ خاص اپنی ذات پر رکھو (اور اپنی فکر کرو) اور ان ناکارہ و بےصلاحیت اور آپس میں لڑنے بھڑنے والوں سے اوران عوام سے تعرض نہ کرو۔ (صحیح بخاری) تشریح “حثالہ” کےمعنی بھوسی کے ہیں یہاں اس سے مراد ایسے لوگ ہیں جو بظاہر آدمی ہونے کے باوجود آدمیت کے جوہر سے بالکل خالی ہوں ان میں کوئی صلاحیت نہ ہو جس ترا بھوسی میں صلاحیت نہیں ہوتی۔ آگے رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے ان کا یہ حال بھی بیان فرمایا کہ ان کے معاہدات اور معاملات میں مکر و فریب اور دغا بازی ہو اور باہم جنگ و پیکار ان کا مشغلہ ہو۔ نوعمر صحابہ کرام میں عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ و فطری طور پر بڑے خیرپسند، پرہیزگار اور عبادت گزار تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن ان سے فرمایا کہ جب کبھی ایسا وقت آ جائے کہ ایسے ہی ناکارہ اور بدکردار اور باہم لڑنے بھڑنے والے لوگ باقی رہ جائے تو تمہارا رویہ اس وقت کیا ہوگا؟ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے یہ سوال ان سے اسی لیے کیا تھا کہ وہ اس بارے میں آپ سے ہدایت کے طالب ہوں تو آپ ہدایت فرمائیں۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تعلیم تھا چنانچہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا اور آپ نے جواب دیا جس کا حاصل یہ ہے کہ جب واسطہ ایسے ہی لوگوں سے ہو جو آدمیت کے جوہر سے محروم ہوں اور نیکی کو قبول کرنے کی ان میں صلاحیت ہی نہ رہی ہو تو اہل ایمان کو چاہیے کے ایسے لوگوں سے صرف نظر کرکے بس اپنی فکر کریں۔ یہاں یہ بات خاص طور سے قابل لحاظ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت تک کے مسلمانوں کو جو ہدایت دینا چاہتے تھے اس کا مخاطب صحابہ کرامؓ ہی کو بناتے تھے اللہ تعالی ان اصحاب کرام اور ان کے بعد والے راویان حدیث کو جزاء خیر عطا فرمائے کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ہدایات بعد والوں تک پہنچائیں اور ائمہ حدیث نے ان کو کتابوں میں محفوظ کر دیا۔

【3】

امت میں پیدا ہونے والے دینی انحطاط و زوال اور فتنوں کا بیان

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قریب ہے کہ ایسا زمانہ آئے گا ایک مسلمان کا اچھا مال بکریوں کا گلہ ہو جن کو لے کر وہ پہاڑیوں کی چوٹیوں اور بارش والی وادیوں کی تلاش کرے اپنے دین کو فتنوں سے بچانے کے لیے بھاگ جائے۔ (صحیح بخاری) تشریح قرآن پاک میں قیامت کو قریب ہی بتلایا گیا ہے (اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ) رسول اللہ صلی اللہ وسلم بھی قیامت اور اس سے پہلے ظاہر ہونے والے فتنوں کا اس طرح ذکر فرماتے تھے جیسے کہ یہ سب کچھ عنقریب ہی ہونے والا ہے۔ اولا تو اس لئے کہ جو چیز آنے والی ہے اور اس کا آنا یقینی ہے اس کو قریب ہی سمجھنا چاہیے۔ دوسرے اس میں یہ بھی حکمت تھی کہ کوئی شخص اس کو بہت دور سمجھ کر مطمئن نہ ہو بیٹھے اور اس کے لیے جو کچھ کرنا چاہیے اس میں سستی نہ کرے۔ اسی اصول و معمول کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں فتنہ کے ایسے زمانے کے قریب ہونے کی آگاہی گئی ہے جب بھری پڑی آبادیوں کا حال ایسا خراب ہو جائے گا کہ وہاں رہنے والے کے لئے دین پر قائم رہنا اور اللہ و رسول کے احکام کے مطابق زندگی گزارنا قریبا ناممکن ہو جائے گا آپ نے فرمایا ایسے وقت میں وہ بندہ مومن بڑی خیریت میں ہوگا جس کے پاس چند بکریوں کا گلہ ہو وہ ان کو لے کر پہاڑیوں کی چوٹیوں پر یا ایسی وادیوں میں چلا جائے جہاں بارشیں ہوتی ہوں بکریاں اللہ کے اگائے ہوئے سبزے سے اپنا پیٹ بھرے اور یہ بندہ ان بکریوں سے گزارا کرے اور اس طرح آبادیوں کے فتنوں سے محفوظ رہے۔

【4】

امت میں پیدا ہونے والے دینی انحطاط و زوال اور فتنوں کا بیان

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں کے لیے ایک وقت ایسا آئے گا کہ صبر و استقامت کے ساتھ دین پر قائم رہنے والا بندہ اس وقت اس آدمی کی مانند ہوگا جو ہاتھ میں جلتا ہوا انگارہ تھام لے۔ (جامع ترمذی) تشریح مطلب یہ ہے کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ فسق و فجور اور خدا فراموشی ماحول اور فضا پر ایسی غالب آ جائے گی کہ خدا اور رسول کے احکام پر استقامت کے ساتھ عمل کرنا اور حرام سے بچ کر زندگی گزارنا اتنا مشکل اور صبر آزما ہو جائے گا جیسا کہ جلتا انگارہ ہاتھ میں تھام لینا یہ وہی زمانہ ہوگا جس کا ذکر حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی مندرجہ بالا حدیث میں کیا گیا ہے۔ واللہ اعلم

【5】

امت میں پیدا ہونے والے دینی انحطاط و زوال اور فتنوں کا بیان

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اس وقت ایسے زمانے میں ہو کہ جو کوئی اس زمانے میں احکام الہی کے (بڑے حصہ پر) عمل کرے صرف دسویں حصہ پر عمل ترک کردیں تو وہ ہلاک ہوجائے گا۔ (اس کی خیریت نہیں) اور بعد میں ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا کہ جو کوئی اس زمانہ میں احکام الہی کے صرف دسویں حصہ پر عمل کر لے گا وہ نجات کا مستحق ہوگا۔ (جامع ترمذی) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ میں آپ کی صحبت اور براہ راست تعلیم و تربیت اور معجزات و خوارق کے مشاہدہ کے نتیجہ میں ایسا ماحول بن گیا تھا کہ احکام الہی ذوق و شوق سے تعمیل کرنا نہ صرف آسان بلکہ مرغوب و محبوب بن گیا تھا اور اللہ و رسول کی اطاعت و فرماں برداری طبیعت ثانیہ بن گئی تھی اس ماحول اور اس ایمانی فضا میں جو شخص احکام الہی کی پیروی میں تھوڑی بھی کوتاہی کرے اس کے بارے میں اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ قصور وار اور قابل معاوضہ ہے۔ “قریبا نرا بیش بود حیرانی” اسی کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک ایسا وقت بھی آئے گا جب ماحول دین کے سخت ناسازگار ہو گا (اور جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہٗ کی مندرجہ بالا حدیث میں فرمایا گیا ہے دین پر چلنا ایسا صبر آزما ہوگا جیسا ہاتھ میں انگارہ تھام لینا) ایسے زمانے کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس وقت میں اللہ کے جو بندے دین کے تقاضوں اور شریعت کے احکام پر تھوڑا بھی عمل کرلیں گے ان کی نجات ہو جائے گی۔(عاجز کا خیال ہے کہ “اس حدیث” میں “عشر ” کے لفظ سے متعین طور پر دسواں حصہ (10/1) مراد نہیں ہیں بلکہ کثیر کے مقابلہ میں قلیل مراد ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مدعا وہی ہے جو عاجز نے ان سطروں میں عرض کیا ہے) ..... واللہ اعلم ۔

【6】

دولت تعیش اور حب دنیا کا فتنہ

محمد بن کعب قرضی سے روایت ہے کہتے ہیں کہ ایک ایسے صاحب نے مجھ سے بیان کیا جنہوں نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہٗ سے خود (یہ واقعہ) سنا تھا کہ ہم لوگ (ایک دن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ مصعب بن عمیر (رضی اللہ عنہٗ) اس حالت اور ہیئت میں سامنے آ گئے کہ ان کے جسم پر بس ایک (پھٹی پرانی) چادر تھی جس میں کھال کے ٹکڑوں کے پیوند لگے ہوئے تھے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو (اس حالت اور ہیئت میں) دیکھا تو آپ کو رونا آ گیا ان کا وہ وقت یاد کرکے جب وہ (اسلام لانے سے پہلے مکہ میں) عیش و تنعم کی زندگی گزارتے تھے اور ان کی (فقر و فاقہ کی) موجودہ حالت کا خیال کرکے ..... اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ہم لوگوں سے مخاطب ہو کر) فرمایا کہ (بتلاؤ) اس وقت تمہاری کیا کیفیت ہوگی اور کیا حال ہوگا جب (دولت اور سامان تعیش کی ایسی فراوانی ہوگی کہ) تم میں کے لوگ صبح کو ایک جوڑا پہن کر نکلیں گے اور شام کو دوسرا جوڑا پہن کر، اور (کھانے کے لئے) ان کے آگے ایک پیالہ رکھا جائے گا اور دوسرا اٹھایا جائے گا اور تم اپنے مکانوں کو اس طرح لباس پہناؤ گے جس طرح کعبۃ اللہ پر غلاف ڈالا جاتا ہے (آپ کے اس سوال کے جواب میں حاضرین مجلس میں سے کچھ) لوگوں نے عرض کیا کہ حضرت ہمارا حال اس وقت آج کے مقابلے میں بہت اچھا ہوگا ہمیں اللہ کی عبادت کے لیے پوری فراغت اور فرصت حاصل ہوگی (معاش وغیرہ کے لئے) محنت و مشقت اٹھانی نہیں پڑے گی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ نہیں! تم آج (فقر و فاقہ کے اس دور میں عیش و تنعم والے) اس دن کے مقابلہ میں بہت اچھے ہو۔ (جامع ترمذی) تشریح حدیث کے راوی محمد بن کعب قرضی تابعی ہیں جو علم قرآن اور صلاح و تقوی کے لحاظ سے اپنے طبقہ میں ممتاز تھے انہوں نے اس راوی کا نام ذکر نہیں کیا جنہوں نے حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے یہ واقعہ ان کو سنایا تھا لیکن ان کا اس طرح روایت کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ راوی انکے نزدیک ثقہ اور قابل اعتماد ہے۔ مصعب بن عمیرؓ کی صحابہ کرامؓ میں ایک خاص شان اور تاریخ تھی وہ بڑے ناز پروردہ ایک رئیس زادے تھے ان کا گھرانہ مکہ کا بڑا دولت مند گھرانہ تھا اور یہ اپنے گھر کے بڑے لاڈلے چہیتے تھے اسلام قبول کرنے سے پہلے ان کی زندگی امیرانہ اور عیش و تنعم کی زندگی تھی پھر اسلام لانے کے بعد زندگی کا رخ بالکل بدل گیا اور وہ حال ہوگیا جو اس حدیث میں ذکر کیا گیا ہے ایک پھٹی پرانی چادر ہی جسم پر تھی جس میں جابجا چمڑے کے ٹکڑوں کے بھی پیوند تھے ان کو اس حالت اور ہیئت میں دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کے سامنے ان کی عیش و تنعم والی امیرانہ زندگی کا نقشہ آ گیا اور آپ کو رونا آگیا اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرامؓ کو ایک اہم حقیقت سے آگاہ کرنے کے لیے ان سے فرمایا کہ ایک وقت آئے گا جب تمہارے پاس یعنی میری امت کے پاس عیش و تنعم کے سامان کی فراوانی ہو گی ایک آدمی صبح کو ایک جوڑا پہن کر نکلے جا اور شام کو دوسرا جوڑا اسی طرح دسترخوان پر انواع و اقسام کے کھانے ہوا کریں گے بتلاؤ تمہارا کیا خیال ہے وہ وقت تمہارے لیے کیسا ہوگا؟ کچھ لوگوں نے عرض کیا کہ حضرت وہ وقت اور وہ دن تو بہت ہی اچھا ہوگا ہمیں فراغت اور فرصت ہی فرصت ہو گی بس اللہ کی عبادت کیا کریں گے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارا یہ خیال صحیح نہیں ہے آج تم جس حال میں ہو یہ آئندہ آنے والے عیش و تنعم کے حال سے بہت بہتر ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حقیقت بیان فرمائی تھی اس وقت تو “ایمان بالغیب” ہی کی طور پر اس پر یقین کیا جاسکتا تھا لیکن پہلے بنو امیہ اور بنو عباس کے دور حکومت میں اور بعد کی اکثر دوسری مسلم حکومتیں کے دور میں بھی اور آج کی ان مسلم حکومتوں میں جن کو اللہ تعالی نے عیش و تنعم کا سامان انتہائی فراوانی سے دے رکھا ہے یہ حقیقت آنکھوں سے دیکھ لی گئی ہے اور دیکھی جا رہی ہے بلاشبہ یہ اور اس طرح کی تمام پیشنگوئیاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے دلائل میں سے ہیں۔

【7】

دولت تعیش اور حب دنیا کا فتنہ

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قریب ہے (ایسا زمانہ) کہ (دشمن) قومیں تمہارے خلاف (جنگ کرنے اور تم کو مٹا دینے کے لیے) ایک دوسرے کو اس طرح دعوت دیں جس طرح کھانے والی جماعت کے آدمی کھانے کی لگن (تشت) کی طرف ایک دوسرے کو بلاتے ہیں کسی عرض کرنے والے نے عرض کیا کہ کیا اس دن ہماری تعداد کی قلت کی وجہ سے ایسا ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (نہیں) بلکہ تم اس وقت بڑی تعداد میں ہوگے لیکن تم سیلاب کے کوڑے کرکٹ کی طرح (بے جان اور بےوزن) ہوگے اور اللہ تعالی تمہارے دشمنوں کے دل سے تمھاری ہیبت نکال دے گا اور (اس کے برعکس) تمہارے دلوں میں “وہن” ڈال دے گا کسی عرض کرنے والے نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ “وہن” کا کیا مطلب؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ دنیا کی محبت اور موت کی کراہت۔ (سنن ابی داود دلائل النبوۃ للبیہقی) تشریح حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کی اس روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو ارشاد نقل ہوا ہے جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ فرمایا ہوگا اس وقت بلکہ اس کے کئی صدی بعد تک بھی حالات ایسے رہے کہ بظاہر دور دور تک اس کا امکان بھی نظر نہیں آتا تھا کہ کبھی آپ صلی للہ علیہ وسلم کے امت کا ایسا حال بھی ہوگا اور وہ دشمن قوموں کے مقابلہ میں ایسی کمزور اور بے جان ہو جائے گی اور ان کے لیے نرم نوالہ بن جائے گی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا تھا وہ واقع ہو کر رہا اور بار بار وقوع میں آیا اور آج بھی اس کے مظاہرے آنکھوں کے سامنے ہیں اور اس انقلاب حال اور انحطاط و زوال کا بنیادی سبب جیساکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا یہی ہے کہ اس دنیا اور یہاں کی زندگی سے ہم کو عشق ہو گیا اور موت (راہ خدا کی موت بھی) ہمارے لیے کڑوا گھونٹ بن گئی خدا کی قسم بلاشبہ ہماری اس حالت نے ہم کو دشمنوں کے لیے تر نوالہ بنا دیا ہے جیسا کہ اوپر عرض کیا جاچکا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی صرف پیشن گوئی نہیں ہے بلکہ امت کو آگاہی ہے کہ “وہن” (یعنی حب دنیا اور کراہیت موت) کی بیماری سے قلوب کی حفاظت کی جائے۔

【8】

دولت تعیش اور حب دنیا کا فتنہ

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب (حالت یہ ہو کہ) تمہارے حکمران تم میں کے نیک لوگ ہیں اور تم میں کے دولت مندوں میں سماحت و سخاوت کی صفت اور تمہارے معاملات باہم مشورہ سے طے ہوتے ہیں تو (ایسی حالت میں) زمین کی پشت تمارے لیے اس کے بطن (پیٹ) سے بہتر ہے اور (اس کے برعکس) جب حالت یہ ہو کہ تمہارے حکمران تم میں کے بدترین لوگ ھوں اور تمہارے دولت مندوں میں (سماحت کے بجائے) بخل اور دولت پرستی آجائے اور تمہارے معاملات (بجائے اہل الرائے کی مشاورت کے) تمہاری عورتوں کی رایوں سے چلے تو (ایسی حالت میں) زمین کا بطن (پیٹ) تمہارے لئے اس کی پشت سے بہتر ہے۔ (جامع ترمذی) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر منکشف کیا گیا تھا کہ امت کا حال ایک زمانے تک یہ رہے گا کہ ان کے حکمران اور عمال حکومت نیک اور اچھے لوگ ہونگے اور ان میں کے دولت مندوں میں سماحت کی صفت ہوگی یعنی وہ اللہ تعالی کی عطا فرمائی ہوئی دولت کو اخلاص و خوش دلی سے اچھے مصارف میں صرف کریں گے ان کے معاملات خاص کر حکومتی اور اجتماعی معاملات باہمی مشورے سے ہوا کریں گے (یہ تین حالتیں اس بات کی علامت ہیں کہ امت کا اجتماعی حال اور مزاج اللہ و رسول کے احکام اور مرضیات کے مطابق ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امت کے لئے یہ زمانہ خیریت کا ہوگا اور اس دور کے یہ اہل ایمان اس کے مستحق ہونگے کہ اس دنیا میں اور اس زمین کی پشت پر رہیں خیر امت ہونے کی حیثیت سے دنیا کی ہدایت و قیادت کی ذمہ داری سنبھالیں اسی کے ساتھ آپ پر منکشف کیا گیا تھا کہ پھر ایک زمانہ آئے گا کہ امت کا حال اس کے بالکل برعکس ہو جائے گا۔ حکومت کی باگ اور سارا حکومتی نظام بدترین لوگوں کے ہاتھوں میں آ جائے گا اور مسلمانوں میں کے دولت مند لوگ سماحت و سخاوت کے بجائے دولت کے پجاری ہوجائیں گے اور اہم معاملات بجائے اسکے کے اہل الرائے کے باہمی مشورے سے طے کئے جائیں گھروالوں کی خواہشات اور ان کی رائے کے مطابق طے کیے جانے لگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شروفساد کے اس زمانے کے بارے میں فرمایا کہ اس وقت یہ بگڑی ہوئی امت زمین کے اوپر چلنے اور رہنے بسنے سے زیادہ اس کے مستحق ہو گی کہ ختم ہو کر زمین کے پیٹ میں چلی جائے اور اس میں دفن ہوئے۔ جیسا کہ بار بار عرض کیا گیا یہ حدیث شریف بھی صرف ایک پیشن گوئی نہیں ہے بلکہ اس میں امت کو بڑی سخت آگاہی ہے کہ میری امت کو اللہ تعالی کی اس زمین پر رہنے اور چلنے پھرنے کا حق اس وقت تک ہے جب تک اس میں “خیر امت” والی ایمانی صفت رہیں لیکن جب وہ ان صفات سے محروم ہوجائے اور اسکی زندگی میں شر و فساد آ جائے تو وہ اس کی مستحق ہوگی کی ختم ہو کر زمین میں دفن ہو جائے۔

【9】

امت میں پیدا ہونے والے فتنوں کا بیان

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جلدی کر لو اعمال صالحہ ان فتنوں کے آنے سے پہلے جو اندھیری رات کے ٹکڑوں کی طرح پے بہ پے آئینگے (حال یہ ہو گا کہ) صبح کرےگا آدمی اس حال میں کہ اس میں ایمان ہوگا اور شام کرے گا اس حال میں کہ وہ ایمان سے محروم ہو چکا ہوگا اور شام کو وہ میں مومن ہوگا اور اگلی صبح وہ مومن نہ رہے گا کافر ہوجائے گا دنیا کی متاع قلیل کے بدلے وہ اپنا دین و ایمان بیچ ڈالے گا۔ (صحیح مسلم) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر منکشف کیا گیا تھا کہ آپ کی امت پر ایسے حالات بھی آئیں گے کہ رات کے اندھیرے کی طرح نوع بہ نوع فتنے لگاتار برپا ہوں گے ان کی وجہ سے ایسا بھی ہوگا کہ ایک آدمی صبح کو اس حال میں اٹھے گا کہ اپنے عقیدے اور عمل کے لحاظ سے اچھا خاصا مومن و مسلم ہوگا لیکن شام ہوتے ہوتے وہ کسی گمراہی یا بدعملی میں مبتلا ہوکر اپنا دین ایمان برباد کر دے گا۔ یہ فتنے گمراہانہ تحریکوں اور دعوتوں کی شکل میں بھی آ سکتے ہیں اور آتے رہے ہیں اور مال و دولت یا اقتدار کی ہوس اور دوسری نفسانی خواہشات کی شکل میں بھی، حدیث کا آخری جملہ “يَبِيعُ دِينَهُ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْيَا” (دنیا کی قلیل متاع کے بدلے اپنا دین ایمان بیچ ڈالے گا) اس بات کا واضح قرینہ ہیں کہ حدیث کا مطلب یہی نہیں ہے کہ آدمی ڈینہ اسلام کا منکر ہو کر ملت سے خارج اور ٹھیٹ کافر ہو جائے گا بلکہ اس میں وہ سب صورتیں داخل ہیں جن میں آدمی دنیا کے لیے (جس میں مال و دولت اور اقتدار کی ہوس اور ہر طرح کی نفسانی اغراض شامل ہیں) دین کو یعنی اللہ و رسول کے احکام کو نظر انداز کر دے اس طرح دنیا کی طلب میں آخرت فراموشی اور ہر قسم کا فسق وفجور بھی اس میں شامل ہے جو عملی کفر ہے جیسے کہ بار بار عرض کیا جاچکا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طرح کے ارشادات کے مخاطب اگرچہ بظاہر صحابہ کرام ہی ہوتے تھے لیکن فی الحقیقت ان کے مخاطب ہر دور کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس پیام اور وصیت کا حاصل یہ ہے کہ ہر مومن آنے والے ایمان کش فتنوں سے ہوشیار رہے اور اعمال صالحہ کے اہتمام میں سبقت اور جلدی کرے ایسا نہ ہو کہ کسی فتنہ میں مبتلا ہو جائے اور پھر اعمال خیر کی توفیق ہی نہ ہو۔ نیز اگر اعمال صالحہ کرتا رہے گا تو وہ اس کا مستحق ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ایسے فتنوں سے اس کی حفاظت فرمائے۔

【10】

امت میں پیدا ہونے والے فتنوں کا بیان

حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنا آپ فرما رہے تھے کہ یقینا وہ بندہ نیک بخت اور خوش نصیب ہے جو فتنوں سے محفوظ رکھا گیا وہ بندہ نیک بخت و خوش نصیب ہیں جو فتنوں سے دور رکھا گیا وہ بندہ نیک بخت اور خوش نصیب ہیں جو فتنوں سے الگ رکھا گیا اور جو بندہ مبتلا ہوگیا اور وہ صابر اور ثابت قدم رہا تو (اس کا کیا کہنا) اس کو شاباش اور مبارکباد۔ (سنن ابی داود) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تھا کہ کسی بات کی اہمیت سامعین اور مخاطبین کے ذہن نشین فرمانا چاہتے تو اس کو مقرر سہ کرر ارشاد فرماتے اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار یہ جملہ ارشاد فرمایا “إِنَّ السَّعِيدَ لَمَنْ جُنِّبَ الْفِتَنَ” (وہ بندہ خوش نصیب ہے جو فتنوں سے دور اور الگ رکھا جائے) یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار غالبا اس لیے ارشاد فرمائی کہ کسی بندہ کا فتنوں سے محفوظ رہنا فی الحقیقت اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے لیکن یہ نعمت چونکہ نظر نہیں آتی اس لیے بہت سے بندوں کو اس کا احساس اور شعور بھی نہیں ہوتا اس وجہ سے نہ ان کے دل میں اس نعمت کی قدر ہوتی ہے نہ اس پر شکر کا جذبہ پیدا ہوتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین دفعہ ارشاد فرما کر اس نعمت کی اہمیت و عظمت ذہن نشین کرنے کی کوشش فرمائی۔ آخر میں فرمایا کہ اور جو بندہ تقدیر الہی سے فتنوں میں مبتلا کیا گیا اور اس نے اپنے کو تھاما یعنی وہ دین پر اور اللہ و رسول کی وفاداری پر صابر و ثابت قدم رہا تو اس کو شاباش اور مبارکباد اس کا کیا کہنا وہ بڑا ہی خوش نصیب ہے حدیث کے آخری جملے “وَلَمَنِ ابْتُلِيَ فَصَبَرَ فَوَاهًا” کا مطلب شارحین نے اور بھی بیان کیا ہے اس عاجز کے نزدیک وہی راجح ہے جو یہاں لکھا گیا ہے۔ والعلم عند الله

【11】

امت میں پیدا ہونے والے فتنوں کا بیان

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (وقت آئے گا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زمانہ قریب قریب ہو جائے گا اور علم اٹھا لیا جائے گا اور فتنے نمودار ہوں گے اور (انسانی طبیعتوں اور دلوں میں) بخل ڈال دیا جائے گا اور بہت ہوگا ہرج صحابہ نے عرض کیا کہ ہرج کا کیا مطلب؟ آپ صلی اللہ وسلم نے فرمایا (اس کا مطلب ہے) کشت و خون۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت میں پیدا ہونے والے چند فتنوں کے بارے میں آگاہی بھی ہے اس سلسلے میں سب سے پہلی بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں ارشاد فرمائی “يَتَقَارَبُ الزَّمَانُ” شارحین نے اس کے متعدد مطلب بیان کئے ہیں اس عاجز کے نزدیک ان میں قریب الفہم یہ ہے کہ وقت میں برکت نہ رہے گی جلدی جلدی گزرے گا جو کام ایک دن میں ہونا چاہیے وہ کئی دن میں ہوسکے گا راقم سطور کا تو یہ ذاتی تجربہ بھی ہے۔ واللہ اعلم۔ دوسری بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی کہ علم اٹھا لیا جائے گا مطلب یہ ہے کہ علم جو نبوت کی میراث ہے وہ اٹھا لیا جائے گا ایک دوسری حدیث میں اس کی وضاحت اس طرح فرمائی گئی ہے کہ علمائے ربانی (تو اس علم کے وارث و امین ہیں) اٹھا لیے جائیں گے (چاہے کتب خانے باقی رہی اور پیشہ ور عالموں سے ہماری بستیاں بھری رہیں) حقیقت یہ ہے کہ علم جو نبوت کی میراث ہے اور جو ہدایت اور نور ہے وہ وہی ہے جس کے حامل اور امین علمائے ربانی ہیں جب وہ باقی نہیں رہیں گے اور اٹھا لیے جائیں گے تو علم اور نور بھی ان کے ساتھ اٹھ جائے گا تیسری بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اور طرح طرح کے فتنے نمودار ہوں گے یہ بات کسی توضیح و تشریح کی محتاج نہیں چوتھی بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں ارشاد فرمائی “وَيُلْقَى الشُّحُّ” مطلب یہ ہے کہ سخاوت و فیاضی اور ایثار جو صفات محمودہ ہیں وہ لوگوں میں سے نکل جائیں گے اور ان کے بجائے ان کی طبیعت میں بخل جو ایک منحوس رذیلہ ہے ڈال دیا جائے گا آخری بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی کہ کشت و خون کی گرم بازاری ہوگی جو دنیا کے لحاظ سے بھی افراد اور امتوں کے لیے تباہ کن ہے اور آخر کے لحاظ سے بھی گناہ عظیم ...... اللہ تعالی ان سب فتنوں سے محفوظ فرمائے۔

【12】

امت میں پیدا ہونے والے فتنوں کا بیان

حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کشت و خون کے زمانے میں عبادت میں مشغول ہو جانا ایسا ہے جیسا کہ ہجرت کرکے میری طرف آ جانا۔ (صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ جب ناحق کشت و خون کی گرم بازاری ہو تو مومن کو چاہیے کہ اپنا دامن بچا کے اور یکسو ہو کے اللہ کی عبادت میں مشغول ہوجائے۔ اس کا یہ عمل اللہ تعالی کی نگاہ میں ایسا ہوگا جیسا کہ اپنا ایمان بچانے کے لیے دارالکفر سے ہجرت کرکے میری طرف آ جانا۔

【13】

امت میں پیدا ہونے والے فتنوں کا بیان

زبیر بن عدی تابعی سے روایت ہے کہ ہم حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ہم نے حجاج کی طرف سے ہونے والے مظالم کی شکایت کی تو انہوں نے فرمایا کہ (ان مظالم اور مصائب پر) صبر کرو اور یقین کرو گے جو زمانہ بھی تم پر آئے گا اس کے بعد کہ زمانہ اس سے بد تر ہی ہو گا یہاں تک کہ تم اپنے رب کے حضور میں حاضر ہو جاؤ گے یہ بات میں نے سنی ہے تمھارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ (صحیح بخاری) تشریح اس سلسلہ معارف الحدیث میں یہ بات ذکر کی جاچکی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرامؓ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالی نے بہت طویل عمر عطا فرمائی وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد قریبا اسی 80سال حیات رہے بصرہ میں قیام رہا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہٗ کے بعد بنی امیہ کا جو دور ہے اس میں حجاج ثقفی کا ظلم اور اس کی سفاکی ضرب المثل ہے۔ زبیر بن عدی تابعی ہیں وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت انس بن مالکؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ہم نے حجاج کے مظالم کی شکایت کی تو انہوں نے فرمایا جو کچھ ہو رہا ہے اس کا مقابلہ صبر و تحمل سے کرو آگے اس سے بھی زیادہ برا زمانہ آنے والا ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ بعد میں آنے والا زمانہ پہلے سے بدتر ہی ہوگا۔ اس پر یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ حجاج کے بعد تو حضرت عمر بن عبدالعزیز کا دور بھی آیا ان کے بعد بھی مختلف زمانوں میں اچھے اچھے عادل و سلاطین اور حکمراں ہوئے ہیں پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی کیا توجیہ ہو گی کے بعد کا ہر زمانہ پہلے سے بدترین ہوگا؟ واقعہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا تعلق صرف حکومت اور ارباب حکومت سے نہیں ہے بلکہ عام امت کے عمومی احوال کے لحاظ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بعد کا زمانہ پہلے سے بدتر ہی ہوگا ...... اور اس میں کوئی شبہ نہیں مشاہدہ ہے ..... حجاج بلاشبہ ویسا ہی تھا جیسا کہ اس پر سمجھا جاتا ہے، اس کے علاوہ حکمران طبقہ میں اور بھی لوگ تھے جن میں شروفساد تھا لیکن امت میں اس وقت اچھی خاصی تعداد صحابہ کرامؓ کی موجود تھی اکابر تابعین جو امت میں صحابہ کرامؓ کے بعد سب سے افضل ہیں بڑی تعداد میں تھے عام مومنین میں بھی صلاح وتقوی تھا بعد کا ہر دور مجموعی لحاظ سے اس کے مقابلے میں یقینا بدتر ہی رہا اور تاریخ شاھد ہے کہ ماضی اور مستقبل میں یہی تناسب رہا ہے .....اور اپنی زندگی میں تو آنکھوں سے دیکھا جا رہا ہے اللہ تعالی فتنوں سے ہمارے ایمانوں کی حفاظت فرمائے۔

【14】

امت میں پیدا ہونے والے فتنوں کا بیان

ضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرماتے تھے کہ خلافت بس تیس (30) سال تک ہے اس کے بعد ہوجائیگی بادشاہت پھر کہتے ہیں سفینہ شمار کرو خلافت ابوبکر کی دو سال، اور خلافت عمر کی دس سال، اور عثمان کی بارہ سال، اور علی کی چھ سال۔ (مسند احمد جامع ترمذی سنن ابی داود) تشریح حضرت سفینہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے آزاد کردہ غلام ہیں انھوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جو ارشاد نقل فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ خلافت یعنی ٹھیک ٹھیک میرے طریقہ پر اور اللہ تعالی کے پسندیدہ طریقہ پر میری نیابت میں دین کی دعوت و خدمت اور نظام حکومت کا کام (جس کا مختصر معروف عنوان “خلافت راشدہ” ہے) بس تیس سال تک چلے گا اس کے بعد نظام حکومت بادشاہت میں تبدیل ہوجائے گا اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ حقیقت منکشف فرما دی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف موقعوں پر اس کا اظہار فرمایا اور امت کو اس کے بارے میں آگاہی دی مختلف صحابہ کرامؓ سے اس سلسلہ کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات مروی ہیں۔ حضرت سفینہ رضی اللہ عنہٗ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل فرمانے کے ساتھ اس کا حساب بھی بتلایا لیکن اس کو تقریبی یعنی موٹا حساب سمجھنا چاہیے تحقیقی حساب یہ ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت کی مدت دو سال چار مہینے ہے۔ اس کے بعد حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی مدت خلافت دس سال چھ ماہ ہیں۔ اس کے بعد حضرت ذوالنورین کی خلافت کی مدت چند دن کم بارہ سال ہیں۔ اس کے بعد حضرت علی مرتضیٰؓ کی خلافت کی مدت چار سال نو مہینے ہیں۔ ان کی میزان 29 سال 7 مہینے ہوتی ہے اس کے ساتھ سیدنا حضرت حسنؓ کی خلافت کی مدت قریبا پانچ ماہ جوڑ لی جائے تو پورے تیس سال ہو جاتے ہیں۔ یہی تیس (30) سال خلافت راشدہ کے ہیں اس کے بعد جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا نظام حکومت بادشاہت میں تبدیل ہوگیا اس طرح کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشن گوئیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی کھلی دلیلیں بھی ہیں اور ان میں امت کو آگاہی بھی ہیں۔

【15】

امت میں پیدا ہونے والے فتنوں کا بیان

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ایک دن وعظ و بیان کیلئے) کھڑے ہوئے اس بیان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں چھوڑی کوئی چیز جو ہو گی قیامت تک، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکو بیان فرمایا، اس کو یاد رکھا جس نے یاد رکھا، اور اس کو بھول گیا جو بھول گیا، میرے ان ساتھیوں کو بھی اس کا علم ہے، اور واقعہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس بیان کی کوئی چیز میں بھولے ہوئے ہوتا ہوں پھر اس کو (ہوتا ہوا) دیکھتا ہوں تو وہ مجھے یاد آ جاتی ہے ، جس طرح ایک آدمی دوسرے کسی آدمی کے چہرے کو بھول جاتا ہے جب وہ اس سے غائب ہو جائے ، پھر جب اس کو دیکھتا ہے تو پہچان لیتا ہے (اور بھولا ہوا چہرہ یاد آ جاتا ہے) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح حضرت حذیفہ کے علاوہ دوسرے متعدد صحابہ کرامؓ سے بھی یہ مضمون روایت کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن بہت طویل بیان فرمایا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت تک ہونے والے واقعات و حوادث کا ذکر فرمایا ، ظاہر ہے کہ اس کا مطلب یہی ہے کہ ایسے غیر معمولی حوادث و واقعات اور ایسے اہم فتنوں کا ذکر فرمایا جن کے بارے میں امت کو آگاہی دینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ضروری سمجھا ، یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب نبوت کا تقاضا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شایان شان تھا ، لیکن وہ لوگ جن کا عقیدہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابتدائے آفرینش عالم سے قیامت تک زمین و آسمان کی ساری کائنات اور تمام مخلوقات کا ، ذرے ذرے اور پتے پتے کا علم کلی محیط حاصل تھا ..... وہ حضرت حذیفہ کی اس حدیث اور اس مضمون کی دوسری حدیثوں سے بھی استدلال کرتے ہیں ..... ان کے نزدیک ان حدیثوں کا مطلب یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس بیان میں ان کی اصطلاح کے مطابق تمام “ما کان وما یکون” بیان فرمایا تھا یعنی روئے زمین کے سارے ملکوں ، ہندوستان ، ایران ، افغانستان ، چین ، جاپان ، امیریکہ ، افریقہ ، انگلینڈ ، فرانس ، ترکی ، روس وغیرہ وغیرہ دنیا کے تمام ملکوں میں قیامت تک پیدا ہونے والے تمام انسانوں ، حیوانوں ، چرندوں ، پرندوں ، چونٹیوں ، مکھیوں ، مچھروں ، کیڑے مکوڑوں اور سمندر میں پیدا ہونے والی مخلوقات کے سبھی تمام حالات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائے تھے کہ یہ سب بھی “ماکان ومایکون” میں شامل ہے اسی طرح مختلف ملکوں کے ریڈیو سے مختلف زبانوں میں جو خبریں اور جو گانابجانا نشر ہوتا ہے اور مختلف ملکوں کے ہزاروں اخبارات میں مختلف زبانوں میں جوکچھ چھپتا رہا ہے اور چھپتا ہے اور قیامت تک چھپے گا وہ سب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کے خطبہ میں صحابہ کرام کوبتلایا تھا کیونکہ یہ سب بھی “ماکان ومایکون” میں داخل ہے۔ جس آدمی کو اللہ نے ذرا برابر بھی عقل دی ہو وہ سمجھ سکتا ہے کہ حدیث کا یہ مطلب بیان کرنا اور ایسا دعویٰ کرنا اس قدر جاہلانا اور احمقانہ بات ہے۔ اس کے علاوہ اس سلسلہ میں یہ بات بھی سوچنے کی ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبہ میں ان لوگوں کے دعوے کے مطابق تمام “ما کان وما یکون” اور ہر طرح کے جزوی حوادث و واقعات بیان فرمائے تھے تو اس کا تو ضرور ہی ذکر فرمایا ہوگا کہ میرے بعد پہلے خلیفہ ابو بکر ہونگے اور ان کے زمانہ خلافت میں یہ یہ ہو گا ان کے بعد دوسرے خلیفہ عمر بن الخطاب اور ان کے بعد تیسرے خلیفہ عثمان بن عفان ہونگے اور انکے دور میں اور اس کے بعد یہ یہ واقعات پیش آئیں گے تو اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ میں “جمیع ما کان وما یکون” اور اس سلسلہ میں یہ سبھی بیان فرمادیا تھا تو حضور صلی اللّہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد انتخاب خلیفہ کے سلسلہ میں کسی غوروفکر اور کسی مشاورت کی ضرورت نہ ہوتی اور سقیفہ بنی ساعدہ میں جو کچھ ہوا کچھ بھی نہ ہوتا ہر شخص کو یاد ہوتا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ہی روز پہلے تو فرمایا تھا کہ میرے بعد خلیفہ ابو بکر رضی اللہ عنہ ہوں گے .... اسی طرح حضرت عمرؓ کی شہادت کے بعد انتخاب خلیفہ کے سلسلہ میں کسی غور و فکر اور کسی مشاورت کی ضرورت نہ ہوتی ، خود حضرت عمرؓ کو اور ان چھٹوں حضرات کو جن کے سپرد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انتخاب خلیفہ کا مسئلہ فرمایا تھا ، ضرور یاد ہوتا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلا دیا تھا کہ عمرؓ بن الخطاب کے بعد میرے تیسرے خلیفہ عثمانؓ بن عفان ہوں گے ..... یہ سب حضرات اس وقت امت میں سے سے افضل سابقین اولین اور عشرہ مبشرہ میں سے تھے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خطہ میں بیان تو یہ سب کچھ فرما دیا تھا ، لیکن یہ سب اس کو بھول گئے .... تو دین کی کوئی بات بھی قابل اعتبار نہیں رہتی ..... امت کو سارا دین صحابہ کرامؓ ہی کے ذریعہ اور انہی کی نقل و روایت سے ملا ہے ، جب ان کے درجہ اول کے حضرات ، سابقین اولین اور عشرہ مبشرہ کے بارے میں یہ مان لیا جائے کہ خود ان ہی سے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمائی ہوئی اتنی اہم باتوں کو بھول گئے اور کسی ایک کو بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ بیان یاد نہیں رہا ، تو ان کی نقل و روایت پر قطعاً اعتبار نہیں کیا جا سکتا ۔ حدیث کے کسی راوی کے متعلق بھی ثابت ہو جائے کہ وہ ایسا بھولنے والا تھا تو محدثین اس کی کسی بھی روایت کا اعتبار نہیں کرتے وہ روایت میں ساقط الاعتبار اور ناقابل اعتماد قرار دے دیا جاتا ہے ۔ بہرحال حضرت حذیفہ کی اس حدیث اور اس مضمون کی دوسری حدیثوں کی بنا پر ان لوگوں کا یہ دعویٰ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کے اپنے اس بیان اور خطبہ میں ان کی اصطلاح کے مطابق “جمیع ما کان وما یکون” بیان فرمایا تھا ، مذکورہ بالا وجوہ سے انتہائی احمقانہ اور جاہلانہ دعویٰ ہے ..... ان سب حدیثوں کا مطلب و مفاد صرف یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بیان اور خطبہ میں قیامت تک واقع ہونے والے ان غیر معمولی واقعات و حوادث اور ان اہم فتنوں کا بیان فرمایا جو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر منکشف فرمائے تھے اور ان کے بارے میں امت کو آگاہی دینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ضروری سمجھا .... یہی منصب نبوت کا تقاضا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شایان شان ہے ۔