4. کتاب الطہارت
طہارت جزو ایمان ہے
ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کہ طہارت و پاکیزگی جوز ایمان ہے اور کلمہ الحمد للہ میزان عمل کر بھر دیتا ہے اور سبحان اللہ والحمدللہ بھر دیتے ہیں آسمان کو اور زمین کو ، اور نماز نور ہے اور صدقہ دلیل و برہان ہے اور صبر اجالا ہے اور قرآن یا تو حجت ہے تمہارے حق میں یا حجت ہے ہے تمہارے خلاف ، ہر آدمی صبح کرتا ہے پھر وہ اپنی جان کا سودا کرتا ہے پھر یا تو اسے نجات دلا دیتا ہے یا اس کو ہلاک کر دیتا ہے ۔ (صحیح مسلم) تشریح طہارت و پاکیزگی کی حقیقت اور دین میں اس کا مقام اسلام میں طہارت و پاکیزگی کی حیثیت صرف یہی نہیں ہے کہ وہ نماز ، تلاوتِ قرآن اور طوافِ کعبہ جیسی عبادات کے لئے لازمی شرط ہے ، بلکہ قرآن و حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بجائے خود بھی دین کا ایک اہم شعبہ اور بذات خود بھی مطلوب ہے ۔ قرآن مجید کی آیت ١ ؕ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ وَ يُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِيْنَ۰۰۲۲۲ (۱) (اللہ توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے اور پاک و صاف رہنے والے اپنے بندوں کو محبوب رکھتا ہے) ۔ اور قبا کی بستی میں رہنے والے اہل ایمان کی تعریف میں قرآن مجید کا ارشاد فِيْهِ رِجَالٌ يُّحِبُّوْنَ اَنْ يَّتَطَهَّرُوْا١ؕ وَ اللّٰهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِيْنَ (۲) (اس میںہمارے ایسے بندے ہیں ۔ جو بڑے پاکیزگی پسند ہیں اور اللہ تعالیٰ خوب پاک و صاف رہنے والے بندوں سے محبت کرتا ہے) ۔ صرف ان ہی دو آیتوں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اسلام میں طہارت و پاکیزگی کی بجائے خود کتنی اہمیت ہے ۔ اس طرح آگے پہلے ہی نمبر صحیح مسلم کی جو حدیث درج کی جارہی ہے اس کے پہلے فقرے “ الطُّهُوْرُ شَطْرُ الْإِيْمَانِ ” کا گویا لفظی ترجمہ ہی یہ ہے کہ طہارت و پاکیزگی اسلام کا ایک حکم ہی نہیں بلکہ وہ دین و ایمان کا ایک اہم جزو ہے ۔ اور ایک دوسری حدیث میں اس کو “ نصف ایمان ” فرمایا گیا ۔ ہمارے استاذ الاساتذہ اور شیخ المشائخ حضرت شاہ ولی اللہ قدس سرہ کی ایک نفیس تحقیق قابل ذکر ہے ، اپنی بے نظیر کتاب “ حجۃ اللہ البالغۃ ” میں فرماتے ہیں : “ کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے خاص فضل سے یہ حقیقت سمجھا دی ہے کہ فلاح و سعادت جس شاہراہ کی طرف انبیاء علیہم السلام کی بعثت ہوئی (جس کا نام شریعت ہے) اگرچہ اس کے بہت سے ابواب ہیں اور ہر باب کے تحت سینکڑوں احکام ہیں لیکن اپنی بے پناہ کثرت کے باوجود وہ سب بس ان چار اصولی عنوانوں کے تحت آتے ہیں طہارت ، اخبات ، سماحت ، عدالت ۔ (۳) پھر شاہ صاحب نے ان میں سے ہر ایک کی حقیقت بیان کی ہے جس کے مطالعے کے بعد یہ بات بالکل واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ بلا شبہ ساری شریعت بس ان ہی چار حصوں میں منقسم ہے ۔ یہاں ہم شاہ صاحب کے کلام کے صرف اس حصے کا خلاصہ درج کرتے ہیں جس میں انھوں نے طہارت کی حقیقت بیان فرمائی ہے ۔ فرماتے ہیں کہ : ایک سلیم الفطرت اور صحیح المزاج انسان جس کا قلب بہیمت کے سفلی تقاضوں سے مغلوب اور ان میں مشغول نہ ہو ، جب وہ کسی نجاست سے آلودہ ہو جاتا ہے یا اس کو پیشاب یا پاخانہ کا سخت تقاضا ہوتا ہے یا وہ جماع وغیرہ سے فارغ ہوا ہوتا ہے وہ اپنے نفس میں ایک خاص قسم کا انقباض و تکدر اور گرانی و بے لطفی اور اپنی طبیعت میں سخت ظلمت کی ایک کیفیت محسوس کرتا ہے ، پھر جب وہ اس حالت سے نکل جاتا ہے مثلاً پیشاب یا پاخانہ کا جو سخت تقاضا تھا اس سے وہ فارغ ہو جاتا ہے اور اچھی طرح استنجا اور طہارت کر لیتا ہے یا اگر وہ جماع سے فارغ ہوا تھا تو غسل کر لیتا اور اچھے صاف ستھرے کپڑے پہن لیتا ہے اور خوشبو لگا لیتا ہے تو نفس کے انقباض و تکدر اور طبیعت کی ظلمت کی وہ کیفیت جاتی رہتی ہے اور اس کے بجائے اپنی طبیعت میں وہ ایک انشراح و انبساط اور سرور فروخت کی کیفیت محسوس کرتا ہے ۔ بس دراصل پہلی کیفیت کا نام “ حدث ” (ناپاکی) اور دوسری کا نام “ طہارت ” (پاکی و پاکیزگی) ہے ، اور انسانوں میں جن کی فطرت سلیم اور جن کا وجدان صحیح ہے وہ ان دونوں حالتوں اور کیفیتوں کے فرق کو واضح طور پر محسوس کرتے ہیں اور اپنی طبیعت و فطرت کے تقاضے سے “ حدث ” کی حالت کو ناپسند اور دوسری کو (یعنی “ طہارت ” کی حالت) پسند کرتے ہیں ۔ اور نفس انسانی کی یہ طہارت کی حالت ملاء اعلیٰ یعنی “ ملئكة الله ” کی حالت سے بہت مشابہت و مناسبت رکھتی ہے کیوں کہ وہ دائمی طور پر بہیمی آلودگیوں سے پاک و صاف اور نورانی کیفیات سے شاداں و فرحاں رہتے ہیں اور اسی لئے حسبِ امکان طہارت و پاکیزگی کا اہتمام و دوام انسانی روح کو ملکوتی کمالات حاصل کرنے اور الہامات و منامات کے ذریعے ملاء اعلیٰ سے استفادہ کرنے کے قابل بنا دیتا ہے ۔ اور اس کے برعکس جب آدمی حدث اور ناپاکی کی حالت میں ڈوبا رہتا ہے تو اس کو شیاطین سے ایک مناسبت و مشابہت حاصل ہو جاتی ہے اور شیطانی وساوس کی قبولیت کی ایک خاص استعداد اور صلاحیت اس میں پیدا ہو جاتی ہے اور اس کی روح کو ظلمت گھیر لیتی ہے ” ۔ (حجۃ اللہ البالغہ ص ۵۴ ج ۱) شاہ صاحب کی اس عبارت سے معلوم ہوا کہ طہارت اور حدث دراصل انسانی روح اور طبیعت کی مذکورہ بالا دو حالتوں کا نام ہے اور ہم جن چیزوں کو حدث یا ناپاکی اور طہارت یا پاکیزگی کہتے ہیں وہ دراصل ان کے اسباب و موجبات ہیں اور شریعت ان ہی اسباب پر احکام جاری کرتی ہے اور انہی سے بحث کرتی ہے ۔ امید ہے کہ طہارت کی حقیقت اور روح انسانی کے لئے اس کی ضرورت و اہمیت سمجھنے کے لئے شاہ صاحب کا یہ کلام ان شاء اللہ کافی ہو گا ۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ طہارت و پاکیزگی شریعت کا پورا چوتھائی حصہ ہے۔ پھر اسی کتاب “ حجۃ اللہ البالغہ ” کے ایک دوسرے مقام پر جہاں طہارت کے احکام اور ان کے اسرار ہی کا بیان ہے فرماتے ہیں : طہارت کی تین قسمیں ہیں ، ایک حدث سے طہارت (یعنی جن حالتوں میں غسل یا وضو واجب یا مستحب ہے ۔ ان حالتوں میں غسل یا وضو کر کے شرعی طہارت و پاکیزگی حاصل کرنا ۔ دوسرے ظاہری نجاست اور پلیدی سے جسم یا اپنے کپڑوں کو یا جگہ کو پاک کرنا ۔۔۔ تیسرے جسم کے مختلف حصوں میں جو گندگیاں اور میل و کچیل پیدا ہوتا رہتا ہے اس کی صفائی کرنا (جیسے دانتوں کی صفائی ناک کے نتھنوں کی صفائی ، ناخن اور زیر ناف بالوں کی صفائی) آگے طہارت کے متعلق جو حدیثیں درج ہوں گی ان میں سے بعض کا تعلق مطلق طہارت سے ہو گا جو ان تینوں قسموں پر حاوی ہے اور بعض کا تعلق کسی ایک خاص قسم سے ہو گا ....... اس تمہیدی بیان کے بعد اب طہارت سے متعلق حدیثیں پڑھئے ۔ تشریح ۔۔۔ جیسا کہ ظاہر ہے کہ یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خطبہ ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کے بہت سے حقائق بیان فرمائے ہیں اس کا صرف پہلا جزو اور پہلا فقرہ (الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ) طہارت سے متعلق ہے اور اسی وجہ سے یہ حدیث کتب حدیث میں “ كتاب الطهارة ” میں درج کی جاتی ہے شطر کے معنی نصف اور آدھے کے ہیں بلکہ اسی مضمون کی ایک اور حدیث جو امام ترمذی نے ایک دوسرے صحابی سے روایت ہے اس میں “ الطُّهُورُ نِصْفُ الْإِيمَانِ ” (۱) ہی کے الفاظ ہیں لیکن اس عاجز کے نزدیک شطر و نصف دونوں لفظوں کا مطلب یہاں یہی ہے کہ طہارت و پاکیزگی ایمان کا خاص جزو اور اس کا اہم شعبہ اور حصہ ہے اور حضرت شاہ ولی اللہ کا جو کلام اوپر نقل ہوا ہے اس سے یہ حقیقت اتنی واضح اور روشن ہو چکی ہے جس پر کسی اضافہ کی ضرورت نہیں ۔ طہارت و پاکیزگی کی یہ اہمیت بیان فرمانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور تمہید کا اجر و ثواب اور اس کی فضیلت بیان فرمائی ہے ، تسبیح یعنی سبحان اللہ کہنے کا مطلب اپنے اس یقین کا اظہار اور اس کی شہادت ادا کرنا ہوتا ہے کہ اللہ کی مقدس ذات ہر اس بات سے پاک اور برتر ہے جو اس کی شان الوہیت کے مناسب نہ ہو اور تحمید یعنی الحمدللہ کہنے کا مطلب اپنے یقین کا اظہار اور اس شہادت کا ادا کرنا ہوتا ہے کہ ساری خوبیاں اور سارے کمالات جن کی بنا پر کسی کی حمد و ثناء کی جا سکتی ہے صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات میں ہے اور اس لئے بس ساری حمد و ستائش بس اسی کے لئے ہے یہی تسبیح و حمد حق تعالیٰ کی نورانی اور معصوم مخلوق فرشتوں کا خاص وظیفہ ہے ۔ قرآن مجید میں خود فرشتوں کا یہ بیان خود ان ہی کی زبانی نقل کیا گیا ہے ۔ “ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ ” (خدا وندا ! ہم تیری حمد و تسبیح میں مصروف رہتے ہیں) ۔ پس انسانوں کے لئے بھی بہترین وظیفہ اور مقدس ترین شغل یہی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے اور سارے عالم کے خالق و پروردگار کی تسبیح کریں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی ترغیب کے لئے اس حدیث میں فرمایا ہے کہ ایک کلمہ سبحان اللہ میزان عمل کو بھر دیتا ہے اور اس سبھان اللہ کے ساتھ الحمدللہ بھی مل جائے تو ان دونوں کا نور زمین و آسمان کی ساری فضاؤں کو معمور و منور کر دیتا ہے ۔ “ سبحان الله ” سے میزان اعمال کا بھر جانا اور “ سبحان الله والحمدلله ” سے آسمان و زمین کا معمور ہو جانا یہ ان حقائق میں سے ہے جن کے ادراک کا حاسہ یہاں ہم کو نہیں دیا گیا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں پر اس قسم کی حقیقتوں کو کبھی کبھی یہاں بھی منکشف فرما دیتا ہے ، ہم عوام کا حصہ یہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان فرمائی ہوئی ان حقیقتوں پر ایمان لائیں ، انکا یقین کریں اور ان سے عمل کا فائدہ اٹھائیں ۔ حمد و تسبیح کی اس فضیلت اور ترغیب کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے بارے میں فرمایا ہے کہ “ وہ نور ہے ” اس دنیا میں نماز کی اس خصوصیت کا ظہور اس طرح ہوتا ہے کہ اس کی برکت سے قلب میں ایک نور پیدا ہوتا ہے جس کو اللہ کے وہ بندے خود محسوس کرتے ہیں جن کی نمازیں حقیقی نمازیں ہیں پھر اسی نور کا ایک اثر یہ ہوتا ہے کہ آدمی فواحش و منکرات سے بچتا ہوا چلتا ہے اسی کو قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے “ اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ ” (بلا شبہ نماز میں یہ خاصیت ہے کہ وہ آدمی کو فواحش و منکرات سے روکتی ہے) اور آخرت کی منزلوں میں نماز کی اس نورانیت کا ظہور اس طرح ہو گا کہ وہاں کی اندھیریوں میں نماز روشنی اور اجالا بن کر نمازی کے ساتھ ہو گی ۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ “ نُوْرُهُمْ يَسْعٰى بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَ بِاَيْمَانِهِمْ ” (اللہ کے نیک صالح بندوں کے آگے آگے اور داہنی جانب ان کے اعمال کا نور دوڑتا ہو گا) اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقے کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ دلیل و برہان ہے اس دنیا میں صدقے کے برہان ہونے کا مطلب بظاہر یہی ہو سکتا ہے کہ وہ اس امر کی کھلی ہوئی دلیل ہے کہ صدقہ کرنے والا بندہ مومن و مسلم ہے ، اگر دل میں ایمان نہ ہو تو اپنی کمائی کا صدقہ کرنا آسان نہیں ہے ۔ “ گر زر طلبی سخن درین است ” اور آخرت میں اس خصوصیت کا ظہور اس طرح ہو گا کہ صدقہ کرنے والے مخلص بندے کے صدقے کو اس کے ایمان اور اس کی خدا پرستی اور نشانی مان کر اس کو انعامات سے نوازا جائے گا ۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ “ ضیاء ” یعنی روشنی اور اجالا ہے بعض حضرات نے نماز اور صدقہ کی مناسبت سے یہاں لفظ صبر سے مراد روزہ لیا ہے ، لیکن ناچیز کے نزدیک راجح یہ ہے کہ صبر یہاں اپنے اصل وسیع معنی ہی میں استعمال ہوا ہے قرآن و حدیث کی زبان میں صبر کے اصل معنی ہیں “ اللہ کے حکم کے تحت نفس کی خواہشات کو دبانا اور اس راہ میں تلخیاں اور ناگواریاں برداشت کرتے رہنا ” اس لحاظ سے صبر گویا پوری دینی زندگی کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے اور اس میں نماز ، صدقہ ، روزہ ، حج اور جہاد اور ان کے علاوہ اللہ کے لئے اور دین کے احکام کی پابندی میں ہر قسم کی تکلیفیں برداشت کرنا اور اپنی نفسانی خواہشات کو دبائے رکھنا ، سب ہی اس کے مفہوم میں داخل ہے اور اسی کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ یہ صبر “ ضیاء ” ہے قرآن مجید میں چاند کی روشنی “ نور ” اور سورج کی روشنی کو “ ضیاء ” فرمایا گیا ہے “ هُوَ الَّذِيْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَآءً وَّ الْقَمَرَ ” (یونس ۵ : ۱۰) اس لحاظ سے صبر اور نماز سے پیدا ہونے والی روشنیوں میں نسبت ہو گی جو سورج اور چاند میں ہے ، واللہ تعالیٰ اعلم ۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کے بارے میں فرمایا ہے کہ یا تو وہ تمہارے واسطے اور تمہارے حق میں دلیل یا تمہارے خلاف ! ...... مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام اور اس کا ہدایت نامہ ہے اب اگر تمہارا تعلق اور رویہ اس کے ساتھ عظمت و احترام اور اتباع کا ہو گا جیسا کہ ایک صاحب ایمان کا ہونا چاہئے تو وہ تمہارے لئے شاہد و دلیل بنے گا اور اگر تمہارا رویہ اس کے برخلاف ہو گا تو پھر اس کی شہادت تمہارے خلاف ہو گی ۔ ان تنبیہات و ترغیبات کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخرت میں ارشاد فرمایا ہے کہ “ اس دنیا کا ہر انسان خواہ وہ کسی حال اور کسی مشغلہ میں زندگی گزار رہا ہو وہ روزانہ اپنے نفس اور اپنی جان کا سودا کرتا ہے ، پھر یا تو وہ اس کو نجات دلانے والا ہے یا ہلاک کرنے والا ہے ” ۔ مطلب یہ ہے کہ انسان کی زندگی ایک مسلسل تجارت اور سودا گری ہے ، اگر وہ اللہ کی بندگی اور رضا طلبی والی زندگی گزار رہا ہے تو اپنی ذات کے لئے بڑی اچھی کمائی کر رہا ہے اور اس کی نجات کا سامان فراہم کر رہا ہے اور اگر اس کے برعکس وہ نفس پرستی اور خدا فراموشی کی زندگی گزار رہا ہے تو وہ اپنی تباہی اور بربادی کما رہا ہے اور اپنی دوزخ بنا رہا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم کو ان حقیقتوں کا یقین نصیب فرمائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان ترغیبات و تنبیہات سے فائدہ اٹھانے کی توفیق دے ۔
ناپاکی سے عذابِ قبر
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر دو قبروں پر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو دو آدمی ان قبروں میں مدفون ہیں ان پر عذاب ہو رہا ہے ، اور کسی ایسے گناہ کی وجہ سے یہ عذاب نہیں ہو رہا ہے جس کا معاملہ بہت مشکل ہوتا (یعنی جس سے بچنا بہت دشوار ہوتا) بلکہ یہ دونوں اپنے ایسے گناہ کی پاداش میں عذاب دئیے جا رہے ہیں جس سے بچنا کچھ مشکل نہ تھا) ان میں سے ایک کا گناہ تو یہ تھا کہ وہ پیشاب کی گندگی سے بچاؤ یا پاک رہنے کی کوشش اور فکر نہیں کرتا تھا اور دوسرے کا گناہ یہ تھا کہ چغلیاں لگاتا پھرتا تھا ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کی ایک تر شاخ لی اور اس کو بیچ سے چیر کر دو ٹکڑے کیا ، پھر ہر ایک کی قبر پر ایک ٹکڑا گاڑھ دیا ۔ صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ آپ نے کس مقصد سے کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، امید ہے کہ جس وقت تک شاخ کے یہ ٹکڑے بالکل خشک نہ ہو جائیں ان دونوں کے عذاب میں تخفیف کر دی جائے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح عذاب قبر کے بارے میں اصولی بحث اس سلسلے کی پہلی جلد میں کی جا چکی ہے اور وہیں وہ حدیثیں بھی ذکر کی جا چکی ہیں جن میں صراحۃً فرمایا گیا ہے کہ عذاب قبر کی چیخ و پکار کو آس پاس کی دوسری سب مخلوق سنتی ہے لیکن جن و انس عام طور سے نہیں سنتے اور وہیں اس کی حکمت بھی تفصیل سے بیان کی جا چکی ہے ، نیز وہیں صحیح مسلم کی ایک حدیث نقل کی جا چکی ہے جس میں بعض قبروں کے عذاب پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطلع ہونے کا ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے ۔ پس یہ واقعہ جو اس حدیث میں بیان ہوا ہے یہ بھی اسی طرح کا ایک دوسرا واقعہ ہے اللہ تعالیٰ انبیاء علیہم السلام کو عالم غیب کی بہت سی ایسی چیزوں کا مشاہدہ کراتا ہے اور بہت سی ایسی آوازیں سنوا دیتا ہے جن کو عام انسانوں کی آنکھیں اس عالم میں نہیں دیکھتیں اور ان کے کان نہیں سنتے ۔بہر حال یہ بھی اسی قبیل کی ایک چیز ہے ۔ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں صاحبوں کے عذاب کا سبب ان کے دو خاص گناہوں کا بتایا ہے ایک کے متعلق بتایا کہ وہ چغلی کرتا تھا جو ایک سنگین اخلاقی جرم ہے اور قرآن مجید میں بھی ایک جگہ اس کا ذکر ایک کافرانہ خصلت یا منافقانہ عادت کے طور پر کیا گیا ہے ۔ فرمایا گیا (۱) “ وَ لَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِيْنٍۙ۰۰۱۰ ” (قلم) اور کتب قدیمہ کے بہت بڑے عالم کعب احبار سے مروی ہے کہ تورات میں چغلخوری کو سب سے بڑا گناہ بتایا گیا ہے ۔ (۲) اور دوسرے کے عذاب کا سبب آپ نے یہ بتایا کہ وہ پیشاب کی گندگی سے بچاؤ اور پاک صاف رہنے میں بے احتیاطی کرتا (لاَ يَسْتَتِرُ اور لَا يَسْتَنْزِهُ) دونوں کا حاصل مطلب یہی ہے اور صحیح بخاری کی روایت میں اس واقعہ پر “ لَا يستبرئ ” بھی آیا ہے اور حاصل اس کا بھی یہی ہے ، بہرحال اس سے معلوم ہوا کہ پیشاب کی گندگی سے (اور اسی طرح دوسری ناپاکیوں سے) بچنا یعنی اپنے جسم اور اپنے کپڑوں کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرنا اللہ تعالیٰ کے اہم احکامات میں سےہے اور اس میں کوتاہی اور بےاحتیاطی ایسی معصیت ہے کہ جس کی سزا آدمی کو قبر میں بھگتنی پڑے گی ۔ آگے حدیث میں جو یہ ذکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کی ایک تر شاخ منگوائی اور بیچ میں سے اس کے دو ٹکڑے کر کے ایک ایک ٹکڑا ان دونوں کی قبر پر گاڑ دیا ۔ اور بعض صحابہؓ نے جب اس کی بابت دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “ مجھے امید ہے کہ جب تک ان ٹکڑوں میں کچھ تری رہے گی اس وقت تک کے لئے ان کے عذاب میں تخفیف کر دی جائے گی ” ..... اس کی ایک توجیح بعض شارحین نے یہ ذکر کی ہے کہ کسی درخت کی شاخ میں جب تک کچھ تری یا نمی رہتی ہے اس وقت تک وہ زندہ رہتی ہے اور اس وقت تک وہ اللہ کی تسبیح و حمد کرتی رہتی ہے ... گویا قرآن مجید کی آیت “ وَ اِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ ” کا مطلب ان حضرات کے نزدیک یہ ہے کہ ہر چیز اس وقت تک جب تک کہ اس میں کچھ زندگی ہو اللہ تعالیٰ کی حمد و تسبیح کرتی رہتی ہے اور جب اس چیز کی زندگی ختم ہو جاتی ہے تو اس کی حمد و تسبیح بھی ختم ہو جاتی ہے ..... بہر حال اسی بنا پر ان حضرات نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فعل اور آپ کے اس ارشاد کی توجیہ یہ کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کی شاخ کے یہ ٹکڑے ان قبروں پر اس لئے گاڑھے کہ ان کی تسبیح و حمد کی برکت سے عذاب میں تخفیف ہو جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ٹکڑوں کے خشک ہونے تک تخفیف کی جو امید ظاہر فرمائی اس کی بنیاد بس یہی تھی ۔ لیکن اکثر شارحین نے اس توجیہ کو غلط قرار دیا ہے ، اور ہمارے نزدیک بھی یہ توجیہ بالکل غلط بلکہ مہمل ہے ۔ ذرا غور کرنے سے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کام اس نقطہ نظر سے کیا ہوتا تو کھجور کی شاخ چیر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ٹکڑے قبروں پر نصب نہ کرتے کیوں کہ وہ تو دو چار دن میں خشک ہوجاتے ہیں بلکہ اس صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان قبروں پر کوئی پودا نصب کرا دیتے جو برسہا برس تک ہرا رہتا ۔ دوسری واضح دلیل اس توجیہ کے غلط ہونے کی یہ ہے کہ اگر صحابہ کرامؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منشاء اور نقطہ نظر یہ سمجھا ہوتا تو وہ سب ایسا ہی کرتے اور ہر قبر پر شاخ نصب کرنے بلکہ درخت لگانے کا اس دور میں عام رواج ہوتا حالانکہ ایسا نہیں ہوا بہر حال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل اور اس ارشاد کی یہ توجیہ بالکل غلط ہے اور پھر اس توجیہ پر بزرگان دین کے مزارات پر ہار پھول چڑھانے کی مشرکانہ رسم کا جواز نکالنا تو روح اسلام پر سخت ظلم ہے ۔ پس صحیح توجیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل اور ارشاد کی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے ان مردوں کے لئے تخفیف عذاب کے لئے دعا فرمائی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بتایا گیا کہ آپ اس طرح ایک ہری شاخ کے دو حصے کر کے ان قبروں پر ایک ایک گاڑھ دیجئے ۔ جب تک اس میں تری رہے گی اس وقت تک کے لئے ان کے عذاب میں تخفیف کر دی جائے گی ..... صحیح مسلم کے آخر میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی ایک طویل حدیث ہے اس میں بھی دو قبروں کے عذاب کا ذکر ہے اور وہ دوسرا واقعہ ہے وہاں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا یہ بیان ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ حکم دیا کہ جاؤ ان درختوں میں سے دو شاخیں کاٹ کے فلاں جگہ ڈال آؤ ! حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ کے حکم کی تعمیل کی اور جب آپ سے اس کی بابت میں نے دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہاں دو قبریں ہیں جن پر عذاب ہو رہا ہے ، میں نے اللہ تعالیٰ سے تخفیف عزاب کی استدعا کی تھی ، اللہ تعالیٰ نے اتنی بات قبول فرمائی کہ جب تک یہ شاخیں تر رہیں گی ان کے عذاب میں تخفیف رہے گی .....بہر حال حضرت جابرؓ کی اس روایت سے یہ بات صراحۃً معلوم ہو گئی کہ ہری شاخوں کو یا ان کی تری کو عذاب کی تخفیف میں کوئی دخل نہیں تھا ، بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بات فرمائی گئی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی وجہ سے ہم اتنی مدت کے لئے ان کے عذاب میں تخفیف کر دیں گے ۔ پس اصلی چیز تھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی بنا پر ایک محدود مدت تک کے لئے تخفیف کا فیصلہ ۔ شارحین نے اس حدیث کی شرح میں اس پر بھی گفتگو کی ہوئ ہے کہ یہ دو قبریں جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کی شاخ کے ٹکڑے گاڑھے ، مسلمانوں کی تھیں یا غیر مسلموں کی ؟ اور پھر ترجیح اس کو دی ہے کہ یہ قبریں مسلمانوں کی تھیں ، اس کا ایک واضح قرینہ خود اسی حدیث میں یہ موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عذاب کا سبب چغل خوری کی عادت اور پیشاب کے معاملے میں بے احتیاطی اور لاپروائی بتایا ہے حالانکہ یہ قبریں کافروں کی ہوتیں تو عذاب کا سب سے بڑا سبب ان کا کفر اور شرک بتلایا جاتا ..... علاوہ ازیں مسند احمد میں حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قبریں بقیع میں تھیں اور آپص نے بقیع سے گزرتے ہوئے ان قبروں کے عذاب کو محسوس کیا تھا ، اور معلوم ہے کہ مدینہ طیبہ میں بقیع مسلمانوں ہی کا قبرستان ہے ..... بہرحال ان سب قرائن سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ قبریں مسلمانوں ہی کی تھیں ..... واللہ تعالیٰ اعلم ۔ اس حدیث کا خاص سبق اور خاص ہدایت یہ ہے کہ پیشاب وغیرہ کی نجاست سے اپنے کو محفوظ رکھنے کی پوری کوشش اور فکر کی جائے اور جسم اور کپڑوں کے پاک صاف رکھنے کا اہتمام کیا جائے اور چغلخوری جیسی منافقانہ اور مفسدانہ عادت سے بچا جائے ورنہ ان دونوں باتوں میں کوتاہی اور بے احتیاطی کا خمیازہ بھگتنا ہو گا ۔ اَللَّهُمَّ احْفَظْنَا.....
قضاء حاجت اور استنجاء سے متعلق ہدایات
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ، میں تم لوگوں کے لئے مثل ایک باپ کے ہوں اپنی اولاد کے لئے (یعنی جس طرح اولاد کی خیر خواہی اور ان کو زندگی کے اصول و آداب سکھنا ہر باپ کی ذمہ داری ہے اسی طرح تمہاری تعلیم و تربیت میرا کام ہے اس لئے) میں تمہیں بتاتا ہوں کہ جب تم قضائے حاجت کے لئے جاؤ تو نہ قبلہ کی طرف منہ کر کے بیٹھو نہ اس کی طرف پشت (بلکہ اس طرح بیٹھو کہ قبلہ کی جانب نہ تمہارا منہ ہو نہ تمہاری پیٹھ) ۔ (حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے استنجے میں تین پتھروں کے استعمال کرنے کا حکم دیا اور منع فرمایا استنجے میں لید اور ہڈی استعمال کرنے سے اور منع فرمایا داہنے ہاتھ سے استنجا کرنے سے ۔ (سنن ابن ماجہ ، دارمی)
قضاء حاجت اور استنجاء سے متعلق ہدایات
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ، بیان فرماتے ہیں کہ (بعض مشرکوں کی طرف سے تمسخر اور طنز کے طور پر) ان سے کہا گیا کہ تمہارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے تو تم لوگوں کو ساری ہی باتیں سکھائی ہیں ۔ یہاں تک کہ پاخانہ پھرنے کا طریقہ بھی ! حضرت سلمان نے ان سے کہا ہاں بے شک (انہوں نے ہم کو سب ہی کچھ سکھایا ہے اور استنجے کے متعلق بھی ضروری ہدایتیں دی ہیں ۔ چنانچہ) انھوں نے ہم کو اس سے منع فرمایا ہے کہ پاخانہ یا پیشاب کے وقت ہم قبلہ کی طرف رخ کریں یا یہ کہ ہم داہنے ہاتھ سے استنجا کریں یا یہ کہ ہم استنجے میں تین پتھروں سے کم استعمال کریں یا یہ کہ ہم استنجا کریں (اونٹ ، گھوڑے یا بیل وغیرہ) کسی چوپائے کے فضلے یا ہڈی سے) ۔ (صحیح مسلم) تشریح جس طرح کھانا پینا انسان کی بنیادی ضرورتوں میں سے ہے اسی طرح پاخانہ پیشاب بھی ہر انسان کے ساتھ لگا ہوا ہے ۔ نبی برحق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح زندگی کے دوسرے کاموں اور شعبوں میں ہدایات دی ہیں اسی طرح پاخانہ و پیشاب اور طہارت و استنجا کے بارے میں بھی بتایا ہے کہ یہ مناسب ہے اور یہ نامناسب ، یہ درست ہے ، اور یہ نادرست ..... ۔ مندجہ بالا دونوں حدیثوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ہدایات اس باب میں دی ہیں وہ چار ہیں ۔ ۱۔ ایک یہ کہ پاخانہ کے لئے اس طرح بیٹھا جائے کہ قبلے کی طرف نہ منہ ہو نہ پیٹھ ۔ یہ قبلے کے ادب واحترام کا تقاضا ہے ۔ ہر مہذب آدمی جس کو لطیف اور روحانی حقیقتوں کا کچھ شعور و احساس ہو ۔ پیشاب یا پاخانے کے وقت کسی مقدس اور محترم چیز کی طرف منہ یا پیٹھ کر کے بیٹھنا بے ادبی اور گنوار ہپن سمجھتا ہے ۔ ۲۔ دوسری ہدایت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دی کہ داہنا ہاتھ جو عام طور پر کھانے پینے ، لکھنے پڑھنے ، لینے دینے وغیرہ سارے کاموں میں استعمال ہوتا ہے اور جس کو ہمارے پیدا کرنے والے نے پیدائشی طور پر بائیں ہاتھ کے مقابلے میں زیادہ صلاحیت اور خاص فوقیت بخشی ہے اس کو استنجے کی گندگی کی صفائی کے لئے استعمال نہ کیا جائے ۔ یہ بات بھی ایسی ہے کہ ہر مہذب آدمی جس کو انسانی شرف کا کچھ شعور و احساس ہے ، اپنے بچوں کو یہ بات سکھانی ضروری سمجھتا ہے ۔ ۳۔ تیسری ہدایت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دی ہے کہ استنجے میں صفائی کے لئے کم سے کم تین پتھر استعمال کرنے چاہئیں ، کیونکہ عام حال یہی ہے کہ تین سے کم میں پوری صفائی نہیں ہوتی ۔ پس اگر کوئی شخص محسوس کرے کہ اس کو صفائی کے لئے تین سے زیادہ پتھروں یا ڈھیلوں کے استعمال کرنے کی ضرورت ہے تو اپنی ضرورت کے مطابق زیادہ استعمال کرے ۔ یہ بھی ملحوظ رہے کہ حدیثوں میں استنجے کے لئے خاص پتھر کا ذکر اس لئے آتا ہے کہ عرب میں پتھر کے ٹکڑے ہی اس مقصد کے لئے استعمال ہوتے تھے ، ورنہ پتھر کی کوئی خصوصیت نہیںہے ۔ مٹی اور اسی طرح ہر ایسی پاک چیز سے یہ کام لیا جا سکتا ہے جس سے صفائی کا مقصد حاصل ہو سکتا ہو اس کا استعمال اس کام کے لئے نامناسب نہ ہو ۔ ۴۔ چوتھی ہدایت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلے میں یہ دی کہ کسی جانور کی گری پڑی ہڈی سے اور اسی طرح کسی جانور کے خشک فضلے سے یعنی لید وغیرہ سے استنجا نہ کیا جائے ۔ کیوں کہ زمانہ جاہلیت میں عرب کے بعض لوگ ان چیزوں سے بگھی استنجا کر لیا کرتے تھے اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحۃً اس سے منع فرما دیا ۔ اور ظاہر ہے کہ ایسی چیزوں سے استنجا کرنا سلیم الفطرت اور صاحب تمیز آدمی کے نزدیک بڑے گنوار پن کی بات ہے ۔
قضاء حاجت اور استنجاء سے متعلق ہدایات
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب استنجے کو جاتے تھے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پانی لا کے دیتا تھا ، پانی کے برتن تور میں (جو کانسی یا پتھر سے بنا ہوا ایک برتن ہوتا تھا) یا کوہ میں (یعنی چمڑے کے چھوٹے مشکیزے میں) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے طہارت کرتے تھے ، پھر اپنے ہاتھ کو زمین کی مٹی پر ملتے تھے ، پھر دوسرا برتن پانی کا لاتا تھا تو اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کرتے تھے ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پتھر وغیرہ سے استنجا کرنے کے بعد پانی سے بھی طہارت فرماتے تھے ، پھر اس کے بعد ہاتھ کو زمین پر مل کر دھوتے تھے ، اس کے بعد وضو بھی فرماتے تھے ..... حدیث کے راوی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے استنجے اور وضو کے لئے پانی لا کر دینے کی سعادت عموماً مجھے حاصل ہوتی تھی ..... صحیحین کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس خدمت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بھی خاص حصہ تھا ۔ جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادتِ مبارکہ یہی تھی کہ قضائے حاجت اور استنجے سے فارغ ہر کر وضو بھی فرماتے تھے لیکن کبھی کبھی یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ یہ وضو کرنا صرف اولیٰ و افضل ہے فرض یا واجب نہیں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ترک بھی کیا ۔ چنانچہ سنن ابی داؤد اور سنن ابن ماجہ میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیشاب سے فارغ ہوئے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وضو کے لئے پانی لے کر کھڑے ہو گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ؑ نے فرمایا کہ “ عمر یہ کیا ہے ، کس کے لئے پانی لئے کھڑے ہو ؟ ” حضرت عمرؓ نے عرض کیا ، آپ کے وضو کے لئے پانی لایا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اس کے لئے مامور نہیں ہوں کہ پیشاب کروں تو ضرور ہی وضو کروں اور اگر میں پابندی اور مداومت کروں تو امت کے لیے ایک قانون اور دستور بن جائے گا ۔ اس حدیث سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسئلہ کی صحیح نوعت اپنے عمل سے واضح کرنے کے لئے اور امت کو غلط فہمی اور مشقت سے بچانے کے لئے کبھی کبھی اولیٰ اور افضل کو ترک بھی فرما دیتے تھے ۔
قضاء حاجت اور استنجاء سے متعلق ہدایات
حضرت ابو ایوب انصاری اور حضرت جابر اور حضرت انس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے تینوں حضرات بیان فرماتے ہیں کہ مسجد قبا کے بارے میں جب (سورہ توبہ) کی یہ آیت نازل ہوئی “ فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ ” (اس مسجد میں ہمارے ایسے بندے ہیں جو پاکیزگی پسند کرتے ہیں اور اللہ ایسے پاکیزگی پسند لوگوں سے محبت کرتا ہے) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس مسجد میں نمازیں پڑھنے والے اور اس کو آباد کرنے والے انصار سے) فرمایا ۔ اے گروہ انصار اللہ تعالیٰ نے طہارت و پاکیزگی کے بارے میں تمہاری تعریف فرمائی ہے تو وہ تمہاری کیا صفائی اور پاکیزگی ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ (طہارت و پاکیزگی کی کوئی خاص بات اس کے سوا تو ہم اپنے میں نہیں پاتے) کہ نماز کے لئے وضو کرتے ہیں ، جنابت کا غسل کرتے ہیں اور پانی سے استنجا کرتے ہیں (یعنی صرف پتھر وغیرہ کے استعمال پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ بعد میں پانی سے بھی استنجا کرتے ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بس یہی بات ہے ، پس تم اس کو اپنے اوپر لازم کر لو ۔ (سنن ابن ماجہ) تشریح عرب کے بہت سے لوگ صرف ڈھیلے پتھر سے استنجا کرنے پر اکتفا کرتے تھے ، اور حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ (موٹی جھوٹی غذا اور ہاضمے کی درستی کی وجہ سے) ان لوگوں کو اجابت اونٹ کی مینگنیوں کی طرح خشک ہوتی تھی اس لئے استنجے میں ان کو پانی کے استعمال کی خاص ضرورت بھی نہیں ہوتی تھی ۔ اور پتھر کے استعمال پر اکتفا کر لیتے تھے لیکن انصار کی عادت پانی کے استعمال کی بھی تھی ، قرآن مجید میں ان کی اس پاکیزگی پسندی کی تحسین و تعریف نازل ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ہدایت فرمائی کہ وہ اس کو اپنے اوپر لازم کر لیں ..... اور خود آپ کا طرز عمل تو یہ تھا ہی ..... الغرض قرآن مجید نے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد اور طرز عمل نے امت مسلمہ کو ہداسیت دی کہ اگر بالفرض کسی کا حال یہ ہو کہ اجابت کی خشکی کی وجہ سے ڈھیلے ، پتھر وغیرہ کا استعمال کافی ہو ، تب بھی وہ پانی سے استنجا کرے اور ہاتھ کو مٹی وغیرہ سے مانجھے ۔ پاکیزگی پسندی کا تقاضا یہی ہے اور اللہ تعالیٰ کو یہی طریقہ پسند ہے ۔
قضاء حاجت اور استنجاء سے متعلق ہدایات
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ لعنت کا سبب بننے والی دو باتوں سے بچو ، صحابہؓ نے عرض کیا کہ حضرت ! وہ دو باتیں کیا ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک یہ کہ آدمی لوگوں کے راستے میں قضائے حاجت کرے اور دوسرے یہ کہ ان کے سائے کی جگہ میں ایس کرے ۔ (صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ کہ لوگ جس راستے پر چلتے ہوں یا سائے کی جگہ آرام کرنے کے لئے بیٹھتے ہوں اگر کوئی گنوار آدمی وہاں قضائے حاجت کرے گا تو لوگوں کو اس سے اذیت اور تکلیف پہنچے گی اور وہ اس کو برا بھلا کہیں گے اور لعنت کریں گے ۔ لہذا ایسی باتوں سے بچنا چاہئے ..... اور سنن ابی داؤد میں حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس مضمون کی ایک حدیث مروی ہے ، اس میں راستے اور سائے کے علاوہ ایک تیسری جگہ موارد کا بھی ذکر ہے ۔ جس سے مراد وہ مقامات ہیں جہاں پانی کا کوئی انتظام ہو اور اس کی وجہ سے لوگ وہاں آتے ہوں ۔ اصل مقصد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کا بس یہ ہے کہ اگر گھر کے علاوہ جنگل وغیرہ میں ضرورت پیش آ جائے تو ایسی جگہ تلاش کرنی چاہئے جہاں لوگوں کی آمدورفت نہ ہو اور ان کے لیے باعث تکلیف نہ بنے ۔
قضاء حاجت اور استنجاء سے متعلق ہدایات
حضرت ابو ایوب انصاری اور حضرت جابر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دستور تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قضائے حاجت کے لئے باہر جانا ہوتا تو اتنی دور اور ایسی جگہ تشریف لے جاتے کہ کسی کی نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نہ پڑ سکتی ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں شرم و حیا اور شرافت کا جو مادہ ودیعت رکھا ہے اس کا تقاضا ہے کہ انسان اس کی کوشش کرے کہ اپنے اس قسم کی بشری ضرورتیں اس طرح پوری کرے کہ کوئی آنکھ اس کو نہ دیکھے ، اگرچہ اس کے لئے اس کو دور سے دور جانے کی تکلیف اٹھانی پڑے ، یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل تھا اور یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم تھی ۔
قضاء حاجت اور استنجاء سے متعلق ہدایات
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا ، آپ کو پیشاب کا تقاضا ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دیوار کے نیچے نرم اور نشیبی زمین کی طرف آئے اور وہاں پیشاب سے فارغ ہوئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کسی کو پیشاب کرنا ہو تو اس کے لئے مناسب جگہ تلاش کرے ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ پیشاب کے لئے ایسی جگہ تلاش کر کے بیٹھنا چاہئے جہاں پردہ بھی ہو اور اپنے اوپر چھینٹے پڑنے کا خطرہ نہ ہو اور رخ بھی غلط نہ ہو ۔ اللہ تعالیٰ کی بے شمار رحمتیں اسکے پاک پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر جس نے امت کو پیشاب پاخانے تک کے آداب سکھائے ۔
قضاء حاجت اور استنجاء سے متعلق ہدایات
حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی کہ تم میں سے کوئی ہرگز ایسا نہ کرے کہ اپنے غسل خانے میں پہلے پیشاب کرے پھر اس میں غسل یا وضو کرے اکثر وسوسے اسی سے پیدا ہوتے ہیں ۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ ایسا کرنا بہت ہی غلط اور بڑی بدتمیزی کی بات ہے کہ آدمی اپنے غسل کرنے کی جگہ میں پہلے پیشاب کرے اور پھر وہیں غسل یا وضو کرے ، ایسا کرنے کا ایک برا نتیجہ یہ ہے کہ اس سے پیشاب کی چھینٹوں کے وسوسے پیدا ہوتے ہیں ..... اس آخری جملے سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا تعلق اسی صورت سے ہے کہ جب غسل خانہ میں پیشاب کے بعد غسل یا وضو کرنے سے ناپاک جگہ کی چھینٹوں کے اپنے اوپر پڑنے کا اندیشہ ہو ورنہ اگر غسل خانہ کی بناوٹ ایسی ہے کہ اس میں پیشاب کے لئے اگل جگہ بنی ہوئی ہے یا اس کا فرش ایسا بنایا گیا ہے کہ پیشاب کرنے کے بعد پانی بہا دینے سے اس کی پوری صفائی اور طہارت ہو جاتی ہے تو پھر اس کا حکم یہ نہیں ہے ۔
قضاء حاجت اور استنجاء سے متعلق ہدایات
حضرت عبداللہ بن سرجس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے کوئی ہرگز کسی سوراخ میں پیشاب نہ کرے ۔ (سنن ابی داؤد و سنن نسائی) تشریح جنگل میں اور اسی طرح گھروں میں جو سوراخ ہوتے ہین وہ عموماً حشرات الارض کے ہوتے ہیں ۔ اگر کوئی گنوار آدمی یا نادان بچہ کسی سوراخ میں پیشاب کرے تو ایک تو اس میں رہنے والے حشرات الارض کو بے ضرورت اور بے فائدہ تکلیف ہو گی ، دوسرے یہ خطرہ ہے کہ وہ سوراخ سانپ یا بچھو جیسی کسی زہریلی چیز کا ہو اور وہ اچانک نکل کر کاٹ لے ایسے واقعات بکثرت نقل بھی کئے گئے ہیں ، بہر حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (جو امت کے ہر طبقے کے لئے اصل مربی اور معلم ہیں) سوراخ میں پیشاب کرنے سے ان ہی وجوہ سے بتاکید منع فرمایا ہے ۔
قضاء حاجت کے مقام پر جانے کی دُعا
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حاجت کے ان مقامات میں خبیث مخلوق شیاطین وغیرہ رہتے ہیں ، پس تم میں سے کوئی جب بیت الخلاء جاوے تو چاہئے کہ پہلے یہ دیا کرے کہ میں اللہ کی پناہ لیتا ہوں خبیثوں سے اور خبیثیوں سے ۔ (سنن ابی داؤد و سنن ابن ماجہ) تشریح جس طرح ملئکہ کو طہارت و نظافت اور ذکر اللہ سے اور ذکر و عبادات کے مقامات سے خاص مناسبت ہے اور وہیں ان کا جی لگتا ہے اسی طرح شیاطین جیسی خبیث خلوقات کو گندگیوں سے اور گندے مقامات سے خاص مناسبت ہے اور وہی ان کے مراکز اور دلچسپی کے مقامات ہیں ، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو یہ تعلیم دی کہ قضائے حاجت کی مجبوری سے جب کسی کو ان گندے مقامات میں جانا ہو تو پہلے وہاں رہنے والے خبیثوں اور خبیثیوں کے شر سے اللہ سے پناہ مانگے اس کے بعد وہاں قدم رکھے ..... ہم عوام کا حال یہ ہے کہ نہ ذکر و عبادت کے مقامات میں ہم فرشتوں کی آمد اور ان کا نزول محسوس کرتے ہیں اور نہ گندے مقامات پر ہمیں شیاطین کے وجود کا احساس ہوتا ہے لیکن صادق و مصدوق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی خبر دی ہے اور اللہ کے بعض بندے اس کے خاص فضل سے ان حقیقتوں کو کبھی کبھی خود بھی اسی طرح محسوس کرتے ہیں اور اس سے ان کے ایمان میں بڑی ترقی ہوتی ہے ۔
قضائے حاجت سے فارغ ہونے کے بعد کی دُعا
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دستور تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حاجت سے فارغ ہو کر بیت الخلاء سے باہر آتے تو اللہ تعالیٰ سے عرض کرتے “ غُفْرَانَكَ ” (اے اللہ تیری پوری مغفرت کا طالب و سائل ہوں) ۔ (ترمذی و سنن ابن ماجہ) تشریح قضاء حاجت سے فارغ ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس مغفرت طلبی کی متعدد توجیہیں کی گئی ہیں ، ان میں سب سے زیادہ لطیف اور دل کو لگنے والی توجیہ اس عاجز کے نزدیک یہ ہے کہ انسان کے پیٹ میں جو گندہ فُضلہ ہوتا ہے وہ ہر انسان کے لئے ایک قسم کے انقباض اور گرانی کا باعث ہوتا ہے اور اگر وہ وقت پر خارج نہ ہو تو اس سے طرح طرح کی تکلیفیں اور بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں ۔ اور اگر طبعی تقاضے کے مطابق پوری طرح خارج ہو جائے تو آدمی ایک ہلکا پن اور ایک خاص قسم کا انشراح محسوس کرتا ہے اور اس کا تجربہ ہر انسان کو ہوتا ہے ..... اسی طرح سمجھنا چاہئے کہ صحیح احساس رکھنے والے عارفین کے لئے بالکل یہی حال گناہوں کا ہے وہ ہر طبعی انقباض اور دنیا کے ہر اندرونی اور بیرونی بوجھ اور ہر گرانی سے زیادہ گناہوں کے بوجھ اور ان کی گرانی اور اذیت کو محسوس کرتے ہیں اور گناہوں کے بارے اپنی پیٹھ کے ہلکا ہونے کی فکر ان کو بالکل ویسی ہی ہوتی ہے جیسی کہ ہم جیسے عام انسانوں کو پیٹ کی آنتوں سے گندے فضلے کے خارج ہو جانے کی ، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اس بشری تقاضے سے فارغ ہوتے اور انسانی فطرت کے مطابق طبیعت ہلکی اور منشرح ہوتی تو مذکورہ بالا احساس کے مطابق اللہ تعالیٰ سے دعا فرماتے کہ جس طرح تو نے اس گندے فضلے کو میرے جسم سے خارج کر کے میری طبیعت کو ہلکا کر دیا اور مجھے راحت و عافیت عطا فرمائی اسی طرح میرے گناہوں کی پوری پوری مغفرت فرما کر میری روح کو پاک صاف اور گناہوں کے بوجھ سے میری پیٹھ کو ہلکا کر دے ۔ رہا یہ سوال کہ گناہوں سے معصوم ہونے کے باوجود اور “ لِّيَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ ” کے قرآنی اعلان کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گناہوں سے استغفار کیوں فرماتے تھے تو اس کا جواب تفصیل سے ان شاء اللہ آگے کتاب الصلاۃ میں تہجد کے بیان میں آئے گا ۔
قضائے حاجت سے فارغ ہونے کے بعد کی دُعا
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قضاء حاجت سے فارغ ہو کر بیت الخلاء سے باہر تشریف لاتے تو کہتے “ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي ” الخ الخ (اس اللہ کے لئے حمد و شکر جس نے مجھ سے گندگی دور فرمائی اور مجھے عافیت بخشی) ۔ (سنن نسائی) تشریح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اوپر والی حدیث سے معلوم ہوا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء سے باہر آ کر “ غُفْرَانَكَ ” کہتے تھے اور حضر ابو ر غفاریؓ کی اس حدیث سے یہ دوسری دعا معلوم ہوئی ۔ واقعہ یہ ہے کہ مضمون کے لحاظ سے یہ دونوں دعائیں موقع کے بہت مناسب اور بر محل ہیں ، اس لئے خیال یہ ہے کہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہتے ہوں گے اور کبھی وہ ۔ واللہ اعلم ۔
وضو اور اس کے فضائل و برکات: وضو گناہوں کی صفائی اور معافی کا ذریعہ
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے وضو کیا اور (بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق) خوب اچھی طرح وضو کیا تو اس کے سارے گناہ نکل جائیں گے یہاں تک کہ اس کے ناخنوں کے نیچے سے بھی ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح حضرت شاہ والی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے یہ بات پہلے ذکر کی جا چکی ہے کہ جن سلیم الفطرت انسانوں کی روحانیت بہیمت سے مغلوب نہیں ہوئی ہے وہ حدث کی حالت میں ..... یعنی جب پیشاب پاخانے جیسے کسی سبب سے ان کا وضو ٹوٹ جائے تو اپنے باطن میں وہ ایک گونہ ظلمت و کدورت اور ایک طرح کی گندگی محسوس کرتے ہیں ۔ (اور اصل حدث یہی کیفیت ہے) اور شریعت اسلامی نے اسی کے ازالہ کے لئے وضو مقرر فرمایا ہے ..... جن بندوں نے بہیمیت کے سفلی تقاضوں سے مغلوب ہو کر اپنے لطیف روحانی احساسات کو فنا نہیں کر دیا ہے وہ حدث کی حالت میں اس باطنی گندگی اور ظلمت کو بھی محسوس کرتے ہیں اور یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ وضو سے یہ کیفیت زائل ہو کر ایک روحانی پاکیزگی و نورانیت پیدا ہو جاتی ہے ۔ وضو کا اصل مقصد و موضوع تو یہی ہے اور اسی وجہ سے اس کو نماز یعنی بارگاہِ الٰہی کی خاص حضوری کی لازمی شرط قرار دیا گیا ہے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس میں اپنے فضل سے اس کے علاوہ بھی بہت سی برکات رکھی ہیں ..... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح امت کو وضو کا طریقہ اور اس کے متعلق احکام بتلائے ہیں اُسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے فضائل و برکات بھی بیان فرمائے ہیں ۔ پہلے چند حدیثیں اسی سلسلہ کی پڑھ لی جائیں ۔ مطلب یہ ہے کہ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و ہدایت کے مطابق باطنی پاکیزگی حاصل کرنے کے لئے آداب و سنن وغیرہ کی رعایت کے ساتھ اچھی طرح وضو کرے گا تو اس سے صرف اعضائے وضو کی میل کچیل اور حدث والی باطنی ناپاکی ہی دور نہ ہو گی بلکہ اس کی برکت سے اس کے سارے جسم کے گناہوں کی ناپاکی بھی نکل جائے گی اور وہ شخص حدث سے پاک ہونے کے علاوہ گناہوں سے بھی پاک صاف ہو جائے گا ۔ آگے آنے والی بعض حدیثوں سے اس کی مزید تفصیل معلوم ہو گی ۔
وضو اور اس کے فضائل و برکات: وضو گناہوں کی صفائی اور معافی کا ذریعہ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی مسلم بندہ وضو کرتا ہے اور اس میں اپنے چہرہ کو دھوتا ہے اور اس پر پانی ڈالتا ہے تو پانی کے ساتھ اس کے چہرہ سے وہ سارے گناہ نکل جاتے ہیں (اور گویا دُھل جاتے ہیں) جو اس کی آنکھ سے ہوئے تھے اس کے بعد جب وہ اپنے ہاتھ دھوتا ہے تو وہ سارے گناہ اس کے ہاتھوں سے خارج ہو جاتے ہیں اور دُھل جاتے ہیں جو اس کے ہاتھوں سے ہوئے ، اس کے بعد جب وہ اپنے پاؤں دھوتا ہے تو وہ سارے گناہ اس کے پاؤں سے خارج ہو جاتے ہیں جو اس کے پاؤں سے ہوئے اور جن کے لے اس کے پاؤں استعمال ہوئے یہاں تک کہ وضو سے فارگ ہونے کے ساتھ وہ گناہوں سے بالکل پاک صاف ہو جاتا ہے ۔ (صحیح مسلم) تشریح یہاں چند باتیں وضاحت طلب ہیں : ۱۔ مندرجہ بالا دونوں حدیثوں میں وضو کے پانی کے ساتھ گناہوں کے جسم سے نکل جانے اور دُھل جانے کا ذکر ہے ، حالانکہ گناہ میل کچیل اور ظاہری نجاست جیسی کوئی چیز نہیں ہے جو پانی کے ساتھ نکل جائے اور دُھل جائے ..... بعض شارحین حدیث نے اس کی توجیہ میں کہا ہے کہ گناہوں کے نکل جانے کا مطلب صرف معافی اور بخشش ہے ..... اور بعض دوسرے حضرات نے فرمایا ہے کہ بندہ جو گناہ جس عضو سے کرتا ہے اس کا ظلمانی اثر اور اس کی نحوست پہلے اس عضو میں اور پھر اس شخص کے دل میں قائم ہو جاتی ہے ، پھر جب اللہ کے حکم سے اور اپنے کا پاک کرنے کے لئے وہ بندہ سنن و آداب کے مطابق وضو کرتا ہے تو جس جس عضو سے اس نے گناہ کئے ہوتے ہیں اور گناہوں کے جو گندے اثرات اور ظلمتیں اس کے اعضاء اور اس کے قلب میں قائم ہو چکی ہوتی ہیں وضو کے پانی کے ساتھ وہ سب دھل جاتی اور زائل ہو جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی معافی اور مغفرت بھی ہو جاتی ہے ..... یہی دوسری توجیہ اس عاجز نے نزدیک حدیث کے الفاظ سے زیادہ قریب ہے ۔ واللہ اعلم ۔ ۲۔ حضرت ابو ہریرہؓ والی اس حدیث میں چہرہ کے دھونے کے ساتھ صرف آنکھوں کے گناہوں کے دُھل جانے اور نکل جانے کا ذکر فرمایا گیا ہے حالانکہ چہرہ میں آنکھوں کے علاوہ ناک اور زبان و دہن بھی ہیں اور بعضے گناہوں کا تعلق انہی سے ہوتا ہے ..... اس کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں اعضاء وضو کا استیعاب نہیں فرمایا ہے بطور تمثیل کے آنکھوں اور ہاتھوں پاؤں کا ذکر فرمایا ہے ..... اس مضمون کی ایک دوسری حدیث میں (جس کو امام مالک اور امام نسائی نے عبداللہ الصنابحی سے روایت کیا ہے) اس سے زیادہ تفصیل ہے ۔ اس میں کلی اور ناک کے پانی (مضمضہ و استنشاق) کے ساتھ زبان و دہن اور ناک کے گناہوں کے نکل جانے اور دُھل جانے کا اور اسی طرح کانوں کے مسح کے ساتھ کانوں کے گناہوں کے نکل جانے کا بھی ذکر ہے ۔ ۳۔ نیک اعمال کی یہ تاثیر ہے کہ وہ گناہوں کو مٹاتے اور ان کے داغ دھبوں کو دھو ڈالتے ہیں قرآن مجید میں بھی مذکور ہے ارشاد فرمایا گیا ہے “ اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِ ” (ھود ۱۱۴ : ۱۱) یعنی نیک اعمال گناہوں کو مٹا دیتے ہیں ..... اور احادیث میں خاص خاص اعمالِ حسنہ کا نام لے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تفصیل سے بیان فرمایا ہے کہ فلاں نیک عمل گناہوں کو مٹا دیتا ہے ، فلاں نیک عمل گناہوں کو معاف کرا دیتا ہے فلاں نیک عمل گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے ، اس قسم کی بعض حدیثیں اس سلسلہ میں پہلے گذر چکی ہیں ، اور آئندہ بھی مختلف ابواب میں آئیں گی ۔ ان میں سے بعض حدیثوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تصریح بھی فرمائی ہے کہ ان نیک اعمال کی برکت سے صرف صغیرہ گناہ معاف ہوتے ہیں ، اسی بنا پر اہل حق اہل السنۃ اس کے قائل ہیں کہ اعمالِ حسنہ سے صرف صغائر ہی کی تطہیر ہوتی ہے ، قرآن مجید میں بھی فرمایا گیا ہے : اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَآىِٕرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ (النساء ۳۱ : ۴) اگر تم کبائر منہیات (بڑے بڑے گناہوں) سے بچتے رہو گے تو تمہاری (معمولی) برائیاں اور غلطیاں ہم تم سے دفع کر دیں گے ۔ الغرض مندرجہ بالا دونوں حدیثوں میں وضو کی برکت سے جن گناہوں کے نکل جانے اور دُھل جانے کا ذکر ہے ان سے مراد صغائر ہی ہیں کبائر کا معاملہ بہت سنگین ہے اس زہر کا تریاق صرف توبہ ہی ہے ۔
وضو جنت کے سارے دروازوں کی کنجی ہے
حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک سلسلہ کلام میں) فرمایا جو کوئی تم میں سے وضو کرے (اور پورے آداب کے ساتھ خوب اچھی طرح) اور مکمل وضو کرے ، پھر وضو کے بعد کہے “ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ” تو لازمی طور پر اس کے لئے جنت کے آٹھوں دروازے کھل جائیں گے وہ جس دروازے سے بھی چاہے گا جنت میں جا سکے گا ۔ (صحیح مسلم) تشریح وضو کرنے سے بظاہر صرف اعضاء وضو کی صفائی ہوتی ہے اس لئے مومن بندہ وضو کرنے کے بعد محسوس کرتا ہے کہ میں نے حکم کی تعمیل میں اعضاء وضو تو دھو لئے اور ظاہری طہارت اور صفائی کر لکی لیکن اصل گندگی تو ایمان کی کمزوری ، اخلاص کی کمی اور اعمال کی خرابی کی گندگی ہے ، اس احساس کے تحت وہ کلمہ شہادت پڑھ کے ایمان کی تجدید اور اللہ تعالیٰ کی خالص بندگی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری پیروی کا گویا نئے سرے سے عہد کرتا ہے ، اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی کامل مغفرت کا فیصلہ ہو جاتا ہے اور جیسا کہ حدیث میں فرمایا گیا ہے اس کے لئے جنت کے سارے دروازے کھل جاتے ہیں ۔ امام مسلم ہی نے ایک دوسری روایت میں اسی موقع پر کلمہ شہادت کے یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں “ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ” نیز اسی حدیث کی ترمذی کی روایت میں اس کلمہ شہادت کے بعد “ اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ التَّوَّابِينَ ، وَاجْعَلْنِي مِنَ الْمُتَطَهِّرِينَ ” کا بھی اضافہ ہے ۔
قیامت میں اعضاء وضو کی نورانیت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے امتی قیامت کے دن بلائے جائیں گے تو وضو کے اثر سے ان کے چہرے اور ہاتھ اور پاؤں روشن اور منور ہوں گے ۔ پس تم میں سے جو کوئی اپنی وہ روشنی اور نورانیت بڑھا سکے اور مکمل کر سکے تو ایسا ضرور کرے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح وضو کا اثر اس دنیا میں تو اتنا ہی ہوتا ہے کہ چہرے اور ہاتھ پاؤں کی دھلائی صفائی ہو جاتی ہے اور اہل ادراک و معرفت کو ایک خاص قسم کی روحانی نشاط و انبساط کی کیفیت بھی حاصل ہوتی ہے ۔ لیکن جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں (اور اس کے علاوہ بھی متعدد حدیثوں میں) فرمایا ہے ۔ قیامت میں وضو کا ایک مبارک اثر یہ بھی ظاہر ہو گا کہ وضو کرنے والے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتیوں کے چہرے اور ہاتھ پاؤں وہاں روشن اور تاباں ہوں گے اور یہ ان کا امتیازی نشان ہو گا ۔ پھر جس کا وضو جتنا کامل و مکمل ہو گا اس کی یہ نورانیت اور تابانی اسی درجہ کی ہو گی ، اسی لئے حدیث کے آخر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس سے ہو سکے وہ اپنی اس نورانیت کو مکمل کرنے کی امکانی کوشش کرتا رہے جس کی صورت یہی ہے کہ وضو ہمیشہ فکر اور اہتمام کے ساتھ مکمل کیا کرے اور آداب کی پوری نگہداشت رکھے ۔
تکلیف اور ناگواری کے باوجود کامل وضو
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تم کو وہ اعمال نہ بتاؤں جن کی برکت سے اللہ گناہوں کو مٹاتا ہے اور درجے بلند فرماتا ہے ؟ حاضرین صحابہؓ نے عرض کیا ، حضرت ضرور بتلائیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا (۱) تکلیف اور ناگواری کے باوجود پوری طرح کامل وضو کرنا ۔ (۲) اور مسجدوں کی طرف قدم زیادہ پڑنا (۳) اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا منتظر رہنا ، پس یہی ہے حقیقی رباط یہی ہے اصلی رباط ۔ (صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین عملوں کی ترغیب دی ہے اور فرمایا ہے کہ ان اعمال سے گناہ معاف ہوتے ہیں ۔ اور درجوں میں ترقی ہوتی ہے ایک یہ کہ وضو کرنے میں اگر کسی وجہ سے تکلیف اور مشقت ہو تو اس کے باوجود وضو پورا پورا کیا جائے اور اس میں خلاف سنت اختصار سے کام نہ لیا جائے ۔ مثلاً سردی کا موسم ہے اور پانی ٹھنڈا ہے ، یا پانی کم ہے جو پورا وضو سنت کے مطابق کرنے اور ہر عضو کو تین تین دفعہ دھونے کے لئے کافی نہیں ہو سکتا ، بلکہ ایسا کرنے کے لیے پانی کچھ دور چل کر لانا پڑتا ہے تو ایسی صورت میں تکلیف اور مشقت اٹھا کر سنت کے مطابق کامل وضو کرنا ایسا محبوب عمل ہے جس کی برکت سے بندے کو گناہوں سے پاک صاف کر دیا جاتا ہے اور اس کے درجے بلند کر دئیے جاتے ہیں ..... دوسرا عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا “ مسجد کی طرف قدموں کا زیادہ پڑنا ” یعنی مسجد سے زیادہ تعلق رکھنا اور نماز کے لئے بار بار مسجد کی طرف جانا اور ظاہر ہے کہ جس مکان مسجد سے جتنے زیادہ فاصلے پر ہو گا اس کا حصہ اس سعادت میں اسی حساب سے زیادہ ہو گا ..... اور تیسرا عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا “ ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا منتظر رہنا ” اور دل کا اسی میں لگا رہنا ۔ اور ظاہر ہے کہ یہ حال اسی بندہ کا ہو گا جس کے دل کو نماز سے چین و سکون ملتا ہو گا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی “ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ ” والی کیفیت کا کوئی ذرہ جس کو نصیب ہو گا ۔ حدیث کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “ یہی حقیقی رباط ہے ، یہی اصلی رباط ہے ” رباط کے معروف معنی اسلامی سرحد پر پڑاؤ کے ہیں ۔ دشمن کے حملہ سے حفاظت کے لئے جو مجاہدین سرحد پر متعین کر دئیے جاتے ہیں ان کے پڑاؤ کو رباط کہا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ بڑا عظیم الشان عمل ہے ، ہر وقت جان خطرہ میںٰ رہتی ہے ..... اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تین اعمال کو غالباً اس لحاظ سے “ رباط ” فرمایا ہے کہ ان تینوں عملوں کا اہتمام شیطان کی غارت گری سے حفاظت کی بڑی محکم تدبیر ہے اور شیطانی حملوں سے اپنے ایمان کی حفاظت مقصدی لحاظ سے ملکی سرحدات کی حفاظت سے بھی اہم ہے ۔ واللہ اعلم ۔
وضو کا اہتمام کمال ایمان کی نشانی
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ ٹھیک ٹھیک چلو ، صراط مستقیم پر قائم رہو ۔ لیکن چونکہ یہ استقامت بہت مشکل ہے اس لئے ، تم اس پر پورا قابو ہرگز نہ پا سکو گے (لہذا ہمیشہ اپنے کو قصور وار اور خطا کار بھی سمجھتے رہو) اور اچھی طرح جان لو کہ تمہارے سارے اعمال میں سب سے بہتر عمل نماز ہے ۔ (اس لئے اس کا سب سے زیادہ اہتمام کرو) اور وضو کی پوری نگہداشت بس بندہ مومن ہی کر سکتا ہے ۔ (موطا امام مالک ، مسند احمد ، سنن ابن ماجہ ، سنن دارمی) تشریح وضو کی محافظت و نگہداشت کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہمیشہ سنت کے مطابق اور آداب کی رعایت کے ساتھ کامل وضو کیا جائے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بندہ برابر باوضو رہے ، شارحین نے یہ دونوں ہی مطلب بیان کئے ہیں اور اس عاجز کے نزدیک محافظت کا لفظ ان دونوں ہی باتوں پر حاوی ہے ۔ بہر حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں “ محافظت علی الوضو ” کو کمال ایمان کی نشانی اور اہل ایمان و یقین کا عمل بتایا ہے ۔
وضو پر وضو
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے طہارت کے باوجود (یعنی باوضو ہونے کے باوجود تازہ) وضو کیا اس کے لئے دس نیکیاں لکھی جائیں گی ۔ (جامع ترمذی) تشریح اس ارشاد کا مقصد بظاہر یہ واضح کرنا ہے کہ با وضو ہونے کی حالت میں تازہ وضو کرنے کو فضول و عبث نہ سمجھا جائے ، بلکہ یہ ایسی نیکی ہے جس کے کرنے والے کے نامہ اعمال میں دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں ۔ اکثر علماء کی رائے یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا تعلق اس صورت سے کہ جب کہ پہلے وضو سے کوئی ایسی عبادت کر لی گئی ہو جس کے لئے وضو ضروری ہے ، اس لئے اگر کسی نے وضو کیا اور ابھی وضو سے کوئی عبادت ادا نہیں کی اور نہ کوئی ایسا کام کیا جس کے بعد وضو کی تجدید مستحب ہو جاتی ہے تو ایسی صورت میں اس کو تازہ وضو نہیں کرنا چاہئے ۔
ناقص وضو کے بُرے اثرات
شبیب بن ابی روح رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابیؓ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن فجر کی نماز پڑھی اور اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ روم شروع کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس میں اشتباہ ہو گیا اور خلل پڑ گیا ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ چکے تو فرمایا بعض لوگوں کی یہ کیا حالت ہے کہ ہمارے ساتھ نماز میں شریک ہو اجاتے ہیں اور طہارت (وضو وغیرہ) اچھی نہیں کرتے ، بس یہی لوگ ہمارے قرآن پڑھنے میں خلل ڈالتے ہیں ۔ (سنن نسائی) تشریح معلوم ہوا کہ وضو وغیرہ طہارت اچھی طرح نہ کرنے کے برے اثرات دوسرے صاف قلوب پر بھی پڑتے ہیں اور اتنے پڑتے ہیں کہ ان کی وجہ سے قرآن مجید کی قرآت میں گڑ بڑ ہو جاتی ہے اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قلب مبارک دوسرے لوگوں کی اس طرح کی کوتاہیوں سے اتنا متاثر ہوتا تھا تو پھر ہم عوام کس شمار و قطار میں ہیں لیکن چونکہ ہمارے قلوب پر زنگ کی تہیں کی تہیں جم گئی ہیں اس لئے ہم کو ان چیزوں کا احساس نہیں ہوتا ۔ اس حدیث سے بڑی وضاحت کے ساتھ یہ بات معلوم ہو گئی کہ انسانوں کے قلوب پر ساتھ والوں کی اچھی یا بری کیفیات کا کس قدر اثر پڑتا ہے ، اصحاب قلوب صوفیاء کرام نے اس حقیقت کو خوب سمجھا ہے ۔
مسواک کی اہمیت اور فضیلت
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا “ مسواک منہ کو بہت زیادہ پاک صاف کرنے والی اور اللہ تعالیٰ کو بہت زیادہ خوش کرنے والی چیز ہے ” ۔ (مسند امام شافعی ، مسند احمد ، سنن دارمی ، سنن نسائی ۔ نیز صحیح بخاری میں امام بخاری نے بھی اس حدیث کو بلا اسناد یعنی تعلیقاً روایت کیا ہے۔) تشریح طہارت و نظافت کے سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن چیزوں پر خاص طور سے زور دیا ہے اور بڑی تاکید فرمائی ہے ان میں سے ایک مسواک بھی ہے ۔ ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک فرمایا ہے کہ اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ میری امت پر بہت مشقت پڑ جائے گی تو میں ہر نماز کے وقت مسواک کرنا ان پر لازم کر دیتا ۔ مسواک کے جو طبی فوائد ہیں اور بہت سے امراض سے اس کی وجہ سے جو تحفظ ہوتا ہے آج کل کا ہر صاحبِ شعور اسسے کچھ نہ کچھ واقف ہے ۔ لیکن دینی نقطہ نگاہ سے اس کی اصل اہمیت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو بہت زیادہ راضی کرنے والا عمل ہے ۔ اس مختصر تمہید کے بعد مسواک کی ترغیب و تاکید کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ارشادات پڑھئے ! تشریح ..... کسی چیز میں حسن کے دو پہلو ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ وہ حیاۃ دنیا کے لحاظ سے فائدہ مند اور عام انسانو کے نزدیک پسندیدہ ہو اور دوسرے یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی محبوب اور اجر اخروی کا وسیلہ ہو ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں بتلایا ہے کہ مسواک میں یہ دونوں چیزیں جمع ہیں ، اس سے منہ کی صفائی ہوتی ہے ، گندے اور مضر مادے خارج ہو جاتے ہیں ۔ منہ کی بدبو زائل ہو جاتی ہے ، یہ اس کے نقد دنیوی فوائد ہیں اور دوسرا اخروی اور ابدی نفع اس کا یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہونے کا بھی خاص وسیلہ ہے ۔
مسواک کی اہمیت اور فضیلت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر یہ خیال نہ ہوتا کہ میری امت پر بہت مشقت پڑ جائے گی تو میں ان کو ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حتمی امر کرتا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں مسواک کی محبوبیت اور اس کے عظیم فوائد دیکھتے ہوئے میرا جی چاہتا ہے کہ اپنے ہر امتی کے لئے حکم جاری کر دوں کہ وہ ہر نماز کے وقت مسواک ضرور کیا کرے ۔ لیکن ایسا حکم میں نے صرف اس خیال سے نہیں دیا کہ اس سے میری امت پر بہت بوجھ پڑ جائے گا اور ہر ایک کے لئے اس کی پابندی مشکل ہو گی ، غور سے دیکھا جائے تو یہ بھی ترغیب و تاکید کا ایک عنوان ہے اور بلا شبہ بڑا مؤثر عنوان ہے ۔ فائدہ ..... اسی حدیث کی بعض روایات میں “ عِنْدَ كُلِّ صَلَاةٍ ” کی بجائے “ عِنْدَ كُلِّ وُضُوءٍ ” بھی وارد ہوا ہے اور مطلب دونوں کا قریب قریب ایک ہی ہے ۔ (صحیح بخاری کتاب الصوم ، باب السواک الرطب والیابس للصائم)
مسواک کی اہمیت اور فضیلت
حضرت ابو امامہ باہلی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا “ اللہ کے فرشتے جبرئیل جب بھی میرے پاس آئے ہر دفعہ انہوں نے مجھے مسواک کے لئے ضرور کہا ۔ خطرہ ہے کہ (جبرئیل کی بار بار کی اس تاکید اور وصیت کی وجہ سے) میں انے منہ کے اگلے حصہ کو مسواک کرتے کرتے گھس نہ ڈالوں ” ۔ (مسند احمد) تشریح مسواک کے بارہ میں حضرت جبرئیل کی بار بار یہ تاکید وصیت دراصل اللہ تعالیٰ ہی کے حکم سے تھی اور اس کا خاص راز یہ تھا کہ جو ہستی اللہ تعالیٰ سے مخاطبہ اور مناجاۃ میں ہمہ وقت مصروف رہتی ہو اور اللہ کا فرستہ جس کے پاس بار بار آتا ہو اور اللہ کے کلام کی تلاوت اور اس کی طرف دعوت جس کا خاص وظیفہ ہو اس کے لیے خاص طور سے ضروری ہے کہ وہ مسواک کا بہت زیادہ اہتمام کرے ۔ اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کا بہت زیادہ اہتمام فرماتے تھے ۔
مسواک کے خاص اوقات اور مواقع
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ دن یا رات میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوتے تو اٹھنے کے بعد وضو کرنے سے پہلے مسواک ضرور فرماتے ۔ (مسند احمد ، سنن ابی داؤد)
مسواک کے خاص اوقات اور مواقع
حضرت حزیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دستور تھا کہ جب رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کے لئے اٹھتے تو مسواک سے اپنے دہن مبارک کی خوب صفارئی کرتے (اس کے بعد وضو فرماتے اور تہجد میں مشغور ہوتے) ۔ (صحیح بخاری و مسلم)
مسواک کے خاص اوقات اور مواقع
شریح بن ہانیؓ سے روایت ہے کہ میں نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب باہر سے گھر میں تشریف لاتے تھو تو سب سے پہلے کیا کام کرتے تھے ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک فرماتے تھے ۔ (صحیح مسلم) تشریح ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر نیند سے جاگنے کے بعد ، خاص کر رات کو تہجد کے لئے اٹھنے کے وقت پابندی اور اہتمام سے مسواک فرماتے تھے ، اس کے علاوہ باہر سے جب گھر میں تشریف لاتے تھے تو سب سے پہلے مسواک فرماتے تھے ، اس سے معلوم ہوا کہ مسواک صرف وضو کے ساتھ مخصوص نہیں ہے ، بلکہ سو کر اٹھنے کے بعد اور مسواک کئے زیادہ دیر گزارنے کے بعد اگر وضو کرنا نہ بھی ہو جب بھی مسواک کر لینی چاہئے ۔ ہمارے علمائے کرام نے ان ہی احادیث کی بناء پر لکھا ہے کہ مسواک کرنا یوں تو ہر وقت میں مستحب اور باعث اجر و ثواب ہے ، لیکن پانچ موقعوں پر مسواک کی اہمیت زیادہ ہے ۔ وضو میں ، نماز کے لئے کھڑے ہوتے وقت ، اگر وضو اور نماز کے درمیان زیادہ فصل ہو گیا) اور قرآن مجید کی تلاوت کے لئے اور سوتے سے اٹھنے کے وقت اور منہ میں بدبو پیدا ہو جانے یا دانتوں کے رنگ میں تغیر آ جانے کے وقت ان کی صفائی کے لئے ۔
مسواک سنت انبیاء اور تقاضائے فطرت
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا چار چیزیں پیغمبروں کی سنتوں میں سے ہیں ۔ ایک حیاء ، دوسرے خوشبو لگانا ، تیسرے مسواک کرنا اور چوتھے نکاح کرنا ۔ (جامع ترمذی) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں یہ بتلا کر کہ یہ چاروں چیزیں اللہ کے پیغمبروں کی سنتیں اور ان کے معمولات میں سے ہیں اپنی امت کو ان کی ترغیب دی ہے اور بلا شبہ یہ بڑی مؤثر ترغیب ہے ۔ حیا کے بارے میں کتاب الاخلاق میں تفصیل سے لکھا جا چکا ہے ، نکاح کے بارہ میں ان شاء اللہ کتاب النکاح میں لکھا جائے گا ۔ تعطر یعنی خوشبو لگانا بڑی محبوب صفت ہے ، انسان کے روحانی اور ملکوتی تقاضوں میں سے ہے اس سے روح اور قلب کو ایک خاص نشاط حاصل ہوتا ہے ، عبادت میں کیف اور ذوق پیدا ہوتا ہے اور اللہ کے دوسرے بندوں کو بھی راحت پہنچتی ہے اس لیے تمام انبیاء علیہم السلام اور اللہ تعالیٰ کے سارے اچھے بندوں کی محبوب سنت ہے ۔
مسواک سنت انبیاء اور تقاضائے فطرت
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ دس چیزیں ہیں جو امور فطرت میں سے ہیں ۔ مونچھوں کا ترشوانا ، داڑھی کا چھوڑنا ، مسواک کرنا ، ناک میں پانی لے کر اس کی صفائی کرنا ، ناخن ترشوانا ، انگلیوں کے جوڑوں کو (جن میں اکثر میل کچیل رہ جاتاہے اہتمام سے) دھونا ، بغل کے بال لینا ، موئے زیر ناف کی صفائی کرنا ، اور پانی سے استنجا کرنا ۔ حدیث کے راوی زکریا کہتے ہیں کہ ہمارے شیخ مصعب نے بس یہی نو چیزیں ذکر کیں اور فرمایا کہ دسویں چیز بھول گیا ہوں ، اور میرا گمان یہی ہے کہ وہ کلی کرنا ہے ۔ (صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں ان دس چیزوں کو “ مِنَ الْفِطْرَةِ ” یعنی امور فطرت میں سے کہا گیا ہے ۔ بعض شارحین حدیث کی رائے یہ ہے کہ الفطرۃ سے مراد یہاں سنت انبیاء یعنی پیغمبروں کا طریقہ ہے اور اس کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ اسی حدیث کی مستخرج ابی عوانہ کی روایت میں فظرۃ کی جگہ سنت کا لفظ ہے ، یعنی اس میں “ عَشْرٌ مِنَ الْفِطْرَةِ ” کی بجائے “ عَشْرٌ مِنَ السُّنَّةِ ” کے الفاظ ہیں ، ان حضرات کا کہنا ہے کہ اس حدیث میں انبیاء علیہم السلام کے طریقہ کو الفطرۃ اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ فطرت کے عین مطابق ہوتا ہے ۔ اس تشریح کی بناء پر حدیث کا مطلب یہ ہو گا کہ انبیاء علیہم السلام نے جس طریقہ پر خود زندگی گزاری اور اپنی اپنی امتوں کو جس پر چلنے کی ہدایت کی اس میں یہ دس باتیں شامل تھیں ۔ گویا یہ دس چیزیں انبیاء علیہم السلام کی متفقہ تعلیم اور ان کے مشترکہ معمولات سے ہیں ۔ بعض شارحین نے الفطرۃ سے دین فطرت یعنی دین اسلام مراد لیا ہے ۔ قرآن مجید میں دین کو فطرت کہا گیا ہے ، ارشاد ہے “ فَاَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفًا١ؕ فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا١ؕ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ١ؕ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ ” (1) (الروم ۳۰ : ۳۰) اس بناء پر حدیث کا مطلب یہ ہو گا کہ یہ دس چیزیں دین فطرت یعنی اسلام کے اجزاء یا احکام میں سے ہیں ۔ اور بعض شارحین نے الفطرۃ سے انسان کی اصل فطرت و جبلت ہی مراد لی ہے اس تشریح کی بناء پر حدیث کا مطلب یہ ہو گا کہ یہ دس چیزیں انسان کی اصل فطرت کا تقاضا ہیں جو اللہ نے اس کی بنائی ہے ۔ گویا جس طرح انسان کی اصل فطرت یہ ہے کہ وہ ایمان اور نیکی اور طہارت و پاکیزگی کو پسند کرتا ہے اور کفر اور فواحش و منکرات اور گندگی و ناپاکی کو ناپسند کرتا ہے اسی طرح مذکورہ بالا دس چیزیں ایسی ہیں کہ انسانی فطرت (اگر کسی خارجی اثر سے ماؤف اور فاسد نہ ہو چکی ہو) تو ان کو پسند ہی کرتی ہے اور حقیقت شناسوں کو یہ بات معلوم اور مسلم ہے کہ انبیاء علیہم السلام جو دین اور زندگی کا طریقہ لے کر آتے ہیں وہ دراصل انسانی فطرت کے تقاضوں ہی کی مستند اور منضبط تشریح ہوتی ہے ۔ اس تفصیل سے خود بخود معلوم ہو جاتا ہے کہ حدیث کے لفظ الفطرۃ کا مطلب خواہ سنت انبیاء ہو خواہ دین فطرت اسلام ہو ، اور خواہ انسان کی اصل فطرت و جبلت ہو ، حدیث کا مدعا تینوں صورتوں میں ایک ہی ہو گا اور وہ یہ کہ دس چیزیں انبیاء علیہم السلام کے لائے ہوئے اس متفقہ طریقہ زندگی اور اس دین کے اجزاء و احکام میں سے ہیں ، جو دراصل انسان کی اصل فطرت و جبلت کا تقاضا ہے ۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے حجۃ اللہ البالغہ میں اپنے خاص حکیمانہ طرز پر اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے جو چند سطریں لکھی ہیں ان کا خلاصہ ہم ذیل میں درج کرتے ہیں فرماتے ہیں : “ یہ دس عملی باتیں جو دراصل طہارت و نظافت کے بات سے تعلق رکھتی ہیں ، ملت حنفیہ کے مونسس و مورث حضرت ابراہیم علیہ السلام سے منقول ہیں ۔ اور ابراہیمی طریقہ پر چلنے والی حنیفی امتوں میں عام طور سے ان کا رواج رہا ہے اور ان پر ان کا عقیدہ بھی رہا ہے ۔ قرنہا قرن تک وہ ان اعمال کی پابندی کرتے ہوئے جیتے اور مرتے رہے ہیں ، اسی لئے نا کو فطرت کہا گیا ہے اور یہ ملت حنیفی کے شعائر ہیں ۔ اور ہر ملت کے لئے ضروری ہے کہ اس کے کچھ مقرر و معلوم شعائر ہوں اور وہ ایسے اعلانیہ ہوں جن سے اس ملت کی فرمانبرداری اور نافرمانی احساس اور مشاہدہ کی گرفت میں آ سکے ، اور یہ بھی قرین حکمت ہے کہ شعائر ایسی چیزیں ہوں جو نادر الوقوع نہ ہوں اور ان میں معتد بہ فوائد ہوں اور لوگوں کے ذہن ان کو پوری طرح قبول کریں اور ان دس چیزوں میں یہ باتیں موجود ہیں ۔ اس کو سمجھنے کے لئے ان چند باتوں پر غور کرنا چاہئے ! جسم انسانی کے بعض حصوں میں پیدا ہونے والے بالوں کے بڑھنے سے پاکیزگی پسند اور لطیف مزاج آدمی کی سلیم فطرت اسی طرح منقبض اور مکدر ہوتی ہے جس طرح کہ حدث سے یعنی کسی گندگی کے جسم سے خارج ہونے سے ہوا کرتی ہے ۔ بغل میں اور ناف کے نیچے پیدا ہونے والے بالوں کا حال یہی ہے ۔ اسی لیے ان کی صفائی سے سلیم الفطرت آدمی اپنے قلب و روح میں ایک نشاط اور انشراح کی کیفیت محسوس کرتا ہے جیسے کہ یہ اس کی فطرت کا خاص تقاضا ہے ۔ اور بالکل یہیحال نخنوں کا بھی ہے ۔ اور ڈاڑھی کی نوعیت یہ ہے کہ اس سے چھوٹے اور بڑے کی تمیز ہوتی ہے اور وہ مردوں کے لئے شرف اور جمال ہے اور اسی سے ان کی مردانہ ہیئت کی تکمیل ہوتی ہے اور وہ سنت انبیاء ہے ۔ اس لئے اس کا رکھنا ضروری ہے (۱) اور اس کا صاف کرنا مجوس و ہنود وغیرہ اکثر غیر مسلم قوموں کا طریقہ ہے ۔ نیز چونکہ بازاری قسم کے اور نیچی سطح کے لوگ عموماً ڈاڑھیاں نہیں رکھتے اس لئے ڈاڑھیاں نہ رکھنا گویا اپنے کو ان ہی کی صفوں میں شامل کرنا ہے ۔ اور مونچھوں کے بڑھانے اور لمبا رکھنے میں کھلا ہوا ضرر یہ ہے کہ منہ تک بڑھی ہوئی مونچھوں میں کھانے پینے کی چیزیں لگ جاتی ہیں اور ناک سے خارج ہونے والی رطوبت کا راستہ بھی کا راستہ بھی وہی ہے اس لئے صفائی اور پاکیزگی کا تقاضا یہی ہے کہ مونچھیں زیادہ بڑی نہ ہونے پائیں اس واسطے مونچھوں کے ترشوانے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اور کلی اور پانی کے ذریعہ ناک کی صفائی اور مسواک اور پانی سے استنجا اور اہتمام سے انگلیوں کے ان جوڑوں کو دھونا جن میں میل کچیل رہ جاتا ہے ، صفائی اورپاکیزگی کے نقطہ نظر سے ان سب چیزوں کی ضرورت و اہمیت کسی وضاحت کی محتاج نہیں ” ۔ بعض اکابر علماء نے فرمایا ہے کہ اس حدیث سے یہ اصول معلوم ہو گیا کہ جسم کی صفائی اور اپنی ہیئت اور صورت کی درستی اور ایسی ہر چیز کا ازالہ اور اس سے اجتناب جس سے گھن آئے اور کراہیت پیدا ہو احکام فطرت میں سے ہے اور طریقہ انبیاء ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے صورت کی تحسین کو اپنا خاص انعام و احسان بتلایا ہے ۔ وَّ صَوَّرَكُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَكُمْ اس حدیث کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ان کے بھانجے حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے روایت کیا ہے ، ان سے روایت کرنے والے طلق بن حبیب ہیں ۔ اور ان سے روایت کرنے والے مصعب بن شیبہ ہیں ۔ ان کے شاگرد زکریا بن ابی زائدہ ہیں ۔ ان ہی زکریا نے اپنے اپنے شیخ مصعب سے یہ حدیث روایت کی ہے جس مین انہوں نے دس چیزوں میں سے نو کو و ثوق سے ذکر کیا اور دسویں کے متعلق بتلایا کہ وہ مجھے اچھی طرح یاد نہیں رہی ، البتہ میرا خیال ہے کہ وہ مضمضہ (کلی) کرنا تھا ۔
نماز کو قیمتی بنانے میں مسواک کا اثر
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا وہ نماز جس کے لئے مسواک کی جائے اس نماز کے مقابلہ میں جو بلا مسواک کے پڑھی جائے ستر گنی فضیلت رکھتی ہے ۔ (شعب الایمان للبیہقی) تشریح پہلے بھی بار بار ذکر کیا جا چکا ہے کہ عربی زبان اور محاورمیں ستر (اور اسی طرح بعض اور عدد بھی) مطلق کثرت اور بہتات کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں ، غالباً اس حدیث مین بھی سبعین کا لفظ اس محاورہ کے مطابق کثرت اور بہتات ہی کے لیے استعمال ہوا ہے ۔ اس بناء پر حدیث کا مطلب یہ ہو گا کہ جو نماز مسواک کر کے پڑھی جائے وہ اس نماز کے مقابلے میں جو بلا مسواک کے پڑھی جائے بدرجہا اور بہت زیادہ افضل ہے ۔ اور اگر سبعین سے مراد ستر کا خاص عدد ہو تب بھی کوئی استبعاد کی بات نہیں ہے ۔ جب کوئی بندہ مالک الملک اور احکم الحاکمین کے دربار میں حاضری اور نماز کے ذریعہ اس سے مخاطبت اور مناجاۃ کا ارادہ کرے اور یہ سوچے کہ اس کی عظمت و کبریائی کا حق تو یہ ہے کہ مشک و گلاب سے اپنے دہن و زبان کو دھو کر اس کا نام نامی کیا جائے اور اس کے حضور میں کچھ عرض کیا جائے ، لیکن چونکہ اس مالک نے اپنی عنایت و رحمت سے صرف مسواک ہی کا حکم دیا ہے اس لئے میں مسواک کرتا ہوں ، بہر حال جب کوئی بندہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کے اس احساس اور ادب کے اس جذبہ سے نماز کے لئے مسواک کرے تو وہ نماز اگر اس نماز کے مقابلہ میں جس کے لئے مسواک نہ کی گئی ہو ستر یا اس سے بھی زیادہ درجے افضل قرار دی جائے تو بلکل حق ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے؎ ہزار بار بشویم دہن زمشک و گلاب ہنوز نام تو گفتن کمال بے ادبی است فائدہ ..... مشکوٰۃ المصابیح میں حضرت عائشہؓ کی یہ حدیث صرف بیہقی کے حوالے سے نقل کی گئی ہے لیکن منذری نے ترغیب میں اس حدیث کو حضرت عائشہ ہی کی روایت سے خفیف لفظی فرق کے ساتھ درج کر کے لکھا ہے ۔ رواہ احمد والبزار و ابو یعلی وابن خزیمہ فی صحیحہ ۔ وراہ الحاکم فی المستدرک وقال صحیح الاسناد ۔ اور قریب قریب اسی مضمون کی ایک حدیث ابو نعیم کے حوالہ سے حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی روایت سے اور دوسری حضرت جابرؓ کی روایت سے نقل کی ہے اور پہلی کی سند کو جید اور دوسری کی سند کو صحیح کہا ہے ۔
نماز کے لئے وضو کا حکم
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کا وضو نہیں ہے اس کی نماز قبول نہیں ہو گی تا وقتیکہ وہ وضو نہ کر لے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح طہارت کے باب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو جو ہدایات دی ہیں ان میں سے بعض تو وہ ہین جن کی حیثیت مستقل احکام کی ہے جیسے استنجے کے احکام جسم کو اور کپڑوں کو پاک رکھنے کے احکام ، پانی کی پاکی اور ناپاکی کے تفصیلی احکام وغیرہ ۔ اور بعض وہ ہیں جن کی حیثیت شرائط نماز کی ہے ۔ وضو کا حکم اسی قبیل سے ہے ، قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے ۔ اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَكُمْ وَ اَيْدِيَكُمْ اِلَى الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَيْنِ. اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ نماز جو اللہ تعالیٰ کی مقدس بارگاہ میں حاضری اور اس سے مخاطبت و مناجاۃ کی ایک خاص الخاص شکل ہے اس کے لئے باوضو ہونا شرط ہے ۔ پس اگر کوئی شخص با وضو نہیں ہے ۔ (یعنی حدث کی حالت میں ہے ، جس کی حقیقت پہلے بتائی جا چکی ہے) تو نماز شروع کرنے سے پہلے اس کو وضو کر لینا چاہئے ۔ دربار الٰہی کی اس خاص حاضری کا یہ لازمی ادب ہے ، اس کے بغیر اس کی نماز ہرگز قبول نہیں ہو گی ، اس سلسلہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ارشادات ذیل میں پڑھئے ! ۔
نماز کے لئے وضو کا حکم
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کوئی نماز طہارت کے بغیر قبول نہیں ہو سکتی اور نہ کوئی ایسا صدقہ قبول ہو سکتا ہے جو ناجائز طریقہ سے حاصل کئے ہوئے مال سے کیا جائے ۔ (صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں “ طهور ” سے مراد وضو ہے اور اس کا مطلب وہی ہے جو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی اوپر والی حدیث کا ہے ، صرف الفاظ کا فرق ہے ۔
نماز کے لئے وضو کا حکم
حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کہ نماز کی کنجی طہور (یعنی وضو) ہے اور اس کی تحریم تکبیر ہے (یعنی اللہ اکبر کہہ کے آدمی نماز میں داخل ہو جاتا ہے ، جس کے بعد بات چیت کرنے اور کھانے پینے کے ایسے جائز کام نماز کے ختم ہونے تک اس کے لئے حرام اور ناجائز ہو جاتے ہیں) اور اس کی تحلیل السلام علیکم کہنا ہے (یعنی نماز کے ختم پر السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہنے کے بعد وہ ساری باتیں آدمی کے لئے حلال اور جائز ہو جاتی ہیں جو نماز کی وجہ سے اس کے لئے حرام اور ناجائز ہو گئی تھیں) ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی ، سنن دارمی اور ابن ماجہ نے اس حدیث کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے) ۔
نماز کے لئے وضو کا حکم
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت کی کنجی نماز ہے اور نماز کی کنجی طہور (یعنی وضو) ہے ۔ (مسند احمد) تشریح ان دونوں حدیثوں میں طہور یعنی وضو کو نماز کی کنجی فرمایا گیا ہے ۔ گویا جس طرح کوئی شخص کسی مقفل گھر میں کنجی سے اس کا تالا کھولے بغیر داخل نہیں ہو سکتا ، اسی طرح بغیر وضو کے نماز میں داخلہ نہیں ہو سلتا ۔ ان چاروں حدیثوں کی تعبیر میں اگرچہ کچھ فرق ہے لیکن حاصل اور مدعا سب کا یہی ہے کہ نماز کے قابل قبول ہونے کےلئے واضح شرط ہے ۔ نماز چونکہ اللہ تعالیٰ کے حضور م یں حاضری اور اسے مخاطب و مناجاۃ کی اعلیٰ اور انتہائی شکل ہے ، جس کے آگے اس دنیا میں ممکن نہیں ، اس لئے اس کے ادب کا حق تو یہ تھا کہ ہر نماز کے لئے سارے جسم کے غسل اور بالکل پاک صاف اچھا لباس پہننے کا حکم دیا جاتا لیکن چونکہ اس پر عمل بہت مشکل ہوتا اس لئے اللہ تعالیٰ نے از راہِ کرم صرف اتنا ضروری قرار دیا کہ نماز پاک کپڑے پہن کر پڑھی جائے اور سارے جسم کے غسل کے بجائے صرف وضو کر لیا جائے جس میں وہ سارے ظاہری اعضاء دھل جاتے ہیں جو انسان کے جسم میں خاص اہمیت رکھتے ہیں اور اس حیثیت سے وہی سارے جسم کے قائم مقام قرار دئیے جا سکتے ہیں ۔ نیز ہاتھ پاؤں اور چہرہ اور سر یہی وہ اعضاء ہیں جو عام طور پر لباس سے باہر رہتے ہیں اس لئے وضو میں صرف انہی کے دھونے اور مسح کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ علاوہ ازیں وضو نہ ہونے کی حالت میں طبیعت میں جو ایک خاص قسم کا روحانی تکدر اور انقباض ہوتا ہے اور وضو کرنے کے بعد انشراح و انبساط کی ایک خاص کیفیت اور ایک خاص طرح کی لطافت و نورانیت جو انسان کے باطن میں پیدا ہوتی ہے ۔ جن بندگانِ خدا کو ان کیفیتوں کا احساس اور تجربہ ہوتا ہے وہ خوب سمجھتے ہیں کہ نماز کے لئے وضو کو لازمی شرط قرار دیے جانے کا اصل راز کیا ہے ، باقی اتنی بات تو ہم سب عوام بھی سمجھ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مقدس اور عالی بارگاہ میں حاضری کا یہ ادب ہے ۔ اللہ کے جو بندے صرف اتنی بات سمجھ کر بھی وضو کریں گے ۔ ان شاء اللہ وہ بھی اپنے وضو میں ایک خاص لذت و نورانیت محسوس کریں گے ۔
وضو کا طریقہ
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک دن اس طرح وضو فرمایا کہ پہلے اپنے دونوں ہاتھوں پر تین دفعہ پانی ڈالا پھر کلی کی اور ناک میں پانی لے کر اس کو نکالا اور ناک کی صفائی کی پھر تین دفعہ اپنا پورا چہرہ دھویا ۔ اس کے بعد داہنا ہاتھ کہنی تک تین دفعہ دھویا ۔ پھر اسی طرح بایاں ہاتھ کہنی تک تین دفعہ دھویا ، اس کے بعد سر کا مسح کیا ، پھر داہنا پاؤں تین دفعہ دھویا ، پھر اسی طرح بایاں پاؤں تین دفعہ دھویا ۔ (اس طرح پورا وضو کرنے کے بعد) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بالکل میرے اس وضو کی طرح وضو فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ جس نے میرے وضو کے مطابق وضو کیا پھر دو رکعت نماز (دل کی پوری توجہ کے ساتھ) ایسی پڑھی جو حدیث نفس سے خالی رہی (یعنی دل میں ادھر ادھر کی باتیں نہیں سوچیں) تو اس کے پچھلے سارے گناہ معاف ہو گئے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا جو طریقہ بتلایا ہے بلکہ عملاً کر کے دکھایا ہے ، یہی وضو کا افضل اور مسنون طریقہ ہے البتہ اس میں کلی اور پانی سے ناک کی صفائی سے متعلق یہ نہیں بیا کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کتنے دفعہ کیا ۔ لیکن بعض دوسری روایتوں میں تین تین دفعہ کی تصریح ہے ۔ (۱) آگے حدیث میں جو دو رکعتیں خشوع و خضوع کے ساتھ پڑھنے کا ذکر ہے ، یہ ضروری نہیں کہ وہ نفل ہی ہوں ، بلکہ اگر کسی کو مسنون طریقہ پر وضو کر کے کوئی فرض یا سنت نماز بھی ایسی نصیب ہو گئی جو حدیث نفس سے یعنی ادھر ادھر کے خیالات سے خالی رہی تو ان شاء اللہ حدیث کی موعود مغفرت اس کو بھی حاصل ہو گی ۔ شارحین حدیث اور عارفین نے لکھا ہے کہ حدیث نفس یہ ہے کہ ادھر ادھر کا کوئی خیال ذہن میں آئے اور دل اس میں مشغول ہو جائے ، لیکن اگر کوئی خطرہ دل میں گزرے اور دل اس میں مشغول نہ ہو بلکہ اس کو ہٹانے اور دفع کرنے کی کوشش کرے تو وہ مضر نہیں ہے اور یہ چیز کا ملین کو بھی پیش آتی ہے ۔
وضو کا طریقہ
ابو حیہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا آپ نے وضو اس طرح فرمایا ، پہلے اپنے دونوں ہاتھ اچھی طرح دھوئے یہاں تک کہ ان کو خوب اچھی طرح صاف کر دیا ، پھر تین دفعہ کلی کی ، پھر تین دفعہ پانی ناک میں لے کر اس کی صفائی کی ، پھر چہرے اور دونوں ہاتھوں کو تین تین دفعہ دھویا ، پھر سر کا مسح ایک دفعہ کیا ، پھر دونوں پاؤں ٹخنوں تک دھوئے ، اس کے بعد آپ کھڑے ہوئے اور کھڑے ہی کھڑے آپ نے وضو کا بچا ہوا پانی لے کر پیا ۔ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے اس طرح پورا وجو کر کے دکھانے کے بعد فرمایا ۔ میں نے چاہا کہ تمہیں دکھلاؤں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح وضو فرمایا کرتے تھے ۔ (جامع ترمذی و سنن نسائی) تشریح جیسا کہ حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کی ان حدیثوں سے معلوم ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عام طور سے وضو اسی طرح فرماتے تھے کہ دھونے والے اعضاء کو تین تین دفعہ دھوتے تھے اور سر پر مسح ایک ہی دفعہ فرماتے تھے ۔ لیکن کبھی کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا بھی کیا ہے کہ دھوئے جانے والے اعضاء کو بھی صرف ایک ہی ایک مرتبہ یا صرف دو ہی مرتبہ دھویا ، اور ایسا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتانے اور دکھانے کے لئے کیا کہ اس طرح بھی وضو ہو جاتا ہے ، فقہاء کی اصطلاح میں اس کو بیان جواز کہتے ہیں ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ کسی وقت پانی کی کمی کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا ہو ۔ واللہ اعلم ۔
وضو کا طریقہ
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو فرمایا ایک ایک مرتبہ (یعنی وضو میں دھوئے جانے والے اعضاء کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک ایک دفعہ دھویا ، اس سے زیادہ نہیں کیا) ۔ (صحیح بخاری)
وضو کا طریقہ
حضرت عبداللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دفعہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو فرمایا دو دو مرتبہ (یعنی دھوئے جانے والے اعضاء کو دو بار دھویا) ۔ (صحیح بخاری) تشریح ان دونوں حدیثوں میں اعضاء وضو کے صرف ایک ایک دفعہ یا دو دو دفعہ دھونے کا جو ذکر ہے جیسا کہ اوپر بتلایا جا چکا ایسا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کبھی صرف یہ جتانے اور دکھانے کے لئے کیا تھا کہ اتنا کرنے سے بھی وضو ہو جاتا ہے ، ورنہ عام عادت شریفہ یہی تھی کہ وضو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ ، منہ اور پاؤں کو تین تین دفعہ دھوتے تھے اور اسی کی دوسروں کو تعلیم دیتے تھے ، اور وضو کا یہی افضل اور مسنون طریقہ ہے ، مندرجہ ذیل دو حدیثوں سے یہ بات اور زیادہ صاف ہو جاتی ہے ۔
وضو کا طریقہ
عمرو بن شعیب اپنے والد شعیب سے اور وہ اپنے دادا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہم سے روایت کرتے ہیں کہ ایک اعرابی وضو کے بارے میں سوال کرتے ہوئے (یعنی وضو کا طریقہ پوچھتے ہوئے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو تین تین دفعہ وضو کر کے دکھایا (یعنی ایسا وضو کر کے دکھایا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دھوئے جانے والے اعضاء کو تین تین دفعہ دھویا) اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اعرابی سے فرمایا کہ وضو ایسے ہی کیا جاتا ہے ، تو جس نے اس میں اپنی طرف سے کچھ اور اضافہ کیا تو اس نے برائی کی اور زیادتی کی اور ظلم کیا ۔ (سنن نسائی و سنن ابن ماجہ) تشریح اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو میں اضافہ کرنے کی جو سخت مذمت کی ہے اس کا مطلب بظاہر یہی ہے کہ اعضاء وضو کے صرف تین تین دفعہ دھونے سے کامل مکمل وضو ہو جاتا ہے ۔ اب جو شخص اس میں کوئی اضافہ کرے گا وہ گویا شریعت میں اپنی طرف سے ترمیم کرے گا ، اور بلا شبہ یہ اس کی بڑی جسارت اور بڑی بے ادبی ہو گی ۔
وضو کا طریقہ
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو وضو کرے ایک دفعہ (یعنی دھوئے جانے والے اعضاء کو اس میں صرف ایک ہی ایک دفعہ دھوئے) تو یہ وضو کا وہ درجہ ہے جس کے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں (اور اس کے بغیر وضو ہوتا ہی نہیں) اور جو وضو کرے دو دو مرتبہ (یعنی اس میں اعضاء وضو کو دو دو دفعہ دھوئے) تو اس کو (ایک ایک دفعہ والے وضو کے مقابلہ میں) دو حصے ثواب ہو گا ۔ اور جس نے وضو کیا تین تین دفعہ (جو) افضل اور مسنون طریقہ ہے ، تو یہ میرا وضو ہے اور مجھ سے پہلے پیغمبروں کا (یعنی میرا دستور اعضاء وضو کو تین تین دفعہ دھونے کا ہے اور مجھ سے پہلے انبیاء علیہم السلام کا طریقہ بھی یہی رہا ہے) ۔ (مسند احمد) تشریح یہ حدیث مسند احمد کی ہے اور اس میں ایک دوسری روایت اس طرح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن ایک ایک دفعہ وضو کر کے دکھایا اور فرمایا کہ یہ وہ کم سے کم درجہ کا وضو ہے جس کے بغیر کسی کی نماز اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول ہی نہیں ہو سکتی ، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دفعہ کا وضو کر کے دکھایا اور فرمایا کہ پہلے والے وضو کے مقابلہ میں اس کا ثواب دوہرا ملے گا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین تین دفعہ والا وضو کر کے دکھایا اور فرمایا کہ یہ میرا وضو ہے اور مجھ سے پہلے انبیاء علیہم السلام کا ۔ اس دوسری روایت کو دار قطنی ، بیہقی ، ابن حبان اور ابن ماجہ نے بھی دریافت کیا ہے ۔ (زجاجۃ المصابیح) ان دونوں روایتوں سے بات بالکل صاف ہو جاتی ہے ۔ فَلِلَّہِ الْحَمْدُ ۔
وضو کی سنتیں اور اس کے آداب
حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ جس شخص نے اللہ کا نام لئے بغیر وضو کیا ، اس کا وضو ہی نہیں ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ) تشریح وضو میں فرض تو بس وہی چار چیزیں ہیں جن کا ذکر سورہ مائدہ کی اس مندرجہ بالا آیت میں کیا گیا ہے جس میں نماز سے پہلے وضو کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، یعنی پورے چہرے کا دھونا ، ہاتھوں کا کہنیوں تک دھونا ، سر کا مسح کرنا ، پاؤں کا ٹخنوں تک دھونا ۔ ان چار چیزوں کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وضو میں جن چیزوں کا اہتمام فرماتے تھے یا جن کی ترغیب دیتے تھے ، وہ وضو کی سنتیں اور اس کے آداب ہیں جن سے وضو کی ظاہری یا باطنی تکمیل ہوتی ہے ۔ مثلاً چہرے اور ہاتھ پاؤں کی بجائے ایک ایک دفعہ تین تین بار دھونا اور مل مل کر دھونا ، ڈاڑھی میں اور ہاتھ پاؤں کی انگلیوں میں خلال کرنا ، انگلی میں پہنی ہوئی انگوٹھی کو حرکت دینا ، تا کہ اس کے نیچے پانی پہنچنے میں شبہ نہ رہ جائے ، اسی طرح کلی اور ناک کی صفائی کا اہتمام کرنا ، کانوں کے اندرونی اور بیرونی حصہ کا مسح کرنا ، شروع میں بسم اللہ اور آخر میں کلمہ شہادت پڑھنا اور خاتمہ وضو کی دعا کرنا ، یہ سب وضو کی سنتیں اور اس کے آداب و مستحبات ہیں جن سے وضو کی تکمیل ہوتی ہے ۔ اس سلسلہ کی چند حدیثیں ذیل میں پڑھیے ! ۔ تشریح ..... امت کے اکثر ائمہ اور مجتہدین کے نزدیک اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو وضو غفلت کے ساتھ ، اللہ کا نام لئے بغیر کیا جائے وہ بہت ناقص اور بالکل بے نور ہو گا ۔ اور ناقص کو کالعدم قرار دے کر اس کی سرے سے نفی کر دینا عام محاورہ ہے ۔ “ کتاب الایمان ” میں یہ بات تفصیل اور وضاحت سے لکھی جا چکی ہے ۔ اگلے ہی نمبر پر ابو ہریرہ و ابن مسعود و ابن عمر رضی اللہ عنہم کی روایت سے جو حدیث درج ہو رہی ہے اس سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ کا نام لئے بغیر جو وضو کیا جائے وہ اگرچہ بالکل بے کار نہیں ہے لیکن اپنی باطنی تاثیر اور نورانیت کے لحاظ سے بہت ناقص ہے ۔
وضو کی سنتیں اور اس کے آداب
حضرت ابو ہریرہ و ابن مسعود و ابن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ جو شخص وضو کرے اور اس میں اللہ کا نام لے ، تو یہ وضو اس کے سارے جسم کو پاک کر دیتا ہے ، اور جو کوئی وضو کرے اور اس میں اللہ کا نام نہ لے ، تو وہ وضو اس کے صرف اعضائے وضو ہی کو پاک کرتا ہے ۔ (سنن دار قطنی) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو وضو اللہ کا نام لے کر مثلاً بسم اللہ پڑھ کر یا اسی طرح کوئی کلمہ ذکر زبان سے ادا کر کے کیا جائے تو اس کے اثر سے سارا جسم مطہر اور منور ہو جاتا ہے اور جو وضو اللہ کا نام لئے اور اس کا ذکر کئے بغیر کیا جائے تو اس سے صرف اعضاء وضو ہی کی طہارت ہوتی ہے ۔ اس کا مطلب یہی ہوا کہ یہ وضو بہت ناقص قسم کا ہوتا ہے ۔
وضو کی سنتیں اور اس کے آداب
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اے ابو ہریرہ جب تم وضو کرو تو “ بِسْمِ اللَّهِ , وَالْحَمْدُ لِلَّهِ ” کہہ لیا کرو (اس کا اثر یہ ہو گا کہ) جب تک تمہارا یہ وضو باقی رہے گا ، اس وقت تک تمہارے محافظ فرشتے (یعنی کاتبین اعمال) تمہارے لئے برابر نیکیاں لکھتے رہیں گے ۔ (معجم صغیر للطبرانی) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو وضو “ بِسْمِ اللَّهِ , وَالْحَمْدُ لِلَّهِ ” کہہ کر کیا جائے اللہ تعالیٰ کے نزدیک اتنی عظیم نیکی ہے ، کہ جب تک وہ باقی اور قائم رہے اس وقت تک کاتبان اعمال اس وضو والے کے نامہ اعمال میں مسلسل نیکیاں لکھنے کے لئے مامور ہیں ۔
وضو کی سنتیں اور اس کے آداب
حضرت ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب تم لباس پہنو اور جب تم وضو کرو تو اپنے داہنے اعضاء سے ابتدا کیا کرو ۔ (مسند احمد ، سنن ابی داؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ جب کوئی کپڑا یا جوتا یا موزہ وغیرہ پہنا جائے تو پہلے داہنی طرف پہنا جائے اور جب وضو کیا جائے تو ہر عضو کے دھونے کی ابتدا داہنی طرف سے کی جائے ۔
وضو کی سنتیں اور اس کے آداب
لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے وضو کی بات بتائیے ؟ (یعنی بتائیے کہ جن باتوں کا وضو میں مجھے خاص طور سے اہتمام کرنا چاہئے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (ایک تو یہ کہ) پورا وضو خوب اچھی طرح اور کامل طریقہ سے کیا کرو (جس میں کوئی کمی کسر نہ رہے) اور دوسرے یہ کہ ہاتھ پاؤں دھوتے وقت ان کی انگلیوں میں خلال کیا کرو اور تیسرے یہ کہ ناک کے نتھنوں میں پانی چڑھا کے اچھی طرح ان کی صفائی کیا کرو ، الا یہ کہ تم روزے سے ہو ۔ (یعنی روزہ کی حالت میں ناک میں پانی زیادہ نہ چڑھاؤ) ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی ، سنن نسائی)
وضو کی سنتیں اور اس کے آداب
مستورد بن شداد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو فرماتے ، تو ہاتھ کی سب سے چھوٹی انگلی (چھنگلیا) سے پاؤں کی انگلیوں کو (یعنی ان کے درمیانی حصوں کو) ملتے تھے ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ)
وضو کی سنتیں اور اس کے آداب
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہ تھا کہ جب وضو فرماتے تو ایک ہاتھ سے پانی لے کر ٹھوڑی کے نیچے ریش مبارک کے اندرونی حصہ میں پہنچاتے اور اس سے ریش مبارک میں خلال کرتے (یعنی ہاتھ کی انگلیاں اس کے درمیان سے نکالتے) اور فرماتے میرے رب نے مجھے ایسا ہی کرنے کا حکم دیا ہے ۔ (سنن ابی داؤد)
وضو کی سنتیں اور اس کے آداب
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (وضو میں) اپنے سر مبارک کا مسح فرمایا اور اس کے ساتھ دونوں کانوں کا بھی (اس طرح) کہ کانوں کے اندرونی حصہ کا تو انگوٹھوں کے برابر والی ، انگلیوں سے مسح فرمایا اورا وپر کے حصہ کا دونوں انگوٹھوں سے ۔ (سنن نسائی)
وضو کی سنتیں اور اس کے آداب
ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو فرمایا تو (کانوں کا مسح کرتے ہوئے) دونوں کانوں کے سوراخوں میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیاں ڈالیں ۔ (سنن ابی داؤد ، مسند احمد ، سنن ابن ماجہ)
وضو کی سنتیں اور اس کے آداب
حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کا وضو فرماتے تھے تو انگلی میں پہنی ہوئی اپنی انگوٹھی کو بھی حرکت دیتے تھے (تاکہ پانی اس جگہ بھی اچھی طرح پہنچ جائے اور کوئی شک و شبہ باقی نہ رہے) ۔ (سنن دار قطنی ، سنن ابن ماجہ) تشریح مندرجہ بالا حدیثوں میں وضو کے سلسلہ کے جن جن اعمال کا ذکر ہے ، مثلاً ڈاڑھی اور ہاتھ پاؤں کی انگلیوں کا خلال کرنا ، کانوں کے اندر باہر کا اچھی طرح مسح کرنا اور ان کے سوراخوں تک بھی انگلیاں پہنچانا ، اسی طرح ہاتھ میں پہنی ہوئی انگوٹھی کو حرکت دینا ، یہ سب وضو کے تکمیلی آداب ہیں جن کا اہتمام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی فرماتے تھے ، اور اپنے قول و عمل سے دوسروں کو بھی ان کی تعلیم و ترغیب دیتے تھے ۔
وضو میں پانی بے ضرورت نہ بہایا جائے
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سعد بن ابی وقاص (رضی اللہ عنہ) وضو کر رہے تھے (اور اس میں پانی کے استعمال میں فضول خرچی سے کام لے رہے تھے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس سے گزرے تو آپ نے ان سے فرمایا : سعد ! یہ کیسا اسراف ہے (یعنی پانی بے ضرورت کیوں بہایا جا رہا ہے) انہوں نے عرض کیا حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کیا وضو کے پانی میں بھی اسراف ہوتا ہے ؟ (یعنی کیا وضو میں پانی زیادہ خرچ کرنا بھی اسراف میں داخل ہے ؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، ہاں یہ بھی اسراف میں داخل ہے ، اگرچہ تم کسی جاری نہر کے کنارے ہی پر کیوں نہ ہو ۔ (مسند احمد ، سنن ابن ماجہ) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا ، کہ وضو کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ پانی کے استعمال میں اسراف سے کام نہ لیا جائے ۔
وضو کے بعد تولیہ یا رومال کا استعمال
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو فرماتے تو اپنے ایک کپڑے کے کنارے سے چہرہ مبارک پونچھ لیتے ۔ (جامع ترمذی) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وضو فرمانے کے بعد اپنے کسی کپڑے (چادر وغیرہ) کے کنارے ہی سے چہرہ مبارک پونچھ لیتے تھے ۔اور امام ترمذی ہی نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ وضو کے بعد اعضاء وضو کو پونچھنے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے ایک مستقل کپڑا رہتا تھا جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کام میں استعمال کرتے تھے ۔ بعض اور صحابہ کرامؓ کی روایات میں بھی ایسے کپڑے یا رومال کا ذکر آیا ہے ۔ اس سلسلہ کی تمام روایات کو سامنے رکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مقصد کے لئے کوئی مستقل کپڑا رومال کی طرح کا بھی رہتا تھا اور کبھی کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کسی کپڑے کے کنارے سے بھی یہ کام لیتے تھے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم ۔
ہر وضو کے بعد اللہ تعالیٰ کا کچھ ذکر اور نماز
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن فجر کی نماز کے بعد بلال سے فرمایا ، تمہیں اپنے جس اسلامی عمل سے سب سے زیادہ امید خیر و ثواب ہو وہ مجھے بتلاؤ ، کیوں کہ میں نے تمہارے چپلوں کی چاپ جنت میں اپنے آگے آگے سنی ہے (مطلب یہ ہے کہ رات میں نے خواب میں دیکھا کہ میں جنت میں چل پھر رہا ہوں اور آگے آگے تمہارے قدموں کی آہٹ سن رہا ہوں ، تو میں دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ یہ تمہارے کس عمل کی برکت ہے ، لہذا تم مجھے اپنا وہ عمل بتاؤ جس سے تمہیں سب سے زیادہ ثواب اور رحمت کی امید ہو) بلال نے عرض کیا کہ مجھے اپنے اعمال میں سب سے زیادہ امید اپنے اس عمل سے ہے ، کہ میں نے رات یا دن کے کسی وقت میں جب بھی وضو کیا ہے تو اس وضو سے میں نے نماز ضرور ہی پڑھی ہے ، جتنی نماز کی بھی مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس وقت توفیق ملی ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح نمبر “ ۱۷ ” پر بحوالہ مسلم و ترمذی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث گزر چکی ہے جس میں وضو کے بعد کلمہ شہادت اور دعا ماثور “ اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ التَّوَّابِينَ ، وَاجْعَلْنِي مِنَ الْمُتَطَهِّرِينَ ” پڑھنے کی فضیلت و برکت بیان فرمائی گئی ہے اور نمبر (۳۶) پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث بھی بحوالہ بخاری و مسلم گزر چکی ہے جس میں وضو کرنے کے بعد قلبی توجہ اور یکسوئی کے ساتھ دو رکعت نماز پڑھنے پر پچھلے سارے گناہوں کی معافی کی بشارت سنائی گئی ہے ، اس سلسلہ میں ایک حدیث یہاں اور پڑھ لی جائے ۔ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے قدموں کی آہٹ یا چپلوں کی چاپ جنت میں سننے کی جو اطلاع دی ہے ، جیسا کہ ترجمہ میں بھی ظاہر کر دیا گیا ہے ۔ یہ خواب (۱) کا واقعہ ہے ۔ اس لئے یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا کہ بلالؓ زندگی ہی میں جنت میں کس طرح پہنچ گئے البتہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب میں حضرت بلالؓ کو جنت میں دیکھنا اور اس کا بیان فرمانا اس بات کی قطعی شہادت ہے کہ حضرت بلالؓ جنتی ہیں بلکہ درجہ اول کے جنتیوں میں ہیں ۔ اس حدیث کی روح اور اس کا خاص پیغام یہ ہے کہ بندہ اس کی عادت ڈالے کہ جب بھی وضو کرے اس سے حسب توفیق کچھ نماز ضرور پڑھے ، خواہ فرض ہو ، خواہ سنت ، خواہ نفل ۔
جنابت اور غسل جنابت
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حائضہ عورت اور جنبی آدمی قرآن پاک میں سے کچھ بھی نہ پڑھے ۔ (یعنی قرآن مجید جو اللہ تعالیٰ کا مقدس کلام ہے ، اس کی تلاوت ان دونوں کے لئے بالکل ممنوع ہے) ۔ (جامع ترمذی) تشریح ہر سلیم الفطرت اور صاحب روحانیت انسان ، جب اس کے جسم کے کسی حصہ سے کوئی گندہ مادہ خارج ہوتا ہے یا اپنی طبیعت کا وہ کائی ایسا بہیمی اور شہوانی تقاضا پورا کرتا ہے جو ملکوتیت سے بہت ہی بعید ہوتا ہے تو جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا جا چکا ہے ، وہ اپنے باطن میں ایک خاص قسم کی ظلمت و کدورت اور گندگی و آلودگی محسوس کرتا ہے اور اس حالت میں عبادت جیسے مقدس کاموں کے قابل اپنے کو نہیں سمجھتا اور بتلایا جا چکا ہے کہ دراصل اسی ھالت کا نام حدث ہے ۔ پھر اس حدث کی دو قسمیں ہیں یا یوں کہئے کہ دو درجے ہیں ، ایک حدث اصغر ، جس کے ازالہ کے لئے صرف وضو کافی ہو جاتا ہے ، یعنی صرف وضو کر لینے سے ظلمت و گندگی کا وہ اثر زائل ہو جاتا ہے اور دوسرے حدث اکبر ، جس کے اثرات زیادہ گہرے اور زیادہ وسیع ہوتے ہیں ، اور ان کا ازالہ پورے جسم کے غسل ہی سے ہو سکتا ہے پیشاب پاخانہ اور خروج ریاح وغیرہ حدث اصغر کی مثالیں اور مجامعت و حیض و نفاس وغیرہ حدث اکبر کی ۔ ہر سلیم الفطرت انسان اس روحانی ظلمت و کدورت کے ازالہ کے لئے جو مجامعت یا حیض و نفاس سے قلب و روح میں پیدا ہوتی ہے ، غسل ضروری سمجھتا ہے اور جب تک غسل نہ کر لے ، اپنے کو مقدس مشاغل و وطائف میں مشغولی کے لائق بلکہ مقدس مقامات سے گزرنے کے بھی قابل نہیں سمجھتا ، گویا یہ انسان کی سلیم فطرت کا تقاضا ہے ، شریعت مطہرہ نے بھی ان حالات میں غسل واجب کیا ہے اور غسل سے پہلے نماز اور تلاوت قرآن جیسے مقدس وظائف میں مشغول ہرنے سے اور مساجد جیسے مقدس مقامات میں داخل ہونے سے منع فرمایا ہے ، اس سلسلہ کی چند حدیثیں ذیل میں درج کی جاتی ہیں ۔
جنابت اور غسل جنابت
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ان گھروں کا رخ مسجد کی طرف سے پھیر دو (یعنی ان کے دروازے جو مسجد کی طرف ہیں ، ان کو مسجد کی جانب سے بند کر کے دوسری جانب کھولو) کیوں کہ کسی حائضہ عورت اور کسی جنبی کے لئے مسجد میں داخل ہونے کا بالکل جواز نہیں ہے ۔ (ان کے لئے مسجد میں آنا ناجائز و حرام ہے) ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم جب شروع میں بنی تھی ، تو اس کے آس پاس کے بہت سے گھروں کے دروازے مسجد کی طرف تھے ، گویا کہ صحن مسجد ہی میں کھلتے تھے ، کچھ عرصہ کے بعد یہ حکم آ گیا ، کہ مسجد کے ادب و احترام کا یہ حق ہے کہ حائضہ اور جنبی اس میں داخل نہ ہوں ، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعلان فرمایا اور حکم دیا کہ یہ سب دروازے مسجد کی جانب سے بند کر کے دوسری طرف کھولے جائیں ۔
غسل جنابت کا طریقہ اور اس کے آداب
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جسم کے ہر بال کے نیچے جنابت کا اثر ہوتا ہے ، اس لئے غسل جنابت میں بالوں کو اچھی طرح دھونا چاہئے ۔ (تا کہ جسم انسانی کا وہ حصہ بھی جو بالوں سے چھپا رہتا ہے ، پاک صاف ہو جائے) اور جلد کا جو حصہ ظاہر ہے (جس پر بال نہیں ہیں) اس کی بھی اچھی طرح صفائی دھلائی کرنی چاہئے ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ)
غسل جنابت کا طریقہ اور اس کے آداب
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص نے غسل جنابت میں ایک بال بھر بھی جگہ دھونے سے چھوڑ دی تو اس کو دوزخ کا ایسا ایسا عذاب دیا جائے گا ۔ حدیث کے راوی حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد ہی کی وجہ سے میں اپنے سر کے بالوں کا دشمن بن گیا (یعنی میں نے معمول بنا لیا ، کہ جب ذرا بڑھے ، میں نے ان کا صفایا کر دیا) ابو داؤد کی روایت کے مطابق یہ جملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دفعہ فرمایا ۔ (سنن ابی داؤد ، مسند احمد ، مسند دارمی) تشریح ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ غسل جنابت میں سارے جسم کا اس طرح دھویا جانا ضروری ہے کہ ایک بال بھر جگہ بھی دھونے سے باقی نہ رہ جائے ۔ بعض شارحین نے لکھا ہے کہ غسل کی سہولت کی وجہ سے حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے سر کے بال صاف کرانے کا اپنا جو معمول بنا لیا تھا اس سے معلوم ہوا کہ اس مقصد سے سر منڈانے کا طریقہ بھی جائز اور مستحسن ہے ۔ اگرچہ اولی سر پر بال رکھنے ہی کا طریقہ ہے ، جیسا کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اور باقی خلفائے راشدین کا معمول تھا ۔
غسل جنابت کا طریقہ اور اس کے آداب
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غسل جنابت فرماتے تھے تو سب سے پہلے اپنے دونوں ہاتھ دھوتے تھے ، پھر بائیں ہاتھ سے مقام استنجا کو دھوتے اورداہنے ہاتھ سے اس پر پانی ڈالتے تھے ، پھر وضو فرماتے تھے ، اسی طرح جس طرح نماز کے لئے وضو فرمایا کرتے تھے ، پھر پانی لیتے تھے اور بالوں کی جڑوں میں انگلیاں ڈال کر وہاں پانی پہنچاتے تھے ، یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سمجھتے تھے کہ آپ نے سب میں پوری طرح پانی پہنچا لیا ، تو دونوں ہاتھ بھر بھر کر تین دفعہ پانی اپنے سر کے اوپر ڈالتے تھے ، اس کے بعد باقی سارے جسم پر پانی بہاتے تھے ، اس کے بعد دونوں پاؤں دھوتے تھے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
غسل جنابت کا طریقہ اور اس کے آداب
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میری خالہ ام المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے بیان کیا ، کہ میں نے ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل جنابت کے لئے پانی بھر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رکھ دیا ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے اپنے ہاتھوں کو دو دفعہ دھویا ، پھر اپنا دھلا ہوا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کے اس برتن میں ڈالا اور اس سے پانی لے کر اپنے مقام استنجا پر ڈالا اور بائیں ہاتھ سے اس کو دھویا ، پھر اپنا بایاں ہاتھ زمین پر مارا اور اس کو خوب زمین کی مٹی سے ملا اور رگڑا ، پھر وضو کیا ، جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لئے وضو فرمایا کرتے تھے ، اس کے بعد تین دفعہ اپنے سر پر پانی لپ بھر بھر کے ڈالا ، پھر اپنے سارے جسم کو دھویا ، پھر اس جگہ سے ہٹ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں پاؤں دھوئے ، پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رومال دیا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو واپس فرما دیا (صحیحین ہی کی دوسری روایت میں یہ اضافہ بھی ہے ، کہ رومال استعمال کرنے کے بجائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جسم پر سے پانی کو سونت دیا اور جھاڑ دیا) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت میمونہ کی ان حدیثوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل کے طریقے کی پوری تفصیل معلوم ہو جاتی ہے ، یعنی یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے اپنے دونوں ہاتھ دو تین دفعہ دھوتے تھے (کیوں کہ ان ہاتھوں ہی کے ذریعہ پورے جسم کو غسل دیا جاتا ہے) اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقام استنجا کو بائیں ہاتھ سے دھوتے تھے اور داہنے ہاتھ سے اس پر پانی ڈالتے تھے اس کے بعد بائیں ہاتھ کو مٹی سے مل مل کے اور رگڑ رگڑ کر خوب مانجتے اور دھوتے تھے ، پھر اس کے بعد وضو فرماتے تھے (جس کے ضمن میں تین تین دفعہ کلی کر کے اور ناک میں پانی لے کر اس کی اچھی طرح صفائی کر کے منہ اور ناک کے اندرونی حصہ کو غسل دیتے تھے اور حسب عادت ریش مبارک میں خلال کر کے اس کے ایک ایک بال کو غسل دیتے اور بالوں کی جڑوں میں پانی پہنچاتے تھے) اس کے بعد اسی طرح سر کے بالوں کو اہتمام سے دھوتے تھے اور ہر بال کی جڑ تک پانی پہنچانے کی کوشش کرتے تھے ، اس کے بعد باقی سارے جسم کو غسل دیتے تھے ، پھر غسل کی اس جگہ سے ہٹ کر پاؤں کو پھر دھوتے تھے ۔ ظاہر ہے کہ غسل کا سب سے زیادہ پاکیزہ اور با سلیقہ طریقہ یہی ہو سکتا ہے ۔ غسل کی جگہ سے ہٹ کر پھر پاؤں آپ صلی اللہ علیہ وسلم غالباً اس لئے دھوتے تھے کہ غسل کی وہ جگہ صاف اور پختہ نہیں ہوتی تھی ۔
غسل جنابت کا طریقہ اور اس کے آداب
حضرت یعلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر ایک شخص پر پڑی جو کھلے میدان میں (برہنہ) غسل کر رہا تھا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (قریبی مناسب وقت میں) منبر پر خطبہ دیا ، جس مین معمول کے مطابق پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی اس کے بعد فرمایا ، کہ اللہ تعالیٰ خود حیا فرمانے والا اور پردہ دار ہے ، (یعنی بندوں کی جن شرمناک حرکتوں کا ظاہر کرنا شرم و حیا کے خلاف ہے ، اللہ تعالیٰ ان کو ظاہر نہیں فرماتا ، بلکہ ان کی پردہ داری فرماتا ہے اور بندوں کے لئے بھی وہ حیا داری اور پردہ داری کو پسند فرماتا ہے ، اس بناء پر اس کا حکم ہے اور میں تم کو اس کی ہدایت اور تاکید کرتا ہوں کہ جب تم میں سے کوئی غسل کیا کرے ، تو پردہ کر لیا کرے ، لوگوں کی نگاہوں کے سامنے بے پردہ کھڑا نہ ہو جایا کرے) ۔ (سنن ابی داؤد ، سنن نسائی) تشریح مسنون یا مستحب غسل شریعت نے جن حالات میں غسل کو فرض و واجب قرار دیا ہے اس کا بیان ہو چکا اور اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات بھی درج کئے جا چکے ، ان کے علاوہ بھی بعض موقعوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کا حکم دیا ہے ، لیکن یہ حکم بطور فرضیت اور وجوب کے نہیں ہے ، بلکہ اس کا درجہ سنت کا ہے ، اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چند حدیث ذیل میں پڑھئے ۔
جمعہ کے دن کا غسل
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی جمعہ کو (یعنی جمعہ کی نماز کے لئے) آئے تو اس کو چاہئے کہ غسل کرے (یعنی نماز جمعہ ادا کرنے کے لئے اس کو غسل کر کے آنا چاہئے) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
جمعہ کے دن کا غسل
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہر مسلمان پر حق ہے (یعنی اس کے لئے ضروری ہے) کہ ہفتہ کے سات دنوں میں سے ایک دن (یعنی جمعہ کے دن) غسل کرے اس میں اپنے سر کے بالوں کو اور سارے جسم کو اچھی طرح دھوئے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح ان دونوں حدیثوں میں جمعہ کے غسل کا تاکیدی حکم ہے اور صحیحین ہی کی ایک اور حدیث میں جو حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے غسل جمعہ کے لئے واجب ، کا لفظ بھی آیا ہے لیکن امت کے اکثر ائمہ اور علماء شریعت کے نزدیک اس سے اصطلاحی وجوب مراد نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد بھی وہی تاکید ہے جو حضرت ابن عمر اور حضرت ابو ہریرہ کی مندرجہ بالا حدیثوں کا مدعا ہے ۔ اس مسئلہ کی پوری وضاحت حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے ایک ارشاد سے ہوتی ہے جو انہوں نے بعض اہل عراق کے سوال کے جواب میں فرمایا تھا ۔ سنن ابی داؤد میں حضرت ابن عباسؓ کے مشہور شاگر و عکرمہؒ سے اس سوال و جواب کی پوری تفصیل اس طرح مرسی ہے کہ ۔ عراق کے بعض لوگ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے سوال کیا کہ آپ کے خیال میں جمعہ کے دن کا غسل واجب ہے ؟ انہوں نے فرمایا میرے نزدیک واجب تو نہیں ہے لیکن اس میں بڑی طہارت و پاکیزگی ہے اور بڑی خیر ہے اس کے لئے جو اس دن غسل کرے اور جو (کسی وجہ سے ان دن) غسل نہ کرے تو (وہ گنہگار نہیں ہو گا کیوں کہ یہ غسل) اس پر واجب نہیں ہے ۔ (اس کے بعد حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا) میں تمہیں بتاتا ہوں کہ غسل جمعہ کے حکم کی شروعات کیسے ہوئی (واقعہ یوں ہے کہ اسلام کے ابتدائی دور میں) مسلمان لوگ غریب اور محنت کش تھے ، صوف (یعنی اونٹ ، بھیڑ وغیرہ کے بالوں سے بنے ہوئے بہت موٹے کپڑے) پہنتے تھے اور محنت مزدوری میں اپنی پیٹھوں پر بوجھ لادتے تھے اور ان کی مسجد (مسجد نبوی) بھی بہت تنگ تھی اور اس کی چھت بہت نیچی تھی اور ساری مسجد بس ایک چھپر کا سائبان تھا (س کی وجہ سے اس میں انتہائی گرمی اور گھٹن رہتی تھی) پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جمعہ کو جب کہ سخت گرمی کا دن تھا گھر سے مسجد تشریف لائے اور لوگوں کا یہ حال تھا کہ صوف کے موٹے موٹے کپڑوں میں ان کو پسینے چھوٹ رہے تھے اور ان سب چیزوں نے مل ملا کر مسجد کی فضا میں بد بو پیدا کر دی تھی جس سے سب کو تکلیف اور اذیت ہو رہی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ بدبو محسوس کی تو فرمایا کہ : ۔ « يَأَيُّهَا النَّاسُ إِذَا كَانَ هَذَا الْيَوْمَ فَاغْتَسِلُوا ، وَلْيَمَسَّ أَحَدُكُمْ أَفْضَلَ مَا يَجِدُ مِنْ دُهْنِهِ وَطِيبِهِ » اے لوگو جب جمعہ کا یہ دن ہوا کرے تو تم لوگ غسل کیا کرو اور جو اچھا خوشبودار تیل اور جو بہتر خوشبو جس کو دستیاب ہو وہ لگا لیا کرے ۔ (حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں) اس کے بعد خدا کے فضل سے فقر و فاقہ کا وہ دور ختم ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو خوشحالی اور وسعت نصیب فرمائی ، پھر صوف کے وہ کپڑے بھی نہیں رہے جن سے بدبو پیدا ہوتی تھی اور وہ محنت و مشقت بھی نہیں رہی اور مسجد کی وہ تنگی بھی ختم ہو گئی اور اس کو وسیع کر لیا گیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جمعہ کے دن لوگوں کے پسینہ وغیرہ سے جو بدبو مسجد کی فضا میں پیدا ہو جاتی تھی وہ بات نہیں رہی ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے اس بیان سے معلوم ہوا کہ اسلام کے ابتدائی دور میں اس خاص حالت کی وجہ سے جس کی ان کے اس بیان میں تفصیل کی گئی ہے ، غسل جمعہ مسلمانوں کےلئے ضروری قرار دیا گیا تھا ، اس کے بعد جب وہ حالت نہیں رہی تو اس حکم کا وہ درجہ تو نہیں رہا ، لیکن بہرحال اس میں پاکیزگی ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے اور اب بھی اس میں خیر اور ثواب ہے ۔ یعنی اب وہ مسنون اور مستحب ہے ، اور سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی مندرجہ ذیل حدیث میں غسل جمعہ کی یہی حیثیت صریحاً مذکور ہے ۔
جمعہ کے دن کا غسل
حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص جمعہ کے دن (نماز جمعہ کے لئے) وضو کر لے تو بھی کافی ہے اور ٹھیک ہے اور جو غسل کرے تو غسل کرنا افضل ہے ۔ (مسند احمد ، سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی ، سنن نسائی ، مسند دارمی)
میت کو نہلانے کے بعد غسل
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص میت کو غسل دے تو اس کو چاہئے کہ غسل کرے ۔ (سنن ابن ماجہ میں یہ حدیث بس اسی قدر ہے ، اور مسند احمد ، جامع ترمذی اور سنن ابی داؤد میں اس کے ساتھ یہ اضافہ بھی ہے کہ “ اور جو شخص میت کا جنازہ اٹھائے اس کو چاہئے کہ وضو کر لے ”) ۔ تشریح امت کے ائمہ اور علماء شریعت کے نزدیک یہ حکم استحبابی ہے ، اس لئے ان کے نزدیک میت کو غسل دینے والے کے لئے مستحب ہے کہ غسل سے فارغ ہونے کے بعد وہ خود بھی غسل کر لے ، کیوں کہ اس کا کافی امکان اور احتمال ہے کہ غسالہ میت کی چھینٹیں اس کے جسم کے کسی حصہ پر پڑ گئی ہوں ۔ اور ایک دوسری حدیث میں جس کو امام بیہقی نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اس غسل کے وجوب کی صریح نفی بھی وارد ہوئی ہے ، اس لئے عام ائمہ امت نے میت کو غسل دینے کے بعد غسل کرنے کو مستحب ہی کہا ہے اسی طرح حدیث کے دوسرے جز میں جنازہ اٹھانے والوں کو وضو کرنے کا جو حکم ہے وہ بھی استحبابی ہی ہے اور اس حکم کا مقصد غالباً یہ بھی ہے کہ جنازہ اٹھانے والے پہلے ہی سے وضو کر کے نماز جنازہ پڑھنے کے لئے تیار ہیں ۔ واللہ اعلم ۔
عید کے دن کا غسل
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر اور عید الاضحی کے دن غسل فرمایا کرتے تھے ۔ (سنن ابن ماجہ) تشریح عید الفطر اور عید الاضحی کے دن غسل کرنا اور حسب توفیق اچھا ، صاف ستھرا لباس پہننا اور خوشبو استعمال کرنا ، امت کی ان متوارث اعمال میں سے ہے جن کا رواج بلا شبہ قرن اول سے چلا آ رہا ہے ، اس لیے اس میں شبہ نہیں کیا جا سکتا کہ امت کو اس کی تعلیم و ہدایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد یا عمل ہی سے ملی ہے ، لیکن ان چیزوں کے بارہ میں جو روایاتکتب حدیث میں ملتی ہیں محدثین کے اصول تنقید کے مطابق ان سب کی سندوں میں ضعف ہے ، حضرت عبداللہ بن عباس کی یہ روایت جو سنن ابن ماجہ کے حوالہ سے یہاں درج کی گئی ہے اس کی سند بھی ضعیف ہے ، یہ ایک مثال ہے اس حقیقت کی کہ بعض روایات کی سندوں میں اصطلاحی ضعف ہوتا ہے لیکن ان کا مضمون صحیح اور ثابت ہوتا ہے ۔ پس اگر کسی حدیث کی سند میں محدثین کے نزدیک ہو لیکن اس کا مضمون شواہد و قرائن سے صحیح ثابت ہوتا ہو تو وہ “ صحیح حدیث ” ہی کی طرح حجت اور قابل قبول ہو گی ۔
تیمم کا حکم
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے بیان فرماتی ہیں کہ ایک سفر میں (تحقیقی قول کے مطابق غزوہ ذات الرقاع میں) ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئے ۔ یہاں تک کہ جب ہم مقام بیداء یا ذات الجیش کے مقام پر تھے (یہ دونوں مقام مدینہ طیبہ اور خیبر کے درمیان پڑتے ہیں) تو وہاں میرا ایک ہار (جو درحقیقت میری بڑی بہن اسماء کا تھا ، اور میں نے عاریۃً ان سے لے کر گلے میں ڈال لیا تھا ، ٹوٹ کر گر گیا اور گویا گم و گیا ، میں نے اس کی اطلاع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کر دی) تو اس کو تلاش کرانے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں قیام فرما لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو لوگ تھے وہ بھی ٹھہر گئے اور اس مقام پر اپنی کا کوئی بندوبست نہیں تھا ، تو کچھ لوگوں نے (میرے والد ماجد) ابو بکر صدیقؓ کے پاس جا کر کہا کہ آپ دیکھتے ہیں (آپ کی صاحبزادی) عائشہؓ نے کیا کیا ہے ، انہوں نے (ہار گم کر کے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب ساتھیوں کو یہاں ٹھہرنے پر مجبور کر دیا ہے ، حالانکہ نہ یہاں پانی ہے اور نہ لشکر کے ساتھ پانی ہے ، پس (والد ماجد) ابو بکر صدیقؓ میرے پاس تشریف لائے اور اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری ران پر سر رکھے آرام فرما رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نیند آ گئی تھی ، پس مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا ، کہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب ساتھیوں کے یہاں رکنے کا باعث بن گئی اور صورت حال یہ ہے کہ یہاں (قریب میں) کہیں پانی نہیں ہے اور نہ لشکر کے ساتھ پانی کا انتظام ہے ۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ۔ والد ماجد نے مجھے خوب ڈانٹا ڈپٹا اور جو اللہ کو منظور تھا ، اس وقت انہوں نے مجھے وہ سب کہا اور (غصہ سے) میرے پہلو میں کونچے لگائے ، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ میری ران پر سر رکھے آرام فرما رہے تھے اس لئے میں بالکل نہیں ہلی (کہ میرے حرکت کرنے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آرام میں خلل نہ پڑے) پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوتے رہے ، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ٓصبح کی ایسے مقام پر اور ایسی حالت میں کہ وہاں پانی کا کوئی بندوبست نہیں تھا ، تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت نازل فرمائی ، تو سب لوگوں نے تیمم کیا (اور تیمم کر کے نماز ادا کی گئی) تو اسید بن حضیر نے (جو ان نقباء انصار میں سے ایک تھے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر ہجرت سے پہلے بیعت کی تھی) کہا کہ اے آل ابو بکرؓ ! یہ تیمم کا حکم تمہاری پہلی برکت نہیں ہے (بلکہ اس سے پہلے بھی تمہارے ذریعہ امت کو برکتیں مل چکی ہیں) حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں ، کہ (اس سب کے بعد) جب اس اونٹ کو اٹھایا گیا جو میری سواری میں تھا ، تو میرا وہ ہار اس کے نیچے مل گیا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح تیمم بسا اوقات آدمی ایسی حالت اور کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے کہ غسل یا وضو کرنا اس کے لئے مضر ہوتا ہے ، اسی طرح کبھی آدمی ایسی جگہ ہوتا ہے کہ غسل یا وضو کے لیے وہاں پانی ہی میسر نہیں ہوتا ۔ ان حالات میں اگر بلا غسل اور بلا وضو یوں ہی نماز پڑھنے کی اجازت دے دی جاتی ، تو اس کا ایک نقصان تو یہ ہوتا کہ ان اتفاقات سے طبیعتیں ترک طہارت کی عادی بنتیں اور دوسرا اس سے بڑا ضرر یہ ہوتا کہ غسل اور وضو کی پابندی سے اللہ تعالیٰ کے دربار کی حاضری کا جو اہتمام محسوس ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے اس حاضری کی عظمت اور اس کے تقدس کا جو تصور ذہم پر چھایا ہوا رہتا ہے وہ مجروح ہوتا ، اس لئے اللہ تعالیٰ کی حکمت نے مجبوری کے ایسے حالات میں تیمم کو غسل اور وضو کا قائم مقام بنا دیا ہے ، اب غسل اور وضو سے مجبور ہونے کے حالات میں جب آدمی نماز کے لئے تیمم کا اہتمام کرے گا تو اس کی عادت اور اس کے ذہن پر ان شاء اللہ اس طرح کا کوئی غلط اثر نہیں پڑے گا ۔ ٍتیمم یہ ہے کہ سطح زمین پر یا مٹی کا پتھر یا ریت جیسی کسی چیز پر (یعنی ایسی چیزیں جو سطح زمین پر عموماً ہوتی ہیں ، ان میں سے کسی پر) طہارت کی نیت سے ہاتھ مار کر وہ ہاتھ چہرے اور ہاتھوں پر پھیر لئے جائیں ، اس طرح بس ہاتھ پھیر لینے سے بس تیمم ہو جاتا ہے ، مٹی وغیرہ کا چہرے یا ہاتھوں پر لگنا ضروری نہیں ہے بلکہ اس کا اہتمام کرنا چاہئے کہ مٹی وغیرہ چہرے اور ہاتھوں پر نہ لگے ۔ تیمم کی حکمت غسل اور وضو مین اپنی استعمال ہوتا ہے ، اللہ تعالیٰ نے مجبوری کی حالت میں اس کے بجائے تیمم کا حکم دیا ، جس میں مٹی اور پتھر وغیرہ کا استعمال ہوتا ہے ، اس کی ایک حکمت تو بعض اہل تحقیق نے یہ بیان کی ہے ، کہ پوری زمین کے دو ہی حصے ہیں ، ایک بڑے حصے کی سطح پانی ہے ، دوسرے حصے کی سطح مٹی ، پتھر وغیرہ اس لئے پانی اور مٹی میں خاص مناسبت ہے نیز انسان کی ابتدائی تخلیق بھی مٹی اور پانی ہی سے ہوئی ہے ، علاوہ ازیں مٹی ہی ایسی چیز ہے جس کو انسان سمندر کے علاوہ ہر جگہ پا سکتا ہے اور مٹی کو ہاتھ لگا کر منہ پر پھیرنے میں تذلل اور خاکساری بھی ایک خاص شان ہے اور چونکہ انسان کا آخری ٹھکانا مٹی اور خاک ہی ہے اور اس کو خاک ہی میں ملنا ہے ، اس لیے تیمم میں موت اور قبر کی یاد بھی ہے ۔ والله تعالى اعلم باسرار دينه اس کے بعد تیمم سے متعلق چند حدیثیں پڑھئے ! سب سے پہلے صحیحین کی وہ حدیث درج کی جاتی ہے جس میں اس واقعہ کا ذکر ہے جس میں تیمم کا حکم نازل ہوا ۔ تشریح ..... حضرت عائشہ صدیقہؓ کی اس روایت میں جس آیت تیمم کا ذخر ہے اس سے غالباً سورہ نساء کی آیت مراد ہے : وَ اِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰۤى اَوْ عَلٰى سَفَرٍ اَوْ جَآءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَآىِٕطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَيَمَّمُوْا صَعِيْدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَ اَيْدِيْكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُوْرًا۰۰۴۳ اور اگر تم بیمار ہو (اور پانی کا استعمال مضرہو) یا تم سفر پر ہو یا تم میں سے کوئی شخص استنجے سے آیا ہو یا تم نے بیبیوں سے قربت کی ہو اور تم کو پانی نہ ملے ، تو تم پاک زمین سے تیمم کر لیا کرو (یعنی اس زمین پر دو ہاتھ مار کے) اپنے چہروں اور ہاتھوں پر پھیر لیا کرو ، اللہ تعالیٰ بہت معاف فرمانے والا اور بڑا بخشنے والا ہے ۔ یہی مضمون لفظوں کے بہت خفیف فرق کے ساتھ سورہ مائدہ کے دوسرے رکوع میں بھی ارشاد فرمایا گیا ہے اور بعض راویوں کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر سورہ مائدہ والی آٰت نازل ہوئی تھی ۔ لیکن اکثر مفسرین کی تحقیق یہ ہے کہ سورہ نساء والی آیت پہلے نازل ہوئی ہے اور سورہ مائدہ والی بعد میں ۔ واللہ اعلم ۔
تیمم کا حکم
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آیا اور اس نے مسئلہ پوچھا کہ مجھے غسل کی حاجت ہو گئی ہے ، اور پانی مجھے ملا نہیں (تو کیا کروں ؟) حضرت عمارؓ نے (جو وہاں موجود تھے) حضرت عمرؓ سے کہا کیا آپ کو یاد نہیں کہ ایک دفعہ میں اور آپ سفر میں تھے (اور ہم دونوں کو غسل کی حاجت ہو گئی تھی) تو آپ نے تو اس حالت میں نماز نہیں پڑھی ، اور میں نے یہ کیا کہ میں زمین پر خوب لوٹا پوٹا (کیوں کہ میں سمجھتا تھا کہ جنابت والا تیمم بھی غسل کی طرح سارے جسم کا ہوتا ہو گا ، تو جب ہم سفر سے واپس آئے) تو میں نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کی ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ، کہ (زمین پر سارے جسم کو لٹانے اور خاک آلود کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی) تمہارے لئے بس اتنا کرنا کافی تھا ، یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے اور ان کو پھونکا (تا کہ جو خاک دھول لگی ہو وہ اڑ جائے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں ہاتھوں کو اپنے چہرے پر اور ہاتھوں پر پھیر لیا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس روایت میں جس واقعہ کا ذکر ہے ، اس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نماز نہ پڑھنے کی شارحین نے مختلف توجیہیں کی ہیں ، ان میں سب سے زیادہ سہل الفہم یہ ہے کہ غالبا ان کو پانی مل جانے کا انتظار تھا اور اس کی کچھ امید تھی ، اس لئے انہوں نے اس وقت تیمم کر کے نماز پڑھنا مناسب نہ سمجھا ، واللہ اعلم ۔ اور حضرت عمار کو اس وقت تک یہ معلوم نہیں تھا کہ غسل جنابت کی جگہ جو تیمم کیا جاتا ہے ، اس کا طریقہ وہی ہے جو وضو والے تیمم کا طریقہ ہے ، اس لئے وہ اپنے اجتہاد سے زمین میں لوٹے پوٹے لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سے انہوں نے اپنے اس عمل کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اس غلطی کی تصحیح فرما دی اور بتلا دیا کہ جنابت کی حالت میں غسل کی جگہ جو تیمم کیا جاتا ہے اس کا طریقہ وہی ہے جو وضو والے تیمم کا ہے ، حضرت عمارؓ دونکہ وضو والے تیمم کا طریقہ جانتے تھے ، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف بس اشارہ فرما دیا ۔ حضرت عمارؓ کی اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ تیمم میں مٹی یا خاک منہ پر یا ہاتھوں پر لگنا ضروری نہیں ہے ، بلکہ اگر زمین پر یا مٹی پر ہاتھ مارنے سے ہاتھوں کو خاک دھول لگ جائے تو اس کو پھونک دینا بہتر ہے ۔
تیمم کا حکم
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ پاک مٹی مسلمان کا سامان طہارت ہے اگرچہ دس سال تک پانی نہ ملے ۔ پس جب پانی پاوے تو چاہئے کہ اس کو بدن پر ڈالے ، یعنی اس سے وضو یا غسل کر لے ، کیوں کہ یہ بہت اچھا ہے ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر برسہا برس تک ایک آدمی وضو یا غسل کے لئے پانی نہ پائے تو تیمم اس کے لئے برابر کافی ہوتا رہے گا ۔ البتہ جب پانی میسر ہو جائے گا ، تو غسل یا وضو اس کے لئے ضروری ہو جائے گا ۔ ف ..... قریب قریب سارے ائمہ امت اس پر متفق ہیں کہ جس شخص پر غسل واجب ہو اور پانی نہ ملنے کی وجہ سے یا بیماری کی مجبوری سے اس نے بجائے غسل کے تیمم کیا ہو ، تو اس کو جب پانی مل جائے گا یا بیماری کا عذر ختم ہو جائے گا تو غسل کرنا اس پر واجب ہو گا ۔
تیمم کا حکم
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہؓ میں سے دو شخص سفر میں گئے ، کسی موقع پر نماز کا وقت آ گیا اور ان کے ساتھ پانی تھا نہیں ، اس لئے دونوں نے پاک مٹی سے تیمم کر کے نماز پڑھ لی ، پھر نماز کا وقت ختم ہونے سے پہلے پانی بھی مل گیا ، تو ایک صاحب نے تو وضو کر کے دوبارہ نماز پڑھی اور دوسرے صاحب نے نماز کا اعادہ نہٰں کیا ، پھر جب دونوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ، تو اس کا ذکر کیا ، تو جن صاحب نے نماز کا اعادہ نہیں کیا تھا ان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے ٹھیک طریقہ اختیار کیا اور تم نے جو نماز تیمم کر کے پڑھی ، وہ تمہارے لئے کافی ہو گئی (شرعی مسئلہ یہی ہے کہ ایسے موقع پر تیمم کر کے نماز پڑھ لینا کافی ہے ، بعد میں وقت کے اندر پانی مل جانے پر بھی اعادہ کی ضرورت نہیں ، اس لئے تم نے جو کچھ کیا ٹھیک مسئلہ کے مطابق کیا) اور جن صاحب نے وضو کر کے نماز دوبارہ پڑھی تھی ان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، کہ تمہیں دوہرا ثواب ملے گا (کیوں کہ تم نے دوبارہ جو نماز پڑھی وہ نفل ہو گی) اللہ تعالیٰ نیکیوں کو ضائع نہیں فرماتا ۔ (سنن ابی داؤد ، مسند دارمی)