16. علاماتِ قیامت

【1】

علامات قیامت: قیامت کی عمومی نشانیاں

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہیں کہ اس اثناءمیں کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیان فرما رہے تھے ایک اعرابی (بدوی) آیا اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کے قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب (وہ وقت آ جائے گے) امانت ضائع کی جانے لگے تو اس وقت قیامت کا انتظار کرو اس اعرابی نے عرض کیا کہ امانت کیسے ضائع کی جائے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب معاملات نااہلوں کے سپرد کئے جانے لگیں تو انتظار کرو قیامت کا۔ (صحیح بخاری) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح امت میں پیدا ہونے والے فتنوں کی اطلاع دی ہے اسی طرح کچھ چیزوں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ قیامت سے پہلے ان کا ظہور ہوگا ان میں سے کچھ بہت غیر معمولی قسم کی ہیں جو بظاہر اس عام قانون قدرت کے خلاف ہیں جن پر اس دنیا کا نظام چل رہا ھے جیسے سورج کا مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہونا اور دابۃ الارض کا خروج اور دجال کا ظہور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول وغیرہ ان غیر معمولی علامات کا ظہور اس وقت ہوگا جب کہ ہم بہت قریب ہوگی یہ چیزیں گویا قیامت کا پیش خیمہ اور اس کی تمہید ہوں گی۔ ان کو قیامت کی علامات خاصہ اور علامات کو کبری بھی کہا جاسکتا ہے ان کی علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت سے پہلے کچھ ایسی چیزیں ایسے واقعات اور ایسے تغیرات کے ظہور کی اطلاع دی ہے جو اس طرح کی غیر معمولی تو نہیں ہیں لیکن خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک اور زمانہ خیرالقرون کے لحاظ سے مستبعد اور غیر معمولی ہیں اور امت میں ان کا ظہور شر و فساد کی علامت ہے انکو قیامت کی عمومی علامات کہاجا سکتا ہے ذیل میں پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ ارشادات پیش کئے جارہے ہیں جن میں آپ نے دوسری قسم کی چیزوں کا یعنی قیامت کی عمومی علامات کا ذکر فرمایا ہے پہلی قسم یعنی علامات کبری سے متعلق حدیثیں بعد میں پیش کی جائینگی۔ تشریح ..... ہماری اردو زبان میں امانت کا مفہوم بہت محدود ہے لیکن قرآن وحدیث کی زبان میں اس کا مفہوم بہت وسیع ہے اور اپنے اندر عظمت اور اہمیت بھی لیے ہوئے ہیں ہر عظیم اور اہم ذمہ داری کو امانت سے تعبیر کیا جاتا ہے امانت کے مفہوم کی وسعت اور عظمت کو سمجھنے کے لئے آخر سورہ احزاب کی آیت “إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ ..... الاية” پر غور کر لیا جائے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ کی اس حدیث میں امانت کے ضائع کیے جانے کی وضاحت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے کہ ذمہ داریاں ایسے لوگوں کو سپرد کی جائیں جو ان کے اہل نہ ہوں اس میں درجہ بدرجہ ہر طرح کی ذمہ داری شامل ہے حکومت حکومتی مناصب اور عہدے حکومتی اختیارات اسی طرح دینی قیادت و امانت افتاء و قضاء اوقاف کی تولیت اور انکے انتظام وغیرہ کی ذمہ داری اس طرح کی جو بھی بڑی یا چھوٹی ذمہ داری نااہلوں کے سپرد کی جائے گی تو یہ امانت کی اضاعت اور اجتماعی زندگی کی شدید معصیت ہے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرب قیامت کی نشانی بتلایا ہے۔ اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو ارشاد ہے اگرچہ وہ ایک اعرابی سائل کے جواب میں ہے لیکن عام امتیوں کے لئے اس کا یہ پیغام اور سبق ہے کہ امانت کی حفاظت کی اہمیت کو محسوس کرو اس کا حق ادا کرو ہر درجہ کی ہر نوع کی ذمہ داریاں ان افراد کے سپرد کرو جو ان کے اہل ہیں اس کے خلاف کرو گے تو امانت کی اضاعت کے مجرم ہو گے اور خدا کے سامنے اس کی جواب دہی کرنی ہوگی۔

【2】

قیامت کی عمومی نشانیاں

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا قیامت سے پہلے کچھ کذاب لوگ ہوں گے تم کو چاہیے کہ ان سے پرہیز کرو۔ (صحیح مسلم) تشریح “کذابین” سے یہاں مراد وہ لوگ ہیں جن کا جھوٹ غیر معمولی قسم کا ہو اور اسکا تعلق دین سے ہو جیسے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے اور جھوٹی حدیثیں گھڑنے والے اور جھوٹے قصے گھڑ کے اپنی بدعات و خرافات ہو رواج دینے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ میرے بعد قیامت سے پہلے ایسے لوگ ہوں گے اور تم کو گمراہ کرنے کی کوشش کریں گے میرے امتیوں کو چاہیے کے ان سے ہوشیار اور دور ہیں اور ان کے جال میں نہ پھنسیں جیساکہ معلوم ہے عہد نبوی سے اب تک سینکڑوں مدعیان نبوت بھی پیدا ہوئے جن میں سب سے پہلا یمامہ کا مسیلمہ کذاب تھا اور ہماری معلومات کے لحاظ سے آخری غلام احمد قادیانی، جاری اس طرح مہدویت کہ مدعی بھی پیدا ہوتے رہے اور بہت سی گمراہ کن دعوتوں کے داعی اور قائد بھی یہ سب ان کذابین میں شامل ہیں جن کی اطلاع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں دی ہے اور ان سے دور رہنے کی تاکید فرمائی ہے۔

【3】

قیامت کی عمومی نشانیاں

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب غنیمت کو بنایا جانے لگے ذاتی دولت اور امانت کو مال غنیمت اور زکوٰۃ کو تاوان اور علم حاصل کیا جانے لگے دین کے علاوہ (دنیوی) دوسری اغراض کیلئے اور لوگ فرمابرداری کریں اپنی بیوی کی اور نافرمانی کریں اپنی ماں کی اور اپنے سے لگائیں دوستوں کو اور دور کریں باپ کو اور بلند ہو آوازیں مسجدوں میں اور قبیلہ کی سرداری کرے ان میں کا فسق اور قوم کا لیڈر ایسا شخص ہو جو ان میں سب سے کمینہ ہوں اور جب کسی آدمی کا اکرام کیا جائے اس کے شر کے ڈر سے اور (پیشہ ور) گانے والیاں اور باجے گاجے عام ہوں اور شرابیں پی جائیں اور امت کے بعد والے اس کے اگلوں پر لعنت کریں تو اس وقت انتظار کرو سرخ آندھیوں کا اور زلزلوں کا اور زمین میں دھنسائے جانے کا اور صورتیں مسخ کئے جانے کا اور پتھر برسنے کا اور (ان کے علاوہ اس طرح کی) اور نشانیوں کا جو پے در پے اس طرح آئینگی جس طرح ایک ہار ہو کاٹ دیا گیا ہو اس کا دھاگا تو پے در پے گریں اس کے دانے۔ (جامع ترمذی) تشریح اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیامت سے پہلے پیدا ہونے والی پندرہ خرابیوں کا ذکر فرمایا ہے پہلی یہ کہ مال غنیمت جو دراصل مجاہدین اور غازیوں کا حق ہے اور جس میں فقراء و مساکین کا بھی حصہ ہے ارباب اختیار اس میں ذاتی دولت کی طرح تصرف کرنے لگیں گے دوسری یہ کہ لوگ حکومت کو زکوة خوش دلی سے ادا نہیں کریں گے بلکہ اس کو ایک طرح کا تاوان سمجھیں گے (1) تیسری یہ کہ علم دین جو دین ہی کے لئے اور اپنی آخرت ہی کے لیے حاصل کیا جانا چاہئے وہ غیر دینی اغراض کے لئے یعنی دنیوی منافع اور مقاصد کے لئے حاصل کیا جانے لگے گا چوتھی اور پانچویں یہ کہ لوگ اپنی بیویوں کی تابعداری اور نازبرداری کریں گے اور ماؤں کے ساتھ ان کا رویہ نافرمانی اور ایذارسانی کا ہوگا اور چھٹی اور ساتویں یہ کہ یار دوستوں کو گلے لگایا جائے گا اور باب دھتکارہ جائے گا اور اس کے ساتھ بدسلوکی کی جائے گی آٹھویں یہ کہ مسجد جو خانہ خدا ہیں اور از راہ ادب ان میں بلا ضرورت زور سے بولنا منع ہے ان کا ادب و احترام نہیں رہے گا ان میں آوازیں بلند ہوں گی اور شوروہنگامہ ہوگا نویں یہ کہ قبیلوں کی سیادت و قیادت فاسقوں فاجروں کے ہاتھ میں آجائے گی دسویں یہ کہ قوم کے ذمہ دار وہ ہوں گے جو ان میں سب سے زیادہ کمینے ہوں گے گیارہویں یہ کہ شریر آدمیوں کی شرارت اور اور شیطنت کے خوف سے ان کا اکرام و اعزاز کیا جائے گا بارہویں اور تیرہویں یہ کہ پیشہ ور گانے والیوں کی اور معازف و مزامیر یعنی باجوں گاجوں کی (اور ان سے دل بہلانے والوں کی) کثرت ہوگی چودھویں یہ کہ شرابیں خوب پی جائیں گی۔ اورپندرہویں یہ کہ امت میں بعد میں آنے والے لوگ امت کے پہلے طبقہ کو اپنی لعنت و بدگوئی کا نشانہ بنائیں گے آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب امت میں یہ خرابیاں پیدا ہو جائیں تو انتظار کرو گے خداوندی قہر ان شکلوں میں آئے سرخ آندھیاں اور شدید زلزلے اور آدمیوں کا زمین میں دھنسایا جانا اور ان کی صورتوں کا مسخ ہوجانا اور اوپر سے پتھروں کا برسنا اور ان کے علاوہ بھی خداوندی قہر وجلال کی نشانیاں جو اس طرح لگاتار اور پے در پے ظاہر ہوں گی جس طرح ہار کا دھاگا ٹوٹ جانے کی وجہ سے اس کے دانے لگاتار گرتے ہیں۔ بظاہر حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب یہ خرابیاں امت میں اور مسلم معاشرے میں بہت عام ہوجائیں گی تو خداوندی قہر و جلال ان شکلوں میں ظاہر ہوگا۔

【4】

قیامت کی عمومی نشانیاں

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت نہیں آئے گی جب تک کہ (ایسا وقت نہ آجائے کہ) غیرمعمولی بہتات ہو مال کی اور وہ بہا بہا پھرے یہاں تک کہ (حالت یہ ہو جائے کہ) ایک آدمی اپنے مال کی زکوۃ نکالے اور وہ نہ پا سکے کوئی ایسا (فقیر مسکین صاحب حاجت) جو زکوۃ کو اس سے قبول کرے اور ہوجائے عرب کی زمین (جس کا بڑا حصہ آج بے آب و گیاہ ہے) سرسبز چراگاہوں اور نہروں کی شکل میں۔ (صحیح مسلم) تشریح گزشتہ نصف صدی کے اندر اندر عرب ملکوں میں پیٹرول کی دریافت کے بعد جو انقلاب آیا ہے اور دولت کی ریل پیل ہے اور چٹیل میدانوں اور ریگستانوں کو کشت زار اور باغ و بہار میں تبدیل کرنے اور نہریں نکالنے کی جو کوششیں ہو رہی ہیں یقینا یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا مصداق ہیں جس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا اس وقت اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا لیکن اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر منکشف فرمایا تھا کہ ایک وقت ایسا انقلاب آئے گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ارشاد میں امت کو اس کی اطلاع دی تھی صحابہ کرام نے صرف سنا تھا اور ہمارے زمانہ میں آنکھوں سے دیکھا جا رہا ہے بلاشبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس طرح کی اطلاعات آپ کا معجزہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی دلیل ہیں۔

【5】

قیامت کی عمومی نشانیاں

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک کہ (یہ واقعہ نہ ہوجائے کہ) ایک (غیر معمولی قسم کی) آگ اٹھے گی حجاز کی سرزمین سے جو روشن کردی گی شہر بصرہ میں اونٹوں کی گردنوں کو۔ (صحیح بخاری و مسلم) تشریح دنیا میں واقع ہونے والے جو غیر معمولی حوادث اللہ تعالی کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر منکشف کئے گئے تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ایک وقت پر سرزمین حجاز سے ایک انتہائی غیر معمولی قسم کی آگ نمودار ہوگی جو اللہ تعالی کی قدرت کے عجائبات میں سے ہو گی۔ اس کی روشنی ایسی ہوگی کہ سینکڑوں میل دور ملک شام کے شہر بصرہ کے اونٹ اور ان کی گردنیں اس روشنی میں نظر آئیں گی اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ وسلم نے اسی کی اطلاع دی ہے۔ حجاز اس وسیع علاقہ کا نام ہے جس میں مکہ معظمہ، مدینہ منورہ، جدہ، طائف، رابغ وغیرہ شہر واقع ہیں اور بصرہ ملک شام کا ایک شہر تھا دمشق سے تقریبا تین منزل کی مسافت پر صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے شارحین حافظ ابن حجر علامہ عینی اور امام نووی وغیرہ اکثر شارحین حدیث نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیشن گوئی کا مصداق وہ آگ تھی جو ساتویں صدی ہجری کے وسط میں مدینہ منورہ کے قریب سے نمودار ہونی شروع ہوئی پہلے تین دن شدید زلزلہ کی کیفیت رہی اس کے بعد ایک نہایت وسیع و عریض علاقے میں آگ نمودار ہوئی اس آگ میں بادل کیسی گرج اور کڑک بھی تھی۔ لکھا ہے کہ آگ ایسی تھی کہ معلوم ہوتا تھا کہ آگ کا ایک بہت بڑا شہر ہے وہ جس پہاڑ پر سے گزرتی وہ چور چور ہو جاتا ہے یا پگل جاتا یہ آگ اگرچہ مدینہ منورہ سے فاصلے پر تھی لیکن اس کی روشنی سے مدینہ منورہ کی راتوں میں دن کاسا اجالا رہتا تھا لوگ اس میں وہ سب کام کر سکتے تھے جو دن کے اجالے میں کیے جاتے ہیں اس کی روشنی سینکڑوں میل دور تک پہنچتی تھی یما مہ اور بصرہ تک پہنچتی دیکھی گئی۔ یہ بھی لکھا ہے کہ اس آگ کے عجائبات میں سے یہ بھی تھا کہ وہ پتھروں کو تو جلا کر راکھ کر دیتی تھی لیکن درختوں کو نہیں جلاتی تھی لکھا ہے کہ یہ آگ شروع جمادی الاخریٰ سے اواخر رجب تک قریبا پونے دو مہینے تک رہی لیکن مدینہ منورہ اس سے نہ صرف یہ کہ محفوظ رہا بلکہ ان دنوں میں وہاں نہایت خوشگوار ٹھنڈی ہوائیں چلتی رہیں۔ بلاشبہ یہ آگ اللہ تعالی کی قدرت اور اس کی شان قہر و جلال کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ساڑھے چھ سو برس پہلے اس کی اطلاع دی تھی۔

【6】

قیامت کی علامات کبریٰ: آفتاب کا جانب مغرب سے طلوع، دابۃ الارض کا خروج، دجال کا فتنہ، حضرت مہدی کی آمد، حضرت مسیحؑ کا نزول

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرما رہے تھے کہ قیامت کی نشانیوں سے سب سے پہلے جس کا ظہور ہوگا وہ آفتاب کا طلوع ہونا ہے مغرب کی طرف سے اور لوگوں کے سامنے چاشت کے وقت دابۃ الارض کا برآمد ہونا اور دونوں میں سے جو بھی پہلے ہو دوسری اس کے بعد متصلا ہوگی۔ (صحیح مسلم) تشریح ظاہر ہے کہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا تھا اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر اتنا ہی منکشف کیا گیا تھا کہ قیامت کی علامات کبریٰ میں سے سب سے پہلے ان دو غیر معمولی اور خارق عادت واقعات کا ظہور ہوگا ایک یہ کہ آفتاب جو ہمیشہ مشرق سے طلوع ہوتا ہے وہ ایک دن جانب مغرب سے طلوع ہوگا اور دوسرے یہ کہ ایک عجیب و غریب جانور (دابۃ الارض) کا خارق عادت سے ظہور ہوگا اس وقت تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ منکشف نہیں فرمایا گیا تھا کہ ان میں سے کون سا واقعہ پہلے ہوگا اور کون بعد میں اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان میں سے جو بھی پہلے ہو دوسرا اس کے بعد متصلا ہی ہوگا گویا یہ دونوں واقعے ساتھ ساتھ ہوں گے۔ “دابۃ الارض” کے خروج کا ذکر قرآن مجید (سورہ نحل کی آیت نمبر 82) میں بھی فرمایا گیا ہے اس کے بارے میں بہت سی بے اصل باتیں عوام میں مشہور ہیں اور تفسیر کی بعض کتابوں میں بھی اس سے متعلق رطب ویابس روایتیں لکھ دی گئی ہیں لیکن قرآن پاک کے ظاہری الفاظ اور قابل اعتبار روایات سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ یہ زمین پر چلنے اور دوڑنے والا جانور ہوگا جس کو اللہ تعالیٰ خارق عادت طریقہ سے زمین سے پیدا فرمائے گا (جس طرح حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی اللہ تعالی نے پہاڑ کی ایک چٹان سے پیدا فرمائی تھی) اور وہ بحکم خداوندی انسانوں کی طرح کلام کرے گا اور ان پر اللہ تعالی کی حجت قائم کرے گا بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مکہ مکرمہ کی صفا پہاڑی سے برآمد ہوگا۔ یہ دونوں واقعات جن کا اس حدیث میں ذکر ہے (آفتاب کا بجائے مشرق کے جانب مغرب سے طلوع ہو جانا اور کسی جانور (‏دابۃ الارض) کا توالدوتناسل کے عام معروف طریقہ کے بجائے زمین سے برآمد ہونا) بظاہر اس نظام قدرت کے خلاف ہے جو اس دنیا کا عام نظام ہے اس لئے ایسے کم فہموں کو جو اللہ تعالی کی قدرت کی وسعت سے آشنا نہیں ہیں ان کے بارے میں شک شبہ ہوسکتا ہے لیکن ان کو سمجھنا چاہیے کہ یہ سب اس وقت ہوگا جب دنیا کا وہ نظام جس پر یہ دنیا چل رہی ہے ختم کیا جائے گا اور قیامت کا دور شروع ہوگا اور زمین و آسمان بھی فنا کر دیے جائیں گے اور دوسرا عالم برپا ہوگا پھر تو وہ سب کچھ سامنے آئے گا جو ہماری اس دنیا کے نظام سے بالکل مختلف ہوگا۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ قیامت کی “علامات خاصہ” اور “علامات کبری” بھی دو طرح کی ہیں بعض وہ ہیں جن کا ظہور قیامت کے بالکل قریب میں ہوگا گویا ان علامات کے ظہور ہی سے قیامت کی شروعات ہو جائے گی جس طرح صبح صادق کی نمودن کی آمد کی علامت ہوتی ہے اور اسی سے دن کی آمد شروع ہوجاتی ہے یہ دونوں علامتیں جن کا اس حدیث میں ذکر ہے اسی قبیل سے ہیں اور اس قبیل کی علامتوں میں سب سے پہلے انہی کا ظہور ہوگا اور ان کا ظہور گویا اس کا اعلان ہوگا کہ یہ دنیا اللہ تعالی کے حکم سے اب تک جس نظام پر چل رہی تھیں اب وہ ختم ہوگیا اور قیامت کا دور اور دوسرا نظام شروع ہوگیا ..... اور قیامت کی “علامات کبریٰ” میں سے بعض وہ ہیں جن کا ظہور قیامت سے کچھ مدت پہلے ہوگا اور وہ قرب قیامت کی علامات ہوں گے دجال کا خروج اور حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول (جن کا ذکر آگے درج ہونے والی حدیثوں میں آرہا ہے) قیامت کی اس قسم کی علامات میں سے ہے۔

【7】

قیامت کی علامات کبریٰ: آفتاب کا جانب مغرب سے طلوع، دابۃ الارض کا خروج، دجال کا فتنہ، حضرت مہدی کی آمد، حضرت مسیحؑ کا نزول

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ (قیامت کی نشانیوں میں سے) تین وہ ہیں جن کے ظہور کے بعد کسی ایسے شخص کو جو پہلے ایمان نہیں لایا تھا اور ایمان کے ساتھ عمل صالح نہیں کیا تھا اس کا ایمان لانا (اور نیک عمل کرنا) کوئی نفع نہیں پہنچائے گا (اور کچھ کام نہ آئے گا) آفتاب کا طلوع ہونا مغرب کی جانب سے اور دجال کا ظاہر ہونا اور دابۃ الارض کا برآمد ہونا۔ (صحیح مسلم) تشریح ان تینوں نشانیوں کے ظہور کے بعد یہ بات کھل کر سب کے سامنے آجائے گی کہ اب دنیا کے نظام کے درہم برہم ہونے کا اور قیامت کا وقت قریب آگیا اس لئے اس وقت ایمان لانا یا گناہوں سے توبہ کرنا یا صدقہ خیرات جیسا کوئی نیک کام کرنا جو پہلے نہیں کیا گیا تھا ایسا ہوگا جیسا کہ موت کے دروازے پر پہنچ کر اور غیبی حقائق کا مشاہدہ کرکے کوئی ایمان لائے یا گناہوں سے توبہ کرے یا صدقہ خیرات جیسا کوئی نیک کام کریں اس لئے اس کا اعتبار نہ ہوگا اور وہ کام نہ آئے گا۔

【8】

قیامت کی علامات کبریٰ: آفتاب کا جانب مغرب سے طلوع، دابۃ الارض کا خروج، دجال کا فتنہ، حضرت مہدی کی آمد، حضرت مسیحؑ کا نزول

حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرماتے تھے کہ حضرت آدم کی پیدائش سے لے کر قیامت آنے تک کوئی امر (کوئی واقعہ اور حادثہ) دجال کے فتنہ سے بڑا اور سخت نہ ہوگا۔ (صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السّلام کی تخلیق سے اب تک اور اب سے قیامت تک اللہ کے بندوں کے لیے جو بے شمار فتنے پیدا ہوئے اور ہونگے دجال کا فتنہ ان میں سب سے عظیم و شدید ہوگا اور بندگان خدا کے لیے اس میں سخت ترین آزمائش ہوگی اللہ تعالی ایمان پر قائم رکھے اور ایمان کے ساتھ اٹھائے۔

【9】

قیامت کی علامات کبریٰ: آفتاب کا جانب مغرب سے طلوع، دابۃ الارض کا خروج، دجال کا فتنہ، حضرت مہدی کی آمد، حضرت مسیحؑ کا نزول

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کیا میں دجال کے فتنہ کے بارے میں تم کو ایک ایسی بات نہ بتلاوں جو کسی پیغمبر نے اپنی امت کو نہیں بتلائی (سنو) وہ کانا ہوگا (اس کی آنکھ میں انگور کے دانے کی طرح ناخنہ پھولا ہوگا) اور اسکے ساتھ ایک چیز ہو گی جنت کی طرح اور ایک دوزخ کی طرح، پس وہ جس کو جنت بتائے گا وہ فی الحقیقت دوزخ ہوگی اور میں تم کو دجال کے بارے میں آگاہی دیتا ہوں جیسی آگاہی اللہ کے پیغمبر نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو دی تھی۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح حدیث کے ذخیرے میں مختلف صحابہ کرامؓ سے دجال سے متعلق اتنی حدیثیں مروی ہیں جن سے مجموعی طور پر یہ بات قطعی اور یقینی طور پر معلوم ہوجاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کے قریب دجال کے ظہور کی اطلاع دی ہے اور یہ کہ اس کا فتنہ بندگان خدا کے لئے عظیم ترین اور شدید ترین فتنہ ہوگا وہ خدائی کا دعوی کرے گا اور اس کے ثبوت میں عجیب و غریب کرشمے دکھائے گا انہی کرشموں میں سے ایک یہ بھی ہو گا کہ اس کے ساتھ جنت کی طرح ایک نقلی جنت اور دوزخ کی طرح ایک نقلی دوزخ ہوگی اور حقیقت یہ ہوگی کہ جس کو وہ جنت بتلائے گا وہ دوزخ ہوگی۔ اور اسی طرح جس کو وہ دوزخ کہے گا وہ درحقیقت جنت ہوگی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دجال کے ساتھ والی یہ دوزخ اور جنت صرف اس کی جادوگری شعبدہ بازی اور نظر فریبی کا نتیجہ ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ جس طرح اللہ تعالی نے اپنی خاص حکمت سے ہماری آزمائش کے لیے شیطان پیدا فرمایا ہے اور دجال پیدا فرمائے گا اسی طرح دجال کے ساتھ والی جنت اور دوزخ بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائی ہو اسی کے ساتھ اس کی دجالیت اور کذابیت کی ایک کھلی علامتی یہ ہوگی کہ وہ آنکھ سے کانا ہوگا اور صحیح روایات میں ہے کہ اس کی آنکھ میں انگور کے دانے جیسا پھولا ہوگا جو سب کو نظر آئے گا اس کے باوجود بہت سے خدا نا آشنا جو ایمان سے محروم ہونگے یا جو بہت ضعیف الایمان ہونگے اس کی شعبدہ بازیوں اور استدراجی کرشموں سے متاثر ہوکر اس کی خدائی کے دعوے کو مان لیں گے اور جن کو ایمان کی حقیقت نصیب ہوگی ان کے لئے دجال کا ظہور اور اس کے خارق عادت کرشمے ایمان و یقین میں مزید ترقی اور اضافہ کا ذریعہ بنیں گے وہ اس کو دیکھ کر کہیں گے کہ یہی وہ دجال ہے جس کی خبر ہمارے پیغمبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی اس طرح دجال کا ظہور ان کے لیے ترقی درجات کا وسیلہ بنے گا۔ دجال کے ہاتھ پر ظاہر ہونے والے خوارق جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا قیامت سے پہلے دجال کے ظہور سے متعلق حدیث نبوی کے ذخیرہ میں اتنی روایتیں ہیں جن کے بعد اس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی کہ قیامت سے پہلے دجال کا ظہور ہوگا اسی طرح ان روایات کی روشنی میں اس میں بھی کسی شبہ کی گنجائش نہیں رہتی کہ وہ خدائی کا دعویٰ کرے گا اور اس کے ہاتھ پر بڑے غیر معمولی اور محیرالعقول قسم کے ایسے خارق عادت امور ظاہر ہونگے جو بظاہر مافوق الفطرت اور کسی بشر اور کسی بھی مخلوق کی طاقت و قدرت سے باہر اور بالاتر ہوں گے مثلا یہ کہ اس کے ساتھ جنت اوردوزخ ہوگی (جس کا مندرجہ بالا حدیث میں بھی ذکر ہے) اور مثلا یہ کہ وہ بادلوں کو حکم دے گا کہ بارش برسے اور اس کے حکم کے مطابق اسی وقت بارش ہوگی اور مثلا یہ کہ وہ زمین کو حکم دے گا کہ کھیتی اگے اور اسی وقت زمین سے کھیتی اگتی نظر آئے گی اور مثلا یہ کہ جو خدا نا شناس اور ظاہر پرست لوگ اس طرح کے خوارق دیکھ کر اس کو خدا مان لیں گے ان کے دنیوی حالات بظاہر بہت ہی اچھے ہو جائیں گے اور وہ خوب پھولتے پھیلتے نظر آئیں گے اور اس کے برخلاف جو مومنین صادقین اسکے خدائی کے دعوے کو رد کر دیں گے اور اس کو دجال قرار دینگے بظاہر ان کے دنیوی حالات بہت ہی ناسازگار ہوجائیں گے اور وہ فقر و فاقے میں اور طرح طرح کی تکلیفوں میں مبتلا نظر آئیں گے اور مثلا یہ کہ وہ ایک اچھے طاقتور جوان کو قتل کرکے اس کے دو ٹکڑے کر دے گا اور پھر وہ اس کو اپنے حکم سے زندہ کر کے دکھا دے گا اور سب دیکھیں گے کہ وہ جیسا تندرست و توانا جوان تھا ویسا ہی ہو گیا الغرض حدیث کی کتابوں میں دجال کے ہاتھ پر ظاہر ہونے والے اس طرح کے محیر العقول خوارق کی روایتیں بھی اتنی کثرت سے ہیں کہ اس بارے میں بھی کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی کہ اس کے ہاتھ پر اس طرح کے خوارق ظاہر ہونگے اور یہی بندوں کے لیے امتحان اور آزمائش کا باعث ہوں گے۔ اس طرح کے خوارق اگر انبیاء علیہ السلام کے ہاتھ پر ظاہر ہوں تو ان کو معجزہ کہا جاتا ہے جیسے حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیؑ وغیرہ انبیاء کرام کے وہ معجزات جن کا ذکر قرآن مجید نے بار بار فرمایا گیا ہے، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ شق القمر اور دوسرے معجزات جو حدیثوں میں مروی ہیں اور اگر ایسے خوارق انبیاء علیہ السلام کے متبعین مومنین صالحین کے ہاتھ پر ظاہر ہوں تو ان کو کرامت کہا جاتا ہے جیسے کہ قرآن پاک میں اصحاب کہف کا واقعہ بیان فرمایا گیا ہے اور اس امت محمدیہ کے اولیاء اللہ کے سینکڑوں بلکہ ہزاروں واقعات معلوم و معروف ہیں اور اگر اس طرح کے خوارق کسی کافر و مشرک یا فاسق و فاجر داعی ضلالت کے ہاتھ پر ظاہر ہوں تو ان کو استدراج کہا جاتا ہے دجال کے ہاتھ پر جو خوارق ظاہر ہونگے وہ استدراج ہی کے قبیل سے ہیں۔ اللہ تعالی نے اس دنیا کو دارالامتحان بنایا ہے انسان میں خیر کی بھی صلاحیت رکھی گئی ہے اور شر کی بھی اور ہدایت اور دعوت الی الخیر کے لیے انبیاء علیہم السلام بھیجے گئے اور ان کے نائبین کی قیامت تک یہ خدمت انجام دیتے رہیں گے اور اضلال اور دعوت شر کیلئے شیطان اور انسانوں اور جنات میں سے اس کے چیلے چانٹے بھی پیدا کیے گئے جو قیامت تک اپنا کام کرتے رہیں گے بنی آدم میں خاتم النبین سیدنا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ہدایت اور دعوت الی الخیر کا کمال ختم کردیا گیا اب آپ ہی کے نائبین کے ذریعہ قیامت تک ہدایت وارشاد اور دعوت الی الخیر کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اور اضلال اور دعوت شر کا کمال دجال پر ختم ہوگا اور اس لیے اس کو اللہ تعالی کی طرف سے بطور استدراج ایسے غیرمعمولی اور محیرالعقول خوارق دیے جائیں گے جو پہلے کسی داعی ضلال کو نہیں دیئے گئے۔ یہ گویا بندوں کا آخری امتحان ہو گا اور اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ یہ ظاہر فرمائے گا کہ سلسلہ نبوت وہدایت خاص کر خاتم النبیین اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نائبین کی ہدایت وارشاد اور دعوت الی الخیر کی مخلصانہ کوششوں نتیجہ میں وہ صاحب استقامت بندے بھی اس دجالی دنیا میں موجود ہیں جن کے ایمان و یقین میں ایسے محیرالعقول خوارق دیکھنے کے بعد بھی کوئی فرق نہیں آیا بلکہ ان کی ایمانی کیفیت میں اضافہ ہوا اور ان کو وہ مقام صدیقیت حاصل ہوا جو اس سخت امتحان کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا تھا۔

【10】

حضرت مہدی کی آمد ان کے ذریعہ برپا ہونے والا انقلاب

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ (آخری زمانے میں) میری امت پر ان کے ارباب حکومت کی طرف سے سخت مصیبتیں آئیں گی یہاں تک کہ اللہ کی وسیع زمین ان کے لئے تنگ ہوجائے گی اس وقت اللہ تعالی میری نسل میں سے ایک شخص کو کھڑا کرے گا اس کی جدوجہد سے ایسا انقلاب برپا ہوگا کہ اللہ کی زمین جس طرح ظلم و ستم سے بھر گئی تھی اسی طرح عدل وانصاف سے بھر جائے گی آسمان والے بھی اس سے راضی ہوں گے اور زمین کے رہنے والے بھی، زمین میں جو بیج ڈالا جائے گا اسکو زمین اپنے پاس روک کے نہیں رکھے گی بلکہ اس سے جو پودا برآمد ہونا چاہیے وہ برآمد ہوگا (بیج کا ایک دانہ بھی ضائع نہ ہو گا) اور اسی طرح آسمان بارش کے قطرے ذخیرہ بنا کے رکھے گا بلکہ ان کو برسا دے گا (یعنی ضرورت کے مطابق بھرپور بارشیں ہونگی) اور یہ مرد مجاہد لوگوں کے درمیان سات سال کی آٹھ سال یا نو سال زندگی گزارے گا۔ (مستدرک حاکم) تشریح اس موضوع سے متعلق جو احادیث و روایات کسی درجہ میں قابل اعتبار و استناد ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ اس دنیا کے خاتمہ اور قیامت سے پہلے آخری زمانے میں امت مسلمہ پر اس دور کے ارباب حکومت کی طرف سے ایسا شدید و سنگین مظالم ہونگے کہ اللہ کی وسیع زمین ان کے لئے تنگ ہوجائے گی ہر طرف ظلم وستم کا دور دور ہوگا اس وقت اللہ تعالی اس امت میں سے (بعض روایات کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسل سے) ایک مرد مجاہد کو کھڑا کرے گا اس کی جدوجہد کے نتیجہ میں ایسا انقلاب برپا ہوگا کہ دنیا سے ظلم و نا انصافی کا خاتمہ ہوجائے گا ہر طرف عدل و انصاف کا دور دورہ ہوگا نیز اللہ تعالی کی طرف سے اس وقت غیر معمولی برکات کا ظہور ہوگا آسمان سے ضرورت کے مطابق بھرپور بارشیں ہونگی اور زمین سے غیرمعمولی اور خارق عادت پیداوار ہوگی جس مرد مجاہد کے ذریعہ اللہ تعالی یہ انقلاب برپا فرمائے گا (بعض روایات کے مطابق اس کا نام محمد اور اس کے والد کا نام عبداللہ ہوگا مہدی اس کا کب ہوگا) اللہ تعالیٰ ان سے بندوں کی ہدایت کا کام لے گا۔ اس مختصر تمہید کے بعد ناظرین اس سلسلہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا مطالعہ فرمائیں۔ تشریح ..... قریب قریب اسی مضمون کی ایک حدیث حضرت قرہ مزنی رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کی گئی ہے اس میں یہ اضافہ ہے کہ “اِسْمُهُ اِسْمِىْ وَاِسْمُ اَبِيْهِ اِسْمُ اَبِىْ” اس شخص کا نام میرا والا نام (یعنی محمد) ہوگا اور اس کے باپ کانام میرے والد کا نام (عبداللہ) ہو گا یہ حدیث طبرانی کی معجم کبیر اور مسند بزار کے حوالہ سے کنزالعمال میں نقل کی گئی ہے ان دونوں حدیثوں میں مہدی کا لفظ نہیں ہے لیکن دوسری روایات کی روشنی میں یہ متعین ہو جاتا ہے کہ مراد حضرت مہدی ہی ہیں ان کا نام محمد اور مہدی لقب ہوگا۔ اس حدیث میں حضرت مہدی کا زمانہ حکومت سات یا آٹھ یا نو سال بیان فرمایا گیا ہے لیکن حضرت ابوسعیدخدریؓ ہی کی ایک دوسری روایت میں جو سنن ابی داود کے حوالہ سے آگے ذکر کی جائے گی ان کا زمانہ حوکومت صرف سات سال بیان کیا گیا ہے ہوسکتا ہے کہ مندرجہ بالا روایت میں جو “سات یا آٹھ یا نو سال” ہے وہ راوی کا شک ہو۔ واللہ اعلم

【11】

حضرت مہدی کی آمد ان کے ذریعہ برپا ہونے والا انقلاب

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ دنیا اس وقت تک ختم نہ ہوگی جب تک یہ نہ ہوگا کہ میرے اہل بیت میں سے ایک شخص عرب کا مالک اور فرماں روا ہوگا اس کا نام میرے نام کے مطابق (یعنی محمد) ہوگا۔ تشریح اس حدیث میں بھی مہدی کا لفظ نہیں ہے لیکن مراد حضرت مہدی ہی ہیں اور سنن ابی داود میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہٗ ہی کی ایک روایت میں یہ اضافہ ہے کہ ان کے باپ کانام میرے باپ کے نام کے مطابق (یعنی عبداللہ) ہوگا نیز یہ بھی اضافہ ہے کہ يَمْلأُ الأَرْضَ قِسْطًا وَعَدْلاً كَمَا مُلِئَتْ ظُلْمًا وَجَوْرًا (وہ اللہ کی زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح پہلے وہ ظلم و ناانصافی سے بھری ہوئی تھی) سنن ابی داؤد کی اس روایت سے اور حضرت مہدی سے متعلق دوسری بہت سی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی حکومت پوری دنیا میں ہوگی پس جامع ترمذی کی زیر تشریح روایت میں جو عرب پر حکومت کا ذکر کیا گیا ہے وہ غالبا اس بنیاد پر ہے کہ ان کی حکومت کا اصل مرکز عرب ہی ہوگا دوسری تو جیہ اس کی یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ابتداء میں ان کی حکومت عرب پر ہوگی بعد میں پوری دنیا ان کے دائرہ حکومت میں آجائے گی۔ واللہ اعلم۔

【12】

حضرت مہدی کی آمد ان کے ذریعہ برپا ہونے والا انقلاب

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مہدی میری اولاد میں سے ہوگا روشن اور کشادہ پیشانی بلند بینی وہ بھر دے گا روئے زمین کو عدل و انصاف سے جس طرح وہ بھر گئی تھی ظلم وستم سے وہ سات سال حکومت کرے گا۔ (سنن ابی داؤد) تشریح اس حدیث میں آنکھوں سے نظر آنے والی حضرت مہدی کی دو جسمانی نشانیوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے ایک یہ کہ وہ روشن اور کشادہ پیشانی ہونگے اور دوسرے یہ کہ بلند بینی (کھڑی ناک والے) ہونگے ان دونوں چیزوں کو انسان کی خوبصورتی اور حسن و جمال میں خاص دخل ہوتا ہے اسی لیے خصوصیت سے ان کا ذکر کیا گیا ہے حدیثوں میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو حلیہ مبارک اور سراپا بیان کیا گیا ھے اس میں بھی ان دونوں چیزوں کا ذکر آتا ہے ان دو نشانیوں کے ذکر کا مطلب یہ سمجھنا چاہیے کے وہ حسین و جمیل بھی ہوں گے لیکن ان کی اصل نشانی اور پہچان ان کا یہ کارنامہ ہوگا کہ دنیا سے ظلم و عدوان کا خاتمہ ہوجائے گا اور ہماری یہ دنیا عدل و انصاف کی دنیا ہو جائے گی۔

【13】

حضرت مہدی کی آمد ان کے ذریعہ برپا ہونے والا انقلاب

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ آخری زمانے میں ایک خلیفہ (یعنی سلطان برحق) ہوگا جو (مستحقین کو) مال تقسیم کرے گا اور گن گن کر نہیں دے گا۔ (صحیح مسلم) تشریح ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا مطلب و مدعا صرف یہ ہے کہ آخری زمانہ میں میری امت میں ایک ایسا حاکم و فرمانروا ہوگا جس کے دور حکومت میں اللہ تعالی کی طرف سے بڑی برکت اور مال و دولت کی کثرت اور بہتات ہو گی اور خود اس میں سخاوت ہوگی وہ مال و دولت کو ذخیرہ بنا کے نہیں رکھے گا بلکہ گنتی شمار کے بغیر مستحقین کو تقسیم کرے گا صحیح مسلم ہی کی ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں “يَحْثَى الْمَالُ حَيْثًا وَلَا يَعُدُّهُ عَدًّا” (جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دونوں ہاتھوں سے بھر بھر کے مستحقین کو دے گا اور گنتی شمار نہیں کرے گا) حدیث کے بعض شارحین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ اس حدیث میں جس خلیفہ کا ذکر فرمایا گیا ہے وہ غالبا مہدی ہی ہیں کیوں کہ دوسری احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے زمانے میں اللہ تعالی کی طرف سے غیر معمولی برکات کاظہور ہوگا اور مال و دولت کی فراوانی ہوگی۔ واللہ اعلم۔

【14】

حضرت مہدی کی آمد ان کے ذریعہ برپا ہونے والا انقلاب

ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرماتے تھے کہ مہدی میری نسل سے فاطمہ کی اولاد میں سے ہوگا۔ (سنن ابی داؤد)

【15】

حضرت مہدی کی آمد ان کے ذریعہ برپا ہونے والا انقلاب

ابو اسحاق سبیعی سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے اپنے صاحبزادے حضرت حسن رضی اللہ عنہٗ کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ میرا یہ بیٹا سید (سردار) ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو یہ نام (سید) دیا ہے۔ ضرور ایسا ہوگا کہ اس کی نسل سے ایک مرد خدا پیدا ہوگا جس کا نام تمہارے نبی والا نام (یعنی محمد) ہوگا وہ اخلاق و سیرت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت مشابہ ہوگا اور جسمانی بناوٹ میں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیادہ مشابہ نہ ہوگا پھر حضرت علی رضی اللہ عنہٗ نے بیان فرمایا یہ واقعہ کہ وہ روئے زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ (سنن ابی داؤد) تشریح اس روایت میں ابو اسحاق سبیعی نے (جوتابعی ہیں) حضرت حسنؓ کی نسل سے پیدا ہونے والے جس مرد خدا کے بارے میں حضرت علی کا یہ ارشاد نقل کیا ہے چونکہ وہ امور غیب سے ہے اور سینکڑوں یا ہزاروں برس بعد ہونے والے واقعہ کی خبر ہے اس لئے ظاہر یہی ہے کہ انہوں نے یہ بات صاحب وحی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر ہی فرمائی ہوگی۔ صحابہ کرام کے ایسے بیانات محدثین کے نزدیک حدیث مرفوع (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات) کے حکم میں ہوتے ہیں۔ ان کے بارے میں یہی سمجھا جاتا ہے کہ انہوں نے یہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم ہی سے سنا ہوگا۔ اس روایت میں حضرت علیؓ نے حضرت حسنؓ کے بارے میں یہ جو فرمایا کہ میرا یہ بیٹا سید (سردار) ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یہ نام (سید) دیا تھا بظاہر اس سے حضرت علیؓ کا اشارہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی طرف ہے جو آپ نے حضرت حسنؓ کے بارے میں فرمایا تھا۔ “ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ وَلَعَلَّ اللهَ اَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظْمَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ” (میرا یہ بیٹا سید (سردار) ہیں امید ہے کہ اللہ تعالی اس کے ذریعہ مسلمانوں کے دو بڑے متحارب (برسر جنگ) گروہوں کے درمیان مصالحت کرا دے گا) اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسنؓ کے بارےمیں سید کا استعمال فرمایا ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مہدی حضرت حسن رضی اللہ عنہٗ کی اولاد میں سے ہونگے لیکن بعض دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حضرت حسینؓ کی اولاد میں سے ہوں گے بعض شارحین نے ان دونوں میں اس طرح تطبیق دی ہے کہ وہ والد کی طرف سے حسنی اور والدہ کی طرف سے حسینی ہونگے۔ بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو خوشخبری دی کہ مہدی ان کی اولاد میں سے ہوں گے لیکن یہ روایتیں بہت ہی ضعیف درجہ کی ہیں جو روایتیں کسی درجہ قابل اعتبار ہیں ان سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسل اور حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد میں سے ہوں گے۔ اس موضوع سے متعلق ایک ضروری انتباہ حضرت مہدی سے متعلق احادیث کی تشریح کے سلسلہ میں یہ بھی ضروری معلوم ہوا کہ ان کے بارے میں اہل سنت کے مسلک و تصور اور شیعی عقیدہ کا فرق و اختلاف بھی بیان کردیا جائے کیونکہ بعض شیعہ صاحبان ‏ناواقفوں کے سامنے اس طرح بات کرتے ہیں گویا ظہور مہدی کے مسئلہ پر دونوں فرقوں کا اتفاق ہے حالاں کہ یہ سراسر فریب اور دھوکا ہے۔ اہلسنت کی کتب حدیث میں حضرت مہدی سے متعلق جوروایات ہے (جن میں سے چند ان صفحات میں بھی درج کی گئی ہیں) ان کی بنیاد پر اہل سنت کا تصور ان کے بارے میں یہ ہے کہ قیامت کے قریب ایک وقت آئے گا جب دنیا میں کفر و شیطنت اور ظلم و طغیان کا ایک غلبہ ہو جائے گا کہ اہل ایمان کے لئے اللہ کی وسیع زمین تنگ ہو جائے گی تو اس وقت اللہ تعالی امت مسلمہ ہی میں سے ایک مرد مجاہد کو کھڑا کرے گا (ان کی بعض علامات اور صفات و خصوصیات بھی احادیث میں بیان کی گئی ہیں) اللہ تعالی کی خاص مدد ان کے ساتھ ہوگی ان کی جدوجہد سے کفر و شیطنت اور ظلم و عدوان کا غلبہ دنیا سے ختم ہو جائے گا پورے عالم میں ایمان و اسلام اور عدل و انصاف کی فضا قائم ہوجائے گی اور اللہ تعالی کی طرف سے غیر معمولی طریقہ پر آسمانی اور زمینی برکات کا ظہور ہوگا احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسی زمانے میں دجال کا خروج ہو گا جو ہماری اس دنیا کا سب سے بڑا اور آخری فتنہ اور اہل ایمان کے لیے سخت ترین امتحان ہوگا اس وقت خیر اور شر کی طاقتوں میں آخری درجہ کی کشمکش ہو گی خیر اور ہدایت کے کا قائد و علمبردار حضرت مہدی ہوں گے اور شر اور کفر و طغیان کا علمبردار دجال ہوگا پھر اسی زمانے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہوگا اور انہی کے ذریعہ اللہ تعالی دجال اور اس کے فتنہ کو ختم کرائے گا (نزول مسیح علیہ السلام سے متعلق احادیث انشاءاللہ آگے پیش کی جائینگی وہیں ان کی تشریح کے ساتھ حیات مسیح علیہ السلام اور نزول مسیح علیہ السلام کے مسئلہ پر بھی بقدر ضرورت انشاءاللہ کلام کیا جائے گا) الغرض حضرت مہدی کے بارے میں اہل سنت کا مسلک اور تصور یہی ہے جو ان سطور میں عرض کیا گیا لیکن شیعی عقیدہ اس سے بالکل مختلف ہے اور دنیا کے عجائبات میں سے ہے اور تنہا یہی عقیدہ جو ان کے نزدیک جزو ایمان ہے ارباب دانش کو اثنا عشری مذہب کے بارے میں رائے قائم کرنے کے لئے کافی ہے۔ یہاں تو صرف اہل سنت کی واقفیت کے لئے اجمال و اختصار ہی کے ساتھ اس کا ذکر کیا جا رہا ہے اس کی کسی قدر تفصیل شیعہ مذہب کی کتابوں کے حوالوں کے ساتھ اس عاجز کی کتاب “ایرانی انقلاب امام خمینی اور شیعیت” میں دیکھی جا سکتی ہے۔ مہدی کے بارے میں شیعی عقیدہ شیعوں کا عقیدہ ہے جو ان کے نزدیک جزو ایمان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے بعد سے قیامت تک کے لیے اللہ تعالی نے بارہ امام نامزد کر دئیے ہیں ان سب کا درجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر اور دوسرے تمام نبیوں و رسولوں سے برتر و بالا ہے۔ یہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح معصوم ہیں اور ان کی اطاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہی کی طرح فرض ہے ان سب کو وہ تمام صفات و کمالات حاصل ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے عطا فرمائے تھے بس یہ فرق ہے کہ ان کو نبی یا رسول نہیں کہا جائے گا بلکہ امام کہا جائے گا اور امامت کا درجہ نبوت و رسالت سے بالاتر ہے ان کی امامت پر ایمان لانا اسی طرح نجات کی شرط ہے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر ایمان لانا شرط نجات ہے ان بارہ میں سب سے پہلے امام امیرالمومنین حضرت علیؓ، ان کے بعد ان کے بڑے صاحبزادے حضرت حسنؓ، ان کے بعد ان کے چھوٹے بھائی حضرت حسینؓ، ان کے بعد ان کے بیٹے علی بن الحسین (امام زین العابدین) ان کے بعد اسی طرح ہر امام کا ایک بیٹا امام ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ گیارہویں امام حسن عسکری تھے جن کی وفات 260ھ میں ہوئی شیعہ اثنا عشریہ کا عقیدہ ہے کہ ان کی وفات سے چار پانچ سال پہلے (بااختلاف روایت 255ھ یا 256ھ میں) ان کی فرنگی کنیز (نرگس) کے بطن سے ایک بیٹے پیدا ہوئے تھے جن کو لوگوں کی نگاہوں سے چھپا کر رکھا جاتا تھا کوئی ان کو دیکھ نہیں پاتا تھا اس وجہ سے لوگوں کو (خاندان والوں کو بھی ان کی پیدائش اور ان کے وجود کا علم نہیں تھا) یہ صاحبزادے اپنے والد حسن عسکری کی وفات سے صرف دس دن پہلے (یعنی چار، پانچ سال کی عمر میں) امامت سے متعلق وہ سارے سامان ساتھ لے کر (جو امیر المومنین حضرت علیؓ سے لےکر گیارہویں امام ان کے والد حسن عسکری تک ہر امام کے پاس رہے تھے) معجزانہ طور پر غائب اور اپنے شہر سرمن رای کے ایک غار میں روپوش ہوگئے۔ اس وقت سے وہ اسی غار میں روپوش ہیں انکی غیبوبت اور روپوشی پر اب ساڑھے گیارہ سو برس سے بھی زیادہ زمانہ گزر چکا ہے شیعہ صاحبان کا عقیدہ اور ایمان ہے کہ وہی بارہویں اور آخری امام مہدی ہیں وہی کسی وقت غار سےبرآمد ہونگے اور دوسرے بے شمار معجزانہ اور محیرالعقول کارناموں کے علاوہ مردوں کو بھی زندہ کریں گے اور (معاذاللہ) (حضرت) ابوبکرؓ (حضرت) عمرؓ اور (حضرت) عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہم) کو (جو شیعوں کے نزدیک ساری دنیا کے کافروں، مجرموں، فرعون و نمرود وغیرہ سے بھی بدتر درجہ کے کفار و مجرمین ہیں) ان کی قبروں سے نکال کر اور زندہ کرکے ان کو سزا دیں گے سولی پر چڑھائیں گے اور ہزاروں بار زندہ کر کر کے سولی پر چڑھائیں گے اور اسی طرح ان کے ساتھ دینے والے تمام صحابہ کرامؓ اور ان سے محبت و عقیدت رکھنے والے تمام سنیوں کو بھی زندہ کرکے سزا دی جائے گی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور امیرالمومنین حضرت علیؓ اور تمام ائمہ معصومین اور خاص شیعہ محبین بھی زندہ ہوں گے اور (معاذاللہ) اپنے ان دشمنوں کی سزا اور تعذیب کا تماشہ دیکھیں گے گویا شیعوں کے نزدیک یہ جناب امام مہدی قیامت سے پہلے ایک قیامت برپا کریں گے شیعہ حضرات کی خاص مذہبی اصطلاح میں اس کا نام رجعت ہے اور اس پر بھی ایمان لانا فرض ہے۔ رجعت کے سلسلہ کی شیعی روایات میں یہ بھی ہے کہ جب یہ رجعت ہوگی تو ان جناب مہدی کے ہاتھ پر سب سے پہلے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیعت کریں گے اس کے بعد دوسرے نمبر پر امیرالمومنین حضرت علیؓ بیعت کریں گے اس کے بعد درجہ بدرجہ دوسرے حضرات بیعت کریں گے۔ یہ ہیں شیعہ حضرات کے امام مہدی جن کو وہ القائم، الحجة اور المنتظر کے ناموں سے یاد کرتے ہیں اور غار سے انکے برآمد ہونے کے منتظر ہیں اور جب ان کا ذکر کرتے ہیں تو کہتے ہیں اور لکھتے ہیں عجل الله فرجه (اللہ جلدی ان کو باہر لے آئے) اہل سنت کے نزدیک اول سے آخر تک یہ صرف خرافاتی داستان ہے جو اس وجہ سے گھڑی گئی ہے کہ فی الحقیقت شیعوں کے گیارہویں امام حسن عسکری 260ھ میں لاولد فوت ہوئے تھے ان کا کوئی بیٹا نہیں تھا اور اس سے اثنا عشریہ کا یہ عقیدہ باطل ہوتا ہے کہ امام کا بیٹا ہی امام ہوتا ہے اور بارہواں امام آخری امام ہوگا اور اس کے بعد دنیا کا خاتمہ ہوجائے گا۔ الغرض صرف اس غلط عقیدہ کی مجبوری کی وجہ سے یہ بےتکی داستان گھڑی گئی جو غور و فکر کی صلاحیت رکھنے والے شیعہ حضرات کے لیے آزمائش کا سامان بنی ہوئی ہے۔ افسوس ہے کہ اختصار کے ارادہ کے باوجود مہدی سے متعلق شیعہ عقیدہ کے بیان نے اتنی طوالت ہو گئی لیکن مہدی سے متعلق اہل سنت کے تصور و مسلک اور شیعی عقیدہ کا فرق و اختلاف کو واضح کرنے کے لیے یہ سب لکھنا ضروری سمجھا گیا۔ حضرت مہدی سے متعلق احادیث کی تشریح کے سلسلہ میں یہ ذکر کر دینا بھی مناسب ہے کہ آٹھویں صدی ہجری کے تحقیق اور ناقد وبصیر عالم و مصنف ابن خلدون مغربی نے اپنی معرکۃ الآراء تصنیف مقدمہ میں مہدی سے متعلق قریب قریب ان سب ہی روایات کی سندوں پر مفصل کلام کیا ہے جو اہل سنت کی کتب حدیث میں روایت کی گئی ہیں اور قریبا سب ہی کو مجروح اور ضعیف قرار دیا ہے، (1) اگرچہ بعد میں آنے والے محدثین نے ان کی جرح و تنقید سے پورا اتفاق نہیں کیا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ابن خلدون کی اس جرح و تنقید نے مسئلہ کو قابل بحث وتحقیق بنا دیا ہے۔ والمسئول من الله تعالى هداية الحق والصواب

【16】

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس پاک ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے یقینا قریب ہے کہ نازل ہونگے تم میں (یعنی مسلمانوں میں) عیسی بن مریم عادل حاکم کی حیثیت سے، پھر توڑ دیں گے وہ صلیب کو، اور قتل کر آئیں گے خنزیروں کو اور ختم کردیں گے جزیہ، اور کثرت و بہتات ہو گی مال کی یہاں تک کہ کوئی قبول نہیں کرے گا اس کو تا آنکہ ہوگا اس وقت ایک سجدہ دنیا و ما فیہا سے بہتر پھر کہتے تھے ابوہریرہؓ کہ اگر (قرآن سے اس کا ثبوت چاہو تو) پڑھو (سورہ نساء کی آیت) “وَاِنَّ مِنْ اَهْلِ الْكِتَابِ ..... الاية” (جس کا ترجمہ یہ ہے کہ) “اور سب ہی اہل کتاب عیسی السلام کی موت سے پہلے ان پر ضرور بالضرور ایمان لے آئینگے اور قیامت کے دن وہ ان کے بارے میں شہادت دیں گے”۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح قیامت کی علامات کبری جو احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کے مطابق دنیا کے خاتمہ کے قریب قیامت قائم ہونے سے پہلے ظاہر ہوگی ان میں ایک بہت غیر معمولی واقعہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول بھی ہے ان صفحات میں تو حسب معمول اس موضوع سے متعلق بھی چند ہی حدیثیں پیش کی جائینگی لیکن واقعہ یہ ہے کہ حدیث کی قریبا تمام ہی کتابوں میں مختلف سندوں سے اتنے صحابہ کرامؓ سے نزول مسیح علیہ السلام کی حدیثیں روایت کی گئی ہیں جن کے متعلق (ان کی صحابیت سے قطع نظر کرکے بھی ازروئے عقل و عادت) یہ شبہ نہیں کیا جا سکتا کہ انھوں نے باہم سازش کرکے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ بہتان باندھا ہے کہ آپ نے قیامت سے پہلے آسمان سے حضرت مسیح کے نازل ہونے کی خبر دی تھی اور اسی طرح یہ شبہ بھی نہیں کیا جا سکتا کہ ان سب صحابہ کرام سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سمجھنے میں غلطی ہو گئی ہو گی۔ بہرحال حدیث کے ذخیرہ میں اس مسئلہ سے متعلق جوروایات ہیں ان کو سامنے رکھنے کے بعد ہر سلیم العقل کو اس بات کا قطعی اور یقینی علم ہو جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت سے پہلے حضرت مسیح علیہ السلام کے آسمان سے نازل ہونے کی اطلاع امت کو دی تھی اس کے لیے استاذنا حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیری قدس سرہٗ کے رسالہ “التصریح بما تواتر فی نزول المسیح” کا مطالعہ کافی ہے اس میں صرف اسی مسئلہ سے متعلق حدیث کی کتابوں سے منتخب کرکے ستر (70) سے اوپر حدیثیں جمع کردی گئی ہیں۔ پھر احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ قرآن مجید سے بھی حضرت مسیح علیہ السلام کا آسمان کی طرف اٹھایا گیا جانا اور پھر قیامت سے پہلے اس دنیا میں آنا ثابت ہے اس بارے میں اطمینان حاصل کرنے کے لیے حضرت استاذ قدس سرہٗ کے رسالہ “عقیدۃ الاسلام فی حیوة عیسی علیہ السلام” کا مطالعہ کافی ہوگا۔ (ملحوظ رہے کہ حضرت استاذ قدس سرہ کے یہ دونوں رسالے عربی زبان میں ہیں) اس عاجز راقم سطور کا ایک رسالہ ہے “قادیانی کیوں مسلمان نہیں اور مسئلہ نزول مسیح و حیات مسیح” اس میں قریبا 70 صفحات اسی مسئلہ سے متعلق لکھے گئے ہیں اردو خواں حضرات کو اس کے مطالعہ سے بھی انشااللہ یہ اطمینان و یقین حاصل ہو سکتا ہے کہ قرآن مجید نے اپنے معجزانہ انداز میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری صراحت اور وضاحت کے ساتھ قیامت کے قریب حضرت مسیح علیہ السلام کے نازل ہونے کی خبر دی ہے۔ لیکن چونکہ اس مسئلہ کے بارے میں بہت سے لوگوں کو عقلی شبہات اور وساوس ہوتے ہیں اور قادیانی مصنفین و اہل قلم نے (مرزا غلام احمد قادیانی کے دعوائے مسیحیت کی گنجائش پیدا کرنے کے واسطے) اس موضوع پر چھوٹے بڑے بے گنتی رسائل اور مضامین لکھ کر شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش بھی کی ہے اس لئے مناسب سمجھا گیا ہے کہ اس سلسلہ کی احادیث کی تشریح سے پہلے تمہید کے طور پر کچھ اصولی باتیں عرض کردی جائیں امید ہے کہ ان کے مطالعہ کے بعد انشاءاللہ صاحب ایمان اور سلیم الفہم ناظرین کرام کو اس مسئلہ کے بارے میں وہ اطمینان میں یقین حاصل ہوجائے گا جس کے بعد کسی شبہ اور وسوسہ کی گنجائش نہیں رہے گی۔ واللہ ولی التوفیق۔ مسئلہ نزول مسیح سے متعلق چند اصولی باتیں (1) ..... سب سے پہلی اور اہم بات جس کا اس مسئلہ پر غور و فکر کرتے وقت پیش نظر رکھنا ضروری ہے یہ ہے کہ اس کا تعلق اس ذات سے ہے جس کا وجود ہی عام سنت اللہ اور اس دنیا میں جاری قانون فطرت کے بالکل خلاف ہے یعنی حضرت عیسی بن مریم علیہما السلام اس طرح پیدا نہیں ہوئے جس طرح ہماری اس دنیا میں انسان مرد اور عورت کے ملاپ اور مباشرت کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں (اور جس طرح تمام اولوم العزم پیغمبر اور انکے خاتم وسردار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی پیدا ہوئے تھے) بلکہ وہ اللہ تعالی کی خاص قدرت اور اس کے حکم سے اس کے فرشتہ جبریل امین (روح القدس) کے توسط سے اپنی ماں حضرت مریم صدیقہ کے بطن سے بغیر اس کے کہ ان کو کسی مرد نے چھوا بھی ہو معجزانہ طور پر پیدا کیے گئے اسی لیے قرآن مجید میں ان کو “اللہ کا کلمہ” بھی کہا گیا ہے قرآن مجید نے سورہ آل عمران کی آیت 45، 51 میں اور سورہ مریم کی آیت 19تا 23 میں ان کی معجزانہ پیدایش کا حال تفصیل سے بیان فرمایا ہے (اور انجیل کا بیان بھی یہی ہے اور اسی کے مطابق ساری دنیا کے مسلمانوں اور عیسائیوں کا عقیدہ ہے) ایسی ہی ایک دوسری عجیب بات قرآن مجید نے اس بارے میں یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ اللہ کی قدرت اور اس کے حکم و کلمہ سے معجزانہ طور پر مریم صدیقہ کے بطن سے پیدا ہوئے (جو کنواری تھیں اور ان کا کسی مرد سے نکاح نہیں ہوا تھا) اور وہ ان کو اپنی گود میں لئے بستی میں آئیں اور برادری اور بستی کے لوگوں نے ان کے بارے میں اپنے گندے خیالات کا اظہار کیا اور معاذ اللہ اس نومولود بچے کو ولد الزنا سمجھا تو اسی نومولود بچہ (عیسی بن مریم) نے اللہ کے حکم سے اسی وقت کلام کیا اور اپنے بارے میں اور حضرت مریم علیہا السلام کی باکبازی کے بارے میں بیان دیا۔ (سورہ مریم آیات 27 تا 30) پھر قرآن مجید ہی میں یہ بھی بیان فرمایا گیا ہے کہ اللہ کے حکم سے ان کے ہاتھوں پر انتہائی محیرالعقول معجزے ظاہر ہوئے کہ وہ مٹی کے گوندے سے پرندہ کی شکل بناتے تھے پھر اس پر پھونک مار دیتے تو وہ زندہ پرندہ کی طرح فضا میں اڑجاتا اور مادر زاد اندھوں اور کوڑھیوں پر ہاتھ پھیر دیتے یا دم کر دیتے تو وہ فورا اچھے بھلے ہو جاتے اندھوں کی آنکھیں روشن ہو جاتی اور کوڑھیوں کے جسم پر کوئی اثر اور داغ دھبّہ بھی نہیں رہتا اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ مردوں کو زندہ کرکے دکھا دیتے ان کے ان محیرالعقول معجزوں کا بیان بھی قرآن مجید (سورہ آل عمران اور سورہ مائدہ) میں تفصیل اور وضاحت سے فرمایا گیا ہے اور انجیل میں بھی ان معجزات کا ذکر کچھ اضافہ ہی کے ساتھ کیا گیا اور عیسائی دنیا کا عقیدہ بھی اسی کے مطابق ہے۔ پھر قرآن مجید ہی میں یہ بھی بیان فرمایا گیا ہے کہ جب اللہ تعالی نے ان کو نبوت و رسالت کے منصب پر فائز کیا اور آپ نے اپنی قوم بنی اسرائیل کو ایمان اور ایمانی زندگی کی دعوت دی تو آپ کی قوم کے لوگوں نے ان کو جھوٹا مدعی نبوت قرار دے کر سولی کے ذریعہ سزائے موت دینے کا فیصلہ کیا (1) اور اپنے خیال میں انہوں نے اس فیصلہ کا نفاذ بھی کردیا اور سمجھ لیا کہ ہم نے عیسیٰ کو سولی پر چڑھا کے موت کے گھاٹ اتار دیا لیکن فی الحقیقت ایسا نہیں ہوا۔ (انہوں نے جس شخص کو عیسی سمجھ کر سولی پر چڑھایا وہ دوسرا شخص تھا) عیسیٰ علیہ السلام کو تو وہ یہودی پا ہی نہ سکے اللہ تعالی نے اپنی خاص قدرت سے ان کو آسمان کی طرف اٹھا لیا اور وہ قیامت سے پہلے اللہ کے حکم سے پھر اس دنیا میں آئیں گے اور یہیں وفات پائیں گے اور ان کی وفات سے پہلے اس وقت کے تمام اہل کتاب ان پر ایمان لے آئیں گے اور اللہ تعالیٰ ان سے دین محمدی کی خدمت لے گا اور ان کا نزول ہونا قیامت کی ایک خاص علامت اور نشانی ہو گا۔ (یہ سب سورہ نساء اور سورہ زخرف میں بیان فرمایا گیا ہے۔ پس جو اہل ایمان قرآن پاک کے بیان کے مطابق معجزانہ پیدایش اور ان کے مذکورہ بالا محیرالعقول معجزات پر ایمان لا چکے ہیں ان کو باحکم خداوندی آسمان پر ان کے اٹھا لئے جانے اور اسی کے حکم سے مقرر کیے ہوئے وقت پر آسمان پر نازل ہونے کے بارے میں کیا شبہ ہوسکتا ہے؟ الغرض سب سے پہلی اور اہم بات جس کا اس مسئلہ نزول مسیح پر غور و فکر کرتے وقت پیش نظر رکھنا ضروری ہے وہ حضرت مسیح علیہ السلام کی نرالی شخصیت اور ان کی مذکورہ بالا خصوصیات ہیں جو قرآن کے حوالہ سے سطور بالا میں ذکر کی گئی اور جن میں وہ انسانی دنیا میں منفرد ہیں۔ (2) ...... اسی طرح کی ایک دوسری یہ بات بھی اس مسئلہ پر غور کرتے وقت پیش نظر رکھنی چاہیے کہ عیسی علیہ السلام کا نزول جس کی اطلاع قرآن مجید میں بالاجمال اور رسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں تفصیل اور وضاحت دی گئی ہے اس وقت ہوگا جب کہ قیامت بالکل قریب ہوگی اور اس کی قریب ترین علامات کبری کا ظہور شروع ہو چکا ہوگا۔ مثلا آفتاب کا بجائے مشرق کے مغرب کی جانب سے طلوع ہونا اور دابۃ الارض کا خارق عادت طریقہ پر زمین سے پیدا ہونا اور وہ کرنا جس کا ذکر احادیث میں ہے گویا اس وقت کی قیامت کی صبح صادق ہوچکی ہوگی اور نظام عالم میں تبدیلی کا عمل شروع ہو چکا ہوگا اور لگاتار وہ خوارق و حوادث رونما ہوں گے جن کا آج تصور بھی نہیں کیا جاسکتا (انہی میں سے دجال کا خروج اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول بھی ہوگا) پس عیسی علیہ السلام کے نزول یا دجال کے خروج و ظہور کا اس بنا پر انکار کرنا کہ ان کی جو نوعیت اور تفصیل حدیثوں میں بیان کی گئی ہے وہ ہماری عقل میں نہیں آتی بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ قیامت اور جنت دوزخ کا اس وجہ سے انکار کردیا جائے کہ ان کی جو تفصیلات خود قرآن مجید میں بیان فرمائی گئی ہیں ان کو ہماری عقلیں ہضم نہیں کر سکتی جو لوگ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں ان کی اصل بیماری یہ ہے کہ وہ خداوند قدوس کی معرفت سے محروم اور اس کی قدرت کی وسعت سے ناآشنا ہیں۔ (3) ..... مسئلہ حیات مسیح و نزول مسیح علیہ السلام پر غور کرتے وقت ایک دوسری بات یہ بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ قرآن مجید کے بیان اور ہم مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام ہماری اس دنیا میں نہیں ہیں جہاں کا عام فطری نظام یہ ہے کہ آدمی کھانے پینے کی جیسی ضروریات اور تقاضوں سے بے نیاز نہیں ہوتا بلکہ وہ عالم سماوات میں ہیں جہاں اس طرح کی کوئی ضرورت اور کوئی تقاضا نہیں ہوتا جیسا کہ فرشتوں کا حال ہے حضرت مسیح علیہ السلام اگرچہ ماں کی طرف سے انسانی نسل ہیں لیکن ان کی پیدائش اللہ تعالی کے “کلمہ” سے اسکے فرشتے روح القدس کے توسط سے ہوئی اس لیے وہ جب تک ہمارے انسانی دنیا میں رہے انسانی ضروریات اور تقاضے بھی ان کے ساتھ رہے لیکن جب وہ انسانی دنیا سے عالم سماوات اور عالم ملکوت کی طرف اٹھا لیے گئے تو وہ ان ضروریات اور تقاضوں سے فرشتوں ہی کی طرح بے نیاز ہو گئے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کی ایک کتاب ہے “الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح” (جو دراصل عیسائیوں کے رد میں لکھی گئی ہے) اس میں ایک جگہ گویا اسی سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ حضرت مسیح علیہ السلام جب آسمان پر ہیں تو ان کے کھانے پینے جیسی ضروریات کا کیا انتظام ہے؟ شیخ الاسلام نے تحریر فرمایا ہے : فليست حاله كحالة اهل الارض فى الاكل والشرب واللباس والنوم والغائط والبول ونحو ذالك. (1) ترجمہ : (وہاں آسمان پر) کھانے پینے اور لباس اور سونے کی جیسی ضروریات اور تقاضوں کے معاملہ میں ان کا حال زمین والوں کا سا نہیں ہے (وہاں وہ فرشتوں کی طرح ان چیزوں سے بے نیاز ہیں) امید ہے کہ ان اصولی باتوں کو پیش نظر رکھا جائے تو حضرت مسیح علیہ السلام کی حیات و نزول کے بارے میں وہ شبہات اور وساوس انشاءاللہ پیدا نہیں ہوں گے جو عقلوں کی خامی ایمان کے ضعف اور اللہ تعالی کی قدرت کی وسعت سے ناآشنائی کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں اس تمہید کے بعد نزول مسیح علیہ السلام کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا مطالعہ کیا جائے۔ تشریح ..... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ارشاد میں حضرت مسیح علیہ السلام کا نزول اور ان کے چند اہم اقدامات اور کارناموں کا ذکر فرمایا اور امت کو اس کی اطلاع دی ہے چونکہ یہ مسئلہ غیر معمولی تھا اور بہت سے کوتاہ عقل اور ضعیف الایمان لوگوں کو اس میں شک شبہ ہو سکتا تھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو قسم کے ساتھ ذکر فرمایا سب سے پہلے فرمایا “وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ” (اس خداوند پاک کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے) اس کے بعد مزید تاکید کے لئے فرمایا “لَيُوشِكَنَّ” یقینا قریب ہے) وہ بھی نزول مسیح علیہ السلام کے یقینی اور قطعی ہونے کی ایک تعبیر ہے جس طرح قرآن مجید میں قیامت کے بارے میں فرمایا گیا “اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ” (قیامت قریب ہی ہے) مطلب یہ ہے کہ اس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں سمجھنا چاہیے کہ بس آنے ہی والی ہے بہرحال قسم کے بعد “لَيُوشِكَنَّ” کا مطلب بھی یہی ہے کہ جو اطلاع دی جارہی ہیں وہ قطعی اور یقینی ہے۔ قسم اور “لَيُوشِكَنَّ” کے ذریعہ مزید تاکید کے بعد اطلاع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو اس ارشاد میں دی اس کو واضح اور عام فہم الفاظ میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ یقینا یہ ہونے والا ہے کہ قیامت سے پہلے عیسی بن مریم اللہ کے حکم سے عادل حاکم کی حیثیت سے تم مسلمانوں میں (یعنی اس وقت ان کی حیثیت مسلمانوں ہی میں کے ایک عادل حاکم اور امیر کی ہوگی) اور وہ اپنی حاکمانہ حیثیت سے جو اقدامات کریں گے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ صلیب جو بت پرستوں کے بتوں کی طرح عیسائیوں کا گویا بت بن گئی ہے اور جس پر ان کے انتہائی گمراہ کن اور موجب کفر عقیدہ کفارہ کی بنیاد ہے اس کو توڑ دیں گے توڑ دینے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی جو تعظیم اور ایک طرح کی پرستش عیسائیوں میں ہو رہی ہے اس کو ختم کردیں گے الغرض صلیب شکنی کا مطلب وہی سمجھنا چاہیے جو ہماری زبان میں بت شکنی کا سمجھا جاتا ہے اسی طرح کا ایک دوسرا اقدام ان کا یہ ہوگا کہ خنزیروں کو قتل کر آئیں گے عیسائیوں کی ایک بڑی گمراہی اور دین عیسوی میں ایک بڑی تحریف یہ بھی ھے کہ خنزیر (جو تمام آسمانی شریعتوں میں حرام ہے) اس کو انہوں نے جائز کرلیا ہے بلکہ وہ ان کی مرغوب ترین غذا ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام نہ صرف یہ کہ اس کی حرمت کا اعلان فرما ئیں گے بلکہ اس نسل ہی کو نیست و نابود کر دینے کا حکم دیں گے اس کے علاوہ ان کا ایک خاص اقدام یہ بھی ہو گا کہ وہ جزیہ کے خاتمہ کا اعلان فرما دیں گے (جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں یہ ارشاد فرمایا تو حضرت عیسی علیہ السلام کا یہ فیصلہ اور اعلان اسی کی بنیاد پر ہوگا اپنی طرف سے اسلامی شریعت و قانون میں تبدیلی نہیں ہوگی) آخر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس زمانہ میں مال و دولت کی ایسی کثرت اور بہتات ہوگی کہ کوئی کسی کو دینا چاہے گا تو وہ لینے اور قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہو گا دنیا کی طرف سے بے رغبتی اور اس کے مقابلہ میں آخرت کے اجر و ثواب کی طلب و رغبت اللہ کے بندوں میں اس درجہ پیدا ہوجائے گی کہ دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے اس سب کے مقابلہ میں اللہ تعالی کے حضور میں ایک سجدہ زیادہ عزیز اور قیمتی سمجھا جائے گا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ نے نزول مسیح علیہ السلام سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بیان فرمانے کے بعد فرمایا کہ “فَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ: الخ” مطلب یہ ہے کہ قیامت سے پہلے حضرت مسیح علیہ السلام کے نازل ہونے کا بیان قرآن میں پڑھنا چاہو تو سورہ نساء کی یہ آیت “{وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلاَّ لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ الاية (سورہ نساء ، آیت نمبر ۱۵۹) پڑھو۔

【17】

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے یہ بھی روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تمہارا کیا حال ہوگا اس وقت جب نازل ہونگے تم میں عیسی بن مریم اور امام تمہارے ہونگے تم میں سے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح بظاہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت حالات بہت غیر معمولی ہوگی جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث اور اس موضوع سے متعلق دوسری حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے حدیث کے آخری جز “وَإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ” کا مطلب بظاہر یہ ہے کہ اس وقت عیسی بن مریم کی حیثیت یہ ہوگی کہ (اگلے زمانے کے ایک نبی و رسول ہونے کے باوجود) تم میں کے یعنی تم مسلمانوں کی جماعت کے ایک فرد کی حیثیت سے تمھارے امام اور امیر ہونگے اسی حدیث کی صحیح مسلم کی ایک روایت میں “وَإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ” کی جگہ “فَأَمَّكُمْ مِنْكُمْ” ہے اور اس کے ایک راوی ابن ابی ذئب نے اس کی شرح ان الفاظ میں کی ہے “فَأَمَّكُمْ بِكِتَابِ رَبِّكُمْ عَزَّ وَجَلَّ وَسُنَّةِ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ” یعنی عیسی بن مریم نازل ہونے کے بعد مسلمانوں کے امام و حاکم ہونگے اور وہ امامت و حکومت قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کے مطابق کریں گے اس تشریح کے مطابق اس حدیث میں عیسی علیہ السلام کی امامت سے مراد صرف نماز کی امامت نہیں بلکہ امامت عامہ مراد ہے۔ یعنی امت کی دینی و دنیوی قیادت و سربراہی اور حاکمانہ حیثیت۔ گویا اس وقت وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب و خلیفہ ہوں گے۔

【18】

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میری امت میں ہمیشہ ایک جماعت رہے گی جو حق کیلئے لڑتی رہے گی اور کامیاب رہے گی اسی سلسلہ کلام میں آگے آپ نے فرمایا پھر نازل ہوں گے عیسی بن مریم تو مسلمانوں کے اس وقت کے امیر و امام ان سے کہیں گے کہ آپ نماز پڑھائیے تو عیسی بن مریم فرمائیں گے نہیں (یعنی میں اس وقت امام بن کر نماز نہیں پڑھاوں گا) تمہارے امیر وامام تم ہی میں سے ہیں اللہ تعالی کی طرف سے اس امت کو یہ اعزاز بخشا گیا ہے۔ (صحیح مسلم) تشریح اس حدیث کے پہلے جز میں تو رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے یہ طے ہو چکا ہے کہ میری امت میں ہمیشہ ایک جماعت رہے گی جو حق پر ہو گی اور حق کے لیے حسب حالات و ضرورت دشمنانہ حق سے لڑتی رہے گی اور کامیاب رہے گی حدیث کے شارحین نے لکھا ہے کہ دین حق کی حفاظت و بقا اور فروغ کے لئے یہ لڑائی مسلح جنگ کی صورت میں بھی ہوسکتی ہے اور زبان و قلم اور دلائل و براہین سے بھی اوردین حق کی اس طرح حفاظت اور اس کے فروغ کی جدوجہد کرنے والے سب ہی باتوفیق بندے دین حق کے سپاہی اور مجاہد کی سبیل الحق ہیں اور بلاشبہ کوئی زمانہ ایسے بندگان خدا سے خالی نہیں رہا اور قیامت تک یہ سلسلہ اسی طرح قائم رہے گا یہ اللہ تعالی کی طرف سے مقدر ہوچکا ہے حدیث کے دوسرے جز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور پیشن گوئی و آگاہی یہ اطلاع دی ہے کہ قیامت کے قریب آخری زمانے میں عیسی بن مریم نازل ہونگے وہ نماز کا وقت ہوگا تو اس وقت مسلمانوں کے جو امام و امیر ہونگے وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے عرض کریں گے کہ آپ تشریف لے آئے اب آپ ہی نمازپڑھائیں اس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام نماز کی امامت کرنے سے انکار کر دیں گے اور فرمائینگے کہ نماز آپ ہی پڑھاؤ اللہ تعالی نے امت محمدیہ کو جو خواص اعزاز بخشا ہے اس کا تقاضہ یہ ہے کہ ان کا امام انہی میں سے ہو۔ سنن ابن ماجہ میں حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے خروج دجال اور نزول مسیح علیہ السلام کے بارے میں ایک طویل حدیث ہے۔ اس میں یہ تفصیل ہے کہ مسلمان بیت المقدس میں جمع ہوں گے (یعنی دجال کے فتنہ سے حفاظت اور اس کے مقابلہ کیلئے مسلمان بیت المقدس میں جمع ہوں گے) فجر کی نماز کا وقت ہوگا اور لوگ نماز کے لیے کھڑے ہوگئے ہوں گے ان کے امام جو ایک مرد صالح ہوں گے (ہو سکتا ہے کہ وہ جناب مہدی ہوں) نماز پڑھانے کے لئے امام کی جگہ کھڑے ہو جائیں گے اور اقامت کہی جا چکی ہوگی اس وقت اچانک عیسیٰ علیہ السلام تشریف لے آئیں گے تو مسلمانوں کے جو امام و امیر نماز پڑھانے کے لئے آگے کھڑے ہو چکے ہونگے وہ پیچھے ہٹنے لگیں گے ان حضرت عیسی السلام سے عرض کریں گے کہ اب نماز پڑھائیں (کیوں کہ بہتر یہی ہے کہ جماعت میں جو سب سے افضل ہو وہی امامت کرے اور نماز پڑھائے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو اگلے زمانے میں اللہ کے نبی و رسول تھے بلاشبہ سب سے افضل ہونگے اس لیے اس وقت کے مسلمانوں کے امام امامت کی مصلے سے پیچھے ہٹ کر ان سے درخواست کریں گے کہ اب جب کہ آپ تشریف لے آئے تو نماز آپ کی پڑھائیں) حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس وقت نماز پڑھانے سے انکار کر دیں گے اور فرمائیں گے کہ نماز آپ ہی پڑھائیں کیونکہ آپ کی اقتداء میں نماز پڑھنے کے لئے اس وقت جماعت کھڑی ہوئی ہے اور اقامت کہی جاچکی ہے بہرحال حضرت عیسی علیہ السلام کے نزول کے بعد یہ پہلی نماز ہوگی اور وہ یہ نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک امتی کے مقتدی بن کر ادا کریں گے اور خود امامت سے انکار فرما دیں گے وہ ایسا اس لئے کریں گے کہ ابتداء ہی میں عمل سے بھی یہ بات ظاہر ہو جائے گی کہ اگلے زمانے کے جلیل القدر نبی و رسول ہونے کے باوجود اس وقت وہ امت محمدیہ کے افراد کی طرح شریعت محمدی کے متبع ہیں اور اب دنیا کے خاتمہ تک شریعت محمدی ہی کا دور ہے۔

【19】

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے اور ان کے ساتھ اپنا خاص تعلق بیان فرماتے ہوئے) ارشاد فرمایا کہ میرے اور ان کے درمیان کوئی پیغمبر نہیں (ان کے بعد اللہ تعالی نے مجھے ہی نبی و رسول بنا کر بھیجا ہے) اور یقینا وہ (میرے دور نبوت میں قیامت سے پہلے) نازل ہونے والے ہیں تم جب ان کو دیکھو تو پہچان لیجیو وہ میانہ قد ہونگے ان کا رنگ سرخی مائل سفید ہوگا وہ زرد رنگ کے دو کپڑوں میں ہونگے ایسا محسوس ہوگا کہ ان کے سر کے بالوں سے پانی کے قطرے ٹپک رہے ہیں اگرچہ سر کو تر نہ کیا گیا ہوگا وہ نازل ہونے کے بعد اسلام کے لیے جہاد و قتال کریں گے وہ صلیب کو پاش پاش کردیں گے اور خنزیروں کو نیست ونابود کرائیں گے اور جزیہ موقوف کردیں گے اور انکے زمانے میں اللہ تعالیٰ اسلام کے سوا سارے ملتوں اور مذہبوں کو ختم کردیں گے اور حضرت مسیح علیہ السلام دجال کا خاتمہ کردینگے، اس کو فنا کر دیں گے پس وہ اس زمین اور اس دنیا میں چالیس سال رہیں گے پھر یہی وفات پائیں گے اور مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے۔ (سنن ابی داؤد) تشریح اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسی السلام کے نزول کی اطلاع کے ساتھ ان کی بعض ظاہری علامتیں بھی بیان فرمائیں ایک یہ کہ نی تو وہ زیادہ دراز قد ہونگے نہ پستہ قد بلکہ میانہ قد ہونگے دوسری یہ کہ ان کا رنگ سرخ و سفید ہوگا تیسری یہ کہ ان کا لباس ہلکے زرد رنگ کے دو کپڑے ہونگے چوتھی یہ کہ دیکھنے والوں کو ایسا محسوس ہوگا کہ ان کے سر کے بالوں سے پانی کے قطرے ٹپک رہے ہیں حالاں کہ ان کے سر پر پانی نہ پڑا ہو گا وہ تو اسی وقت آسمان سے اترے ہونگے مطلب یہ ہے کہ وہ ایسے صاف شفاف ہوں گے اور ان کے سر کے بالوں کی کیفیت ایسی ہوگی کہ ابھی غسل فرما کے تشریف لا رہے ہیں۔ یہ چند ظاہری علامتیں بتلانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خاص اقدامات اور کارناموں کا ذکر فرمایا اس سلسلہ کی پہلی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ لوگوں کو اللہ کے دین حق اسلام کی دعوت دیں گے (جس کی دعوت اپنے اپنے وقت پر اللہ تعالی کی طرف سے آنے والے سب پیغمبروں نے دی ہے) اور ان کا آسمان سے نازل ہو کر دین اسلام کی دعوت دینا اس کے دین حق ہونے کی ایسی روشن دلیل ہوگی جس کے بعد اس کو قبول کرنے سے صرف وہی بدبخت اور سیاہ باطن لوگ انکار کریں گے جن کے دلوں میں حق سے عناد ہوگا اور اس کو قبول کرنے کی گنجائش ہی نہ ہوگی تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان کو بھی دین حق اور اسلام کی نعمت سے بہرہ ور کرنے کے لیے بالآخر طاقت استعمال فرمائیں گے اور جہاد و قتال کریں گے اس کے علاوہ دو اقدام ان کے خاص طور سے ان کے نام لیوا عیسائیوں سے متعلق ہونگے ایک یہ کہ وہ صلیب کو پاش پاش کر دیں گے جس کو عیسائیوں نے اپنا شعار اور گویا معبود بنا لیا ہے اور جس پر ان کے انتہائی گمراہانہ عقیدہ کفارہ کی بنیاد ہے اس کے ذریعہ اس حقیقت کا بھی اظہار ہوگا کہ وہ صلیب پر نہیں چڑھائے گئے اس بارے میں یہودیوں اور عیسائیوں دونوں فرقوں کا عقیدہ غلط باطل ہے حق وہ ہے جس کا اعلان قرآن پاک میں کیا گیا ہے اور جو امت مسلمہ کا عقیدہ ہے۔ اپنے نام لیوا عیسائیوں سے ہی متعلق دوسرا اقدام ان کا یہ ہوگا کہ وہ خنزیروں کو نیست ونابود کرائیں گے جن کو عیسائیوں نے اپنے لئے حلال قرار دے دیا لیا ہے حالانکہ وہ تمام آسمانی شریعتوں میں حرام رہا ہے اس کے بعد حدیث شریف میں عیسی علیہ السلام کے اس اقدام کا ذکر فرمایا گیا ہے کہ وہ جزیہ لینا موقوف اور ختم کردیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرما کر ظاہر فرما دیا کہ ہماری شریعت میں جزیہ کا قانون نزول مسیح کے وقت تک کیلئے ہے جب وہ نازل ہو جائیں گے اور آپ کے خلیفہ کی حیثیت سے امت مسلمہ کے سربراہ اور حاکم ہونگے تو جزیہ کا قانون ختم ہو جائے گا (اس کا ایک ظاہری سبب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے نازل ہونے کے بعد اللہ تعالی کی طرف سے جو غیر معمولی برکات ہوگی تو حکومت کو جزیہ وصول کرنے کی ضرورت ہی نہ رہے گی جو ایک طرح کا ٹیکس ہے) اس کے بعد حدیث شریف میں ان کے دو اہم کا ناموں کا ذکر فرمایا گیا ہے ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ دین حق اسلام کے سوا دوسرے تمام باطل مذہبوں اور ملتوں کو ختم فرما دے گا سب ایمان لے آئینگے اور اسلام قبول کرلیں گے اور دوسرا یہ کہ اللہ تعالی انہی کے ہاتھ سے دجال کو ہلاک کرا کے جہنم واصل کرے گا اور دنیا دجال کے اس فتنہ سے نجات پائے گی جو اس دنیا کا سب سے بڑا فتنہ ہوگا آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ مسیح علیہ السلام نازل ہونے کے بعد اس دنیا اور اس زمین میں چالیس سال رہیں گے اس کے بعد یہیں وفات پائیں گے اور مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے۔ حضرت ابو ہریرہؓ کی یہ حدیث جو سنن ابی داود کے حوالہ سے یہاں نقل کی گئی اور یہاں تک اسکی تشریح کی گئی یہ مسند امام احمد میں بھی ہے اور اس میں کچھ اضافہ ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے بعد اور ان کے زمانہ حکومت و خلافت میں اللہ تعالی کی طرف سے جو خارق عادت برکات ہوں گی ان میں سے ایک یہ بھی ہوگی کہ شیر بھیڑئیے وغیرہ درندوں کی فطرت بدل جائے گی بجائے درندگی کے ان میں سلامتی آجائیگی شیر، چیتے، اونٹوں، گایوں، بیلوں کے ساتھ اسی طرح بھیڑئیے، بکریوں کے ساتھ گھومیں گے، کوئی کسی پر حملہ نہیں کرے گا اسی طرح چھوٹے بچے سانپوں سے کھیلیں گے اور سانپ کسی کو نہیں ڈسے گا اور کسی سے کسی کو ایذا نہیں پہنچے گی یہ خوارق اور درندوں کی فطرت تک میں یہ انقلاب اسکی علامت ہوگا کہ یہ دنیا اب تک جن نظام کے ساتھ چل رہی تھی اب وہ ختم ہونے والا ہے اور قیامت قریب ہے اور اس کے بعد آخرت والا نظام چلنے والا ہے جیسا کہ راقم سطور نے تمہیدی اصولوں کے ضمن میں عرض کیا تھا اس وقت کو روزقیامت کی صبح صادق سمجھنا چاہیے۔ اللہ تعالی کی قدرت کی وسعت پر جس کا ایمان ہو اس کے لئے ان میں سے کوئی بات بھی ناقابل فہم اور ناقابل یقین نہیں۔

【20】

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عیسی بن مریم زمین پر نازل ہونگے وہ یہاں آ کر نکاح بھی کریں گے اور ان کی اولاد بھی ہوگی اور وہ پینتالیس سال رہیں گے پھر ان کی وفات ہوجائے گی وفات کے بعد ان کو میرے ساتھ (اس جگہ جہاں میں دفن کیا جاؤں گا) دفن کیا جائے گا پھر جب قیامت قائم ہوگی تو میں اور عیسی بن مریم ابوبکر و عمر کے درمیان قبر کی اسی جگہ سے اٹھیں گے۔ (کتاب الوفا لابن الجوزی) تشریح اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسی السلام کے نزول کی اطلاع کے ساتھ ان کی بعض ظاہری علامتیں بھی بیان فرمائیں ایک یہ کہ نی تو وہ زیادہ دراز قد ہونگے نہ پستہ قد بلکہ میانہ قد ہونگے دوسری یہ کہ ان کا رنگ سرخ و سفید ہوگا تیسری یہ کہ ان کا لباس ہلکے زرد رنگ کے دو کپڑے ہونگے چوتھی یہ کہ دیکھنے والوں کو ایسا محسوس ہوگا کہ ان کے سر کے بالوں سے پانی کے قطرے ٹپک رہے ہیں حالاں کہ ان کے سر پر پانی نہ پڑا ہو گا وہ تو اسی وقت آسمان سے اترے ہونگے مطلب یہ ہے کہ وہ ایسے صاف شفاف ہوں گے اور ان کے سر کے بالوں کی کیفیت ایسی ہوگی کہ ابھی غسل فرما کے تشریف لا رہے ہیں۔ یہ چند ظاہری علامتیں بتلانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خاص اقدامات اور کارناموں کا ذکر فرمایا اس سلسلہ کی پہلی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ لوگوں کو اللہ کے دین حق اسلام کی دعوت دیں گے (جس کی دعوت اپنے اپنے وقت پر اللہ تعالی کی طرف سے آنے والے سب پیغمبروں نے دی ہے) اور ان کا آسمان سے نازل ہو کر دین اسلام کی دعوت دینا اس کے دین حق ہونے کی ایسی روشن دلیل ہوگی جس کے بعد اس کو قبول کرنے سے صرف وہی بدبخت اور سیاہ باطن لوگ انکار کریں گے جن کے دلوں میں حق سے عناد ہوگا اور اس کو قبول کرنے کی گنجائش ہی نہ ہوگی تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان کو بھی دین حق اور اسلام کی نعمت سے بہرہ ور کرنے کے لیے بالآخر طاقت استعمال فرمائیں گے اور جہاد و قتال کریں گے اس کے علاوہ دو اقدام ان کے خاص طور سے ان کے نام لیوا عیسائیوں سے متعلق ہونگے ایک یہ کہ وہ صلیب کو پاش پاش کر دیں گے جس کو عیسائیوں نے اپنا شعار اور گویا معبود بنا لیا ہے اور جس پر ان کے انتہائی گمراہانہ عقیدہ کفارہ کی بنیاد ہے اس کے ذریعہ اس حقیقت کا بھی اظہار ہوگا کہ وہ صلیب پر نہیں چڑھائے گئے اس بارے میں یہودیوں اور عیسائیوں دونوں فرقوں کا عقیدہ غلط باطل ہے حق وہ ہے جس کا اعلان قرآن پاک میں کیا گیا ہے اور جو امت مسلمہ کا عقیدہ ہے۔ اپنے نام لیوا عیسائیوں سے ہی متعلق دوسرا اقدام ان کا یہ ہوگا کہ وہ خنزیروں کو نیست ونابود کرائیں گے جن کو عیسائیوں نے اپنے لئے حلال قرار دے دیا لیا ہے حالانکہ وہ تمام آسمانی شریعتوں میں حرام رہا ہے اس کے بعد حدیث شریف میں عیسی علیہ السلام کے اس اقدام کا ذکر فرمایا گیا ہے کہ وہ جزیہ لینا موقوف اور ختم کردیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرما کر ظاہر فرما دیا کہ ہماری شریعت میں جزیہ کا قانون نزول مسیح کے وقت تک کیلئے ہے جب وہ نازل ہو جائیں گے اور آپ کے خلیفہ کی حیثیت سے امت مسلمہ کے سربراہ اور حاکم ہونگے تو جزیہ کا قانون ختم ہو جائے گا (اس کا ایک ظاہری سبب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے نازل ہونے کے بعد اللہ تعالی کی طرف سے جو غیر معمولی برکات ہوگی تو حکومت کو جزیہ وصول کرنے کی ضرورت ہی نہ رہے گی جو ایک طرح کا ٹیکس ہے) اس کے بعد حدیث شریف میں ان کے دو اہم کا ناموں کا ذکر فرمایا گیا ہے ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ دین حق اسلام کے سوا دوسرے تمام باطل مذہبوں اور ملتوں کو ختم فرما دے گا سب ایمان لے آئینگے اور اسلام قبول کرلیں گے اور دوسرا یہ کہ اللہ تعالی انہی کے ہاتھ سے دجال کو ہلاک کرا کے جہنم واصل کرے گا اور دنیا دجال کے اس فتنہ سے نجات پائے گی جو اس دنیا کا سب سے بڑا فتنہ ہوگا آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ مسیح علیہ السلام نازل ہونے کے بعد اس دنیا اور اس زمین میں چالیس سال رہیں گے اس کے بعد یہیں وفات پائیں گے اور مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے۔ حضرت ابو ہریرہؓ کی یہ حدیث جو سنن ابی داود کے حوالہ سے یہاں نقل کی گئی اور یہاں تک اسکی تشریح کی گئی یہ مسند امام احمد میں بھی ہے اور اس میں کچھ اضافہ ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے بعد اور ان کے زمانہ حکومت و خلافت میں اللہ تعالی کی طرف سے جو خارق عادت برکات ہوں گی ان میں سے ایک یہ بھی ہوگی کہ شیر بھیڑئیے وغیرہ درندوں کی فطرت بدل جائے گی بجائے درندگی کے ان میں سلامتی آجائیگی شیر، چیتے، اونٹوں، گایوں، بیلوں کے ساتھ اسی طرح بھیڑئیے، بکریوں کے ساتھ گھومیں گے، کوئی کسی پر حملہ نہیں کرے گا اسی طرح چھوٹے بچے سانپوں سے کھیلیں گے اور سانپ کسی کو نہیں ڈسے گا اور کسی سے کسی کو ایذا نہیں پہنچے گی یہ خوارق اور درندوں کی فطرت تک میں یہ انقلاب اسکی علامت ہوگا کہ یہ دنیا اب تک جن نظام کے ساتھ چل رہی تھی اب وہ ختم ہونے والا ہے اور قیامت قریب ہے اور اس کے بعد آخرت والا نظام چلنے والا ہے جیسا کہ راقم سطور نے تمہیدی اصولوں کے ضمن میں عرض کیا تھا اس وقت کو روزقیامت کی صبح صادق سمجھنا چاہیے۔ اللہ تعالی کی قدرت کی وسعت پر جس کا ایمان ہو اس کے لئے ان میں سے کوئی بات بھی ناقابل فہم اور ناقابل یقین نہیں۔ تشریح ..... یہ مسلمات میں سے ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب ہماری دنیا میں تھے تو انہوں نے یہاں پوری زندگی تجرد کی گزاری، نکاح نہیں کیا، حالانکہ نکاح اور تزوج انسان کی فطری ضروریات میں سے ہیں اور اس میں بڑی حکمتیں ہیں اسی لیے جہاں تک معلوم ہے ان سے پہلے اللہ کے تمام پیغمبروں نے اور ان کے بعد آنے والے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نکاح کیا ہے ابن الجوزی کی کتاب الوفاء کی اس روایت سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر زمانے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نازل ہونے کی خبر دیتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ نزول کے بعد کی یہاں کی زندگی میں وہ نکاح بھی کریں گے اور اولاد بھی ہو گی اگے اس روایت میں ان کے قیام کی مدت پینتالیس سال بیان کی گئی ہے اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ کی مندرجہ بالا روایت (جو سنن ابی داود کے حوالہ سے اوپر نقل کی گئی ہے) نزول کے بعد ان کی مدت قیام چالیس سال بتلائی گئی بعض اور روایات میں بھی ان کی مدت قیام چالیس سال ہی بیان فرمائی گئی ہے بعض شارحین نے اس کی توجیہ یہ کی ہے کہ چالیس والی روایات میں اوپر کا عدد حذف کر دیا گیا ہے اور عربی محاورات میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ قصر حذف کر دی جاتی ہے، واللہ اعلم۔ روایت کے آخری حصہ میں یہ بھی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام یہیں وفات پائیں گے اور جہاں میں دفن کیا جاؤں گا وہیں وہ بھی دفن کیے جائیں گے اور جب قیامت قائم ہوگی تو میں اور وہ ساتھ ہی اٹھیں گےاور ابوبکروعمر بھی دائیں بائیں ہمارے ساتھ ہوں گے اس روایت سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مستقبل کی جو بہت سی باتیں منکشف کی گئی تھی جن کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو اطلاع دی، ان میں سے یہ بھی تھی کہ جس جگہ میں دفن کیا جاؤں گا، میرے بعد میرے دونوں خاص رفیق ابوبکر و عمر بھی دفن کئے جائیں گے۔ اور آخری زمانے میں جب عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نازل ہوں گے اور یہیں وفات پائیں گے تو ان کو بھی اس جگہ میرے ساتھ ہی دفن کیا جائے گا اور جب قیامت قائم ہو گی تو ہم دونوں ساتھ اٹھیں گے اور ابوبکر و عمر ہمارے دائیں بائیں ہوں گے۔ معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ شریفہ میں ہوئی تھی اور آپ کے ایک ارشاد کے مطابق اسی جگہ آپ دفن کیے گئے اس کے بعد جب حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہٗ کی وفات ہوئی تو وہ بھی وہیں برابر میں دفن کیے گئے۔ پھر جب حضرت عمر رضی اللہ نہ شہید کئے گئے تو حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہ کی رضا اور اجازت سے وہ بھی وہیں صدیق اکبرؓ کے برابر میں دفن کیے گئے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حجرہ شریفہ میں ایک قبر کی جگہ اس کے بعد بھی باقی رہی پھر سبط اکبر حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی وفات ہوئی تو لوگوں نے چاہا کہ ان کو وہاں دفن کیا جائے۔ ام المومنین حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا نے رضامندی اور اجازت دے دی لیکن اس وقت اموی حکومت کے جو حکام مدینہ منورہ میں تھے وہ مانع ہوئے (غالبا اس وجہ سے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ کو وہاں دفن نہیں کیا گیا) پھر جب حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی (جو عشرہ مبشرہ میں سے تھے) تب بھی یہی ہوا کہ حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ان کی تدفین کی اجازت دے دی لیکن وہ بھی وہاں دفن نہیں کئے جا سکے۔ پھر جب خود ام المومنین حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کے مرض وفات پر ان سے دریافت کیا گیا کہ کیا آپ کو اس جگہ دفن کیا جائے تو انہوں نے فرمایا کہ بقیع میں جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری ازواج مطہرات مدفون ہیں مجھے بھی ان کے ساتھ بقیع ہی میں دفن کیا جائے۔ چنانچہ وہ وہیں دفن کی گئیں بہرحال حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعد روضہ اقدس میں ایک قبر کی جو خالی جگہ رہی تھی وہ خالی ہی ہے اور مندرجہ بالا روایت کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب نازل ہونے کے بعد وفات پائیں گے تو وہیں دفن کئے جائیں گے۔ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور صحابی ہیں۔ یہ پہلے یہودی تھے اور تورات اور قدیم آسمانی صحیفوں کے بہت بڑے عالم تھے۔ امام ترمذی نے اپنی سند کے ساتھ جامع ترمذی میں ان کا یہ بیان روایات کیا ہے جس کو صاحب مشکوة نے بھی ترمذی ہی کے حوالہ سے نقل کیا ہے۔

【21】

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول

عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ تورات میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حال بیان کیا گیا ہے (اس میں یہ بھی ہے) کہ عیسی بن مریم علیہ السلام ان کے ساتھ (یعنی ان کے قریب ہی) دفن کئے جائیں گے۔ تشریح امام ترمذی کی سند میں اس حدیث کے راویوں میں ایک ابو مودود ہیں امام ترمذی نے اس حدیث کے ساتھ ان ابو مودود کا یہ بیان بھی نقل کیا ہے وقد بقی فی البیت موضع قبر (یعنی حجرہ شریفہ میں (جواب روضہ مقدسہ ہے) ایک قبر کی جگہ باقی ہے۔ کیا عجب بلکہ قرین قیاس ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے ایک قبر کی جگہ خالی رہنے کا تکوینی انتظام اسی لئے ہوا ہو کہ اس جگہ حضرت مسیح علیہ السلام کا مدفون ہونا مقدر ہو چکا ہے۔ واللہ اعلم۔

【22】

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے جو کوئی عیسی بن مریم علیہ السلام کو پائے وہ ان کو میرا سلام پہنچائے۔ (مستدرک حاکم) تشریح اس مضمون کی ایک اور حدیث مسند احمد میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کی گئی ہے اور مسند احمد ہی کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابوہریرہؓ لوگوں سے فرمایا کرتے تھے کہ “إِقْرَءُوْهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ السَّلَامَ” (تم لوگ اگر عیسی علیہ السلام کو پاؤ تو ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سلام پہنچائیو) اور مستدرک حاکم میں ایک روایت ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ایک مجلس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد بیان کرنے کے بعد حاضرین مجلس کو مخاطب کرتے ہوئے اپنی طرف سے فرمایا “اے بنى اخى ان رايتموه فقولوا ابو هريرة يقرئك السلام” (اے میرے بھتیجو (1) اگر تم عیسی علیہ السلام کو دیکھو تو میری طرف سے ان سے عرض کیجیو کے ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) نے آپ کو سلام کہا ہے) حضرت مسیح علیہ السلام کے نزول سے متعلق یہاں صرف سات حدیثیں نقل کی گئی ہیں اور ان کی بقدر ضرورت ہی وضاحت اور تشریح کی گئی ہے (جیساکہ اس سلسلہ معارف الحدیث میں راقم السطور کا عام معمول رہا ہے) ابتدائی تمہیدی سطروں میں استاذنا امام العصر حضرت مولانا محمد انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کے رسالہ “التصریح بما تواتر فی نزول المسیح” کا ذکر کیا جاچکا ہے اس میں حضرت استاذ رحمۃ اللہ علیہ نے اس مسئلہ نزول مسیح علیہ السلام سے متعلق تحدیث کی صرف مطبوعہ کتابوں سے مختلف صحابہ کرامؓ کی روایت کی ہوئ پچھتر حدیثیں جمع فرمائیں۔ یہ مختلف اوقات اور مختلف مجلسوں میں فرمائے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری زمانے میں قیامت سے پہلے جبکہ دجال کا خروج ہوگا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لئے عظیم ترین فتنہ ہوگا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نازل ہونے کی اور ان کے ان اہم اقدامات اور کارناموں کی امت کو خبر دی ہے جن کا خاص تعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت سے ہوگا اس رسالہ میں حضرت استاد رحمۃ اللہ علیہ نے احادیث نبویہ کے علاوہ اسی مسئلہ نزول مسیح علیہ السلام سے متعلق حضرات صحابہ و تابعین کے 26 ارشادات بھی حدیث کی کتابوں سے جمع فرما دیئے ہیں اس کتاب کے مطالعہ سے یہ بات آفتاب نیمروز کی طرح سامنے آجاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری زمانے میں حضرت مسیح بن مریم علیہ السلام کے نازل ہونے کی امت کو خبر دینا ایسے تواتر سے ثابت ہے کہ اس میں کسی تاویل اور شک و شبہ کی گنجائش نہیں نیز یہ کہ حضرات صحابہ کرامؓ اور ان کے بعد حضرات تابعین کا عقیدہ بھی یہی تھا اور انہوں نے قرآنی آیات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے یہی سمجھا تھا۔ جاری بلاشبہ حضرت استاذ کا یہ رسالہ اس مسئلہ میں حجت قاطعہ ہے۔ وَلِلهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ