5. کتاب الصلوٰۃ
نماز ترک کرنا ایمان کے منافی اور کافرانہ عمل ہے
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بندہ کے اور کفر کے درمیان نماز چھوڑ دینے ہی کا فاصلہ ہے ۔ (صحیح مسلم) تشریح نماز کی عظمت و اہمیت اور اس کا امتیاز حضرات انبیاء علیہم السلام ، اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات ، کمالات و احسانات اور اس کی تقدیس و توحید کے بارے میں جو کچھ بتلاتے ہیں اس کو مان لینے اور اس پر ایمان لے آنے کا پہلا قدرتی اور بالکل فطری تقاضا یہ ہے کہ انسان اس کے حضور میں اپنی فدویت و بندگی ، محبت و شیفتگی اور محتاجی و دریوزہ گری کا اظہار کر کے اس کا قرب اور اس کی رحمت و رضا حاصل کرے ۔ نماز کا اصل موضوع دراصل یہی ہے ۔ اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نماز اس مقصد کے حصول کا بہترین وسیلہ ہے ۔ اسی لیے ہر نبی کی تعلیم میں اور ہر آسمانی شریعت میں ایمان کے بعد پہلا حکم نماز ہی کا رہا ہے ۔ اور اسی لیے اللہ کی نازل کی ہوئی آخری شریعت (شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم) میں نماز کے شرائط و ارکان اور سنن و آداب اور اسی طرح کے مفسدات و مکروہات وغیرہ کے بیان کا اتنا اہتمام کیا گیا ہے اور اس کو اتنی اہمیت دی گئی ہے جو اس کے علاوہ کسی دوسری طاعت و عبادت کو بھی نہیں دی گئی ۔ حضرت شاہ والی اللہ رحمۃ اللہ علیہ حجۃ اللہ البالغہ میں نماز کا بیان شروع کرتے ہوئے فرماتے ہیں : اعْلَم أَن الصَّلَاة أعظم الْعِبَادَات شَأْنًا وأوضحها برهانا وأشهرها فِي النَّاس وأنفعها فِي النَّفس ، وَلذَلِك اعتنى الشَّارِع بِبَيَان فَضلهَا وَتَعْيِين أَوْقَاتهَا وشروطها وأركانها وآدابها ورخصها ونوافلها اعتناء عَظِيم لم يفعل فِي سَائِر أَنْوَاع الطَّاعَات ، وَجعلهَا من أعظم شَعَائِر الدّين. (ص 186) یعنی نماز اپنی عظمت شان اور مقتضائے عقل و فطرت ہونے کے لحاظ سے تمام عبادات میں کاص امتیاز رکھتی ہے اور خدا شناس و خدا پرست انسانوں میں سب سے زیادہ معروف و مشہور اور نفس کے تزکیہ اور تربیت کے لیے سب سے زیادہ نفع مند ہے اور اسی لئے شریعت نے اس کی فضیلت اس کے اوقات کے تعیین و تحدید اور اس کے شرائط و ارکان اور آداب و نوافل اور اس کی رخصتوں کے بیان کا وہ اہتمام کیا ہے جو عبادات و طاعات کی کسی دوسری قسم کے لیے نہیں کیا اور انہی خصوصیات و امتیازات کی وجہ سے نماز کو دین کا عظیم ترین شعار اور امتیازی نشان قرار دیا گیا ہے ۔ اور اسی کتاب میں ایک دوسرے مقام پر نماز کے اجزاء اصلیہ اور اس کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : وأصل الصَّلَاة ثَلَاثَة أَشْيَاء أَن يخضع الْقلب عِنْد مُلَاحظَة جلال الله وعظمته ، ويعبر اللِّسَان عَن تِلْكَ العظمة ، وَذَلِكَ الخضوع أفْصح عبارَة وَأَن يُؤَدب الْجَوَارِح حسب ذَلِك الخضوع. یعنی ۔ نماز کے اصل عناصر تین ہیں : ایک یہ کہ قلب اللہ تعالیٰ کی لا انتہا عظمت و جلال کے دھیان سے سرافگند ہو ۔ اور دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کی اس عظمت و کبریائی اور اپنی عاجزی و سرافگندگی کو بہتر سے بہتر الفاظ میں اپنی زبان سے ادا کرے اور تیسرے یہ کہ باقی تمام ظاہری اعضاء کو بھی اللہ تعالیٰ کی عظمت و جبروت اور اپنی عاجزی و بندگی کی شہادت کے لئے استعمال کرے ۔ پھر اسی سلسلہ کلام میں چند سطر کے بعد فرماتے ہیں : أما الصَّلَاة فَهِيَ المعجون الْمركب من الْفِكر المصروف تِلْقَاء عَظمَة الله .....وَمن الْأَدْعِيَة المبينة إخلاص عمله لله وتوجيه وَجهه تِلْقَاء الله وَقصر الِاسْتِعَانَة فِي الله ، وَمن أَفعَال تعظيمية كالسجود وَالرُّكُوع يصير كل وَاحِد عضد الآخر ومكمله والمنبه عَلَيْهِ. یعنی نماز کی حقیقت تین اجزاء سے مرکب ہے ۔ ایک اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی کا تفکر و استحضار ۔ دوسرے چند ایسی دعائیں اور ایسے اذکار جن سے یہ بات ظاہر ہو کہ بندہ کی بندگی اور اس کے اعمال خالص اللہ کے لئے ہیں اور وہ اپنا رخ یکسوئی کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف کر چکا ہے اور اپنی حاجات میں صرف اللہ تعالیٰ ہی کی مدد چاہتا ہے اور تیسرے چند تعظیمی افعال جیسے رکوع و سجدہ وغیرہ ، ان میں سے ہر ایک دوسرے کی تکمیل کرتا ہے اور اس کی طرف دعوت و ترغیب کا ذریعہ بنتا رہتا ہے ۔ آگے فرماتے ہیں : وَالصَّلَاة مِعْرَاج الْمُؤمن معدة للتجليات الأخروية..... وَسبب عَظِيم لمحبة الله وَرَحمته..... وَإِذا تمكنت من العَبْد اضمحل فِي نور الله ، وكفرت عَنهُ خطاياه..... وَلَا شَيْء أَنْفَع من سوء الْمعرفَة مِنْهَا لَا سِيمَا إِذا فعلت أفعالها وأقوالها على حُضُور الْقلب وَالنِّيَّة الصَّالِحَة..... وَإِذا جعلت رسما مَشْهُورا انفعت من غوائل الرَّسْم نفعا بَينا ، وَصَارَت شعار للْمُسلمِ يتَمَيَّز بِهِ من الْكَافِر..... وَلَا شَيْء فِي تمرين النَّفس على انقياد الطبيعة لِلْعَقْلِ وجريانها فِي حِكْمَة مثل الصَّلَاة. ص 72 ، 73 جلد (1) اس عبارت میں حضرت شاہ صاحب نے نماز کی مندرجہ ذیل چند خصوصیات اور تاثیرات بیان کی ہیں ، اول یہ کہ وہ اہل ایمان کی معراج ہے اور آخرت میں تجلیات الہی کے جو نظارے اہل ایمان کو نصیب ہونے والے ہیں ، ان کی استعداد اور صلاحیت پیدا کرنے کا وہ خاص ذریعہ ہے ۔ دوم یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی محبت و رحمت کے حصول کا وسیلہ ہے ۔ سوم یہ کہ نماز کی حقیقت جب کسی بندہ کو حاصل ہو جاتی ہے اور اس کی روح پر نماز کی کیفیت کا غلبہ ہو جاتا ہے تو وہ بندہ نور الہی کی موجوں میں ڈوب کر گناہوں سے پاک صاف ہو جاتا ہے (جیسے کہ کوئی میلی کچیلی چیز دریا کی موجوں میں پڑ کر پاک صاف ہو جاتی ہے یا جیسے لوہا آگ کی بھٹی میں رکھ کر صاف کیا جاتا ہے) ۔۔۔ چہارم یہ کہ نماز جب حضور قلب اور صادق نیت کے ساتھ پڑھی جائے تو غفلت اور برے خیالات و وساوس کے ازالہ کی وہ بہترین اور بے مثل دوا ہے ۔ پنجم یہ کہ نماز کو جب پوری امت مسلمہ کے لیے ایک معروف و مقرر رسم اور عمومی وظیفہ بنا دیا گیا تو اس کی وجہ سے کفر و شرک اور فسق و ضلال کی بہت سی تباہ کن رسوم سے حفاظت کا فائدہ بھی حاصل ہو گیا اور مسلمانوں کا وہ ایک ایسا امتیازی شعار اور دینی نشان بن گیا ، جس سے کافر اور مسلم کو پہچانا جا سکتا ہے ۔ ششم یہ کہ طبیعت کو عقل کی رہنمائی کا پابند اور اس کا بابع فرمان بنانے کی مشق کا بہترین ذریعہ یہی نماز کا نظام ہے ۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے نماز کی یہ تمام خصوصیات و تاثیرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مختلف ارشادات سے اخذ کی ہیں اور ہر ایک کا حوالہ بھی دیا ہے ، لیکن چونکہ وہ پوری حدیثیں آگے اپنی اپنی جگہ پر آنے والی ہیں اس لئے ہم نے شاہ صاحب کے حوالوں کو اس عبارت سے حذف کر دیا ہے ۔ نماز کی عظمت و اہمیت اور اس کے امتیاز کے بارے میں جو کچھ مذکورہ بالا اقتباسات میں شاہ صاحب نے فرمایا ہے ہم اس کو بالکل کافی سمجھتے ہوئے اسی پر اکتفا کرتے ہیں ۔ اب ناظرین کرام شاہ صاحب کے ان ارشادات کو ذہن میں رکھ کر نماز سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پڑھیں ۔ تشریح ..... مطلب یہ ہے کہ نماز دین اسلام کا ایسا شعار ہے اور حقیقت ایمان سے اس کا ایسا گہرا تعلق ہے کہ اس کو چھوڑ دینے کے بعد آدمی گویا کفر کی سرحد میں پہنچ جاتا ہے ۔
نماز ترک کرنا ایمان کے منافی اور کافرانہ عمل ہے
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہمارے اور اسلام قبول کرنے والے عام لوگوں کے درمیان نماز کا عہد و میثاق ہے ، (یعنی ہر اسلام لانے والے سے ہم نماز کا عہد لیتے ہیں جو ایمان کی خاص نشانی اور اسلام کا شعار ہے) پس جو کوئی نماز چھوڑ دے تو گویا اس نے اسلام کی راہ چھوڑ کے کافرانہ طریقہ اختیار کر لیا ۔
نماز ترک کرنا ایمان کے منافی اور کافرانہ عمل ہے
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میرے خلیل و محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وصیت فرمائی ہے کہ اللہ کے ساتھ کبھی کسی چیز کو شریک نہ کرنا اگرچہ تمہارے ٹکڑے کر دئیے جائیں اور تمہیں آگ میں بھون دیا جائے ، اور خبردار کبھی بالارادہ نماز نہ چھوڑنا ، کیوں کہ جس نے دیدہ و دانستہ اور عمداً نماز چھوڑ دی تو اس کے بارہ میں وہ ذمہ داری ختم ہو گئی جو اللہ کی طرف سے اس کے وفادار اور صاحب ایمان بندوں کے لیے ہے ، اور خبردار شراب کبھی نہ پینا کیوں کہ وہ ہر برائی کی کنجی ہے ۔ (سنن ابن ماجہ) تشریح جس طرح ہر حکومت پر اس کی رعایا کے کچھ حقوق ہوتے ہیں ، اور رعایا جب تک بغاوت جیسا کوئی سنگین جرم نہ کرے ان حقوق کی مستحق سمجھی جاتی ہے ، اسی طرح مالک الملک حق تعالیٰ شانہ نے تمام ایمان والوں اور دین اسلام قبول کرنے والوں کے لیے کچھ خاص احسانات و انعامات کی ذمہ داری محض اپنے لطف و کرم سے لے لی جاتی ہے (جس کا ظہور ان شاء اللہ آخرت میں ہو گا) اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے بتا دیا ہے کہ دیدہ و دانستہ اور بالارادہ نماز چھوڑ دینا دوسرے تمام گناہوں کی طرح صرف ایک گناہ نہیں ہے بلکہ باغیانہ قسم کی ایک سرکشی ہے جس کے بعد وہ شخص رب کریم کی عنایت کا مستحق نہیں رہتا اور رحمت خداوندی اس سے بری الذمہ ہو جاتی ہے ۔ اسی مضمون کی ایک حدیث بعض دوسری کتابوں میں حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی ذکر کی گئی ہے ، اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے بارہ میں قریب قریب انہی الفاظ میں تاکید و تنبیہ فرمائی ہے ، لیکن اس کے آخری الفاظ تارک نماز کے بارہ میں یہ ہے : فَمَنْ تَرَكَهَا مُتَعَمِّدًا فَقَدْ خَرَجَ مِنَ الْمِلَّةِ جس نے دیدہ و دانستہ اور عمداً نماز چھوڑ دی تووہ ہماری ملت سے خارج ہو گیا ۔ (رواہ الطبرانی ، الترغیب للمنذری) ان حدیثوں میں ترک نماز کو کفریا ملت سے خروج اسی بناء پر فرمایا ہے کہ نماز ایمان کی ایسی اہم نشانی اور اسلام کا ایسا خاص الخاص شعار ہے کہ اس کو چھوڑ دینا بظاہر اس بات کی علامت ہے کہ اس شخص کو اللہ و رسول سے اور اسلام سے تعلق نہیں رہا اور اس نے اپنے کو ملت اسلامیہ سے الگ کر لیا ہے ۔ خاص کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد سعادت میں چونکہ اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ کوئی شخص مومن اور مسلمان ہونے کے بعد تارک نماز بھی ہو سکتا ہے اس لئے اس دور میں کسی کا تاررک نماز ہونا اس کے مسلمان نہ ہونے کی عام نشانی تھی ۔ اور اس عاجز کا خیال ہے کہ جلیل القدر تابعی عبد اللہ بن شفیق نے صحابہ کرام کے بارے میں جو یہ فرمایا ہے کہ : كَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَرَوْنَ شَيْئًا مِنَ الْاَعْمَالِ تَرْكَهُ كُفْرًا غَيْرَ الصَّلَاةِ. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کرام نماز کے سوا کسی عمل کے ترک کرنے کو بھی کفر نہیں سمجھتے تھے ۔ (مشکوٰۃ بحوالہ جامع ترمذی) تو اس عاجز کے نزدیک اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ صحابہ کرام دین کے دوسرے ارکان و اعمال مثلاً روزہ ، حج ، زکوٰۃ ، جہاد اور اسی طرح اخلاق و معاملات وغیرہ ابواب کے احکام میں کوتاہی کرنے کو تو بس گناہ اور معصیت سمجھتے تھے ، لیکن نماز چونکہ ایمان کی نشانی اور اس کا عملی ثبوت ہے اور ملت اسلامیہ کا خاص شعار ہے ، اس لیے اس کے ترک کو وہ دین اسلام بے تعلقی اور اسلامی ملت سے خروج کی علامت سمجھتے تھے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم ۔ ان حدیثوں سے امام احمد بن حنبلؒ اور بعض دوسرے اکابر امت نے تو یہ سمجھا ہے کہ نماز چھوڑ دینے سے آدمی قطعاً کافر اور مرتد ہو جاتا ہے اور اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں رہتا حتی کہ اگر وہ اسی حال میں مر جائے تو اس کی نماز جنازہ بھی نہیں پڑھی جائے گی اور مسلمانوں کے قبرستان میں دفن ہونے کی اجازت بھی نہیں دی جائے گی ۔ بہر حال اس کے احکام وہی ہوں گے جو مرتد کے ہوتے ہیں ۔ گویا ان حضرات کے نزدیک کسی مسلمان کا نماز چھوڑ دینا بت یا صلیب کے سامنے سجدہ کرنے یا اللہ تعالیٰ یا اس کے رسول کی شان میں گستاخی کرنے کی طرح کا ایک عمل ہے جس سے آدمی قطعاً کافر ہو جاتا ہے خواہ اس کے عقیدہ میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی ہو ۔ لیکن ۔۔۔ دوسرے اکثر ائمہ حق کی رائے یہ ہے کہ ترک نماز اگرچہ ایک کافرانہ عمل ہے ، جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ، لیکن اگر کسی بدبخت نے صرف غفلت سے نماز چھوڑ دی ہے مگر اس کے دل میں نماز سے انکار اور عقیدہ میں کوئی انحراف نہیں پیدا ہوا ہے تو اگرچہ وہ دنیا و آخرت میں سخت سے سخت سزا کا مستحق ہے لیکن اسلام سے اور ملت اسلامیہ سے اس کا تعلق بالکل ٹوٹ نہیں گیا ہے اور اس پر مرتد کے احکام جاری نہیں ہو گے ، ان حضرات کے نزدیک مندرجہ بالا احادیث میں ترک نماز کو جو کفر کہا گیا ہے اس کا مطلب کافرانہ عمل ہے اور اس گناہ کی انتہائی شدت اور خباثت ظاہر کرنے کےلئے یہ انداز بیان اختیار کیا گیا ہے ، جس طرح کسی مضر غذا یا دوا کے لیے کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ بالکل زہر ہے ۔
نماز ترک کرنا ایمان کے منافی اور کافرانہ عمل ہے
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے بارے میں گفتگو فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جو بندہ نماز اہتمام سے ادا کرے گا تو وہ قیامت کے دن اس کے واسطے نور ہو گی ، (جس سے قیامت کی اندھیریوں میں اس کو روشنی ملے گی اور اس کے ایمان اور اللہ تعالیٰ سے اس کی وفاداری اور اطاعت شعاری کی نشانی) اور دلیل ہو گی ، اور اس کے لیے نجات کا ذریعہ بنے گی ، اور جس شخص نے نماز کی ادائیگی کا اہتمام نہیں کیا (اور اس سے غفلت اور بے پروائی برتی) تو وہ اس کے واسطے نہ نور بنے گی ، نہ برہان اور نہ ذریعہ نجات ، اور وہ بدبخت قیامت میں قارون ، فرعون ، ہامان اور مشرکین مکہ کے سرغنہ) ابی بن خلف کے ساتھ ہو گا ۔ (مسند احمد ، مسند دارمی ، شعب الایمان للبیہقی) تشریح مطلب یہ ہے کہ نماز سے لاپرواہی وہ جرم عظیم ہے جو آدمی کو اس جہنم میں پہنچائے گا جہاں فرعون و ہامان اور قارون اور ابی بن خلف جیسے خدا کے باغی ڈالے جائیں گے ۔ لیکن ظاہر ہے کہ جہنم میں جانے والے سب لوگوں کا عذاب ایک ہی درجہ کا نہ ہو گا ، ایک قید خانہ میں بہت سے قیدی ہوتے ہیں اور اپنے اپنے جرائم کے مطابق ان کی سزائیں مختلف ہوتی ہیں ۔ ظلمات بعضها فوق بعض
نماز پنجگانہ کی فرضیت اور ان پر وعدہ مغفرت
پانچ نمازیں اللہ تعالیٰ نے فرض کی ہیں جس نے ان کے لیے اچھی طرح وضو کیا اور ٹھیک وقت پر ان کو پڑھا اور رکوع سجود بھی جیسے کرنے چاہئیں ویسے ہی کئے اور خشوع کی صفت کے ساتھ ان کو ادا کیا تو ایسے شخص کے لئے اللہ تعالیٰ کا پکا وعدہ ہے کہ وہ اس کو بخش دے گا اور جس نے ایسا نہیں کیا (اور نماز کے بارہ میں اس نے کوتاہی کی) تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ کا کوئی وعدہ نہیں ہے چاہے تو اس کو بخش دے گا اور چاہے گا تو سزا دے گا ۔ (مسند احمد ، سنن ابی داؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ جو صاحب ایمان بندہ اہتمام اور فکر کے ساتھ نماز اچھی طرح ادا کرے گا تو اولاً تو وہ خود ہی گناہوں سے پرہیز کرنے والا ہو گا اور اگر شیطان یا نفس کے فریب سے کبھی اس سے گناہ سرزد ہوں گے تو نماز کی برکت سے اس کو توبہ و استغفار کی توفیق ملتی رہے گی (جیسا کہ عام تجربہ اور مشاہدہ بھی ہے) اور اس سب کے علاوہ نماز اس کے لئے کفارہ سیئات بھی بنتی رہے گی اور پھر نماز خود گناہوں کے میل کچیل کو صاف کرنے والی اور بندہ کو اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت و عنایت کا مستحق بنانے والی وہ عبادت ہے جو فرشتوں کے لئے بھی باعث رشک ہے ، اس لئے جو بندے نماز کے شرائط و آداب کا پورا اہتمام کرتے ہوئے خشوع کے ساتھ نماز ادا کرنے کے عادی ہوں گے ان کی مغفرت بالکل یقینی ہے ، اور جو لوگ دعوائے اسلام کے باوجود نماز کے بارے میں کوتاہی کریں گے (ان کے حالات کے مطابق) اللہ تعالیٰ جو فیصلہ چاہے گا کرے گا ، چاہے ان کو سزا دے یا اپنی رحمت سے معاف فرما دے اور بخش دے ۔ بہر حال وہ سخت خطرہ میں ہیں اور ان کی مغفرت اور بخشش کی کوئی گارنٹی نہیں ۔
نماز گناہوں کی معافی اور تطہیر کا ذریعہ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن ارشاد فرمایا بتلاؤ اگر تم میں سے کسی کے دروازہ پر نہر جاری ہو جس میں روزانہ پانچ دفعہ وہ نہاتا ہو تو کیا اس کے جسم پر کچھ میل کچیل باقی رہے گا ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ کچھ بھی نہیں باقی رہے گا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بالکل یہی مثال پانچ نمازوں کی ہے ، اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ سے خطاؤں کو دھوتا اور مٹاتا ہے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح صاحب ایمان بندہ جس کو نماز کی حقیقیت نصیب ہو ۔ جب نماز میں مشغول ہوتا ہے تو اس کی روح گویا اللہ تعالیٰ کے بحر جلال و جمال میں غوطہ زن ہوتی ہے ، اور جس طرح کوئی میلا کچیلا اور گندہ کپڑا دریا کی موجوں پر پڑ کر پاک و صاف اور اجلا ہو جاتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کے جلال و جمال کے انوار کی موجیںاس بندہ کے سارے میل کچیل کو صاف کر دیتی ہیں ، اور جب دن میں پانچ دفعہ یہ عمل ہو تو ظاہر ہے کہ اس بندہ میں میل کچیل کا نام و نشان بھی نہ رہ سکے گا پس یہی حقیقیت ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مثال کے ذریعہ سمجھائی ہے ۔ اگلی حدیث نمبر ۷ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی بات ایک دوسرے انداز میں اور دوسری مثال کے ذریعہ سمجھانے کی کوشش فرمائی ہے ۔
نماز گناہوں کی معافی اور تطہیر کا ذریعہ
حضرت ابو ذررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن سردی کے ایام میں باہر تشریف لے گئے اور درختو ں کے پتے (خزاں کے سبب سے) از خود جھڑ رہے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک درخت کی دوٹہنیوں کو پکڑا (اور ہلایا) تو ایک دم اس کے پتے جھڑنے لگے ، پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا : اے ابو ذر ! میں نے عرض کیا حاضر ہوں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب مؤمن بندہ خالص اللہ تعالیٰ کے لئے نماز پڑھتا ہے تو اس کے گناہ ان پتوں کی طرح جھڑ جاتے ہیں۔ تشریح یعنی جس طرح آفتاب کی شعاعوں اور موسم کی خاص ہواؤں نے ان پتوں کو خشک کر دیا ہے اور اب یہ ہوا کے معمولی جھونکوں سے ذرا حرکت دینے سے اس طرح جھڑتے ہیں اسی طرح جب بندہ مومن پوری طرح اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو کر صرف اس کی رض وجوئی کے لئے نماز پڑھتا ہے تو انوارِ الٰہی کی شعاعیں اور رحمت الہی کے جھونکے اس کے گناہوں کی گندگی کو فنا اور اس کے قصوروں کے خس و خاشاک کو اس سے جدا کر کے اس کو پاک صاف کر دیتے ہیں ۔
نماز گناہوں کی معافی اور تطہیر کا ذریعہ
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو مسلمان آدمی فرض ۔۔۔ تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز کی یہ تاثیر اور برکت کہ وہ سابقہ گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے اور پہلے گناہوں کی گندگی کو دھو ڈالتی ہے اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ وہ آدمی کبیرہ گناہوں سے آلودہ نہ ہو ، کیوں کہ کبیرہ گناہوں کی نحوست اتنی غلیظ ہوتی ہے اور اس کے ناپاک اثرات اتنے گہرے ہوتے ہیں جن کا ازالہ صرف توبہ ہی سے ہو سکتا ہے ، ہاں اللہ تعالیٰ چاہے تو یونہی معاف فرما دے اس کا کوئی ہاتھ پکڑنے والا نہیں ۔
نماز پر جنت اور مغفرت کا وعدہ
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو مسلمان اچھی طرح وضو کرے ، پھر اللہ کے حضور میں کھڑے ہو کر پوری قلبی اور توجہ کے ساتھ دو رکعت نماز پڑھے ، تو جنت اس کے لیے ضرور واجب ہو جائے گی ۔ (صحیح مسلم)
نماز پر جنت اور مغفرت کا وعدہ
حضرت زید بن خالد جہنی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : اللہ تعالیٰ کا جو بندہ ایسی دورکعت نماز پڑھے جس میں اس کو غفلت بالکل نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اس نماز ہی کے صلہ میں اس کے سارے سابقہ گناہ معاف فرمادےگا۔ تشریح مندرجہ بالا حدیثوں کی تشریح میں اوپر جو کچھ لکھا جا چکا ہے ، وہی اس حدیث کی تشریح کے لیے بھی کافی ہے ۔ افسوس کیسی بد بختی ہے کہ نماز کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ترہیبی اور ترغیبی ارشادات کے باوجود امت کی بڑی تعداد آج نماز سے غافل اور بے پروا ہو کر اپنے کو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے الطاف و عنایات سے محروم اور اپنی دنیا و آخرت کو برباد کر رہی ہے ۔ وَمَا ظَلَمْنَاهُمْ ، وَلَكِنْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُوْنَ
نماز محبوب ترین عمل
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ دینی اعمال میں سے کو ن سا عمل اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے …؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ٹھیک وقت پر نماز پڑھنا۔ پھر میں نے عرض کیا کہ اس کے بعد کون سا عمل زیادہ محبوب ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ماں باپ کی خدمت کرنا ۔ میں نے عرض کیا کہ اس کے بعد کون سا عمل زیادہ محبوب ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا راہ خدا میں جہاد کرنا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے والدین کی خدمت اور جہاد سے افضل اور محبوب ترین “ نماز ” کو بتلایا ہے ، ار بلا شبہ نماز کا مقام یہی ہے ۔ اور اس کی کچھ تفصیل اس ناچیز کے سالہ “ حقیقت نماز ” میں بھی دیکھی جا سکتی ہے ۔
نماز کے اوقات
حضرت عبداللہ ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز کے اوقات کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کہ فجر کی نماز کا وقت تو اس وقت تک رہتا ہے جب تک کہ سورج کا ابتدائی کنارہ نمودار نہ ہو ، (یعنی صبح کو سورج جب طلوع ہونے لگے اور افق پر اس کا کنارہ ذرا بھی نمودار ہو جائے تو فجر کا وقت ختم ہو جاتا ہے) اور ظہر کا وقت اس وقت تک ہوتا ہے جب آفتاب بیچ آسمان سے مغرب کی جانب ڈھل جائے اور جب تک کہ عصر کا وقت نہیں آ جاتا اور عصر کی نماز کا وقت اس وقت تک رہتا ہے جب تک کہ سورج زرد نہ پڑ جائے اور اس سورج کا پہلا کنارہ ڈوبنے لگے اور مغرب کی نماز کا وقت اس وقت ہوتا ہے جب آفتاب ڈوب کر بالکل غائب ہو جائے اور اس وقت تک رہتا ہے جب تک شفق غائب نہ ہو ، اور عشاء کی نماز کا وقت آدھی رات تک ہے۔ تشریح نماز کے اوقات نماز سے جو اعلیٰ مقاصد اور منافع وابستہ ہیں ، اور اللہ کے خوش نصیب بندں کے لیے اس میں جو لذتیں ہیں ان کا تقاضا تو یہ تھا کہ زندگی کے اگر سارے لمحات نہیں تو کم از کم دن رات کے اکثر اوقات نماز میں ضرف کرنے ضروری قرار دئیے جاتے ، لیکن چونکہ حکمت الٰہی نے انسانوں پر اور بھی بہت سی ذمہ داریاں ڈالی ہیں ، اس لئے دن رات میں صرف پانچ وقت کی نمازیں فرض کی گئی ہیں ۔ اور ان کے اوقات ایسی حکمت سے مقرر کئے گئے ہیں کہ نماز سے جو مقاصد وابستہ ہیں وہ بھی پورے ہوں اور دوسری ذمہ داریوں کی ادائیگی میں بھی خلل نہ پڑے ۔ صبح نیند سے اٹھنے کے وقت (یعنی صبح صادق کے بعد طلوع آفتاب سے پہلے) فجر کی نماز فرض کی گئی ہے تا کہ صبح کو سب سے پہلا کام بارگاہِ قدوسیت میں حاضری و اظہار نیاز اور بندگی کے میثاق کی تجدید ہو ، پھر دوپہر یعنی زوال آفتاب تک کوئی نماز فرض نہیں کی گئی تا کہ ہر شخص اپنے حالات کے مطابق اپنے کام کاج اور دوسری ذمہ داریوں کو اس طویل وقفہ میں انجام دے سکے ۔ پورے آدھے دن کے اس وقفہ کے کے بعد ظہر کی نماز فرض کی گئی اور اس میں بھی یہ سہولت دی گئی کہ خواہ اول وقت ادا کی جائے یا اپنے حالات کے مطابق گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ تاخیر کر کے پڑھی جائے ۔ بہرحال یہ لازم قرار دیا گیا ہے کہ اس طویل وقفہ کے بعد نماز ظہر ادا کی جائے تا کہ غفلت یا بارگاہ خداوندی سے غیر حاضری کی مدت اس سے زیادہ طویل نہ ہو ، پھر شام کے آثار شروع ہونے کے وقت عصر کی نماز فرض کی گئی تا کہ اس خاص وقت میں بھی جو اکثر لوگوں کے لیے اپنے اپنے کاموں سے فرصت پانے اور تفریحی مشاغل مشغول ہونے کا وقت ہوتا ہے ، ایمان والے بندے اپنے ظاہر و باطن سے رب قدوس کی بارگاہ میں حاضر اور اس کی عبادت میں مشغول ہوں ۔ پھر دن کے ختم ہونے پر غروب آفتاب کے بعد مغرب کی نماز فرض کی گئ ، تا کہ دن کے خاتمہ اور رات کے آغاز کے وقت ہم پھر بارگاہ قدوسیت میں حاضر ہو کر اس کی حمد و تسبیح اور بندگی کے عہد کی تجدید کریں ۔ اس کے بعد سونے کے وقت سے پہلے عشاء کی نماز لازم کی گئی ، تا کہ روزانہ کی زندگی کا ہمارا آخری عمل یہی ہو ، اور ہم اپنے مالک سے رابطہ نیاز قائم کر کے اور ایمان و عبدیت کے عہد کی تجدید کر کے سوئیں اور ہماری سہولت کے لیے پانچوں نمازوں کے ان وقتوں میں کافی وسعت بھی دی گئی ہے اپنے وقتی حالات کے مطابق ہم اول وقت بھی پڑھ سکتے ہیں اور درمیانی وقت میں بھی اور آخرت وقت میں بھی ۔ اس پوری تفصیل پر غور کر کے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ظہر سے لے کر عشاء تک کی نمازوں کے درمیانی وقفے تو اتنے مختصر مختصر ہیں کہ ایک سچے مومن کے لیے جو نماز کی قدر و قیمت سے واقف ہو اور اس کی لذت سے آشنا ہو ، ظہر پڑھنے کے بعد عصر کا ، عصر کے بعد مغرب کا اور مغرب کے بعد عشاء کا منتظر اور اس کے لیے فکر مند رہنا قدرتی طور پر بالکل ناگزیر ہے اور اس طرح گویا اس پورے وقفہ میں اس کا دل اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ اور نماز سے متعلق ہی رہے گا ۔ البتہ فجر سے ظہر تک کا وقفہ خاصا طویل ہے اور جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ، اس کو اس لئے اتنا طویل رکھا گیا ہے کہ بندے اپنی دوسری ضروریات اور دوسرے کاموں کو اس وقفہ میں اطمینان سے انجام دے سکیں تاہم اس کی ترغیب دی گئی ے ک جن خوش نصیب بندوں سے ہو سکے وہ اس وقفہ کے درمیان چاشت کی چند رکعتیں پڑھ لیا کریں ۔ اسی طرح رات کے سونے کو انسان کی ایک فطری اور حقیقی ضرورت قرار دے کر عشاء سے فجر تک کوئی نماز فرض نہیں کی گئی ہے ، اور یہ وقفہ سب سے زیادہ طویل رکھا گیا ہے لیکن یہاں بھی اس کی ترغیب دی گئی ہے کہ اللہ کے بندے آدھی رات گزرنے کے بعد کسی وقت اٹھ کر تہجد کی چند رکعتیں پڑھ لیا کریں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بڑی بڑی فضیلتیں بیان فرمائی ہیں اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ایسا دائمی معمول تھا کہ سجر میں بھی قضا نہیں ہوتا تھا ۔ چاشت اور تہجد کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ترغیبی ارشادات ان شاء اللہ اپنے موقع پر آئیں گے ، یہاں تو یہ تمہیدی اشارے صرف نماز پنجگانہ کے بارے میں کیے گئے یں ۔ اس کے بعد اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث پڑھی جائیں ۔ تشریح ..... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں سائل کے سوال کے جواب میں اکثر نمازوں کا آخری اور انتہائی وقت ہی بیان فرمایا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سائل غالباً یہی دریافت کرنا چاہتا ہے کہ ان پانچوں نمازوں کے وقتوں میں کہاں تک وسعت ہے اور ہر نماز کس وقت تک پڑھی جا سکتی ہے اور اس کا آخری وقت کیا ہے ؟ ابتدائی وقت غالباً اس کو معلوم ہو گا ۔ واللہ اعلم ۔ مغرب کی نماز کے بارہ میں اس حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ “ اس کا وقت اس وقت تک رہتا ہے جب تک شفق غائب نہ ہو ” ۔ اس شفق کی تعین اور تحقیق میں ہمارے ائمہ کی رائیں کچھ مختلف ہیں ، اتنی بات تو لوگ عام طور سے جانتے ہیں کہ غروب آفتاب کے بعد مغرب کی جانت کچھ دیر تک سرخی رہتی ہے (1) ، اس کے بعد وہ سرخی ختم ہو جاتی ہے اور اس کی جگہ کچھ دیر تک سفیدی رہتی ہے (2) ، پھر وہ سفیدی بھی غائب ہو جاتی ہے اور سیاہی آ جاتی ہے ۔ پس اکثر ائمہ کی تحقیق تو یہ ہے کہ شفق غروب آفتاب کے بعد والی سرخی کا نام ہے اس لئے ان حضرات کے نزدیک سرخی ختم ہونے پر مغرب کا وقت ختم ہو کر عشاء کا وقت آ جاتا ہے ۔ اور امام ابو حنیفہؒ کا مشہور قول یہ ہے کہ غروب آفتاب کے بعد والی سرخی اور اس کے بعد والی سفیدی دونوں کو شفق کہا جاتا ہے اس لئے ان کے قول کے مطابق مغرب کا وقت اس وقت ختم ہوتا ہے ، جب مغربی افق پر سفیدی بھی باقی نہ رہے اور سیاہی آ جائے اور اسی وقت ان کے نزدیک عچاء کا وقت آتا ہے ، لیکن امام ابو حنیفہؒ سے ایک روایت دوسرے ائمہ کی تحقیق کے مطابق بھی منقول ہے ، اور وہی اس مسئلہ میں ان کے دونوں مشہور شاگردوں امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ کی بھی تحقیق ہے ۔ اسی لیے بہت سے اکابر احناف نے اسی پر فتویٰ بھی دیا ہے ۔ عشاء کا آخری وقت اس حدیث میں اور اس کے علاوہ بھی بعض دوسری حدیثوں میں آدھی رات تک بتایا گیا ہے لیکن دوسری بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صبح صادق تک عشاء کا وقت باقی رہتا ہے اس لئے جن حدیثوں میں عشاء کا وقت آدھی رات تک بتایا گیا ہے ، ان کا مطلب یہ سمجھا گیا ہے کہ آدھی رات تک عشاء کی نماز پڑھنا جائز ہے اور اس کے بعد پڑھنامکروہ ہے ۔ واللہ اعلم ۔
نماز کے اوقات
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک صاحب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز کے اوقات کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا ان دونوں دن (آج اور کل) تم ہمارے ساتھ نماز پڑھو۔ پھر (دوپہر کے بعد) جیسے ہی آفتاب ڈھل گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا ، انہوں نے اذان دی ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تو انہوں ظہر کی نماز کے لئے اقامت کہی (اور ظہر کی نماز پڑھی گئی) ، پھر (عصر کا وقت آنے پر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا ، انہوں نے (قاعدہ کے مطابق پہلے اذان اور پھر) عصر کے لئے اقامت کہی (اور عصر کی نماز ہوئی) اور یہ اذان اور پھر نماز ایسے وقت ہوئی کہ آفتاب خوب اونچا اور پوری طرح روشن اور صاف تھا (یعنی اس کی روشنی میں وہ فرق نہیں رہا رتھا جو شام کو ہو جاتا ہے) پھر آفتاب غروب ہوتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال کو حکم دیا تو انہوں مغرب کی اقامت کہی (اور مغرب کی نماز ہوئی) جب جیسے ہی شفق غائب ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم دیا تو انہوں عشاء کی اقامت کہی (اور عشاء کی نماز پڑھی گئی) پھر رات کے ختم پر جیسے ہی صبح صادق نمودار ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم دیا اور انہوں نے فجر کی اقامت کہی (اور فجر کی نماز پڑھی گئی) ، پھر جب دوسرا دن ہوا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال کو ٹھنڈے وقت ظہر کی نماز قائم کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ ظہر (آج تاخیر کر کے) ٹھنڈے وقت پڑھی جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسب حکم انہوں نے ٹھنڈے وقت پر ظہر کی اقامت کہی اور خوب اچھی طرح ٹھنڈا وقت کر دیا (یعنی کافی تاخیر کر کے ظہر اس دن بالکل آخری وقت پڑھی گئی) اور اور عصر کی نماز ایسے وقت پڑھی گئی کہ آفتاب اگرچہ نیچے ہی تھا ، لیکن کل گزشتہ کے مقابلہ میں زیادہ مؤخر کر کے پڑھی اور مغرب کی نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شفق کے غائب ہو جانے سے پہلے پڑھی اور عشاء تہائی رات گزر جانے کے بعد پڑھی اور فجر کی نماز اسفار کے وقت یعنی (دن کا اجالا پھیل جانے پر) پڑھی ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا : ” وہ صاحب کہاں ہے جو نماز کے اوقات کے بارے میں سوال کرتے تھے ؟ “ ، اس شخص نے عرض کیا کہ میں حاضر ہوں یا رسول اللہ ! ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تمہاری نمازوں کا وقت اس کے درمیان ہےجو تم نے دیکھا ۔ تشریح ان سائل کو نماز کے اوقات کا اول و آخر سمجھانے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف زبانی تعلیم و تفہیم کے بجائے یہ بہتر سمجھا کہ عمل کر کے دکھا دیا جائے ، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ دو دن ہمارے ساتھ پانچوں نمازیں پڑھو ، پھر پہلے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر نماز اول وقت پڑھی اور دوسرے دن ہر نماز جائز حد تک مؤخر کر کے پڑھی اور ان سے فرمایا کہ ہر نماز کے وقت کا اول و آخر یہ ہے جس میں تم نے ہم کو نماز پڑھتا دیکھا ۔
نماز کے اوقات
سیار بن سلامہ سے روایت ہے کہ میں اپنے والد کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ تو میرے والد نے ان سے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرض نمازیں کیسے پڑھا کرتے تھے؟ (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز پڑھنے کے اوقات کیا تھے ؟) تو انہوں نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوپہر والی نماز جس کو تم “ نماز اولیٰ ” کہتے ہو (یعنی ظہر) اس وقت پڑھتے تھے جب سورج ڈھل جاتا تھا ۔ اور عصر ایسے وقت پڑھتے تھے کہ اس کے بعد ہم میں سے کوئی آدمی مدینہ کے بالکل آخری سے پر اپنے گھر واپس جاتا تو ایسے وقت پہنچ جاتا تھا کہ آفتاب زندہ ہوتا تھا (یعنی اس میں روشنی و حرارت باقی ہی رہتی تھی ۔ وہ زرد اور ٹھنڈا نہیں ہو جاتا تھا آگے سیار بن سلامہ کہتے ہیں) اور میں یہ بھول گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مغرب کی نماز کے بارے میں انہوں نے کیا بتایا تھا (آگے ابو برزہ اسلمی کا بیان نقل کرتے ہیں کہ) اور عشاء (جسے تم لوگ عتمہ کہتے ہو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیر کر کے پڑھنا پسند فرماتے تھے اور اس سے پہلے سونے کو اور اس کے بعد باتیں کرنے کو ناپسند فرماتے تھے ۔ اور صبح کی نماز سے ایسے وقت فارغ ہوتے تھے جب آدمی (صبح کے اجالے میں) اپنے پاس بیٹھنے والوں کو پہچان لیتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم (فجر کی نماز میں) ساٹھ سے لے کر سو تک آیتیں پڑھتے تھے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث کے راوی سیار بن سلامہ کو یہ یاد نہیں رہا کہ ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مغرب کی نماز کا وقت کیا بتایا تھا ، دوسری حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کی نماز عام طور سے اول وقت یعنی آفتاب غروب ہوتے ہی پڑھا کرتے تھے ، کبھی کسی خاص ضرورت ار مصلحت ہی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب کی نماز کی تاخیر کر کے پڑھی ہے ۔
نماز کے اوقات
حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے پوتے محمد بن عمرو بن حسن سے روایت ہے کہ ہم نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازوں کے بارے میں سوال کیا۔ (یعنی یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پنجگانہ نمازیں کس وقت پڑھتے تھے) تو انہوں نے بتایا کہ ظہر کی نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نصف النہار میں (یعنی زوال ہوتے ہی) پڑھتے تھے۔ اور عصر ایسے وقت کہ سورج بالکل زندہ ہوتا تھا ، (اس کی گرمی اور روشنی میں کوئی فرق نہیں پڑتا تھا) اور مغرب اس وقت جب آفتاب غروب ہوتا ، اور ” عشاء (کے بارے میں معمول یہ تھا کہ) جب لوگ زیادہ تعداد میں آ جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سویرا پڑھ لیتے تھے اور لوگ کم ہوتے تو مؤخر کر کے پڑھتے تھے ۔ اور صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھتے تھے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح حضرت جابرؓ کی اس حدیث میں اور اس سے پہلی ابو برزہ اسلمیؓ والی حدیث میں بھی ظہر کی نماز کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ بتایا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم زوال ہوتے ہی نصف النہار میں پڑھ لیا کرتے تھے ، لیکن آگے آنے والی بعض دوسری حدیثوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ معمول آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گرمی کے موسم کے علاوہ تھا ۔ جب گرمی سخت پڑتی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر میں اتنی تاخیر فرماتے تھے کہ گرمی کی حدت ختم ہو جائے اور وقت کچھ ٹھنڈا ہو جائے اور اسی کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو بھی ہدایت فرمائی ہے ۔
نماز کے اوقات
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ جب گرمی ہوتی تو دیر کر کے ٹھنڈے وقت (ظہر کی) نماز پڑھتے اور جب سردی کا موسم ہوتا تو جلدی (یعنی اول ہی وقت میں) پڑھ لیتے ۔ (نسائی)
نماز کے اوقات
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : جب گرمی سخت ہو تو ظہر کو ٹھنڈے وقت پڑھا کرو ، کیونکہ گرمی کی شدت آتش دوزخ کے جوش سے ہے۔ (صحیح بخاری) (یہ حدیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم دونوں میں حضرت ابو ہریرہ کی روایت سے بھی مروی ہے ، لیکن اس میں “ فَأَبْرِدُوا بِالصَّلاَةِ ” کا لفظ ہے ، اگرچہ مراد اس سے بھی ظہر ہی ہے) تشریح دنیا میں ہم جو کچھ دیکھتے ہیں اور محسوس کرتے ہین اس کے کچھ تو ظاہری اسباب ہوتے ہیں جنہیں ہم خود بھی جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں اور کچھ باطنی اسباب ہوتے ہیں جو ہمارے احساس و ادراک کی دسترس سے باہر ہوتے ہیں ۔ انبیاء علیہم السلام کبھی کبھی ان کی طرف اشارے فرماتے ہیں ، اس حدیث میں جو فرمایا گیا ہے کہ “ گرمی کی شدت آتش دوزخ کے جوش سے ہے ” یہ اسی قبیل کی چیز ہے ، گرمی کی شدت کا ظاہری سبب تو آفتاب ہے اور اس بات کو ہر شخص جانتا ہے اور کوئی بھی اس سے انکار نہیں کر سکتا ، لیکن عالم باطن ، اور عالم غیب میں اس کا تعلق جہنم کی آگ سے بھی ہے ، اور یہ ان حقائق میں سے ہے جو انبیاء علیہم السلام ہی کے ذریعہ معلوم ہو سکتے ہیں ۔ دراصل ہر راحت اور لذت کا مرکز اور سرچشمہ جنت ہے ، اور ہر تکلیف و مصیبت کا اصل خزانہ اور سرچشمہ جہنم ہے ، اس دنیا میں جو کچھ راحت و لذت یا تکلیف و مصیبت ہے وہ وہیں کے لامحدود خزانہ کا کوئی ذرہ اور اسی اتہاہ سمندر کا کوئی قطرہ اور وہیں کی ہواؤں کا کوئی جونکا ہے ، اور اس کو اس مرکز و مخزن سے خاص نسبت ہے ، اسی بنیاد پر اس حدیث میں گرمی کی شدت کو جہنم کی تیزی اور اس کے جوش و خروش سے منسوب کیا گیا ہے ، اور اصل مقصد بس اتنا ہے کہ گرمی کی شدت کو جہنم سے ایک خاص نسبت ہے اور وہ غضب خداوندی کا ایک مظہر ہے اور خنکی و ٹھنڈک رحمت خداوندی کی لہر ہے اس لئے جس موسم میں نصف النہار کے وقت سخت گرمی ہو اور گرمی کی شدت سے فضا جہنم بن رہی ہو تو ظہر کی نماز کچھ تاخیر کر کے ایسے وقت پڑھی جائے جب گرمی کی شدت ٹوٹ جائے وقت کچھ ٹھنڈا ہو جائے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم ۔
وقت عصر کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز ایسے وقت پڑھتے تھے کہ آفتاب بلند اور زندہ ہوتا تھا۔ پس عوالی (یعنی مدینہ کی بالائی آبادیوں) کی طرف جانے والا آدمی (حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز عصر پڑھ کے) چلتا تھا تو وہ عوالی ایسے وقت پہنچ جاتا تھا کہ آفتاب اس وقت بھی اونچا ہوتا تھا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح حضرت انس رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے بہت طویل عمر عطا فرمائی (1) ۔ پہلی صدی ہجری کے اواخر میں ان کی وفات ہوئی ہے ۔ خلافت راشدہ کے خاتمہ کے بعد اموی حکومت کے بھی تقریباً پچاس سال انہوں نے دیکھے ہیں ، ان کے زمانے میں بنو امیہ کے بعض خلفا اور امراء عصر کی نماز میں بہت تاخیر کرتے تھے ، حضرت انس رضی اللہ عنہ ان کے اس طرزِ عمل کو بہت غلط اور خلاف سنت سمجھتے تھے ، اور حسب موقع اپنی اس رائے کا اظہار فرماتے تھے ، اس حدیث کے بیان کرنے سے بھی ان کا مقصد یہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول عصر کی نماز میں اتنی تاخیر کا نہیں تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے وقت عصر پڑھتے تھے کہ آفتاب خوب بلند اور اپنی حرارت اور روشنی کے لحاظ سے بالکل زندہ ہوتا تھا ، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عصر پڑھ کر اگر کوئی شخص عوالی کی طرف جاتا تو جس وقت وہ وہاں پہنچتا اس وقت بھی آفتاب بلندی پر ہوتا ۔ عوالی مدینہ طیبہ کے قریب کی وہ آبادیاں کہلاتی ہیں جو بجانب مشرق تھوڑے فاصلہ پر ہیں ۔ ان مین سے جو قریب ہیں وہ دو تین میل پر ہیں اور جو دور ہین وہ پانچ چھ میل پر ہیں
وقت عصر کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : یہ منافق والی نماز ہے کہ آدمی بیٹھا ہوا آفتاب کا انتظار کرتا رہے یہاں تک کہ وہ زرد پڑ جائے اور شیطان کے دونوں قرنوں کے درمیان ہو جائے تو کھڑا ہو اور چار ٹھونگیں مارے اور ان میں اللہ کو بہت ہی تھوڑا یاد کرے ۔ (صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ عصر کی نماز میں بلا کسی مجبوری کے اتنی تاخیر کرنا کہ آفتاب میں زردی آ جائے اور اس آخری اور تنگ وقت میں مرغ کی ٹھونگوں کی طرح جلدی جلدی چار رکعتیں پڑھنا جن میں اللہ کے ذکر کی مقدار بھی بہت کم اور ب مطلب یہ ہے کہ عصر کی نماز میں بلا کسی مجبوری کے اتنی تاخیر کرنا کہ آفتاب میں زردی آ جائے اور اس آخری اور تنگ وقت میں مرغ کی ٹھونگوں کی طرح جلدی جلدی چار رکعتیں پڑھنا جن میں اللہ کے ذکر کی مقدار بھی بہت کم اور ب مطلب یہ ہے کہ عصر کی نماز میں بلا کسی مجبوری کے اتنی تاخیر کرنا کہ آفتاب میں زردی آ جائے اور اس آخری اور تنگ وقت میں مرغ کی ٹھونگوں کی طرح جلدی جلدی چار رکعتیں پڑھنا جن میں اللہ کے ذکر کی مقدار بھی بہت کم اور بس برائے نام ہو ، ایک منافقانہ عمل ہے ، مؤمن کو چاہئے کہ ہر نماز خاص کر عصر کی نماز اپنے صحیح وقت پر اور طمانیت اور تعدیل کے ساتھ پڑھے جلدی جلدی رکوع سجدہ کرنے کی کیفیت کو مرغ کی ٹھونگوں سے تشبیہ دی گئی ہے ، غالبا اس سے بہتر کوئی تشبیہ نہیں ہو سکتی ۔ “ شیطان کے دو قرنوں ” کے درمیان آفتاب کے طلوع اور غروب ہونے کا ذکر بعض احادیث میں بھی آیا ہے ، ہم جس طرح شیطان کی پوری حقیقت نہیں جانتے ، اسی طرح اس کے دو قرنوں اور ان کے درمیان آفتاب کے طلوع و غروب کی حقیقت بھی ہمارے معلومات کے دائرے سے باہر کی چیز ہے اور جیسا کہ بعض شارحین نے لکھا ہے یہ بھی ممکن ہے کہ یہ کوئی تشبیہ و تمثیل ہو ۔ واللہ اعلم ۔
وقت مغرب کے بارے میں
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میری امت ہمیشہ خیر کے ساتھ رہے گی ، جب تک کہ مغرب کی نماز اتنی مؤخر کر کے نہ پڑھے کہ ستارے گنجان ہو جائیں ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح مغرب کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عموماً اول وقت میں پڑھتے تھے ، جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوا ، بلا کسی عذر اور مجبوری کے اس میں اتنی تاخیر کرنا کہ ستاروں کا جال آسمان پر پھیل جائے ناپسندیدہ اور مکروہ ہے ، اگرچہ اس کا وقت جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا شفق غائب ہونے تک باقی رہتا ہے ۔ تاہم اگر کبھی کسی اہم دینی مشغولیت کی وجہ سے مغرب میں کچھ تاخیر ہو جائے تو اس کی گنجائش ہے ، صحیح بخاری میں عبداللہ بن شقیق سے مروی ہے کہ ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے عصر کے بعد وعظ شروع فرمایا یہاں تک کہ آفتاب غروب ہو گیا اور آسمان پر ستارے نکل آئے اور آپ کی بات جاری رہی ، حاضرین میں سے بعض نے کہا “ الصلوٰۃ الصلوٰۃ ” تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان کو ڈانٹا اور کبھی کبھی کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل کا حوالہ دے کر ان کو بتلایا کہ ایسے مواقع پر تاخیر بھی کی جا سکتی ہے ۔
وقت عشاء کے بارے میں
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : اگر مجھے امت کی تکلیف اور مشقت کا خیال نہ ہوتا تو میں ان کو حکم دیتا کہ عشاء کی نماز تہائی رات یا آدھی رات تک مؤخر کر کے ہی پڑھا کریں ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ)
وقت عشاء کے بارے میں
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک رات نماز عشاء کے وقت ہم لوگ مسجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑی دیر تک انتظار کرتے رہے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت بارہ تشریف لائے جب تہائی رات جا چکی تھی یا اس کے بعد ، اور ہمیں پتہ نہٰں کہ اس تاخیر کا سبب اپنے گھر والوں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی مشغولی تھی یا اس کے سوا کوئی اور چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش آ گئی تھی ۔ بہر حال آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر مسجد میں تشریف لائے تو (ہماری تسلی اور دلداری کے لیے) ہم لوگوں سے فرمایا کہ تم لوگ اس وقت اس نماز کے انتظار میں ہو جس کا تمہارے سوا کسی دوسرے دین والے انتظار نہیں کرتے ۔ اور اگر یہ خیال نہ ہوتا کہ میری امت کے لیے بھاری اور مشکل ہو جائے گی تو میں یہ نماز (ہمیشہ دیر کر کے) اسی وقت میں پڑھا کرتا (کیوں کہ اس نماز کے لیے یہی وقت افضل ہے) اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مؤذن کو حکم دیا ۔ تو اس نے اقامت کہی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی۔ تشریح ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ عشاء کی نماز کا افضل وقت اگرچہ وہ ہے جب کہ تہائی رات گزر جائے ، لیکن اس وقت نماز پڑھنے میں چونکہ عام نمازیوں کے لیے زحمت اور مشقت ہے اور روزانہ اتنی دیر تک جاگ کر نماز کا انتظار کرنے میں بڑا مجاہدہ ہے اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقتدیوں کی سہولت کے خیال سے عموماً اس سے پہلے ہی نماز پڑھ لیتے تھے ، اور حضرت جابرؓ کی ایک حدیث میں پہلے بھی گزر چکا ہے اکہ اگر لوگ عشاء کےلیے سویرا جمع ہو جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جلدی پڑھ لیتے تھے اور اگر لوگوں کے آنے میں دیر ہوتی اور شروع وقت میں لوگ کم آتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دیر کر کے پڑھا کرتے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طرز عمل ور ارشاد سے ایک اہم اور نہایت قیمتی اصول یہ معلوم ہوا کہ اگر کسی اجتماعی عمل کے افضل وقت پر اور افضل شکل میں ادا کرنے کی وجہ سے عوام کو قابل لحاظ زحمت اور مشقت ہوتی ہو تو ان کی سہولت کے خیال سے وہاں اس افضل وقت اور افضل شکل کو ترک کر دینا ہی افضل اور بہتر ہو گا اور عوام کے ساتھ اس شفقت و رعایت کا ثواب ان شاء اللہ اس ثواب سے زیادہ ہو گا جو ترک افضل کی وجہ سے فوت ہو گا ۔ دوسرے طور پر اس کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ اجتماعی اعمال میں وقت کی فضیلت یا شکل کی فضیلت کے مقابلہ میں عوام کی رعایت اور ان کی سہولت کی فضیلت مقدم ہے ۔ ایک دوسری بات اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوئی کہ نماز عشاء کی فرضیت اس امت کے خصائص میں سے ہے ۔ کسی اور امت پر یہ نماز فرض نہیں تھی ، یہ بات بعض اور احادیث میں اس سے زیادہ صراحت کے ساتھ مذکور ہوئی ہے ۔
وقت عشاء کے بارے میں
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ میں اس نماز عشاء کے وقت کو میں تم سب سے زیادہ جانےے والا ہوں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عشاء اس وقت پڑھا کرتے تھے جس وقت مہینہ کی تیسری رات میں چاند غروب ہوا کرتا تھا ۔ (سنن ابی داؤد ، مسند دارمی) تشریح تجربہ اور حساب سے معلوم ہوا ہے کہ تیسری رات کو چاند اکثر و بیشتر غروب آفتاب سے دو ڈھائی گھنٹے بعد غروب ہوتا ہے ، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول اتنے ہی وقت نماز عشاء پڑھنے کا تھا ۔
وقت فجر کےبارے میں
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز (ایسے وقت) پڑھا کرتے تھے کہ عورتیں (نماز سے فارغ ہو کر اپنی چادروں میں لپٹی واپس جاتی تو اندھیرے کی وجہ سے پہچانی نہ جا سکتیں ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز سویرے ایسے وقت میں پڑھتے تھے کہ نماز ختم ہونے کے بعد بھی اتنا اندھیرا رہتا تھا کہ مسجد سے اپنے گھر کو واپس جانے والی کواتین کو جو اپنی چادروں میں لپٹی لپٹائی ہوتی تھیں ان کا کوئی جاننے پہچاننے والا ان کے قد و قامت اور انداز رفتار سے پہچان نہیں سکتا تھا ۔
وقت فجر کےبارے میں
حضرت قتادہ تابعی حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاص صحابی زید بن ثابت نے ایک دن ساتھ سحری کھائی ، پھر جب یہ دونوں حضرات سحری سے فارغ ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی (قتادہ کہتے ہیں) ہم لوگوں نے پوچھا کہ ان دونوں کے کھانے سے فارغ ہونے اور نماز شروع کرنے کے درمیان کتنا وقفہ ہوا ؟ انہوں نے بتایا کہ بس اس قدر کہ کوئی آدمی جتنی دیر میں قرآن مجید کی پچاس آیتیں پڑھے ۔ (صحیح بخاری) تشریح پچاس آیتیں پڑھنے میں صرف چند منٹ صرف ہوتے ہیں ۔ اس حساب سے اس دن فجر کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گویا صبح صادق ہوتے ہی پڑھ لی تھی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت اگرچہ یہی تھی کہ جر سویرے پڑھتے تھے ، جیسا کہ ابھی حضرت صدیقہؓ کی حدیث سے بھی معلوم ہو چکا ہے ، لیکن صبح صادق ہوتے ہی بالکل شروع وقت میں نماز پڑھ لینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عام طریقہ نہیں تھا ، جیسا کہ ابو برزہ اسلمیؓ اور عبداللہ بن مسعودؓ وغیرہ کی حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے ، اس لئے قرین قیاس یہ ہے کہ حضرت انسؓ نے جس دن کا یہ واقعہ بیان کیا ہے اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی خاص وجہ سے نماز بالکل شروع وقت ہی میں پڑھ لی تھی ، جس طرح ہم لوگ بھی کبھی کبھی خاص حالات میں ایسا کر لیتے ہیں ۔ واللہ اعلم ۔
وقت فجر کےبارے میں
حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : اسفار میں ادا کرو نمازِ فجر (یعنی صبح کا اجالا پھیل جانے پر فجر کی نماز پڑھو) کیونکہ اس میں زیادہ اجر و ثواب ہے ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذٰ ، مسند دارمی) تشریح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی مندرجہ بالا حدیث سے معلوم ہوا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز سویرے اور اتنے اندھیرے میں پڑھتے تھے کہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد بھی ایسا اندھیرا رہتا تھا کہ نماز پڑھ کر گھر واپس جانے والی خواتین پہچانی نہیں جا سکتی تھیں ۔ اور حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فجر کی نماز صبح کا اجالا پھیل جانے پر پڑھنا افضل اور زیادہ ثواب کی بات ہے ۔ ائمہ مجتہدین اور علماء دین نے اس اختلاف کو کئی طریقوں سے حل کیا ہے ۔ اس عاجز کے نزدیک بعض اکابر علماء کی یہ توجیہ سب سے زیادہ رائج ہے کہ رافع بن خدیج کی اس حدیث کے مطابق فجر کے لیے افضل تو اسفار ہی ہے ، یعنی یہ کہ کچھ تاخیر کر کے اس وقت پڑھی جائے جب صبح کا اجالا پھیل جائے ، لیکن چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں زیادہ تر لوگ تہجد پڑھنے والے اور فجر کے لیے اول وقت اٹھنے والے تھے (جیسا کہ آج تک بھی اہل صلاح و تقوی کا عام حال ہے) اس لیے ان کے لیے سہولت اسی میں تھی کہ فجر کی نماز تاخیر سے نہ پڑھی جائے ۔ دیر کر کے اسفار میں پڑھنے کی صورت میں ان کو طویل انتظار کی زحمت اٹھانی پڑتی ، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز زیادہ تر سویرے غلس ہی میں پڑھتے تھے ، گویا جس طرح عشاء کی نماز کے لیے تہائی رات تک کی تاخیر افضل ہونے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غلس میں یعنی اندھیرے میں پڑھتے تھے ، اور پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ اللہ کے بندوں کی رعایت اور سہولت کی فضیلت وقت سے مقدم اور بالا تر ہے ۔ ہمارے زمانے میں چونکہ تہجد گزار اور فجر کے لیے اول وقت میں اٹھنے والے بہت کم ہیں اور زیادہ لوگوں کو سہولت اسفار میں (یعنی اجالا پھیل جانے پر پڑھنے میں) ہے ، بلکہ فجر کی جماعت اگر اول وقت غلس میں ہو تو نمازیوں میں سے بھی بہت کم شریک جماعت ہو سکیں گے ۔ ان سب وجوہ سے ہمارے زمانے میں کچھ تاخیر کر کے اسفار ہی مین فجر کی نماز پڑھنا بہتر ہو گا ، تاہم اگر کسی جگہ کے عام نمازی اول وقت ہی میں جمع ہو جاتے ہوں اور تاخیر میں ان کے لیے زحمت اور مشقت ہو تو ان کے لیے یہی بہتر ہو گا کہ وہ اول وقت یعنی غلس ہی میں نماز پڑھ لیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اکثر معمول تھا ۔ بہت سے دینی حلقوں میں رمضان مبارک میں فجر کی نماز اول وقت غلس میں پڑھنے کا دستور اسی بنیاد پر ہے ۔
آخر وقت نماز پڑھنے کے بارے میں
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نے اپنی ساری عمر میں دو دفعہ بھی کوئی نماز اس کے آخری وقت میں نہیں پڑھی یہاں تک کہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اٹھا لیا ۔ تشریح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اپنے اس بیان مین دو دفعہ کی قید غالبا اس لیے لگائی ہے کہ ایک دفعہ ایک شخص کو ہر نماز کا اول و آخر وقت بتانے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن کی نمازیں آخر وقت میں بھی پڑھ کر دکھائی تھی ۔ یہ واقعہ صحیح مسلم کے حوالے سے نمبر ۱۳ پر درج ہو چکا ہے ۔ بہر حال اس بیان سے حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کا مقصد یہی ہے کہ نماز کو مؤخر کر کے آخری وقت میں پڑھنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نہیں تھا ۔
آخر وقت نماز پڑھنے کے بارے میں
حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے یہ ارشاد فرمایا : علی ! تین کام وہ ہیں جن میں تاخیر نہ کرنا : نماز جب اس کا وقت آ جائے ، اور جنازہ جب تیار ہو کر آ جائے ، اور بے شوہر والی عورت جب اس کے لیے کوئی مناسب جوڑ مل جائے ۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ ان تین کاموں میں ہمیشہ جلدی کی جائے ، جو عورت کسی کے نکاح میں نہ ہو اس سے نکاح کرنے کے لیے جب کوئی مناسب آدمی تیار ہو جائے تو پھر نکاح میں دین نہ کی جائے ، اسی طرح جب جنازہ آ جائے تو نماز جنازہ اور تدفین میں دیر نہ لگائی جائے علی ہذا جب نماز کا وقت آ جائے (یعنی وہ وقت جس وقت کہ نماز پڑھنی چاہئے) تو پھر بلا تاخیر نماز پڑھ لی جائے ۔
آخر وقت نماز پڑھنے کے بارے میں
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا : تمہارا کیا حال اور کیا رویہ ہو گا جب ایسے (غلط کار اور ناخدا ترس) لوگ تم پر حکمراں ہوں گے کہ نماز کو مردہ اور بے وقت کریں گے (یعنی ان کی نمازیں خشوع و خضوع اور آداب کا اہتمام نہ ہونے کی وجہ سے بے روح ہوں گی) یا وہ نمازوں کو ان کے صحیح وقت کے بعد پڑھیں گے ؟ میں نے عرض کیا تو آپ کا میرے لیے کیا حکم ہے۔ یعنی ایسی صورت میں مجھے کیا کرنا چاہئے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم وقت آ جانے پر اپنی نماز پڑھ لو ، ۔ اس کے بعد اگر ان کے ساتھ نماز پڑھنے کا موقع آئے تو ان کے ساتھ پھر پڑھ لو یہ تمہارے لئے نفل ہو جائے گی ۔ تشریح بنی امیہ کے بعض خلفاء اور امراء کے زمانے میں یہ پیشن گوئی حرف بحرف پوری ہو چکی ہے ۔ جن صحابہ کرامؓ نے ان کا زمانہ پایا جیسے حضرت انسؓ اور اکثر اکابر تابعین ، ان کو یہ ابتلاء پیش آیا اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہدایت پر عمل کیا ۔
سونے یا بھول جانے کی وجہ سے نماز قضا ہوجائے تو .....
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو کوئی نماز کو بھول جائے یا نماز کے وقت میں سوتا رہ گیا تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ جب یاد آئے یا سو کے اٹھے اسی وقت پڑھ لے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ جب سو کر اٹھے یا بھول جانے کی صورت میں جس وقت یاد آئے اسی وقت بلا تاخیر نماز پڑھ لے اس صورت میں وہ نماز ادا ہی کے حکم میں ہو گی اور اس شخص کو کوئی گناہ نہیں ہو گا ۔ بعض سفروں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خود یہ واقعہ پیش آیا کہ رات کے بیشتر حصہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رفقاء چلتے رہے ، اس کے بعد کچھ آرام کر لینے کے ارادے سے لیٹ گئے اور حضرت بلالؓ نے خود جاگتے رہنے اور فجر کے لیے جگانے کی ذمہ داری لے لی ۔ لیکن تقدیر الٰہی کہ صبح صادق کے بالکل قریب خود حضرت بلالؓ کی آنکھ لگ گئی اور سب سوتے رہ گئے ۔ یہاں تک کہ سورج نکل آیا ، سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کھلی ، پھر سب لوگ گھبرا کر اٹھے ، سب کو نماز کا وقت نکل جانے کا اس دن بہت رنج اور صدمہ تھا ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان دلوا کر جماعت سے نماز پڑھی اور فرمایا کہ سوتے ہوئے نماز کا وقت نکل جانے سے گناہ نہیں ہوتا ۔ گناہ اور جرم جب ہے جب آدمی جاگتے ہوئے اور دانستہ نماز قضا کر دے ۔
اذان: اسلام میں اذان کا آغاز
حضرت انس رضی اللہ عنہ کے (سب سے بڑے) صاحبزادے ابو عمیر اپنے بعض چچوں سے جو انصاری صحابیوں میں سے تھے روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کے لیے فکر ہوئی (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ بھی فرمایا) کہ اس کے لیے لوگوں کو کس طرح جمع کیا جائے؟ اور کیا تدبیر اختیار کی جائے ، پس بعض لوگوں نے عرض کیا کہ نماز کے وقت ایک جھنڈا نصب کیا جائے ، جب لوگوں کی اس پر نگاہ پڑے گی تو ایک دوسرے کو اطلاع کر دیں گے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ رائے پسند نہ آئی۔ راوی کا بیان ہے کہ اس سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہودیوں کے بھونپو کا بھی ذکر کیا گیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ تو یہودیوں کی چیز اور ان کا طریقہ ہے اور اس کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند نہ کیا ، پھر ناقوس کا ذکر کیا گیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ نصاریٰ کا طریقہ ہے اور ان کی چیز ہے (الغرض اس مجلس میں کوئی بات طے نہیں ہو سکی) اس مسئلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غیر معمولی فکر مندی کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک انصاری صحابی عبداللہ بن زید بن عبدربہؓ بھی بہت فکر مند ہوئے اور اسی فکر کی حالت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس سے واپس آ کر پڑ گئے ، پھر نیم خواب اور نیم بیداری کی حالت میں انہوں نے اذان سے متعلق خواب دیکھا (اس خواب کی پوری تفصیل آگے آنے والی حدیث سے معلوم ہو جائے گی) وہ صبح سویرے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ، اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! رات جب کہ میری حالت یہ تھی کہ نیم خفتہ ار نیم بیدار تھا نہ پوری طرح بیدار تھا اور نہ ہی سویا ہوا تھا ، میرے پاس کوئی آنے والا آیا اور اس نے مجھے اذان کہہ کر دکھائی (پھر انہوں نے خواب کی پوری تفصیل سنائی) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، بلال ! اٹھو اور یہ عبداللہ بن زید تم سے جو کہیں اور جو بتائیں وہی کرو “ ، (یعنی ان کی تلقین کے مطابق اذان دو) راوی کا بیان ہے کہ بلال نے اس حکم کی تعمیل کی اور اذان دی ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ معظمہ سے ہجرت فرما کر مدینہ طیبہ رتشریف لائے اور نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد بنائی گئی تو ضرورت محسوس ہوئی کہ جماعت کا وقت قریب ہونے کی عام اطلاع کے لیے اعلان کا کوئی خاص طریقہ اختیار کیا جائے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارہ میں صحابہ کرامؓ سے بھی مشورہ فرمایا ، کسی نے کہا کہ اس کے لیے بطورِ علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کیا جایا کرے ، کسی نے رائے دی کہ کسی بلند جگہ آگ روشن کر دی جایا کرے ، کسی نے مشورہ دیا کہ جس طرح یہودیوں کے عبادت خانوں میں نرسنگھا (ایک قسم کا بھونپو) بجایا جاتا ہے اسی طرح ہم بھی نماز کے اعلان اور بلاوے کے لیے نرسنگھا بجایا کریں ، کسی نے نصاریٰ والے ناقوس کی تجویز پیش کی ، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہیں ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مسئلہ میں متفکر رہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس فکر مندی نے بعض صحابہ کرامؓ کو بھی بہت متفکر کر دیا ان میں سے ایک انصاری صحابی حضرت عبداللہ بن زید بن عبد ربہؓ نہ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو متفکر دیکھ کر بہت ہی فکر مند اور بےچین ہو گئے تھے ، اسی رات خواب دیکھا (جس کی تفصیل آگے آنے والی حدیثوں سے معلوم ہو گی) اس خواب میں انہیں اذان اور اقامت کی تلقین ہوئی ، انہوں نے صبح سویرے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنا خواب عرض کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا “ ان شاء اللہ یہ رؤیا حق ہے ” یعنی یہ خواب منجانب اللہ ہے ۔ (یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یا تو اس لیے فرمائی کہ ان صحابی کے بیان کرنے سے پہلے ہی خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی اس بارہ میں وحی آ چکی تھی یا خواب سننے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک مین یہ بات ڈالی) بہرحال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان صحابی عبداللہ بن زیدؓ سے فرمایا کہ تم بلال کو اذان کے ان کلمات کی تلقین کر دو ، ان کی آواز زیادہ بلند ہے وہ ہر نماز کے لیے اسی طرح اذان دیا کریں ۔ بس اس دن سے اذان کا یہ نظام قائم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا خاص الخاص شعار ہے ۔ اس تمہید کے بعد اذان و اقامت سے متعلق ذیل کی حدیثیں پڑھئے ! ابو داؤد کی اس روایت میں یہ بھی مذکور ہے کہ عبداللہ بن زیدؓ کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنا خواب بیان کرنے سے پہلے ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی ایسا ہی خواب دیکھا تھا ، لیکن جب عبداللہ بن زیدؓ سبقت کر کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گئے اور انہوں نے اپنا خواب پہلے بیان کر دیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اپنے خواب کا ذکر کرنے میں کچھ حجاب محسوس ہوا ، پھر بعد میں انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا ۔ بعض دوسری روایات میں حضرت ابو بکر صدیقؓ کے اور بعض میں اور بھی چند صحابہ کرامؓ کے اسی قسم کے خواب کا ذکر کیا گیا ہے ۔ لیکن محدثین کے نزدیک یہ روایتیں ثابت نہیں ہیں ۔
اذان: اسلام میں اذان کا آغاز
حضرت عبداللہ بن زید بن عبد ربہ کے صاحب زادے محمد بیان کرتے ہیں کہ میرے والد ماجد عبداللہ بن زید نے مجھ سے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناقوس کے لیے فرمایا تا کہ اس کے ذریعے نماز باجماعت کا اعلان لوگوں کے لیے کیا جائے تو خواب میں میرے سامنے ایک شخص آیا جو اپنے ہاتھ میں ناقوس لیے ہوئے تھا ، میں نے اس سے کہا : اے اللہ کے بندے ! یہ ناقوس تم بیچتے ہو ؟ اس نے کہا : تم اس کا کیا کرو گے؟ میں نے کہا : ہم اس کے ذریعے لوگوں اعلان کر کے لوگوں کو نماز کے لیے بلایا کریں گے ، اس نے کہا : کیا میں تم کو ایک ایسی چیز بتا دوں جو اس کام کے لیے اس سے بہتر ہے میں نے کہا : ہاں ضرور بتائیے ، اس نے کہا : کہو الله أكبر الله أكبر الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله أشهد أن محمدا رسول الله حى على الصلاة حى على الصلاة حى على الفلاح حى على الفلاح الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : کہ یہ پوری اذان بتا کے وہ شخص مجھ سے تھوڑی دور پیچھے ہٹ گیا ، اور تھوڑے توقف کے بعد اس نے کہا : پھر جب نماز قائم کرو تو اقامت اس طرح کہو الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله حى على الصلاة حى على الفلاح قد قامت الصلاة قد قامت الصلاة الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله (عبداللہ بن زید فرماتے ہیں) کہ جیسے ہی صبح ہوئی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور جو کچھ میں نے خواب میں دیکھا تھا اسے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ رویاء حق ہے ان شاءاللہ “ (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ) تم بلالؓ کے ساتھ کھڑے ہو کر ان کلمات کی تلقین کرو جو خواب میں تم نے دیکھے ہیں اور وہ پکار کے ان کلمات کے ذریعہ اذان کہیں کیونکہ ان کی آواز تم سے بلند زیادہ بلند ہے ، تو میں بلال کے ساتھ کھڑا ہوا ، میں ان کلمات کی تلقین کرتا تھا اور وہ اذان دیتے تھے۔ عبداللہ بن زید فرماتے ہیں کہ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اس کو اپنے گھر میں سنا تو وہ جلدی میں اپنی چادر کھینچتے ہوئے نکلے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کر رہے تھے قسم اس ذات کی ! جس نے آپ کو دینِ حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے ، میں نے بھی ویسا ہی خواب دیکھا ہے جیسا عبداللہ بن زید نے دیکھا ہے ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : فلله الحمد۔ تشریح اس حدیث سے متعلق دو باتوں کی وضاحت ضروری ہے ۔ ایک یہ کہ اس میں عبداللہ بن زیدؓ کا بیان یہ نقل کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے اعلان کے واسطے ناقوس بنوانے کے لیے فرمایا تھا ، اور حضرت انسؓ کے صاحبزادے ابو عمیرؓ کی جو روایت اوپر نقل کی گئی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب ناقوس کی تجویز پیش کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “ وہ نصاریٰ کی چیز ہے ” اس عاجز کے نزدیک اس اختلاف روایت کی صحیح توجیہ یہ ہے کہ نماز کے اعلان کے لیے جو چند تجویزیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کی گئی تھیں ۔ ان میں جھنڈے والی اور آگ روشن کرنے والی اور یہودیوں کے نرسنگھے والی تجویزوں کے متعلق تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار فرما کر واضح طور پر ان کو نامنظور کر دیا تھا اور اس لیے ان میں سے ہر تجویز کے بعد کوئی دوسری تجویز پیش کی گئی ، لیکن ناقوس والی آخری تجویز کے بارہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف یہ فرمایا کہ “ هو من امر النصارى ” (وہ نصاریٰ کی چیز ہے) اور کوئی ایسا لفظ نہیں فرمایا جس سے واضح طور پر اس کی نامنظوری سمجھی جاتی اور ممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس وقت کے لب و لہجہ سے بھی بعض صحابہ کرامؓ نے یہ سمجھا ہو کہ دوسری تجاویز کے مقابلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک اس تجویز کو کچھ ترجیح ہے اور اس بناء پر انہوں نے یہ خیال کر لیا ہو کہ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے با دلِ ناخواستہ اس تجویز کو قبول فرما لیا ہے اور جب تک کہ کوئی اور بہتر تجویز سامنے نہ آئے فی الحال ناقوس والی تجویز ہی پر عمل ہو گا (اور غالباً اسی لیے اس کے بعد کسی کی طرف سے کوئی اور تجویز نہیں پیش کی گئی) بہرحال اس عاجز کا خیال ہے کہ حضرت عبداللہ بن زیدؓ نے غالباً اسی صورت کو “ امر بالناقوس ” سے تعبیر فرما دیا ہے ، کبھی کبھی کسی چیز کی اجازت اور اختیار دینے کو بھی امر سے تعبیر کر دیا جاتا ہے ، قرآن و حدیث میں اس کی مثالیں بکثرت موجود ہیں ۔ واللہ تعالیٰ اعلم ۔ دوسری وضاحت طلب بات اس حدیث میں یہ ہے کہ اذان میں جو کلمات دو دو دفعہ کہے گئے تھے اقامت میں ان کو صرف ایک ایک دفعہ کہا گیا ہے ۔ آگے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی جو روایت آ رہی ہے اس سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ اقامت میں ان کلمات کے ایک ہی ایک دفعہ کہنے کا حکم تھا ، لیکن بعض دوسری حدیثوں میں (جن میں سے بعض آگے درج بھی کی جا رہی ہیں اور ان کی بھی صحت مسلم ہے) اذان کی طرح اقامت میں بھی ان کلمات کا دو دو دفعہ کہنا وارد ہوا ہے ۔ بعض ائمہ نے اپنے اصول اور اپنے معلومات کی بناء پر ایک ایک دفعہ والی کو ترجیح دی ہے اور بعض نے دوسری قسم کی روایات کو ، لیکن اس میں شبہ نہیں کہ اقامت کی یہ دونوں صوررتیں ثابت ہیں اور اختلاف صرف ترجیح اور افضلیت میں کیا جا سکتا ہے ۔
اذان: اسلام میں اذان کا آغاز
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، بیان فرماتے ہیں کہ (نماز کے لیے مسجد میں آنے والے) آدمیوں کی تعداد تو انہوں نے آپس میں اس مسئلہ پر گفتگو کی کہ کسی ایسی چیز کے ذریعہ نماز کے وقت کا اعلان کیا کریں جس کو لوگ پہچان لیا کریں (تا کہ جلدی بروقت جمع ہو جایا کریں) اس سلسلہ میں یہ بھی ذکر آیا کہ آگ روشن کی جایا کرے ۔ یا ناقوس بجایا کریں پھر (آخر کار اس معاملہ کا اختتام اس پر ہوا کہ) بلال کو حکم دیا جائے کہ وہ اذان میں (کلمات اذان کو) دو دو دفعہ کہا کریں اور اقامت میں ایک ایک دفعہ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں واقعہ کو بہت ہی اختصار سے بیان کیا گیا ہے ، یہاں تک کہ عبداللہ بن زید کے خواب وغیرہ کا ذکر بھی نہیں کیا گیا ہے ۔ واقعات کے بیان کرنے والے ایسا اختصار کر دینے میں اس وقت کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے جب وہ اندازہ کرتے ہیں کہ ہمارا مخاطب واقعہ کی تفصیل سے واقف ہے یا کسی اور وجہ سے وہ پوری تفصیل کا ذکر کرنا اس وقت غیر ضروری سمجھتے ہیں ۔ جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا تھا حضرت انس رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں بھی کلمات اقامت ایک ایک دفعہ کہنے کا ذکر کیا گیا ہے ، جو حضرات اقامت میں بھی اذان کی طرح ہر کلمہ دو دفعہ کہنے کے حق میں ہیں وہ مذکورہ بالا ان دو حدیثوں کے بارہ میں کہتے ہیں کہ یہ اس ابتدائی دورے سے متعلق ہیں جب اذان کی شروعات ہوئی تھی اس کے بعد عرصہ تک یہی طرز عمل رہا ۔ لیکن سات آٹھ سال کی کے بعد غزوہ حنین سے واپسی پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کو اذان اور اقامت کی تلقین فرمائی ہے تو اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اقامت میں بھی ہر کلمہ دو دو دفعہ کہنے کی تلقین کی ہے جیسا کہ آگے درج ہونے والی حدیث سے معلوم ہو گا ۔ اس لیے بعد کا حکم ہونے کی وجہ سے اسی کو ترجیح ہے ۔ اس عاجز کے نزدیک اس مسئلہ میں حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہ فیصلہ “ حرف آخر ” ہے کہ اذان و اوقات کے کلمات کے بارے میں یہ اختلاف قرآن مجید کی مختلف قرأتوں کا سا اختلاف ہے اور ہر وہ طریقہ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے صحیح اور کافی ہے ۔
ابو محذورہ ؓ کو اذان کی تلقین
حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اذان پڑھنا مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہ نفس نفیس سکھایا ۔ مجھ سے فرمایا کہو : ۔ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ ، اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر دوبارہ یہی کہو أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ ، اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ (صحیح مسلم)
ابو محذورہ ؓ کو اذان کی تلقین
ترجمہ : حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اذان سکھائی ۔ انیس کلمے اور اقامت سترہ کلمے ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی ، سنن ابو داؤد ، سنن نسائی ، مسند دارمی ، سنن ابن ماجہ) تشریح حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کی اوپر والی روایت میں اذان کے پورے انیس کلمے ہیں کیوں کہ شہادت کے چاروں کلمے اس میں مکرر آئے ہیں اور اقامت میں سترہ کلمے اس طرح ہوں گے کہ شہادت کے کلمے مکرر نہ ہونے کی وجہ سے چار کلمے کم ہو جائیں گے اور “ قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ ، قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ ” دو کلموں کا اضافہ ہو جائے گا ، اس کمی اور بیش کے بعد ان کی تعداد پوری سترہ ہو جائے گی ۔ ابو محذورہ کو اذان سکھانے کا یہ واقعہ شوال ۸ھ کا ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ حنین سے فارغ ہو کر واپس آ رہے تھے ۔ اس واقعہ کی تفصیل جو مختلف روایات کے جمع کرنے سے معلوم وتی ہے ، دلچسپ بھی ہے اور ایمان افروز بھی ۔ اس لیے اس کا ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب فتح مکہ سے فارغ ہو کر اپنے لشکر کے ساتھ حنین کی طرف تشریف لے گئے ، جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک خاصی بڑی تعداد ان طلقا کی بھی ہو گئی تھی جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن ہی معافی دے کر آزاد کیا تھا ، تو یہ ابو محذورہ بھی جو اس وقت ایک شوخ نوجوان تھے اور مسلمان بھی نہیں ہوئے تھے اپنے ہی جیسے نوادر یار دوستوں کے ساتھ حنین کی طرف چل دئیے ۔ خود بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حنین سے واپس ہو رہے تھے ۔ راستہ ہی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہماری ملاقات ہوئی ۔ نماز کا وقت آنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذن نے اذان دی ۔ہم سب اس اذان سے (بلکہ اذان والے دین ہی سے) منکر و متنفر تھے اس لیے ہم سب ساتھی مذاق اور تمسخر کے طور پر اذان کی نقل کرنے لگے اور میں نے بالکل مؤذن ہی کی طرح خوب بلند آواز سے نقل کرنی شروع کی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آواز پہنچ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سب کو بلوا بھیجا ، ہم لا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کر دئیے گئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بتاؤ تم میں وہ کون ہے جس کی آواز بلند تھی ۔ (ابو محذورہ کہتے ہیں کہ) میرے سب ساتھیوں نے میری طرف اشارہ کر دیا ، اور بات سچی بھی تھی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور سب کو تو چھوڑ دینے کا حکم دے دیا اور مجھے روک لیا اور فرمایا کھڑے ہو اور پھر اذان کہو (ابو محذورہ کا بیان ہے کہ) اس وقت میرا حال یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس اذان کے دینے کا حکم دیا تھا اس سے زیادہ مکروہ اور مبغوض میرے لیے کوئی چیز بھی نہ تھی ، یعنی میرا دل (معاذ اللہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نفرت اور بغض سے بھرا ہوا تھا ، لیکن میں مجبور اور بے بس تھا اس لیے ناچار حکم کی تعمیل کے لیے کھڑا ہو گیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے خود اذان بتانی شروع کی اور فرمایا کہو “ اللهُ أَكْبَرُ ، اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ ، اللهُ أَكْبَرُ ” (آخر تک بالکل اسی طرح جس طرح اوپر والی حدیث میں گزر چکی ہے ۔ آگے ابو محذورہ بیان کرتے ہیں) جب میں اذان ختم کر چکا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک تھیلی عنایت فرمائی جس میں کچھ چاندی تھی ، اور میرے سر کے اگلے حصہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دستِ مبارک رکھا اور پھر آپو نے دست مبارک میرے چہرہ پر اور پھر میرے سامنے کے حصہ پر یعنی سینہ پر اور پھر قلب و جگر پر اور پھر نیچے ناف کی جگہ تک پھیرا ۔ پھر مجھے یوں دعا دی “ بَارَكَ اللهُ فِيكَ وَبَارَكَ اللهُ عَلَيْكَ ” (اللہ تعالیٰ تیرے اندر برکت دے اور تجھ پر برکت نازل فرمائے) یہ دعا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تین دفعہ دی (حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا اور دست مبارک کی برکت سے میرے دل سے کفر اور نفرت کی وہ لعنت دور ہو گئی اور ایمان اور محبت کی دولت مجھے نصیب ہو گئی) اور میں نے عرض کیا کہ مجھے مکہ معظمہ میں مسجد حرام کا مؤذن بنا دیجئے ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاؤ ہم حکم دیتے ہیں اب مسجد حرام میں تم اذان دیا کرو ! اس پوری تفصیل سے یہ بات آسانی سے سمجھ میں آ سکتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے شہادت کے کلمے أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ اور أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ مکرر یعنی بجائے دو دو دفعہ کے چار چار دفعہ کیوں کہلوائے ، غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے دل میں اس وقت تک ایمان آیا نہیں تھا ، انہوں نے صرف حکم سے مجبور ہو کر اپنے اس وقت تک کے عقیدے کے بالکل خلاف اذان دینی شروع کر دی تھی اور اذان کے کلمات میں سب سے زیادہ ناگوار ان کو اس وقت شہادت کے یہی دو کلمے تھے (یعنی أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ) جب ایک دفعہ کہہ چکے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کلموں کو پھر دوبارہ کہو اور خوب بلند آواز سے کہو ۔ اس عاجز کا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی زبان سے یہ کلمے کہلوا رہے تھے اور خود اللہ تعالیٰ کی جانب متوجہ تھے کہ وہ ان کلموں کو اپنے اس بندے کے دل میں اتار دے ، الغرض یہ بات بالکل قرین قیاس ہے کہ اس وقت کی ان کی خاص حالت کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت کے یہ کلمے مکرر کہلوائے ہوں ورنہ کسی صحیح روایت سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مستقل مؤذن حضرت بلالؓ کو یہ حکم دیا ہو اور وہ اذان میں شہادت کے یہ کلمے اس طرح چار چار دفعہ کہتے ہوں ، اسی طرح عبداللہ بن زیدؓ کے خواب کی صحیح روایت میں بھی شہادت کے یہ کلمے دو ہی دفعہ وارد ہوئے ہیں ۔ لیکن اس میں شبہ نہیں کہ ابو محذورہؓ مکہ معظمہ میں ہمیشہ سی طرح اذان دیتے رہے یعنی ان کلموں کو مذکورہ بالا ترتیب کے مطابق چار چار دفعہ کہتے رہے جس کو اصطلاح میں (ترجیع) کہتے ہیں جس کی وجہ غالبا یہ تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح ان سے اذان کہلوائی تھی اور جس کی برکت سے ان کو دین کی دولت ملی تھی وہ ایک عاشق کی طرح چاہتے تھے کہ ہو بہو وہی اذان ہمیشہ دیا کریں ورنہ یہ ضرور جانتے ہوں گے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے موذن بلالؓ کس طرح اذان دیتے ہیں ۔ اسی واقعہ کی روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو محذورہ کے سر کے اگلے حصے (ناصیہ) پر جہاں دست مبارک رکھا تھا وہ وہاں کے اپنے بالوں کو کبھی کٹواتے نہیں تھے ، اس عاجز کا خیال ہے کہ جیسی یہ ان کی ایک عاشقانہ ادا تھی اسی طرح ان کی ایک ادا یہ بھی تھی کہ وہ ہمیشہ ترجیع کے ساتھ اذان کہتے تھے ، اور بلا شبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم تھا لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منع نہیں فرمایا ، اس لیے اس کے بھی جواز میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں ! اور حقیقت وہی ہے جو حضرت شاہ ولی اللہؒ نے بیان فرمائی ہے کہ اذان و اقامت کے کلمات کا یہ اختلاف بس مختلف قراتوں کا سا اختلاف ہے ۔ واللہ اعلم ۔ اذان و اقامت میں دین کے بنیادی اصولوں کی تعلیم دعوت اذانو اقامت کے سلسلہ میں یہاں اس حقیقت کی طرف اشارہ بھی ناظرین کے لیے ان شاء اللہ مفید اور موجب بصیرت ہو گا کہ اگرچہ یہ دونوں چیزیں بظاہر وقت نماز کے اعلان کا ایک وسیلہ اور نماز کا بلاوا ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے ایسے جامع کلمات الہام فرمائے ہیں جو دین کی روح بلکہ دین کے پورے بنیادی اصولوں کی تعلیم و دعوت کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں ، دین کے سلسلے مین سب سے پہلی چیز اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کا مسئلہ ہے اس بارہ میں اسلام کا جو نظریہ ہے اس کے اعلان کے لیے اللہ اکبر اللہ اکبر سے بہتر اور اتنے جاندار الفاظ نہیں کئے جا سکتے ، اس کے بعد نمبر آتا ہے عقیدہ توحید کا بلکہ صفات کا مسئلہ اسی سے صاف اور مکمل ہوتا ہے اس کے لیے أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ جیسا جاندار اور مؤثر کوئی دوسرا مختصر کلمہ منتخب نہیں کیا جا سکتا۔ پھر اس حقیقت کے واضح اور معلوم ہو جانے کے بعد کہ بس اللہ ہی ہمارا الہ و معبود ہے ، یہ سوال فوراً سامنے آ جاتا ہے کہ اس اللہ تک پہنچنے کا راستہ یعنی اس سے بندگی کا صحیح رابطہ قائم کرنے کا طریقہ کہاں سے معلوم ہو سکے گا ؟ اس جواب کے لیے أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ سے بہتر کوئی کلمہ نہیں سوچا جا سکتا ، اس کے بعد حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ کے ذریعہ اس صلوۃ کی دعوت دی جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت و بندگی اور اس سے رابطہ قائم کرنے کا سب سے اعلیٰ ذریعہ ہے ، اور اللہ کی طرف چلنے والے کا سب سے پہلا قدم بھی ہے ۔ اس کے بعد حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ کے ذریعہ اس حقیقت کا اعلان کیا جاتا ہے کہ یہی راستہ فلاح یعنی نجات و کامیابی کی منزل تک پہنچانے والا ہے ، اور جو لوگ اس راستہ کو چھوڑ کر دوسری راہوں پر چلیں گے وہ فلاح سے محروم رہیں گے ، گویا اس میں عقیدہ آخرت کا اعلان ہے اور ایسے الفاظ کے ذریعہ اعلان ہے کہ ان سے صرف عقیدہ ہی کا علم نہیں ہوتا بلکہ وہ زندگی کا سب سے اہم اور قابل فکر مسئلہ بن کر ہمارے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے اور آخر میں اللهُ أَكْبَرُ ، اللهُ أَكْبَرُ ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ کے ذریعہ پھر یہ اعلان اور پکار ہے کہ انتہائی عظمت و کبریائی والا بس اللہ ہی ہے اور وہی بلا شرکت غیرے الہ برحق ہے ۔ اس لیے بس اسی کی رضا کو اپنا مطلوب و مقصود بناؤ ۔ بار بار غور کیجئے کہ اذان و اقامت کے ان چند کلمات میں دین کے بنیادی اصولوں کا کس قدر جامع اعلان ہے اور کتنی جاندار اور موثر دعوت ہے ۔گویا ہماری ہر مسجد سے روزانہ پانچ وقت دین کی یہ بلیغ دعوت نشر کی جاتی ہے ۔ ہم مسلمان اگر اتا ہی کر لیں کہ انے ہر بچہ کو اذان یاد کرا دیں اور کسی قدر تفصیل کے ساتھ اس کا مطلب سمجھا دیں ، خصوصاً أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ اور أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ کا مطلب زمانہ اور ماحول کے مطابق سمجھا دیں تو ان شاء اللہ وہ کبھی کسی غیر اسلامی دعوت کا شکار نہ ہو سکے گا ۔
اذان و اقامت سے متعلق بعض احکام
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب تم اذان دو تو آہستہ آہستہ اور ٹھہر ٹھہر کر دیا کرو (یعنی ہر کلمہ پر سانس توڑ دو اور وقفہ کیا کرو) اور جب اقامت کہو تو رواں کہا کرو ، اور اپنی اذان اور اقامت کے درمیان اتنا فصل کیا کرو کہ جو شخص کھانے پینے میں مشغول ہے ، وہ فارغ ہو جائے اور جس کو استنجے کا تقاضا ہے وہ جا کر اپنی ضرورت سے فارغ ہو لے اور کھڑے نہ ہوا کرو جب تک کہ مجھے دیکھ نہ لو ۔ (جامع ترمذی) تشریح اس حدیث میں اذان و اقامت سے متعلق جو ہدایات دی گئی ہین وہ تو بالکل واضح ہیں ۔ کسی تشریح کی محتاج نہیں ، البتہ آخری ہدایت وَلاَ تَقُومُوا حَتَّى تَرَوْنِي (اور کھڑے نہ ہوا کرو جب تک کہ مجھے دیکھ نہ لو) وضاحت طلب ہے ، غالباً کبھی کبھی ایسا ہوتا تھا کہ حجرہ شریف سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مسجد تشریف لانے سے پہلے یہ اندازہ کر کے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھانے کے لیے عنقریب باہر تشریف لانے والے ہیں ، لوگ نماز کے لیے کھڑے ہو جاتے تھے اس کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ممانعت فرما دی اور ارشاد فرمایا کہ میں جب تک مسجد مین نہ آ جاؤں اور تم مجھے دیکھ نہ لو اس وقت تک کھڑے نہ ہوا کرو ۔ اس ممانعت کی یہ وجہ تو ظاہر ہے کہ پہلے سے کھڑے ہو جانا بے وجہ کی تکلیف اٹھانا ہے اور ہو سکتا ہے کہ کسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تشرف لانے میں دیر ہو جائے ، لیکن اس کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تواضح پسند طبیعت کے لیے یہ بات بھی تکلیف اور گرانی کا باعث ہوتی ہو گی کہ اللہ کے بندے صف باند کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتظار میں کھڑے ہوں ۔
اذان و اقامت سے متعلق بعض احکام
سعدقرظ جو (مسجد قبا) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کئے ہوئے موذن تھے ان سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلالؓ کو حکم دیا کہ اذان دیتے وقت وہ اپنی دونوں انگلیاں کانوں میں دے لیا کریں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ ایسا کرنے سے تمہاری اور آواز بلند ہو جائے گی ۔ (سنن ابن ماجہ)
اذان و اقامت سے متعلق بعض احکام
زیاد بن حارث صدائی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ فجر کی نماز کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ تم اذان پڑھو میں نے اذان پڑھی ۔ اس کے بعد جب اقامت کہنے کا وقت آیا تو بلال نے ارادہ کیا کہ اقامت وہ کہین تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے (میرے متعلق) فرمایا کہ اس صدائی نے اذان پڑھی ہے اور قاعدہ یہ ہے کہ جو اذان پڑھے وہی اقامت کہے ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ)
اذان و اقامت سے متعلق بعض احکام
عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (جب طائف کا عامل بنا کر مجھے روانہ فرمایا تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے) آخر میں جو تاکیدی ہدایتیں مجھے فرمائیں ان میں سے ایک یہ ہدایت بھی تھی کہ کوئی ایسا موذن مقرر کر لینا جو اذان پڑھنے کی مزدوری نہ لے (بس اللہ کے لیے اور آخرت کے ثواب کی نیت سے اذان پڑھا کرے) ۔ (جامع ترمذی) تشریح اس حدیث کی روشنی میں اکثر ائمہ دین کا جن میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ بھی شامل ہیں مسلک یہ ہے کہ اذان پڑھنے کی تنخٰواہ اور اجرت لینا درست نہیں ہے ۔ دوسرے حضرات نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہدایت کو تقویٰ اور عزیمت پر محمول کیا ہے ۔ حنفیہ میں سے بھی متاخرین اہل فتویٰ نے زمانہ کے بدلے ہوئے حالات کے تحت اس میں گنجائش سمجھی ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اذان اور امامت جیسے دینی اعمال کی عظمت اور تقدس کا تقاضا یہی ہے کہ وہ خالصا لوجہ اللہ ہوں اور تنخواہ کا معاملہ اگر ناگزیری ہوتو دوسری متعلقہ خدمتوں اور پابندیوں کے عوض میں ہو اور معاملہ کے وقت یہ بات صاف کر لی جائے ۔
اذان و اقامت سے متعلق بعض احکام
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : امام ضامن اور ذمہ دار ہے اور موذن امین ہے ، اے اللہ اماموں کو ٹھیک چلنے کی توفیق دے اور موذنوں کی مغفرت فرما ۔ (مسند احمد ، سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی ، مسند شافعی) تشریح مطلب یہ ہے کہ امام پر اپنی نماز کے علاوہ مقتدیوں کی نماز کی بھی ذمہ داری ہے اس لیے اس کو اپنے امکان کی حدتک ظاہر اور باطنا اچھی سے اچھی نماز پڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے اور موذن پر لوگوں نے اذان کے بارے میں اعتماد کیا ہے ، لہذا اس کو چاہیے کہ وہ اپنے ذاتی مصالح اور خواہشات کی روایت کے بغیر صحیح وقت پر اذان پڑھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں موذن اور امام دونوں کی ذمہ داری بتلائی اور دونوں کے حق میں دعائے خیر فرمائی ۔
اذان و اقامت سے متعلق بعض احکام
مالک بن الحویرث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میرے ایک چچا زاد بھائی بھی ساتھ تھے ، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب تم سفر کرو تو نماز کے لیے اذان اور اقامت کہو اور جو تم میں بڑا ہو وہ امامت کرے اور نماز پڑھائے ۔ (صحیح بخاری) تشریح صحیح بخاری ہی کی دوسری ایک روایت میں ہے کہ یہ مالک بن الحویرث اپنے قبیلہ کے بعض اور آدمیوں کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور دین سیکھنے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض صحبت سے مستفید ہونے کی نیت سے قریبا بیس دن قیام کیا تھا ، اپنی اس روایت میں انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جس ارشاد کا ذکر کیا ہے وہ غالبا اس وقت کا ہے جب وطن واپس جانے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو رخصت فرمایا تھا ۔ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دو ہدایتیں فرمائی تھیں ایک یہ کہ سفر میں بھی نماز کے لیے اذان و اقامت کا اہتمام کیا جائے ، اور دوسری یہ کہ جو بڑا ہو وہ امامت کرے ، چونکہ دین اور علم دین کے لحاظ سے یہ اور ان کے ساتھی بظاہر برابر تھے ، کسی کو دوسرے کے مقابلے میں کوئی خاص فضیلت اور فوقیت حاصل نہیں تھی اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یہ ہدایت فرمائی کہ تم میں عمر کے لحاظ سے جو بڑا ہو وہ امامت کرے اور ایسی صورت میں یہی اصول اور مسئلہ ہے ۔
اذان اور موذنوں کی فضیلت
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : موذن کی آواز جہاں تک پہنچتی ہے وہاں تک جو جن اور جو انسان اور جو چیز بھی اس کی آواز سنتی ہے وہ قیامت کے دن ضرور اس کے حق می شہادت دے گی ۔ (صحیح بخاری) تشریح اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کی ہر چیز کو اپنی معرفت کا کوئی حصہ عطا فرمایا ہے (وَ اِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖالایۃ) اس لیے جب موذن اذان دیتا ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی کبریائی اور اس کی توحدی اور اس کے رسول کی رسالت اور اس کی دعوت کا اعلان کرتا ہے تو جن و انس کے علاوہ دوسری مخلوقات بھی اس کو سنتی اور سمجھتی ہیں اور قیامت میں اس کی شہادت ادا کریں گی ۔ بلا شبہ اذان اور موذنوں کی یہ بڑی قابل رشک فضیلت ہے ۔ وَ فِيْ ذٰلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَؕ
اذان اور موذنوں کی فضیلت
حضرت جابررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ، فرماتے تھے کہ شیطان جب نماز کی پکار یعنی اذان سنتا ہے تو مقام روحاء کے برابر دور چلا جاتا ہے ۔ (صحیح مسلم) تشریح اللہ کی مخلوق میں بعض چیزیں ایسی ہیں جو بعض دوسری چیزوں کے لیے ناقابل برداشت ہیں ۔ مثلاً اندھیرے کے لیے آفتاب ناقابل برداشت ہے ۔ آفتاب کے نکلتے ہی اندھیرا کافور ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح سردی کے لیے آگ ناقابل برداشت ہے ، جہاں آگ روشن کر دی جائے وہاں سے سردی دفع ہو جاتی ہے ، بس کچھ یہی حال شیطان کا اذان کی پکار سے ہوتا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا ہے کہ جیسے ہی وہ اس کو سنتا ہے اتنی دور چلا جاتا ہے جتنی دور مدینہ سے مثلاً مقام روحاء ہے ۔ (حضرت جابرؓ سے اس حدیث کے روایت کرنے والے راوی طلحہ بن نافع کا بیان اسی حدیث کے ساتھ صحیح مسلم میں مروی ہے کہ روحاء مدینہ سے ۳۶ میل دور ہے) حدیث کی روح یہ ہے کہ اذان جو توحید اور ایمان کی پکار ہے جس طرح وہ اللہ تعالیٰ کو نہایت محبوب ہے اور اس کے اچھے بندے اس کو سن کر مسجدوں کی طرف دوڑ پڑتے ہیں ۔ اسی طرح شیطان مردود کے لیے وہ گویا بم کا گولا ہے ، جہاں اللہ کے منادی نے اذان شروع کی وہ اس سے ایسا بھاگتا ہے جیسے آفتاب سے اندھیرا کافور ہوتا ہے ۔ واللہ اعلم ۔
اذان اور موذنوں کی فضیلت
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اذان کہنے والے قیامت کے دن دوسرے سب لوگوں کے مقابلے میں دراز گردن (یعنی سربلند) ہوں گے ۔ (صحیح مسلم) تشریح حدیث کے الفاظ “ أَطْوَلُ النَّاسِ أَعْنَاقًا ” کا لفظی ترجمہ تو دراز گردن ہی ہے لیکن شارحین نے اس کے کئی مطلب بیان کئے ہیں ، اس عاجز کے نزدیک اس سے مراد ان کی سربلندی ہے ۔ اور قیامت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو یہ امتیاز اسی طرح حاصل ہو گا جیسا کہ آگے آنے والی حدیث مین ان کا یہ امتیاز بھی بتایا گیا ہے کہ وہ قیامت کے دن مشک کے ٹیلوں پر ہوں گے ۔
اذان اور موذنوں کی فضیلت
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قیامت کے دن تین (قسم کے) آدمی مشک کے ٹیلوں پر ٹھہرائے جائیں گے ۔ ایک وہ نیک غلام جس نے دنیا مین اللہ کا حق بھی ادا کیا اور اپنے آقا کا بھی ، دوسرا وہ آدمی جو کسی جماعت کا امام بنا ، اور لوگ (اس کی نیک عملی اور پاکیزہ سیرت کی وجہ سے) اس سے راضی اور خوش رہے اور تیسرے وہ بندہ جو دن رات کی پانچوں نمازوں کے لیے روزانہ اذان دیا کرتا تھا ۔ (جامع ترمذی)
اذان اور موذنوں کی فضیلت
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے جس بندہ نے سات سال تک اللہ کے واسطے اور ثواب کی نیت سے اذان دی اس کے لیے آتش دوزخ سے براءت لکھ دی جاتی ہے (یعنی اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ طے فرما دیا جاتا ہے کہ دوزخ سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ، اور اس کی آگ اور لپٹ کو اس بندہ کو چھونے کی بھی اجازت نہیں) ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ)
اذان اور موذنوں کی فضیلت
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اذان کہنے والے اور تلبیہ پڑھنے والے اپنی قبروں سے اس حال میں نکلیں گے کہ اذان کہنے والے اذان پکارتے ہوں گے اور تلبیہ پڑھنے والے تلبیہ کی صدا بلند کرتے ہوں گے ۔ (معجم اوسط للطبرانی) تشریح اذان اور موذنوں کی جو غیر معمولی فضیلتیں ان حدیثوں میں بیان فرمائی گئی ہیں ان کا راز یہی ہے کہ اذان ایمان و اسلام کا شعار اور اپنے معنی و ترتیب کے لحاظ سے دین کی نہایت بلیغ اور جامع دعوت و پکار ہے اور موذن اس کا داعی اور گویا اللہ تعالیٰ کا نقیب اور منادی ہے ۔ افسوس آج ہم مسلمانوں نے اس حقیقت کا بولکل بھلا دیا ہے اور اذان کہنا ایک حقیر پیشہ بن گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمارے اس عظیم ترین اجتماعی گناہ کو معاف فرمائے اور توبہ و اصلاح کی ہمیں توفیق دے ۔
اذان کا جواب اور اس کے بعد کی دعا
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب موذن کہے اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ ، اور (اس کے جواب میں) تم میں سے کوئی کہے اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ ، پھر موذن کہے أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ ، اور جواب دینے والا بھی (اس جواب میں) کہے ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ ، پھر موذن کہے أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ اور جواب دینے والا بھی کہے ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ ، پھر موذن کہے حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ ، تو جواب دینے والا کہے لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ ، پھر موذن کہے حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ ، اور جواب دینے والا کہے لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ ، پھر موذن کہے اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ ، اور جواب دینے والا بھی کہے اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ ، پھر موذن کہے لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ ، اور جواب دینے والا بھی کہے لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ اور یہ کہنا دل سے ہو تو وہ جنت میں جائے گا ۔ (صحیح مسلم) تشریح ناظرین کو جیسا کہ پہلے معلوم ہو چکا ہے اذان کے دو پہلو ہیں یا کہنا چاہیے کہ اذان دو حیثیتوں کی جامع ہے ، ایک یہ کہ وہ نماز باجماعت کا اعلان اور بلاوا ہے دوسرے یہ کہ وہ ایمان کی دعوت و پکار اور دین حق کا منشور ہے ۔ پہلی حیثیت سے اذان سننے والے اور ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اذان کی آواز سنتے ہی نماز میں شرکت کے لیے تیار ہو جائے اور ایسے وقت مسجد میں پہنچ جائے کہ جماعت میں شریک ہو سکے ۔ (1) اور دوسری حیثیت سے ہر مسلمان کو حکم ہے کہ وہ اذان سنتے وقت اس ایمانی دعوت کے ہر جزو اور ہر کلمے کی اور اس آسمانی منشور کی ہر دفعہ کی اپنے دل اور اپنی زبان سے تصدیق کرے اور اس طرح پوری اسلامی آبادی ہر اذان کے وقت اپنے ایمان عہد و میثاق کی تجدید کیا کرے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان کا جواب دینے کی اور اس کے بعد دعا میں پھر کلمہ شہادت کی اپنے ارشادات میں جو تعلیم و ترغیب دی ہے ۔ اس عاجز کے نزدیک اس کی خاص حکمت یہی ہے ۔ واللہ اعلم ۔ اس سے یہ بات بھی سمجھ میں آ جاتی ہے کہ اذان کا جواب جو بظاہر ایک معمولی سا عمل ہے اس پر داخلہ جنت کی بشارت کا کیا راز ہے ؟
اذان کا جواب اور اس کے بعد کی دعا
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : جو شخص موذن کی اذان سننے کے وقت (یعنی جب وہ اذان پڑھ کر فارغ ہو جائے) کہے کہ میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور شہادت دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہین اور میں راضی و خوش ہوں اللہ کو رب مان کر اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول اللہ مان کر اور اسلام کو دین حق مان کر ، تو اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے ۔ (صحیح مسلم) تشریح نیک اعمال کی برکت سے گناہوں کی بخشش کے بارے میں کچھ ضروری وضاحت وضو کے فضائل و برکات کے بیان میں کی جا چکی ہے وہ یہاں بھی ملحوظ رہنی چاہیے ۔
اذان کا جواب اور اس کے بعد کی دعا
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو کوئی بندہ اذان سننے کے وقت اللہ تعالیٰ سے یوں دعا کرے “ اے اللہ اس دعوت تامہ کاملہ اور اس صلوٰۃ قائمہ و دائمہ کے رب ! (یعنی اے وہ اللہ جس کے لیے اور جس کے حکم سے یہ اذان اور یہ نماز ہے (اپنے رسول پاک) محمد کو وسیلہ اور فضیلہ کے خاص درجہ اور مرتبہ عطا فرما اور ان کو اس مقام محمود پر سرفراز فرما جس کا تو نے ان کے لیے وعدہ فرمایا ہے ۔ ” تو وہ بندہ قیامت کے ند میری شفاعت کا حق دار ہو گیا ۔ (صحیح بخاری) تشریح اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تین چیزوں کی دعا کا ذکر کیا گیا ہے اور فرمایا گیا ہے کہ جو بندہ اذان سننے کے وقت اللہ تعالیٰ سے ان تین چیزوں کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کرنے کی دعا کرے گا وہ قیامت کے دن شفاعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا خاص طور سے حق دار ہو گا ۔ ایک وسیلہ ۔ دوسرے فضیلۃ ۔ تیسرے مقام محمود ۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں اس وسیلہ کی تشریح خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مقبولیت و محبویت کا ایک خاص الخاص مقام و مرتبہ اور جنت کا ایک مخصوص و ممتاز درجہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے کسی ایک ہی بندہ کو ملنے والا ہے ، اور سمجھنا چاہیے کہ فضیلۃ بھی گویا اسی مقام اختصاص و امتیاز کا ایک عنوان ہے اور اسی طرح مقام محمود و مقام عزت ہے جس پر فائز ہونے والا ہر ایک کی نگاہ میں محمود اور محترم ہو گا اور سب اس کے ثنا خواں اور شکر گزار ہوں گے ۔ اسی سلسلہ میں معارف الحدیث کی پہلی جلد میں شفاعت کے بیان مین وہ حدیثیں ناظرین کی نظر سے گزر چکی ہوں گی جن مین بیان کیا گیا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے جلال کے ظہور کا خاص دن ہو گا اور سارے انسان اپنے اعمال اور احوال کے اختلاف کے باوجود اس وقت دہشت زدہ اور پریشان ہوں گے ۔ حتیٰ کہ حضرت نوح و ابراہیم اور موسیٰ و عیسیٰ علیہم السلام جیسے اولو العزم پیغمبر بھی اللہ تعالیٰ کے حضور میں کچھ عرض کرنے کی ہمت نہ کر سکیں گے تو اس وقت سید الرسل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی انا لها انا لها کہہ کرا حکم الحاکمین کی بارگاہ جلال میں سب سے پہلے سارے انسانوں کے لیے حساب اور فیصلہ کی استدعا اور شفاعت کریں گے اور اس کے بعد گنہگاروں کی سفارش اور ان کے دوزخ سے نکالے جانے کی استدعا کا دروازہ بھی آپ ہی کے اقدام سے کھلے گا ، خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے “ أَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ ، وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ ” (سب سے پہلا شافع میں ہوں گا اور بارگاہ خداوندی میں سے سے پہلے میری ہی شفاعت قبول کی جائے گی) نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے “ أَنَا حَامِلُ لِوَاءِ الْحَمْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تَحْتَهُ آدَمُ فَمَنْ دُوْنَهُ ، وَلَا فَخْرَ ” (قیامت کے دن حمد کا جھنڈا میرے ہی ہاتھ میں ہو گا اور آدم اور ان کے علاوہ سارے انبیاء و رسل اور ان کے متبعین میرے اسی جھنڈے لواء الحمد کے نیچے ہوں گے) بس یہی وہ مقام ہے جس کے متعلق قرآن مجید میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا گیا ہے ۔ “ عَسٰۤى اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا ” (بنی اسرائیل ۔ ع ۱۰) (امید ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود عطا فرما دے) ۔ الغرض وہ خاص الخاص مرتبہ اور درجہ جس کو حدیث میں وسیلہ اور فضیلہ کہا گیا ہے اور عزت و امتیاز اور محمودیت عامہ کا وہ مقام بلند جس کو قرآن مجید میں اور اس حدیث مقام محمود کہا گیا ہے ۔ یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم امتیوں پر یہ نوازش ہے کہ زیر تشریح حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو اس کی ترغیب دی کہ ہم بھی اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ یہ درجے اور مقامات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیے جائیں اور بتلایا کہ جو کوئی میرے لیے یہ دعا کرے گا وہ قیامت کے دن میری شفاعت کا خاص طور سے مستحق ہو گا ۔ فائدہ ...... مندرجہ بالا تینوں حدیثوں پر عمل کرنے کا طریقہ اور ترتیب یہ ہے کہ موذن کی اذان کے ساتھ تو اس کے ہر کلمے کو دہرایا جائے جس طرح کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں مذکور ہوا ، اور اس کے بعد سعد بن ابی وقاص کی حدیث کے مطابق کہا جائے أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ (آخر تک) اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور میں دعا کی جائے “ اللهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ سے وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتَهُ ” تک ۔ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں نقل کیا ہے کہ بیہقی کی روایت میں اس دعا کے آخر میں “ إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ ” کا اضافہ بھی ہے اللہ تعالیٰ ہم کو توفیق دے کہ ان احکام کی روح کو سمجھ کر ان پر عمل کی حقیقی برکات حاصل کریں ۔
مساجد: ان کی عظمت و اہمیت اور آداب و حقوق
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شہروں اور بستیوں میں سے اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ان کی مسجدیں ہیں اور سب سے زیادہ مبغوض ان کے بازار اور منڈیاں ہیں ۔ (صحیح مسلم) تشریح جو عظیم و وسیع مقاصد نماز سے وابستہ ہیں جن میں سے بعض کی طرف حضرت شاہ ولی اللہ کے حوالے سے کچھ اشارے بھی کیے جا چکے ہیں ۔ (1) ان کی تحصیل و تکمیل کے لیے یہ بھی ضروری تھا کہ نماز کا کوئی اجتماعی نظام ہو ، اسلامی شریعت میں اس اجتماعی نظام کا ذریعہ مسجد اور جماعت کو بنایا گیا ہے ، ذرا سا غور کرنے سے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اس امت کی دینی زندگی کی تشکیل و تنظیم اور تربیت و حفاظت میں مسجد اور جماعت کا کتنا بڑ ا دخل ہے ، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طرف تو جماعتی نظام کے ساتھ نماز ادا کرنے کی انتہائی تاکید فرمائی اور ترک جماعت پر سخت وعیدیں سنائیں (جیسا کہ ناظرین عنقریب ہی پڑھیں گے) اور دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مساجد کی اہمیت پر زور دیا اور کعبۃ اللہ کے بعد بلکہ اسی کی نسبت سے ان کو بھی “ خدا کا گھر ” اور امت کا دینی مرکز بنایا اور ان کی برکات اور اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ان کی عظمت و محبوبیت بیان فرما کر امت کو ترغیب دی کہ ان کے جسم خواہ کسی وقت کہیں ہوں لیکن ان کے دلوں اور ان کی روحوں کا رخ ہر وقت مسجد کی طرف رہے ، اسی کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مساجد کے حقوق اور آداب بھی تعلیم فرمائے ۔ اس سلسلے کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ارشادات ذیل میں پڑھئے ! تشریح ..... انسان کی زندگی کے دو پہلو ہیں ۔ ایک ملکوتی و روحانی ، یہ نورانی اور لطیف پہلو ہے ، اور دوسرا مادی و بہیمی جو ظلماتی اور کثیف پہلو ہے ۔ ملکوتی و روحانی پہلو کا تقاضا اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کا ذکر جیسے مقدس اشغال و اعمال ہیں ، انہیں سے اس پہلو کی تربیت و تکمیل ہوتی ہے اور انہیں کی وجہ سے انسان اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت و محبت کا مستحق ہوتا ہے ، اور ان مبارک اشغال و اعمال کے خاص مراکز مسجدیں ہیں جو ذکر و عبادت سے معمور رہتی ہیں اور اس کی وجہ سے ان کو “ بیت اللہ ” سے ایک خاص نسبت ہے اس لیے انسانی بستیوں اور آبادیوں میں سے اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں سب سے زیادہ محبوب یہ مسجدیں ہی ہیں ۔ اور بازار اور منڈیاں انے اصل موضوع کے لحاظ سے انسانوں کی مادی و بہیمی تقاضوں اور نفسانی خواہشوں کے مراکز ہیں اور وہاں جا کر انسان عموماً خدا سے غافل ہو جاتے ہین اور ان کی فضا غفلت اور منکرات و معصیات کی کثرت کی وجہ ظلماتی اور مکدررہتی ہے ۔ اس لیے وہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں انسانی آبادیوں کا سب سے زیادہ مبغوض حصہ ہیں ۔ حدیث کی اصل روح اور اس کا منشاء یہ ہے کہ اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ مسجدوں سے زیادہ سے زیادہ تعلق رکھیں اور ان کو اپنا مرکز بنائیں اور منڈیوں اور بازاروں میں صرف ضرورت سے جائیں اور ان سے دل نہ لگائیں اور وہاں کی آلودگیوں سے مثلاً جھوٹ ، فریب اور بد دیانتی سے اپنی حفاظت کریں ۔ ان حدود کی پابندی کے ساتھ بازاروں سے تعلق رکھنے کی اجازت دی گئی ہے ۔ بلکہ ایسے سودا گروں اور تاجروں کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت سنائی ہے جو اللہ تعالیٰ کے احکام اور اصول دیانت و امانت کی پابندی کے ساتھ تجارتی کاروبار کریں اور یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ بیت الخلا غلاظت اور گندگی کی جگہ ہونے کی وجہ سے اگرچہ اصلا سخت ناپسندیدہ مقام ہے لیکن ضرورت کے بقدر اس سے بھی تعلق رکھا جاتا ہے ، بلکہ وہاں کے آنے جانے میں اور قضاء حاجت میں اگر بندہ اللہ تعالیٰ کے احکام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات و سنن کا لحاظ رکھے تو بہت کچھ ثواب بھی کما سکتا ہے ۔
مساجد: ان کی عظمت و اہمیت اور آداب و حقوق
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سات قسم کے آدمی ہیں ، جنہیں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے سایہ میں جگہ دے گا ۔ قیامت کے اس دن میں جس دن کہ اس کے سایہ رحمت کے سوا کوئی دوسرا سایہ نہیں ہو گا ، ایک عدل و انصاف سے حکمرانی کرنے والا فرمانروا ، دوسرا وہ جوان جس کی نشوونما اللہ تعالیٰ کی عبادت میں ہوئی (یعنی جو بچپن سے عبادت گزار تھا اور جوانی میں بھی عبادت گزار رہا اور جوانی کی مستیوں نے اسے غافل نہیں کیا) تیسرا وہ مرد مومن جس کا حال یہ ہے کہ مسجد سے باہر جانے کے بعد بھی اس کا دل مسجد ہی سے اٹکا رہتا ہے جب تک کہ پھر مسجد میں نہ آ جائے ، اور چوتھے وہ دو آدمی جنہوں نے اللہ کے لیے باہم محبت کی ، اسی پر جڑے رہے اور اسی پر الگ ہوئے (یعنی ان کی محبت صرف منہ دیکھے کی محبت نہیں جیسی کہ اہل دنیا کی محبتیں ہوتی ہیں ، بلکہ ان کا حال یہ ہے کہ جب یکجا اور ساتھ ہیں جب بھی محبت ہے اور جب ایک دوسرے سے الگ اور غائب ہوتے ہیں جب بھی ان کے دل للہی محبت سے لبریز ہوتے ہیں) پانچواں خدا کا وہ بندہ جس نے اللہ کو یاد کیا تنہائی میں تو اس کے آنسو بہہ پڑے اور چھٹا وہ مردِ خدا جسے حرام کی دعوت دی کسی ایسی عورت نے جو خوبصورت بھی ہے اور صاحب وجاہت و عزت بھی ، تو اس بندے نے کہا کہ میں خدا سے ڈرتا ہوں اس لیے حرام کی طرف قدم نہیں اتھا سکتا) اور ساتواں وہ شخص جس نے اللہ کی راہ میں کچھ صدقہ کیا اور اس قدر چھپا کر کیا کہ گویا اس کے بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہیں کہ اس کا داہنا ہاتھ اللہ کی راہ میں کیا خرچ کر رہا ہے اور کس کو دے رہا ہے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں تیسرے نمبر پر اس شخص کو اللہ کے سایہ رحمت کی بشارت سنائی گئی ہے جس کا حال یہ ہو کہ مسجد سے باہر ہونے کی حالت میں بھی اس کا دل مسجد میں اٹکا رہے ۔ بے شک مومن کا حال یہی ہونا چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ ان سات باتوں میں سے کوئی نہ کوئی بات ہم کو بھی نصیب فرمائے ۔
مساجد: ان کی عظمت و اہمیت اور آداب و حقوق
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو بندہ جس وقت بھی صبح کو یا شام کو اپنے گھر سے نکل کر مسجد کی طرف جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے واسطے جنت کی مہمانی کا سامان تیار کراتا ہے ۔ وہ جتنی دفعہ بھی صبح یا شام کو جائے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح حدیث کا مطلب یہ ہے کہ بندہ صبح یا شام جس وقت بھی اور دن میں جتنی دفعہ بھی خدا کے گھر میں (یعنی مسجد میں) حاضر ہوتا ہے ، رب کریم اس کو اپنے عزیز مہمان کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور ہر دفعہ کی حاضری پر جنت میں اس کے لیے مہمانی کا خاص سامان تیار کراتا ہے ، جو وہاں پہنچنے کے بعد بندہ کے سامنے آنے والا ہے ۔ اور ظاہر ہے کہ رب کریم کے جنت والے سامان مہمانی کا یہاں کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا ، کنز العمال میں تاریخ حاکم کے حوالے سے بروایت عبداللہ بن عباس ایک حدیث کے الفاظ یہ نقل کئے گئے ہیں ۔ المساجد بيوت الله والمؤمنون زوار الله ، وحق على المزور أن يكرم زائره. (کنز العمال ص ۱۲۴ ، ج ۴) مسجدیں اللہ کے گھر ہیں اور ان میں حاضر ہونے والے اہل ایمان اللہ تعالیٰ کے ملاقاتی (اور مہمان) ہیں اور جن کی ملاقات کو کوئی آئے اس پر حق ہے کہ وہ آنے والے ملاقات کا اکرام اوراس کی خاطر داری کرے ۔ “ تاریخ حاکم ” جس کے حوالے سے یہ روایت کنزالعمال میں نقل کی گئی ہے اس کی روایتیں محدثین کے نزدیک عموماً ضعیف ہیں خود کنز العمال کے مقدمہ میں بھی اس کی تصریح کر دی گئی ہے ۔ لیکن اس کی اس روایت کا مضمون بخاری و مسلم کی مندرجہ بالا ابو ہریرہؓ والی حدیث کے بالکل مطابق ہے اس لیے تشریح میں یہاں اس کو نقل کر دینا مناسب معلوم ہوا ۔ (1)
مساجد: ان کی عظمت و اہمیت اور آداب و حقوق
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آدمی کی نماز جو وہ جماعت سے مسجد میں ادا کرے اس کی اس نماز کے مقابلہ میں جو اپنے گھر میں یا بازار میں پڑھے (ثواب میں) پچیس گنا زیادہ ہوتی ہے اور وجہ یہ ہے کہ جب وہ بندہ اچھی طرح وضو کر کے مسجد کی طرف جاتا ہے اور اس جانے میں نماز کے سوا اس کا کوئی دنیوی مقصد نہیں ہوتا ، تو اس کے ہر قدم پر اس کا ایک درجہ بلند کر دیا جاتا ہے اور اس کی ایک خطا معاف کر دی جاتی ہے ، پھر جب وہ نماز پڑھتا ہے تو فرشتے اس وقت تک برابر اس کے حق میں عنایت اور رحمت کی دعا کرتے رہتے ہیں جب تک کہ وہ نماز پڑھنے کی جگہ میں رہے ، ان فرشتوں کی دعا یہ ہوتی ہے ، اے اللہ اپنے اس بندے پر خاص عنایت فرما۔ اس پر رحمت فرما ! اور جب تک تم میں سے کوئی نماز کے انتظار میں مسجد میں رہتا ہے ، اللہ کے نزدیک اور اس کے حساب میں وہ برابر نماز ہی میں رہتا ہے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح مسجد میں جماعت سے نماز پڑھنے پر بہ نسبت گھر اور دکان وغیرہ کے ۲۵ گنا ثواب اور راستہ کے ہر قدم پر ایک درجہ کی بلندی اور ایک گناہ کی معافی ، یہ کتنی بڑی اور کتنی ارزاں دولت ہے ؟ اور پھر اس سے بھی آگے فرشتوں کی دعا اللهم صلى عليه اللهم ارحمه کیسی عظیم نعمت ہے ۔ اس کے علاوہ اس حدیث کی ایک دوسری روایت میں فرشتوں کی اس دعا میں اللهم اغفر له اللهم تب عليه کا اضافہ بھی ہے (یعنی اے اللہ اس بندے کی مغفرت فرما دے ، اس کی توبہ کو قبول فرما لے) ۔ نیز اسی روایت کے آخر میں ایک اضافہ یہ بھی ہے مالم يوذ فيه مالم يحدث یعنی نماز کے بعد مسجد میں بیٹھنے والے اس بندے کے حق میں فرشتے یہ دعائیں اس وقت تک برابر کرتے رہتے ہیں جب تک وہ کسی کو اپنے ہاتھ یا اپنی زبان سے ایذا نہ پہنچائے یا اس کا وضو ٹوٹ نہ جائے ۔
مساجد: ان کی عظمت و اہمیت اور آداب و حقوق
حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ حضرت مجھ کو رہبانیت اختیار کرنے کی اجازت دے دیجئے ۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ میری امت کی رہبانیت نماز کے انتظار میں مسجدوں میں بیٹھنا ہے ۔ (شرح السنہ) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہؓ میں دینوی معاملات اور دنیا کی لذتوں سے بے تعلق اور کنارہ کش ہو جانے کا جذبہ پیدا ہوتا تھا اور وہ اس باب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض معروض کرتے تھے ۔ اس حدیث کے راوی عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ میں یہ رجحان بہت تیز تھا ، انہوں نے ایک دفعہ کئی باتیں اسی طرح کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیں ، ان میں سے آخری بات یہ تھی کہ ہمیں رہبانیت اختیار کرنے کی اجازت دے دی جائے جس کے بعد ہم تارک الدنیا راہبوں والی زندگی گزاریں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جو جواب دیا اس کا مطلب یہ ہے کہ جن روحانی مقاصد اور اخروی منافع کے لیے پہلی امتوں میں رہبانیت تھی میری امت کو وہ چیزیں نماز کے انتظار میں مسجد میں بیٹھنے ہی پر اللہ تعالیٰ عطا فرمانے والے ہیں اور بس یہی میری امت کی رہبانیت اور درویشی ہے ۔ دراصل نماز کے انتظار میں مسجد میں بیٹھنا بھی ایک طرح کا “ اعتکاف ” ہے ۔ کاش ہم اس کی قدر و قیمت جانیں ۔
مساجد: ان کی عظمت و اہمیت اور آداب و حقوق
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے جو بندے اندھیروں میں مسجدو ں کو جاتے ہیں ، ان کو بشارت سناؤ کہ (ان کے اس عمل کے صلہ میں) قیامت کے دن ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نور کامل عطا ہو گا ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد) تشریح رات کے اندھیروں میں نماز کے لیے پابندی سے مسجد جانا بلا شبہ بڑا مجاہدہ اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ سچے تعلق کی دلیل ہے ، ایسے بندوں کو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی بشارت سنوائی ہے کہ ان کے اس عمل کے صلہ میں قیامت کے اندھیروں میں ان کو اللہ تعالیٰ کیطرف سے نور کامل عطا فرما دیا جائے گا ۔ فبشرى لهم وطوبى لهم.
مسجد میں داخل ہونے اور باہر آنے کی دعا
حضرت ابو اسید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہونے لگے تو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرے اللهُمَّ افْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ (اے اللہ میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے) اور جب مسجد سے باہر جانے لگے تو دعا کرے اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ (اے اللہ میں تجھ سے تیرے فضل کا سوال کرتا ہوں تو میرے لیے اس کا فیصلہ فرما دے) ۔ (صحیح مسلم) تشریح قرآن و حدیث میں رحمت کا لفظ زیادہ تر اخروی اور دینی و روحانی انعامات کے لیے اور فضل کا لفظ رزق وغیرہ دنیوی نعمتوں کی داد دہش اور ان میں زیادتی کے لیے استعمال کیا گیا ہے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کے داخلہ کے لیے فتح باب رحمت کی دعا تعلیم فرمائی ، کیوں کہ مسجد دینی و روحانی اور اخروی نعمتوں ہی کے حاصل کرنے کی جگہ ہے اور مسجد سے نکلتے وقت کے لیے اللہ سے اس کا فضل یعنی دینوی نعمتوں کی فراوانی مانگنے کی تلقین فرمائی ، کیوں کہ مسجد سے باہر کی دنیا کے لیے یہی مناسب ہے ۔ ان دونوں باتوں کا خاص منشاء یہ ہےکہ مسجد میں آنے اور جانے کے وقت بندہ غافل نہ ہو اور ان دونوں حالتوں میں اللہ تعالیٰ کیطرف اس کی توجہ سائلانہ ہو ۔
تحیۃ المسجد
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو اس کو چاہیے کے بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح مسجد کو اللہ تعالیٰ سے ایک خاص نسبت اور اسی نسبت سے اس کو “ خانہ خدا ” کہا جاتا ہے ، اس لیے اس کے حقوق اور اس میں داخلہ کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ وہاں جا کر بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز ادا کی جائے ، یہ گویا بارگاہ خداوندی کی سلامی ہے ، اس لیے اس کو “ تحیۃ المسجد ” کہتے ہیں (تحیۃ کے معنی سلامی کے ہیں) لیکن یہ حکم جمہور ائمہ کے نزدیک استحبابی ہے ۔ ف....... اس حدیث میں صراحۃً حکم ہے کہ تحیۃ المسجد کی یہ دو رکعتیں مسجد میں بیٹھنے سے پہلے پڑھنی چاہئیں ، بعض لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ مسجد میں جا کر پہلے قصداً بیٹھتے ہیں اس کے بعد کھڑے ہو کر نماز کی نیت کرتے ہیں معلوم نہیں یہ غلطی کہاں سے رواج پا گئی ہے ۔ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اب سے چار صدی پہلے ان کے زمانہ کے عام مسلمانوں میں بھی یہ غلطی رائج تھی ۔
تحیۃ المسجد
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دستور تھا کہ سفر سے واپسی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم دن ہی میں چاشت کے وقت مدینہ میں تشریف لاتے اور پہلے مسجد میں رونق افروز ہوتے تھے اور وہاں دو رکعت نماز پڑھنے کے بعد وہیں (کچھ دیر تک) تشریف رکھتے تھے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح دوسری بعض حدیثوں میں یہ تفصیل آتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے واپسی میں آخری منزل عموماً مدینہ طیبہ کے قریب ہی فرماتے تھے ، جس کی وجہ سے مدینہ طیبہ میں یہ اطلاع ہو جاتی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فلاں مقام پر ٹھہر گئے اور کل صبح تشریف لانے والے ہیں ، پھر علی الصبح آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس منزل سے روانہ ہو کر کچھ دن چڑھے یعنی چاشت کے وقت مدینہ طیبہ میں رونق افروز ہوتے تھے اور سب سے پہلے سیدھے اپنی مسجد مبارک میں تشریف لاتے تھے ، گویا گھر والوں کی ملاقات سے بھی پہلے بارگاہ خداوندی میں حاضر ہو کر اس کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ ہدیہ عبودیت پیش کرتے تھے ، پھر اس کے بعد بھی کچھ دیر تک مسجد ہی میں تشریف رکھتے تھے اور مشتاقان زیارت وہیں آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی سعادت حاصل کرتے تھے ۔ یہ تھا مسجد کے تعلق کے بارہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ ، اللہ تعالیٰ ہم امتیوں کو اس کی روح کو سمجھنے اور اس کی پیروی کرنے کی توفیق دے ۔
مسجد سے تعلق ایمان کی نشانی
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تک کسی شخص کو دیکھو کہ وہ مسجد سے تعلق رکھتا ہے اور اس کی خدمت اور نگہداشت کرتا ہے تو اس کے لیے ایمان کی شہادت دو ، کیوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ کی مسجدوں کو آباد وہی لوگ کرتے ہیں جو ایمان رکھتے ہیں اللہ پر اور یوم آخرت پر ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ ، مسند دارمی) تشریح مطلب یہ ہے کہ مسجد اللہ تعالیٰ کی عبادت کا مرکز اور دین مقدس کا شعار و نشان ہے اس لیے اس کے ساتھ مخلصانہ تعلق اور اس کی خدمت و نگہداشت اور اس بات کی فکر و سعی کہ وہ اللہ کے ذکر و عبادت سے معمور اور آباد رہے ، یہ سب سچے ایمان کی نشانی اور دلیل ہے ۔
مسجدوں میں صفائی اور خوشبو کا حکم
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا محلوں میں مسجدیں بنانے اور یہ بھی حکم دیا کہ ان کی صفائی کا اور خوشبو کے استعمال کا اہتمام کیا جائے ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ) تشریح مطلب یہ ہے کہ جو محلے اور آبادیاں دور دور ہوں (جیسا کہ مدینہ کے قرب و جوار کی بستیوں کا حال تھا) تو ضرورت کے مطابق وہاں مسجدیں بنائی جائیں اور ہر قسم کے کوڑے کرکٹ سے ان کی صفائی کا اور ان میں خوشبو کے استعمال کا انتظام کیا جائے ، مسجدوں کی دینی عظمت اور اللہ تعالیٰ سے ان کی نسبت کا یہ بھی خاص حق ہے ۔
مسجد بنانے کا اجر
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو کوئی اللہ کے لیے (یعنی صرف اس کی خوشنودی اور اس کا ثواب حاصل کرنے کی نیت سے) مسجد تعمیر کرائے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ایک شاندار محل تعمیر فرمائیں گے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح حدیث و قرآن کے بہت سے ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ آخڑت میں ہر عمل کا صلہ اس کے مناسب عطا ہو گا ۔ اس بنیاد پر مسجد بنانے والے کے لیے جنت میں ایک شاندار محل عطا ہونا یقیناً قرین حکمت ہے ۔
مسجدوں کی ظاہری شان و شوکت اور ٹیپ ٹاپ پسندیدہ نہیں
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے خدا کی طرف سے حکم نہیں دیا گیا ہے مسجدوں کو بلند اور شاندار بنانے کا (یہ حدیث بیان فرمانے کے بعد حدیث کے راوی عبداللہ بن عباسؓ نے بطور پیشن گوئی) فرمایا کہ یقینا تم لوگ اپنی مسجدوں کی آرائش و زیبائش اسی طرح کرنے لگو گے جس طرح یہود و نصاریٰ نے اپنی عبادت گاہوں میں کی ہے ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد “ ما امرت بتشهيد المساجد ” کا منشاء اور اس کی روح یہ ہے کہ مسجدوں میں ظاہری شان و شوکت اور ٹیپ ٹاپ مطلوب اور محمود نہیں ہے بلکہ ان کے لیے سادگی ہی مناسب اور پسندیدہ ہے ۔ آگے حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے مسجدوں کے متعلق امت کے بے راہ روی کے بارے میں جو پیشن گئی فرمائی ظاہر یہی ہے کہ وہ بات بھی انہوں نے کسی موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے سنی ہو گی ۔ سنن ابن ماجہ میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ ہی کی روایت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا گیا ہے ۔ أَرَاكُمْ سَتُشَرِّفُونَ مَسَاجِدَكُمْ بَعْدِي ، كَمَا شَرَّفَتِ الْيَهُودُ كَنَائِسَهَا ، وَكَمَا شَرَّفَتِ النَّصَارَى بِيَعَهَا (کنز العمال بحالہ ابن ماجہ) میں دیکھ رہا ہوں کہ تم لوگ ایک وقت (جب میں تم میں نہ ہوں گا) اپنی مسجدوں کو اسی طرح شاندار بناؤ گے جس طرح یہود نے اپنے کنیسے بنائے ہیں اور نصاریٰ نے اپنے گرجے ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے (جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قریباً ساٹھ سال تک اس دنیا میں رہے) مسلمانوں کے مزاج اور طرز زندگی میں تبدیلی کا رخ اور کی رفتار دیکھ کر یہ پیشن گوئی فرمائی ہو ۔ بہت حال پیشن گوئی کی بنیاد جو بھی ہو وہ حرف بحرف پوری ہوئی ، خود ہم نے اپنی آنکھوں سے ہندوستان ہی کے بعض علاقوں میں ایسی مسجدیں دیکھی ہیں جن کی آرائش و زیبائش کے مقابلے میں ہمارا خیال ہے کہ کوئی کنیسہ اور کوئی گرجہ پیش نہیں کیا جا سکتا ۔
مسجدوں کی ظاہری شان و شوکت اور ٹیپ ٹاپ پسندیدہ نہیں
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مسجدوں کے بارے میں لوگ ایک دوسرے کے مقابلہ میں فخر و مباہات کرنے لگیں گے ۔ (یعنی اپنا تفوق اور اپنی بڑائی ظاہر کرنے کے لیے ایک کے مقابلہ میں ایک شاندار مسجد بنائے گا) (سنن ابی داؤد ، سنن نسائی ، مسند دارمی ، سنن ابن ماجہ) تشریح قیامت کی نشانیوں میں سے بعض تو وہ ہیں جو اس کے بالکل قریب ظاہر ہوں گی ، جیسے خروج دجال اور آفتاب کا مغرب کی سمت سے طلوع ہونا وغیرہ وغیرہ اور بعض وہ ہیں جو قیامت سے پہلے کسی نہ کسی وقت ظاہر ہو گی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت میں پیدا ہونے والی جن خرابیوں اور جن فتنوں کو قیامت کی نشانیوں میں سے بیاتا ہے وہ اکثر اسی قسم کی ہیں ۔ اور مسجدوں کے بارہ میں فخر و مباہات بھی انہی میں سے ہے اور مسلمان اب سے بہت پہلے اس میں مبتلا ہو چکے ہیں ۔اللهم اصلح امة سيدنا محمد صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
بدبو دار چیز کھا کر مسجد میں آنے کی ممانعت
حضرت جابررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اس بدبودار درخت (پیاز یا لہسن) سے کھائے وہ ہماری مسجد میں نہ آئے کیونکہ جس چیز سے آدمیوں کو تکلیف ہوتی ہے اس سے فرشتوں کو بھی تکلیف ہوتی ہے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح مسجدوں کی دینی عظمت اور حق تعالیٰ کے ساتھ ان کی خاص نسبت کا ایک حق یہ بھی ہے کہ ہر قسم کی بدبو سے ان کی حفاظت کی جائے ، چونکہ لہسن اور پیاز میں بھی ایک طرح کی بدبو ہوتی ہے اور بعض مخصوص علاقوں میں پیدا ہونے والی ان دونوں چیزوں کی بو بہت ہی تیز اور سخت ناگوار ہوتی ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لوگ ان کو کچا بھی کھاتے تھے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ان کو کھا کر کوئی آدمی مسجد میں نہ آئے اور اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس چیز سے سلیم الطبع آدمیوں کو اذیت ہوتی ہے اس سے اللہ کے فرشتوں کو بھی اذیت ہوتی ہے اور مسجدوں میں چونکہ فرشتوں کی آمدو رفت بڑی کثرت سے ہوتی ہور خاص کر نماز میں وہ بنی آدم کے ساتھ بڑی تعداد میں شریک رہتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ بدبو جیسی کسی بھی چیز سے ان مقدس اور محترم مہمانوں کو ایذا نہ پہنچے ۔ ایک دوسری حدیث میں صراحت کے ساتھ پیاز اور لہسن دونوں کا نام لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کو کھا کر کوئی ہماری مسجد میں نہ آیا کرے ۔ اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ اگر کسی کو یہ چیزیں کھانی ہی ہوں تو وہ پکا کر ان کی بدبو زائل کر لیا کرے ۔ (1) ان حدیثوں میں اگرچہ صرف پیاز اور لہسن کا ذکر آیا ہے ، لیکن ظاہر ہے کہ ہر بدبو دار چیز بلکہ ہر اس چیز کا جس سے سلیم الفطرت انسانوں کو اذیت پہنچے یہی حکم ہے ۔
مسجدوں میں شعر بازی اور خرید و فروخت کی ممانعت
عمرو بن شعیب روایت کرتے ہیں اپنے والد شعیب سے اور وہ روایت کرتے ہیں اپنے دادا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدوں میں شعر بازی کرنے سے اور خرید و فروخت کرنے سے منع فرمایا ار اس سے بھی منع فرمایا کہ جمعہ کے دن مسجد میں نماز سے پہلے لوگ اپنے حلقے بنا بنا کر بیٹھیں ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی) تشریح مسجدوں کی دینی عظمت کا یہ بھی حق ہے کہ جو مشغلے اللہ کی عبادت سے اور دین سے قریبی تعلق نہ رکھتے ہوں وہ اگرچہ فی نفسہ جائز ہوں (خواہ کاروباری ہوں جیسے تجارت سودا گری یا تفریحی ہوں جیسے مشاعرے اور ادبی مجلسیں) مسجدیں ان کے لیے استعمال نہ کی جائیں ۔ مسجد میں شعر بازی اور خرید و فروخت کی ممانعت کی بنیاد یہی ہے حدیث کا آخری جز جو جمعہ کے دن سے متعلق ہے اس کا منشاء اور مطلب بظاہر یہ ہے کہ جو لوگ جمعہ کے دن نماز کے لیے پہلے سے مسجد پہنچ جائیں (جس کی خود حدیثوں میں ترغیب دی گئی ہے) ان کو چاہیے کہ وہ نماز تک یکسوئی کے ساتھ ذکر و عبادات اور دعا جیسے اشغال میں مشغول رہیں اپنے الگ الگ حلقے اور مجلسیں قائم نہ کریں ۔ واللہ اعلم ۔
چھوٹے بچوں سے اور شور و شغب وغیرہ سے مسجدوں کی حفاظت
واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اپنی مسجدوں سے دور اور الگ رکھو اپنے چھوٹے بچوں کو اور دیوانوں کو (ان کو مسجدوں میں نہ آنے دو) اور اسی طرح مسجدوں سے الگ اور دور رکھو اپنی خرید و فروخت کو اور اپنے باہمی جھگڑوں ٹنٹوں کو اور اپنے شور و شغب کو اور حدوں کی قائم کرنے کو اور تلواروں کو نیاموں سے نکالنے کو (یعنی ان میں سے کوئی بات بھی مسجدوں کی حدود میں نہ ہو ، یہ سب باتیں مسجد کے تقدس اور احترام کے خلاف ہیں) ۔ (سنن ابن ماجہ)
مسجدوں میں دینا کی بات نہ کی جائے
حضرت حسن بصریؒ سے مرسلاً روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ مسجدوں میں لوگوں کی بات چیت اپنے دنیوی معاملات میں ہوا کرے گی ، تمہیں چاہئے کہ ان لوگوں کے پاس بھی نہ بیٹھو ، اللہ کو ان لوگوں سے کوئی سرو کار نہیں ۔ (شعب الایمان للبیہقی) تشریح مسجد چونکہ خانہ خدا ہے اس لیے اس کے ادب کا یہ بھی تقاضا ہے کہ اس میں ایسی باتیں نہ کی جائیں جن کا اللہ کی رضا طلبی سے اور دین سے کوئی تعلق نہ ہو ۔ ہاں مسلمانوں کے اجتماعی اور ملی مسائل کے بارے میں خواہ ان کا تعلق مسلمانوں کی زندگی کے کسی شعبہ سے ہو ، مسجدوں میں مشورے کیے جا سکتے ہیں اور اس سلسلہ کے کاموں کے لیے مسجدوں کو استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن اس میں بھی مسجدوں کے عام آداب کا لحاظ ضروری ہو گا ، نیز یہ بھی شرط ہو گی کہ یہ جو کچھ ہو اللہ کی ہدایت کے تحت ہو اس سے آزاد ہو کر نہ ہو ۔ ف..... اس حدیث کے راوی حضرت حسن بصریؒ تابعی ہین ، ظاہر ہے کہ ان کو یہ حدیث کسی صحابی کے واسطے پہنچی ہو گی ، لیکن انہوں نے ان صحابی کا حوالہ نہیں دیا ۔ ایسی حدیث کو جسے کوئی تابعی صحابی کا حوالہ دئیے بغیر روایت کرے محدثین کی اصطلاح میں “ مرسل ” کہا جاتا ہے یہ روایت بھی اسی قسم کی ہے ۔
مسجد میں نماز کے لیے عورتوں کا آنا
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تمہاری بیویاں رات کو مسجد جانے کے لیے تم سے اجازت مانگیں تو ان کو اجازت دے دیا کرو ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
مسجد میں نماز کے لیے عورتوں کا آنا
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی عورتوں کو مسجدوں میں جانے سے منع نہ کرو ، اور ان کے لیے بہتر ان کے گھر ہی ہیں ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں جبکہ مسجد نبوی میں پانچویں وقت کی نماز بہ نفس نفیس آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود پڑھاتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اے بار بار اس کی وضاھت کے باوجود کہ عورتوں کے لی اپنے گھروں ہی میں نماز پڑھنا افضل اور زیادہ ثواب کا باعث ہے ، بہت ہی نیک بخت عورتوں کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ وہ کم از کم رات کی نمازوں میں (یعنی عشاء فجر میں) مسجد میں جا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھا کریں ، لیکن بعض لوگ اپنی بیویوں کو اس کی اجازت نہیں دیتے تھے ، اور ان کا یہ اجازت نہ دینا کسی فتنہ کے اندیشہ سے یا کسی بدگمانی کی وجہ سے نہ تھا (کیونکہ اس وقت کا پورا اسلامی معاشرہ اس لحاظ سے ہر طرح قابل اطمینان تھا) بلکہ ایک گیر شرعی قسم کی غیرت اس کی بنیاد تھی اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورتیں اگر رات کی نمازوں میں مسجد میں آنے کی اجازت مانگیں تو ان کو اجازت دے دینا چاہیے لیکن خود عورتوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم برابر یہی سمجھاتے رہے کہ بیبیو تمہارے لیے زیاہ بہتر اپنے گھروں ہی میں نماز پڑھنا ہے ، جیسا کہ آگے درج ہونے والی حدیث اور زیادہ واضح ہو جائے گا ۔
مسجد میں نماز کے لیے عورتوں کا آنا
مشہور صحابی ابو حمید ساعدی کی بیوی ام حمید ساعدیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ میں چاہتی ہوں کہ آپ کے ساتھ (جماعت سے مسجد میں) نماز ادا کیا کروں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں جانتا ہوں کہ تمہیں میرے ساتھ (یعنی میرے پیچھے جماعت کے ساتھ) نماز پڑھنے کی بڑی چاہت ہے اور مسئلہ شریعت کا یہ ہے کہ تمہاری وہ نماز جو تم اپنے گھر کے اندرونی حصے میں پڑھو وہ اس نماز سے افضل اور بہتر ہے جو تم بیرونی دالان میں پڑھو ، اور بیرونی دالان میں تمہار نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ تم اپنے گھر کے صحن میں پڑھو ، اور اپنے گھر کے صحن میں تمہار نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ تم اپنے قبیلہ کی مسجد میں (جو تمہارے مکان سے قریب ہے) نماز پڑھو ، اور اپنے قبیلہ والی مسجد میں تمہار نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ تم میری مسجد میں آ کر نماز پڑھو ۔ (کنز العمال بحوالہ مسند احمد) تشریح اس حدیث کے علاوہ اور بھی بہت سے حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کی نماز کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح کی وضاحت بار بار ار مختلف موقعوں پر فرمائی ہے لیکن اس کے باوجود بہت سی صحابیات کا دلی جذبہ یہی ہوتا تھا کہ چاہے ہمارے لیے اپنے گھروں میں نماز پڑھنا افضل اور زیادہ ثواب کی بات ہو ۔ لیکن ہم کم از کم رات کی نمازیں مسجد میں حاضر ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ہی پڑھ لیا کریں ۔ اور چونکہ اس جذبہ کی بنیاد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ آپ کی سچی ایمانی محبت تھی اور اس زمانے میں کسی فتنہ کا اندیشہ بھی نہیں تھا اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا کہ عورتیں اگر رات کو مسجدوں میں جانے کی اجازت چاہیں تو ان کو اجازت دے دیا کرو ۔ بہرحال یہ اجازت دینے کا حکم اس وقت کا ہے جب کہ عورتوں کے مسجد جانے میں کسی برائی کا خطرہ اور کسی فتنہ کا اندیشہ نہیں تھا اور بعض صحابہ کرام صرف عرفی غیرت یا اپنی خاص افتاد طبع کی وجہ سے اپنی بیویوں کو مسجد میں جانے سے منع کر دیتے تھے ۔ لیکن جب عورتوں اور مردوں دونوں کے حالات میں تبدیلی آ گئی اور فتنوں کے اندیشے پیدا ہو گئے تو خود حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے (جن سے زیادہ کوئی بھی عورتوں کے ظاہری و باطنی حال اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج و منشاء سے واقف نہیں ہو سکتا) وہ فرمایا جو آگے درج ہونے والی حدیث میں آپ پڑھیں گے ۔
مسجد میں نماز کے لیے عورتوں کا آنا
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان باتوں کو دیکھتے جو عورتوں نے اپنے (طرز زندگی میں) اب پیدا کر لی ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود ان کو مسجدوں میں جانے سے منع فرما دیتے ، جس طرح کہ (اسی قسم کی باتوں کی وجہ سے) بنی اسرائیل کی عورتوں کو (ان کی عبادت گاہوں میں جانے سے اگلے پیغمبروں کے زمانہ میں) روک دیا گیا تھا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح یہ بات حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد اپنے زمانہ میں فرمائی تھی اور بقول حضرت شاہ ولی اللہؒ اسی بناء پر جمہور صحابہؓ کی یہ رائے ہو گئی تھی کہ اب عورتوں کو مسجدوں میں نہ جانا چاہیے ، بعد کے زمانوں میں ان تبدیلیوں میں جو اور ترقی ہوئی اور ہمارے معاشرے کی خرابیوں میں جو بے حساب اضافہ ہوا اس کے بعد تو ظاہر ہے کہ اس کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہی ۔
جماعت کی اہمیت
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ ہم نے اپنے کو (یعنی مسلمانوں کو) اس حال میں دیکھا ہے کہ نماز باجماعت میں شریک نہ ہونے والا یا تو بس کوئی منافق ہوتا تھا جس کی منافقت ڈھکی چھپی نہیں ہوتی تھی ، بلکہ عام طور سے لوگوں کو اس کی منافقت کا علم ہوتا تھا ۔ یا کوئی بےچارہ مریض ہوتا تھا (جو بیماری کی مجبوری سے مسجد تک نہیں آ سکتا تھا) اور بعضے مریض بھی دو آدمیوں کے سہارے چل کر آتے اور جماعت میں شریک ہوتے تھے ۔ اس کے بعد حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو “ سنن ہدی ” کی تعلیم دی ہے (یعنی دین و شریعت کی ایسی باتیں بتلائی ہیں جن سے ہماری ہدایت و سعادت وابستہ ہے) اور انہیں “ سنن ہدی ” میں سے ایسی مسجد میں جہاں اذان دی جاتی ہو جماعت سے نماز ادا کرنا بھی ہے ۔ اور ایک دوسری روایت میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا یہ ارشاد اس طرح نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ : “ اے مسلمانو ! اللہ نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے “ سنن ہدی ” مقرر فرمائی ہیں (یعنی ایسے اعمال کا حکم دیا ہے جو اللہ تعالیٰ کے مقام قرب و رضا تک پہنچانے والے ہیں) اور پانچوں نمازیں جماعت سے مسجد میں ادا کرنا انہی “ سنن ہدی ” میں سے ہے اور اگر تم اپنے گھروں ہی میں نماز پڑھنے لگو گے جیسا کہ یہ ایک آدمی جماعت سے الگ اپنے گھر میں نماز پڑھتا ہے (یہ اس زمانے کے کسی خاص شخص کی طرف اشارہ تھا) تو تم اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ چھوڑ دو گے ، اور جب تم اپنے پیغمبر کا طریقہ چھوڑ دو گے تو یقین جانو کہ تم راہ ہدایت سے ہٹ جاؤ گے اور گمراہی کے غار میں جا گرو گے ۔ ” (صحیح مسلم) تشریح گزشتہ صفحات میں کتاب الصلوٰۃ کے بالکل شروع ہی میں یہ بات ذکر کی جا چکی ہے کہ نماز صرف ایک عبادتی فریضہ ہی نہیں ہے بلکہ وہ ایمان کی نشانی اور اسلام کا شعار بھی ہے اور اس کا ادا کرنا اسلامیت کا ثبوت اور اس کا ترک کر دینا دین سے بے اعتنائی اور اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بے تعلقی کی علامت ہے ، اس لیے ضروری تھا کہ نماز کی ادائیگی کا کوئی ایسا بندوبست ہو کہ ہر شخص اس فریضہ کو اعلانیہ اور على رؤس الاشهاد یعنی سب کے سامنے ادا کرے ۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی ہدایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز با جماعت کا نظام قائم فرمایا اور ہر مسلمان کے لیے جو بیمار یا کسی دوسری وجہ سے معذور نہ ہو جماعت سے نماز ادا کرنا لازمی قرار دیا ۔ ہمارے نزدیک اس نظام جماعت کا خاص راز اور اس کی خاص الخاص حکمت یہی ہے کہ اس کے ذریعہ افراد امت کا روزانہ ، بلکہ ہر روز پانچ مرتبہ احتساب ہو جاتا ہے ۔ نیز تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ اس جماعتی نظام کے طفیل بہت سے وہ لوگ بھی پانچوں وقت کی نماز پابندی سے ادا کرتے ہیں جو عزیمت کی کمی اور جذبے کی کمزوری کی وجہ سے انفرادی طور پر کبھی بھی ایسی پابندی نہ کر سکتے ۔ علاوہ ازیں باجماعت نماز کا یہ نظام بجائے خود افراد امت کی دینی تعلیم و تربیت کا اور ایک دوسرے کے احوال سے باخبری کا ایسا غیر رسمی اور بے تکلف انتظام بھی ہے ، جس کا بدل سوچا بھی نہیں جا سکتا ۔ نیز نماز باجماعت کی وجہ سے مسجد میں عبادت و انابت اور توجہ الی اللہ و دعوات صالحہ کی جو فضا قائم ہوتی ہے اور زندہ قلوب پر اس کے جو اثرات پڑتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف اس کے مختلف الحال بندوں کے قلوب ایک ساتھ متوجہ ہونے کی وجہ سے آسمانی رحمتوں کا جو نزول ہوتا ہے اور جماعت میں اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتوں کی شرکت کی وجہ سے (جس کی اطلاع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی حدیثوں میں دی ہے) نماز جیسی عبادت میں ملائکۃ اللہ کی جو معیت اور رفاقت نصیب ہوتی ہے یہ سب اسی نظام جماعت کے برکات ہیں ۔ پھر اس سب کے علاوہ اس نظام جماعت کے ذریعہ امت میں جا اجتماعیت پیدا کی جا سکتی ہے اور محلہ کی مسجد کے روزانہ پنج وقتی اجتماع اور پوری بستی کی جامع مسجد کے ہفتہ وار وسیع اجتماع اور سال میں دو دفعہ عید گاہ کے اس سے بھی وسیع تر اجتماع سے جو عظیم اجتماعی اور ملی فائدے اٹھائے جا سکتے ہیں ان کا سمجھنا تو آج کے ہر آدمی کے لیے بہت آسان ہے ۔ بہر حال نظام جماعت کے انہی برکات اور اس کے اسی قسم کے مصالح اور منافع کی وجہ سے امت کے ہر شخص کو اس کا پابند کیا گیا ہے کہ جب تک کوئی واقعی مجبوری اور معذوری نہ ہو تو وہ نماز جماعت ہی ادا کرے اور جب تک امت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت و تعلیمات پر اسی طرح عمل ہوتا تھا جیسا کہ ان کا حق ہے اس وقت سوائے منافقوں یا معذوروں کے ہر شخص جماعت ہی سے نماز ادا کرتا تھا ار اس میں کوتاہی کو نفاق کی علامت سمجھا جاتا تھا ۔ اس تمہید کے بعد جماعت کے متعلق ذیل کی حدیثیں پڑھئے ۔ تشریح .....رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر صحابی حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے اپنے اس ارشاد میں فرمایا ہے کہ پانچوں وقت کی نماز جماعت سے مسجد میں ادا کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم فرمودہ “ سنن ہدی ” میں سے ہے ، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان اہم دینی تعلیمات میں سے ہے ، جن سے امت کی ہدایت وابستہ ہے ۔ آگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ جماعت کی پابندی ترک کر کے اپنے گھروں ہی میں نمازا پڑھنے لگنا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کو چھوڑ کر گمراہی اختیار کر لینا ہے ۔ اسی کے ساتھ ٓپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا : کہ اس امت کے اس اولین دور میں جو مثالی اور معیاری دور تھا ، منافقوں اور مجبور مریضوں کے علاوہ ہر مسلمان جماعت ہی سے نماز ادا کرتا تھا ، اور اللہ کے بعض صاحب عزیمت بندے تو بیماری کی حالت میں بھی دوسروں کے سہارے آ کر جماعت میں شرکت کرتے تھے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کے اس پورے بیان سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ جماعت کی حیثیت ان کے اور عام صحابہؓ کے نزدیک دینی واجبات کی سی ہے ۔ پس جن حضرات نے اس روایت کے لفظ “ سنن الہدی ” سے یہ سمجھا ہے کہ جماعت کا درجہ فقہی اصطلاح کے مطابق بس “ سنت ” کا ہے ، غالباً انہوں نے غور کرتے وقت حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے اس پورے ارشاد کو سامنے نہیں رکھا ۔ آگے درج ہونے والی حدیثوں سے اس مسئلہ پر اور زیادہ روشنی پڑے گی ۔
جماعت کی اہمیت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : منافقوں پر کوئی نماز بھی فجر و عشاء سے زیادہ بھاری نہیں ہے ، اور اگر وہ جانتے کہ ان دونوں میں کیا اجر و ثواب ہے اور کیا برکتیں ہیں تو وہ ان نمازوں میں بھی حاضر ہوا کرتے اگرچہ ان کو گھٹنوں کے بل گھسٹ کر آنا پڑتا (یعنی اگر بالفرض کسی بیماری کی وجہ سے وہ چل کر نہ آ سکتے تو گھٹنوں کے بل گھسٹ کے آتے ، اس کے بعد ٓپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا) کہ میرے جی میں آتا ہے کہ (کسی دن) میں مؤذن کو حکم دوں کہ وہ جماعت کے لیے اقامت کہے ، پھر میں کسی شخص کو حکم دوں کہ (میری جگہ) وہ لوگوں کی امامت کرے اور خود آگ کے فتیلے ہاتھ میں لوں اور ان لوگوں پر (یعنی ان کے موجود ہوتے ہوئے ان کے گھروں میں) آگ لگا دوں جو اس کے بعد بھی (یعنی اذان سننے کے بعد بھی) نماز میں شرکت کرنے کے لیے گھروں سے نہیں نکلتے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح للہ اکبر ! کتنی سخت وعید ہے ، اور کیسے جلال اور غصہ کا اظہار ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ان لوگوں کے حق میں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جماعت میں غیر حاضر ہوتے تھے ۔اور اسی بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسی طرح کا ایک لرزہ خیز ارشاد حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے سنن ابن ماجہ میں مروی ہے ، بلکہ وہ اس سے بھی زیادہ صاف و صریح ہے ۔ اس کے الفاظ یہ ہیں ۔ لَيَنْتَهِيَنَّ رِجَالٌ عَنْ تَرْكِ الْجَمَاعَةِ ، أَوْ لَأُحَرِّقَنَّ بُيُوتَهُمْ (كنز العمال بحواله ابن ماجه) لوگوں کو چاہیے کہ وہ جماعت ترک کرنے سے باز آئیں ، نہیں تو میں ان کے گھروں میں آگ لگوا دوں گا ۔ یہ تارکین جماعت جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنے سخت غصہ کا اظہار فرمایا ، خواہ عقیدے کے منافق ہوں یا عمل کے منافق (یعنی دینی اعمال میں سستی اور کوتاہی کرنے والے) بہرحال اس وعید اور دھمکی کا تعلق ان کے عمل “ ترک جماعت ” سے ہے ۔ اسی بناء پر بعض ائمہ سلف (جن میں سے ایک امام احمد ابن حنبلؒ بھی ہیں) اس طرف گئے ہیں کہ ہر غیر معذور شخص کے لیے جماعت سے نماز پڑھنا فرض ہے ۔ یعنی ان کے نزدیک جس طرح نماز پڑھنا فرض ہے اسی طرح اس کو جماعت سے پڑھنا ایک مستقل فرض ہے اور جماعت کا تارک ایک فرض عین کا تارک ہے ۔ لیکن محققین احناف نے “ جماعت ” سے متعلق تمام احادیث کو سامنے رکھ کر یہ رائے قائم کی ہے کہ اس کا درجہ واجب کا ہے اور اس کا تارک گنہگار ہے ۔ اور مندرجہ بالا حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ایک طرح کی تہدید اور دھمکی ہے ۔ واللہ اعلم ۔
جماعت کی اہمیت
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : جو شخص نماز باجماعت کے لیے موذن کی پکار سنے اور اس کی بابعداری کرنے سے (یعنی جماعت میں شریک ہونے سے) کوئی واقعی عذر اس کے لیے مانع نہ ہو (اور اس کے باوجود وہ جماعت میں نہ آئے بلکہ الگ ہی اپنی نماز پڑھ لے) تو اس کی وہ نماز اللہ کے ہاں قبول نہیں ہو گی ۔ بعض صحابہؓ نے عرض کیا کہ : حضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) واقعی عذر کیا ہو سکتا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جان و مال کا خوف یا مرض ۔ (سنن ابی داؤد ، سنن دار قطنی) تشریح اس حدیث میں بھی تارکین جماعت کے لیے سخت وعید اور تہدید ہے ۔ بعض ائمہ سلف کا مذہب اسی حدیث کی بناء پر یہ ہے کہ جماعت وضو وغیرہ کی طرح نماز کے شرائط سے ہے ، اور غیر معذور آدمی کی نماز جماعت کے بغیر سرے سے ہوتی ہی نہیں ہے ۔ لیکن جمہور ائمہ کا مذہب یہ نہیں ہے ، ان کے نزدیک ایسی نماز ہو تو جاتی ہے لیکن بہت ناقص ادا ہوتی ہے ، اور اس کا ثواب بھی کم ہوتا ہے ، اور رضاء الہٰی جو خاص الخاص مقصد اور ثمرہ ہے اس سے محروم رہتی ہے ، جمہور کے نزدیک مقبول نہ ہونے کا مطلب یہی ہے ۔ اور دوسری ان حدیثوں سے جن میں نماز باجماعت اور نماز بے جماعت کے ثواب کی کمی بیشی بتائی گئی ہے ۔ جمہور ہی کے مسلک کی تائید ہوتی ہے تاہم یہ حقیقت ہے کہ بغیر عذر کے ترک جماعت بہت بڑی محرومی اور بدبختی ہے ۔
جماعت کی اہمیت
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : کسی بستی میں یا بادیہ (1) میں تین آدمی ہوں اور وہ نماز باجماعت نہ پڑھتے ہوں تو ان پر شیطان یقیناً قابو پا لے گا ، لہٰذا تم جماعت کی پابندی کو اپنے پر لازم کر لو ، کیوں کہ بھیڑیا اسی بھیڑ کو اپنا لقمہ بناتا ہے جو گلہ سے الگ دور رہتی ہے ۔ (مسند احمد ، سنن ابی داؤد ، سنن نسائی) تشریح مطلب ہے کہ اگر کسی جگہ صرف تین آدمی بھی نماز پڑھنے والے ہوں تو ان کو جماعت ہی سے نماز پڑھنا چاہیے ، اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو شیطان آسانی سے ان کو شکار کر سکے گا ۔
نماز باجماعت کی فضیلت اور برکت
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا باجماعت نماز پڑھنا اکیلے نماز پڑھنے کے مقابلے میں ستائیس درجہ زیادہ فضیلت رکھتا ہے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح جس طرح ہماری اس مادی دنیا میں چیزوں کے خواص اور اثرات میں درجوں اور نمبروں کا فرق ہوتا ہے اور اس کی بناء پر ان چیزوں کی افادیت اور قدر و قیمت میں بھی فرق ہو جاتا ہے ، اسی طرح ہمارے اعمال میں بھی درجوں اور نمبروں کا فرق ہوتا ہے ، اور اس کا صحیح اور تفصیلی علم بس اللہ تعالیٰ ہی کو ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی عمل کے متعلق یہ فرماتے ہیں کہ یہ فلاں عمل کے مقابلے میں اتنے درجہ افضل ہے تو وہ اس انکشاف کی بناء پر فرماتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا جاتا ہے ۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ نماز باجماعت کی فضیلت اکیلے نماز پڑھنے کے مقابلے میں ۲۷ درجہ زیادہ ہے اور اس کا ثواب ۲۷ گنا زیادہ ملنے والا ہے ، وہ حقیقت ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر منکشف فرمائی اور آپ نے اہل ایمان کو بتلائی ۔ اب صاحب ایمان کا مقام یہ ہے کہ وہ اس پر دل سے یقین کرتے ہوئے ہر وقت کی نماز جماعت ہی سے پڑھنے کا اہتمام کرے ۔ اس حدیث سے ضمناً یہ بھی معلوم ہوا کہ اکیلے پڑھنے والے کی نماز بھی بالکل کالعدم نہیں ہے وہ بھی ادا ہو جاتی ہے لیکن ثواب میں۲۶ درجہ کمی رہتی ہے اور یہ بھی یقیناً بہت بڑا خسارا اور بڑی محرومی ہے ۔
نماز باجماعت کی فضیلت اور برکت
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص چالیس دن تک ہر نماز جماعت کے ساتھ پڑھے اس طرح کہ اس کی تکیبر اولیٰ بھی فوت نہ ہو تو اس کے لیے دو براءتیں لکھ دی جاتی ہیں ایک آتش دوزخ سے براءت اور دوسری نفاق سے براءت ۔ (جامع ترمذی) تشریح مطلب یہ ہے کہ کامل ایک چلہ ایسی پابندی اور اہتمام سے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا کہ تکبیر اولیٰ بھی فوت نہ ہو اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایسا مقبول و محبوب ہے اور بندہ کے ایمان و اخلاص کی ایسی نشانی ہے کہ اس کے لیے فیصلہ کر دیا جاتا ہے کہ اس کا دل نفاق سے پاک ہے اور یہ ایسا جنتی ہے کہ دوزخ کی آنچ سے بھی وہ کبھی آشنا نہ ہو گا ۔ اللہ کے بندے صدق دل سے ارادہ اور ہمت کریں تو اللہ تعالیٰ سے توفیق کی امید ہے ، کوئی بہت بڑی بات نہیں ہے ۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی عمل خیر کی چالیس دن تک پابندی خاص تاثیر رکھتی ہے ۔
جماعت کی نیت پر جماعت کا پورا ثواب
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے وضو کیا اور اچھی طرح (یعنی پورے آداب کے ساتھ) وضو کیا ، پھر وہ (جماعت کے ارادے سے مسجد کی طرف) گیا ، وہاں پہنچ کر اس نے دیکھا کہ لوگ جماعت سے نماز پڑھ چکے اور جماعت ہو چکی ، تو اللہ تعالیٰ اس بندے کو بھی ان لوگوں کے برابر ثواب دے گا جو جماعت میں شریک ہوئے اور جنہوں نے جماعت سے نماز ادا کی ، اور یہ چیز ان لوگوں کے اجر و ثواب میں کمی کا باعث نہیں ہو گی ۔ (سنن ابی داؤد ، سنن نسائی) تشریح مطلب یہ ہے کہ ایک شخص جو جماعت کی پابندی کرتا ہے اور اس کے لیے پورا اہتمام کرتا ہے اس کو اگر کبھی ایسا واقعہ پیش آ جائے کہ وہ اپنی عادت کے مطابق اچھی طرح وضو کر کے جماعت کی نیت سے مسجد جائے اور وہاں جا کر اسے معلوم ہو کہ جماعت ہو چکی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی نیت اور اس کے اہتمام کی وجی سے اس کو جماعت والی نماز کا پورا ثواب عطا فرمائیں گے ، کیوں کہ ظاہر ہے کہ اس کی کسی نادانستہ کوتاہی یا غفلت و لاپرواہی کی وجہ سے اس کی جماعت فوت نہیں ہوئی ہے ، بلکہ وقت کے اندازہ کی غلطی یا کسی ایسی ہی وجہ سے وہ بےچارہ جماعت سے رہ گیا ہے ، جس میں اس کا قصور نہیں ہے ۔
کن حالات میں مسجد اور جماعت کی پابندی ضروری نہیں
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک رات میں جو بہت سردی اور تیز ہوا والی رات تھی ، اذان دی ، پھر خود ہی اذان کے بعد پکار کے فرمایا : لوگو ! اپنے گھروں ہی پر نماز پڑھ لو ۔ پھر آپ نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دستور تھا کہ جب سردی اور بارش والی رات ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مؤذن کو حکم فرما دیتے کہ وہ یہ بھی اعلان کر دے کہ آپ لوگ اپنے گھروں ہی میں نماز پڑھ لیں ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں سردی اور ہوا کا جو ذکر ہے ظاہر ہے کہ اس سے غیر معمولی اور خطرناک قسم کی سردی اور ہوا ہی مراد ہے اور ایسی صورت میں یہی حکم ہے ۔ اسی طرح بارش اگر اتنی ہو کہ مسجد تک جانے میں بھیگ جانے کا اندیشہ ہو ، یا راستہ میں پانی یا کیچڑ یا پھسلن ہو تو بھی یہی حکم ہے یعنی اجازت ہے کہ نماز گھر ہی پر پڑھ لی جائے ، ایسی سب صورتوں میں جماعت میں حاضری ضروری نہیں رہتی ۔
کن حالات میں مسجد اور جماعت کی پابندی ضروری نہیں
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے یہ بھی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کا رات کا کھانا (کھانے کے لیے) سامنے رکھ دیا جائے اور (دوسری طرف مسجد میں) جماعت کھڑی ہو جائے تو پہلے وہ کھانا کھا لے اور جب تک اس سے فراغت نہ ہو جائے جلد بازی سے کام نہ لے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح شارحین لنے لکھا ہے اور واقعہ بھی یہی ہے کہ یہ حکم اس صورت میں ہے جب کہ آدمی کو بھوک اور کھانے کا تقاضا ہو اور کھانا سامنے رکھ دیا گیا ہو ، ایسی حالت میں اگر آدمی کو حکم دیا جائے گا کہ وہ کھانا چھوڑ کے نماز میں شریک ہو تو اس کا کافی امکان ہے کہ اس کا دل نماز پڑھتے ہوئے بھی کھانے میں لگا رہے ، اس لئے ایسی صورت میں شریعت کا حکم اور حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ وہ پہلے کھانے سے فارغ ہو اس کے بعد نماز پڑھے ۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم کی اسی روایت میں حدیث کے راوی حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق نقل کیا گیا ہے کہ خود ان کو بھی ایسا اتفاق ہو جاتا تھا کہ ان کے سامنے کھانا رکھ دیا گیا اور مسجد میں جماعت کھڑی ہو گئی ، تو ایسی صورت میں آپ کھانا چھوڑ کے نہیں بھاگتے تھے بلکہ کھانا کھاتے رہتے تھے ، حالانکہ (مکان مسجد کے بالکل قریب ہونے کی وجہ سے) امام کی قرأت کی آواز کانوں میں آتی رہتی تھی لیکن آپ کھانے سے فارغ ہو کر ہی نماز پڑھتے تھے ۔ اس کے ساتھ یہ بھی ملحوظ رہنا چاہئے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ شریعت و سنت کے بے حد پابند بلکہ عاشق تھے ، ان کا یہ طرز عمل خود ان کی روایت کردہ مندرجہ بالا حدیث ہی کی وجہ سے تھا ۔
کن حالات میں مسجد اور جماعت کی پابندی ضروری نہیں
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے : نماز کا حکم نہیں ہے کھانے کے سامنے ہوتے ہوئے اور نہ ایسی حالت میں جب کہ آدمی کو پائخانے یا پیشاب کا تقاضا ہو ۔ (صحیح مسلم)
کن حالات میں مسجد اور جماعت کی پابندی ضروری نہیں
حضرت عبداللہ بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے : جب جماعت کھڑی ہو جائے اور تم میں سے کسی کو استنجے کا تقاضا ہو تو اس کو چاہئے کہ پہلے استنجے سے فارغ ہو ۔ (جامع ترمذی ۔ نیز یہی حدیث موطا امام مالک ، سنن ابی داؤد و سنن نسائی میں الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ مروی ہے) تشریح ان حدیثوں میں طوفانی ہوا یا بارش یا سخت سردی کے اوقات میں یا کھانے پینے اور پیشاب پائخانے کے تقاضے کی حالت میں جماع سے غیر حاضری اور اکیلے ہی نماز پڑھنے کی جو اجازت دی گئی ہے یہ اس کی واضح مثال ہے کہ شریعت میں انسانوں کی حقیقی مشکلوں اور مجبوریوں کا کتنا لحاظ کیا گیا ہے : مَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ (الحج ۷۸ : ۲۲) اللہ نے دین میں تمہارے لئے تنگی اور مشکل نہیں رکھی ہے ۔
جماعت میں صف بندی: صفوں کو سیدھا اور برابر کرنے کی اہمیت اور تاکید
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لوگو ! نماز میں صفوں کو برابر کیا کرو ، کیوں کہ صفوں کو وسیدھا اور برابر کرنا نماز اچھی طرح ادا کرنے کا جزو ہے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح نماز کے لئے جو اجتماعی نظام “ جماعت ” کی شکل میں تجویز کیا گیا ہے ، اس کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ طریقہ تعلیم فرمایا ہے کہ : لوگ صفیں بنا کر برابر برابر کھڑے ہوں ۔ ظاہر ہے کہ نماز جیسی اجتماعی عبادت کے لئے اس سے زیادہ حسین و سنجیدہ اور اس سے بہتر کوئی صورت نہیں ہو سکتی ۔ پھر اس کی تکمیل کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی کہ صفیں بالکل سیدھی ہوں ، کوئی شخص ایک انچ نہ آگے ہو اور نہ پیچھے ، پہلے اگلی صف پوری کر لی جائے اس کے بعد پیچھے کی صف شروع کی جائے ۔ بڑے اور ذمہ دار اور اصحاب علم و فہم اگلی صفوں میں اور امام سے قریب جگہ حاصل کرنے کی کوشش کریں ۔ چھوٹے بچے پیچھے کھڑے ہوں اور اگر خواتین جماعت میں شریک ہوں تو ان کی صف سب سے پیچھے ہو ۔ امام سب سے آگے اور صفوں کے درمیان میں کھڑا ہو ۔ ظاہر ہے کہ ان سب باتوں کا مقصد جماعت کی تکمیل اور اس کو زیادہ مفید اور موثر بنانا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی ان باتوں کا عملاً اہتمام فرماتے اور وقتا فوقتا امت کو بھی ان کی ہدایت و تلقین فرماتے اور ان کا ثواب بیان فرما کر ترغیب دیتے ، نیز ان امور میں بے پروائی کرنے والوں کو سخت تنبیہ فرماتے اور اللہ کے عذاب سے ڈراتے تھے ۔ ان تمہیدی سطروں کے بعد اس سلسلہ کی مندرجہ ذیل حدیثیں پڑھئے ! ۔ مطلب یہ ہے کہ “ اقامت صلوٰۃ ” جس کا قرآن مجید میں جا بجا حکم دیا گیا ہے اور جو مسلمانوں کا سب سے اہم فریضہ ہے ، اس کی کامل ادائیگی کے لئے یہ بھی شرط ہے کہ جماعت کی صفیں بالکل سیدھی اور برابر ہوں ۔ سنن ابی داؤد وغیرہ میں حضرت انسؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھانے کے لئے کھڑے ہوتے تو پہلے داہنی جانب رخ کر کے لوگوں سے فرماتے کہ : برابر برابر ہو جاؤ اور صفوں کو سیدھا کرو ۔ پھر اسی طرح بائیں جانب رخ کر کے ارشاد فرمایا کہ برابر برابر ہو جاؤ اور صفوں کو سیدھا کرو ۔ اس حدیث سے اور اس کے علاوہ بھی بعض دوسری حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خصوصا نماز کے لئے کھڑے ہونے کے وقت اکثر بیشتر یہ تاکید فرماتے تھے ۔
جماعت میں صف بندی: صفوں کو سیدھا اور برابر کرنے کی اہمیت اور تاکید
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری صفوں کو اس قدر سیدھا اور برابر کراتے تھے گویا کہ ان کے ذریعہ آپ تیروں کو سیدھا کریں گے یہاں تک کہ آپ کو خیال ہو گیا کہ اب ہم لوگ سمجھ گئے (کہ ہم کو کس طرح برابر کھڑا ہونا چاہئے) اس کے بعد ایک دن ایسا ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور نماز پڑھانے کے لئے اپنی جگہ پر کھڑے بھی ہو گئے ، یہاں تک کہ قریب تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر کہہ کے نماز شروع فرما دیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ ایک شخص پر پڑی جس کا سینہ صف سے کچھ آگے نکلا ہوا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : اللہ کے بندو ! اپنی صفوں کو سیدھا اور بالکل برابر کرو ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے رخ ایک دوسرے کے مخالف کر دے گا ۔ (صحیح مسلم) تشریح حدیث کے الفاظ : حَتَّى كَأَنَّمَا يُسَوِّي بِهَا الْقِدَاحَ “ گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفوں کے ذریعہ تیر سیدھے کریں گے ” کا مطلب سمجھنے کے لئے پہلے یہ جان لینا چاہیے کہ اہل عرب شکار یا جنگ میں استعمال کے لئے جو تیر تیار کرتے تھے ان کو بالکل سیدھا اور برابر کرنے کی بڑی کوشش کی جاتی تھی ، اس لئے کسی چیز کی برابری اور سیدھے پن کی تعریف میں مبالغے کے طور پر وہاں کہا جاتا تھا کہ وہ چیز ایسی برابر اور اس قدر سیدھی ہے کہ اس کے ذریعہ تیروں کو سیدھا کیا جا سکتا ہے ۔ یعنی وہ تیروں کو سیدھا اور برابر کرنے میں معیار اور پیمانہ کا کام دے سکتی ہے ۔ الغرض اس حدیث کے راوی حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کا مطلب بس یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری صفوں کو اس قدر سیدھی اور برابر کرنے کی کوشش فرماتے تھے کہ ہم میں سے کوئی سوت برابر بھی آگے یا پیچھے نہ ہو ، یہاں تک کہ طویل مدت کی اس مسلسل کوشش اور تربیت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطمینان ہو گیا کہ ہم کو یہ بات سمجھ آ گئی ، لیکن اس کے بعد جب ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملہ میں ایک آدمی کی کوتاہی دیکھی تو بڑے جلال کے انداز میں فرمایا کہ : اللہ کے بندو ! میں تم کو آگاہی دیتا ہوں کہ اگر صفوں کو برابر اور سیدھا کرنے میں تم بےپروائی اور کوتاہی کرو گے تو اللہ تعالیٰ اس کی سزا میں تمہارے رخ ایک دوسرے سے مختلف کر دے گا ، یعنی تمہاری وحدت اور اجتماعیت پارہ پارہ کر دی جائے گی اور تم میں پھوٹ پڑ جائے گی ، جو امتوں اور قوموں کے لیے اس دنیا میں سو عذابوں کا ایک عذاب ہے ۔ صفوں کو برابر اور سیدھا کرنے میں کوتاہی اور غفلت پر باہمی اختلاف اور پھوٹ کی وعید متعدد حدیثوں میں وارد ہوئی ہے اور بلا شبہ اس قصور اور اس کی اس سزا میں خاص مناسبت ہے ۔ افسوس بہت سی دوسری چیزوں کی طرح اس معاملہ میں بھی کوتاہی خاص کر بعض علاقوں میں بہت عام ہو چکی ہے ۔
جماعت میں صف بندی: صفوں کو سیدھا اور برابر کرنے کی اہمیت اور تاکید
حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں (یعنی نماز کے لئے جماعت کھڑے ہونے کے وقت) ہمیں برابر کرنے کے لئے ہمارے مونڈھوں پر ہاتھ پھیرتے تھے اور فرماتے تھے برابر برابر ہو جاؤ اور مختلف (یعنی آگے پیچھے) نہ ہو کہ خدا نکردہ اس کی سزا میں تمہارے قلوب باہم مختلف ہو جائیں (اور فرماتے تھے کہ) تم میں سے جو دانش مند اور سمجھ دار ہیں وہ میرے قریب ہوں ، ان کے بعد وہ لوگ ہوں جن کا نمبر اس صفت میں ان کے قریب ہو ، اور ان کے بعد وہ لوگ جن کا درجہ ان سے قریب ہو ۔ (صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں صفوں کی برابری کے علاوہ صف بندی ہی کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دوسری ہدایت یہ بھی بیان ہوئی ہے کہ میرے قریب وہ لوگ کھڑے ہوں جن کو اللہ تعالیٰ نے فہم و دانش میں امتیاز عطا فرمایا ہے ، ان کے بعد اس لحاظ سے دوم درجہ والے اور ان کے بعد سوم درجہ والے ۔ ظاہر ہے کہ یہ ترتیب بالکل فطری بھی ہے اور تعلیم و تربیت کی مصلحت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اچھی اور ممتاز صلاحیتوں والے درجہ بدرجہ آگے اور قریب رہیں ۔
جماعت میں صف بندی: صفوں کو سیدھا اور برابر کرنے کی اہمیت اور تاکید
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دستور تھا کہ جب ہم کو نماز پڑھانے کے لئے کھڑے ہوتے تو پہلے آپ ہماری صفوں کو برابر فرماتے ، اور جب ہماری صفیں درست اور برابر ہو جاتیں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر کہتے یعنی نماز شروع فرماتے ۔ (سنن ابی داؤد)
پہلے اگلی صفیں مکمل کی جائیں
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لوگو پہلے اگلی صف پوری کیا کرو ، پھر اس کے قریب والی تا کہ جو کمی کسر رہے وہ آخری ہی صف میں رہے ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ جماعت سے نماز پڑھی جائے تو لوگوں کو چاہئے کہ آگے والی صف پوری کر لینے کے بعد پیچھے والی صف میں کھڑے ہوں اور جب تک کسی اگلی صف میں جگہ باقی رہے پیچھے نہ کھڑے ہوں ۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اگلی صفیں سب مکمل ہوں گی اور جو کمی کسر رہے گی وہ سب سے آخری ہی صف میں رہے گی !
صف اول کی فضیلت
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : اللہ تعالیٰ رحمت فرماتا ہے اور اس کے فرشتے دعا رحمت کرتے ہیں پہلی صف والوں پر بعض صحابہؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) اور دوسری صف کے لئے بھی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ رحمت فرماتا ہے اور اس کے فرشتے دعا رحمت کرتے ہیں پہلی صف والوں پر پھر عرض کیا گیا اور دوسری صف کے لئے بھی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پہلی ہی بات دہرا دی ۔ یعنی فرمایا کہ : اللہ تعالیٰ رحمت فرماتا ہے اور اس کے فرشتے دعا رحمت کرتے ہیں پہلی صف کے لئے ۔ پھر آپ سے عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) اور دوسری صف کے لئے بھی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری مرتبہ بھی وہی پہلی بات دہرا دی کہ اللہ تعالیٰ رحمت فرماتا ہے اور فرشتے دعا رحمت کرتے ہیں پہلی صف والوں کے لئے ۔ ان لوگوں نے پھر عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) اور دوسری صف کے لئے بھی ؟ تو اس چوتھی دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور دوسری صف والوں کے لئے بھی ۔ (مسند احمد) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت اور فرشتوں کی دعاء رحمت کے خصوصی مستحق اگلی صف والے ہی ہوتے ہیں ، دوسری صف والے بھی اس سعادت میں اگرچہ شریک ہیں لیکن بہت پیچھے ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ پہلی اور دوسری صف میں بظاہر اور ہماری نگاہوں میں فاصلہ تو بہت ہی تھوڑا سا ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان میں بہت فاصلہ ہے ، اس لئے اللہ کی رحمت کے طالب کو چاہئے کہ وہ حتی الوسع پہلی ہی صف میں جگہ حاصل کرنے کی کوشش کرے ، جس کا ذریعہ یہی ہو سکتا ہے کہ مسجد میں اول وقت پہنچ جائے ۔ صحیحین کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : “ اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ پہلی صف میں کھڑے ہونے کا کیا اجر و ثواب ہے ، اور اس پر کیا صلہ ملنے والا ہے تو لوگوں میں اس کے لئے ایسی مسابقت اور کشمکش ہو کہ قرعہ اندازی سے فیصلہ کرنا پڑے ” ۔ اللہ تعالیٰ ان حقیقتوں کا یقین نصیب فرمائے ۔ آمین
صفوں کی ترتیب
حضرت ابو مالک اشعری سے روایت ہے کہ انہوں نے لوگوں سے کہا ، میں تم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا بیان کروں ؟ پھر بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز قائم فرمائی ، پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو صف بستہ کیا ، ان کے پیچھے بچوں کی صف بنائی ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نماز پڑھائی ، اس کے بعد فرمایا کہ یہی طریقہ ہے میری امت کی نماز کا ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح اس سے معلوم ہوا کہ صحیح اور مسنون طریقہ یہ ہے کہ مردوں کی صفیں آگے ہوں ، اور چھوٹے بچوں کی صفیں ان کے پیچھے الگ ہوں ۔ اور آگے درج ہونے والی بعض حدیثوں سے معلوم ہو گا کہ اگر عورتیں بھی شریک جماعت ہوں تو وہ چھوٹے بچوں سے بھی پیچھے کھڑی ہوں ۔
امام کو وسط میں کھڑا ہونا چاہئے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : لوگو ! امام کو اپنے وسط میں لو (یعنی اس طرح صف بناؤ کہ امام تمہارے درمیان میں ہو) ۔ اور صفوں میں جو خلاء ہو اس کو پر کرو ۔ (سنن ابی داؤد)
جب ایک یا دو مقتدی ہوں تو کس طرح کھڑے ہوں
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دفعہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لئے کھڑے ہوئے ۔ (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز شروع فرمائی) اتنے میں میں آ گیا اور (نیت کر کے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں جانب کھڑا ہو گیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور اپنے پیچھے کی جانب سے مجھے گھما کے اپنی داہنی جانب کھڑا کر لیا ، پھر اتنے میں جبار بن صخرا آ گئے ، وہ نیت کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑے ہو گئے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم دونوں کے ہاتھ پکڑ کے پیچھے کی جانب کر دیا اور پیچھے کھڑا کر لیا ۔ (صحیح مسلم) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب امام کے ساتھ صرف ایک مقتدی ہو تو اس کو امام کی داہنی جانب کھڑا ہونا چاہئے ، اور اگر وہ غلطی سے بائیں جانب کھڑا ہو جائے تو امام کو چاہئے کہ اس کو داہنی جانب کر لے ، اور جب کوئی دوسرا مقتدی آ کر شریک ہو جائے تو امام کو آگے اور ان دونوں کو صف بنا کر پیچھے کھڑا ہونا چاہئے ۔
صف کے پیچھے اکیلے کھڑے ہونے کی ممانعت
حضرت وابصۃ بن معبد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ صف کے پیچھے اکیلا کھڑا نماز پڑھ رہا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دوبارہ نماز ادا کرنے کا حکم دیا ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد) تشریح صف کے پیچھے اکیلے کھڑے ہو کر نماز پڑھنے میں چونکہ جماعت اور اجتماعیت کی شان بالکل نہیں پائی جاتی ، اس لئے شریعت میں یہ اس قدر مکروہ اور ناپسندیدہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو نماز دوبارہ ادا کرنے کا حکم دیا ۔ فائدہ .... اگر کوئی ایسے وقت جماعت میں شریک ہو کہ آگے کی صف بالکل بھر چکی ہو اور اس کے ساتھ کھڑا ہونے والا کوئی دوسرا نمازی موجود نہ ہو تو اس کو چاہئے کہ آگے کی صف میں سے کسی جاننے والے کو پیچھے ہتا کے اپنے ساتھ کھڑا کر لے ، بشرطیکہ یہ امید ہو کہ وہ آسانی سے پیچھے ہٹ آئے گا ، اور اگر ایسا کوئی آدمی اگلی صف میں نہ ہو تو پھر مجبوراً پیچھے اکیلے ہی کھڑا ہو جائے ، اور اس صورت میں عند اللہ یہ شخص معذور ہو گا ۔
عورتوں کو مردوں سے حتی کہ بچوں سے بھی الگ پیچھے کھڑا ہونا چاہئے
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نماز پڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اپنے گھر میں اور میرے ساتھ (میرے بھائی) یتیم نے بھی (یعنی ہم دونوں صف بنا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہوئے) اور ہماری والدہ ام سلیم ہم دونوں کے پیچھے کھڑی ہوئیں ۔ (صحیح مسلم) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر جماعت میں سرف ایک عورت بھی شریک ہو تو اس کو بھی مردوں اور بچوں سے الگ سب سے پیچھے کھڑا ہونا چاہئے حتی کہ اگر بالفرض آگے صف میں اس کے سگے بیٹے ہی ہوں تب بھی وہ ان کے ساتھ کھڑی نہ ہو ، بلکہ الگ پیچھے کھڑی ہو (صحیح مسلم ہی کی ایک دوسری روایت میں یہ بھی تصریح ہے کہ ام سلیم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے پیچھے کھڑا کیا تھا) ۔ اوپر کی حدیث سے معلوم ہو چکا ہے کہ صف کے پیچھے اکیلے کھڑے ہو کر نماز پڑھنا کس قدر ناپسندیدہ ہے ، لیکن عورتوں کا مردوں بلکہ کمسن لڑکوں کے ساتھ بھی کھڑا ہونا چونکہ شریعت کی نگاہ می اس سے بھی زیادہ ناپسندیدہ اور خطرناک ہے ، اس لئے عورت اگر اکیلی ہو تو اس کو نہ صرف اجازت بلکہ حکم ہے کہ وہ اکیلی ہی صف میں پیچھے کھڑی ہو کر نماز پڑھے ۔
امامت کی ترتیب
حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جماعت کی امامت وہ شخص کرے جو ان میں سب سے زیادہ کتاب اللہ کا پڑھنے والا ہو ، اور اگر اس میں سب یکساں ہوں تو پھر وہ آدمی امامت کرے جو سنت و شریعت کا زیادہ علم رکھتا ہو ، اور اگر اس میں بھی سب برابر ہوں تو وہ جس نے پہلے ہجرت کی ہو ، اور اگر ہجرت میں بھی سب برابر ہوں (یعنی سب کا زمانہ ہجرت ایک ہی ہو) تو پھر وہ شخص امامت کرے جو سن کے لحاظ سے مقدم ہو ، اور کوئی آدمی دوسرے آدمی کے حلقہ سیادت و حکومت میں اس کا امام نہ بنے اور اس کے گھر میں اس کے بیٹھنے کی خاص جگہ پر اس کی اجازت کے بغیر نہ بیٹھے ۔ (صحیح مسلم) تشریح جیسا کہ معلوم ہو چکا ہے ، دین کے تمام اعمال میں سب سے اہم اور مقدم نماز ہے اور دین کے نظام میں اس کا درجہ اور مقام گویا وہی ہے جو جسم انسانی میں قلب کا ہے ، اس لئے اس کی امامت بہت بڑا دینی منصب اور بڑی بھاری ذمہ داری ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک طرح کی نیابت ہے ۔ اس واسطے ضروری ہے کہ امام ایسے شخص کو بنایا جائے جو موجودہ نمازیوں میں دوسروں کی بہ نسبت اس عظیم منصب کے لئے زیادہ اہل اور موزوں ہو ، اور وہ وہی ہو سکتا ہے ، جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبۃً زیادہ قرب و مناسبت حاصل ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دینی وراثت سے جس نے زیادہ حصۃ لیا ہو ، اور چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت میں اول اور اعلیٰ درجہ قرآن مجید کا ہے ، اس لئے جس شخص نے سچا ایمان نصیب ہونے کے بعد قرآن مجید سے خاص تعلق پیدا کیا ، اس کو یاد کیا اور اپنے دل میں اتارا ، اس کی دعوت ، اس کی تذکیر اور اس کے احکام کو سمجھا ، اس کو اپنے اندر جذب اور اپنے اوپر طاری کیا ، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت کے خاص حصہ داروں میں ہو گا ، اور ان لوگوں کے مقابلے میں جو اس سعادت میں اس سے پیچھے ہوں گے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس نیابت یعنی امامت کے لئے زیادہ اہل اور زیادہ موزوں ہو گا ۔ اور اگر بالفرض سارے نمازی اس لحاظ سے برابر ہوں تو چونکہ قرآن مجید کے بعد سنت کا درجہ ہے اس لئے اس صورت می ترجیح اس کو دی جائے گی جو سنت و شریعت کے علم میں دوسروں کے مقابلے میں امتیاز رکھتا ہو گا اور اگر بالفرض اس لحاظ سے بھی سب برابر کے سے ہون تو پھر جو کوئی ان میں تقویٰ اور پرہیزگاری اور محاسن اخلاق جیسی دینی صفات کے لحاظ سے ممتاز ہو گا امامت کے لئے وہ لائق ہو گا ، اور اگر بالفرض اس طرح کی صفات میں بھی یکسانی سی ہو تو پھر عمر کی بڑائی کے لحاظ سے ترجیح دی جائے گی ، کیوں کہ عمر کی بڑائی اور بزرگی بھی ایک مسلم فضیلت ہے ۔ بہرحال امامت کے لئے یہ اصولی ترتیب عقل سلیم کے بالکل مطابق مقتضائے حکمت ہے ، ا ور یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و ہدایت ہے ۔ تشریح ..... حدیث کے لفظ اقرأھم لکتاب اللہ کا لفظی ترجمہ وہی ہے جو یہاں کیا گیا ہے ۔ یعنی “ کتاب اللہ کا زیادہ پڑھنے والا ” لیکن اس کا مطلب نہ تو صرف حفظ قرآن ہے اور نہ مجرد کثرت تلاوت ، بلکہ اس سے مراد ہے حفظ قرآن کے ساتھ اس کا خاص علم اور اس کے ساتھ خاص شغف ۔ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جو لوگ قراء کہلاتے تھے ان کا یہی امتیاز تھا ۔ اس بناء پر حدیث کا مطلب یہ ہو گا کہ نماز کی امامت کے لئے زیادہ اہل اور موزوں وہ شخص ہے جو کتاب اللہ کے علم اور اس کے ساتھ شغف و تعلق میں دوسروں پر فائق ہو ، اور ظاہر ہے کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں یہی سب سے بڑا دینی امتیاز اور فضیلت کا معیار تھا ، اور جس کا اس سعادت میں جس قدر زیادہ حصہ تھا وہ اسی قدر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاص وراثت و امانت کا حامل اور امین تھا ۔ اس کے بعد سنت و شریعت کا علم فضیلت کا دوسرا معیار تھا (اور یہ دونوں علم یعنی علم قرآن اور علم سنت جس کے پاس بھی تھے ، عمل کے ساتھ تھے ۔ علم بلا عمل کا وہاں وجود ہی نہیں تھا) فضیلت کا تیسرا معیار عہد نبوت کے اس خاص ماحول میں ہجرت میں سابقیت تھی ، اس لئے اس حدیث میں تیسرے نمبر پر اسی کا ذکر فرمایا گیا ہے لیکن بعد میں یہ چیز باقی نہیں رہی ، اس لئے فقہائے کرام نے اس کی جگہ صلاح و تقوے میں فضیلت و فوقیت کو ترجیح کا تیسرا معیار قرار دیا ہے جو بالکل بجا ہے ۔ ترجیح کا چوتھا معیار اس حدیث میں عمر میں بزرگی کو قرار دیا گیا ہے اور فرمایا گیا ہے کہ اگر مذکورہ بالا تین معیاروں کے لحاظ سے کوئی فائق اور قابل ترجیح نہ ہو تو پھر جو کوئی عمر میں بڑا اور بزرگ ہو وہ امامت کرے ۔ حدیث کے آخر میں دو ہدایتیں اور بھی دی گئی ہیں ایک یہ کہ جب کوئی آدمی کسی دوسرے شخص کی امامت و سیادت کے حلقہ میں جائے تو وہاں امامت نہ کرے بلکہ اس کے پیچھے مقتدی بن کر نماز پڑھے ۔ (ہاں اگر وہ شخص خود ہی اصرار کرے تو دوسری بات ہے) ۔ اور دوسری یہ کہ جب کوئی آدمی کسی دوسرے کے گھر جائےتو اس کی خاص جگہ پر نہ بیٹھے ، ہاں اگر وہ خود بٹھائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔ ان دونوں ہدایتوں کی حکمت و مصلحت بالکل ظاہر ہے ۔
اپنے میں سے بہتر کو امام بنایا جائے
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم میں جو اچھے اور بہتر ہوں ان کو اپنا امام بناؤ ، کیوں کہ تمہارے رب اور مالک کے حضور میں وہ تمہارے نمائندے ہوتے ہیں ۔ (دار قطنی بیہقی) تشریح یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ امام اللہ تعالیٰ کے حضور میں پوری جماعت کی نمائندگی کرتا ہے ، اس لئے خود جماعت کا فرض ہے کہ وہ اس اہم اور مقدس مقصد کے لئے اپنے میں سے بہترین آدمی کو منتخب کرے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تک اس دنیا میں رونق افروز رہے خود امامت فرماتے رہے اور مرض وفات میں جب معذور ہو گئے تو علم و عمل کے لحاظ سے امت کے افضل ترین فرد حضرت ابو بکر صدیقؓ کو امامت کے لئے نامزد اور مامور فرمایا ۔ حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ کی مندرجہ بالا حدیث میں حق امامت کی جو تفصیلی ترتیب بیان فرمائی گئی ہے اس کا منشاء بھی دراصل یہی ہے کہ جماعت میں جو شخص سب سے بہتر اور افضل ہو اس کو امام بنایا جائے أَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللهِ اور أَعْلَمُهُمْ بِالسُّنَّةِ یہ سب اسی بہتری اور افضلیت فی الدین کی تفصیل ہے ۔ افسوس ہے کہ بعد کے دور میں اس اہم ہدایت سے بہت تغافل برتا گیا اور اس کی وجہ سے امت کا پورا نظام درہم برہم ہو گیا ۔
امام کی ذمہ داری اور مسئولیت
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : جو شخص جماعت کی امامت کرے اس کو چاہئے کہ خدا سے ڈرے اور یقین رکھے کہ وہ مقتدیوں کی نماز کا بھی ضامن یعنی ذمہ دار ہے اور اس سے اس ذمہ داری کے بارے میں بھی سوال ہو گا ، اگر اس نے اچھی نماز پڑھائی تو پیچھے نماز پڑھنے والے سب مقتدیوں کے مجموعی ثواب کے برابر اس کو ثواب ملے گا بغیر اس کے کہ مقتدیوں کےک ثواب میں کوئی کمی کی جائے ، اور نماز میں جو نقص اور قصور رہا ہو گا اس کا بوجھ تنہا امام پر ہو گا ۔ (معجم اوسط للطبرانی)
مقتدیوں کی رعایت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی لوگوں کا امام بن کر نماز پڑھائے تو چاہئے کہ ہلکی نماز پڑھائے (یعنی زیادہ طول نہ دے) کیوں کہ مقتدیوں میں بیمار بھی ہوتے ہیں اور کمزور بھی اور بوڑھے بھی (جن کے لئے طویل نماز باعث زحمت ہو سکتی ہے) اور جب تم میں سے کسی کو بس اپنی نماز اکیلے پڑھنی ہو تو جتنی چاہے لمبی پڑھے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح بعض صحابہ کرام جو اپنے قبیلہ یا حلقہ کی مسجدوں میں نما پڑھاتے تھے اپنے عبادتی ذوق وشوق میں بہت لمبی نماز پڑھتے تھے جس کی وجہ سے بعض بیمار یا کمزور یا بوڑھے یا تھکے ہارے مقتدیوں کو کبھی کبھی بڑی تکلیف پہنچ جاتی تھی ، اس غلطی کی اصلاح کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف موقعوں پر اس طرح کی ہدایت فرمائی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منشاء اس سے یہ تھا کہ امام کو چاہئے کہ وہ اس بات کا لحاظ رکھے کہ مقتدیوں میں کبھی کوئی بیمار یا کمزور یا بوڑھا بھی ہوتا ہے ، اس لئے نماز زیادہ طویل نہ پڑھے ۔ یہ مطلب نہیں کہ ہمیشہ اور ہر وقت کی نماز میں بس چھوٹی چھوٹی سورتیں ہی پڑھی جائیں اور رکوع سجدہ میں تین دفعہ سے زیادہ تسبیح بھی نہ پڑھی جائے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسی معتدل نماز پڑھاتے تھے وہی امت کے لئے اس بارے میں اصل معیار اور نمونہ ہے اور اس کی روشنی میں ان ہدایات کا مطلب سمجھا چاہئے ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ وہ حدیثیں آگے اپنے موقع پر آئیں گی جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی تفصیلی کیفیت اور قرأت وغیرہ کی مقدار معلوم ہو گی ۔
مقتدیوں کی رعایت
قیس بن ابی حازم سے روایت ہے کہ مجھ سے ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ بے بیان کیا کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! بخدا میں فلاں شخص کی وجہ سے صبح کی نماز میں شریک نہیں ہوتا (مجبوراً اپنی نماز الگ پڑھتا ہوں) کیوں کہ وہ بہت طویل نماز پڑھاتے ہیں (جو میرے بس کی نہیں) حدیث کے راوی ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اس بارے میں خطبہ دیا) اور میں نے کبھی آپ کو وعظ اور خطبہ کی حالت میں اس دن سے زیادہ غضبناک نہیں دیکھا ۔ پھر اس خطبے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : تم میں سے بعض وہ لوگ ہیں جو اپنے غلط طرز عمل سے اللہ کے بندوں کو دور بھگانے والے ہیں جو کوئی تم میں سے لوگوں کا امام بنے اور ان کو نماز پڑھائے تو اس کے لئے لازم ہے کہ مختصر نماز پڑجئے (زیادہ طویل نہ پڑھائے) کیوں کہ ان میں ضعیف بھی ہوتے ہیں اور بوڑھے بھی اور حاجت والے بھی ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح یہ صحابی جن کی طویل نماز پڑھانے کی شکایت اس حدیث میں مذکور ہوئی ہے حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ ہیں ۔ اس قسم کا ایک دوسرا واقعہ صحیح بخاری و صحیح مسلم ہی میں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا بھی مروی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ عام طور سے نمازِ عشاء دیر کر کے پڑھتے تھے ۔ ایک دن حسبِ معمول نماز دیر سے شروع کی اور اس میں سورہ بقرہ پڑھنی شروع کر دی ۔ مقتدیوں میں سے ایک صاحب نے (جو بےچارے دن بھر کے تھکے ہارے تھے) نیت توڑ کے اپنی الگ نماز پڑھی اور چکے گئے ۔ آخر معاملہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذؓ کو ڈانٹا اور فرمایا افتان أنت يا معاذ (اے معاذ ! کیا تم لوگوں کے لئے باعث فتنہ بننا چاہتے ہو اور ان کو فتنہ میں مبتلا کرنا چاہتے ہو) آگے اسی حدیچ میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ : وَ الشَّمْسِ وَ ضُحٰىهَا اور وَ الَّيْلِ اِذَا يَغْشٰى اور وَ الضُّحٰى وَ الَّيْلِ اِذَا سَجٰى اور سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى یہ سورتیں پڑھا کرو۔
مقتدیوں کی رعایت
حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : (کبھی ایسا ہوتا ہے کہ) میں نماز شروع کرتا ہوں اور میرا ارادہ کچھ طویل پڑھنے کا ہوتا ہے ، پھر میں کسی بچے کے رونے کی آواز سُن لیتا ہوں تو نماز میں اختصار کر دیتا ہوں ۔ کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ اس کے رونے کی آوز سے اس کی ماں کا دل کتنا زیادہ پریشان ہو گا ۔ (صحیح بخاری) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ نماز پڑھانے کی حالت میں جب کسی بچے کے رونے کی آواز میرے کان میں آ جاتی ہے تو میں اس خیال سے کہ شاید اس بچے کی ماں جماعت میں شریک ہو اور اس کے رونے سے اس کا دل پریشان ہو رہا ہو ، میں نماز مختصر پڑھ کے جلدی ختم کر دیتا ہوں ۔
مقتدیوں کی رعایت
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں : میں نے کبھی کسی امام کے پیچھے ایسی نماز نہیں پڑھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے ہلکی اور ساتھ ہی مکمل ہو (یعنی آپ کی نماز ہلکی بھی ہوتی تھی اور بالکل مکمل بھی) اور ایسا ہوتا تھا کہ نماز پڑھانے کی حالت میں کسی بچے کے رونے کی آواز آپ صلی اللہ علیہ وسلم سن لیتے تو نماز کو مختصر اور ہلکا کر دیتے اس خطرے کی وجہ سے کہ اس کی ماں بےچین ہو (اور اس بےچاری کی نماز خراب ہو) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح امام کے لئے صحیح معیار اور رہنما اصول یہی ہے کہ اس کی نماز ہلکی سُبک بھی ہو اور ساتھ ہی مکمل اور تام بھی ۔ یعنی ہر رکن اور ہر چیز ٹھیک ٹھیک اور سنت کے مطابق ادا ہو جس کی تفصیلات ان شاء اللہ آئندہ اپنے موقع پر آئیں گی ۔
مقتدیوں کو ہدایت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : لوگو ! امام پر سبقت نہ کرو (بلکہ اس کی اتباع اور پیروی کرو) جب وہ الله اكبر کہے تو تم الله اكبر کہو اور جب وہ وَلَا الضَّالِّينَ کہے تو تم آمِينَ کہو ، اور جب وہ رکوع کرے تو تم رکوع کرو ، جب وہ سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہے تو تم اللهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ کہو ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ نماز کے تمام ارکان اور اجزاء میں مقتدیوں کو امام کے پیچھے رہنا چاہئے کسی چیز میں بھی اس پر سبقت نہیں کرنی چاہئے ۔ مسند بزار میں حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت سے ایک حدیث مروی ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ جو شخص امام سے پہلے رکوع یا سجدے سے سر اٹھاتا ہے اس کی پیشانی شیطان کے ہاتھ میں ہے اور وہ اُس سے ایسا کراتا ہے .... اور حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت سے صحیح بخاری و صحیح مسلم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص امام سے پہلے رکوع یا سجدے سے سر اُٹھاتا ہے اُس کو ڈرنا چاہئے کہ مبادا اس کا سر گدھے کا سا نہ کر دیا جائے ۔ اعاذنا الله من ذالك.
مقتدیوں کو ہدایت
حضرت علی اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی نماز کے لئے آئے اور امام کسی حال میں ہو (یعنی قیام یا رکوع یا سجدہ وغیرہ میں ہو) تو آنے والے کو چاہئے کہ جو امام کر رہا ہو وہی کرے ۔ (جامع ترمذی)
مقتدیوں کو ہدایت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم نماز کو آؤ اور ہم سجدے میں ہوں تو تم سجدے میں شریک ہو جاؤ اور اس کو کچھ شمار نہ کرو ، اور جس نے امام کے ساتھ رکوع پا لیا اس نے نماز (یعنی نماز کی وہ رکعت) پا لی ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ مقتدی اگر امام کے ساتھ رکوع میں شریک ہو جائے تو رکعت کی شرکت کے قائم مقام ہے ۔ اور اگر صرف سجدے میں شرکت ہو سکے تو اگرچہ اللہ تعالیٰ اس سجدے کا بھی پورا ثواب یقیناً عطا فرمائیں گے ، لیکن یہ سجدہ رکعت کے قائم مقام نہ ہو گا بلکہ وہ شمار بھی نہ ہو گا ۔
نماز کس طرح پڑھی جائے ؟
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں ایک جانب تشریف فرما تھے کہ ایک شخص مسجد میں آیا اس نے نماز پڑھی ، اس کے بعد وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام عرض کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا : کہ پھر جا کر نماز پڑھو تم نے ٹھیک نماز نہیں پڑھی ۔ وہ واپس گیا اور اس نے پھر سے نماز پڑھی اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام عرض کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب دیتے ہوئے پھر فرمایا کہ : تم جا کہ پھر نماز پڑھو تم نے ٹھیک نماز نہیں پڑھی ۔ اس آدمی نے تیسری دفعہ میں یا اس کے بعد والی دفعہ میں عرض کیا کہ : حضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) ! مجھے بتا دیجئےاور سکھا دیجئے کہ میں کس طرح نماز پڑھوں ؟ (جیسی مجھے پڑھنی آتی ہے وہ تو میں کئی دفعہ پڑھ چکا) ..... آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : جب تم نماز پڑھنے کا ارادہ کرو تو پہلے خوب اچھی طرح وضو کرو ، پھر قبلہ کی طرف اپنا رُخ کرو ، پھر تکبیر تحریمہ کہہ کے نماز شروع کرو ، اس کے بعد (جب قرأت کا موقع آ جائے تو) جو قرآن تمہیں یاد ہو اور تمہیں پڑھنا آسان ہو وہ پڑھو ۔ (اسی حدیث کی بعض روایات میں ہے کہ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : سورہ فاتحہ پڑھو اور اس کے سوا جو چاہو پڑھو) پھر قرأت کے بعد رکوع کرو یہاں تک کہ مطمئن اور ساکن ہو جاؤ رکوع میں ، پھر رکوع سے اٹھو یہاں تک کہ سیدھے کھڑے ہو جاؤ پھر سجدہ کرو یہاں تک کہ مطمئن اور ساکن ہو جاؤ سجدہ میں پھر اٹھو یہاں تک کہ مطمئن ہو کر بیٹھ جاؤ (اور ایک راوی نے اس آخری خط کشیدہ جملے کے بجائے کہا ہے (پھر اٹھو یہاں تک کہ سیدھے کھڑے ہو جاؤ) پھر اپنی پوری نماز میں یہی کرو۔ (یعنی ہر رکعت میں رکوع و سجود اور قومہ و جلسہ اور تمام ارکان اچھی طرح اطمینان و سکون سے اور ٹھہر ٹھہر کے ادا کرو) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح یہ صاحب جن کا واقعہ اس حدیث میں مذکور ہوا ہے مشہور صحابی رفاعہ بن رافع کے بھائی خلاد بن رافع تھے ۔ اور سنن نسائی کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں آ کر دو رکعت نماز پڑھی تھی ۔ بعض شارحین نے لکھا ہے کہ غالبا یہ تحیۃ المسجد کی دو رکعتیں تھیں لیکن انہوں نے ان رکعتوں میں بہت جلد بازی سے کام لیا اور رکوع و سجدہ وغیرہ جس طرح تعدیل و اطمینان کے ساتھ یعنی ٹھہر ٹھہر کے کرنا چاہئے نہیں کیا اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : “ تم نے نماز ٹھیک نہیں پڑھی ” اور دوبارہ پڑھنے کا حکم دیا ۔ آپ نے پہلی دفعہ میں صاف صاف ان کو یہ نہیں بتلا دیا کہ تم سے نماز میں یہ غلطی ہوئی ہے اور تم کو نماز اس طرح پڑھنا چاہئے ، بلکہ تیسری یا چوتھی دفعہ میں ان کے دریافت کرنے پر بتلایا جاننے والے جانتے ہیں کہ تعلیم و تربیت کے نقطہ نظر سے یہی بہترین طریقہ ہو سکتا تھا آدمی کو جو سبق اس طرح دیا جائے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن صاحب کو اس موقع پر دیا ، وہ کبھی زندگی بھی نہیں بھولتا اور دوسرے لوگوں میں بھی اس کا چرچا خوب ہوتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر نماز کے متعلق تمام ضروری باتیں نہیں بتلائیں ۔ مثلاً یہ نہیں بتلایا کہ رکوع میں قومہ میں ، سجدہ میں کیا پڑھا جائے ، یہاں تک کہ قعدہ اخیرہ اور تشہد اور سلام کا بھی ذکر نہیں فرمایا ۔ ایسا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لئے کیا کہ ان سب باتوں سے وہ صاحب واقف تھے ۔ اُن کی خاص غلطی جس کی اصلاح ضروری تھی یہ تھی کہ وہ رکوع ، سجدہ وغیرہ تعدیل کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر ادا نہیں کرتے تھے ، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اسی غلطی کی خصوصیت کے ساتھ نشاندہی فرمائی اور اس کی اصلاح فرما دی ۔ حدیث کے آخری جملہ کے بارے میں راویوں کے بیان میں ذرا سا اختلاف ہے ۔ بعض راویوں کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے سجدے سے اُٹھنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا تھا : “ ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ جَالِسًا ” (پھر تم اٹھو یہاں تک کہ مطمئن ہو کر بیٹھ جاؤ) ۔ اور بعض دوسرے راویوں کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : “ ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَسْتَوِيَ قَائِمًا ” (پھر تم اٹھو یاہں تک کہ سیدھے کھڑے ہو جاؤ) ۔ یہ دونوں روایتیں امام بخارؒ نے بھی اپنی صحیح میں ذکر فرمائی ہیں ..... جن ائمہ علماء کی تحقیق یہ ہے کہ پہلی اور تیسری رکعت میں بھی دوسرے سجدے کے بعد کھڑے ہونے سے پہلے ذرا بیٹھ جانا چاہئے (جس کو جلسہ استراحت کہا جاتا ہے) ان کے نزدیک پہلی روایت راجح ہے ۔ اور دوسرے حضرات دوسری روایت کو قابلِ ترجیح سمجھتے ہیں ۔ اس حدیث کی خاص ہدایت یہی ہے کہ پوری نماز ٹھہر ٹھہر کے اور اطمینان سے پڑھی جائے اور اگر کسی نے بہت جلدی جلدی اس طرح نماز پڑھی کہ اس کے ارکان پوری طرح ادا نہ ہو سکے ، مثلاً رکوع و سجدہ میں بس جانا آنا ہوا ، اور جتنا توقف ضروری ہے وہ بھی نہیں ہوا ، تو ایسی نماز ناقابل اعتبار اور واجب الاعادہ ہو گی ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح نماز پڑھتے تھے ؟
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر تحریمہ سے نماز شروع فرماتے تھے اور قرأت کو الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِين سے کرتے تھے ، اور جب آپ رکوع میں جاتے تو سر مبارک کو نہ تو اوپر کی جانب اٹھاتے اور نہ نیچے کی جانب جھکاتے ، بلکہ درمیانی حالت میں رکھتے تھے (یعنی بالکل کمر کے متوازی) اور جب رکوع سے سر مبارک اٹھاتے تو سجدہ میں اس وقت تک نہ جاتے جب تک کہ سیدھے کھڑے نہ ہو جاتے ، اور جب سجدہ سے سر مبارک اٹھاتے تو جب تک بالکل سیدھے نہ بیٹھ جاتے دوسرا سجدہ نہیں فرماتے اور ہر دو رکعت پر التحیات پڑھتے تھے ، اور اس وقت اپنے بائیں پاؤں کو نیچے بچھا لیتے اور داہنے پاؤں کو کھڑا کر لیتے تھے ، اور عُقْبَةِ الشَّيْطَانِ (یعنی شیطان کی طرح) بیٹھنے سے منع فرماتے تھے ، اور اس بات سے بھی منع فرماتے تھے کہ آدمی (سجدہ میں) اپنی باہیں (یعنی کلائیاں کہنیوں تک) زمین پر رکھے جس طرح کہ درندے اپنی کلائیاں بچھا کے بیٹھتے ہیں ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہہ کے نماز ختم فرماتے تھے۔ (صحیح مسلم) تشریح نماز عبادت بلکہ اعلیٰ درجہ کی عبادت ہے ، اس لئے اس کے لئے قیام ، قعود ، رکوع و سجود کی وہ شکلیں اور ہیئیتیں مقرر کی گئی ہیں جو عبادت اور بندگی کی بہترین اور مکمل ترین تصویر ہیں ، اور ان نامناسب ہیئتوں سے خصوصیت کے ساتھ منع فرمایا گیا ہے جن میں استکبار ، ، یا بےپروائی یا بدمنظری کی شان ہو یا کسی بد فطرت مخلوق کی ہیئت سے مشابہت ہو ۔ اس اصول کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا کہ سجدے میں آدمی کلائیاں زمین پر اس طرح بچھا دے جس طرح کتے اور بھیڑئیے وغیرہ درندے بچھا کر بیٹھتے ہیں اور اسی اصول کے تحت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بیٹھنے سے بھی منع فرمایا جس کو اس حدیث میں “ عُقْبَةِ الشَّيْطَانِ ” اور ایک دوسری حدیث میں “ اقعاء الكلب ” فرمایا گیا ہے ۔ شارحین اور فقہاء نے اس کی تشریح دو طرح سے کی ہے ۔ اس عاجز کے نزدیک راجح یہ ہے کہ اس سے مراد دونوں پاؤں پنجوں کے بل کھڑے کر کے اُن کی ایڑیوں پر بیٹھنا ہے (1) ۔ اور چونکہ اس طریقے میں کچھ استکبار اور جلد بازی کی شان ہے ، اور اس شکل میں صرف گھٹنے اور پنجے ہی زمین سے لگتے ہیں ۔ نیز کتے ، بھیڑئیے وغیرہ درندے بھی اس طرح ایڑیوں پر بیٹھا کرتے ہیں ، اس لئےنماز میں اس طرح بیٹھنے سے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصیت کے ساتھ منع فرمایا ہے ۔ واضح رہے کہ یہ ممانعت صرف اس صورت میں ہے جب کہ بغیر کسی مجبوری کے آدمی ایسا کرے ۔ اگر بالفرض کسی کو کوئی خاص مجبوری ہو تو وہ معذور ہے ، اور اس کے حق میں بلا کراہت جائز ہے ۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق مروی ہے کہ ان کے پاؤں میں کچھ تکلیف رہتی تھی جس کی وجہ سے وہ بطریق مسنون قعدہ نہیں کر سکتے تھے ، اس لئے کبھی کبھی اس طرح بھی بیٹھ جاتے تھے ۔ اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے صحیح مسلم وغیرہ میں جو مروی ہے کہ انہوں نے اس طرح بیٹھنے کو “ سنة نبيكم ” فرمایا ، تو اس کا مطلب بھی بظاہر یہی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کسی معذوری کی وجہ سے اس طرح بھی بیٹھے ہیں ۔ واللہ اعلم ۔ بہرحال اگر کوئی معذور ہو تو وہ اس طرح بھی بیٹھ سکتا ہے ، ورنہ عام حالات میں اور بلا عذر نماز میں اس طرح بیٹھنے کی ممانعت ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح نماز پڑھتے تھے ؟
حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت کے سامنے فرمایا کہ : مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز یعنی اس کی تفصیلات آپ سب لوگوں سے زیادہ یاد ہیں (اس کے بعد فرمایا کہ) میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ نماز شروع کرتے ہوئے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر کہتے تو اپنے دوفنوں ہاتھ اٹھا کر مونڈھوں تک لے جاتے ، اور جب رکوع میں جاتے تو اپنے دونوں ہاتھوں سے گھٹنوں کو مضبوطی سے پکڑ لیتے پھر اپنی کمر کو پوری طرح موڑ دیتے (اور بالکل سیدھی برابر کر دیتے) ۔ پھر جب رکوع سے سر مبارک اٹھاتے تو بالکل سیدھے اس طرح کھڑے ہو جاتے کہ ریڑھ کی ہڈی کا ہر منکا (یعنی ہر جوڑ) ٹھیک اپنی جگہ پر آ جاتا (جہاں سیدھے کھڑے ہونے کی حالت میں وہ رہتا ہے) پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں جاتے تو اپنے دونوں ہاتھ زمین پر اس طرح رکھ دیتے کہ نہ تو ان کو زمین پر بچھا دیتے اور نہ ان کو سکیڑ لیتے (مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کی حالت میں دونوں ہاتھوں کو سکیڑ نہیں لیتے تھے بلکہ آگے بڑھا کر اپنے چہرے کے مقابلے میں دائیں بائیں رکھ لیتے تھے ، لیکن کلائیاں اور کہنیاں زمین سے الگ اور اُٹھی رہتی تھیں) ۔ اور پاؤں کی انگلیوں کا رخ سجدہ میں قبلہ کی جانب ہوتا تھا ۔ پھر جب دو رکعت پڑھ کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم (التحیات کے لئے) بیٹھتے تو داہنے پاؤں کو کھڑا کر لیتے اور بائیں پاؤں پر بیٹھ جاتے۔ پھر جب آخری رکعت پڑھ کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم قعدہ اخیرہ کرتے تو اس طرح بیٹھتے کہ داہنے پاؤں کو کھڑا کر لیتے اور بائیں پاؤں کو (اس کے نیچے سے) آگے کی جانب نکال دیتے اور اپنی سرینوں پر بیٹھ جاتے (جس کو تورّک کہتے ہیں) ۔ (صحیح بخاری) تشریح ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں تکبیر تحریمہ کے وقت مونڈھوں تک ہاتھ اٹھانے کا ذکر ہے ۔ اور صحیح بخاری و صحیح مسلم میں دوسرے ایک صحابی مالک بن الحویرثؓ کا بیان ہے کہ : “ حَتَّى يَدَيْهِ حِذَاءَ مَنْكِبَيْهِ ” جس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر تحریمہ کے وقت اپنے ہاتھ کانوں تک اٹھاتے تھے ، لیکن ان دونوں باتوں میں کوئی منافات نہیں ہے جب ہاتھ اس طرح اٹھائے جائین کہ انگلیاں کانوں تک پہنچ جائیں تو ہاتھوں کا نیچے والا حصہ مونڈھوں کے مقابل ہو گا ، اور اس صورت کو کانوں تک ہاتھ اٹھانے سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے اور مونڈھوں تک اُٹھانے سے بھی ۔ ایک اور صحابی وائل بن حجرؓ نے وضاحت کے ساتھ یہی بات کہی ہے ۔ سنن ابی داؤد کی ایک روایت میں ان کے الفاظ یہ ہیں : “ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى كَانَتَا بِحِيَالِ مَنْكَبَيْهِ وَحَاذَى إِبْهَامَيْهِ أُذُنَيْهِ ” (آپ تکبیر تحریمہ کے وقت اپنے ہاتھوں کو اتنا اٹھاتے کہ وہ مونڈھوں کے برابر ہو جاتے ، اور دونوں ہاتھوں کے انگوٹھے کانوں کے محاذات میں آ جاتے) ۔ حضرت ابو حمید ساعدی کی اس حدیث میں ایک خاص بات یہ بھی بیان فرمائی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قعدہ اخیرہ میں اس طریقہ پر بیٹھتے تھے جس تورُّک کہتے ہیں ، لیکن حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی جو حدیث ابھی اوپر گزر چکی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قعدہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹھنے کا عام طریقہ وہی تھا جو حضرت ابو حمید ساعدیؓ نے قعدہ اولیٰ کا بیان کیا ہے اور جس کو اصطلاح میں افتراش کہتے ہیں ۔ بعض ائمہ اور شارحینحدیث کا خیال اس بارے میں یہ ہے کہ قعدہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹھنے کا عام طریقہ تو وہی تھا جو حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے معلوم ہو چکا ہے ، لیکن کبھی کبھی سہولت کے لئے یا یہ ظاہر کرنے اور بتانے کے واسطے کہ اس طرح بھی بیٹھا جا سکتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تورُّک بھی کیا ، دوسری رائے اس کے بالکل برعکس بھی ہے ..... اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ دونوں ہی طریقے مشروع ہیں ۔
خاص اذکار اور دعائیں
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر تحریمہ اور قرأت کے درمیان کچھ دیر سکوت فرماتے تھے (یعنی آواز سے کچھ نہیں پڑھتے تھے ، لیکن محسوس ہوتا تھا ک آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموشی سے کچھ پڑھتے ہیں) تو میں نے ایک دفعہ عرض کیا یا رسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ! مجھے بتا دیجئے کہ تکبیر تحریمہ اور قرأت کے درمیان کی خاموشی میں آپو کیا پڑھتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : میں اللہ سے دُعا کرتا ہوں اللَّهُمَّ بَاعِدْ ..... الخ کہ اے اللہ ! میرے اور میری خطاؤں کے درمیان اتنا طویل فاصلہ کر دے جتنا طویل فاصلہ تو نے مشرق و مغرب کے درمیان کر دیا ہے اور اے اللہ ! مجھے خطاؤں سے ایسا پاک و صاف کر دے جیسا کہ سفید کپڑا میل کچیل سے پاک صاف کر دیا جاتا ہے ، اور اے اللہ ! میری خطاؤں کو پانی سے اور برف سے اور اولے سے دھو ڈال ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے مختلف اجزاء یعنی قیام اور رکوع و سجود وغیرہ میں جن کلمات کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس اور حمد و ثناء کرتے تھے اور اس سے جو دعائیں اور التجائیں کرتے تھے (جن میں چند ان شاء اللہ آگے درج ہونے والی حدیثوں سے ناظرین کو معلوم ہوں گی) ان اذکار و دعوات سے دل کی جس کیفیت کی ترجمانی ہوتی ہے وہی دراصل نماز کی حقیقت اور روح ہے ۔ اسی نقطہ نظر سے ان حدیثوں کو پڑھئے اور ان کیفیات کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کیجئے ، یہی دولت عظمیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاص الخاص ورثہ ہے ۔ تشریح ..... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگرچہ عام معاصی اور منکرات سے معصوم اور محفوظ تھے ، لیکن “ قریباں را بیش بود حیرانی ” کے فطری اصول پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان لغزشوں سے سخت لرزاں و ترساں رہتے تھے جو بر بنائے بشریت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سرزد ہو سکتی تھیں اور معصیت نہ ہونے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان عالی ار مقام قرب کے لحاظ سے قابل گرفت ہو سکتی تھیں ۔ ع جن کے رتبے ہیں سوا ، ان کو سوا مشکل ہے بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس قسم کی دعاؤں میں “ خَطَايَا ” یا “ ذنوب ” جیسے الفاظ جہاں جہاں آتے ہیں وہاں اُن سے اسی قسم کی لغزشیں مراد ہیں ۔ واللہ اعلم ۔ اس حدیث میں جو دعا مذکور ہوئی ہے اس کا حاصل بس یہ ہے کہ اے میرے اللہ ! تو مجھے ہر قسم کی خطاؤں اور غلطیوں سے اس قدر دور رکھ جس قدر تو نے مشرق کو مغرب سے اور مغرب کو مشرق سے دور رکھا ہے اور بنائے بشریت جب کوئی خطا مجھ سے سرزد ہو جائے تو اس کو معاف فرما کر اس کے داغ دھبہ سے بھی مجھے ایسا پاک صاف کر دے جیسا کہ میل کچیل دور کر کے سفید کپڑا بالکل پاک صاف کر دیا جاتا ہے ، اور اپنی رحمت کے نہایت ٹھنڈے پانی سے میرے باطن کو غسل دے کر خطا قصور سے پیدا ہونے والی اپنے غضب کی آگ اور اس کی سوزش و جلن کو بالکل ٹھنڈا کر دے اور اس کے بجائے اپنی رضا کی ٹھنڈک اور سکینت میرے باطن کو نصیب فرما دے ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر کے بعد اور قرأت سے پہلے کبھی کبھی یہ دعا بھی پڑھتے تھے ۔
خاص اذکار اور دعائیں
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع فرماتے تو پہلے اللہ کی تسبیح اور حمد اس طرح کرتے ۔ سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ ..... الخ اے اللہ ! تیری ذات پاک اور منزہ ہے اور میں تیر تقدیس بیان کرتا ہوں ، اور سارے کمالات اور خوبیاں تجھ میں ہیں ، میں تیری حمد کرتا ہوں اور تیرا نام پاک بڑا بابرکت ہے ، اور تیری شان بہت اعلیٰ ہے ، اور تو ہی معبود برحق ہے ، تیرے سوا کوئی عبادت اور بندگی کے لائق نہیں ہے ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد) تشریح حافظ مجد الدین ابن تیمیہؒ نے منتقیٰ میں سنن سعید بن منصور کے حوالے سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے متعلق صحیح مسلم کے حوالہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق ، دار قطنی کے حوالہ سے حضرت عثمان اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کے متعلق یہ نقل کرنے کے بعد کہ یہ حضرت تکبیر تحریمہ کے بعد نماز کا افتتاح سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ ..... الخ سے کیا کرتے تھے ۔ لکھا ہے کہ ان سب حضرات کے اس طرز عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر تحریمہ کے بعد عموماً اور اکثر و بیشتر یہی سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ ..... پڑھا کرتے تھے ۔ اس لیے احادیث میں وارد شدہ افتتاح نماز کی دوسری دعاؤں کے مقابلے میں یہی راجح و افضل ہے ، اگرچہ دوسری ثابت شدہ دعاؤں کا پڑھنا بھھی بالکل صحیح ہے ۔ مثلا وہ دعا جو حضرت ابو ہریرہؓ کی مندرجہ بالا روایت میں ابھی اوپر مذکور ہو چکی ہے ، یعنی اللَّهُمَّ بَاعِدْ .... اور اسی طرح وہ دعا جو حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی روایت سے اگلی حدیث میں آ رہی ہے ۔
خاص اذکار اور دعائیں
حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوتے تو تکبیر تحریمہ کے بعد یہ دعا پڑھتے : وَجَّهْتُ وَجْهِي لِلَّذِي ..... أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ تک (یعنی میں نے اپنا رخ ہر طرف سے یکسو ہو کر اس اللہ کی طرف کر دیا جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے اور میں نے ان) میں سے نہیں ہوں جو اس کے تعلق میں کسی اور کو شریک کرتے ہیں ۔ میری عبادت اور میرا ہر دینی عمل اور میرا جنیا اور میرا مرنا سب اللہ ہی کے لئے ہے جو رب العالمین ہے ۔ مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے ، اور میں فرمانبرداری کرنے والوں میں سے ہوں ۔ اے اللہ ! تو ہی بادشاہ اور مالک ہے تیرے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں ہے ، تو میرا مالک اور رب ہے اور میں تیرا بندہ ہوں۔ میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا اور اپنے کو تباہ کیا ہے ، اور مجھے اپنی خطاؤں کا اقرار ہے ، پس سے میرے مالک ! میری ساری خطائیں معاف کر دے ، گناہوں کو بخشنے والا تیرے سوا کوئی نہیں ، اور برے اخلاق میری طرف سے ہٹا دے اور دور کر دے ، ایسا کرنے والا بھی تیرے سوا کوئی نہیں ، تیرے حضور میں اور تیری خدمت و نصرت کے لئے حاضر ہوں ، حاضر ہوں مولا ! ہر قسم کی خیر اور بھلائی تیرے ہی ہاتھوں میں ہے اور برائی کا تیری طرف گزر نہیں مجھے تیرا ہی سہارا ہے اور تیری ہی طرف میرا رخ ہے ، تو برکت والا اور رفعت والا ہے ۔ میں تجھ سے مغفرت اور بخشش کا سائل ہوں اور تیرے حضور میں توبہ کرتا ہوں) ۔ (یہ دعا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر تحریمہ کے بعد قرأت شروع کرنے سے پہلے پڑھتے) پھر جب (قرأت سے فارغ ہو کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں جاتے تو کہتے “ اللَّهُمَّ لَكَ رَكَعْتُ ..... وَعِظَامِي وَعَصَبِي ” تک (یعنی اے اللہ ! میں تیرے حضور میں جھکا ہوا ہوں ، اور میں تجھ پر ایمان لایا ہوں اور میں نے اپنے کو تیرے سپرد کر دیا ہے ۔ میرے کان اور میری آنکھیں اور میرا مغز و استخوان اور میرے رگ پٹھے سب تیرے حضور میں جھکے ہوئے ہیں) ..... پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے سر اٹھاتے تو (سیدھے کھڑے ہو کر) اللہ کے حضور میں عرض کرتے : مِلْءَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا (یعنی اے اللہ ! تیرے ہی لئے حمد ہے ، ایسی وسیع اور بے انتہا حمد جس سے آسمان و زمین کی ساری وسعتیں بھر جائیں اور ان کے درمیان کا سارا خلا پُر ہو جائے) اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں جاتے تو (اللہ کے حضور میں زمین پر اپنی پیشانی رکھ کے) عرض کرتے اللَّهُمَّ لَكَ سَجَدْتُ ..... أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ تک (یعنی اے اللہ ! میں تیرے لئے اور تیرے حضور میں سجدہ کر رہا ہوں اور میں تجھ پر ایمان لایا ہوں اور میں نے اپنے کو تیرے حوالے کر دیا ہے ۔ میرا چہرہ اپنے ا خالق کے سامنے سجدہ کر رہا ہے جس نے اس کی تخلیق کی اور اس کی یہ صورت بنائی اور اس کے کان اور اس کی آنکھیں بنائیں ، مبارک ہے ہمارا بہترین خالق) ۔ پھر تشہد یعنی التحیات اور سلام کے درمیان (سب سے آخر میں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے : اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ ..... لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ تک ۔ (یعنی اے اللہ ! جو خطائیں میں نے پہلے کیں یا پیچھے کیں اور چھپا کر کیں یا علانیہ کیں اور جو بھی میں نے زیادتی کی اور جس کا تجھے مجھ سے زیادہ علم ہے اس سب کو معاف فرما دے اور مجھے بخشش دے ، تو ہی آگے کرنے والا اور تو ہی پیچھے ڈال دینے والا ہے ، یعنی تو جسے چاہے آگے بڑھائے اور جسے چاہے پیچھے ہٹائے ۔ تیرے سوا کوئی معبود و مالک نہیں) ..... (صحیح مسلم) تشریح حدیث کے دفاتر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے متعلق روایات کا جو ذخیرہ ہے اس کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی جو تفصیل اور رکوع و سجود اور قومہ وغیرہ کی جو دعائیں ذکر کی ہیں یہ روزمرہ کی فرض نمازوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عام اور دائمی معمول نہیں تھا ، غالباً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی ایسا بھی کرتے تھے اور یہ بھی ممکن ہے بلک اغلب ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کی نماز اس طرح پڑھتے ہوں ۔ امام مسلمؒ نے اس حدیث کو تہجد ہی کی احادیث کے سلسلہ میں روایت کیا ہے اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو دعائیں منقول ہوئی ہیں ان سے کچھ سمجھا جا سکتا ہے کہ نماز کی حالت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک کی کیفیت کیا ہوتی تھی ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کس ذوق سے ادا کرتے تھے ، اللہ تعالیٰ اس کا کوئی ذرہ ہم کو نصیب فرمائے ۔ نماز میں اور خا صلی اللہ علیہ وسلم ص کر تہجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور بھی بہت سی دعاؤں کا پڑھنا ثابت ہے ، جو ان شاء اللہ آئندہ اپنے موقع پر ذکر کی جائیں گی ، ان سب دعاؤں میں ایک خاص روح ہے ، اگر اس کا اطمینان ہو کہ مقتدیوں کو تکلیف اور گرانی نہ ہو گی تو فرض نمازوں میں بھی امام ان دعاؤں میں سے پڑھ سکتا ہے ، اور نوافل میں تو اس دولت عظمیٰ سے حصہ لینا ہی چاہئے ۔ وَ فِيْ ذٰلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَؕ.
نماز میں قرأت قرآن
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قرآن کی قرأت کے بغیر نماز ہوتی ہی نہیں ۔ آگے حضرت ابو ہریرہؓ اپنی طرف سے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جن نمازوں میں قرأت بالجہر فرماتے تھے ان میں ہم بھی جہر کرتے ہیں اور دوسروں کو سنا کے پڑھتے ہیں ، اور جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم آہستہ خاموشی سے پڑھتے تھے ، وہاں ہم بھی ایسا ہی کرتے ہیں ، اور تم سو سنا کے نہیں پڑھتے ۔ (صحیح مسلم) تشریح قیام اور رکوع و سجود کی طرح قرآن مجید کی قرأت بھی نماز کا ایک لازمی جزو اور بُنیادی رکن ہے اور اس کا محل و موقع قیام ہے ۔ جیسا کہ معلوم اور معمول ہے قرأت کی ترتیب یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کہنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء تسبیح و تقدیس اور اپنی عبودت کے اظہار پر مشتمل کوئی دعا اللہ تعالیٰ کے حضور میں عرض کی جاتی ہے (اس موقع کی تین ماثور دعائیں سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وبحمدك وغیرہ عنقریب ہی مذکور ہو چکی ہیں) اس کے بعد قرآن مجید کی سب سے پہلی سورۃ جو گویا اس کا افتتاحیہ ہے ، یعنی سورہ فاتحہ پڑھی جاتی ہے ، جس میں اللہ تعالیٰ کی حمع کے ساتھ اس کی صفات کا بڑا جامع اور مؤثر بیان بھی ہے ، ہر قسم کے شرک کی نفی کے ساتھ اس کی توحید کا اثبات و اقرار بھی ہے ۔ صرف مستقیم یعنی دین حق اور شریعت الہیہ کے لئے اپنی ضرورت مندی اور محتاجی کی بناء پر اس کی ہدایت کے لئے عاجزانہ اور فقیرانہ سوال اور دعا بھی ہے ۔ بہرحال سب سے پہلے یہ سورۃ پڑھی جاتی ہے ، اور اپنی جامعیت اور خاص عظمت و اہمیت کی وجہ سے یہ متعین طور سے اس درجہ میں لازمی اور ضروری ہے کہ اس کے بغیر گویا نماز ہی نہیں ہوتی ، اس کے بعد نمازی کو اجازت بلکہ حکم ہے کہ وہ قرآن مجید کی کوئی بھی سورت یا کسی سورۃ کا کوئی بھی حصہ پڑھے ۔ قرآن مجید کا جو حصہ بھی وہ پڑھے گا اس میں اس کے لئے ہدایت کا کوئی نہ کوئی پیغام ضرور ہو گا ، یا تو اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی صفات کاملہ کا بیان ہو گا یا یوم آخرت اور جنت و دوزخ اور نیک کرداری و بدکرداری کی جزا سزا کا ذکر ہو گا ، یا عملی زندگی سے متعلق کوئی فرمان ہو گا ، یا کسی سبق آموز اور عبرت انگیز واقعہ کا تذکرہ ہو گا ۔ الغرض پڑھنے والے کے کوئی نہ کوئی رہنمائی اس میں ضرور ہو گی ، یہ گویا اس کی دعاء ہدایت (اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ) کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے نقد جواب ہو گا جو اسی کی زبان پر جاری ہو گا ۔ پھر دوسری رکعت میں بھی اسی طرح سورہ فاتحہ اور اس کے بعد کوئی اور سورۃ یا کسی سورۃ سے کچھ آیتیں پڑھی جائیں گی ۔ اور اگر نماز تین یا چار رکعت والی ہو تو تیسری اور چوتھی رکعت میں بھی سورہ فاتحہ تو ضرور پڑھی جائے گی ، لیکن اس کے ساتھ کچھ اور پڑھنا ضروری نہیں ہے ۔ اس تمہید کے بعد مندرجہ ذیل حدیثیں پڑھئے جن میں سے بعض تو نماز کے اندر قرأت سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ہیں ، اور زیادہ تر وہ ہیں جن سے معلوم ہو گا کہ قراة فى الصلاة کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل کیا تھا اور کس نماز میں آپ کتنی قرأت کرتے تھے اور کون کون سی سورتیں زیادہ تر پڑھتے تھے ۔ اس حدیث میں نماز کے لئے قرآن کی کسی خاص سورۃ کا نہیں بلکہ مطلب قرأت قرآن کا رکن ہونا بیان کیا ہے ۔ آگے حدیث کے راوی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا یہ بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جن نمازوں اور جن رکعتوں میں بالجہر قرأت فرماتے تھے ان ہی میں ہم بھی بالجہر قرأت کرتے ہیں اور جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموشی سے پڑھتے تھے وہاں ہم بھی خاموشی پڑھتے ہیں ۔
نماز میں قرأت قرآن
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے نماز میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز ہی نہیں ہوئی ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) اور اسی حدیث کی صحیح مسلم کی ایک روایت میں اس طرح ہے کہ : جس نے سورہ فاتحہ اور اس کے آگے کچھ اور نہیں پڑھا تو اس کی نماز ہی نہیں ۔ تشریح اس حدیث سے یہ تفصیل معلوم ہوئی کہ سورہ فاتحہ تو متعین طور سے نماز کا لازمی جزو ہے ، اور اس کے بعد قرآن مجید ہی میں سے کچھ اور بھی پڑھنا ضروری ہے ۔ لیکن اس میں پوری وسعت ہے اور اجازت ہے کہ جہاں سے چاہئے پڑھے ۔
مسئلہ قرأت فاتحہ میں ائمہ مجتہدین کے مذاہب
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : امام اس لئے بنایا گیا ہے کہ مقتدی لوگ اس کی اقتداء اور اتباع کریں لہذا جب امام اللہ اکبر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو اور جب وہ قرأت کرے تو تم خاموشی سے کان لگا کر سنو ۔ (سنن ابی داؤد ، سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ) تشریح ائمہ مجتہدین میں سے حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور بعض دوسرے حضرات نے اس حدیث سے اور اسی طرح کی بعض اور احادیث سے یہ سمجھا ہے کہ نمازی خواہ اکیلے نماز پڑھ رہا ہو ، خواہ امامت کر رہا ہو ، خواہ مقتدی ہو اور نماز خواہ جہری ہو یا سری ہر حال میں اس کے لئے سورہ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے ۔ اور حضرت امام مالک ؒ ، حضرت امام احمد بن حنبلؒ اور ان کے علاوہ دوسرے بھی بہت سے ائمہ نے اس حدیث کے ساتھ اسی مسئلہ سے متعلق دوسری بعض حدیثوں کو بھی سامنے رکھ کر یہ رائے قائم فرمائی ہے کہ اگر نمازی مقتدی ہو اور نماز جہری ہو تو امام کی قرأت مقتدیوں کی طرف سے بھی کافی ہے ، لہذا اس صورت میں مقتدی کو خود قرأت نہیں کرنی چاہئے ۔ اس کے علاوہ باقی تمام صورتوں میں نمازی کو سورہ فاتحہ لازماً پڑھنا چاہئے ۔ امام اعظم حضرت امام ابوحنیفہؒ بھی اسی کے قائل ہیں ، بلکہ وہ سری نمازوں میں بھی امام کی قرأت کو مقتدی کی طرف سے کافی سمجھتے ہیں ۔ ان حضرات کے اس نقطہ نظر کی بنیاد جن حدیثوں پر ہے ان میں سے ایک وہ بھی ہے جو اگلے ہی نمبر پر درج ہو رہی ہے ۔ تشریح ..... امام کی قرأت کے وقت خاموشی سے سننے کی یہ ہدایت بالکل انہی الفاظ میں بعض اور صحابہ کرامؓ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے ۔ چنانچہ صحیح مسلم مں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث کے ضمن میں یہ ہدایت انہی الفاظ میں مروی ہے ۔ اور وہیں ایک شاگرد کے سوال کے جواب میں امام مسلم نے حضرت ابو ہریرہؓ والی اس حدیث کی بھی صحیح اور توثیق کی ہے اور بظاہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہدایت کا مأخذ و منشاء قرآن مجید کا یہ واضح فرمان ہے : وَ اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۰۰۲۰۴ (اور جب قرآن پاک کی قرأت ہو تو تم اس کو متوجہ ہو کر سنو اور خاموش رہو ، شاید کہ ان کی وجہ سے تم رحمت کے قابل ہو جاؤ) امام ابو حنیفہؒ جو سری نمازوں میں بھی امام کی قرأت کو مقتدی کے لئے کافی سمجھتے ہیں ان کا خاص استدلال حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے بھی ہے جس کو ام محمد اور امام طحاوی اور امام دار قطنی وغیرہ نے خود امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی سند سے اپنی مصنفات میں روایت کیا ہے ۔ موطا امام محمد کی روایت کے الفاظ یہ ہے : عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ عَنِ النَّبِىِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "مَنْ صَلَّى خَلْفَ الْإِمَامِ فَإِنَّ قِرَاءَةَ الْإِمَامِ له قراءة" حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص امام کے پیچھے نماز پڑھے تو اما کی قرأت اس کی بھی قرأت ہے ۔ فائدہ ........ یہ مسئلہ کہ امام کے پیچھے مقتدی کو سورہ فاتحہ پڑھنی چاہئے یا نہیں ؟ ان معرکۃ الآراء اختلافی مسائل میں سے ہے جن پر ہماری اس صدی میں بلا مبالغہ سینکڑوں کتابیں دونوں طرف سے لکھی گئی ہیں ، اور بلا شبہ ان میں بعض تو علم و تحقیق اور نکتہ آفرینی کے لحاظ سے شاہکار ہیں لیکن معارف الحدیث کا یہ سلسلہ امت کے جس طبقہ کے لئے اور جس مقصد کو سامنے رکھ کر لکھا جا رہا ہے ، یہ مباحث اس کے لحاظ سے نہ صرف غیر ضروری ہیں بلکہ بعض پہلوؤں سے مضر بھی ہو سکتے ہیں ، ۔ اس قسم کے تمام اختلافی مسائل میں صحیح راہ یہ ہے کہ تمام ائمہ سلف کے ساتھ نیک گمان رکھا جائے ، دل سے ان کا احترام کیا جائے اور سمجھا جائے کہ ان میں سے ہر ایک نے کتاب و سنت اور صحابہ کرامؓ کے طرز عمل کا مطالعہ اور اس میں غور فکر کے بعد جو کچھ اپنے نزدیک زیادہ راجح سمجھا ہے نیک نیتی سے اس کو اختیار کر لیا ہے ، ان میں سے کوئی بھی باطل پر نہیں ہے ۔ اور یہ اس کے منافی نہیں ہے کہ امت کی مصلحت عامہ کی خاطر ، جہالت و نفسانیت اور فتنوں کے اس دور میں کسی ایک مسلک سے اپنے کو وابستہ رکھا جائے ۔ بہرحال معارف الحدیث کے اس سلسلہ میں بحث و مناظرہ کی راہ سے بچتے ہوئے چلنے کا التزام کیا گیا ہے ۔ الحمدللہ پوری بصیرت و یقین کے ساتھ اس عاجز کی یہ رائے ہے کہ ہندوستان کے مایہ فخر اور استاذ الاساتذہ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے حجۃ اللہ البالغۃ وغیرہ میں اصولی طور پر جو عدل و اعتدال ان اختلافی مسائل کے بارے میں اختیار کی ہے ، اس دور میں امت محمدیہ کے لئے بس وہی راہ ہے جس کو اپنا لینے کے بعد امت کا بکھرا ہوا شیرازہ پھر سے جڑ سکتا ہے ۔
نماز فجر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز میں سورہ ق اور اس جیسی دوسری سورتیں پڑھا کرتے تھے اور بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ہلکی ہوتی تھی ۔ (صحیح مسلم) تشریح شارحین نے آخری خط کشیدہ فقرے کے دو مطلب بیان کئے ہیں ، ایک یہ کہ فجر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز میں یعنی ظہر ، عصر ، مغرب ، عشاء یہ سب بہ نسبت فجر کے ہلکی ہوتی تھیں اور ان میں بہ نسبت فجر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرأت کم فرماتے تھے ۔ دوسرا مطلب اس فقرے کا یہ بیان کیا گیا ہے کہ ابتدائی دور میں جب صحابہ کرامؓ کی تعداد کم تھی ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے جماعت میں سب سابقین اولین ہی ہوتے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازیں عموماً طویل ہوتی تھیں اور بعد کے دور میں جب ساتھ میں نماز پڑھنے والوں کی تعداد زیادہ ہو گئی تھی ، اور ان میں دوم سوم درجہ والے اہل ایمان بھی ہوتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازیں نسبتاً ہلکی پڑھنے لگے تھے ، کیوں کہ جماعت میں نمازیوں کی تعداد زیادہ ہونے کی صورت میں اس کا امکان زیادہ ہوتا تھا کہ کچھ لوگ مریض یا کمزور یا کم ہمت زیادہ بوڑھے ہوں جن کے لئے طویل نماز باعث زحمت ہو جائے ۔ اگرچہ واقعاتی لحاظ سے دونوں ہی باتیں صحیح ہیں لیکن اس عاجز کے خیال میں دوسری تشریح اقرب ہے ۔ واللہ اعلم ۔
نماز فجر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت
حضرت عمرو نم حریث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فجر کی نماز میں “ وَاللَّيْلِ إِذَا عَسْعَسَ ” (یعنی سورہ تکویر) پڑھتے ہوئے سنا ۔ (صحیح مسلم)
نماز فجر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت
حضرت عبداللہ بن سائب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں ہمیں صبح کی نماز پڑھائی اور سورہ مؤمنوں پڑھنی شروع فرمائی ، ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس جگہ تک پہنچنے تھے ، جہاں حضرت موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) کا یا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانسی آنے لگی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع فرما دیا ۔ (صحیح مسلم)
نماز فجر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی دو رکعتوں میں سورہ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ اور سورہ وَقُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ پڑھیں ۔ (صحیح مسلم)
نماز فجر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت
معاذ بن عبداللہ الجہنی سے روایت ہے کہ قبیلہ جہینہ کے ایک صاحب نے ان سے بیان کیا کہ انہوں نے ایک دفعہ صبح کی نماز کی دونوں رکعتوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو إِذَا زُلْزِلَتِ پڑھتے ہوئے سنا ۔ (آگے ان صاحب نے کہا کہ) مجھے معلوم نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھول کر ایسا کیا یا عمدا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں رکعتوں میں ایک ہی سورت پڑھی ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عام دستور دو رکعتوں میں الگ الگ دو سورتیں پڑھنے کا تھا اس لئے جب ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں رکعتوں میں “ إِذَا زُلْزِلَتِ ” پڑھی تو ان صحابی کو یہ شبہ ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھول کر ایسا کیا یا یہ بتانے اور جتانے کے لئے کہ یہ بھی جائز ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمداً ایسا کیا ۔
نماز فجر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی دو رکعتوں میں سورہ بقرہ کی آیات : قُلْ يَاَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ الخ پڑھا کرتے تھے ۔ (صحیح مسلم)
نماز فجر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نقہ مبارکہ کی مہار پکڑ کر چل رہا تھا ، اثناء سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا : عقبہ ! میں تم کو قرآن کی دو بہترین سورتیں تعلیم کروں ؟ اس کے بعد آپ نے سورہ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور وَقُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ تعلیم فرمائیں ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محسوس فرمایا کہ ان دونوں سورتوں کی تعلیم سے مجھے بہت زیادہ خوشی نہیں ہوئی ، تو جب صبح کی نماز کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اترے ت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی دونوں سورتیں پڑھ کر فجر کی نماز پڑھائی ، پھر نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا عقبہ ! تم نے کیا دیکھا اور کیا محسوس کیا ۔ (مسند احمد ، سنن ابی داؤد ، سنن نسائی)
نماز فجر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن فجر کی پہلی رکعت میں الم تَنْزِيلُ (یعنی سورۃ السجدہ) اور دوسری رکعت میں هَلْ أَتَى عَلَى الْإِنْسَانِ (یعنی سورۃ الدھر) پڑھا کرتے تھے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح فجر کی نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت سے متعلق جو حدیثیں یہاں تک درج کی گئی اور کتب حدیث میں ان کے علاوہ جو روایات اس سلسلہ میں ملتی ہیں ان سب کو پیش نظر رکھنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت فجر کی نماز میں بہ نسبت دوسری نمازوں کے اکثر و بیشتر کسی قدر طویل ہوتی تھی ، لیکن کبھی کبھی (غالبا کسی خاص داعیہ سے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز بھی قُلْ يٰۤاَيُّهَا الْكٰفِرُوْنَ اور قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ جیسی چھوٹی سورتوں سے پڑھا دیتے تھے ۔ اسی طرح ان حدیثوں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول نماز کی رکعتوں میں مستقل سورتیں پڑھنے کا تھا ، لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ کسی سورت میں سے کچھ آیات پڑھ دیتے تھے ۔ اسی طرح کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں رکعتوں میں ایک ہی سورت کی قرأت فرمائی ۔ جمعہ کی فجر میں سورۃ “ الم تَنْزِيلُ السجدہ ” اور سورۃ “ الدَّهْرِ ” پڑھنے کی حکمت حضرت شاہ ولی اللہ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ ان دونوں سورتوں میں قیامت اور جزا سزا کا بیان بہت موثر انداز میں کیا گیا ہے اور قیامت جیسا کہ احادیث صحیحہ میں بتایا گیا ہے جمعہ ہی کے دن قائم ہونے والی ہے ، اس لئے غالباً آپ اس کی تذکری اور یاد دہانی کے لئے جمعہ کی فجر میں یہ دونوں سورتیں پڑھنا پسند فرماتے تھے ۔ واللہ اعلم ۔
ظہر و عصر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ اور اس کے علاوہ دو سورتیں پڑھتے تھے ، اور آخر کی دو رکعتوں میںصرف سورہ فاتحہ اور کبھی کبھی (سر نماز میں بھی) ایک آدھ آیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنی آواز سے پڑھتے تھے کہ ہم سن لیتے تھے ، اور پہلی رکعت میں طویل قرأت فرماتے تھے ، اور دوسری رکعت میں اتنی طویل نہیں فرماتے تھے ، اور اسی طرح عصر میں ، اور اسی طرح فجر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کبھی کبھی ظہر کی سری نماز میں ایک آدھ آیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنی آواز سے پڑھ دیتے تھے کہ پیچھے والے اس کو سن لیتے تھے بعض شارحین نے لکھا ہے کہ غالبا ایسا کبھی غلبہ استغراق میں ہو جاتا تھا ، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بقصد تعلیم ایسا کرتے ہوں ۔ یعنی یہ بتانا چاہتے ہوں کہ میں فلاں سورۃ پڑھ رہا ہوں یا اپنے اس عمل سے یہ مسئلہ واضح فرمانا چاہتے ہوں کہ اگر سری نماز میں ایک آدھ آیت اتنی آواز سے پڑھ دی جائے کہ پیچھے والے مقتدی سن لیں تو اس کی گنجائش ہے اور اس کی وجہ سے نماز میں کوئی نقصان نہیں آئے گا ۔
ظہر و عصر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز میں سورۃ وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى پڑھتے تھے ۔ اور ایک روایت میں ہے کہ سورہ سَبِّحِ اسْمِ رَبِّكَ الْاَعْلَى پڑھتے تھے ۔ اور عصر کی نماز میں بھی قریب قریب اتنی ہی بڑی سورت پڑھتے تھے ، اور صبح کی نماز میں اس سے کچھ طویل ۔ (صحیح مسلم)
نماز مغرب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت
حضرت عبداللہ بن عتبہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب کی نماز میں سورہ حم الدُّخَانِ پڑھی ۔ (سنن نسائی)
نماز مغرب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت
حضرت جبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کی نماز میں سورہ طور پڑھتے ہوئے سنا ہے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
نماز مغرب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت
حضرت ام الفضل بن الحارث رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مغرب کی نماز میں سورہ وَالْمُرْسَلاَتِ عُرْفًا پڑھتے ہوئے سنا ہے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
نماز مغرب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ اعراف مغرب کی دو رکعتوں میں تقسیم کر کے پڑھی ۔ (سنن نسائی) تشریح ان چاروں حدیثوں میں نماز مغرب میں جن سورتوں کی قرأت کا ذکر ہے ان میں سے کوئی بھی ان چھوٹی سورتوں مین سے نہیں ہے جن کو “ قصار ” کہا جاتا ہے ، بلکہ سب سن بڑی سورتوں میں سے ہیں جن کو “ طوال ” کہا جاتا ہے ۔ بلکہ حضرت صدیقہؓ والی آخری حدیث میں جس میں سورہ اعراف کی قرأت کا ذکر ہے وہ تو پورے سوا سیپارہ کی ہے ۔ بہحال ان چار حدیثوں میں تو نماز مغرب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طویل طویل سورتیں پڑھنا ہی ذکر کیا گیا ہے لیکن آگے درج ہونے والی بعض دوسری روایتوں سے معلوم ہو گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اکثری معمول مغرب میں چھوٹی چھوٹی سورتیں پڑھنے کا تھا ، اس لئے اکثر علمائے کرام کا خیال ہے کہ مندرجہ بالا حدیثوں میں نماز مغرب کے جن واقعات کا ذکر کیا گیا ہے (جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طویل طویل سورتیں پڑھیں) یہ سب اتفاقی واقعات ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمومی اور اکثری معمول مغرب میں چھوٹی ہی سورتوں کی قرأت کا تھا ، جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس مکتوب سے بھی معلوم ہوتا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت موسیٰ اشعریؓ کو لکھا تھا ، ان شاء اللہ عنقریب ہی حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا یہ مکتوب بھی درج کیا جائے گا ۔
نماز عشاء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت
حضرت براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عشاء کی نماز مین سورہ وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ پڑھتے ہوئے سنا ہے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اچھی آواز والا کسی کو نہیں سنا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح صحیحین ہی کی بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ جس کا ذکر حضرت براء بن عازبؓ نے اس حدیث میں کیا ہے سفر کا ہے ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نماز کی کسی ایک رکعت میں سورہ والتین پڑھی تھی ۔
نماز عشاء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ معاذ بن جبل کا معمول تھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں نماز پڑھتے ، پھر آ کر اپنے قبیلہ کی مسجد میں امامت کرتے ۔ ایک رات انہوں نے عشاء کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھی ، پھر اپنے قبیلہ میں آئے اور ان کی امامت کی ، اور (سورہ فاتحہ کے بعد) سورہ بقرہ شروع کر دی ۔ ایک شخص نماز توڑ کر پیچھے ہٹ گیا ، اور اس نے تنہا اپنی نماز پڑھی ۔ (چانکہ یہ بات بہت غیر معمولی تھی ، اور اس دور میں نماز باجماعت کا اہتمام نہ کرنا منافقوں ہی کا طریقہ تھا ، اس لئے) لگوں نے اس کو بہت محسوس کیا ، اور اس شخص سے کہا ، “ فلانے ! تو منافق تو نہیں ہو گیا ہے ؟ ” اس نے جواب دیا “ خدا کی قسم نہیں ! بلکہ میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ بات رکھوں گا ” ۔ چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ اور عرض کیا “ یا رسول اللہ ! ہمارا کام اونٹوں کے ذریعہ پانی سینچنا ہے ، ہم لوگ دن بھر محنت مشقت کرتے ہیں اور (گزشتہ رات ایسا ہوا کہ) معاذ عشاء کی نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھنے کے بعد اپنے قبیلہ کی مسجد میں آئے (اور یہاں انہوں نے نماز پڑھانی شروع کی) تو سورہ بقرہ شروع کر دی ؟ ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر نے حضرت معاذؓ کی طرف رخ فرمایا اور ارشاد فرمایا ۔ معاذ ! کیا لوگوں کو تم فتنہ میں میں مبتلا کرنا چاہتے ہو سورہ وَ الشَّمْسِ وَ ضُحٰىهَا ، وَ الضُّحٰى ، سورہ وَ الَّيْلِ اِذَا يَغْشٰى اور سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى پڑھا کرو ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث سے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ عشاء کی نماز دو دفعہ پڑھتے تھے ، ایک دفعہ مسجد نبوی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقتدی بن کر ، اور دوسری دفعہ اپنے قبیلہ کی مسجد میں امام بن کر ، لیکن جمہور ائمہ و علماء اس پر متفق ہیں کہ ان میں سے ایک دفعہ کی نماز وہ نفل کی نیت سے پڑھتے تھے ۔ حضرت امام شافعیؒ کا خیال ہے کہ جو نماز وہ مسجد نبوی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں پڑھتے تھے وہ فرض کی نیت سے پڑھتے تھے اور اپنے قبیلہ والی مسجد میں امام بن کر نفل کی نیت سے پڑھتے تھے ، اسی بناء پر حضرت امام شافعی ؒ اس کے قائل ہیں کہ نفل پڑھنے والے امام کی اقتداء میں فرض نماز پڑھی جا سکتی ہے ، ان کے نزدیک اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ لیکن حضرت امام ابو حنیفہؒ اور امام مالکؒ کی تحقیق یہ ہے کہ نفل پڑھنے والے امام کی اقتداء میں فرض نماز نہیں پڑھی جا سکتی ۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے زیر بحث واقعہ کے متعلق ان حضرات کا خیال یہ ہے کہ وہ فرض عشاء کی نیت سے اپنے قبیلہ کی مسجد ہی میں نماز پڑھاتے تھے ، اور چونکہ مسجد نبوی کی جماعت کے وقت تک وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہتے تھے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی خاص برکات میں حصہ لینے کے لئے اور سیکھنے کی غرض سے وہ نفل کی نیت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی شریک ہو جاتے تھے ۔ اس مسئلہ پر بھی دونوں طرف بڑی فاضلانہ فقیہانہ اور محدثانہ بحثیں کی گئی ہیں ۔ اہل علم شروح حدیث فتح الباری عمدۃ القاری اور فتح الملہم میں دیکھ سکتے ہیں ۔ حدیث کی خاص ہدایت جو ہمارے موضوع اور عنوان سے متعلق ہے بس یہ ہے کہ ائمہ کو چاہئے کہ وہ نماز اتنی طویل نہ پڑھیں جو مقتدیوں کے لیے باعث مشقت ہو جائے ، خاص کر ضعیفوں ، کمزوروں اور محنت پیشہ لوگوں کا لحاظ رکھیں ۔
مختلف اوقات کی نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت
سلیمان بن یسار تابعی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے (اپنے زمانہ کے ایک امام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) فرمایا کہ : میں نے کسی شخص کے پیچھے ایسی نماز نہیں پڑھی ، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے زیادہ مشابہ ہو فلاں امام کی بہ نسبت ۔ سلیمان بن یسار کہتے ہیں کہ ان صاحب کے پیچھے میں نے بھی نماز پڑھی ہے ۔ ان کا معمول یہ تھا کہ ظہر کی پہلی دنوں رکعتیں لمبی پڑھتے تھے اور آخری دو رکعتیں پڑھتے تھے ، اور عصر ہلکی ہی پڑھتے تھے ، اور مغرب میں قصار مفصل اور عشاء میں اوساط پڑھتے تھے اور فجر کی نماز میں طوال مفصل پڑھا کرتے تھے ۔ (سنن نسائی) تشریح “ مفصل ” قرآن مجید کی آخری منزل کی سورتوں کو کہا جاتا ہے یعنی سورہ حجرات سے آخر قرآن تک پھر اس کے بھی تین حصے کئے گئے ہیں ۔ حجرات سے لے کر سورہ بروج تک کی سورتوں کو “ طوال مفصل ” کہا جاتا ہے ، اور بروج سے لے کر سورہ لم یکن تک کی سورتوں کو “ اوساط مفصل ” اور لم یکن سے لے کر آخر تک کی سورتوں کو “ قصار مفصل ” کہا جاتا ہے ۔ اس حدیث میں ان صاحب کے نام کا ذکر نہیں کیا گیا ہے جن کے متعلق حضرت ابو ہریرہؓ کا بیان ہے کہ : “ ان کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے بہت زیادہ مشابہ تھی ، اور کسی شخص کے پیچھے میں نے ایسی نماز نہیں پڑھی ، جو بہ نسبت ان کی نماز کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے بہت زیادہ مشابہ ہو ” ۔ بہرحال ان صاحب کا نام نہ تو حضرت ابو ہریرہؓ نے ذکر کیا اور نہ سلیمان بن یسار تابعی نے ، مگر شارحین حدیث نے محض قیاس اور اندازہ سے ان کو متعین کرنے کی کوشش کی ہے ، مگر کوئی بات بھی اس بارے میں قابل اطمینان نہیں ہے ، لیکن حدیث کا مضمون بالکل واضح ہے اور نام معلوم نہ ہونے سے اصل مقصد اور مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ سلیمان بن یسار تابعی نے ان صاحب کی نماز کے بارے میں جو تفصیل بیان کی ہے حضرت ابو ہریرہؓ کے مذکورہ بالا ارشاد کی روشنی میں اسیسے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ مختلف اوقات کی نماز کی قرأت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول بھی وہی تھا جو ان صاحب کا معمول سلیمان بن یسار نے بیان کیا ہے یعنی ظہر کی نماز میں تطویل ، عصر میں تخفیف ، مغرب میں قصار مفصل ، عشاء میں اوساط مفصل ، اور فجر میں طوال مفصل ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس بارے میں حضرت موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو جو خط لکھا تھا (جس کا پہلے بھی ذکر کیا جا چکا ہے) اس میں بھی مختلف اوقات کی نمازوں کی قرأت کے بارے میں یہی ہدایت کی گئی ہے ۔ مصنف عبدالرزاق میں سند کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس خط کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے : كَتَبَ عُمَرُ اِلَى اَبِىْ مُوْسَى اَنِ اقْرَاْ فِي الْمَغْرِبِ بِقِصَارِ الْمُفَصَّلِ ، وَفِي الْعِشَاءِ بِوَسَطِ الْمُفَصَّلِ ، وَفِي الصُّبْحِ بِطِوَالِ الْمُفَصَّلِ » (نصب الرايه) (حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابو موسیٰ اشعری کو لکھا تھا کہ مغرب کی نماز میں قصار مفصل ، عشاء میں اوساط مفصل اور فجر میں طوال مفصل پڑھا کرو ۔ (نصب الرایہ) اور امام ترمذی نے اسی خط کا حوالہ دیتے ہوئے ظہر میں اوساط مفصل پڑھنے کی ہدایت کا بھی ذکر کیا ہے ۔ (جامع ترمذى باب ما جاء فى القراءة فى الظهر والعصر) ظاہر ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ ہدایت جب ہی فرمائی ہو گی ، جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی اور عملی تعلیم سے انہوں نے ایسا ہی سمجھا ہو گا ۔ اسی بناء پر اکثر ائمہ مجتہدین نے مختلف اوقات کی نمازوں میں قرأت کی مقدار کے بارے میٰں حضرت عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس خط کو خاص راہنما مان کر اسی کے مطابق عمل کو اولیٰ اور مستحسن قرار دیا ہے ۔
جمعہ اور عیدین کی نمازوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور غلام اور خادم ابو رافع رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے عبید اللہ بن ابی رافع (جو اکابر تابعین میں ہیں) بیان کرتے ہیں کہ مروان (جس زمانہ میں کہ امیر معاویہؓ کی طرف سے مدینہ کا حاکم تھا) حج وغیرہ کسی ضرورت سے مکہ معظمہ گیا ، اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو (ان دونوں کے لئے) اپنا قائم مقام بنا گیا تو حضرت ابو ہریرہؓ نے جمعہ کی نماز پڑھائی تو اس کی پہلی رکعت میں سورہ جمعہ اور دوسری میں سورہ منافقون پڑھی اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جمعہ کے دن یہ دونوں سورتیں پڑھتے ہوئے سنا ہے ۔ (صحیح مسلم)
جمعہ اور عیدین کی نمازوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت
حضرت نعمان بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدین اور جمعہ کی نماز میں سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى اور هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ پڑھا کرتے تھے اور عید اور جمعہ دونوں ایک دن میں جمع ہو جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں نمازوں میں یہی دو سورتیں پڑھتے ۔ (صحیح مسلم)
جمعہ اور عیدین کی نمازوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت
(حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بھتیجے) عبید اللہ بن مسعود (تابعی) سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو واقد لیثیؓ سے پوچھا کہ “ عیدالاضحیٰ اور عید الفطر کی نمازوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا پڑھتے تھے ؟ ” انہوں نے فرمایا کہ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں میں ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ اور وَاقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ پڑھا کرتے تھے ” ۔ (صحیح مسلم) تشریح ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز جمعہ کی دونوں رکعتوں میں علی الترتیب اکثر و بیشتر سورہ جمعہ اور سورہ منافقون یا سورہ اعلیٰ و سورہ غاشیہ پڑھا کرتے تھے ، اور عیدین کی نماز میں بھی یا تو یہی دونوں آخری سورتیں سورہ اعلی و غاشیہ پڑھا کرتے تھے ، یا ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ اور وَاقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ ۔ نماز پنجگانہ اور جمعہ و عیدین کی نمازوں میں قرأت سے متعلق اب تک جو حدیثیں درج کی گئی ہیں اور جو کچھ ان کی تشریح کے سلسلہ میں لکھا گیا ہے اس سے ناظرین نے یہ دو باتیں ضرور سمجھ لی ہوں گی ۔ ۱۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اکثر معمول یہ تھا کہ فجر میں قرأت طویل فرماتے تھے اور زیادہ تر طوال مفصل پڑھتے تھے ، ظہر میں بھی کسی قدر طویل قرأت فرماتے تھے ، عصر مختصر اور ہلکی پڑھتے تھے ، اور اسی طرح مغرب بھی ، عشاء میں اوساط مفصل پڑھنا پسند فرماتے تھے ، لیکن کبھی کبھی اس کے خلاف بھی ہوتا تھا ۔ ۲۔ کسی نماز میں ہمیشہ کسی خاص سورت کے پڑھنے کا نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ، اور نہ عملاً ایسا کیا ، ہاں بعض نمازوں میں اکثر و بیشتر بعض خاص سورتیں پڑھنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ “ حجۃ اللہ البالغہ ” میں فرماتے ہیں : وقد اختار رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بعض السور فى بعض الصلوات لفوائد من غير حتم ولا طلب مؤكد فمن اتبع فقد احسن ومن لا فلا حرج. (حجة الله البالة (مقصد دوم) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض نمازوں میں کچھ مصالح اور فوائد کے پیش نظر بعض خاص سورتیں پڑھنی پسند فرمائیں ، لیکن قطعی طور پر نہ ان کی تعیین کی نہ دوسروں کو تاکید فرمائی کہ وہ ایسا ہی کریں ۔ پس اس بارے میں اگر کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع کرے (اور ان نمازوں میں وہی سورتیں اکثر و بیشتر پڑھے) تو اچھا ہے ، اور جو ایسا نہ کرے تو اس کے لئے بھی کوئی مضائقہ اور حرج نہیں ہے ۔
سورہ فاتحہ کے ختم پر “ آمین ”
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب امام (سورہ فاتحہ کے ختم پر) “ آمین ” کہے تو تم مقتدی بھی آمین کہو ، جس کی آمین ملائکہ کی آمین کے موافق ہو گی اس کے سابقہ گناہ معاف کر دئیے جائیں گے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح سورہ فاتحہ جو متعین اور حتمی طور سے نماز کی ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہے ، جیسا کہ معلوم ہے اس کی ابتدائی تین آیتوں میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء ہے اور چوتھی آیت میں اس کی توحید کا اقرار و اظہار اور دعا کی تمہید ہے ، اور اس کے بعد کی تین آیتوں میں اللہ تعالیٰ سے ہدایت کی دعا اور اس کا سوال ہے ، اور اسی پر یہ سورۃ ختم ہو جاتی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ختم پر “ آمین ” کہنے کی ہدایت فرمائی ہے ، اور جب نماز جماعت کے ساتھ کسی امام کے پیچھے پڑھی جا رہی ہو تو حکم ہے کہ جب امام سورہ فاتحہ کی آخری دعائیہ آیتیں پڑھنے کے بعد اس حکم کے مطابق آمین کہے تو اس کے ساتھ مقتدی بھی آمین کہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطلاع ہے کہ اس وقت اللہ کے فرشتے بھی آمین کہتے ہیں ۔ تشریح ..... کسی کی آمین ملائکہ کی آمین کے موافق ہونے کے شارحین نے کئی مطلب بیان کئے ہیں ، ان میں سب سے زیادہ راجح یہ ہے کہ ملائکہ کی آمین کے ساتھ آمین کہی جائے نہ اس سے پہلے ہو نہ اس کے بعد میں اور ملائکہ کی آمین کا وقت وہی ہے جب کہ امام آمین کہے ۔ اس بناء پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہو گا کہ جب امام ورہ فاتحہ ختم کر کے آمین کہے تو مقتدیوں کو چاہئے کہ وہ بھی اسی وقت آمین کہیں کیوں کہ اللہ کے فرشتے بھی اسی وقت آمین کہتے ہیں ، اور اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے کہ جو بندے فرشتوں کی آمین کے ساتھ آمین کہیں گے ان کے سابقہ گناہ معاف کر دئیے جائیں گے ۔
سورہ فاتحہ کے ختم پر “ آمین ”
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم نماز پڑھنے لگو تو اپنی صفیں اچھی طرح درست اور سیدھی کرو ، پھر تم میں سے کوئی امام بنے ، پھر جب وہ امام تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو ، اور جب وہ سورہ فاتحہ کی آخری آیت غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ پڑھے تو تم کہو آمین (یعنی اے اللہ ! قبول فرما ۔ جب تم ایسا کرو گے) تو اللہ تعالیٰ سورہ فاتحہ میں مانگی ہوئی ہدایت کی دعا قبول فرما لے گا ۔ (صحیح مسلم) تشریح آمین دراصل قبولیت دیا کی درخواست ہے ، اور بندے کی طرف سے اس بات کا اظہار ہے کہ میرا کوئی حق نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ میری دعا قبول ہی کر لے اس لئے سائلانہ دعا کرنے کے بعد وہ آمین کہہ کے پھر درخواست کرتا ہے کہ اے اللہ ! محض اپنے کرم سے میری حاجت پوری فرما دے اور میری دعا قبول فرما لے ۔ اس طرح یہ مختصر سا لفظ رحمت خداوندی کو متوجہ کرنے والی ایک مستقل دعا ہے ۔ سنن ابی داؤد میں ابو زہیر نمیری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : “ ایک رات ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے جا رہے تھے ایک شخص کے پاس سے گزرنا ہوا جو بڑے الحاح اور انہماک کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا کر رہا تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر یہ شخص اپنی دعا پر مہر لگا دے تو یہ ضرور قبول کرا لے گا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں سے کسی نے عرض کیا کہ کس چیز کی مہر ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آمین کی مہر ” اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دعا کے ختم پر آمین کہنا ان چیزوں میں سے ہے جن سے دعا کی قبولیت کی خاص امید کی جا سکتی ہے ۔
رفع یدین
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع فرماتے تھے تو (تکبیر تحریمہ کہنے کے ساتھ) دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاتے تھے اور جب رکوع میں جانے کے لئے تکبیر کہتے تھے اور اسی طرح جب رکوع سے اٹھتے تھے تب بھی دونوں ہاتھ اسی طرح اٹھاتے تھے اور کہتے تھے “ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ، رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ ” اور سجدے میں ایسا نہیں کرتے تھے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح نماز میں آمین بالجہر کہی جائے یا بالسر ! یہ مسئلہ میں خواہ مخواہ معرکہ جا مسئلہ بن گیا ہے ، حالانکہ کوئی با انصاف صاحب علم اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ حدیث کے مستند ذخیرے میں جہر کی روایت بھی موجود ہے اور سِر کی بھی ، اسی طرح اس سے بھی کسی کو انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ صحابہ اور تابعین دونوں میں آمین بالجہر کہنے والے بھی تھے اور بالسر کہنے والے بھی (1) ، اور یہ بجائے خود اس بات کی واضح دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دونوں طریقے ثابت ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دونوں طرح عمل ہوا ہے ، یہ ناممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کبھی آمین بالجہر نہ کہی گئی ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بعض صحابہ جہر سے کہنے لگے ہوں ۔ اسی طرح یہ بھی قطعا ناممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آمین بالسر پر کبھی عمل نہ ہوا ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بعض صحابہ ایسا کرنے لگے ہوں ۔ الغرض صحابہ اور تابعین میں دونوں طرح کا عمل پایا جانا اس کی قطعی دلیل ہے کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں دونوں طرح عمل ہوا ہے ۔ بعد میں بعض ائمہ مجتہدین نے اپنے علم و تحقیق کی بناء پر یہ سمجھا کہ آمین میں اصل جہر ہے اور عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں زیادہ تر عمل اسی پر تھا ، اگرچہ کبھی کبھی اس کے خلاف بھی ہوتا تھا اس لئے ان حضرات نے آمین بالجہر کو افضل کہا اور بالسر کو بھی جائز کہا ، اور اس کے برعکس دوسرے بعض ائمہ نے اپنے معلومات کی بناء پر یہ سمجھا کہ آمین جو قرآن کا لفظ بھی نہیں ہے دراصل وہ بالسر یعنی آہستہ سے کہنے کی چیز ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں عام طور سے آہستہ ہی کہا جاتا تھا اگرچہ کبھی کبھی بالجہر بھی کہا جاتا تھا ۔ الغرض جن ائمہ کی تحقیق اور غور و فکر نے ان کو اس نتیجہ پر پہنچایا ان کی رائے یہ ہوئی کہ اصل اور افضل بالسر کہنا ہی ہے لیکن جائز بالجہر بھی ہے ۔ بہرحال ائمہ کے درمیان اختلاف صرف افضلیت میں ہے ، جواز سے کسی کو بھی انکار نہیں ہے اور یقیناً ہمارے ائمہ سلف میں سے ہر ایک نے وہی رائے قائم کی ہے اور اسی کو اختیار کیا ہے جس کو انہوں نے دیانتدارانہ غور و فکر اور تحقیق کے بعد زیادہ صحیح سمجھا ۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر دے اور ہم سن کو اتباع حق اور عدل کی توفیق ! رفع یدین بالکل یہی حال مسئلہ رفع یدین کا بھی ہے ، اس میں شک کرنے کی قطعا گنجائش نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر تحریمہ کےعلاوہ رکوع میں جاتے وقت ، رکوع سے اٹھتے وقت ۔ بلکہ سجدے سے اٹھتے وقت ، اور تیسری رکعت کے لئے کھڑے ہوتے وقت بھی ۔ رفع یدین کیا ہے ۔ (جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر ، وائل بن حجر اور ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہم وغیرہ متعدد صحابہ کرام نے روایت کیا ہے) ۔ اسی طرح اس میں بھی شک کی گنجائش نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز اس طرح بھی پڑھتے تھے کہ صرف تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کرتے تھے اور اس کے بعد پوری نماز میں کسی موقع پر بھی رفع یدین نہیں کرتے تھے (جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور براء ن عازبؓ وغیرہ نے روایت کیا ہے) ۔ اسی طرح صحابہ کرامؓ اور تابعین میں بھی دونوں طرح عمل کرنے والوں کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے اس لئے ائمہ مجتہدین کے درمیان اس بارے میں بھی اختلاف صرف ترجیح اور افضلیت کا ہے ، دونوں طریقوں کے جائز اور ثابت ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ تشریح ..... حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی اس حدیث میں تکبیر تحریمہ کے علاوہ صرف رکوع میں جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین کا ذکر ہے اور اسی کے ساتھ سجدے میں رفع یدین نہ کرنے کی تصریح ہے ۔ اور ان ہی کی بعض دوسری روایات میں تیسری رکعت کے لئے اٹھتے وقت بھی رفع یدین کا ذکر ہے ، اور یہ روایت بھی صحیح بخاری ہی میں موجود ہے ۔ اور مالک بن الحویرثؓ اور وائل بن حجرؓ کی حدیثوں میں (جن کو امام نسائی اور امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے) سجدے کے وقت بھی رفع یدین کا ذکر ہے ، جس کی حضرت ابن عمر کی مندرجہ بالا حدیث میں صراحۃً نفی کی گئی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ان میں سے ہر روایت اور ہر بیان بجائے خود صحیح ہے اور مالک بن الحویرث اور وائل بن حجر کے اس بیان میں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں جاتے وقت اور اس سے اٹھتے وقت بھی رفع یدین کرتے تھے ۔ اور حضرت ابن عمر کے اس بیان میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں رفع یدین نہیں کرتے تھے تطبیق اس طرح دی جا سکتی ہے کہ ایسا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کبھی کیا جس کو مالک بن الحویرث اور وائل بن حجر نے تو دیکھا اور حضرت ابن عمر نے اتفاق سے نہیں دیکھا اس لئے اپنے علم کے مطابق انہوں نے اس کی نفی کی ، اگر یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دائمی یا اکثری عمل ہوتا تو ناممکن تھا کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ جیسے صحابی کو اس کی خبر نہ ہوتی ۔
رفع یدین
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے خاص شاگرد علقمہ سے روایت ہے کہ حضرت ابن مسعودؓ نے ایک دفعہ ہم سے کہا کہ میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والی نماز پڑھاؤں ! یہ کہہ کر انہوں نے ہمیں نماز پڑھائی ، اس نماز میں انہوں نے بس پہلی ہی دفعہ (تکبیر تحریمہ کے ساتھ) رفع یدین کیا ، اس کے سوا رفع یدین بالکل نہیں کیا ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، سنن نسائی) تشریح حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ممتاز اور جلیل القدر صحابہ میں سے ہیں جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت تھی کہ وہ نماز میں پہلی صف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب کھڑے ہوں ، انہوں نے اپنے شاگردوں کو دکھانے اور سکھانے کے لئے اہتمام کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والی نماز پڑھائی ، اور اس میں تکبیر تحریمہ کے علاوہ کسی موقع پر بھی رفع یدین نہیں کیا ۔ حضرت ابن مسعودؓ کی اس حدیث کی بناء پر یہ ماننا پڑے گا کہ حضرت ابن عمرؓ وغیرہ نے رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین کا جو ذکر کیا ہے وہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دائمی یا اکثری معمول نہ تھا ، اگر ایسا ہوتا تو حضرت ابن مسعودؓ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب صف اول میں کھڑے ہونے والوں میں تھے اس سے یقیناً واقف ہوتے اور تعلیم کے اس موقع پر رفع یدین ہرگز ترک نہ کرتے ۔ ان سب حدیثوں کو سامنے رکھ کر ہر منصف صاحب علم اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول نماز میں رفع یدین کا بھی رہا ہے اور ترک رفع یدین کا بھی ۔ یعنی ایسا بھی ہوتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پوری نماز میں سوائے تکبیر تحریمہ کے کسی موقع پر بھی رفع یدین نہیں کرتے تھے ایسا بھی ہوتا تھا کہ تحریمہ کے علاوہ صرف رکوع میں جاتے وقت اور اس سے اٹھتے وقت رفع یدین کرتے تھے ، اور شاذ و نادر ایسا بھی ہوتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں جاتے وقت اور اس سے اٹھتے وقت بھی رفع یدین کرتے تھے ۔ حضرت ابن مسعودؓ جیسے صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے مسلسل مطالعہ اور مشاہدے سے یہ سمجھا کہ نماز میں اصل ترک رفع یدین ہے ، اور حضرت ابن عمرؓ جیسے بہت سے صحابہ نے یہ سمجھا کہ اصل رفع یدین ہے ۔ پھر رائے اور فکر کا یہی اختلاف تابعین اور بعد کے اہل علم میں بھی رہا ۔ امام ترمذیؒ نے حضرت عبداللہ ابن عمرؓ والی مندرجہ بالا حدیث سند کے ساتھ نقل کرنے کے بعد اور حسب عادت یہ بتانے کے بعد کہ فلاں دیگر صحابہ کرام سے بھی رفع یدین کی احادیث روایت کی گئی ہیں لکھا ہے کہ : “ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ مثلاً حضرت عبداللہ بن عمرؓ ، حضرت جابرؓ ، حضرت ابو ہریرہؓ اور حضرت انسؓ وغیرہ اسی کے قائل ہیں یعنی انہوں نے رفع یدین کو اختیار کیا ہے ، اور اسی طرح تابعین اور بعد کے ائمہ میں فلاں اور فلاں حضرات اسی کے قائل ہیں ” ۔ اس کے بعد ترک رفع یدین کے بارے میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی مندرجہ بالا حدیث نقل کرنے کے بعد اور اسی مضمون کی براء عازبؓ کی ایک دوسری حدیث کا حوالہ دینے کے بعد امام ترمذیؒ نے لکھا ہے کہ : “ متعدد صحابہؓ اسی کے قائل ہیں اور انہوں نے ترک رفع یدین کو اختیار کیا ہے ، اور اسی طرح تابعین اور بعد کے ائمہ میں سے فلاں فلاں حضرات نے اس کو اختیار کیا ہے ” ۔ الغرض آمین بالجہر اور آمین بالسر کی طرح رفع یدین اور ترک رفع یدین بلا شبہ دونوں عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں ۔ اور صحابہ کرامؓ کے درمیان ترجیح و اختیار میں اختلاف اسی وجہ سے ہوا ہے کہ ان میں سے بعض نے اپنے غور و فکر ، اپنے دینی وجدان اور ادراک اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات کے مطالعہ و تجزیہ کی بناء پر یہ سمجھا کہ نماز میں اصل ترک رفع یدین ہے ، اور رفع یدین جب ہوا ہے وقتی اور عارضی طور پر ہوا ہے ۔ حضرت ابن مسعودؓ جیسے صحابہ کرام نے یہی سمجھا اور امام ابو حنیفہؒ اور سفیان ثوریؒ وغیرہ ائمہ نے اسی کو اختیار کیا ۔ اور حضرت عبداللہ ابن عمرؓ اور حضرت جابرؓ وغیرہ دوسرے بہت سے صحابہ کرامؓ نے اس کو برعکس سمجھا اور حضرت امام شافعیؒ اور امام احمدؒ وغیرہ نے اس کو اختیار کیا ، اور رائے کا یہ اختلاف بھی صرف فضیلت میں ہوا ، رفع اور ترک رفع کا جواز سب کے نزدیک مسلم ہے ۔ اللہ تعالیٰ غلو اور ناانصافی سے حفاظت فرمائے اور اتباع حق کی توفیق دے ۔
رکوع و سجود اچھی طرح ادا کرنے کی تاکید
حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : آدمی کی نماز اس وقت تک کافی نہیں ہوتی (یعنی پوری طرح ادا نہیں ہوتی) جب تک کہ وہ رکوع اور سجدہ میں اپنی پیٹھ کو سیدھا برابر نہ کرے ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی ، سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ ، سنن دارمی) تشریح نماز کیا ہے ؟ ....... اللہ تعالیٰ کے حضور میں قلب و قالب اور قول و عمل سے ایک خاص طریقے پر اپنی بندگی و نیاز مندی کا اظہار اور اس کی بے نہایت عظمت و جلالت کے سامنے اپنے انتہائی تذلل اور فروتنی کا مظاہرہ ...... قیام و قعود اور رکوع و سجود اور جو کچھ ان میں پڑھا جاتا ہے اس سب کی روح یہی ہے ، لیکن اس بندگی اور تذلل کا سب سے بڑا مظہر نماز کے اعمال و اجزاء میں رکوع وسجود ہیں ..... سر اونچا رکھنا ، تکبیر ، یعنی برتری اور بالاتری کے احساس کی علامت ہے ، اور اس کے برعکس اس کو نیچا کرنا اور جھکانا تواضع اور خاکساری کی نشانی ہے ۔ اور اپنے کو کسی کے سامنے رکوع کی شکل میں جھکا دینا اس تواضع اور تقسیم کی غیر معمولی شکل میں جو صرف خالق و مالک ہی کا حق ہے اور سجدہ اس کی بالکل ہی آخری اور انتہائی شکل ہے ، اس میں بندہ اپنی پیشانی اور ناک کو جو انسانی اعضاء میں سب سے زیادہ محترم ہیں خاک پر رکھ دیتا ہے ، اس لحاظ سے رکوع و سجود نماز کے ارکان میں سب سے زیادہ اہم ہیں اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اچھی طرح اور صحیح طریقے پر ادا کرنے کی سخت ہدایت اور تاکید فرمائی ہے ، اور بہترین کلمات کے ساتھ ان میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس یا اس کے حضور میں دعا کرنے کی اپنے ارشاد اور عمل سے تلقین فرمائی ہے ۔ اس تمہید کے بعد اس سلسلہ کی حدیثیں ذیل میں پڑھئے ۔
رکوع و سجود اچھی طرح ادا کرنے کی تاکید
حضرت طلق بن علی حنفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو بندہ رکوع اور سجدے میں اپنی پشت کو سیدھی برابر نہیں کرتا ، اللہ تعالیٰ اس کی نماز کی طرف دیکھتا بھی نہیں ۔ (مسند احمد) تشریح نماز کی طرف اللہ تعالیٰ کے نہ دیکھنے کا مطلب یہ ہے کہ ایسی نماز اس کے نزدیک قابل قبول نہیں ، ورنہ ظاہر ہے کہ زمین و آسمان کی کوئی چیز بھی اللہ تعالیٰ سے مخفی اور اس کی نظر سے غائب نہیں ہے ....... ان دونوں حدیثوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تنبیہ فرمائی ہے کہ جو شخص رکوع و سجود کو قاعدے کے مطابق صحیح طور سے ادا نہیں کرے گا ، اس کی نماز قبول نہیں ہو گی ، یہی ان دونوں حدیثوں کی ہدایت ہے ۔
رکوع و سجود اچھی طرح ادا کرنے کی تاکید
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : سجدہ اعتدال کے ساتھ کرو اور کوئی اپنی باہیں سجدے میں اس طرح نہ بچھا دے جس طرح کتا زمین پر باہیں بچھا دیتا ہے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح سجدے میں اعتدال کا مطلب بظاہر یہ ہے کہ سجدہ طمانیت کے ساتھ کیا جائے ، ایسا نہ ہو کہ سر زمین پر رکھا اور فوراً اٹھا لیا ۔ اور بعض شارحین نے اعتدال کے حکم کا مطلب یہ بھی سمجھا ہے کہ ہر عضو سجدے میں اس طرح رہے جس طرح کہ اس کو رہنا چاہئے ۔ دوسری ہدایت اس حدیث میں یہ فرمائی گئی ہے کہ سجدے میں کلائیوں کو زمین سے اوپر اٹھا رہنا چاہیے اس سلسلہ میں کتے کی مثال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس واسطے دی کہ اس کی شناعت اور قباحت اچھی طرح سامعین کے ذہن نشیں ہو جائے ۔
رکوع و سجود اچھی طرح ادا کرنے کی تاکید
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم سجدہ کرو تو اپنی ہتھیلیاں زمین پر رکھو اور کہنیاں اوپر اٹھاؤ ۔ (صحیح مسلم)
رکوع و سجود اچھی طرح ادا کرنے کی تاکید
حضرت عبداللہ بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ میں جاتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اچھی طرح کھول دیتے تھے ، یعنی پہلوؤں سے الگ رکھتے تھے) یہاں تک کہ بغل کی سفیدی نظر آ سکتی تھی ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
رکوع و سجود اچھی طرح ادا کرنے کی تاکید
حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خود دیکھا ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں جاتے تھے تو ہاتھوں سے پہلے اپنے گھٹنے زمین پر رکھتے تھے ، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے سے اٹھتے تھے تو اس کے برعکس اپنے ہاتھ گھٹنوں سے پہلے اٹھاتے تھے ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی ، سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ)
رکوع و سجود اچھی طرح ادا کرنے کی تاکید
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے حکم ملا ہے (یعنی اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے) کہ میں سات اعضاء پر سجدہ کروں (یعنی سجدہ اس طرح کروں کہ یہ سات عضو زمیں پر رکھے ہوں) پیشانی اور دونوں ہاتھ اور دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں کے کنارے ۔ اور یہ (بھی حکم ہے) کہ ہمااپنے کپڑوں اور بالوں کو نہ سمیٹیں ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح یہ سات اعضاء جن کا حدیث میں ذکر ہے “ اعضاء سجدہ ” کہلاتے ہیں ۔ سجدے میں ان کو زمین پر ٹکنا چاہئے ۔ بعض آدمی سجدے میں جاتے ہوئے اس کی کوشش کرتے ہیں کہ اپنے کپڑ صلی اللہ علیہ وسلم ں اور بالوں کو خاک آلودگی سے بچائیں ، یہ بات چونکہ سجدے کی غایت اور روح کے منافی ہے اس لئے اس سے منع فرمایا گیا ہے ۔
رکوع اور سجدے میں کیا پڑھا جائے؟
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب قرآن مجید کی آیت فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيمِ نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : اس کو اپنے رکوع میں رکھو (یعنی اس حکم کی تعمیل میں سبحان ربی العظیم رکوع میں کہا کرو) پھر جب آیت سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى کا نزول ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : اس کو اپنے سجدے میں رکھو (یعنی اس کی تعمیل میں سُبْحَانَ رَبِّىَ الْأَعْلَى سجدے میں کہا کرو) ۔ (سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ ، سنن دارمی)
رکوع اور سجدے میں کیا پڑھا جائے؟
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے بیان فرماتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ اور سجدے میں سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى کہتے تھے ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، سنن دارمی ، سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ)
رکوع اور سجدے میں کیا پڑھا جائے؟
عون بن عبداللہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : جب کوئی شخص اپنے رکوع میں ۳ بار سُبْحَانَ رَبِّيَ العَظِيمِ کہے تو اس کا رکوع مکمل ہو گیا ، اور یہ اس کا ادنیٰ درجہ ہوا ، اسی طرح جب اپنے سجدے میں سُبْحَانَ رَبِّيَ الأَعْلَى ۳ بار کہے تو اس کا سجدہ پورا ہو گیا ، اور یہ اس کا ادنیٰ درجہ ہوا ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ) تشریح مطلب یہ ہے کہ رکوع میں سجدے میں اگر تسبیح ۳ دفعہ سے کم کہی گئی تو رکوع اور سجدہ تو ادا ہو جائے گا لیکن اس میں ایک گونہ نقصان رہے گا ، کامل ادائیگی کے لئے کم سے کم ۳ دفعہ تسبیح کہنا ضروری ہے ، اور اس سے زیادہ کہنا اور بہتر ہے ۔ ہاں امام کے لئے ضروری ہے کہ وہ رکوع اور سجدہ اتنا زیادہ طویل نہ کرے جو مقتدیوں کے لئے زحمت اور گرانی کا باعث ہو ۔ حضرت سعید بن جبیر تابعی سے ابو داؤد اور نسائی نے وایت کیا ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے عمر بن عبدالعزیزؒ کے متعلق فرمایا کہ اس جوان کی نماز حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے ساتھ بہت ہی مشابہت ہے ۔ ابن جبیر فرماتے ہیںٰ کہ اس کے بعد ہم نے عمر بن عبدالعزیزؒ کے رکوع و سجعد کی تسبیحات کے بارے میں اندازہ کیا کہ وہ تقریبا دس دفعہ پڑھتے تھے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی رکوع و سجود میں تقریبا دس دس دفعہ تسبیح کہتے تھے ، اس لئے بہتر یہ ہے کہ جو شخص نماز پڑھائے وہ کم سے کم تین دفعہ اور زیادہ سے زیادہ دس دفعہ تسبیح پڑھا کرے ۔ مندجہ بالا تینوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع سجدے میں سبحان ربی العظیم اور سبحان ربی الاعلیٰ کہنے کی امت کو ہدایت و تلقین فرمائی اور یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول بھی تھا ، لیکن دوسری بعض احادیث میں رکوع اور سجدہ ہی کی حالت میں تسبیح و تقدیس کے بعض دوسرے کلمات اور دعاؤں کا پڑھنا بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ۔ جیسا کہ آگے درج ہونے والی حدیثوں سے معلوم ہو گا ۔
رکوع اور سجدے میں کیا پڑھا جائے؟
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع اور سجود میں کہتے تھے سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ ، رَبُّ الْمَلَائِكَةِ وَالرُّوحِ (نہایت پاک اور مقدس و منزہ ہے پروردگار ملائکہ کا اور روح کا) (صحیح مسلم)
رکوع اور سجدے میں کیا پڑھا جائے؟
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رکوع و سجود ممیں بکثرت یہ کلمات کہا کرتے تھے سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي (اے اللہ ! ہمارے رب ہم تیری حمد کے ساتھ تیری تسبیح کرتے ہیں ، اے اللہ ! میری مغفرت فرما) ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (یہ کلمات کہہ کے) قرآن مجید کے حکم کی تعمیل کرتے تھے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے آخری لفظ يَتَأَوَّلُ القُرْآن کا مطلب یہ ہے کہ سورہ اِذَا جَاءَ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو یہ حکم دیا گیا تھا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ اسْتَغْفِرْهُ (آپ اللہ کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کریں اور اس سے مغفرت طلب کریں) اس حکم کی تعمیل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کلمات کے ذریعہ رکوع اور سجدے میں بھی اللہ کی حمد و تسبیح اور اس سے استغفار کرتے تھے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ہی سے یہ بھی مروی ہے کہ سورہ اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ کے نزول کے بعد نماز کے علاوہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر اللہ تعالیٰ کی حمد و تسبیح اور استغفار کے جامع کلمات بکثرت جاری رہتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ اس کی اقتدا اور پیروی ہم سب کو نصیب فرمائے ۔
رکوع اور سجدے میں کیا پڑھا جائے؟
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک رات کو (میری آنکھ کھلی تو) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بستر پر نہ پایا ، پس میں (اندھیرے میں) آپ کو ٹٹولنے لگی تو میرا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں کے تلوؤں پر پڑا ، اس وقت آپ سجدے میں تھے اور اللہ کے حضور میں عرض کر رہے تھے اللهُمَّ أَعُوذُ بِكَ... (اے اللہ ! میں تیری ناراضی سے تیری رضامندی کی پناہ لیتا ہوں اور تیری سزا سے تیری معافی کی پناہ لیتا ہوں اور تیری پکڑ سے بس تیری ہی پناہ لیتا ہوں ۔ میں تیری ثنا و صفت پوری طرح بیان نہیں کر سکتا (بس یہی کہہ سکتا ہوں) کہ تو ویسا ہے جیسا کہ تو نے خود اپنی ذات اقدس کے بارے میں بتلایا ہے) ۔ (صحیح مسلم)
رکوع اور سجدے میں کیا پڑھا جائے؟
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سجدے میں (کبھی کبھی) یہ دعا بھی کرتے تھے اللهم اغفر لى ذنبى كله (اے اللہ ! میرے سارے گناہ بخش دے ، اس میں سے چھوٹے بھی بڑے بھی ، پہلے بھی اور پچھلے بھی ، کھلے ہوئے بھی اوار ڈھکے چھپے بھی) ۔ (صحیح مسلم) تشریح بعض قرائن کی بناء پر بعض علمائے امت کا یہ خیال ہے کہ رکوع اور سجود میں یہ دعائیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ تر تہجد وغیرہ نفل نمازوں میں پڑھتے تھے ۔ لیکن کبھی فرض نمازوں میں بھی بعض دعاؤں کا پڑھنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ۔ اللہ تعالیٰ اگر توفیق دے ، اور ان مبارک دعاؤں کا مطلب آدمی سمجھتا ہو تو رکوع و سجود میں تسبیح کے ساتھ کبھی کبھی یہ دعائیں بھی پڑھنی چاہئیں ۔ خاص کر نوافل میں جن میں آدمی کو اختیار ہے کہ جتنا لمبا چاہے رکوع و سجدہ کرے ۔ ہاں فرض نمازوں میں امام کو اس کا لحاظ ضرور رکھنا چاہئے کہ مقتدیوں کو تکلیف اور گرانی نہ ہو ۔
رکوع و سجود میں قرآن مجید نہ پڑھا جائے
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : مجھے اس کی ممانعت ہے کہ رکوع اور سجدے کی حالت میں قرآن مجید کی تلاوت کروں ۔ پس رکوع میں تو تم لوگ اپنے مالک اور پروردگار کی عظمت و کبریائی بیان کیا کرو ، اور سجدے میں دعا کی خوب کوشش کیا کرو ، سجدے کی دعا (خاص طور سے) اس کی مستحق ہے کہ قبول کی جائے ۔ (صحیح مسلم) تشریح قرآن مجید کی قرأت جیسا کہ معلوم ہو چکا ہے نماز کا اہم رکن ہے ۔ لیکن اس کا محل قیام ہے اور کلام الٰہی و فرمان خداوندی کے شایان یہی ہے کہ اس کی تلاوت و قرأت قیامت کی حالت میں ہو (شاہی فرامین کے کھڑے ہو کر ہی پڑھے جانے کا دستور ہے) اور رکوع و سجود کے لئے یہی مناسب ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس ، اپنی بندگی و سرافگندگی کا اظہار اور اللہ تعالیٰ کے حضور میں دعا و استغفار ہو ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بھی مدت العمر یہی رہا اور اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبانی بھی اسی کی ہدایت فرمائی ۔ وہ حدیثیں اوپر گزر چکی ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدے میں سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى کہنے کی تلقین و ہدایت فرمائی ہے اور اسی کے مطابق خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بھی معلوم ہو چکا ہے ۔ اور یہاں اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدے میں دعا کرنے کی تاکید فرمائی ۔ ان دونوں باتوں میں کوئی تضاد اور منافات نہیں ہے ۔ بات یہ ہے کہ دعا اور سوال کی ایک سادہ اور کھلی ہوئی صورت تو یہ ہے کہ بندہ صاسف صاف اپنی حاجت مانگے اور ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ جس سے مانگنا ہو فقیرانہ انداز میں بس اس کے محامد اور کمالات کے گیت گائے ۔ ہماری اس دنیا میں بھی بہت سے مانگنے والے اس طرح مانگتے ہیں ۔ بہرحال یہ بھی دعا کا ایک طریقہ ہے اور اسی بناء پر ایک حدیث میں اَلْحَمْدُ لِلهِ کو افضل الدعا کہا گیا ہے ۔ (جامع ترمذی) اس لحاظ سے سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى بھی ایک دعائیہ کلمہ ہے اور جو شخص سجدے میں صرف یہی کلمہ بار بار اللہ تعالیٰ کے حضور میں عرض کرتا ہے اس کا سجدہ بھی دعا سے خالی نہیں ہے لیکن سجدے کی جو دعائیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول و ماثور ہیں (جو ابھی اوپر مذکور ہو چکی ہیں) ظاہر ہے کہ اس لحاظ سے ان کی شان کچھ اور ہی ہے ۔
سجدہ کی فضیلت
معدان بن طلحہ تابعی کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام اور خادم خاص حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے میری ملاقات ہوئی تو میں نے ان سے عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جس کے کرنے سے اللہ تعالیٰ مجھے جنت عطا فرما دے ! انھوں نے خاموشی اختیار فرمائی اور میری اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا میں نے دوبارہ وہی سوال کیا انہوں نے اس مرتبہ بھی کوئی جواب نہیں دیا اور سکوت اختیار فرمایا ۔ اس کے بعد تیسری مرتبہ میں نے پھر وہی سوال کیا تو انہوں نے فرمایا کہ یہی سوال میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ تم اللہ کے حضور میں سجدے زیادہ کیا کرو ، جو سجدہ بھی تم اللہ کے لئے کرو گے اس کے صلہ میں اللہ تعالیٰ تمہارا درجہ ضرور بلند کرے گا اور تمہارا کوئی نہ کوئی گناہ اس کی وجہ سے ضرور معاف ہو گا ۔ معدان کہتے ہیں کہ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے صحابی حضرت ابو الدرداءؓ کی خدمت میں حاضری کا مجھے موقع ملا تو ان سے بھی میں نے یہی سوال کیا ، انہوں نے بالکل وہی بتایا جو حضرت ثوبانؓ نے فرمایا تھا ۔ (صحیح مسلم)
سجدہ کی فضیلت
ربیعہ بن کعب اسلمی (جو اصحاب صفہ میں سے تھے اور سفر و حضر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم خاص کی حیثیت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے) بیان فرماتے ہیں کہ : میں ایک رات کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تھا (جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کے لئے رات کو اٹھے) تو میں وضو کا پانی اور دوسری ضروریات لے کر حاضر خدمت ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مسرت اور انبساط کے خاص عالم میں) مجھ سے فرمایا : “ ربیعہ کچھ مانگو ” (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ تھا کہ تمہارے دل میں اگر کسی خاص چیز کی چاہت اور آرزو ہو تو اس وقت مانگ لو میں اللہ تعالیٰ سے اس کے لئے دعا کروں گا ، اور امید ہے کہ وہ تمہاری مراد پوری کر دے گا) ۔ ربیعہؓ کہتے ہیں ۔ میں نے عرج کیا ۔ میری مانگ یہ ہے کہ جنت میں آپ کی رفاقت نصیب ہو ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہی یا اس کے سوا کچھ اور ؟ میں نے عرض کیا : میں تو بس یہی مانگتا ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تو اپنے اس معاملہ میں سجدوں کی کثرت کے ذریعہ میری مدد کرو ۔ (صحیح مسلم) تشریح مقربین بارگاہ خداوندی پر کبھی کبھی ایسے احوال آتے ہیں کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ اس وقت رحمت حق متوجہ ہے ، اور جو کچھ مانگا جائے امید ہے کہ ان شاء اللہ مل ہی جائے گا ، بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ربیعہ بن مالک کی خدمت سے متاثر ہو کر ان سے فرمایا کہ « سَلْ » (جس چیز کی تمہیں چاہت ہو وہ مانگو) غالبا وہ کوئی ایسی ہی گھڑی تھی ، لیکن جب انہوں نے اس کے جواب میں “ جنت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت ” مانگی اور مکرر دریافت کرنے پر بھی یہی کہا کہ : “ مجھے تو بس یہی چاہئے اس کے سوا کچھ نہیں ” تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ : فَأَعِنِّي عَلَى نَفْسِكَ بِكَثْرَةِ السُّجُودِ (پھر اپنے اس معاملہ میں میری مدد کرو سجدوں کی کثرت کے ذریعہ) گویا اس ارشاد کے ذریعہ آپ نے ان کو بتایا کہ تم جو جنت میں میری رفاقت چاہتے ہو یہ بہت بلند درجہ اور عظیم مرتبہ ہے ، میں تمہارے واسطے اللہ تعالیٰ سے اس کے لئے دعا کرتا ہوں اور کروں گا لیکن اتنا بلند مقام حاصل ہونے کے لئے ضروری ہے کہ تم بھی اس کا استحقاق پیدا کرنے کی عملی کوشش کرو ، اور وہ خاص عمل جو اس منزل تک پہنچانے میں خصوصیت کے ساتھ مدد گار ہو سکتا ہے اللہ کے حضور میں سجدوں کی کثرت ہے لہذا تم اس کا خاص اہتمام کر کے اپنے اس معاملہ میں میری مدد کرو ، اور اپنے عمل سے میری دعا کو قوت پہنچاؤ ۔ واضح رہے کہ حضرت ربیعہؓ کی اس حدیث اور اس سے اوپر والی حضرت ثوبانؓ کی حدیث میں کثرت سجود سے مراد نمازوں کی کثرت ہے ، لیکن چونکہ جنت اور اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت حاصل ہونے میں نماز کے دوسرے ارکان و اجزاء سے زیادہ سجدہ کو دخل ہے اس لئے بجائے کثرت صلوٰۃ کے کثرت سجود کا لفظ استعمال کی گیا ہے ۔ واللہ اعلم ۔
قومہ اور جلسہ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب امام (رکوع سے اٹھتے ہوئے) کہے سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ (اللہ نے سنی اس بندہ کی جس نے اس کی حمد کی) تو تم (مقتدی لوگ) کہو اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الحَمْدُ (اے اللہ ! ہمارے پروردگار تیرے ہی لئے ساری حمد و ستائش ہے) تو جس کا کہنا ملائکہ کے کہنے کے موافق ہو گا اس کے پچھلے سارے گناہ معاف کر دئیے ج ائیں گے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح رکوع اور سجدے کے درمیان قومہ کا حکم ہے ، اور اسی طرح ایک رکعت کے دو سجدوں کے درمیان جلسہ مشروع ہے ، ان دونوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول ذیل کی حدیثوں میں پڑھئے ۔ تشریح ..... نماز باجماعت میں جب امام رکوع سے اٹھتے ہوئے سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہتا ہے تو اللہ کے فرشتے بھی ، اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الحَمْدُ کہتے ہیں اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امام کے پیچھے نماز پڑھنے والوں کو حکم دیا ہے کہ اس موقع پر وہ بھی یہی کلمہ کہا کریں اور فرمایا ہے کہ جن لوگوں کا یہ کلمہ فرشتوں کے کلمہ کے موافق اورمطابق ہو گا اس کلمہ کی برکت سے ان کے پچھلے قصور معاف ہو جائیں گے ۔ موافق اور مطابق ہونے کا مطلب بظاہر یہ ہے کہ بالکل ان کے ساتھ ہو آگے پیچھے نہ ہو ۔ واللہ اعلم ۔ یہ بات اس معاف الحدیث ہی کے سلسلہ میں بار بار لکھی جا چکی ہے کہ جن حدیثوں میں کسی خاص عمل کی برکت سے گناہوں کے معاف ہونے کی بشارت سنائی جاتی ہے اس کے مراد عموماً صغیرہ گناہ ہوتے ہیں ۔ کبائر کے متعلق قرآنی آیات اور احادیث سے کچھ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کے معافی اصولی طور پر توبہ سے وابستہ ہے ، یوں اللہ تعالیٰ کو اخٹیار ہے کہ وہ بڑے بڑے گناہ جس کے چاہے محض اپنے کرم سے بخش دے ۔
قومہ اور جلسہ
حضرت عبداللہ بن اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رکوع سے اٹھتے تو فرماتے : سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ، اللهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ ، مِلْءُ السَّمَاوَاتِ ، وَمِلْءُ الْأَرْضِ وَمِلْءُ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْءٍ بَعْدُ اللہ نے سنی اس بندہ کی جس نے اس کی حمد کی اے اللہ ہمارے رب تیرے ہی لئے ساری حمد و ستائش ہے اتنی کہ جس سے زمین آسمان کی ساری وسعتیں بھر جائیں اور زمین و آسمان سے آگے جو سلسلہ وجود تیری مشئیت میں ہے اس کی بھی ساری وسعتیں بھر جائیں ۔ (صحیح مسلم) تشریح اور صحیح مسلم ہی میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت سے قومہ میں یہی دعا کچھ اور اضافہ کے ساتھ مروی ہے ۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کے بعد کبھی صرف اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الحَمْدُ کہتے تھے اور کبھی اس کے ساتھ وہ اضافہ بھی کرتے تھے جو عبداللہ بن اوفی رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے معلوم ہوا اور کبھی اس پر مزید اضافہ وہ بھی فرماتے تھے جس کی روایت حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کی ہے اور اسی واسطے کبھی کبھی آپ کا قومہ اتنا طویل ہو جاتا تھا کہ لوگوں کو سہو کا شبہ ہونے لگتا تھا جیسا کہ آگے درج ہونے والے حضرت انس رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث سے معلوم ہو گا ۔ واللہ اعلم ۔
قومہ اور جلسہ
حضرت رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع سے سر اٹھایا اور کہا سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے مقتدیوں میں سے ایک شخص نے کہا : رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ اے ہمارے رب آپ ہی کے لئے ہی ساری حمد ، بہت زیادہ حمد ، بہت پاکیزہ اور مبارک حمد ۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا اس وقت یہ کہنے والا کون تھا ؟ اس شخص نے کہا کہ میں نے کہا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں نے تیس سے کچھ اوپر فرشتوں کو دیکھا کہ وہ باہم مسابقت کر رہے تھے کہ کون اس کو پہلے لکھے گا ۔ (صحیح بخاری) تشریح حدیث میں اس کلمہ “ رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ حَمْدًا كَثِيرًا ” کے لکھنے کے لئے تیس سے زیادہ فرشتوں کی جس مسابقت کا ذکر ہے اس کا خاص سبب غالبا اس بندہ کے دل کی وہ خاص کیفیت تھی جس کیفیت سے اس نے اللہ کی حمد کا یہ مبارک کلمہ کہا تھا ۔ واللہ اعلم ۔
قومہ اور جلسہ
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں سجدوں کے درمیان جلسہ میں کہا کرتے تھے ۔ “ رَبِّ اغْفِرْ لِي ” “ سے اللہ ! میری مغفرت فرما ” ۔ (سنن نسائی ، مسند دارمی)
قومہ اور جلسہ
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں سجدوں کے درمیان یہ دعا کرتے تھے ۔ “ رَبِّ اغْفِرْ لِي ” “ سے اللہ ! میری مغفرت فرما ، مجھ پر رحم فرما ، مجھے ہدایت کی نعمت سے سواز ، مجھے معاف فرما دے اور میری روزی کی کفالت فرما ” ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی)
قومہ اور جلسہ
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (کبھی ایسا ہوتا) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رکوع سے اٹھ کر سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو (اتنی دیر تک) کھڑے رہتے کہ ہم کو خیال ہوتا کہ شاید آپ کو سہو ہو گیا ، پھر سجدہ میں جاتے اور اس سے اٹھنے کے بعد دونوں سجدوں کے درمیان (اتنی دیر) بیٹھتے کہ ہم خیال کرنے لگتے کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سہو ہو گیا ۔ (صحیح مسلم) تشریح حضرت انس رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ کبھی کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قومہ اور جلسہ اتنا طویل ہو جاتا تھا کہ صحابہ کرامؓ کو سہو کا شبہ ہونے لگتا تھا وہیں اس سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ ایسا کبھی شاذ و نادر ہی ہوتا تھا ، عام عادت شریفہ یہ نہیں تھی ، ورنہ اگر روزمرہ کا معمول یہی ہوتا یا بکثرت ایسا ہوا کرتا تو کسی کو سہو کا شبہ کبھی نہ ہوتا ۔ رکوع اور سجدہ کی طرح قومہ اور جلسہ میں بھی جو کلمات اور جو دعائیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول و ماثور ہیں ۔ ظاہر ہے کہ وہ سب نہایت ہی مبارک اور مقبول دعائیں ہیں ۔ البتہ اگر نماز پڑھنے والا امام ہو ، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ہدایت کے مطابق اس کو اس کا لحاظ رکھنا چاہئے کہ اس کا طرز عمل مقتدیوں کے لئے زحمت و مشقت کا باعث نہ جائے ۔
قعدہ کا صحیح اور مسنون طریقہ
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز میں بیٹھتے تھے تو اپنے دونوں ہاتھ گھٹنوں پر رکھ لیتے تھے اور داہنے ہاتھ کے انگوٹھے کے برابر والی انگلی (انگشت شہادت) کو اٹھا کر اس سے اشارہ فرماتے تھے اور اس وقت بایاں ہاتھ آپ کا بائیں گھٹنے پر ہی دراز ہوتا تھا (یعنی اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی اشارہ نہیں فرماتے تھے) ۔ (صحیح مسلم) تشریح قعدہ ، تشہد اور سلام نماز کا خاتمہ قعدہ اور سلام پر ہوتا ہے ، یعنی یہ دونوں اس کے آخری اجزاء ہیں ، ہاں اگر نماز تین یا چار رکعت والی ہو تو پہلی دو رکعت پڑھنے کے بعد ایک دفعہ درمیان میں بھی بیٹھا جاتا ہے اس کو قعدہ اولیٰ کہتے ہیں لیکن اس میں صرف تشہد پڑھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور تیسری یا چوتھی رکعت پڑھنے کے بعد دوبارہ بیٹھتے ہیں اور اس میں تشہد کے بعد درود شریف بھی پڑےھنے کے بعد سلام پر نماز ختم کر دی جاتی ہے ۔ ذیل کی حدیثوں سے معلوم ہو گا کہ قعدہ کا صحیح طریقہ کیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح قعدہ فرماتے تھے ، اور اس میں کیا پڑھنے کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم دی ہے ، اور سلام پر کس طرح نماز ختم کرنی چاہئے ۔ تشریح ..... قعدہ میں کلمہ شہادت کے وقت انگشت شہادت کا اٹھانا اور اشارہ کرنا حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے علاوہ دوسرے صحابہ کرامؓ نے بھی روایت کیا ہے ، اور بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ۔ اور اس کا مقصد بظاہر یہی ہے کہ جس وقت نمازی اشهد ان لا اله الا الله کہہ کر اللہ تعالیٰ کے وحدہ لا شریک ہونے کی شہادت دے رہا ہو اس وقت اس کا دل بھی توحید کے تصور اور یقین سے لبریز ہو اور ہاتھ کی ایک انگلی اٹھا کر جسم سے بھی اس کی شہادت دی جا رہی ہو ، بلکہ حضرت عبادللہ بن عمرؓ کی اسی حدیث کی بعض روایات میں یہ اضافہ بھی ہے کہ انگشت شہادت کے اس اشارے کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آنکھ سے بھی اشارہ فرماتے تھے ۔ واتبعها بصره اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ ہی نے اس اشارہ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی نقل فرمایا ہے : لَهِيَ أَشَدُّ عَلَى الشَّيْطَانِ مِنَ الْحَدِيدِ انگشت شہادت کا یہ اشارہ شیطان کے لئے لوہے کی دھار دار چھری اور تلوار سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے ۔ (مشکوٰۃ بحوالہ مسند احمد)
قعدہ کا صحیح اور مسنون طریقہ
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے فرزند عبداللہ سے روایت ہے کہ وہ اپنے والد ماجد (حضرت عبداللہ بن عمرؓ) کو دیکھتے تھے کہ وہ نماز میں چہار زانو بیٹھتے تھے ۔ (کہتے ہیں کہ والد ماجد کی پیروی میں) میں بھی اسی طرح چہار زانو بیٹھنے لگا ۔ حالانکہ میں اس وقت بالکل نو عمر تھا ، تو والد ماجد نے مجھے اس طرح بیٹھنے سے منع فرمایا اور مجھے بتایا کہ نماز میں بیٹھنے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ اپنا داہنا پاؤں کھڑا کرو ، اور بایاں پاؤں موڑ کر بچھاؤ ۔ میں نے عرض کیا کہ : خود چہار انو بیٹھتے ہیں : انہوں نے فرمایا کہ (میں مجبوری اور معذوری کی وجہ سے اس طرح بیٹھتا ہوں) میرے پاؤں اب میرا بوجھ نہیں سہارتے ۔ (صحیح بخاری) تشریح حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے ایک صاحبزادے کا نام بھی عبداللہ ہی تھا ، یہ انہیں کا واقعہ ہے جو مذکور ہوا ۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو اللہ تعالیٰ نے طویل عمر عطا فرمائی ۔ ۸۴ سال اور ایک روایت کے مطابق ۸۶ سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ۔ اخیر عمر میں ضعف پیری کی وجہ سے وہ نماز میں سنت کے مطابق اپنے پاؤں پر نہیں بیٹھ سکتے تھے ، اس وجہ سے مجبورا چہار زانو بیٹھنا پڑتا تھا (اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کے پاؤں میں کوئی خاص تکلیف تھی اس کی وجہ سے وہ قعدہ میں سنت کے مطابق بیٹھنے سے معذور تھے) بہرحال ان کے صاحبزادے عبداللہ نے بھی صرف ان کی تقلید اور پیروی میں ان ہی کی طرح چہار زانو بیٹھنا شروع کر دیا (اگرچہ وہ اس وقت بقول خود بوڑھے نہیں بلکہ نو عمر اور نو جوان تھے) حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے ان کو ایسا کرتے دیکھا تو منع فرمایا اور بتایا کہ نماز میں بیٹھنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ داہنا پاؤں کھڑا کیا جائے اور بایاں پاؤں موڑ کر اس پر بیٹھا جائے اور اپنے متعلق فرمایا کہ میں معذوری کی وجہ سے چہار زانوں بیٹھتا ہوں ، میرے پاؤں میرے جسم کا بوجھ سہارنے کے قابل نہیں ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے آخری الفاظ “ إِنَّ رِجْلَاىَ لاَ تَحْمِلاَنِي ” (میری دونوں پاؤں میرا بوجھ نہیں سہار سکتے) سے یہ بات صاف سمجھ میں آتی ہے کہ ان کے نزدیک قعدہ کا مسنون طریقہ وہ تھا جس میں آدمی کے جسم کا بوجھ اس کے دونوں پاؤں پر رہتا ہے ، اور وہ وہی ہے جس کو “ افتراش ” کہتے ہیں اور جو ہم لوگوں کا معمول ہے ۔ شرح حدیث کے اسی سلسلہ میں زیر عنوان “ نماز کس طرح پڑھی جائے ” حضرت ابو حمید ساعدیؓ کی وہ روایت مذکور ہو چکی ہے جس میں آخری قعدہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک طریقے پر بیٹھنا بھی ذکر کیا گیا ہے جس کو “ تورک ” کہتے ہیں ۔ اور اس بارے میں ائمہ اور شارحین حدیث کے مختلف نقطہ ہائے نظر کا بھی وہیں ذکر کیا جا چکا ہے ۔
قعدہ اولیٰ میں اختصار اور عجلت
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب پہلی دو رکعتوں پر بیٹھتے تھے (یعنی قعدہ اولیٰ فرماتے تھے تو آپ جلدی کرتے تھے) جیسے کہ آپ تپتے پتھروں پر بیٹھتے ہیں ، یہاں تک کہ تیسری رکعت کے لئے کھڑے ہو جاتے تھے ۔ (جامع ترمذی ، سنن نسائی) تشریح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دوامی طرز عمل سے یہ سمجھا گیا ہے کہ قعدہ اولیٰ میں صرف تشہد پڑھ کے جلدی سے کھڑا ہو جانا چاہئے ۔
تشہد
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حالت میں کہ میرا ہاتھ آپ کے دونوں ہاتھوں کے درمیان تھا مجھے تشہد تعلیم فرمایا جس طرح کہ آپ قرآن مجید کی سورتیں تعلیم فرماتے تھے (آپ نے مجھے تلقین فرمایا) : التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ ، وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ الخ (ترجمہ) ادب و تعظیم اور اظہار نیاز کے سارے کلمے اللہ ہی کے لئے ہیں اور تمام عبادات اور تمام صدقات اللہ ہی کے واسطے ہیں (اور میں ان سب کا نذرانہ اللہ کے حضور میں پیش کرتا ہوں) تم پر سلام ہو اے نبی اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ۔ سلام ہو ہم پر اور اللہ کے سب نیک بندوں پر ۔ میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں (صرف وہی معبود برحق ہے) ۔ اور میں اس کی بھی شہادت دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور پیغمبر ہیں ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرامؓ کو جو کچھ سکھاتے اور بتاتے تھے اس میں سب سے زیادہ اہتمام قرآن مجید کی تعلیم کا فرماتے تھے ، لیکن تشہد (التحیات) کی تعلیم و تلقین آپ نے اسی خاص الخاص اہتمام سے فرمائی جس اہتمام سے آپ قرآن مجید کی کسی سورت کی تعلیم دیتے تھے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا ہاتھ اس وقت اپنے دونوں ہاتھوں کے درمیان پکڑنا بھی اسی سلسلہ کی ایک چیز تھی ، اور طحاوی کی ایک روایت میں ہے کہ آپ نے ابن مسعودؓ کو بہ تشہد ایک ایک کلمہ کر کے تلقین فرمایا جس طرح کہ بچوں یا ان پڑھوں کو کوئی اہم چیز یاد کرائی جاتی ہے ۔ اور مسند احمد کی ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن مسعودؓ کو یہ تشہد تعلیم فرمایا اور ان کو حکم دیا کہ وہ دوسروں کو اس کی تعلیم دیں ۔ تشہد ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے علاوہ حضرت عمرؓ ، حضرت عبداللہ بن عباسؓ ، حضرت عائشہ صدیقہؓ اور بعض اور صحابہ کرامؓ سے بھی مروی ہے ، اور ان روایات میں ایک دو لفظوں کا بہت معمولی سا فرق بھی ہے لیکن محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ سند اور روایت کے لحاظ سے حضرت ابن مسعودؓ کے اس تشہد ہی کو ترجیح ہے ، اگرچہ دوسری روایات بھی صحیح ہیں اور ان میں وارد شدہ تشہد بھی پڑھایا جا سکتا ہے ۔ بعض شارحین حدیث نے ذکر کیا ہے کہ یہ تشہد شب معراج کا مکالمہ ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بارگاہ قدوسیت میں شرف حضوری نصیب ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نذرانہ ، عبودیت اس طرح پیش کیا ، اور گویا اس طرح سلامی دی : التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ ، وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ارشاد ہوا : السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوابا عرض کیا : السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ ، اس کے بعد (عہد ایمان کی تجدید کے طور پر) مزید عرض کیا : أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ان شارحین نے لکھا ہے کہ نماز میں اس مکالمہ کو شب معراج کی یادگار کے طور پر جوں کا توں لے لیا گیا ہے ، اور اسی وجہ سے السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ میں خطاب کی ضمیر کو برقرار رکھا گیا ہے ۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ صحیح بخاری وغیرہ میں خود حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ تشہد میں السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طبیہ میں اس وقت کہا کرتے تھے جب آپ ہمارے ساتھ اور ہمارے درمیان ہوتے تھے ، پھر جب آپ کا وصال ہو گیا تو ہم بجائے اس کے السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ کہنے لگے ۔ لیکن جمہور امت کے عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو لفظ تلقین فرمایا تھا (یا معراج کے مکالمہ والی مشہور عام روایت کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو لفظ ارشاد ہوا تھا) یعنی السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد بھی بطور یادگار اسی کو جوں کا توں برقرار رکھا گیا ، اور بلا شبہ ارباب ذوق کے لئے اس میں ایک خاص لطف ہے ۔ اب جو لوگ اس صیغہ خطاب سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حاضر ناظر ہونے کا عقیدہ پیدا کرنا چاہتے ہیں ان کے متعلق بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ شرک پسندی کے مریض ، نہایت ہی کور ذوق اور عربی زبان و ادب کی لطافتوں سے بالکل ہی ناآشنا ہیں ۔
درود شریف کی حکمت
حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ اعنہ (جو اصحاب بیعت رضوان میں سے ہیں) راوی ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتے ہوئے عرض کیا کہ : اللہ تعالیٰ نے یہ تو ہم کو بتا دیا کہ ہم آپ کی خد مت میں سلام کس طرح عرض کیا کریں (یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ نے ہم کو بتا دیا ہے کہ ہم تشہد میں السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ کہہ کر آپ پر سلام بھیجا کریں) اب آپ ہمیں یہ بھی بتا دیجئے کہ ہم آپ پر صلوٰۃ (درود) کیسے بھیجا کریں؟ آپ نے فرمایا یوں کہا کرو ۔ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ “ اے اللہ ! اپنی خاص عنایت اور رحمت فرما حضرت محمد پر اور حضرت محمد کے گھر والوں پر جیسے کہ تو نے عنایت و رحمت فرمائی حضرت ابراہیم پر اور ان کے گھر والوں پر ، تو حمد ستائش کا سزا وار اور عظمت و بزرگی والا ہے ۔ اے اللہ ! خاص برکتیں نازل فرما حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں پر جیسے کہ تو نے خاص برکتیں نازل فرمائیں حضرت ابراہیم اور حضرت ابراہیم کے گھر والوں پر ، تو حمد ستائش کا سزا وار اور عظمت و بزرگی والا ہے ۔ ” (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح درود شریف کی حکمت انسانوں پر خاص کر ان بندوں پر جن کو کسی نبی کی ہدایت و تعلیم سے ایمان نصیب ہوا ۔ اللہ تعالیٰ کے بعد سب سے بڑا احسان اس نبی و رسول کا ہوتا ہے ، جس کے ذریعہ ان کو ایمان ملا ہو اور ظاہر ہے کہ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایمان کی دولت اللہ کے آخری نبی حضرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ سے ملی ہے ، اس لئے یہ امت اللہ تعالیٰ کے بعد سب سے زیادہ ممنون احسان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے ۔ پھر جس طرح اللہ تعالیٰ جو خالق و مالک اور پروردگار ہے اس کا حق یہ ہے کہ اس کی عبادت اور حمد و تسبیح کی جائے ، اسی طرح اس کے پیغمبروں کا حق ہے کہ ان پر درود و سلام بھیجا جائے ، یعنی اللہ تعالیٰ سے ان کے لئے مزید رحمت و رأفت اور رفع درجات کی دعا کی جائے ۔ درود و سلام کا مطلب یہی ہوتا ہے ۔ اور یہ دراصل ان محسوں کی بارگاہ میں عقیدت و محبت کا ہدیہ ، وفاداری و نیاز کیشی کا نذرانہ اور ممنونیت و سپاس گزاری کا اظہار ہوتا ہے ، ورنہ ظاہر ہے کہ ان کو ہماری دعاؤں کی کیا احتیاج ، بادشاہوں کو فقیروں اور مسکینوں کے ہدیوں اور تحفوں کی کیا ضرورت ! تاہم اس میں شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارا یہ تحفہ بھی ان کی خدمت میں پہنچاتا ہے ، اور ہماری اس دعا و التجا کے حساب میں بھی ان پر اللہ تعالیٰ کے الطاف و عنایات میں اضافہ ہوتا ہے ، اور سب سے بڑا فائدہ اس دعا گوئی اور اظہار وفاداری کا خود ہم کو پہنچتا ہے ، ہمارا ایمانی رابطہ مستحکم ہوتا ہے ، اور ایک دفعہ کے مخلصانہ درود کے صلہ میں اللہ تعالیٰ کی کم از کم دس رحمتوں کے ہم مستحق ہو جاتے ہیں ۔ یہ ہے درود و سلام کا راز اور اس کے فوائد و منافع ۔ درود و سلام سے شرک کی جڑ کٹ جاتی ہے اس کے علاوہ ایک خاص حکمت درود و سلام کی یہ بھی ہے کہ اس سے شرک کی جڑ کٹ جاتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے بعد سب سے زیادہ مقدس اور محترم ہستیاں انبیاء علیہم السلام کی ہیں ، جب ان کے لئے بھی حکم یہ ہے کہ ان پر درود و سلام بھیجا جائے (یعنی ان کے واسطے اللہ سے رحمت و سلامتی کی دعا کی جائے) تو معلوم ہوا کہ وہ بھی سلامتی اور رحمت کے لئے خدا کے محتاج ہیں ، اور ان کا حق اور مقام علی بس یہی ہے کہ ان کے واسطے رحمت و سلامتی کی دعائیں کی جائیں ۔ رحمت و سلامتی خود ان کے ہاتھ میں نہیں ہے ، اور جب ان کے ہاتھ میں نہیں ہے تو پھر ظاہر ہے کہ کسی مخلوق کے بھی ہاتھ میں نہیں ہے ، کیوں کہ ساری مخلوق میں انہیں کا مقام سب سے بالا و برتر ہے ۔ اور شرک کی جڑ بنیاد یہی ہے کہ خیر و رحمت اللہ کے سوا کسی اور کے قبضہ میں بھی سمجھی جائے ۔ بہرحال درود و سلام کے اس حکم نے ہم نو نبیوں اور رسولوں کا دعا گو بنا دیا ، اور جو بندہ پیغمبروں کا دعا گو ہو وہ کسی مخلوق کا پرستار کیسے ہو سکتا ہے ۔ قرآن مجید میں درود و سلام کا حکم اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجنے کا حکم سورہ احزاب کی اس آیت میں دیا ہے اور بڑی شاندار تمہید کے ساتھ دیا ہے : اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىِٕكَتَهٗ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ١ؕ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا۰۰۵۶ (احزاب 56 : 33) اللہ تعالیٰ کا خاص لطف و کرم ہے اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں ان نبی پر ، اے ایمان والو تم بھی درود و سلام بھیجا کرو ان پر۔ اس آیت میں نماز یا غیر نماز کا کوئی تذکرہ نہیں ہے ، بالکل اسی طرح جس طرح کہ قرآن مجید میں جا بجا اللہ کی حمد و تسبیح کا حکم ہے اور نماز یا غیر نماز کا وہاں کوئی تذکرہ نہیں ہے ، لیکن جس طرح نور نبوت کی روشنی میں انہی آیتوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھا کہ اس حمد و تسبیح کا خاص محل نماز ہے (چنانچہ یہ حدیث اپنے موقع پر پہلے گزر چکی ہے ، کہ جب فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيمِ اور سَبِّحْ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى آیات قرآنی نازل ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ اس حکم کی تعمیل اس طرح کی جائے کہ رکوع میں سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ اور سجدہ میں سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى پڑھا جائے) ۔ اس عاجز کا خیال ہے کہ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ احزاب کی اس آیت (صَلُّوْا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا) کے نزول کے وقت بھی صحابہ کرامؓ کو غالبا بتایا تھا کہ اس حکم کی تعمیل کا خاص محل و موقع نماز کا جزو اخیر قعدہ اخیرہ ہے ۔ اس بارے میں کوئی صریح روایت تو اس عاجز کی نظر سے نہیں گزری ، لیکن جس بنیاد پر میرا یہ خیال ہے آگے درج ہونے والی حدیث کے ضمن میں اس کو عرض کروں گا ۔ اب حدیث پڑھئے ۔ تشریح ...... جیسا کہ سورہ احزاب کی مندرجہ بالا آیت میں نماز یا غیر نماز کا کوئی ذکر نہیں ہے اسی طرح کعب بن عجرہ رضی اللہ اعنہ کی اس روایت میں بھی اس کا کوئی ذکر نہیں ہے ، لیکن ایک دوسرے صحابی حضرت ابو مسعود انصاری بدری رضی اللہ اعنہ سے بھی قریب قریب اسی مضمون کی ایک حدیث مروی ہے ۔ اس کی بعض روایات میں سوال کے الفاظ یہ نقل کئے گئے ہیں : كَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ إِذَا نَحْنُ صَلَّيْنَا عَلَيْكَ فِي صَلَاتِنَا (۱) حضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) ! ہم جب نماز میں آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) پر درود پڑھیں تو کس طرح پڑھا کریں ؟ اس روایت میں صراحۃً معلوم ہوا کہ صحابہؓ کا یہ سوال نماز میں درود شریف پڑھنے کے بارے میں تھا اور گویا یہ بات ان کو معلوم ہو چکی تھی کہ درود کا خاص محل نماز ہے ۔ اس کے علاوہ حاکم نے مستدرک میں بہ سند قوی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ اعنہ کا یہ ارشاد روایت کیا ہے : يتشهد الرجل ثُمَّ يُصَلِّي عَلَى النَّبِىِّ ثُمَّ يَدْعُوْا لِنَفْسِهِ (۲) ؎ آدمی نماز میں (یعنی قعدہ اخیرہ میں) تشہد پڑھے اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے ، اس کے بعد اپنے لئے دعا کرے ۔ ظاہر ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ اعنہ نے یہ بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سننے کے بعد ہی فرمائی ہو گی ، وہ اپنی طرف سے کیسے کہہ سکتے تھے کہ تشہد کے بعد نمازی کو درود شریف پڑھنی چاہئے ۔ بہرحال ان ساری چیزوں کو سامنے رکھنے کے بعد یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ سورہ احزاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کا جو حکم دیا گیا تھا اس کے بارے میں صحابہ کرامؓ کو یہ بات تو معلوم ہو چکی تھی کہ اس کی تعمیل کا خاص محل نماز اور اس کا بھی جزو اخیر قعدہ اخیرہ ہے ۔ اس کے بعد انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تھا کہ ہم نماز میں یہ درود کس طرح اور کن الفاظ میں بھیجا کریں ، بس اسی کے جواب میں آپ نے یہ درود ابراہیمی تلقین فرمائی جو ہم اپنی نمازوں میں پڑھتے ہیں ۔ درود شریف میں آل کا مطلب اس درود میں ‘آل’ کا لفظ جو چار دفعہ آیا ہے اس کا ترجمہ ہم نے “ گھر والوں ” کیا ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ عربی زبان خاص کر قران و حدیث کے محاورے میں کسی شخص کے ‘آل’ ان کو کہا جاتا ہے جو اس کے ساتھ خاص الخاص تعلق رکھتے ہوں ، خواہ یہ تعلق نسب اور رشتہ کا ہو (جیسے اس شخص کے بیوی بچے) یا رفاقت و معیت اور عقیدت و محبت اور اتباع و اطاعت (3) کا (جیسے کہ اس کے مشن کے خاص ساتھی اور محبین و متبعین) ۔ اس لئے اصل لغت کے لحاظ سے یہاں آل کے معنی دونوں ہو سکتے ہیں ، لیکن آگے حضرت ابو حمید ساعدی کی جو حدیث درج ہو رہی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ‘آل’ سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والے یعنی ازواج مطہرات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسل و اولاد ہی ہے ۔ واللہ اعلم ۔
نماز میں درود شریف کا موقع اور اس کی حکمت
حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ اعنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ حضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) ! ہم آپ پر صلوٰۃ (درود) کس طرح پڑھا کریں ؟ آپ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ سے یوں عرض کیا کرو ۔ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ “ اے اللہ ! اپنی خاص عنایت اور رحمت فرما حضرت محمد پر اور آپ کی (پاک) بیبیوں اور آپ کی نسل پر ، جیسے کہ آپ نے عنایت و رحمت فرمائی آل ابراہیم پر ، اور خاص برکت نازل فرما حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ کی (پاک) بیبیوں اور آپ کی نسل پر ، جیسے کہ آپ نے برکتیں نازل فرمائیں آل ابراہیم پر ، اے اللہ ! تو ساری حمد و ستائش کا سزا وار اور عظمت و بڑائی والا ہے ۔ ” (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں درود شریف کے جو الفاظ تلقین فرمائے گئے ہیں وہ پہلی حدیث سے کچھ مختلف ہیں لیکن معنی مطلب میں کوئی خاص فرق نہیں ہے ، علماء اور فقہاء نے تصریح کی ہے کہ ان دونوں میں سے ہر ایک درود نماز میں پڑھا جا سکتا ہے لیکن معمول زیادہ تر پہلے ہی والا ہے ۔ اس حدیث میں بجائے آل کے وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ کے الفاظ ہیں ۔ اس سے یہ بات بظاہر متعین ہو جاتی ہے کہ پہلی والی حدیث میں جو آل کا لفظ آیا ہے اس سے آپ کے گھر والے یعنی ازواج مطہرات اور ذریت طیبہ ہی مراد ہیں ، اور جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرابت و جزئیت اور زندگی میں شرکت کا خاص شرف ان کو حاصل ہے (جو دوسروں کو اگرچہ وہ مرتبہ میں ان سے افضل ہوں حاصل نہیں) اسی طرح درود سلام میں شرکت کا یہ خاص شرف بھی اللہ تعالیٰ نے ان کو بخشا ہے ، اور گویا یہ ان کی خاص سعادت ہے ، اور اس سے ہرگز یہ لازم نہیں آتا کہ یہ ازواج مطہرات وغیرہ امت میں سب سے افضل ہوں ۔ اس کو بالکل یوں سمجھنا چاہئے کہ اہل عقیدت و محبت جب اپنے کسی محبوب بزرگ کی خدمت میں کوئی خاص تحفہ بھیجتے ہیں ، تو ان کے پیش نظر خود وہ بزرگ اور ان کے گھر والے ہی ہوتے ہیں ، اور فطری طور پر وہ اس کے خواہش مند ہوتے ہیں کہ ہمارا یہ تحفہ خود وہ بزرگ اور ان کے گھر والے استعمال کریں ۔ اگرچہ ان بزرگ کے دوستوں یا خادموں میں ایسے بھی لوگ ہوں جن کو یہ تحفہ پیش کرنے والے محبتین و معتقدین بھی گھر والوں سے بدرجہا افضل سمجھتے ہوں ۔ بس درود سلام بھی جیسا کہ شروع میں عرض کیا گیا ہے عقیدت و محبت کا تحفہ اور نیاز کیشی کا نظرانہ ہے ، اس کو محبت کے فطری قانون ہی کی روشنی میں سمجھنا چاہئے ۔ اس کی بنیاد پر افضلیت اور مفضولیت کی خالص کلامی اور قانونی بحث اٹھانا کوئی کوش ذوقی کی بات نہیں ہے ۔ نماز میں درود شریف کا موقع اور اس کی حکمت جیسا کہ معلوم ہے درود شریف نماز کے بالکل آخر میں یعنی آخری قعدہ میں تشہد کے بعد پڑھی جاتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہی اس کے لئے بہترین موقع ہو سکتا ہے ، اللہ کے بندے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت و تعلیم کے صدقے میں ایمان نصیب ہوا ، اللہ تعالیٰ کو اس نے جانا پہنچانا اور نماز کی شکل میں اس کے دربار عالی کی حاضری اور حمد و تسبیح اور ذکر و مناجات کی دولت گویا ایک طرح کی معراج اسے نصیب ہوئی اور آخری قعدہ کے تشہد پر یہ نعمت گویا مکمل ہو گئی ۔ اب اس کو حکم ہے کہ اللہ کے دربار سے رخصت ہونے سے پہلے اور اپنے لئے کچھ مانگنے سے بھی پہلے وہ بندہ حضڑت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اس احسان کو محسوس کرتے ہوئے کہ انہی کی ہدایت کے صدقے میں اس دربار تک رسائی ہوئی اور یہ سب کچھ نصیب ہوا ۔ اللہ تعالیٰ سے آپ کے لئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی شریک ازواج مطہرات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذریت طیبہ کے لئے بہتر سے بہتر دعا کرے ۔ اس کے سوا اور اس سے بہتر کوئی چیز اس کے پاس ہے ہی نہیں جس کو پیش کر کے وہ اپنے جذبہ ممنونیت کا اظہار اور احسان مندی کا حق ادا کر سکے ۔ اسی کے لئے درود شریف کے یہ بہترین کلمے صحابہ کرام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلقین فرمائے ۔ یہاں درود شریف کا یہ بیان نماز کے سلسلے میں آیا تھا اس لئے صرف انہی دو حدیثوں پر یہاں اکتفا کیا جاتا ہے ۔ ان کے علاوہ اس سلسلے میں قابل ذکر جو حدیثیں درود شریف کے فضائل وغیرہ سے متعلق کتب حدیث میں روایت کی گئی ہیں ان شاء اللہ وہ “ کتاب الدعوات ” میں اپنے موقع پر درج ہوں گی اور مندرجہ بالا درود ابراہیمی کے علاوہ “ صلوٰۃ و سلام ” کے جو اور صیغے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قابل اعتماد سندوں کے ساتھ مروی ہیں وہ بھی ان شاء اللہ وہیں درج ہوں گے ۔ درود شریف کے بعد اور سلام سے پہلے دعا ابھی مستدرک حاکم کے حوالہ سے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ اعنہ کا یہ ارشاد ذکر کیا جا چکا ہے کہ نمازی تشہد کے بعد درود شریف پڑھے اور اس کے بعد دعا کرے ۔ بلکہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ اعنہ ہی کی ایک حدیث سے تو معلوم ہوتا ہے کہ آخری قعدہ میں تشہد کے بعد اور سلام سے پہلے دعا کا یہ حکم گالبا اس وقت بھی تھا جب کہ تشہد کے بعد درود شریف پڑھنے کا حکم نہیں کیا گیا تھا ۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم وغیرہ کی ایک روایت میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ اعنہ سے تشہد کی تلقین والی حدیث ہی کے آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مروی ہے : ثُمَّ لِيَتَخَيَّرْ أَحَدُكُمْ مِنَ الدُّعَاءِ أَعْجَبَهُ إِلَيْهِ فَيَدْعُوَ بِهِ یعنی نمازی جب تشہد پڑھ چکے تو جو دعا اسے اچھی معلوم ہو اس کا انتخاب کر لے ، اور اللہ سے وہی دعا کرے ۔ اور یہی بات (کہ تشہد کے بعد دعا کی جائے) آگے درج ہونے والی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ اعنہ کی حدیث سے بھی معلوم ہوتی ہے ۔ بہرحال سلام سے پہلے دعا کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلیماً بھی ثابت ہے اور عملاً بھی ، اور اس موقع کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض خاص دعائیں بھی تعلیم فرمائیں ہیں ۔ اس سلسلہ کی صرف تین حدیثیں یہاں درج کی جاتی ہیں :
نماز میں درود شریف کا موقع اور اس کی حکمت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ اعنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی آخری تشہد پڑھ کر فارغ ہو جائے تو اسے چاہئے کہ چار چیزوں سے اللہ کی پناہ مانگے ۔ (۱) جہنم کے عذاب سے ۔ (۲) قبر کے عذاب سے ۔ (۳) زندگی اور موت کی آزمائش سے اور (۴) دجال کے شر سے ۔ (صحیح مسلم)
نماز میں درود شریف کا موقع اور اس کی حکمت
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کو یہ دعا اس طرح تعلیم فرماتے تھے جس طرح قرآن مجید کی کوئی سورت تعلیم فرمایا کرتے تھے ۔ ارشاد فرماتے تھے کہ کہو : اللهُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِكَ یعنی اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں جہنم کے عذاب سے اور پناہ مانگتا ہوں عذاب قبر سے اور پناہ مانگتا ہوں دجال کے فتنہ سے اور پناہ مانگتا ہوں زندگی اور موت کی آزمائشوں سے ۔ (صحیح مسلم) تشریح یہ دعا جیسے کہ ظاہر ہے دنیا و آخرت کے آفات و مصائب دفاور ہر قسم کی بدبختیوں سے حفاظت کے لئے بڑی جامع دعا ہے ۔ اس میں سب سے پہلے جہنم اور قبر کے عذاب سے پناہ مانگی گئی ہے جو شدید ترین اور ناقابل تصور عذاب اور انسان کی سب سے بڑی بدبختی ہے ۔ اس کے بعد دجال کے فتنہ عظیم سے جو اس دنیا میں برپا ہونے والے فتنوں میں سب سے بڑا فتنہ ہے ، جس میں ایمان کا سلامت رہنا بے حد مشکل ہے ۔ س کے بعد علی الاطلاق زندگی اور موت کے سارے فتنوں اور ساری آزمائشوں سے جس میں ہر چھوٹی بڑی بلا اور ہر گناہ اور گمراہی داخل ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ اعنہ کی اس حدیث میں اگرچہ اس کا ذکر نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس موقع کے لئے یہ دعا تعلیم فرماتے تھے ، لیکن حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ اعنہ کی مندرجہ بالا حدیث سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کا خاص موقع قعدہ اخیرہ میں تشہد کے بعد اور سلام سے پہلے ہے ۔ اسی دعا کے بارے میں صحیح بخاری و صحیح مسلم میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ اعنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی نماز میں یہ دعا مانگا کرتے تھے ، بلکہ اس میں مندرجہ بالا دعا کے بالکل آخر میں یہ اضافہ بھی ہے ۔ اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْمَاثَمِ وَمِنَ الْمَغْرَمِ “ اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں گناہ کی ہر بات سے اور قرض کے بار سے ” بہتر ہے کہ یہ دعا اسی اضافہ کے ساتھ نماز میں سلام سے پہلے پڑھی جائیے ۔
نماز میں درود شریف کا موقع اور اس کی حکمت
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ اعنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! مجھے کوئی ایسی دعا تعلیم فرما دیجئے جو میں اپنی نماز میں مانگا کروں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا یوں عرض کیا کرو اللهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ...... (اے اللہ ! میں نے خود اپنے اوپر بہت ہی ظلم کیا ہے (یعنی گناہوں سے اپنے آپ کو بہت ہی تباہ و برباد کیا ہے) اور تیرے سوا کوئی نہیں ہے جو گناہوں کو بخش سکتا اور معافی دے سکتا ہو ۔ پس اے میرے اللہ ! تو محض اپنی طرف سے اور اپنے فضل و کرم سے مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما اور بس تو ہی بہت بخشنے والا اور بہت رحم فرمانے والا ہے اور بخشش و رحمت تیری ہی ذاتی صفت ہے) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں صراحۃً مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدیق اکبر رضی اللہ اعنہ کی درخواست پر یہ دعا نماز میں پڑھنے کے لئے تعلیم فرمائی تھی ، لیکن یہ بات لفظوں میں مذکور نہیں ہے کہ نماز کے آخر میں سلام سے پہلے پڑھنے کے لئے تعلیم فرمائی تھی ، مگر شارحین حدیث نے لکھا ہے کہ چونکہ نماز میں دعا کا وہی خاص محل و موقع ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی موقع کے لئے فرمایا تھا : “ تشہد کے بعد سلام سے پہلے اللہ تعالیٰ سے مانگنے کے لئے بندہ کوئی اچھی دعا منتخب کرے اور وہی اللہ تعالیٰ سے مانگے ۔ ” (جیسا کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ اعنہ کی صحیح والی حدیث سے ابھی اوپر معلوم ہو چکا ہے) اس لئے ظاہر یہی ہے کہ ........ صدیق اکبر رضی اللہ اعنہ نے اسی موقع کی دعا کے لئے تعلیم کی درخواست کی تھی ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا ان کو اسی موقع کے لئے تعلیم فرمائی ۔ غالبا اسی کو ملحوظ رکھتے ہوئے امام بخارؒ نے صحیح بخاری میں یہ حدیث “ باب الدعا قبل السلام ” کے زیر عنوان روایت کی ہے ۔ اس دعا میں غور کرنے اور سمجھنے کی خاص بات یہ ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ اعنہ جو بار بار جنت کی بشارت سے سرفراز ہو چکے ہیں اور جو یقینا امت میں سب سے افضل ہیں اور ان کی نماز پوری امت میں سب سے بہتر اور کامل نماز ہے ۔ یہاں تک کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری مرض میں ان کو امام بنایا اور ان کے پیچھے خود نمازیں پڑھیں ، وہ درخواست کرتے ہیں کہ مجھے کوئی خاص دعا تعلیم فرما دیجئے جو میں نماز میں (یعنی اس کے خاتمہ پر سلام سے پہلے) اللہ سے مانگا کروں ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے جواب میں ان کو یہ دعا تعلیم فرماتے ہیں ۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بتایا کہ اے ابو بکرؓ ! نماز پڑھ کر بھی دل میں یہ وسوسہ نہ آئے کہ اللہ کی عبادت کا حق ادا ہو گیا اور کچھ کر لیا ، بلکہ نماز جیسی عبادت کے خاتمہ پر بھی اپنے کو سر سے پاؤں تک قصور وار اور خطاکار قرار دیتے ہوئے اس کے سامنے اپنی گناہگاری کا اقرار کرو اور اس سے معافی اور بخشش اور رحم کی بھیگ مانگو ، اور یہ کہہ کے مانگو کہ میرے اللہ ! میرے پاس کوئی چیز نہیں ہے جس کی وجہ سے بخشش اور معافی بھی میرا حق ہو ، تو اپنی صفت مغفرت و رحمت کا بس صدقہ مجھ گناہگار کو عطا فرما دے اور میرے لئے مغفرت و رحمت کا فیصلہ فرما دے ۔ اللہ تعالیٰ توفیق دے ۔ تشہد اور درود شریف کے بعد اور سلام سے پہلے یہ دعائیں ضرور مانگنی چاہئیں ۔ ان کا یاد کرنا اور ان کا مطلب بھی ذہن میں بٹھا لینا کوئی بڑی اور مشکل بات نہیں ہے ۔ معمولی توجہ سے تھوڑے سے وقت میں یہ کام ہو سکتا ہے ۔ بڑی بےنصیبی اور ناقدری کی بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عطا فرمائے ہوئے ان جواہرات سے ہم محروم رہیں ۔ خدا کی قسم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم فرمائی ہوئی ایک ایک دعا دنیا و مافیہا سے زیادہ قیمتی ہے ۔
خاتمہ نماز کا سلام
حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا طہارت (یعنی وضو) نماز کی کنجی ہے ، اور اس کی تحریمہ اللہ اکبر کہنا ہے اور اس کی بندشیں کھولنے کا ذریعہ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ کہتا ہے ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی ، مسند دارمی ، سنن ابن ماجہ) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح نماز کے افتتاح اور آغاز کے لئے کلمہ اللہ اکبر تعلیم فرمایا ہے جس سے بہتر کوئی دوسرا کلمہ افتتاح نماز کے لئے سوچا ہی نہیں جا سکتا ۔ اسی طرح اس کے اختتام کے لئے “ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ ” تلقین فرمایا ہے ، اور بلاشبہ نماز کے خاتمہ کے لئے بھی اس سے بہتر کوئی لفظ نہیں سوچا جا سکتا ۔ ہر شخص جانتا ہے کہ سلام اس وقت کیا جاتا ہے جب ایک دوسرے سے غائب اور الگ ہونے کے بعد پہلی ملاقات ہو ، لہٰذا اختتام کے لئے السلام علیکم ورحمۃ اللہ کی تعلیم میں واضح اشارہ ہے بلکہ تویا ہدایت ہے کہ بندہ اللہ اکبر کہہ کے جب نماز میں داخل ہو اور بارگاہ خداوندی میں عرض معروض شروع کرے تو چاہئے کہ وہ اس وقت اس عالم شہود سے حتی کہ اپنے ماحول اور اپنے دائیں بائیں والوں سے بھی غائب اور الگ ہو جائے ، اور اللہ کے سوا کوئی بھی اس وقت اس کے دل کی نگاہ کے سامنے نہ رہے ، پوری نماز میں اس کا حال یہی رہے ۔ پھر جب قعدہ اخیرہ میں تشہد اور درود شریف اور آخری دعا اللہ تعالیٰ کے حضور میں عرض کر کے اپنی نماز پوری کر لے ، تو اس کے باطن کا حال یہ ہو کہ گویا اب وہ کسی دوسرے عالم سے اس دنیا میں اور اپنے ماحول میں واپس آیا ہے اور دائیں بائیں والے انسانوں یا فرشتوں سے اب اس کی نئی ملاقات ہو رہی ہے اس لئے اب وہ ان کی طرف رخ کر کے اور ان ہی سے مخاطب ہو کر کہے : السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ اس عاجز کے نزدیک اس حکم کا یہی راز اور یہی اس کی حکمت ہے ۔ واللہ اعلم ۔ اس کے بعد سلام سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چند حدیثیں ذیل میں پڑھئے ۔ تشریح ....... اس حدیث میں نماز سے متعلق تین باتیں فرمائی گئی ہیں : ۱۔ اول یہ کہ نماز جو بارگاہ خداوندی کی خاص حاضری ہے طہارت اور باوضو ہونا اس کی کنجی یعنی اس کی مقدم شرط ہے ، اس کے بغیر کسی کے لئے اس بارگاہ دروازہ نہیں کھل سکتا ۔ ۲۔ دوسرے یہ کہ نماز کا افتتاحی کلمہ لفظ اللہ اکبر ہے ، اس کے کہتے ہی نماز والی ساری پابندیاں عائد ہو جاتی ہیں ، مثلاً کھانا پینا ، کسی سے بات چیت کرنا جیسے کام ، جن کی اجازت تھی ، وہ بھی ختم نماز تک کے لئے حرام ہو جاتے ہیں ، اس لئے اس کو “ تکبیر تحریمہ ” کہتے ہیں ۔ ۳۔ تیسری بات یہ فرمائی گئی ہے کہ نماز کا اختتامی کلمہ جس کے کہنے کے بعد نماز والی ساری پابندیاں ختم ہو جاتی ہیں ، اور جو جائز مباح چیزیں “ تکبیر تحریمہ ” کہنے کے بعد اس کے لئے ناجائز اور حرام ہو گئی تھیں وہ سب حلال ہو جاتی ہیں ، وہ کلمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ ہے ۔
خاتمہ نماز کا سلام
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خود دیکھا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیرتے وقت داہنی جانب اور بائیں جانب رخ فرماتے تھے اور چہرہ مبارک کو داہنی جانب اور بائیں جانب اتنا پھیرتے تھے کہ ہم رخسار مبارک کی سفیدی دیکھ لیتے تھے ۔ (صحیح مسلم) تشریح یہی بات الفاظ کے تھوڑے سے فرق کے ساتھ سنن اربعہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور سنن ابن ماجہ میں حضرت عمار بن یاسرؓ سے بھی مروی ہے ۔
سلام کے بعد ذکر و دعا
حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ : حضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) ! کون سی دعا زیادہ سنی جاتی ہے ؟ (یعنی کس وقت کی دعا زیادہ قبول ہوتی ہے) ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آخری رات کے درمیان (یعنی رات کے آخری حصہ میں جو تہجد کا وقت ہے) اور فرض نمازوں کے بعد ۔ (جامع ترمذی) تشریح نماز کے خاتمہ پر سلام سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو دعائیں مانگتے تھے ، یا جن دعاؤں کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع کے لئے تلقین فرمائی ہے ان کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے اب ذیل میں وہ حدیثیں پڑھئے جن میں بتایا گیا ہے کہ سلام کے بعد ذکر و دعا کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو کیا ہدایت فرمائی ہے اور خود اپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول اس بات میں کیا تھا ۔
سلام کے بعد ذکر و دعا
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھ سے فرمایا : اے معاذ ! مجھے تجھ سے محبت ہے ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! مجھے بھی آپ سے محبت ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (تو اس محبت کی بناء پر میں تجھ سے کہتا ہوں کہ) ہر نماز کے بعد اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ضرور کیا کرو ، اور کبھی اے نہ چھوڑو ۔ رَبِّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ (اے پروردگار ! میری مدد فرما اور مجھے توفیق دے اپنے ذکر کی ، اپنے شکر کی اور اپنی اچھی عبادت کی) ۔ (مسند احمد ، سنن ابی داؤد ، سنن نسائی)
سلام کے بعد ذکر و دعا
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوتے تو تین دفعہ کلمہ استغفار پڑھتے اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتے اور اس کے بعد کہتے : اللهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ ، تَبَارَكْتَ يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ (اے اللہ ! تو ہی سالم ہے (اور محفوظ و منزہ ہے ہر عیب و نقص سے ، حوادث و آفات سے ، ہر قسم کے تغیر و زوال سے) اور تیری ہی طرف سے اور تیرے ہی ہاتھ میں ہے سلامتی (جس کے لئے چاہئے اور جب چاہے سلامتی کا فیصلہ کرے ، اور جس کے لیے نہ چاہے نہ کرو) تو برکت والا ہے ۔ اے بزرگی والے تعظیم و اکرام والے ۔ (صحیح مسلم) تشریح حضرت ثوبانؓ کی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ نماز سے فارغ ہونے یعنی سلام پھیرنے کے بعد متصلا پہلے تین دفعہ استغفار کرتے تھے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے حضور میں عرض کرتے تھے أَسْتَغْفِرُ اللهَ ، أَسْتَغْفِرُ اللهَ أَسْتَغْفِرُ اللهَ یہ دراصل کمال عبدیت ہے کہ نماز جیسی عبادت کے بعد بھی اپنے کو قصور اور حق عباد ت ادا کرنے سے قاصر و عاجز سمجھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے معافی اور بخشش مانگی جائے ۔ اس حدیث میں استغفار کے بعد جو چھوٹی سی دعا حضرت ثوبانؒ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کی ہے صحیح روایات میں وہ صرف اتنی ہی وارد ہوئی ہے یعنی : اللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ ، وَمِنْكَ السَّلَامُ ، تَبَارَكْتُ يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ عوام میں اس دعا کے اندر وَمِنْكَ السَّلَامُ کے بعد جو یہ اضافہ مشہور ہے ۔ وإليك يرجع السلام فحينا ربنا بالسلام وادخلنا الجنة دارا السلام محدثین نے تصریح کی ہے کہ یہ بعد کا اضافہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت نہیں ہے ۔ واللہ اعلم ۔
سلام کے بعد ذکر و دعا
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر فرض نماز کے بعد کہا کرتے تھے ۔ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ ، لَهُ الْمُلْكُ (اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، وہ اکیلا اور یکتا ہے ، اس کا کوئی شریک ساجھی نہیں ، اسی کی حکومت اور فرمانروائی ہے اور وہی حمد و ستائش کا مستحق ہے اور ہر چیز پر اس کی قدرت ہے ، اے اللہ ! جو کچھ تو کسی کو دے دے کوئی اس کو روک سکنے والا نہیں ، اور کسی سرمایہ والے کو اس کا سرمایہ تجھ سے مستغنی نہیں کر سکتا (یعنی بڑے سے بڑا سرمایہ دار اور صاحب جاہ و عظمت بھی ہر آن تیرے کرم کا محتاج ہے) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
سلام کے بعد ذکر و دعا
ابو الزبیر تابعی بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے سنا ہے وہ اس منبر پر خطبہ دیتے ہوئے بیان فرماتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھیرنے کے بعد نماز کے ختم پر کہا کرتے تھے : لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ ، لَهُ الْمُلْكُ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، وہ اکیلا اور یکتا ہے ، اس کا کوئی شریک ساجھی اور نہیں ، اسی کی حکومت اور فرمانروائی ہے اور وہی حمد و ستائش کا مستحق ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ، گناہوں سے بچنے کی توفیق اور نیکی کرنے کی قوت سب اللہ ہی کے ارادہ سے ہے ۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، ہم صرف اسی کی عبادت کرتے ہیں ، سب نعمتیں اسی کی ہیں ، فضل و احسان اسی کا ہے ، اچھی تعریف بھی اسی کے لئے ہے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہم پورے اخلاص کے ساتھ اسی کی بندگی کرتے ہیں اگرچہ منکروں کو کتنا ہی ناگوار ہو ۔ (صحیح مسلم) تشریح مغیرہ بن شعبہؓ کی اوپر والی حدیث اور عبداللہ بن الزبیرؓ کی اس حدیث میں کوئی منافات نہیں ہے ۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز کے بعد اس طرح سنا گیا اور کبھی اس طرح جس نے جو سنا وہ نقل کر دیا ۔ اس قسم کے اذکار اور دعاؤں میں تنگی اور پابندی نہیں ہے ۔ وقت کی گنجائش اور اپنے ذوق کے مطابق جس کا جو جی چاہے پڑھ سکتا ہے ۔
سلام کے بعد ذکر و دعا
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ اپنے بچوں کو تعوذ کے یہ کلمات سکھایا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے بعد ان کلمات کے ذریعہ اللہ کی پناہ مانگا کرتے تھے اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الجُبْنِ اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں ، بزدلی سے اور تیری پناہ چاہتا ہوں بخل و کنجوسی سے ، اور تیری پناہ چاہتا ہوں نکمی عمر سے (یعنی ایسے بڑھاپے سے جس میں حواس اور قوی صحیح سلامت نہ رہیں اور آدمی بالکل نکما اور دوسرون کے لئے بوجھ بن جائے) اور تیری پناہ چاہتا ہوں دنیا کے فتنوں سے اور قبر کے عذاب سے ۔ (صحیح بخاری)
سلام کے بعد ذکر و دعا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو بندہ ہر نماز کے بعد ۳۳ دفعہ اللہ کی تسبیح کا کلمہ ، سبحان اللہ کہے اور اسی طرح ۳۳ دفعہ اللہ کی حمد کا کلمہ ، الحمد للہ کہے اور ۳۳ ہی دفعہ اللہ اکبر کہے ۔ یہ سب ۹۹ کلمے ہو گئے ، اور اس کے بعد سو کی گنتی پوری کرنے کے لئے ایک دفعہ کہے لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ تو اس کی سب خطائیں معاف کر دی جائیں گی ، اگرچہ وہ اپنی کثرت میں سمندر کے کف کے برابر ہوں ۔ (صحیح مسلم) تشریح نیک اعمال کی برکت سے گناہوں کی معافی اور مغفرت کی اس قسم کی بشارتوں کے بارے میں شرح حدیث کے اسی سلسلہ میں پہلے کئی جگہ ایک اصولی بات تفصیل سے لکھی جا چکی ہے وہ یہاں بھی ملحوظ رہنی چاہئے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں سبحان الله ، الحمدلله اور الله اكبر ان تین کلموں کا عدد ۳۳ ، ۳۳ بتایا گیا ہے ، اور سو کی گنتی پوری کرنے کے لئے ایک دفعہ کلمہ توحید لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ پڑھنے کے لئے فرمایا گیا ہے ۔ لیکن کعب بن عجرہ وغیرہ بعض دوسرے صحابہؒ کی روایت میں سبحان اللہ اور الحمدللہ ۳۳ ، ۳۳ دفعہ اور سو کی گنتی پوری کرنے کے لئے اللہ اکبر ۳۴ دفعہ پڑھنے کی ترغیب و تعلیم بھی وارد ہوئی ہے ۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اس طرح بتلایا ہے اور کبھی اس طرح دونوں ہی طریقے صحیح اور ثابت ہیں ۔ اپنے ذوق کے مطابق بندہ جس کو چاہے اختیار کرے ۔ یہی تین کلمے اسی تعداد میں سونے کے وقت پڑھنے کے لئے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم فرمائے ہیں عرف عام میں اسی کو “ تسبیح فاطمہ ” بھی کہتے ہیں ۔ ان شاء اللہ اس کی مزید تفصیل اور تشریح “ کتاب الدعوات ” میں کی جائے گی ۔
سلام کے بعد ذکر و دعا
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیرنے کے بعد نہیں بیٹھتے تھے مگر بقدر اس کے کہتے : اللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ ، وَمِنْكَ السَّلَامُ ، تَبَارَكْتَ يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ (اے اللہ ! تو سالم ہے ۔ یعنی محفوظ و منزہ ہے ہر عیب و نقص سے ، تمام آفات و حوادث سے ، ہر قسم کے تغیر و زول سے ۔ اور سلامتی تیری ہی طرف سے اور تیرے ہی ہاتھ میں ہے ۔ یعنی جب جس کے لئے تو چاہے سلامتی کا فیصلہ کرے اور نہ چاہے تو نہ کرے ۔ تو برکت والا ہے ، اے بزرگی اور برتری والے ، تعظیم و اکرام والے) ۔ (صحیح مسلم) تشریح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی اس روایت سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیرنے کے بعد صرف اس مختصر دعا اللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ کے بقدر ہی بیٹھتے تھے اور اس کے بعد فوراً اُٹھ جاتے تھے لیکن جو حدیثیں اوپر مذکور ہوئیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ سلام کے بعد اس کے علاوہ بھی مختلف دعائیں اور ذکر کے مختلف کلمات پڑھتے تھے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب اور تعلیم دیتے تھے ۔ بعض حضرات نے اس اشکال کو اس طرح حل کیا ہے کہ مندرجہ بالا حدیثوں میں اللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی حمد ، تسبیح اور توحید و تکبیر کے جن کلمات اور جن دعاؤں کا ذکر کیا گیا ہے ان کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیرنے کے بعد متصلاً نہیں پڑھتے تھے ، بلکہ بعد کی سنتوں وغیرہ سے فارغ ہونے کے بعد پڑھا کرتے تھے ، اور دوسروں کو ان کے پڑھنے کی جو ترغیب و تعلیم آپ نے دی ہے اس کا بھی یہی محل ہے ۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ جو حدیثیں اوپر ذکر کی گئی ہیں (اور ان کے علاوہ بھی نماز کے بعد دعاؤں کے بارے میں جو بہت سی حدیثیں کتب حدیث میں محفوظ ہیں) ان میں سے اکثر کے ظاہری الفاظ سے یہی مفہوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیرنے کے بعد متصلا یہ دعائیں اور ذکر کے یہ کلمات پڑھتے تھے اور دوسروں کو بھی اسی کی تعلیم دیتے تھے ، اس لیے اس عاجز کے نزدیک صحیح طریق کار وہ معلوم ہوتا ہے جو حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے حجۃ اللہ البالغہ میں اختیار فرمایا ہے ۔ وہ سلام کے بعد کی ان تمام ماثور دعاؤں کا حوالہ دینے کے بعد جو حدیث کی متداول کتابوں میں مروی ہیں (اور جن میں سے اکثر ان صفحات میں بھی نقل ہو چکی ہیں) فرماتے ہیں : “ بہتر یہ ہے کہ یہ دعا میں اور ذکر الہی کے یہ کلمے (سلام پھیرنے کے بعد متصلا) بعد والی سنتوں سے پہلے ہی پڑھے جائیں ، کیوں کہ اس سلسلہ کی بعض حدیثوں میں تو اس کی بالکل تصریح ہے ....... اور بعض کے الفاظ کا ظاہری تقاضا یہی ہے ........ رہی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث کہ : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیرنے کے بعد صرف اللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ ...... کہنے کے بقدر ہی بیٹھتے تھے ” تو اس کی کئی توجیہیں کی جا سکتی ہیں ۔ مثلا کہا جا سکتا ہے کہ حضرت صدیقہؓ کا مطلب یہ ہے کہ سلام پھیرنے کے بعد آپ نماز کی ہیئت پر صرف اسی قدر بیٹھتے تھے ، اس کے بعد نشست بدل دیتے تھے اور داہنی جانت یا بائیں جانب یا مقتدیوں کی طرف رخ کر کے بیٹھ جاتے تھے ۔ (جیسا کہ آپ کا یہ معمول بعض روایات سے بھی معلوم ہوتا ہے) اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ ہمیشہ ایسا ہی کرتے تھے ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ گاہ بگاہ ایسا بھی ہوتا تھا کہ آپ سلام پھیرنے کے بعد صرف اللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ ..... پڑھ کے اٹھ جاتے تھے اور ایسا آپ غالبا اس لئے کرتے تھے کہ لوگوں کو اپ کے عمل سے بھی معلوم ہو جائے کہ سلام کے بعد ان دعاؤں اور ذکر کے ان کلمات کا پڑھنا فرض یا واجب نہیں ہے ، بلکہ اس کا درجہ ایک مستحب اور نفلی عبادت کا ہے ۔ (حجۃ اللہ البالغہ ۔ جلد ثانی ص ۱۲) فائدہ ......... سلام کے بعد ذکر و دعا کے بارے میں جو حدیثیں اوپر مذکور ہوئیں ان سے یہ تو معلوم ہو چکا کہ نماز کے خاتمہ پر یعنی سلام کے بعد ذکر و دعا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عملا بھی ثابت ہے اور تعلیما بھی ، اور اس سے انکار کی گنجائش نہیں ہے ۔ لیکن یہ جو رواج ہے کہ سلام پھیرنے کے بعد دعا میں بھی مقتدی نماز ہی کی طرح امام کے پابند رہتے ہیں ۔ حتی کہ اگر کسی کو جلدی جانے کی ضرورت ہو تب بھی امام سے پہلے اس کا اٹھ جانا برا سمجھا جاتا ہے ، یہ بالکل بےاصل ہے بلکہ قابل اصلاح ہے ، امامت اور اقتداء کا رابطہ سلام پھیرنے پر ختم ہو جاتا ہے ، اس لئے سلام کے بعد دعا میں امام کی اقتداء اور پابندی ضروری نہیں ، چاہے تو مختصر دعا کر کے امام سے پہلے اٹھ جائے اور چاہے تو اپنے ذوق اور کیف کے مطابق دیر تک دعا کرتا رہے ۔
سنتیں اور نوافل: دن رات کی مؤکدہ سنتیں
ام المؤمنین حضرت ام حبیبہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص دن رات میں بارہ رکعتیں (علاوہ فرض نمازوں کے) پڑھے ، اس کے لیے جنت میں ایک گھر تیار کیا جائے گا (ان بارہ کی تفصیل یہ ہے) ۴ ظہر سے پہلے ، اور ۲ ظہر کے بعد ، ۲ مغرب کے بعد ، اور ۲ عشاء کے بعد اور ۲ فجر سے پہلے۔ (حضرت ام حبیبہؓ کی یہ روایت صحیح مسلم میں بھی ہے ، لیکن اس میں رکعات کی تفصیل مذکور نہیں ہے) ۔ تشریح شب و روز میں پانچ نمازیں تو فرض کی گئی ہیں اور وہ گویا اسلام کا رکن رکین اور لازمہ ایمان ہیں ۔ ان کے علاوہ ان ہی کے آگے پیچھے اور دوسرے اوقات میں بھی کچھ رکعتیں پڑھنے کی ترغیب و تعلیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے ۔ پھر ان میں سے جن کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکیدی الفاظ فرمائے یا دوسروں کو ترغیب دینے کے ساتھ جن کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عملا بہت زیادہ اہتمام فرمایا ان کو عرف عام میں “ سنت ” کہا جاتا ہے اور ان کے ماسواء کو “ نوافل ” (نوافل کے اصل معنی زوائد کے ہیں اور حدیثوں میں فرض نمازوں کے علاوہ باقی سب نمازوں کو “ نوافل ” کہا گیا ہے) ۔ پھر جن سنتوں یا نفلوں کو فرضوں سے پہلے پڑھنے کی تعلیم دی گئی ہے ، بظاہر ان کی خاص حکمت اور مصلحت یہ ہے کہ فرض نماز جو اللہ تعالیٰ کے دربار عالی کی خاص الخاص حضوری ہے (اور اسی وجہ سے وہ اجتماعی طور پر اور مسجد میں ادا کی جاتی ہے) اس میں مشغول ہونے سے پہلے انفرادی طور پر دو چار رکعتیں پڑھ کے دل کو اس دربار سے آشنا اور مانوس کر لیا جائے ، اور ملاء اعلیٰ سے ایک قرب و مناسبت پیدا کر لی جائے ۔ اور جن سنتوں یا نفلوں کو فرضوں کے بعد پڑھنے کی تعلیم دی گئی ہے ، ان کی حکمت اور مصلحت بظاہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ فرض نماز کی ادائیگی میں جو قصور رہ گیا ہو اس کا کچھ تدارک بعد والی ان سنتوں اور نفلوں سے ہو جائے ۔ (بطور جملہ معترضہ کے یہیں یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ جن نمازوں سے پہلے یا بعد میں سنتیں یا نفلیں پڑھنے کی ترغیب نہیں دی گئی ہے یا صراحۃً منع کیا گیا ہے ، اس کی کوئی خاص حکمت اور مصلحت ہے جو ان شاء اللہ اپنے موقع پر ذکر کی جائے گی) ۔ فرضوں کے آگے یا پیچھے والے سنن و نوافل کے علاوہ جن نوافل کی مستقل حیثیت ہے مثلا دن میں اور رات میں دراصل تقرب الی اللہ کے خاص طالبین کے لیے ترقی اور تخصص کا مخصوص نصاب ہے ۔ اس مختصر تمہید کے بعد سنن و نوافل سے متعلق حدیثیں پڑھئے : تشریح ..... اس حدیث میں ظہر سے پہلے چار رکعت سنت کا ذکر ہے ۔ بالکل اسی مضمون کی ایک حدیث سنن نسائی وغیرہ میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے بھی مروی ہے اور صحیح مسلم میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہی کی روایت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بھی یہی مروی ہے کہ : “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سے پہلے گھر میں چار رکعت سنت پڑھتے تھے ، اس کے بعد جا کر مسجد میں ظہر کی نماز پڑھاتے تھے پھر گھر میں تشریف لا کر ۲ رکعتیں پڑھتے تھے ، اسی طرح مغرب کی نماز پڑھانے کے بعد گھر میں تشریف لاتے تھے اور ۲ رکعتیں پڑھتے تھے ، پھر عشاء کی نماز پڑھانے کے بعد بھی گھر میں تشریف لا کر ۲ رکعتیں پڑھتے تھے ۔ آخر میں فرماتی ہیں پھر جب صبح صادق ہو جاتی تو فجر سے پہلے ۲ رکعتیں پڑھتے تھے ” ۔ لیکن بعض حدیثوں میں ظہر سے پہلے بجائے ۴ رکعت کے ۲ رکعت پڑھنے کا ذکر بھی ہے جیسا کہ آگے درج ہونے والی حدیث سے معلوم ہو گا ۔
سنتیں اور نوافل: دن رات کی مؤکدہ سنتیں
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ مىں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو رکعتیں پڑھی ہیں ظہر سے پہلے ، دو رکعتیں ظہر کے بعد ، اور دو رکعتیں مغرب کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں ، اور دو رکعتیں عشاء کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں اور مجھ سے بیان کیا میری بہن ام المؤمنین حفصہؓ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو ہلکی ہلکی رکعتیں پڑھتے تھے صبح صادق ہو جانے پر ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں ظہر سے پہلے دو رکعت پڑھنے کا ذکر ہے ۔ اس سلسلہ کی تمام حدیثوں کو سامنے رکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سے پہلے اکثر و بیشتر چار رکعت پڑھتے تھے ، اور کبھی کبھی صرف دو بھی پڑھتے تھے ۔ بہرحال دونوں ہی عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں اور جس پر بھی عمل کیا جائے سنت ادا ہو جائے گی ۔ اس ناچیز نے بعض اہل علم کو دیکھا ہے کہ وہ ظہر سے پہلے اکثر و بیشتر ۴ رکعت سنت پڑھتے ہیں ۔ لیکن جب دیکھتے ہیں کہ جماعت کا وقت قریب ہے تو صرف ۲ رکعت پر اکتفا کرتے ہیں ۔ مندرجہ بالا ان حدیثوں میں جن ۱۲ رکعت یا ۱۰ رکعت سنتوں کا ذکر ہے ، چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عملا ان کا زیادہ اہتمام فرماتے تھے اور ان میں سے بعض کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص تاکید بھی فرمائی ہے اس لئے ان کو سنت مؤکدہ سمجھا گیا ہے ۔ ان میں سب سے زیادہ تاکید آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی سنتوں کے بارے میں فرمائی ہے ۔
فجر کی سنتوں کی خاص اہمیت اور فضیلت
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : فجر کی دو رکعت سنت دنیا وما فیہا سے بہتر ہیں۔ (صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ آخرت میں فجر کی دو رکعت سنت کا جو ثواب ملنے والا ہے وہ “ دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے ” ان سب سے زیادہ قیمتی اور کارآمد ہے ۔ دنیا وما فیہا سب فانی ہے اور ثواب آخرت باقی غیر فانی ہے ۔ اس حقیقت کا پورا انکشاف بلکہ مشاہدہ ان شاء اللہ ہم سب کو آخرت میں ہو جائے گا ۔
فجر کی سنتوں کی خاص اہمیت اور فضیلت
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : فجر کی دو رکعت سنت نہ چھوڑو اگرچہ حالت یہ ہو کہ گھوڑے تم کو دوڑا رہے ہوں (مطلب یہ ہے کہ اگر تم سفر میں ہو اور گھوڑوں کی پشت پر تیزی سے منزلیں طے کر رہے ہو تب بھی فجر کی سنتیں نہ چھوڑو) ۔ (سنن ابی داؤد)
فجر کی سنتوں کی خاص اہمیت اور فضیلت
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سنتوں اور نفلوں میں سے کسی نماز کا بھی اتنا زیادہ اہتمام نہیں فرماتے تھے جتنا کہ فجر سے پہلے کی دو رکعتوں کا فرماتے تھے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
فجر کی سنتوں کی خاص اہمیت اور فضیلت
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : جس نے فجر کی سنتیں نہ پڑھی ہوں اس کو چاہئے کہ وہ سورج نکلنے کے بعد ان کو پڑھے۔ (جامع ترمذی)
فجر کے علاوہ دوسرے اوقات کے سنن و نوافل کی فضیلت
حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ظہر کے پہلے کی چار رکعتیں ، جن کے درمیان سلام نہ پھیرا جائے ، یعنی چار مسلسل پڑھی جائیں ۔ ان کے لئے آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں ۔ (سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ)
فجر کے علاوہ دوسرے اوقات کے سنن و نوافل کی فضیلت
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ ظہر سے پہلے کی چار رکعتیں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں پڑھی ہوتی تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو ظہر سے فارغ ہونے کے بعد پڑھتے تھے ۔ (جامع ترمذی) تشریح ابن ماجہ کی روایت میں یہ تصریح ہے کہ ایسی صورت میں ظہر سے پہلے والی چار رکعتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بعد والی دو رکعتوں کے بعد پڑھتے تھے ۔
فجر کے علاوہ دوسرے اوقات کے سنن و نوافل کی فضیلت
حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو کوئی ظہر سے پہلے چار رکعتیں اور ظہر کے بعد چار رکعتیں برابر پڑھا کرے اللہ رتعالیٰ اس کو دوزخ کی آگ پر حرام کر دے گا۔ تشریح بعض شارحین نے لکھا ہے کہ ظہر کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چونکہ دو ہی رکعت پڑھنا زیادہ ثابت ہے (جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ، حضرت عبداللہ بن عمر اور خود حضرت ام حبیبہ (رضی اللہ عنہم) کی مندرجہ بالا حدیثوں سے معلوم ہو چکا ہے) اس لئے ظہر کے بعد موکدہ سنت تو صرف دو ہی رکعت ہے ، لہذا چار رکعت پڑھنے کی صورت یہ ہو گی کہ ان مؤکدہ دو رکعت کے علاوہ مزید دو رکعت نفل پڑھی جائیں ۔ فائدہ ........ ہمارے دیار میں ظہر کی دو سنتوں کے بعد مزید دو نفل پڑھنے کا کافی رواج ہے ، لیکن اکثر عوام ان نفلوں کو (بلکہ عام طور سے ہر وقت کے نوافل کو) بیٹھ کے پڑھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ نوافل بیٹھ کے ہی پڑھنے چاہئیں ، حالانکہ یہ سراسر غلط ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صریح حدیث ہے کہ بیٹھ کے نماز پڑھنے کا ثواب کھڑے ہو کے پڑھنے کے مقابلے میں آدھا ملے گا ۔
فجر کے علاوہ دوسرے اوقات کے سنن و نوافل کی فضیلت
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ رحمت اس بندے پر جو پڑھے عصر سے پہلے چار رکعتیں ۔ تشریح عصر سے پہلے چار رکعت نفل کے بارے میں یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ترغیبی ارشاد ہے اور اسی کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بھی روایت کیا گیا ہے ، اور کبھی کبھی عصر سے پہلے دو رکعت پڑھنا بھی آپ سے ثابت ہے ۔
فجر کے علاوہ دوسرے اوقات کے سنن و نوافل کی فضیلت
حضرت عمار بن یاسر کے صاحبزادے محمد بن عمار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے اپنے والد ماجد عمار بن یاسرؒ کو دیکھا کہ وہ مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھتے تھے اور بیان فرماتے تھے کہ میں نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھتے تھے اور فرماتے تھے کہ جو بندہ مغرب کے بعد چھ رکعت نماز پڑھے اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے ، اگرچہ وہ کثرت میں سمندر کے کف کے برابر ہوں ۔ (معجم طبرانی) تشریح مغرب کے بعد دو رکعت تو سنت موکدہ ہیں جن کا ذکر حضرت ام حبیبہ ، حضرت عائشہ صدیقہؓ اور عبداللہ بن عمرؓ کی مندرجہ بالا حدیثوں میں آ چکا ہے ۔ ان کے علاوہ ۴ رکعت نفل اور پڑھی جائیں تو ۶ ہو جائیں گی ، اور بندہ گنوہوں کی مغفرت کی اس بشارت کا مستحق ہو جائے گا جو اس حدیث میں دی گئی ہے ۔
فجر کے علاوہ دوسرے اوقات کے سنن و نوافل کی فضیلت
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز پڑھ کے (آرام فرمانے کے لیے) بارے میرے پاس تشریف لائے ہوں اور آپ نے چار رکعتیں یا چھ رکعتیں نہ پڑھی ہوں ۔ تشریح عشاء کے بعد دو رکعت تو سنت موکدہ ہے جس کا ذکر حضرت ام حبیبہ ، حضرت عائشہ صدیقہؓ و حضرت ابن عمرؒ وغیرہ کی مندرجہ بالا حدیثوں میں بھی گزر چکا ہے ، بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کے بعد اور آرام فرمانے سے پہلے اس دو رکعت سنت موکدہ کے علاوہ کبھی ۲ رکعت اور کبھی ۴ رکعت مزید نفل پڑھتے تھے ۔ واللہ اعلم ۔
وتر
حضرت خارجہ بن حذافہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کاشانہ نبوت سے) باہر تشریف لائے اور ہم سے مخاطب ہو کر فرمایاکہ : اللہ تعالیٰ نے ایک اور نماز مزید تمہیں عطا فرمائی ہے ، وہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بھی بہتر ہے ، (جن کو تم دنیا کی عزیز ترین دولت سمجھتے ہو) وہ نماز وتر ہے ، اللہ تعالیٰ نے اس کو تمہارے واسطے نماز عشاء کے بعد سے طلوع صبح صادق تک مقرر کیا ہے “ ۔ (یعنی وہ اس وسیع وقت کے ہر حصے میں پڑھی جا سکتی ہے) ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد)
وتر
حضرت بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “ وتر حق ہے ، جو وتر ادا نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے ، وتر حق ہے ، جو وتر ادا نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے ، وتر حق ہے ، جو وتر ادا نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے “ ۔ (یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دفعہ ارشاد فرمائی) ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح ظاہر ہے کہ وتر کے بارے میں تشدید اور تہدید کے یہ آخری الفاظ ہیں ، اسی قسم کی حدیثوں سے حضرت امام ابو حنیفہؒ نے یہ سمجھا ہے کہ وتر صرف سنت نہیں ہے بلکہ واجب ہے ، یعنی اس کا درجہ فرض سے کم اور موکدہ سنتوں سے زیادہ ہے ۔
وتر
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص وتر سے سوتا ره جائے ، (یعنی نیند کی وجہ سے اس کی نماز وتر قضا ہو جائے) یا بھول جائے تو جب یاد آئے یا جب وہ جاگے تو اسی وقت پڑھ لے “ ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، و سنن ابن ماجہ)
وتر
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا رات میں اپنی آخری نماز وتر کو بناؤ ۔ “ (یعنی رات کی نمازوں میں تمہاری آخری نماز وتر ہو) ۔ (صحیح مسلم)
وتر
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس کو یہ اندیشہ ہو کہ روات میں وہ اٹھ نہ سکے گا (یعنی سوتا رہ جائے گا) تو اس کو چاہئے کہ رات کے شروع ہی میں (یعنی عشاء کے ساتھ ہی) وتر پڑھ لے اور جس کو اس کی پوری امید ہو کہ وہ (تہجد کے لیے) آخر شب میں اٹھ جائے گا تو اس کو چاہیئے کہ آخر شب ہی میں (یعنی تہجد کے بعد) وتر پڑھے اس لئے کہ اس وقت کی نماز میں ملائکہ رحمت حاضر ہوتے ہیں اور وہ وقت بڑی فضیلت کا ہے۔ (صحیح مسلم) تشریح وتر کے بارے میں عام حکم یہی ہے کہ جو ان دو حدیثوں سے معلوم ہوا ، یعنی یہ کہ نماز وتر رات کی سب نمازوں کے بعد میں اور آخر میں پڑھی جائے ، یعنی نوافل کے بھی بعد اور یہ کہ جس کسی کو اخیر شب میں اٹھنے کے بارے میں اعتماد ہو وہ وتر شروع رات میں نہ پڑھے بلکہ آخر شب میں تہجد کے ساتھ پڑھے ، اور جس کو یہ اعتماد نہ ہو وہ شروع رات ہی پڑھ لیا کرے ۔ لیکن بعض صحابہؒ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خاص حالات کی بناء پر شروع رات ہی میں وتر پڑھ لینے کی ہدایت فرمائی تھی ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بھی انہی میں سے تھے ۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ان کا یہ بینا موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وہ چند خاص وصیتیں فرمائی تھیں ان مین سے ایک یہ بھی تھی کہ : “ میں شروع رات ہی میں وتر پڑھ لیا کروں ” ۔
وتر
حضرت عبداللہ بن ابی قیس تابعی سے روایت ہے کہ میں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا : کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کتنی رکعت وتر پڑھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ : چار اور تین ، اور چھ اور تین ، اور آٹھ اور تین اور دس اور تین۔ اور سات سے کم اور تیرہ سے زیادہ وتر نہیں پڑھتے تھے۔ (سنن ابی داؤد) تشریح ..... بعض صحابہ کرامؓ تہجد اور وتر کے مجموعے کو بھی وتر ہی کہا کرتے تھے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا طریقہ بھی یہی تھا ، انہوں نے اس حدیث میں عبداللہ بن ابی قبیس کے سوال کا جواب بھی اسی اصول پر دیا ہے ۔ ان کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی تین رکعتوں سے پہلے تہجد کبھی صرف چار رکعت پڑھتے تھے ، کبھی چھ رکعت کبھی آٹھ رکعت اور کبھی دس رکعت ، لیکن چار رکعت سے کم اور دسد رکعت سے زیادہ تہجد پڑھنے کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول نہیں تھا اور تہجد کی ان رکعتوں کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی تین رکعتیں پڑھتے تھے ۔
وتر کی قرأت
عبدالعزیز بن جریج تابعی بیان کرتے ہیں کہ ہم نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے دریافت کیا کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر میں کون کون سی سورتیں پڑھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ : پہلی رکعت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم “ سبح اسم ربك الأعلى ” پڑھتے تھے اور دوسری میں “ قل يا أيها الكافرون ” اور تیسری رکعت میں “ قل هو الله أحد ” اور معوذتین (یعنی قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ) پڑھتے تھے۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد) تشریح وتر کی پہلی رکعت میں سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى دوسری میں قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ اور تیسری رکعت میں قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ پڑھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت ابی بن کعب اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بھی روایت کی اہے ، لیکن ان دونوں حضرات نے تیسری رکعت میں “ معوذتین ” پڑھنے کا ذکر نہیں کیا معلوم ہوتا ہے کہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیسری رکعت میں صرف سورہ اخلاص پڑھتے تھے اور کبھی اسی کے ساتھ معوذتین بھی ۔ واللہ اعلم ۔
قنوت وتر
حضرت حسن بن علی رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند کلمے تعلیم فرمائے جن کو میں قنوت وتر میں پڑھتا ہوں ، اللهم اهدني فيمن هديت ” اے اللہ ! جن بندوں کو تو ہدایت عطا فرمائے ان کے ساتھ مجھے بھی ہدایت دے اور جن کو عافیت (یعنی دنیا اور آخرت کی تمام بلاؤں سے سلامتی) عطا فرمائے ان کے ساتھ مجھے بھی عافیت دے ، میرا متولی اور کارساز بن جا ان بندوں کے ساتھ جن کا تو کارساز بنے ، اور مجھے برکت دے ان تمام چیزوں میں جو تو مجھے عطا فرمائے اور اپنے فیصلوں کے اثرات بد سے میری حفاظت فرما ، تو ہی سارے فیصلے کرتا ہےاور احکام جاری کرتا اور تجھ پر کسی کا حکم نہیں چلتا ، ، بلا شبہ جس سے تیری دوستی ہو وہ ذلیل و خوار نہیں (وہ ہر حال میں معزز و محترم ہے) ، تو برکت والا ہے اور تیری شان بلند ہے اے میرے مالک اور پروردگار ! ۔ “ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ ، سنن دارمی) تشریح اس قنوت کی بعض روایات میں إِنَّهُ لَا يَذُلُّ مَنْ وَّالَيْتَ کے بعد ولا يعز من عاديت بھی روایت کیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ جس سے تیری دشمنی ہو وہ کسی حال میں باعزت نہیں ۔ اور بعض روایات میں تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ کے بعد استغفرك واتوب اليك بھی روایت کیا گیا ہے ۔ یعنی اے میرے رب میں تجھ سے گناہوں کی مغفرت اور بخشش مانگتا ہوں اور تیری طرف رجوع کرتا ہوں ۔ اور بعض روایات میں توبہ اور استغفار کے اس کلمی کے بعد اس درود کا بھی اضافہ ہے ۔ وَصَلَّى اللهُ عَلَى النَّبِىِّ (اور اللہ تعالیٰ رحمتیں نازل فرماے ، اپنے پاک نبی پر) ۔ اکثر ائمہ اور علماء نے وتر میں پڑھنے کے لیے اسی قنوت کو اختیار فرمایا ہے ۔ حنفیہ میں جو قنوت رائج ہے اللَّهُمَّ اِنَّا نَسْتَعِيْنُكَ اس کو امام ابن ابی شیبہؒ اور امام طحاویؒ وغیرہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے ۔ علامہ شامی نے بعض اکابر احناف سے نقل کیا ہے کہ بہتر یہ ہے کہ اللَّهُمَّ اِنَّا نَسْتَعِيْنُكَ کے ساتھ حضرت حسن بن علیؒ والی یہ قنوت اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ بھی پڑھی جائے ۔
قنوت وتر
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے وتر كے آخر میں یہ دعا کیا کرتے تھےاللهم إني أعوذ برضاك من سخطك اے اللہ ! میں تیری ناراضی سے تیری رضا مندی کی پناہ لیتا ہوں ، اور تیری سزا اور تیرے عذاب سے تیری عافیت بخشی کی پناہ لیتا ہوں ، اور تجھ سے تیری پناہ لیتا ہوں مجھ سے تیری ثناء صفت کا حق ادا نہیں ہو سکتا (بس یہی عرض کر سکتا ہوں کہ) تو ویسا ہی ہے جیسا کہ تو نے اپنی ثناء و صفت بیان کی ہے۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی ، سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ) تشریح سبحان اللہ ! کیسا لطیف مضمون ہے اس دعا کا ، حاصل پوری دعا کا یہ ہے کہ اللہ کی ناراضی ، اللہ کی سزا ، اللہ کی پکڑ اور اس کے جلال سے کوئی جائے پناہ نہیں ، بس اسی کی رحمت و عنایت اور اسی کی کریم ذات پناہ دے سکتی ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں صرف اتنا مذکور ہے کہ “ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دیا اپنے وتر کے آخر میں کرتے تھے ” ۔ اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیسری رکعت میں قنوت کے طور پر یہ دعا کرتے تھے ، اور بعض ائمہ اور علماء نے یہی سمجھا ہے ۔ اور یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ وتر کے آخری قعدہ میں سلام سے پہلے یا سلام کے بعد آپ یہ دعا کرتے تھے ، اور یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ وتر کے آخری سجدوں میں آپ یہ دعا کرتے تھے ۔ صحیح مسلم میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک دفعہ انہوں نے رات کی نماز کے سجدے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہی دعا کرتے ہوئے سنا تھا ۔ بہر حال ان سب ہی صورتوں کی گنجائش ہے ، اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے ۔
قنوت وتر
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب وتر کا سلام پھیرتے تھے تو کہتے تھے سبحان الملك القدوس۔ (سنن ابی داؤد و سنن نسائی) تشریح نسائی کی روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کلمہ تین دفعہ کہتے تھے ، اور اس کو طویل کرتے تھے (یعنی کھینچ کر پڑھتے تھے) ۔ اور بعض روایات میں ہے کہ “ ويرفع صوته بالثالثة ” یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کلمہ تیسری دفعہ بلند آواز سے کہتے تھے ۔
وتر کے بعد کی دو رکعت نفل
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کے بعد دو رکعتیں اور پڑھتے تھے ۔ (جامع ترمذی) تشریح اس حدیث کو ابن ماجہ نے بھی روایت کیا ہے اور اس میں یہ اضافہ کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کے بعد کی یہ دو رکعتیں ہلکی ہلکی اور بیٹھ کر پڑھتے تھے ۔ تشریح ..... وتر کے بعد دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت ام سلمہؒ کے علاوہ حضرت عائشہ صدیقہؓ اور حضرت امامہؓ نے بھی روایت کیا ہے ۔ انہی احادیث کی بناء پر بعض علماء وتر کے بعد کی ان دو رکعتوں کا بیٹھ کر پڑھنا ہی افضل سمجھتے ہیں ۔ لیکن دوسرے حضرات فرماتے ہین کہ اس بار میں عام امتیوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قیاس نہیں کیا جا سکتا ۔ صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیٹھ کر نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو دریافت کیا کہ مجھے تو کسی نے آپ کے حوالے سے یہ بتایا تھا کہ بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کو کھڑے ہو کر پڑھنے والے سے آدھا ثواب ملتا ہے ، اور آپ بیٹھ کر پڑھ رہے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں مسئلہ وہی ہے (یعنی بیٹھ کر نماز پڑھنے کا ثواب کھڑے ہو کر پڑھنے کے مقابلے میں آدھا ہوتا ہے) لیکن میں اس معاملہ میں تمہاری طرح نہیں ہو ، میرے ساتھ اللہ کا معاملہ استثنائی ہے ، یعنی مجھے بیٹھ کر پڑھنے کا بھی پورا ثواب ملتا ہے ۔ اس حدیث کی بناء پر اکثر علماء اس کے قائل ہیں کہ وتر کے بعد ان دو رکعتوں کے لیے کوئی الگ اصول نہیں ہے ، بلکہ وہی عام اصول اور قاعدہ ہے کہ بیٹھ کر پڑھنے کا ثواب کھڑے ہو کر پڑھنے کے مقابلے میں آدھا ہو گا ۔ واللہ اعلم ۔ وتر کے بارے میں یہ حدیث اوپر گزر چکی ہے کہ “ وتر رات کی سب سے آخری نماز ہونی چاہئے ، وتر کے بعد یہ دو رکعتیں پڑھنا اس حدیث کے خلاف نہیں ہو گا ، کیوں کہ یہ دو رکعتیں دراصل وتر ہی کی تابع ہیں ، ان کی کوئی مستقل حیثیت نہیں ہے ۔
قیام لیل یا تہجد ۔ اس کی فضیلت اور اہمیت
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہمارا مالک اور رب تبارک وتعالیٰ ہر رات کو جس وقت آخری تہائی رات باقی رہ جاتی ہے۔ سماء دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے کون ہے جو مجھ سے دعا کرے اور میں اس کی دعا قبول کروں ، کون ہے جو مجھ سے مانگے ، اور میں اس کو عطا کروں کون ہے جو مجھ سے مغفرت اور بخشش چاہے ، میں اس کو بخش دوں۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح عشاء اور فجر کے درمیان کوئی نماز فرض نہیں کی گئی ہے ۔ اگر عشاء اول وقت ہی میں پڑھ لی جائے یا کچھ دیر کر کے بھی پڑھی جائے تو فجر تک بہت بڑا وقت خالی رہ جاتا ہے ، حالانکہ یہ وقت اس لحاظ سے نہایت قیمتی ہوتا ہے کہ فضا میں جیسا سکون رات کو سناٹے میں ہوتا ہے ایسا دوسرے کسی وقت میں نہیں ہوتا ، اور اگر عشاء کے بعد آدمی کچےھ دیر کے لیے سو جائے اور آدھی رات گزرنے کے بعد کسی وقت اٹھ جائے (جو تہجد کا اصلی وقت ہے) تو پھر اس وقت جیسی یکسوئی اور دلجمعی کے ساتھ نماز نصیب ہو جاتی ہے وہ دوسرے وقت نصیب نہیں ہوتی ، علاوہ ازیں اس وقت بستر چھوڑ کے نماز پڑھنا نفس کی ریاضت اور تربیت کا بھی خاص وسیلہ ہے ۔ قرآن مجید میں بھی فرمایا گیا ہے : “ إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا (رات کو نماز کے لیے کھڑے ہونا نفس کو بہت زیادہ دبانے والا عمل ہے اور اس وقت (دعا یا قرأت میں) جو زبان سے نکلتا ہے وہ بالکل ٹھیک اور دل کے مطابق یعنی دل سے نکلتا ہے) ۔ دوسری جگہ قرآن مجید میں ایسے بندوں کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے ۔ “ تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا ” اُن کے پہلو (اس وقت میں جو لوگوں کے سونے کا خاص وقت ہے) خواب گاہوں سے الگ رہتے ہیں ، وہ اس وقت اپنے پروردگار سے کو اُمید و بیم کے ساتھ دعائیں کرتے ہیں) آگے فرمایا گیا ہے کہ ان بندوں کے اس عمل کا جو انعام اور صلہ جنت میں ملنے والا ہے ۔ جس میں ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کا پورا سامان ہے ۔ اس کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ (السجدہ) اور قرآن مجید میں ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تہجد کا حکم دینے کے ساتھ آپ کو “ مقام محمود ” کی امید دلائی گئی ہے ۔ فرمایا گیا ہے : “ وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا ” اور اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ اس قرآن کے ساتھ تہجد پڑھئے (یعنی تہجد میں خوب قران پڑھا کیجئے) یہ حکم آپ کے لئے زائد اور مخصوص ہے ، امید رکھنا چاہئے کہ آپ کو آپ کا رب “ مقامِ محمود ” پر فائز کرے گا ۔ “ مقام محمود ” عالم آخرت میں اور جنت میں بلند ترین مقام ہو گا ۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ “ مقام محمود ” اور نماز تہجد میں کوئی خاص نسبت اور تعلق ہے ، اس لیے جو امتی نماز تہجد سے شغف رکھیں گے ان شاء اللہ “ مقام محمود ” میں کسی درجہ کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت ان کو بھی نصیب ہو گی ۔ احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رات کے آخری حصے میں اللہ تعالیٰ اپنے پورے لطف و کرم اور اپنی خاص شان رحمت کے ساتھ اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے ، اور جن بندوں کو ان باتوں کا کچھ احساس و شعور بخشا گیا ہے وہ اس مبارک وقت کی خاص برکات کو محسوس بھی کرتے ہیں ۔ اس تمہید کے بعد اب قیام لیل اور تہجد سے متعلق حدیثیں پڑھئے ! تشریح ..... سماء دنیا کی طرف اللہ تعالیٰ کا نزول فرمانا جس کا اس حدیث میں ذکر ہے ، اللہ تعالیٰ کی ایک صفت اور اس کا ایک فعل ہے جس کی حقیقت ہم نہیں جانتے ، جس طرح ید اللہ ، وجہ اللہ اور استویٰ علی العرش اور اس کے عام صفات و افعال کی حقیقت اور کیفیت بھی ہم نہیں جانتے ، اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات و افعال کی حقیقت اور کیفیت کے علم سے اپنی عاجزی اور جہالت کا اقرار و اعتراف ہی علم ہے ۔ ائمہ سلف کا طریقہ اور مسلک یہی رہا ہے کہ ان کے بارے میں اپنی نارسائی اور بےعلمی کا اقرار کیا جائے اور ان کی حقیقت اور کیفیت کا علم دوسرے متشابہات کی طرح خدا کے سپرد کیا جائے اور مانا جائے کہ جو بھی حقیقت ہے وہ حق ہے ۔ لیکن اس حدیث کا یہ پیغام بالکل واضح ہے کہ رات کے آخری تہائی حصے میں اللہ تعالیٰ اپنی خاص شان رحمت کے ساتھ بندوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور خود ان کو دعا اور سوال اور استغفار کے لیے پکارتا ہے ۔ جو بندے اس حقیقت پر یقین رکھتے ہیں ان کے لیے اس وقت بسترے پر سوتے رہنا ، اس سے زیادہ مشکل ہوتا ہے ، جتنا دوسروں کے لیے اسوقت بستر چھوڑ کر کھڑا ہونا ۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس حقیقت کا ایسا یقین نصیب فرمائے جو اس وقت بے چین کر کے اللہ تعالیٰ کے دربار کی حاضری اور دعا و سوال و استغفار کے لیے کھڑا کر دیا کرے ۔
قیام لیل یا تہجد ۔ اس کی فضیلت اور اہمیت
حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ بندے سے سب سے زیادہ قریب رات کے آخری رمیانی حصے میں ہوتا ہے ، پس اگر تم سے ہو سکے کہ تم ان بندوں میں سے ہو جاؤ جو اس مبارک وقت میں اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو تم ان میں ہو جاؤ ۔ (جامع ترمذی) تشریح اس حدیث میں آخری شب میں اللہ تعالیٰ کے ذخر کی ترگیب دی گئی ہے اور ذکر اگرچہ عام ہے لیکن نماز ذکر کی اعلیٰ اور مکمل ترین شکل ہے کیوں کہ وہ دل ، زبان ، اعضاء سب کے ذکر کا مجموعہ ہے ۔
قیام لیل یا تہجد ۔ اس کی فضیلت اور اہمیت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : فرض نماز کے بعد سب سے افضل درمیان رات کی نماز ہے (یعنی تہجد) ۔ (صحیح مسلم)
قیام لیل یا تہجد ۔ اس کی فضیلت اور اہمیت
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم ضرور پڑھا کرو تہجد ، کیوں کہ وہ تم سے پہلے صالحین کا طریقہ اور شعار رہا ہے اور قرب الٰہی کا خاص وسیلہ ہے اور وہ گناہوں کے برے اثرات کو مٹانے والی اور معاصی سے روکنے والی چیز ہے ۔ (جامع ترمذی) تشریح اس حدیث میں نماز تہجد کی چار خصوصیتیں ذکر فرمائی گئی ہیں اول یہ کہ وہ دور قدیم سے اللہ کے نیک بندوں کا طریقہ اور شعار رہا ہے ۔ دوسرے یہ کہ تقریب الہٰی کا خاص وسیلہ اور ذریعہ ہے ۔ تیسرے اور چوتھے یہ کہ اس میں گناہوں کا کفارہ بن کر ان کے اثرات کو مٹانے اور معاصی سے روکنے کی خاصیت ہے ۔ حق یہ ہے کہ نماز تہجد عظیم ترین دولت ہے ۔ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں منقول ہے کہ ان کے وصال کے بعد حضرات نے ان کو خواب میں دیکھا تو پوچھا کہ کیا گزری اور آپ کے پرورچگار نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا ؟ ۔ جواب میں فرمایا : تاهت العبارات وفنيت الاشارات وما نفعنا الا ركعات صليناها فى جوف الليل (یعنی حقائق و معارف کی جو اونچی اونچی باتیں ہم عبارات اور اشارات میں کیا کرتے تھے وہ سب وہاں ہوا ہو گئیں اور بس وہ رکعتیں کام آئیں جو رات میں ہم پڑھا کرتے تھے) ۔
قیام لیل یا تہجد ۔ اس کی فضیلت اور اہمیت
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قدر قیام فرمایا (یعنی رات کو نماز تہجد اتنی طویل پڑھی) کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک متورم ہو گئے ، تو آپ سے عرض کیا گیا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں جب کہ آپ کی اگلی پچھلی ساری تقصیریں معاف ہو گئی ہیں (اور اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس کا اعلان فرما کے آپ کو اس بارے میں مطمئن بھی کر دیا ہے) ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تو کیا میں (اس کے احسان عظیم کا) زیادہ شکر کرنے والا بندہ نہ بنوں (اور اس شکر گزاری میں اس کی اور زیادہ عبادت نہ کروں) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم با آنکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم گنہگاروں کی طرح عبادت و ریاضت کی زیادہ ضرورت نہ تھی اور باوجود اس کے آپ کا چلنا پھرنا حتیٰ کہ سونا بھی کار ثواب تھا ، لیکن پھر بھی آپ راتوں میں اتنی طویل نماز پڑھتے تھے کہ قدم مبارک متورم ہو جاتے تھے ۔ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم جیسے راحت طلب نام لیواؤں اور نیابت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مدعیوں کے لیے بڑا سبق ہے ۔ عقیدہ عصمت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذنوب کی مغفرت اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذنوب کی مغفرت کا ذکر ہے ، اور ذنب کے معنی عام طور سے گناہ کے لیے جاتے ہیں ، اس لیے یہ سوال پیدا ہو جاتا ہے کہ جب عصمت انبیاء اہل حق کا مسلم عقیدہ ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذنوب کی مغفرت کا کیا مطلب ہے ؟ اس کے جواب میں جو کچھ کہا گیا ہے اور کہا جاتا ہے اس میں سب سے زیادہ معقول اور دل لگتی بات اس عاجز کے نزدیک یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معصوم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان برائیوں سے محفوظ ہیں جو معصیات اور منکرات کے قبیلہ سے ہیں اور جو امت کے حق میں بھی گناہ ہیں ، لیکن ایسی باتیں ہر نبی سے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی صادر ہو سکتی ہیں جو اگرچہ معصیت اور گناہ نہ ہوں لیکن خلاف اولیٰ یا آپ کی شان عالی کے لحاظ سے نامباسب ہوں ۔ جیسا کہ مثلا شہد کی تحریم کا واقعہ یا عبداللہ بن ام مکتوم سے ایک موقع پر بے اعتنائی برتنے کا واقعہ جن پر سورہ تحریم اور سورہ عبس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو محبت کے خاص انداز میں تنبیہ فرمائی گئی ۔ بہرحال اس قسم کی معمولی لغزشیں حضرات انبیاء علیہم السلام سے بھی سرزد ہو جاتی ہیں اور اگرچہ یہ چیزیں معصیت اور گناہ کی حد میں نہیں آتیں ۔ لیکن “ قریباں لا بیش بود حیرانی ” کے اصول پر یہ حضرات اپنی ان معمولی لغزشوں سے اتنے رنجیدہ اور فکر مند ہوتے تھے کہ ہم عوام اپنے موٹے موٹے گناہوں سے بھی اتنے فکر مند نہیں ہوتے ۔ پس قرآن و حدیث میں جہاں کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی بھی پیغمبر کے ذنوب کی مغفرت کا ذکر آتا ہے وہاں اسی قسم کی لغزشوں اور کوتاہیوں کی معافی مراد ہوتی ہے ۔ ذنب کے لغوی معنی میں اتنی وسعت ہے کہ اس سے اس قسم کی لغزشیں اور کوتاہیاں بھی مراد ہو سکتی ہیں ۔
قیام لیل یا تہجد ۔ اس کی فضیلت اور اہمیت
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کی رحمت اس بندے پر جو رات کو اٹھا اور اس نے تہجد پڑھی اور اپنی بیوی کو بھی جگایا ، اور اس نے بھی نماز پڑھی اور اگر نیند کے غلبہ کی وجہ سے وہ نہیں اٹھی تو اس کے منہ پر پانی کا ہلکا سا چھینٹا دے کر اس کو بیدار کر دیا ۔ اور اسی طرح اللہ کی رحمت اس بندی پر جو رات کو نماز تہجد کے لیے اٹھی اور اس نے نماز ادا کی اور اپنے شوہر کو بھی جگایا ، پھر اس نے بھی اٹھ کر نماز پڑھی ، اور اگر وہ نہ اٹھا تو اس کے منہ پر پانی کا ہلکا سا چھینٹا دے کر اٹھا دیا ۔ (سنن ابی داؤد سنن نسائی) تشریح اس حدیث کو سمجھنے کے لیے یہ بات ملحوظ رہنی چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن صحابہ کرامؓ کے سامنے یہ بات فرمائی تھی وہ نماز تہجد کے بارے میں آپ کے ارشادات سن سن کر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال دیکھ دیکھ کر یقین کے ساتھ جانتے تھے اس میں بندہ کیا پاتا ہے اور اس سے محروم رہ جانا کتنا بڑا خسارہ ہے ۔ فرق مراتب کے باوجود عام صحابہ کرامؓ اور صحابیاتؓ کا یہی حال تھا ، اس لیے قدرتی طور پر ان میں سے ہر ایک اس دولت کا شائق اور حریص تھا ، اس کے باوجود ایسا بھی ہو سکتا ہے بلکہ ضرور ہوتا ہو گا کہ کسی رات کو ایک شوہر کی آنکھ وقت پر کھل گئی اور بیوی سوتی رہ گئی یا بیوی کی آنکھ کھل گئی اور شوہر سوتا رہ گیا اور پھر جاگنے والے نے سونے والے کو اٹھانا چاہا اور وہ اگر کسل اور نیند کے غلبہ کی وجہ سے اس وقت آمادہ نہ ہوا تو محبت و تعلق کے اعتماد پر منہ پر پانی کا ہلکا سا چھینٹا دے کر اٹھا دیا ۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں یہ طرز عمل کسی کشیدگی اور ناگواری کا باعث نہ ہو گا بلکہ ان شاء اللہ باہمی محبت و مودت میں ترقی اور اضافہ کا سبب بنے گا ۔ بہرحال اس حدیث کا تعلق ایسی ہی صورت حال سے ہے ، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ترغیب انہی خوش نصیب شوہروں اور بیویوں کے لیے ہے جو اس کے اہل ہوں ، اور وہ بذات خود بھی اس عظیم نعمت نماز تہجد کے قدر شناس اور شائق ہوں ۔
نماز تہجد کی قضا اور اس کا بدل
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص رات کو سو تا رہ گیا اپنے مقررہ ورد سے یا اس کے کسی جز سے پھر اس نے اس کو پڑھ لیا نماز فجر اور نماز ظہر کے درمیان تو لکھا جائے گا اس کے حق میں جیسے کہ اس نے پڑھا ہے رات ہی میں ۔ (صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے رات کے لیے اپنا کوئی ورد مقرر کر لیا مثلاً یہ کہ میں اتنی رکعتیں پڑھا کروں گا اور اس میں قرآن مجید اتنا پڑھوں گا ، اور وہ کسی رات سوتا رہ جائے اور اس کا پورا اور دیا کوئی جزو فوت ہو جائے ، تو اگر وہ اسی دن نماز ظہر سے پہلے پہلے اس کو پڑھ لے تو حق تعالیٰ اس کے لیے رات کے پڑھنے کے برابر ثواب عطا فرمائیں گے ۔
نماز تہجد کی قضا اور اس کا بدل
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب بیماری وغیرہ کسی عذر کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد فوت ہو جاتی تو آپ دن کو اس کے بجائے بارہ رکعتیں پڑھتے تھے ۔ (صحیح مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تہجد میں کتنی رکعتیں پڑھتے تھے
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات میں تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے جن میں وتر اور سنت فجر کی دو رکعتیں بھی شامل ہوتی تھیں ۔ (صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے تہجد کی رکعات کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو معمول بتلایا ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اکثری معمول تھا ورنہ خود حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہی کی بعض دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ کبھی کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بھی کم پڑھتے تھے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تہجد میں کتنی رکعتیں پڑھتے تھے
مسروق تابعی سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا (کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کتنی رکعتیں پڑھتے تھے) تو انہوں نے فرمایا کہ : سات اور نو اور گیارہ ، سنت فجر کی دو رکعتوں کے سوا ۔ (صحیح بخاری) تشریح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے جواب کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تہجد میں کبھی صرف سات رکعتیں پڑھتے تھے (یعنی چار رکعت تہجد اور تین رکعات وتر) اور کبھی صرف نو (یعنی چھ رکعت تہجد اور تین رکعات وتر) اور کبھی صرف گیارہ (یعنی آٹھ رکعت تہجد اور تین رکعات وتر) یہ تفصیل خود حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث مذکور ہے جو وتر کے بیان میں سنن ابی داؤد کے حوالے سے نقل ہو چکی ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تہجد کی بعض تفصیلات
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو نماز تہجد کے لیے کھڑے ہوتے تھے تو پہلے ہلکی ہلکی دو رکعتیں پڑھتے تھے ۔ (صحیح مسلم) تشریح بعض شارحین نے لکھا ہے کہ ایسا غالبا اس لیے کرتے تھے کہ پہلے ہلکی دو رکعتیں پڑھ کے طبیعت میں نشاط پیدا ہو جائے تو اس کے بعد طویل قرأت کے ساتھ پڑھیں ۔ واللہ اعلم ۔ اور صحیح مسلم ہی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی مروی ہے کہ : إِذَا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ لِيُصَلِّيَ ، افْتَتَحَ صَلَاتَهُ بِرَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ (جب تم میں سے کوئی رات کو نماز کے لیے اٹھے تو پہلے ہلکی ہلکی دو رکعتیں پڑھ کے نماز شروع کرے) ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تہجد کی بعض تفصیلات
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وه ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سوئے پس (وقت آ جانے پر تہجد کے لیے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسواک کی اور وضو کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت (سورہ آل عمران کے آخر کی) یہ دعائیہ آیتیں تلاوت فرماتے تھے : إِنَّ فِى خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ (ختم سورت تک) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں پڑھیں جن میں قیام اور رکوع سجدہ بہت طویل کیا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بستر کی طرف واپس آئے اور (ذرا دیر کے لیے) سو گئے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سانس آواز کے ساتھ چلنے لگا ، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دفعہ ایسا کیا (یعنی تین دفعہ ایسا کیا کہ ذرا دیر کے سونے کے بعد اٹھے مسواک کی ، وضو فرمایا اور طویل قیام اور طویل رکوع و سجود کے ساتھ دو رکعتیں پڑھیں) اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (پہلی دو رکعتوں کے علاوہ) چھ رکعتیں پڑھیں۔ اور ہر دفعہ اٹھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کرتے اور وضو فرماتے اور آل عمران کے آخر کی وہ آیتیں پڑھتےتھے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین رکعت نماز وتر پڑھی پھر مؤذن نے فجر کی اذان دی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر کے لیے تشریف لے گئے اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرما رہے تھے اللهُمَّ اجْعَلْ فِي قَلْبِي نُورًا ، وَفِي لِسَانِي نُورًا.... الخ (اے اللہ ! میرے دل میں نور پیدا فرما ، اور میری زبان میں نور پیدا فرما ، اور میری سمع و بصر میں نور پیدا فرما ، اور میرے پیچھے اور میرے آگے نور کر دے اور میرے اوپر اور میرے نیچے نور کر دے اے اللہ ! مجھے نور عطا فرما دے ۔ “ (صحیح مسلم) تشریح حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما یہ حدیث صحیحین میں بھی اور دوسری کتابوں میں بھی کئی طریقوں سے روایت کی گئی ہے ، اور بعض طرق میں اس سے زیادہ تفصیل ہے نیز بیان اور ترتیب میں بھی کچھ فرق ہے ۔ مثلا ی کہ دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سورہ آل عمران کی آخری آیتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سو کے اٹھ کر وضو فمانے سے پہلے پڑھیں ۔ اسی طرح بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ دعا نوری : اللهُمَّ اجْعَلْ فِي قَلْبِي نُورًا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن صبح کی نماز میں کی تھی ۔ اسی طرح کا ایک فرق یہ ہے کہ دو دو رکعتیں پڑھ کے درمیان میں ذرا دیر کے لیے سو جانے کا ذکر جو اس روایت میں کیا گیا ہے دوسری روایات اس سے خالی ہیں ۔ اور یہ تو معلوم ہے کہ اس طرح ہر دو رکعت کے بعد دونا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عام عادت مبارکہ نہیں تھی اس رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتفاقا ایسا کیا ہو گا ۔ اس روایت میں دو خفیف رکعتیں پڑھنے کا ذکر نہیں ہے ، بظاہر ان کا ذکر راوی کے بیان سے رہ گیا ، اور اس کا قرینہ یہ بھی ہے کہ اسی حدیث کی دوسری روایتوں میں صراحۃ تیرہ رکعت پڑھنے کا ذکر ہے ، اور اس روایت کے مطابق کل رکعتیں صرف گیارہ ہوتی ہیں ، ان دونوں بیانوں میں تطبیق اسی طرح دی جا سکتی ہے کہ یہ مان لیا جائے کہ اس کے راوی نے پہلی دو خفیف رکعتوں کا ذکر نہیں کیا ہے اور غالبا ان کو نماز تہجد سے خارج تحیۃ الوضو سمجھا ہے ۔ واللہ اعلم ۔ دعاء نوری جو اس روایت میں ذکر کی گئی ہے اس میں نو دعائیہ کلمے ہیں ، بعض دوسری روایات میں ان سے زیادہ کلمات نقل کیے گئے ہیں ۔ بڑی مبارک اور نورانی دعا ہے ۔ حاصل اس دعا کا یہ ہے کہ اے اللہ میرے قلب اور میرے قالب اور میری روح اور میرے جسم میں اور جسم کے ہر حصے میں اور میری رگ رگ اور ریشہ ریشہ میں نور پیدا فرما دے اور مجھے از سر تا پا نور بنا دے ، اور میرے گرد و پیش اور اوپر نیچے ہر طرف نور ہی نور کر دے ۔ قرآن مجید کی آیت “ اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ” کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس دعا کا مقصد یہ ہو گا کہ میرا وجود اور گرد و پیش بس آ کے نور سے منور ہو جائے اور میرا ظاہر و باطن اور پورا ماحول بھی بس آپ کے رنگ میں رنگ جائے ۔ صبغة الله ومن أحسن من الله صبغة
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تہجد کی بعض تفصیلات
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک رات تہجد کی نماز پڑھتے دیکھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز شروع کرتے ہوئے کہا اللَّهُ أَكْبَرُ ، اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ ذُو الْمَلَكُوتِ وَالْجَبَرُوتِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْعَظَمَةِ (اللہ سب سے بڑا ، اللہ سب سے بڑا ، اللہ سب سے بڑا ، بڑی بادشاہت والا ، بڑے دبدبے والا ، کبریائی اور عظمت والا) اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز شروع کی ، پھر (سورہ فاتحہ کے بعد) سورۃ بقرہ کی پڑھی ، پھر رکوع کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رکوع قیام ہی کی طرح تھا (یعنی جس طرح قیام بہت طویل کیا کہ ایک رکعت میں پوری سورہ بقرہ پڑھی ، اسی طرح اس نماز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع بھی بہت طویل کیا) اور اس رکوع میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر یہی کلمہ جاری تھا سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع سے سر اٹھایا تو رکوع کی طرح بہت دیر تک کھڑے رہے اور اس قومہ میں آپ کی زبان پر یہ کلمہ تھا لِرَبِّيَ الْحَمْدُ (ساری حمد و ستائش بس میرے رب کے لیے ہے) اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سجدہ قیام ہی کی طرح طویل تھا ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ سجدے میں کہتے تھے : سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ سے سر اٹھایا اور دونوں سجدوں کے درمیان آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سجدے کی طرح یعنی قریبا اس کے بقدر ہی بیٹھتے تھے ، اور اس درمیانی جلسہ میں دعا کرتے تھے رَبِّ اغْفِرْ لِي ، رَبِّ اغْفِرْ لِي (اے میرے رب میری مغفرت فرما ! اے میرے مالک مجھے معاف کر دے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت چار رکعتیں پڑھیں جن میں سورہ بقرہ ، آل عمران ، نساء اور مائدہ یا انعام پڑھیں۔ (امام ابو داؤد کے استاذ الاستاذ) شعبۃ بن الحجاج کو اس میں شبہ ہو گیا ہے کہ ان کے استاذ عمرو بن مرۃ نے چوتھی رکعت میں سورہ مائدہ پڑھنے کا ذکر کیا تھا یا سورہ انعام پڑھنے کا ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح اس طرح طویل قرات اور طویل رکوع و سجود کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تہجد پڑھنے کے واقعات حضرت حذیفہؓ کے علاوہ اور بھی متعدد صحابہ کرامؓ سے مروی ہیں ۔ چنانچہ حضرت عوف بن مالک اشجعی نے ایک رات کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد کا ذکر کیا ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی دو رکعتوں میں سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران پڑھیں ۔ اور اس کے بعد کی دو رکعتوں میں بھی اسی طرح دو بڑی بڑی سورتیں (غالبا نساء اور مائدہ) پڑھیں ۔ اور یہ ساری سورتیں اس طرح پڑھیں کہ جہاں رحمت کی کوئی آیت آ جاتی تو اثناء قرأت ہی میں ٹھہر کر رحمت کی دعا کرتے اور جہاں عذاب کی آیت آ جاتی وہاں اسی طرح اس سے پناہ مانگتے ۔ واضح رہے کہ نماز تہجد میں اور اسی طرح دوسری نفل نمازوں میں قرأت کے درمیان ٹھہر کے دعا کرنا بالاتفاق جائز ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تہجد کی بعض تفصیلات
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک رات کی نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی آیت پڑھتے پڑھتے صبح کر دی ، اور وہ (سورہ مائدہ کے آخری رکوع کی) یہ آیت تھی ۔ إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ الاية. (سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ) تشریح مطلب یہ ہے کہ ایک رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز تہجد پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے تو کسی خاص حالت اور کیفیت میں اسی ایک آیت کو بار بار پڑھتے رہے ، یہاں تک کہ صبح ہو گئی ۔ “ إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ ، وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ” یہ آیت اللہ تعالیٰ کے ایک پرجلال سوال کے جواب میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی معذرت اور عاجزانہ گزارش کا ایک جز ہے ۔ سورہ مائدہ کے آخری رکوع میں بیان فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مسیحیوں پر حجت قائم کرنے کے لیے حضرت عیسیٰؑ سے سوال کریں گے کہ کیا تم نے اپنی امت سے کہا تھا کہ اللہ کے علاوہ مجھے اور میری ماں مریم کو بھی معبود اور خدا بنا لینا ؟ حضرت عیسیٰؑ اس کے جواب میں ایسی بات سے اپنی قطعی برأت ظاہر کریں گے ، اور عرض کریں گے کہ خداوندا ! آپ سے کوئی بات چھپی ہوئی نہیں ہے آپ علام الغیوب ہیں آپ کو معلوم ہے کہ میں نے ان کو توحید ہی کی دعوت و تعلیم دی تھی ، ان میں یہ شرک دنیا سے میرے جانے کے بعد آیا ۔ اس کے بعد یہ آیت ہے اور یہی حضرت عیسیٰؑ کے جواب کا آخری جز ہے ۔ “ إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ ، وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (مائدہ) ” خداوند اگر تو ان کو (ان کے سنگین جرم کی وجہ سے) عذاب میں ڈالے تو یہ سب تیرے بندے ہیں (تجھے عذاب دینے کا پورا حق ہے) اور اگر تو ان کو معاف کر دے (تو یہ بھی تیرے بس میں ہے) بے شک تو غالب ہے حکمت والا ہے ۔ (تیرا جو فیصلہ بھی ہو گا وہ کسی کے دباؤ سے اور مجبوری سے نہیں ہو گا ، بلکہ اپنے ذاتی ارادے سے اور حکمت کے تقاضے سے ہو گا) ۔ رات کی نماز میں صبح تک اسی ایک آیت کو پڑھتے رہنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے بعض شارحین نے لکھا ہے کہ اس آیت پر پہنچ کے غالبا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کا خیال آ گیا جس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ بات منکشف ہو چکی تھی کہ اگلی امتوں کی طرح اس میں بھی عقیدہ اور عمل کا بہت کچھ فساد آئے گا ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی کی میں عیسیٰ علیہ السلام کی یہ عاجزانہ اور دردمندانہ گزارش اللہ تعالیٰ کے حضور دہراتے رہے ۔ واللہ اعلم ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تہجد کی بعض تفصیلات
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کی نماز میں قرأت کبھی بلند آواز سے کرتے تھے اور کبھی آہستہ پست آواز سے ۔ (سنن ابی داؤد)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تہجد کی بعض تفصیلات
حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ بالکل آہستہ آہستہ نماز پڑھ رہے ہیں عمر رضی اللہ عنہ کے پر آپ کا گزر ہوا وہ خوب بلند آواز سے نماز پڑھ رہے ہیں ، جب یہ دونوں حضرات (دوسرے کسی وقت) آپ کی خدمت میں ایک ساتھ حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکرؓ سے فرمایا : کہ میں رات تمہارے پاس سے گزرا تو دیکھا کہ تم بالکل آہستہ نماز پڑھ رہے تھے ؟ ، انہوں نے عرض کیا کہ جس کے حضور میں عرض معروض کر رہا تھا بس اس کو میں نے سنا دیا اور اس نے میری سن لی (یعنی اللہ تعالیٰ نے) پھر اسی طرح آپ نے عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تمہارے پاس سے میں گزرا تو تم خوب بلند آواز سے نماز پڑھ رہے تھےانہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) میں بلند آواز سے قرأت کر کے اونگھتے ہوؤں کو اٹھانا اور شیطان کو بھگانا چاہتا ہوں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے ابوبکرؓ ! تم کسی قدر اونچی آواز میں پڑھا کرو اور عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا تم کسی قدر ہلکی آواز سے پڑھا کرو ۔ تشریح عام حالات میں یہی مناسب ہے کہ تہجد کی نماز میں قرأت معتدل آواز سے ہو ، نہ بالکل خفی ہو نہ بہت زیادہ جہسے سے ، مندجہ بالا حدیث کا منشاء یہی ہے ، لیکن اگر کسی وقت خاص وجہ سے آہستہ پڑھنا زیادہ مناسب ہو تو وہی بہتر ہو گا اور اس کے برعکس کسی دوسرے وقت اگر بلند آواز سے پڑھنے میں کوئی مصلحت ہو تو اس وقت وہی افضل ہو گا ۔
چاشت یا اشراق کے نوافل
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے ہر شخص کے جوڑ جوڑ پر صبح کو صدقہ ہے۔ (یعنی صبح کو جب آدمی اس حالت سے اٹھتا ہے کہ اس کے ہاتھ پاؤں وغیرہ اعضاء اور ان کے ہر جوڑ صحیح سلامت ہے تو اللہ کی اس نعمت کے شکریہ میں ہر جوڑ کی طرف سے اس کو صدقہ یعنی کوئی نیکی اور ثواب کا کام کرنا چاہیے اور ایسے کاموں کی فہرست بہت وسیع ہے) پس ایک دفعہ سبحان الله کہنا بھی صدقہ ہے ، اور الحمدالله کہنا بھی صدقہ ہے اور لَا اِلَهَ اِلَّا اللهُ کہنا بھی صدقہ ہے اور اللهُ اكبر کہنا بھی صدقہ ہے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی صدقہ ہے ، اس شکر کی ادائگی کے لیے دو رکعتیں کافی ہیں جو آدمی چاشت کے وقت میں پڑھے ۔ “ (صحیح مسلم) تشریح جس طرح عشاء کے بعد سے لے کر طلوع فجر تک کے طویل وقفہ میں کوئی نماز فرض نہیں کی گئی ہے لیکن اس درمیان میں تہجد کی کچھ رکعتیں پڑھنے کی ترغیب دی گئی ہے ، اسی طرح فجر سے لے کر ظہر تک کے طویل وقفہ میں بھی کوئی نماز فرض نہیں کی گئی ہے ، مگر اس درمیان میں “ صلوٰۃ الضحی ” کے عنوان سے کم سے کم دو اور زیادہ سے زیادہ جتنی ہو سکیں نفلی رکعتیں پڑھنے کی ترغیب دی گئی ہے ، اگر یہ رکعتیں طلوع آفتاب کے تھوڑی ہی دیر کے بعد پڑھی جائیں تو ان کو چاشت کہا جاتا ہے ۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے ان کی حکمت بیان کرتے ہوئے جو کچھ لکھا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ : “ دن (جو اہل عرب کے نزدیک صبح سے یعنی فجر کے وقت سے شروع ہو جاتا ہے اور جو چار چوتھائیوحں میں تقسیم ہے جن کو چار پہر کہتے ہیں) حکمت الٰہی کا تقاضا ہوا کہ دن کے ان چار پہروں میں سے کوئی پہر بھی نماز سے خالی نہ رہے ، اس لئے پہلے پہر کے شروع میں نماز فجر فرض کی گئی اور تیسرے اور چوتھے پہر میں ظہر وہ عصر اور دوسرا پہر جو عوام الناس کی معاشی مشغولیتوں کی رعایت سے فرض نماز سے خالی رکھا گیا تھا اس میں نفل اور مستحب کے طور پر یہ “ صلوٰۃ الضحیٰ ” (نماز چاشت) مقرر کر دی گئی ہے ، اور اس کے فضائل و برکات بیان کر کر کے اس کی ترغیب دی گئی ہے کہ جو بندگانِ خدا اپنے مشاغل سے وقت نکال کر اس وقت میں چند رکعتیں پڑھ سکیں وہ یہ سعادت حاصل کریں ..... پھر یہ “ صلوٰۃ الضحیٰ ” کم سے کم دو رکعت ہے اور اس سے زیادہ نفع بخش چار رکعت ، اور اسے سے بھی افضل آٹھ رکعت ” ۔ (حجۃ اللہ البالغہ) اس تمہید کے بعد صلوۃ الضحی سے متعلق چند حدیثیں ذیل میں پڑھی جائیں : تشریح ..... مطلب یہ ہے کہ آدمی کو اپنے ہر جوڑ کی طرف سے شکرانہ کا جو صدقہ ہر روز صبخ کو ادا کرنا چاہیے چاشت کی دو رکعتیں پڑھنے سے ہو پوری طرح ادا ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس مختصر شکرانہ کو اس کے ہر جوڑ کی طرف سے قبول فرما لیتا ہے ، اور غالبا اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ نماز ایسی عبادت ہے جس میں انسان کے سارے اعضاء اور اس کے تمام جوڑ اور اس کا ظاہر و باطن سب ہی شریک رہتے ہیں ۔ واللہ اعلم ۔
چاشت یا اشراق کے نوافل
حضرت ابو الدرداء اور حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نقل کیا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ : اے فرزند آدم ! تو دن کے ابتدائی حصے میں چار رکعتیں میرے لیے پڑھا کر میں دن کے آخری حصے تک تجھے کفایت کروں گا ۔ (جامع ترمذی) تشریح اللہ کا جو بندہ رب کریم کے اس وعدہ پر یقین رکھتے ہوئے صبح یا اشراق یا چاشت کے وقت پورے اخلاص کے ساتھ چار رکعتیں اللہ تعالیٰ کے لیے پڑھے گا ، ان شاء اللہ اس حدیث قدسی کے مطابق وہ ضرور دیکھے گا کہ مالک الملک دن بھر کے اس کے مسائل کو کس طرح حل فرماتا ہے ۔
چاشت یا اشراق کے نوافل
معاذہ عدویہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کی نماز کے (کتنی) رکعت پڑھا کرتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا کہ : چار رکعتیں ، اور اس سے زیادہ جتنی اللہ چاہتا ۔ (صحیح مسلم) تشریح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب چاشت کی نماز پڑھتے تو اکثر چار رکعت پڑھتے تھے ، اور کبھی کبھی اس سے زیادہ بھی پڑھتے تھے ، لیکن خود حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا معمول آٹھ رکعت پڑھنے کا تھا ، اور ان کو یہ رکعتیں اتنی محبوب تھیں کہ فرماتی تھیں : لو نشر لى ابواى ما تركتها (اگر میرے والدین ماجدین پھر سے دنیا میں بھیج دئیے جائیں تو ان کی زیارت و ملاقات کی پر مسرت مشغولیت میں بھی ان رکعتوں کو نہیں چھوڑوں گی) ۔
چاشت یا اشراق کے نوافل
حضرت ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے دن ان کے گھر تشریف لائے اور وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل فرمایا اور آٹھ رکعتیں پڑھیں (اور ایسی ہلکی اور مختصر پڑھیں کہ) میں نے کوئی نماز اس سے زیادہ ہلکی نہیں دیکھی ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سجدہ پوری طرح کرتے تھے ۔ اور اسی حدیث کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ یہ وقت چاشت کا تھا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
چاشت یا اشراق کے نوافل
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : جس نے دوگانہ چاشت کا اہتمام کیا اس کے سارے گناہ بخش دئیے جائیں گے ، اگرچہ وہ کثرت میں سمندر کے جھاگوں کے برابر ہوں ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ) تشریح عبادات یا دوسرے اعمال صالحہ کی برکت سے گناہوں کی بخشش کے بارے میں جو وضاحت پہلے کئی بار کی جا چکی ہے ، وہ یہاں بھی ملحوظ رہنی چاہیے ۔
چاشت یا اشراق کے نوافل
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تین باتوں کی وصیت فرمائی ہے : ایک ہر مہینے تین دن کے روزے اور چاشت کی دو رکعتیں اور تیسرے یہ کہ میں سونے سے پہلے ہی وتر پڑھ لیا کروں ۔ (صحیح مسلم)
چاشت یا اشراق کے نوافل
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کبھی کبھی) چاشت کی نماز (اتنے اہتمام اور پابندی سے) پڑھتے تھے کہ ہم کہتے تھے کہ اب غالبا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی نہیں چھوڑیں گے (اور برابر پڑھا ہی کریں گے) اور (کبھی کبھی) اس کو (اس طرح) چھوڑ دیتے تھے کہ ہم کہتے تھے کہ اب (غالبا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو نہیں پڑھیں گے ۔ (جامع ترمذی) تشریح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز چاشت نہ پڑھنے کی وجہ ہی بیان کرتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ : “ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بسا اوقات ایسے اعمال بھی ترک فرما دیتے تھے جن کا کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت محبوب ہوتا تھا اس خطرے کی وجہ سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پابندی سے کرتا دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقلید اور پیروی میں عام مسلمان بھی اس کو پابندی سے کرنے لگیں تو اس کی فرضیت کا حکم نہ آ جائے ” الغرض اشراق اور چاشت جیسے نوافل بسا اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مصلحت سے ترک کر دیتے تھے ، اور ایسے مقصد سے ترک کرنے کے زمانہ میں بھی عمل کا ثواب برابر ملتا رہتا ہے ، اور ظاہر ہے کہ یہ مصلحت صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مخصوص تھی ، کسی دوسرے کا یہ مقام نہیں ہے ۔
صلوٰۃ استغفار
حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھ سے ابو بکرؓ نے بیان فرمایا (جو بلا شبہ صادق و صدیق ہیں) کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے : جس شخص سے کوئی گناہ ہو جائے پر وہ اٹھ کر وضو کرے ، پھر نماز پڑھے ، پھر اللہ سے مغفرت اور معافی طلب کرے تو اللہ تعالیٰ اس کو معاف فرما ہی دیتا ہے ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کی یہ آیت تلاوت فرمائی : وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ .... الآية (جامع ترمذی) تشریح ٓفرض نمازوں سے پہلے یا بعد میں پڑھے جانے والے نوافل اور اسی طرح تہجد اور اشراق و چاشت یہ سب وہ ہیں جن کے اوقات متعین ہیں ، لیکن کچھ نوافل وہ ہیں جن کا تعلق خاص اوقات سے نہیں بلکہ خاص حالات سے ہے ۔ جیسے : دوگانہ وضو (جس کو عرف عام میں تحیۃ الوضو کہتے ہیں) یا تحیۃ المسجد ، اسی طرح صلوۃ حاجت ، صلوۃ توبہ اور نماز استخارہ وغیرہ ۔ ظاہر ہے کہ ان میں سے کسی کا بھی کوئی وقت معین نہیں ہے ، بلکہ جس وقت بھی وہ حالات یا ضروریات پیش آئیں جن سے ان نوافل کا تعلق ہے ، یہ اسی وقت پڑھے جاتے ہیں ۔ ان میں سے تحیۃ الوضو سے متعلق حدیثیں وضو کے بیان میں ذکر کی جا چکی ہیں ۔ اسی طرح تحیۃ المسجد سے متعلق احادیث بھی “ مسجد کی اہمیت و فضیلت ” کے بیان میں مذکور ہو چکی ہیں ۔ ان کے علاوہ اس نوع کے باقی نوافل سے متعلق حدیثیں ذیل میں پڑھئے ۔ تشریح ..... یہ آیت جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گناہوں کی مغفرت کے سلسلہ میں اس موقع پر تلاوت فرمائی سورہ آل عمران کی ہے ، اوپر اللہ کے ان متقی بندوں کا ذکر ہے جن کے لیے جنت خاص طور سے تیار کی گئی ہے ۔ اس کے بعد یہ آیت ہے ۔ وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّـهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَن يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّـهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَىٰ مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ ﴿١٣٥﴾ أُولَـٰئِكَ جَزَاؤُهُم مَّغْفِرَةٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَجَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚوَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ. (العمران۳ : ۱۳۵ ، ۱۳۶) (اور وہ بندے (جن کا حال یہ ہے کہ) جن ان سے کوئی گندہ گناہ ہو جاتا ہے یا کوئی برا کام کر کے وہ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو جلد ہی انہیں اللہ یاد آ جاتا ہے اور وہ اس سے اپنے گناہوں کی مغفرت اور معارفی کے طالب ہوتے ہیں ۔ اور اللہ کے سوا کون ہے گناہوں کا معاف کرنے والا ، اور وہ دیدہ و دانستہ اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے (135) ایسے لوگوں کی جزا بخشش اور معافی ہے ان کے رب کی طرف سے اور بہشتی باغات جن کے نیچے نہریں جاری ہیں وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ، کیا اچھا بدلہ ہے عمل کرنے والوں کا) ۔ اس آیت میں ان گنہگار بندوں کے لیے مغفرت اور جنت کی بشارت ہے جنہوں نے معصیت کو عادت اور پیشہ نہیں بنایا ہے ، بلکہ ان کا حال یہ ہے کہ جب ان سے کوئی بڑا یا چھوٹا گناہ ہو جاتا ہے تو وہ اس پر نادم ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف متوہ ہو کر اس سے مغفرت اور معافی کے طالب ہوتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور معافی حاصل کرنے کا بہترین اور پیٹنٹ طریقہ یہ ہے کہ بندہ وضو کر کے پہلے دو رکعت نماز پڑھے اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی بخشش اور معافی طلب کرے ، اگر وہ ایسا کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کی بخشش کا فیصلہ فرما ہی دے گا ۔
صلوٰۃ الحاجۃ
حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص کو کوئی حاجت اور ضرورت ہو اللہ تعالیٰ سے متعلق یا کسی آدمی سے متعلق (یعنی خواہ وہ حاجت ایسی ہو جس کا تعلق براہ راست اللہ تعالیٰ ہی سے ہو کسی بندے سے اس کا واسطہ ہی نہ ہو ، یا ایسا معاملہ ہو کہ بظاہر اس کا تعلق کسی بندے سے ہو ، بہر صورت) اس کو چاہئے کہ وہ وضو کرے اور خوب اچھا وضو کرے ، اس کے بعد دو رکعت نماز پڑھے ، اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی کچھ حمد و ثنا کرے اور اس کے نبی (علیہ السلام) پر درود پڑھے ، پھر اللہ کے حضور میں اس طرح عرض کرے : لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ ، الْحَلِيمُ ، الْكَرِيمُ.... (اللہ کے سوا کوئی مالک و معبود نہیں ، وہ بڑے حلم والا اور بڑا کریم ہے ، پاک اور مقدس ہے وہ اللہ جو عرش عظیم کا بھی رب اور مالک ہے ، ساری حمد و شتائش اس اللہ کے لیے ہے جو سارے جہانوں کا رب ہے ، اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں ان اعمال اور ان اخلاق و احوال کا جو تیری رحمت کا موجب اور وسیلہ اور تیری مغفرت اور بخشش کا پکا ذریعہ بنیں ، اور تجھ سے طالب ہوں ہر نیکی سے فائدہ اٹھانے اور حصہ لینے کا اور ہر گناہ اور معصیت سے سلامتی اور حفاظت کا ۔ خداوندا ! میرے سارے ہی گناہ بخش دے ، اور میری ہر فکر اور پریشانی دور کر دے اور میری ہر حاجت جس سے تو راضی ہو اس کو پورا فرما دے ۔ اے ارحم الراحمین ! سب مہربانوں سے بڑے مہربان ! ! ! ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ) تشریح یہ ایک حقیقت ہے کہ جس میں کسی مومن کے لیے کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ مخلوقات کی ساری حاجتیں اور ضرورتیں اللہ کے اور صرف اللہ ہی کے ہاتھ میں ہیں ، اور بظاہر جو کام بندوں کے ہاتھوں سے ہوتے دکھائی دیتے ہیں دراصل وہ بھی اللہ ہی کے ہاتھ میں ہیں اور اسی کے حکم سے انجام پاتے ہیں ۔ اور صلوٰۃ حاجۃ کا جو طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں تعلیم فرمایا ہے وہ اللہ تعالیٰ سے اپنی حاجتیں پوری کرانے کا بہترین اور متعمد ترین طریقہ ہے ، اور جن بندوں کو ان ایمانی حقیقتوں پر یقین نصیب ہے ، ان کا یہی تجربہ ہے اور انہوں نے “ صلوٰۃ حاجت ” کو خزائن الہیہ کی کنجی پایا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں ان حاجتوں کے لیے بھی صلوٰۃ حاجت تعلیم فرمائی ہے جن کا تعلق بظاہر کسی بندے سے ہو ۔ اس کا ایک خاص فائدہ یہ بھی ہے کہ جب بندہ اپنی ایسی حاجات کے لیے بھی صلوٰۃ حاجت پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے اس طرح دعا کرے گا تو اس کا یہ عقیدہ اور یقین اور زیادہ مستحکم ہو جائے گا کہ کام کرنے اور بنانے والا دراصل وہ بندہ نہیں ہے ، نہ اس کے کچھ اختیار میں ہے ، بلکہ سب کچھ اللہ تعالیی ہی کے ہاتھ میں ہے اور وہ بندہ اللہ تعالیٰ کا صرف آلہ کار ہے ، اس کے بعد جب وہ کسی بندے کے ہاتھ سے کام ہوتا ہوا بھی دیکھے گا تو اس کے توحیدی عقیدے میں کوئی فرق نہیں آئے گا ۔
صلوٰۃ الحاجۃ
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مستقل معمول اور دستور تھا کہ جب کوئی فکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لاحق ہوتی اور کوئی اہم معاملہ پیش آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں مشغول ہو جاتے ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح قرآن مجید میں بھی فرمایا گیا ہے : “ اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ” (مشکلات اور مہمات میں ہمت و برداشت اور نماز کے ذریعہ اللہ کی مدد حاصل کرو) اس خداوندی تعلیم و ہدایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول تھا کہ ہر مشکل اور مہم میں اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں مشغول ہو جاتے تھے اور امت کو اس کا تفصیلی طریقہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ تعلیم فرمایا جو حضرت عبداللہ بن ابی اوفیؓ والی اوپر کی حدیث میں مذکور ہوا ۔
صلوٰۃ استخارہ
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو اپنے معاملات میں استخارہ کرنے کا طریقہ اسی اہتمام سے سکھاتے تھے جس اہتمام سے قرآن کی سورتوں کی تعلیم فرماتے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو بتاتے تھے کہ جب تم میں سے کوئی شخص کسی کام کا ارادہ کرے (اور اس کے انجام کے بارے میں فکر مند ہو تو اس کو اس طرح استخارہ کرنا چاہئے) پہلے وہ دو رکعت نفل پڑھے اس کے بعد اللہ کے حضور میں اس طرح عرض کرے : اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ ..... (اے میرے اللہ ! میں تجھ سے تیری صفت علم کے وسیلے سے خیر اور بھلائی کی رہنمائی چاہتا ہوں اور تیری صفت قدرت کے ذریعے تجھ سے قدرت کا طالب ہوں اور تیرے عظیم فضل کی بھیگ مانگتا ہوں کیوں کہ تو قادر مطلق ہے اور میں بالکل عاجز ہوں ۔ اور تو علیم کل ہے اور میں حقائق سے بالکل ناواقف ہوں اور تو سارے غیبوں سے باخبر ہے۔ پس اے میرے اللہ ! اگر تیرے علم میں یہ کام میرے لیے بہتر ہو ، میرے دین ، میری دنیا اور میری آخرت کے لحاظ سے تو اس کو میرے لیے مقدر کر دے اور آسان بھی فرما دے اور پھر اس میں میرے لیے برکت بھی دے اور اگر تیرے علم میں یہ کام میرے لیے برا ہے (اور اس کا نتیجہ خراب نکلنے والا ہے) ، میرے دین ، میری دنیا اور میری آخرت کے لحاظ سے تو اس کام کو مجھ سے الگ رکھ اور مجھے اس سے روک دے اور میرے لیے خیر و بھلائی کو مقدر فرما دے ، وہ جہاں اور جس کام میں ہو پھر مجھے اس خیر والے کام کے ساتھ راضی اور مطمئن کر دے “ ۔ راوی کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ : جس کام کے بارے میں استخارہ کرنے کی ضرورت ہو استخؒارہ کی دعا کرتے ہوئے صراحۃ اس کا نام لے ۔ (صحیح بخاری) تشریح بندوں کا علم ناقص ہے بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کوئی بندہ ایک کام کرنا چاہتا ہے اور اس کا انجام اس کے حق میں اچھا نہیں ہوتا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے “ صلوٰۃ استخارہ ” تعلیم فرمائی اور بتایا کہ جب کوئی خاص اور اہم کام درپیش ہو تو دو رکعت نماز پڑھ کے اللہ تعالیٰ سے رہنمائی اور توفیق خیر کی دعا کر لیا کرو ۔ تشریح ..... جیسا کہ اس دعا کے مضمون سے ظاہر ہے استخارہ کی حقیقت اور اس کی روح یہ ہے کہ بندہ اپنی عاجزی اور بےعلمی کا احساس و اعتراف کرتے ہوئے اپنے علیم کل اور قادر مطلق مالک سے رہنمائی اور مدد چاہتا ہے اور اپنے معاملہ کو اس کے حوالے کر دیتا ہے کہ جو اس کے نزدیک بہتر ہو بس وہی کر دے ، اس طرح گویا وہ اپنے مقصد کو اللہ کی مرضی میں فنا کر دیتا ہے ، اور جب اس کی یہ دعا دل سے ہو جیسے کہ ہونا چاہیے تو ہو نہیں سکتا کہ اللہ تعالیٰ اپنے اس بندے کی رہنمائی اور مدد نہ فرمائے ۔ حدیث میں اس کا کوئی اشارہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رہنمائی بندے کو کس طرح ھاصل ہو گی ، لیکن اللہ تعالیٰ کے بندوں کا تجربہ ہے کہ یہ رہنمائی بسا اوقات خواب وغیرہ میں کسی غیبی اشارہ کے ذریعہ بھی ہوتی ہے ، اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ سے آپ اس کام کے کرنے کا جذبہ اور داعیہ دل میں بڑھ جاتا ہے ، یا اس کے برعکس اس کی طرف سے دل بالکل ہٹ جاتا ہے ، ایسی صورت میں ان دونوں کیفیتوں کو منجانب اللہ اور دعا کا نتیجہ سمجھنا چاہیے ، اور اگر استخارہ کے بعد تذبذب کی کیفیت رہے تو استخارہ بار بار کیا جائے اور جب تک کسی طرف رجحان نہ ہو جائے اقدام نہ کیا جائے ۔ بہر حال یہ صلوٰۃ استغفار ، صلوٰۃ حاجت اور صلوٰۃ استخارہ عظیم نعمتیں ہیں جو اس امت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ملی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہم کو ان سے فائدہ اٹھانے کی توفیق دے ۔
صلوٰۃ التسبیح
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن اپنے چچا عباس بن عبدالمطلب سے فرمایا : اے عباس ! اے میرے محترم چچا ! کیا میں آپ کی خدمت میں ایک گراں قدر عطیہ اور ایک قیمتی تحفہ پیش کروں ؟ کیا میں آپ کو ایک خاص بات بتاؤں ؟ کیا میں آپ کے دس کام اور آپ کی دس خدمتیں کروں (یعنی آپ کو ایک ایسا عمل بتاؤں جس سے آپ کو دس عظیم الشان منفعتیں حاصل ہوں ، وہ ایسا عمل ہے کہ) جب آپ اس کو کریں گے تو اللہ تعالیٰ آپ کے سارے گناہ معاف فرما دے گا اگلے بھی اور پچھلےبھی ، صغیرہ بھی اور کبیرہ بھی ، ڈھکے چھپے بھی اور اعلانیہ ہونے والے بھی ، (وہ عمل صلوٰۃ التسبیح ہے ، اور اس کا طریقہ یہ ہے) آپ چار رکعت نماز پڑھیں ، اور ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ اور دوسری کوئی سورت پڑھیں ، پھر جب آپ پہلی رکعت میں قراءت سے فارغ ہو جائیں تو قیام ہی کی حالت میں پندرہ دفعہ کہیں سُبْحَانَ اللَّهِ ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ پھر اس کے بعد رکوع کریں ، اور رکوع میں بھی یہی کلمہ دس دفعہ پڑھیں ، پھر رکوع سے اٹھ کر قومہ میں بھی یہی کلمہ دس دفعہ کہیں ، پھر سجدہ میں چلے جائیں اور اس میں یہ کلمہ دس دفعہ کہیں ، پھر سجدہ سے اٹھ کر جلسہ میں یہی کلمہ دس دفعہ کہیں ، پھر دوسرے سجدہ میں بھی یہی کلمہ دس دفعہ کہیں ، پھر دوسرے سجدے کے بعد بھی (کھڑے ہونے سے پہلے) یہ کلمہ دس دفعہ کہیں ، چاروں رکعتیں اسی طرح پڑھیں اور اس ترتیب سے ہر رکعت میں پچھتر دفعہ کہیں ۔ (میرے چچا) اگر آپ سے ہو سکے تو روزانہ یہ نماز پڑھا کریں ، اور اگر روزانہ نہ پڑھ سکیں تو ہر جمعہ کے دن پڑھ لیا کریں ، اور اگر آپ یہ بھی نہ کر سکیں تو سال میں ایک دفعہ پڑھ لیا کریں ، اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو کم از کم زندگی میں ایک دفعہ پڑھ ہی لیں ۔ (سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ ، دعوات کبیر للبیہقی) تشریح کتب حدیث میں صلوٰۃ التسبیح کی تعلیم و تلقین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعدد صحابہ کرامؓ سے روایت کی گئی ہے ۔ امام ترمذی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم اور آزاد کردہ غلام حضرت ابو رافع کی روایت اپنی سند سے نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ ان کے علاوہ حضرت عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن عمرو اور فضل بن عباس نے بھی اس کو روایت کیا ہے ۔ حافظ ابن حجر نے اپنی کتاب “ الخصال المفكرة ” میں ابن الجوزی کا رد کرتے ہوئے “ صلوٰۃ التسبیح ” کی روایات اور ان کی سندی حیثیت پر تفصیل سے کلام کیا ہے اور ان کی بحث کا حاصل یہ ہے کہ یہ حدیث کم از کم “ حسن ” یعنی صحت کے لحاظ سے دوم درجہ کی ضرور ہے ، اور بعض تابعین اور تبع تابعین حضرات سے (جن میں عبداللہ بن مبارک جیسے جلیل القدر امام بھی شامل ہیں) صلوٰۃ التسبیح کا پڑھنا اور اس کی فضیلت بیان کر کے لوگوں کو اس کی ترغیب دینا بھی ثابت ہے اور یہ اس کا واضح ثبوت ہے کہ ان حضرات کے نزدیک بھی “ صلوٰۃ التسبیح ” کی تلقین اور ترغیب کی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت تھی ، اور زمانہ ما بعد میں تو یہ صلوٰۃ التسبیح اکثر صالحین امت کا معمول رہا ہے ۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے اس نماز کے بارے میں ایک خاص نکتہ لکھا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نمازوں میں (خاص کر نفلی نمازوں میں) بہت سے اذکار اور دعا میں ثابت ہیں ۔ اللہ کے جو بندے ان اذکار اور دعاؤں پر ایسے قابو یافتہ نہیں ہیں کہ اپنی نمازوں میں ان کو پوری طرح شامل کر سکیں اور اس وجہ سے ان اذکار و دعوات والی کامل ترین نماز سے وہ بے نصیب رہتے ہیں ان کے لیے یہی صلوٰۃ التسبیح اس کامل ترین نماز کے قائم مقام ہو جاتی ہے ، کیوں کہ اس میں اللہ کے ذکر اور تسبیح و تحمید کی بہت بڑی مقدار شامل کر دی گئی ہے ، او ر چونکہ ایک ہی کلمہ بار بار پڑھا جاتا ہے اس لیے عوام کے لیے بھی اس نماز کا پڑھنا مشکل نہیں ہے ۔ صلوٰۃ التسبیح کا جو طریقہ اور اس کی جو ترتیب امام ترمذی وغیرہ نے حضرت عبداللہ بن مبارک سے روایت کی ہے اس میں دوسری عام نمازوں کی طرح قرأت سے پہلے ثناء یعنی سبحانك اللهم وبحمدك اور رکوع میں سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ اور سجدہ میں سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى پڑھنے کا بھی ذکر ہے اور ہر رکعت میں قیام میں قرأت سے پہلے کلمہ سُبْحَانَ اللَّهِ ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ پندرہ دفعہ ، اور قرأت کے بعد رکوع میں جانے سے پہلے یہی کلمہ دس دفعہ پڑھنے کا ذکر بھی ہے ، اسی طرح ہر رکعت کے قیام میں یہ کلمہ پچیس دفعہ ہو جائے گا اور اس طریقہ میں دوسرے سجدے کے بعد یہ کلمہ کسی رکعت میں بھی نہیں پڑھا جائے گا ، اس طرح اس طریقے کی ہر رکعت میں بھی اس کلمہ کی مجموعی تعداد پچھتر اور چار رکعتوں کی مجموعی تعداد تین ہو ہی ہو گی ۔ بہرحال صلوٰۃ التسبیح کے یہ دونوں ہی طریقے منقول اور معمول ہیں ۔ پڑھنے والے کے لیے گنجائش ہے جس طرح چاہے پڑھے ۔ “ صلوٰۃ التسبیح ” کی تاثیر اور برکت نماز کے ذریعہ گنوہوں کے معاف ہونے اور معصیات کے گندے اثرات کے زائل ہونے کا ذکر تو اصلی طور پر قرآن مجید میں بھی فرمایا گیا ہے : أَقِمِ الصَّلاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ (هود : ۱۱۴ : ۱۱) لیکن اس تاثیر میں “ صلوٰۃ التسبیح ” کا جو خاص مقام ار درجہ ہے وہ حضرت عبداللہ بن عباس کی مندرجہ بالا حدیث میں پوری صراحت کے ساتھ ذکر کر دیا گیا ہے ، یعنی یہ اس کی برکت سے بندہ کے اگلے ، پچھلے ، پرانے ، نئے ، دانستہ ، نادانستہ ، صغیرہ ، کبیرہ ، پوشیدہ ، علانیہ ، سارے ہی گناہ اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتا ہے ۔ اور سنن ابی داؤد کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک صحابی (عبداللہ بن عمروؓ) کو “ صلوٰۃ التسبیح ” کی تلقین کرنے کے بعد ان سے فرمایا : فَإِنَّكَ لَوْ كُنْتَ أَعْظَمَ أَهْلِ الْأَرْضِ ذَنْبًا غُفِرَ لَكَ بِذَلِكَ “ تم اگر بالفرض دنیا کے سب سے بڑے گناہ گار ہو گے تو بھی اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ تمہاری مغفرت فرما دے گا ” اللہ تعالیٰ محرومی سے حفاظت فرمائے اور اپنے ان خوش نصیب بندوں میں سے کر دے جو رحمت و مغفرت کے ایسے اعلانات کو نس کر ان سے فائدہ اٹھاتے اور ان کا حق ادا کرتے ہیں ۔
نوافل کا ایک خاص فائدہ
حریث بن قبیصہ تابعی بیان کرتے ہیں کہ میں مدینہ طیبہ آیاتو میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ : اے اللہ ! مجھے اپنے کسی صالح بندے کی صحبت میسر فرما ، پھر میں حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا ، تو میں نے ان سے کہا : کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی تھی کہ مجھے کسی صالح بندے کی صحبت نصیب فرما (اور میں اب آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں) آپ مجھے کوئی ایسی حدیث سنائیں جو آپ نے خود رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے سنی ہو ، مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو میرے لیے نع مند بنائے گا تو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث سنائی فرمایا کہ : میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے سنا : کہ قیامت کے دن بندے کے اعمال میں سے سب سے پہلے نماز کا حساب ہو گااور اس کی نماز جانچی جائے گی ، پس اگر وہ ٹھیک نکلی تو بندہ فلاح یاب اور کامیاب ہو جائے گا ، اور اگر وہ خراب نکلی تو وہ بندہ ناکام اور نامراد رہ جائے گا ، پھر اگر اس کے فرائض میں کمی کسر ہوئی تو رب کریم فرمائے گا کہ دیکھو ، کیا میرے بندے کے ذخیرہ اعمال میں فرائض کے علاوہ کچھ نیکیاں (سنتیں یا نوافل) ہیں ؟ تا کہ ان سے اس کے فرائض کی کمی کسر پوری ہو سکے ، پھر نماز کے علاوہ باقی اعمال کا حساب بھی اسی طرح ہو گا “ ۔ (جامع ترمذی ، سنن نسائی) تشریح سنن و نوافل کی افادیت اور اہمیت کے لیے تنہا یہ حدیث کافی ہے ۔
جمعہ کے دن کی عظمت و فضیلت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ان سارے دنوں میں جن میں کہ آفتاب نکلتا ہے (یعنی ہفتہ کے ساتوں دنوں میں) سب سے بہتر اور بر تر جمعہ کا دن ہے ۔ جمعہ ہی کے دن آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا اور جمعہ ہی کے دن وہ جنت میں داخل کئے گئے ، اور جمعہ ہی کے دن وہ جنت سے باہر کر کے اس دنیا میں بھیجے گئے ۔ (جہاں ان سے نسل انسانی کا سلسلہ شروع ہوا) اور قیامت بھی خاص جمعہ ہی کے دن قائم ہو گی ۔ (صحیح مسلم) تشریح خاص اجتماعی نمازیں جو امت مسلمہ کا شعار ہیں جمعہ و عیدین دن رات کی پانچوں فرض نمازیں جن کے باجماعت پڑھنے کا حکم ہے ، اور ان کے علاوہ وہ سنن و نوافل جو انفرادی طور پر ہی پڑھے جاتے ہیں ان سب کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور معمولات سابق میں ذکر کئے جا چکے ۔ ان کے علاوہ چند نمازیں اور ہیں جو صرف اجتماعی طور پر ہی ادا کی جاتی ہیں اور وہ اپنی مخصوص نوعیت اور امتیازی شان کی وجہ سے اس امت کا گویا شعار ہیں ، ان میں سے ایک نماز جمعہ ہے جو ہفتہ وار ہے اور عید الفطر و عیدالاضحیٰ کی نمازیں ہیں جو سال میں ایک دفعہ ادا کی جاتی ہیں ۔ فرائض پنجگانہ کے جماعت سے اکا کرنے میں جو مصالح اور منافع ہیں (جن کا ذکر اپنے موقع پر کیا جا چکا ہے) وہ سب کے سب وسیع تر پیمانے پر جمعہ اور عیدین کی نمازوں سے بھی حاصل ہوتے ہیں اور ان کے علاوہ کچھ اور حکمتیں اور مصلحتیں بھی ہیں ، جو صرف ان ہفتہ وار اور سالانہ اجتماعی نمازوں ہی سے وابستہ ہیں ، پہلے جمعہ کے بارے میں چند اشارات ذکر کئے جاتے ہیں ، امید ہے کہ اس باب کی احادیث کا مقصد و منشاء سمجھنے میں ان شاء اللہ ان اشارات سے ناظرین کو خاص رہنمائی حاصل ہو گی ۔ روزانہ پانچوں وقت کی جماعت میں ایک محدود حلقہ یعنی ایک محمہ ہی کے مسلمان جمع ہو سکتے ہیں اس لئے ہفتہ میں ایک دن ایسا رکھ دیا گیا ۔ جس میں پورے شہر اور مختلف محلوں کے مسلمان ایک خاص نماز کے لئے شہر کی ایک بڑی (1) مسجد میں جمع ہو جایا کریں اور ایسے اجتماع کے لئے ظہر ہی کا وقت زیادہ موزوں ہو سکتا تھا اس لئے وہی وقت رکھا گیا ار ظہر کی چار رکعت کے بجائے جمعہ کی نماز صرف دو رکعت رکھی گئی ، اور اس اجتماع کو تعلیمی و تربیتی لحاظ سے زیادہ مفید اور مؤثر بنانے کے لئے تخفیف شدہ دو رکعتوں کے بجائے خطبہ لازمی کر دیا گیا ۔ اور اس کے لئے جمعہ ہی کا دن اس واسطے مقر کیا گیا کہ ہفیہ کے سات دنوں میں سے وہی دن زیادہ باعظمت اور بابرکت ہے ۔ جس طرح روزانہ اخیر شب کی گھڑیوں میں اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت بندوں کی طرف زیادہ متوجہ ہوتی ہے اور جس طرح سال کی راتوں میں سے ایک رات (شب قدر) خاص الخاص درجہ میں برکتوں اور رحمتوں والی ہے اسی طرح ہفتہ کے سات دنوں میں سے جمعہ کا دن اللہ تعالیٰ کے خاص الطاف و عنایات کا دن ہے اور اسی لئے اس میں بڑے بڑے اہم واقعات اللہ تعالیٰ کی طرف سے واقع ہوئے ہیں اور واقع ہونے والے ہیں (جیسا کہ آگے درج ہونے والی حدیثوں سے معلوم ہو گا) بہرحال جمعہ کی انہی خصوصیات کی وجہ سے اس اہم ار شاندار ہفتہ ار اجتماعی نماز کے لیے جمعہ کا دن مقرر کیا گیا ۔ اور اس میں شرکت و حاضری کی سکت تاکید کی گئی ، اور نماز سے پہلے غسل کرنے ، اچھے صاف ستھرے کپڑے پہننے اور میسر ہو تو خوشبو بھی لگانے کی ترغیب بلکہ ایک درجے میں تاکید کی گئی ، تا کہ مسلمانوں کا یہ مقدس ہفتہ واری اجتماعی توجہ الی اللہ اور ذکر و دعا کی باطنی و روحانی برکات کے علاوہ ظاہری حیثیت سے بھی پاکیزہ ، خوش منظر ، بارونق اور پر بہار ہو ، اور مجمع کو ملائکہ کے پاک و صاف مجمع کے ساتھ زیادہ سے زیادہ مشابہت اور مناسبت ہو ۔ ا تمہید کے بعد جمعہ اور نماز جمعہ کے متعلق احادیث ذیل میں پڑھئے :
جمعہ کے دن کا خصوصی وظیفہ درود شریف
حضرت اوس بن اوس ثقفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : جمعہ کا دن افضل ترین دنوں میں سے ہے ، اسی میں آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی ، اسی میں ان کی وفات ہوئی ، اسی میں قیامت کا صور پھونکا جائے گا اور اسی میں موت اور فنا کی بیہوشی اور بے حسی ساری مخلوقات پر طاری ہو گی ۔ لہذا تم لوگ جمعہ کے دن مجھ پر درود کی کثرت کیا کرو ، کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش ہوتا ہے اور پیش ہوتا رہے گا “ ۔صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! (آپ کے وفات فرما جانے کے بعد) ہمارا درود آپ پر کیسے پیش ہو گا ، آپ کا جسد اطہر تو قبر میں ریزہ ریزہ ہو چکا ہو گا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کے جسموں کو زمین پر حرام کر دیا ہے ۔ (یعنی موت کے بعد بھی ان کے اجسام قبروں میں بالکل صحیح سالم رہتے ہیں ، زمین ان میں کوئی تغیر پیدا نہیں کر سکتی) ۔ (سنن ابی داؤد ، سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ ، مسند دارمی ، دعوات کبیر للبیہقی) تشریح اوپر والی حضرت ابو ہریرہؓ کی حدیث کی طرح حضرت اوس بن اوس ثقفیؓ کی اس حدیث میں بھی جمعہ کے دن میں واقع ہونے والئے اہم اور غیر معمولی واقعات کا ذکر کر کے جمعہ کی اہمیت و فضیلت بیان کی گئی ہے اور مزید یہ فرمایا گیا ہے کہ اس مبارک اور محترم دن میں درود زیادہ پڑھنا چاہئے ، گویا جس طرح رمضان المبارک کا خاص وظیفہ تلاوت قرآن پاک ہے اور اس کو رمضان المبارک سے خاص مناسبت ہے اور جس طرح سفر حج کا خاص وظیفہ تلبیہ لبيك اللهم لبيك...... ہے ، اسی طرح جمعہ کے مبارک دن کا خاص وظیفہ اس حدیث کی رو سے درود شریف ہے ، جمعہ کے دن خصوصیت سے اس کی کثرت کرنی چاہئے ۔ وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کی پیشی اور مسئلہ حیات انبیاءؑ درود شریف کی کثرت کا حکم دیتے ہوئے اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا انتظام ہے کہ امت کا درود میرے پاس پہنچایا جاتا ہے اور میرے سامنے پیش کیا جاتا ہے اور یہ انتظام اس دنیا سے میرے جانے کے بعد بھی اسی طرح قائم رہے گا (بعض دوسری حدیثوں میں یہ بھی ذکر ہے کہ درود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فرشتے پہنچاتے ہیں) اس پر بعض صحابہ کرامؓ کے دل میں یہ سوال پیدا ہو ا کہ اس وقت تک جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں رونق افروز ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ملائکہ کا آنا اور درود وغیرہ پہنچانا اور پیش کرنا معلوم ہے اور سمجھ میں آتا ہے ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں دفن کر دئیے جائیں گے اور عام طبعی قانون کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم مبارک زمین کے اثر سے ریزہ ریزہ ہو جائے گا تو پھر درود شریف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کیسے پیش کیا جا سکے گا ؟ انہوں نے یہ سوال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : اللہ تعالیٰ کے خاص حکم سے پیغمبروں کے اجسام ان کی وفات کے بعد قبروں میں جوں کے توں محفوظ رہتے ہیں ، زمین ان پر اپنا عام طبعی عمل نہیں کر سکتی ، یعنی جس طرح دنیا میں خاص تدبیروں اور دواؤں سے موت کے بعد بھی اجسام کو محفوظ رکھا جا سکتا ہے ، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص قدرت اور خاص حکم سے پیغمبروں کی وفات کے بعد ان کے جسموں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قبروں میں محفوظ کر دیا ہے اور وہاں ان کو ایک خاص قسم کی حیات حاصل رہے گی (جو اس عام کے قوانین کے مطابق ہو گی) اس لئے درود کے پہنچنے اور پیش کئے جانے کا سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا ۔
جمعہ کے دن کا خصوصی وظیفہ درود شریف
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : جمعہ کے دن میں ایک گھڑی ایسی ہوتی ہے کہ اگر کسی مسلمان بندے کو حسن اتفاق سے خاص اس گھڑی میں خیر اور بھلائی کی کوئی چیز اللہ تعالیٰ سے مانگنے کی توفیق مل جائے تو اللہ تعالیٰ اس کو عطا ہی فرما دیتا ہے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ جس طرح پورے سال میں رحمت و قبولیت کی ایک خاص رات (شب قدر) رکھی گئی ہے جس میں کسی بندے کو اگر توبہ و استغفار اور دعا نصیب ہو جائے تو اس کی بڑی خوش نصیبی ہے اور اللہ تعالیٰ سے قبولیت کی خاص توقع ہے ۔ اسی طرح ہر ہفتے میں بھی جمعہ کے دن رحمت و قبولیت کی ایک خاص گھڑی ہوتی ہے اگر اس میں بندے کو اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا اور مانگنا نصیب ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کے کرم سے قبولیت ہی کی امید ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداللہ بن سلامؓ اور کعب احبارؓ دونوں نے نقل کیا ہے کہ : جمعہ کے دن کی اس ساعت اجابت کا ذکر تورات میں بھی ہے ۔ اور معلوم ہے کہ یہ دونوں حضرات تورات اور کتب سابقہ کے بہت بڑے عالم تھے ۔ جمعہ کے دن کی اس ساعت اجابت کے وقت کی تعیین و تخصیص میں شارحین حدیث نے بہت سے اقوال نقل کئے ہیں ، ان میں سے دو ایسے ہیں جن کا صراحۃ یا اشارۃ بعض احادیث میں بھی ذکر ہے ، صرف وہی یہاں ذکر کئے جاتے ہیں : ۱۔ ایک یہ کہ جس وقت امام خطبہ کے لئےممبر پر جائے اس وقت سے لیکر نماز کے ختم ہونے تک جو وقت ہوتا ہے ، پس یہی وہ ساعت اجابت ہے ۔ اس کا حاصل یہ ہوا کہ خطبہ اور نماز کا وقت ہی قبولیت کی دعا کا خاص وقت ہے ۔ ۲۔ دوسرا قول یہ ہے کہ وہ ساعت عصر کے بعد سے لے کر غروب آفتاب تک کا وقفہ ہے ۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے “ حجۃ اللہ البالغہ ” میں یہ دونوں قول ذکر فرما کر اپنا خیال یہ ظاہر فرمایا ہے کہ : “ ان دونوں باتوں کا مقصد بھی حتمی تعیین نہیں ہے ، بلکہ منشاء صرف یہ ہے کہ خطبہ اور نماز کا وقت چونکہ بندگان خدا کی توجہ الی اللہ اور عبادت و دعا کا خاص وقت ہے اس لئیے اس کی امید کی جا سکتی ہے کہ وہ ساعت اسی وقت میں ہو ۔ اور اسی طرح چونکہ عصر کے بعد سے غروب تک کا وقت نزول قضا کا وقت ہے اور پورے دن کا گویا نچوڑ ہے اس لئے اس وقت بھی توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ساعت غالبا اس مبارک وقفہ میں ہو ” ۔ بعض حضرات نے لکھا ہے کہ : “ جمعہ کے ند کی اس خاص ساعت کو اسی طرح اور اسی مصلحبت سے مبہم رکھا گیا ہے جس طرح اور جس مصلحت سے شب قدر کو مبہم رکھا گیا ہے ، پھر جس طرح رمضان مبارک کے عشرہ اخیر کی طاق راتوں اور خاص کر ستائیسویں شب کی طرف شب قدر کے بارے میں کچھ اشارات بعض حدیثوں میں کئے گئے ہیں اسی طرح جمعہ کے دن کی اس ساعت اجابت کے لیے نماز و خطبہ کے وقت اور عصر سے مغرب تک کے وقفہ کے لیے بھی احادیث میں اشارات کئے گئے ہیں تا کہ الہ کے بندے کم از کم ان دو وقتوں میں توجہ الی اللہ اور دعا کا خصوصیت سے اہتمام کریں ۔ ” اس ناچیز نے اپنے بعض اکابر کو دیکھا ہے کہ وہ جمعہ کے دن ان دونوں وقتوں میں لوگوں سے ملنا جلنا اور بات چیت کرنا پسند نہیں کرتے ، بلکہ نماز یا ذکر و دعا اور توجہ الی اللہ میں ہی مصروف رہنا چاہتے ہیں ۔
نماز جمعہ کی فرضیت اور خاص اہمیت
طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جمعہ کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنا ہر مسلمان پر لازم اور واجب ہے ۔ اس وجوب سے چار قسم کے آدمی مستثنیٰ ہیں : ایک غلام جو بے چارہ کسی کا مملوک ہو ، دوسرے عورت ، تیسرے لڑکا جو ابھی بالغ نہ ہوا ہو ، چوتھے بیمار ۔ (سنن ابی داؤد)
نماز جمعہ کی فرضیت اور خاص اہمیت
حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ہم نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بر سر منبر فرما رہے تھے کہ : جمعہ چھوڑنے والے لوگ یا تو اپنی اس حرکت سے باز آئیں یا یہ ہو گا کہ ان کے گناہ کی سزا میں اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر لگا دے گا ، پھر وہ غافلوں ہی میں سے ہو جائیں گے (اور اصلاح کی توفیق سے محروم کر دئیے جائیں گے) ۔ (صحیح مسلم)
نماز جمعہ کی فرضیت اور خاص اہمیت
ابو الجعد ضمری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو آدمی بلا عذر تین جمعہ تساہل و سہل انگاری کی وجہ سے چھوڑ دے گا اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دے گا (پھر وہ نیک عمل کی توفیق سے محروم ہی رہے گا) ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی ، سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ ، مسند دارمی ۔ اور یہی حدیث امام مالک نے موطا میں صفوان بن سلیم سے اور امام احمد نے اپنے مسند میں حضرت ابو قتادہ سے بھی روایت کی ہے)
نماز جمعہ کی فرضیت اور خاص اہمیت
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : جو شخص بغیر کسی مجبوری کے جمعہ کی نماز چھوڑے گا اور وہ اللہ کے اس دفتر میں جس میں کوئی رد و بدل نہیں ہو سکتا منافق لکھا جائے گا ۔ اور بعض روایات میں تین دفعہ چھوڑنے کا ذکر ہے ۔ (مسند شافعی) تشریح ان حدیثوں میں جمعہ کی جو غیر معمولی اہمیت بیان کی گئی ہے اور اس کے ترک پر جو وعیدیں سنائی گئی ہیں وہ کسی توضیح اور تشریح کی محتاج نہیں ہیں ، اللہ تعالیٰ ان سب معصیات و منکرات سے بچنے کی توفیق دے جن کے نتیجہ میں بندہ اللہ تعالیٰ کی نظر کرم سے گر جاتا ہے اور اس کے دل پر مہر لگا دی جاتی ہے ۔ اللهم احفظنا
نماز جمعہ کا اہتمام اور اس کے آداب
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو آدمی جمعہ کے دن غسل کرے اور جہاں تک ہو سکے صفائی پاکیزگی کا اہتمام کرے ، اور جو تیل خوشبو اس کے گھر ہو وہ لگائے ، پرھ وہ گھر سے نماز کے لئے جائے اور مسجد میں پہنچ کر اس کی احتیاط کرے کہ جو دو آدمی پہلے سے ساتھ بیٹھے ہوں ان کے بیچ نہ بیٹھے ، ھر جو نماز یعنی سنن و نوافل کی جتنی رکعتیں اس کے لئے مقدر ہوں وہ پڑھے ، پھر جب امام خطبہ دے تو توجہ اور خاموشی کے ساتھ اس کو سنے ، تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس جمعہ اور دوسرے جمعہ کے درمیان کی اس کی ساری خطائیں ضرور معاف کر دی جائیں گی ۔ (صحیح بخاری)
نماز جمعہ کا اہتمام اور اس کے آداب
حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما دونوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے جمعہ کے دن غسل کیا اور جو اچھے کپڑے اسے میسر تھے وہ پہنے خوشبو اگر اس کے پاس تھی تو وہ بھی لگائی پھر وہ نماز جمعہ کے لیے حاضر ہوا اور اس کی احتیاط کی کہ پہلے سے بیٹھے ہوئے لوگوں کی گردنوں کے اوپر سے پھلانگتا ہوا نہیں گیا پھر سنتوں اور نفلوں کی جتنی رکعتوں کی اللہ تعالیٰ نے توفیق دی وہ پڑھیں ، پھر جب امام خطبہ دینے کے لئے آیا تو ادب اور خاموشی سے اس کی طرف متوجہ ہو کر خطبہ سنا ، یہاں تک کہ نماز پڑھ کر فارغ ہوا تو اس بندے کی نماز اس جمعہ اور اس سے پہلے والے جمعہ کے درمیان کے گناہوں خطاؤں کے لئے کفارہ ہو جائے گی ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح شریعت میں غسل جمعہ کا جو درجہ ہے اور اس کا جو خاص مقصد و منشاء ہے اس کا بیان تفصیل کے ساتھ “ مسنون یا مستحب عمل ” کے عنوان سے پہلے کیا جا چکا ہے ۔ مندرجہ بالا دونوں حدیثوں میں غسل کے علاوہ چند اور اعمال کا بھی ذکر ہے ۔ بقدر امکان ہر قسم کی پاکیزگی اور صفائی کا اہتمام ، اچھے لباس کا اہتمام ، خوشبو کا استعمال ، مسجد میں ہر اس چیز سے احتیاط اور اجتناب جس سے لوگوں کو ایذا پہنچے اور باہمی تعلقات خراب ہونے کا اندیشہ ہو ، جیسے پہلے سے ساتھ بیٹھے ہوئے دو آدمیوں کے بیچ میں گھس کے بیٹھنا یا لوگوں کے اوپر سے پھلانگ کے جانا وغیرہ پھر وہاں حسب توفیق نوافل پڑھنا اور خطبہ کے وقت ادب اور توجہ کے ساتھ اس کو سننا ، پھر نماز پڑھنا ۔ جمعہ کی جو نماز اس اہتمام اور آداب کے ساتھ پڑھی جائے اس کو ان دونوں حدیثوں میں پورے ہفتہ کے گناہوں کا کفارہ اور بخشش و معافی کا وسیلہ فرمایا گیا ہے ۔ یوں بھی غور کر کے سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ سب اعمال جب صحیح ذہن کے ساتھ کئے جائیں گے تو ان بندوں کے دلوں اور ان کی روحوں کی کیا کیفیات ہوں گی اور ان کی زندگی پر اس نماز کے کیا اثرات پڑیں گے اور پھر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور شان مغفرت کا ان کے ساتھ کیا معاملہ ہو گا ۔
نماز جمعہ کا اہتمام اور اس کے آداب
عبید بن السباق تابعی سے مرسلاً روایت ہے کہ ایک جمعہ کو خطاب فرماتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مسلمانو ! اللہ تعالیٰ نے جمعہ کے اس دن کو عید بنایا ہے لہٰذا اس دن غسل کیا کرو اور جس کے پاس خوشبو ہو اس کے لیے کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ خوشبو لگائے ، اور مسواک اس دن ضرور کیا کرو ۔ (مؤطا امام مالک ، سنن ابن ماجہ اور ابن ماجہ نے اس حدیث کو برایت عبداللہ بن عباس متصلا روایت کیا ہے)
جمعہ کے دن خط بنوانا اور ناخن ترشوانا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن نماز کو جانے سے پہلے اپنے ناخن اور اپنی لبیں تراشا کرتے تھے ۔ (1) (مسند بزار ، معجم اوسط للطبرانی)
جمعہ کے لیے اچھے کپڑوں کا اہتمام
حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : تم میں سے کسی کے لئے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ اگر اس کو وسعت ہو تو وہ روزمرہ کے کام کاج کے وقت پہنے جانے والے کپڑوں کے علاوہ جمعہ کے دن کے لئے کپڑوں کا ایک خاص جوڑا بنا کے رکھ لے ۔ (سنن ابن ماجہ) تشریح روزمرہ پہنے جانے والے کپڑوں کے ما سوا کوئی خاص جوڑا بنا کے رکھنے میں شبہ ہو سکتا تھا کہ شاید یہ شان فقر و زہد کے خلاف اور ناپسندیدہ ہو ، اس حدیث میں دراصل اسی شبہ کو زائل کیا گیا ہے ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ ہے کہ جمعہ جیسے دینی اجتماع کے لئے جو مسلمانوں کی ہفتہ وار عید ہے چونکہ حسب استطاعت اچھا کپڑا پہننا اللہ تعالیٰ کو پسند ہے اس لئے اس کے واسطے خاص جوڑا بنا کے رکھکنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔ طبرانی نے معجم صغیر اور اوسط میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ : “ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خاص جوڑا تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن پہنا کرتے تھے ، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہو کر تشریف لاتے تو ہم اس کو تہہ کر کے رکھ دیتے تھے اور پھر وہ اگلے جمعہ ہی کو نکلتا تھا ” ۔ لیکن محدثین کے اصول پر اس روایت کی سند میں کچھ ضعف ہے ۔
جمعہ کے لئے اول وقت جانے کی فضیلت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب جمعہ کا دن ہوتا ہے تو فرشتے مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور شروع میں آنے والوں کے نام یکے بعد دیگرے لکھتے ہیں ، اور اول وقت دوپہر میں آنے والے کی مثال اس شخص کی سی ہے ، جو اللہ کے حضور میں اونٹ کی قربانی پیش کرتا ہے۔ پھر اس کے بعد دوم نمبر پر آنے والے کی مثال مینڈھا پیش کرنے والے کی ، اور اس کے بعد مرغی پیش کرنے والے کی ، اس کے بعد انڈا پیش کرنے والے کی ۔ پھر جب امام خطبہ کے لیے منبر کی طرف جاتا ہے تو یہ فرشتے اپنے لکھنے کے دفتر لپیٹ دیتے ہیں اور خطبہ سننے میں شریک ہو جاتے ہیں۔ تشریح حدیث کا اصل مقصد و مدعا جمعہ کے لئے اول وقت جانے کی ترغیب ہے اور آگے پیچھے آنے والوں کے ثواب اور درجات کے فرق کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف درجہ کی قربانیوں کی مثال دے کر سمجھانا چاہا ہے ۔
نماز جمعہ اور خطبہ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ جب سردی زیادہ ہوتی تو نماز جمعہ شروع وقت ہی میں پڑھ لیتے اور جب موسم زیادہ گرم ہوتا تو ٹھنڈے وقت یعنی گرمی کی شدت کم ہونے پر پڑھتے ۔ (صحیح بخاری)
نماز جمعہ اور خطبہ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو خطبے دیا کرتے تھے اور دونوں کے درمیان (تھوڑی دیر کے لئے) بیٹھتے تھے ۔ آپ ان خطبوں میں قرآن مجید کی آیات بھی پڑھتے تھے اور لوگوں کو نصیحت بھی فرماتے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز بھی درمیانی ہوتی تھی اور اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ بھی (صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ اور نماز میں نہ بہت طول ہوتا تھا اور نہ بہت زیادہ اختصار ، بلکہ دونوں کی مقدار معتدل اور متوسط ہوتی تھی ۔ قرأت کے بیان میں وہ حدیثیں پہلے گزر چکی ہیں جن میں بتلایا گیا ہے کہ جمعہ کی نماز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کون کون سی سورتیں پڑھتے تھے ۔
نماز جمعہ اور خطبہ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ دیتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں سرخ ہو جاتیں تھیں ، آواز بلند ہو جاتی تھی اور سخت غصہ اور جلال کی کیفیت پیدا ہو جاتی تھی ، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت اس شخص کی سی ہو جاتی تھی کہ دشمن کا لشکر قریب ہی آ پہنچا ہے (اپنی پوری تباہ کاریوں کے ساتھ) پس صبح شام تم پر آ پڑنے والا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی فرماتے تھے کہ میری بعثت اور قیامت کی آمدن ان دو انگلیوں کی طرح (قریب ہی قریب) ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم (تفہیم اور تمثیل کے لیے) اپنی دو انگلیوں یعنی کلمہ والی اور اس کے برابر کی بیچ والی انگلی کو ملا دیتے تھے ۔ (صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ پر جوش اور پر جلال خطبہ ہوتا تھا ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال قال کے بالکل مطابق ہتا تھا خصوصیت کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ میں قیامت کے قرب اور اس کی ہولناکیوں کا ذکر بکثرت فرماتے تھے اور کلمہ والی انگلی ار اس کے بیچ والی انگلی کو باہم ملا کر فرمایا کرتے تھے کہ جس طرح یہ دونوں قریب قریب ہیں اسی طرح سمجھو کہ میری بعثت کے بعد قیامت بھی قریب ہی ہے ، اب درمیان میں کوئی اور نبی بھی آنے والا نہیں ہے ، میرے ہی دور میں قیامت آنے والی ہے اس لئے اس کی تیاری کرو ۔
نماز جمعہ سے پہلے اور بعد کی سنتیں
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ سے پہلے چار رکعت پڑھتے تھے اور جمعہ کے بعد چار رکعت ۔ (1) (معجم کبیر طبرانی)
نماز جمعہ سے پہلے اور بعد کی سنتیں
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سلیک غطفانی ایک دفعہ جمعہ کے دن ایسے وقت مسجد میں آئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر بیٹھ گئے (یعنی خطبہ شروع کرنے کے لیے منبر پر تشریف لے جا چکے تھے اور ابھی بیٹھے ہوئے تھے) تو سلیک اسی حالرت میں آ کر بیٹھ گئے قبل اس کے کہ نماز پڑھتے (یعنی انہوں نے مسجد میں داخل ہو کر نماز نہیں پڑھی بلکہ یہ دیکھ کر کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ کے لئے منبر پر جا چکے ہیں خود بھی بیٹھ گئے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : کیا تم نے دو رکعتیں پڑھیں ہیں ؟ انہوں نے عرض کیا کہ نہیں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اٹھو اور پہلے دو رکعتیں پڑھو ۔ (صحیح مسلم) تشریح اس حدیث کی بناء پر امام شافعیؒ اور امام احمدؒ اور بعض دوسرے ائمہ کا مسلک ہے کہ نماز جمعہ کے لیے جو شخص مسجد میں آئے اس کے لیے اس دن تحیۃ المسجد واجب ہے اور اگر بالفرض امام خطبہ شروع کر چکا ہو جب بھی یہ آنے والا دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھے ۔ لیکن امام ابو حنیفہؒ اور امام مالکؒ اور سفیان ثوری وغیرہ اکثر ائمہ ان احادیث کی بناء ر جن میں خطبہ کے وقت خاموش رہنے اور توجہ کے ساتھ اس کو سننے کی تاکید کی گئی ہے اور ترغیب دی گئی ہے ، اور اسی کے مطابق اکثر صحابہؒ و اکابر تابعین کے عمل اور فتوے کی بناء پر خطبہ کے وقت نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دیتے ، اور سلیک غطفانی کے اس واقعہ کی مختلف توجیہات فرماتے ہیں ۔ اس مسئلہ میں دونوں طرف کے دلائل بہت وزنی ہیں ، اس لئے احتیاط کا تقاجا یہ ہے کہ جمعہ کے دن مسجد میں ایسے وقت پہنچ جائے کہ خطبے سے پہلے کم از کم دو رکعتیں ضرور پڑھ لے ۔
نماز جمعہ سے پہلے اور بعد کی سنتیں
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی جمعہ کی نماز پڑھے تو چاہئے کہ اس کے بعد چار رکعت اور پڑھے ۔ (صحیح مسلم)
نماز جمعہ سے پہلے اور بعد کی سنتیں
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز جمعہ کے بعد کوئی نماز نہیں پڑھتے یہاں تک کہ مسجد سے گھر تشریف لے جاتے تھے پھر گھر ہی میں دو رکعتیں پڑھتے تھے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح کتب حدیث میں نماز جمعہ کے بعد کی سنتوں کے بارے میں جو روایت ہیں ان میں دو رکعت کا بھی ذکر ہے ، چار کا بھی اور چھ کا بھی ۔ امام ترمذی نے خود حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے بارے میں نقل کیا ہے کہ وہ جمعہ کے بعد دو رکعت اور اس کے بعد چار رکعت ، گویا کل چھ رکعت بھی پڑھتے تھے ۔ اس لئے ائمہ مجتہدین کے رجحانات بھی اس بارے میں مختلف ہیں ۔ بعض حضرات دو کو ترجیح دیتے ہیں بعض چار رکعت کو اور بعض چھ رکعت کو ۔
عیدین کا آغاز
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تو اہل مدینہ (جن کی کافی تعداد پہلے ہی سے اسلام قبول کر چکی تھی) دو تہوار منایا کرتے تھے ، اور ان میں کھیل تماشے کیا کرتے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ : یہ دو دن جو تم مناتے ہو ان کی کیا حقیقت اور حیثیت ہے ؟ (یعنی تمہارے ان تہواروں کی کیا اصلیت اور تاریخ ہے ؟) انہوں نے عرض کیا کہ : ہم جاہلیت میں (یعنی) اسلام سے پہلے یہ تہوار اسی طرح منایا کرتے تھے (بس وہی رواج ہے جو اب تک چل رہا ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فریاما کہ : اللہ تعالیٰ نے تمہارے ان دو تہواروں کے بدلہ میں ان سے بہتر دو دن تمہارے لیے مقرر کر دئیے ہیں (اب وہی تمہارے قومی اور مذہبی تہوار ہیں) عید الاضحیٰ یوم اور عید الفطر ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح عید الفطر و عید الاضحیٰ ہر قوم کے کچھ خاص تہوار اور جشن کے دن ہوتے ہیں جن مین اس قوم کے لوگ اپنی اپنی حیثیت اور سطح کے مطابق اچھا لباس پہنتے اور عمدہ کھانے پکاتے کھاتے ہیں ، اور دوسرے طریقوں سے بھی اپنی اندرونی مسرت و خوشی کا اظہار کرتے ہیں ، یہ گویا انسانی فطرت کا تقاضا ہے ۔ اسی لئے انسانوں کا کوئی طبقہ اور فرقہ ایسا نہیں ہے جس کے ہاں تہوار اور جشن کے کچھ خاص دن نہ ہوں ۔ اسلام میں بھی ایسے دو دن رکھے گئے ہیں ایک عید الفطر اور دوسرے عید الاضحیٰ بس یہی مسلمانوں کے اصلی مذہبی و ملی تہوار ہیں ۔ ان کے علاوہ مسلمان جو تہوار مناتے ہیں ان کی کوئی مذہبی حیثیت اور بنیاد نہیں ہے ، بلکہ اسلامی نقطہ نظر سے ان میں سے اکثر خرافات ہیں ۔ مسلمانوں کی اجتماعی زندگی اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرما کر مدینہ طیبہ آئے ۔ عید الفطر اور عید الاضحیٰ ان دونوں تہواروں کا سلسلہ بھی اسی وقت سے شروع ہوا ہے ۔ جیسا کہ معلوم ہے کہ عید الفطر رمضان المبارک کے ختم ہونے پر یکم شوال کو منائی جاتی ہے اور عید الاضحیٰ ۱۰ ذی الحجہ کو ۔ رمضان المبارک دینی و روحانی حیثیت سے سال کے بارہ مہینوں میں سب سے مبارک مہینہ ہے ۔ اسی مہینہ میں قرآن مجید نازل ہونا شروع ہوا ، اسی پورے مہینے کے روزے امت مسلمہ پر فرض کئے گئے ، اس کی راتوں میں ایک مستقل با جماعت نماز کا اضافہ کیا گیا ہے اور ہر طرح کی نیکیوں میں اضافہ کی ترغیب دی گئی ۔ الغرض یہ پورا مہینہ خواہشات کی قربانی اور مجاہدہ اور ہر طرح کی طاعات و عبادات کی کثرت کا مہینہ قرار دیا گیا ۔ ظاہر ہے کہ اس مہینہ کے خاتمہ پر جو دن آئے ایمانی اور روحانی برکتوں کے لحاظ سے وہی سب سے زیادہ اس کا مستحق ہے کہ ان کو اس امت کے جشن و مسرت کا دن اور تہوار بنایا جائے ، چنانچہ اسی دن کو عید الفطر قرار دیا گیا ۔ اور ۱۰ ذی الحجہ وہ مبارک تاریخی دن ہے جس میں امت سملمہ کے موسس و مورث ایلیٰ سیدنا حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی دانست میں اللہ تعالیٰ کا حکم و اشارہ پا کر اپنے لخت جگر سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام کو ان کی رضا مندی سے قربانی کے لیے اللہ کے حضور میں پیش کر کے اور ان کے گلے پہ چھری رکھ کر اپنی سچی وفاداری اور کامل تسلیم و رضا کا ثبوت دیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے عشق و محبت اور قربانی کے اس امتحان میں ان کو کامیاب قرار دے کر حضرت اسماعیل کو زندہ و سلامت رکھ کر ان کی جگہ ایک جانور کی قربانی قبول فرما لی تھی ، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سر پر “ انى جاعلك للناس اماما ” کا تاج رکھ دیا تھا ، اور ان کی اس ادا کی نقل کو قیامت تک کے لئے “ رسم عاشقی ” قرار دے دیا تھا ، پس اگر کوئی دن کسی عظیم تاریخی واقعہ کی یادگار کی حیثیت سے تہوار قرار دیا جا سکتا ہے تو اس امت مسلمہ کے لئے جو ملت ابراہیمی کی وارث اور اوہ خلیلی کی نمائندہ ہے ۱۰ ذی الحجہ کے دن کے مقابلے میں کوئی دوسرا دن اس کا مستحق نہیں ہو سکتا ، اس لئے دوسری عید ۱۰ ذی الحجہ کو قرار دیا گیا ۔ جس وادی غیر ذی ذرع میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کا یہ واقعہ پیش آیا تھا اسی وادی میں پورے عالم اسلامی کا حج کا سالانہ اجتماع اور اس کے مناسک قربانی وغیرہ اس واقعہ کی گویا اصل اور اول درجے کی یادگار ہے اور ہر اسلامی شہر اور بستی میں عید الاضحیٰ کی تقریبات نماز اور قربانی وغیرہ بھی اسی کی گویا نقل اور دوم درجہ کی یادگار ہے ۔ بہرحال ان دونوں (یکم شوال اور ۱۰ ذی الحجہ) کی ان خصوصیات کی وجہ سے ان کو یوم العید اور امت مسلمہ کا تہوار قرار دیا گیا ۔ اس تمہید کے بعد ان دونوں عیدوں کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں ذیل میں پڑھئے ۔ اصل مقصد تو یہاں “ کتاب الصلوٰۃ ” میں عیدین کی نماز کا بیان ہے ، لیکن ضمنا اور تبعا ان دونوں عیدوں سے متعلق دوسرے اعمال و احکام کی حدیثیں بھی یہیں درج کی جائیں گی ، جیسا کہ حضرات محدثین کا عام طریقہ ہے ۔ تشریح ..... قوموں کے تہوار دراصل ان کے عقائد و تصورات اور ان کی تاریخ و روایات کے ترجمان اور ان کے قومی مزاج کے آئینہ دار ہوتے ہیں ، اس لیے ظاہر ہے کہ اسلام سے پہلے اپنی جاہلیت کے دور میں اہل مدینہ جو دو تہوار مناتے تھے وہ جاہلی مزاج تصورات اور جاہلی روایات ہی کے آئینہ دار ہوں گے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلکہ حدیث کے صریح الفاظ کے مطابق خود اللہ تعالیٰ نے ان قدیمی تہواروں کو ختم کرا کے ان کی جگہ عید الفطر اور عید الاضحیٰ دو تہوار اس امت کے لئے مقرر فرما دئیے جو اس کے توحیدی مزاج اور اصول حیات کے عین مطابق اور اس کی تاریخ و روایات اور عقائد و تصورات کے پوری طرح آئینہ دار ہیں ۔ کاش اگر مسلمان انے ان تہواروں ہی کو صحیح طور پر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت و تعلیم کے مطابق منائیں تو اسلام کی روح اور اس کے پیغام کو سمجھنے سمجھانے کے لئے صرف یہ دو تہوار ہی کافی ہو سکتے ہیں ۔
عیدین کی نماز اور خطبہ وغیرہ
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے دن عید گاہ تشریف لے جاتے تھے ۔ سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھاتے تھے ، پھر نماز سے فارغ ہو کر لوگوں کی طرف رخ کر کے خطبہ کے لئے کھڑے ہوتے تھے اور لوگ بدستور صفوں میں بیٹھے رہتے تھے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو خطبہ اور وعظ و نصیحت فرماتے تھے اور احکام دیتے تھے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارادہ کوئی لشکر کا دستہ تیار کر کے کسی طرف روانہ کرنے کا ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم (عیدین کی نماز و خطبہ کے بعد) اس کو بھی روانہ فرماتے تھے یا کسی خاص چیز کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی حکم دینا ہوتا تو اسی موقع پر وہ بھی دیتے تھے ، پھر (ان سارے مہمات سے فارغ ہو کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم عیدگاہ سے واپس ہوتے تھے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول یہی تھا کہ عیدین کی نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ کی آبادی سے باہر اس میدان میں پڑھتے تھے جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کام کے لئے منتخب فرما لیا تھا اور گویا (عیدگاہ) قرار دے دیا گھا اس وقت اس کے گرد کوئی چہار دیواری بھی نہیں تھی ، بس صحرائی میدان تھا ۔ لوگوں نے لکھا ہے کہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے قریبا ایک ہزار قدم کے فاصلے پر تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کی نماز ایک مرتبہ بارش کی مجبوری سے مسجد شریف میں بھی پڑھی ہے ، جیسا کہ آگے ایک حدیث میں اس کا ذکر آئے گا ۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عید کے دن نماز و خطبہ کے بعد عید گاہ ہی میں اعلاء کلمۃ الحق کے مجاہدین کے لشکر اور دستے بھی منظم کئے جاتے تھےاور وہیں سے ان کو روانہ اور رخصت کیا جاتا تھا ۔
عیدین کی نماز بغیر اذان و اقامت ہی سنت ہے
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عیدین کی نماز ایک یا دو دفعہ ہی نہیں بلکہ بہت دفعہ پڑھی ہے ۔ ہمیشہ بغیر اذان اور بغیر اقامت کے ۔ (صحیح مسلم)
عیدین کی نماز بغیر اذان و اقامت ہی سنت ہے
حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، کہتے ہیں کہ میں عید کے دن نماز کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عیدگاہ حاضر ہوا تو آپ نے خطبہ سے پہلے نماز پڑھی بغیر اذان اور اقامت کے ، پھر جب آپ نماز پڑھ چکے ، تو بلال رضی اللہ عنہ پر سہارا لگا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے ، پہلے اللہ کی حمد و ثنا کی ، اور لوگوں کو پند و نصیحت فرمائی ، اور اللہ کی فرمانبرداری کی ان کو توغیب دی ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خواتین کے مجمع کی طرف گئے ، اور بلال رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ ہی تھے ، وہاں پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اللہ سے ڈرنے کا اور تقوے والی زندگی گزارنے کے لئے فرمایا اور ان کو پند و نصیحت فرمائی ۔ (سنن نسائی) تشریح حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں عید کے خطبہ میں مردوں کو خطاب فرمانے کے بعد عورتوں کو مستقل خطاب فرمانے کا ذکر ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث جو صحیح مسلم میں ہے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لئے کیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیال میں خواتین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ سن نہیں سکی تھیں ۔ واللہ اعلم ۔ فائدہ ..... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں عیدین کی نماز میں خواتین بھی عام طور پر شریک ہوتی تھیں ، بلکہ ان کے لئے یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تھا ، لیکن زمانہ ما بعد میں مسلم معاشرے میں فساد آ گیا تو جس طرح امت کے فقہاء اور علماء نے جمعہ اور پنجگانہ نماز کے کے لئے خواتین کا مسجدوں میں آنا مناسب نہیں سمجھا ، اسی طرح نماز عید کے لئے ان کا عیدگاہ جانا بھی مناسب نہیں سمجھا ۔
عیدین کی نماز سے پہلے اور بعد میں کوئی نفلی نماز نہیں ہے
حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدالفطر کے دن دو رکعت نماز پڑھی ، اور اس سے پہلے یا بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی نفلی نماز نہیں پڑھی ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
عیدین کی نماز کا وقت
یزید بن خمیر رحبی باتعی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ عید الفطر یا عید الاضحیٰ کے دن نماز عید پڑھنے کے لئے لوگوں کے ساتھ عیدگاہ تشریف لائے (امام کے آنے میں دیر ہوئی) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امام کی اس تاخیر کو منکر بتایا (اور اس کی مذمت کی) اور فرمایا کہ اس وقت تو ہم (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ) نماز پڑھ کر فارغ ہو جایا کرتے تھے (راوی کہتے ہیں) اور یہ نوافل کا وقت تھا (نوافل سے مراود غالبا چاشت کے نوافل ہیں) ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح عبداللہ بن بسر صحابی رضی اللہ عنہ نے شام میں سکونت اختیار کر لی تھی اور وہیں ۔ ۸۸ھ میں “ حمص ” میں ان کا انتقال ہوا ۔ غالبا وہیں کا یہ واقعہ ہے کہ نماز عید میں امام کی تاخیر پر آپ نے نکیر فرمائی اور بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہم لوگ نماز عید سویرا پڑھ کر فارغ ہو جایا کرتے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عید الفطر اور عید الاضحیٰ کی نماز کے وقت کے بارے میں سب سے زیادہ واضح حدیث وہ ہے جو حافظ بن حجر نے “ تلخیص الحبیر ” میں احمد بن حسن البناء کی کتاب الاضاحی کے حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی جندب رضی اللہ عنہ کی روایت سے ان الفاظ کے ساتھ نقل کی ہے ۔ “ كَانَ النَّبِىُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَا يَوْمَ الْفِطْرِ وَالشَّمْسُ عَلَى قِيدَ رُمْحَيْنِ وَالْاَضْحَى عَلَى قِيدَ رُمْحٍ ” . “ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کی نماز ہم لوگوں کو ایسے وقت پڑھاتے تھے کہ آفتاب بقدر دو نیزے کے بلند ہوتا تھا اور عید الاضحیٰ کی نماز ایسے وقت پڑھاتے تھے کہ آفتاب بقدر ایک نیزہ کے ہوتا تھا ” ۔ ہمارے زمانے میں بہت مقامات پر عیدین کی نماز بہت تاخیر سے پڑھی جاتی ہے ، یہ بلا شبہ خلاف سنت ہے ۔
عیدین کی نماز کا وقت
حضرت انس رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے ابو عمیر سے روایت ہے وہ اپنے متعدد چچوں سے نقل کرتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کرامؓ میں سے تھے کہ ایک دفعہ ایک قافلہ (کہیں باہر سے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور انہوں نے شہادت دی کہ کل (راستہ میں) انہوں نے چاند دیکھا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ روزے کھول دیں اور کل جب صبح ہو تو نماز عید ادا کرنے کے لئے عیدگاہ پہنچیں ۔ (سنن ابی داؤد ، سنن نسائی) تشریح مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک دفعہ رمضان کی ۲۹ تاریخ کو چاند نظر نہیں آیا تو قاعدے کے مطابق اگلے دن سب لوگوں نے روزہ رکھا لیکن دن ہی میں سے کسی وقت باہر کا کوئی قافلہ مدینہ طیبہ پہنچا اور ان لوگوں نے گواہی دی کہ ہم نے کل شام چاند دیکھا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کی گواہی قبول فرما کر لوگوں کو روزے کھولنے کا حکم دے دیا اور نماز عید کے لئے فرمایا کہ کل صبح پڑھی جائے گی ۔ بظاہر یہ قافلہ دن کو دیر سے مدینہ پہنچا تھا اور نماز کا وقت نکل چکا تھا ۔ شرعی مسئلہ بھی یہی ہے کہ اگر چاند کی رویت ایسے وقت معلوم ہو کہ نماز عید اپنے وقت پر نہ پڑھی جا سکتی ہو تو پھر اگلے دن صبح ہی کو پڑھی جائے گی ۔
عیدین کی نماز میں قرأت
عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود تابعی سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الاضحیٰ اور عید الفطر کی نماز میں کون سی سورتیں پڑھا کرتے تھے ، انہوں نے فرمایا کہ : “ ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ ” اور “ وَاقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ ” ۔ (صحیح مسلم) تشریح یہ بات بعید از قیاس ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو عیدین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت کے بارے میں خود یاد نہ رہا ہو اور اس وجہ سے انہوں نے ابو واقد لیثیؓ سے پوچھا ۔ بظاہر حضرت عمرؓ کا یہ سوال تو ابو واقد لیثیؓ کے علم و حافظہ کا اندازہ کرنے کے لئے تھا یا اپنے مزید اطمینان کے لئے ۔ واللہ اعلم ۔
عیدین کی نماز میں قرأت
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدین اور جمعہ کی نماز میں “ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى ” اور “ وَهَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ ” پڑھا کرتے تھے ، اور جب (اتفاق سے) عید اور جمعہ ایک ہی دن پڑ جاتا تو بھی دونوں نمازوں میں یہی دونوں سورتیں پڑھتے تھے ۔ (صحیح مسلم) تشریح ابو واقد لیثی اور نعماب بن بشیر رضی اللہ عنہما کے ان دونوں بیانوں میں کوئی منافات نہیں ہے ۔ عیدین کی نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی سورہ ق اور سورہ قمر پڑھتے تھے ، اور کبھی سورہ اعلیٰ و سورہ غاشیہ ۔
بارش کی وجہ سے عید کی نماز مسجد میں
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ عید کے دن بارش ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو عید کی نماز مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہی میں پڑھائی ۔ (سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ) تشریح عیدین میں “ امت مسلمہ کا تہوار ” اور “ دینی جشن ” ہونے کی جو شان ہے اس کا تقاضا یہی ہے کہ دنیا کی قوموں کے جشنوں اور میلوں کی طرح ہمارا عیدین کی نماز والا اجتماع بھی کہیں کھلے میدان میں ہو ، اور جیسا کہ اوپر معلوم ہو چکا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول و دستور بھی یہی تھا اور اس لئے عام حالات میں یہی سنت ہے ۔ لیکن حضرت ابو ہریرہؓ کی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر بارش کی حالت ہو (یا ایسا ہی کوئی اور سبب ہو) تو عید کی نماز بھی مسجد میں پڑھی جا سکتی ہے ۔
عیدین کے دن کھانا نماز سے پہلے یا نماز کے بعد ؟
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطر کی نماز کے لئے کچھ کھا کے تشریف لے جاتے تھے اور عید الاضحیٰ کے دن نماز پڑھنے تک کچھ نہیں کھاتے تھے ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ ، سنن دارمی) تشریح صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت سے یہ بھی مروی ہے کہ عید الفطر کے دن نماز کو تشریف لے جانے سے پہلے آپ چند کھجوریں تناول فرماتے تھے اور طاق عدد میں تناول فرماتے تھے ۔ عید الاضحیٰ کے دن نماز کے بعد کھانے کی وجہ سے غالبا یہ ہو گی کہ اس دن سب سے پہلے قربانی ہی کا گوشت منہ میں جائے ، جو ایک طرح سے اللہ تعالیٰ کی ضیافت ہے ۔ اور عید الفطر میں علی الصبح نماز سے پہلے ہی کچھ کھا لینا غالبا اس لئے ہوتا تھا کہ جس اللہ کے حکم سے رمضان پورے مہینہ دن میں کھانا پینا بالکل بند رہا ، آج جب اس کی طرف سے دن میں کھانے پینے کا اذن ملا ، اور اسی میں اس کی رضا اور خوشنودی معلوم ہوئی تو طالب و محتاج بندہ کی طرح صبح ہی اس کی ان نعمتوں سے لذت اندوز ہونے لگے ۔ بندگی کا مقام یہی ہے ۔ ؎ گر طمع خواہد ز من سلطان دیںخاک بر فرق قناعت بعد ازیں
عید گاہ کی آمد و رفت میں راستہ کی تبدیلی
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید کے دن راستہ بدل دیتے تھے ۔ (صحیح بخاری) تشریح مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید کی نماز کے لئے جس راستہ سے عیدگاہ تشریف لے جاتے تھے ، واپسی میں اس کو چھوڑ کر دوسرے راستہ سے تشریف لاتے تھے ۔ علماء نے اس کی مختلف حکمتیں بیان کی ہیں ۔ اس عاجز کے نزدیک ان میں سے زیادہ قرین قیاس یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ اس لئے کرتے تھے کہ اس طرح شعائر اسلام اور مسلمانوں کی اجتماعیت و شوکت کا زیادہ سے زیادہ اظہار و اعلان ہو ۔ نیز عید میں جشن اور تفریح کا جو پہلو ہے اس کے لئے بھی یہی زیادہ مناسب ہے ، کہ مختلف راستوں اور بستی کے مختلف حصوں سے گزرا جائے ۔ واللہ اعلم ۔
صدقہ فطر ۔ اس کا وقت اور اس کی حکمت
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں میں سے ہر غلام اور آزاد پر اور ہر مرد و عورت پر اور ہر دچھوٹے اور بڑے پر صدقہ فطر لازم کیا ہے ، ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو ۔ اور حکم دیا ہے کہ یہ صدقہ فطر نماز عید کے لئے جانے سے پہلے ادا کر دیا جائے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح زکوٰۃ کی طرح صدقہ فطر بھی اغنیاء (دولتمندوں) ہی پر واجب ہے ، چونکہ یہ بات مخاطببین خود سمجھ سکتے تھے اس لئے اس حدیث میں اس کی وضاحت نہیں کی گئی ، رہی بات یہ کہ اغنیاء کون ہیں اور اسلام میں دولت مندی کا معیار کیا ہے ؟ اس کی وضاحت اور تفصیل ان شاء اللہ زکوٰۃ کے بیان میں کی جا سکے گی ۔ اس حدیث میں ہر نفر کی طرف سے ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو صدقہ فطر ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ یہی دو چیزیں اس زمانہ میں مدینہ اور اس کے گرد و نواح میں عام طور سے بطور غذا کے استعمال ہوتی تھیں اس لئے اس حدیث میں انہی دو کا ذکر کیا گیا ہے ۔ بعض حضرات نے لکھا ہے کہ اس زمانہ میں ایک چھوٹے گھرانے کی غذا کے لئے ایک صاع کھجوریں یا ایک صاع جو کافی ہوتے تھے ، اس حساب سے ہر دولتمند گھرانے کے ہر چھوٹے بڑے فرد کی جانب سے عید الفطر کے دن اتنا صدقہ ادا کرنا ضروری قرار دیا گیا ، جس سے ایک معمولی گھرانے کے ایک دن کے کھانے کا خرچ چل سکے ۔ ہندوستان کے اکثر علماء کی تحقیق کے مطابق رائج الوقت سیر کے حساب سے ایک صاع قریبا ساڑھے تین سیر کا ہوتا ہے ۔
صدقہ فطر ۔ اس کا وقت اور اس کی حکمت
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزوں کو فضول و لایعنی اور فحش باتوں کے اثرات سے پاک صاف کرنے کے لئے اور مسکینوں محتاجوں کے کھانے کا بندوبست کرنے کے لئے صدقہ فطر واجب قرار دیا ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح اس حدیث میں صدقہ فطر کی دو حکمتوں اور اس کے دو خاص فائدوں کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے ۔ ایک یہ کہ مسلمانوں کے جشن و مسرت کے اس دن میں صدقہ فطر کے ذریعہ محتاجوں مسکینوں کی بھی شکم سیری اور آسودگی کا انتظام ہو جائے گا ۔ اور دوسرے یہ کہ زبان کی بے احتیاطیوں اور بے باکیوں سے روزے پر جو برے اثرات پڑے ہوں گے یہ صدقہ فطر ان کا بھی کفارہ اور فدیہ ہو جائے گا ۔
عید الاضحیٰ کی قربانی
حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : ذی الحجہ کی دسویں تاریخ یعنی عید الاضحیٰ کے دن فرزند آدم کا کوئی عمل اللہ کو قربانی سے زیادہ محبوب نہیں اور قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں اور بالوں اور کھروں کے ساتھ (زندہ ہو کر) آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی رضا اور مقبولیت کے مقام پہنچ جاتا ہے ، پس اے خدا کے بندو ! دل کی پوری خوشی سے قربانیاں کیا کرو ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ)
عید الاضحیٰ کی قربانی
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اصحاب نے عرض کیا ۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ان قربانیوں کی کیا حقیقت اور کیا تاریخ ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ تمہارے (روحانی اور نسلی) مورث حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے (یعنی سب سے پہلے ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا حکم دیا گیا اور وہ کیا کرتے تھے ، ان کی اس سنت اور قربانی کے اس عمل کی پیروی کا حکم مجھ کو اور میری امت کو بھی دیا گیا ہے) ان صحابہؓ نے عرض کیا ۔ پھر ہمارے لئے یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ان قربانیوں میں کیا اجر ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قربانی کے جانور کے ہر بال کے عوض ایک نیکی ۔ انہوں نے عرض کیا : تو کیا اون کا بھی یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) یہی حساب ہے ؟ (اس سوال کا مطلب تھا کہ بھیڑ ، دنبہ ، مینڈھا ، اونٹ جیسے جانور جن کی کھال پر گائے ، بیل یا بکری کی طرح کے بال نہیں ہوتے بلکہ اون ہوتا ہے ، اور یقینا ان میں سے ایک ایک جانور کی کھال پر لاکھوں یا کروڑوں بال ہوتے ہیں ، تو کیا ان اون والے جانوروں کی قربانی کا ثواب بھی ہر بال کے عوض ایک نیکی کی شرح سے ملے گا ؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں اون والے جانور کی قربانی کا اجر بھی اسی شرح اور اسی حساب سے ملے گا کہ ہر بال کے عوض ایک نیکی “ ۔ (مسند احمد ، سنن ابن ماجہ)
عید الاضحیٰ کی قربانی
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ہجرت کے بعد) مدینہ طیبہ میں دس سال قیام فرمایا ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم برابر (ہر سال) قربانی کرتے تھے ۔ (جامع ترمذی)
عید الاضحیٰ کی قربانی
حنش بن عبداللہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو دو مینڈھوں کی قربانی کرتے ہوئے دیکھا تو میں نے ان سے عرض کیا کہ : یہ کیا ہے (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کی بجائے دو مینڈھوں کی قربانی کیوں کرتے ہیں ؟) انہوں نے فرمایا کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وصیت فرمائی تھی کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بھی قربانی کیا کروں ، تو ایک قربانی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے کرتا ہوں ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی) تشریح حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی مندرجہ بالا حدیث سے معلوم ہوا تھا کہ مدینہ طیبہ میں قیام فرمانے کے بعد سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پابندی کے ساتھ ہر سال قربانی فرماتے رہے اور حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کی اس حدیث سے معلوم ہوا ہے کہ بعد کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وصیت فرما گئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قربانی کیا کریں ، چنانچہ اس وصیت کے مطابق حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے برابر قربانی کرتے تھے ۔
قربانی کا طریقہ
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیاہی و سفیدی مائل رنگ کے سینگوں والے دو مینڈھوں کی قربانی کی ، اپنے دست مبارک سے ان کو ذبح کیا اور ذبح کرتے وقت “ بِسْمِ اللهِ وَاللهُ اَكْبَر ” پڑھا ۔ میں نے دیکھا کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا پاؤں ان کے پہلو پر رکھے ہوئے تھے اور زبان سے “ بِسْمِ اللهِ وَاللهُ اَكْبَر ” کہتے جاتے تھے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
قربانی کا طریقہ
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قربانی کے دن یعنی عید قربان کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیاہی و سفیدی مائل سینگوں والے دو خصی مینڈھوں کی قربانی کی ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا رخ صحیح قبلہ کی طرف کر لیا تو یہ دعا پڑھی “ إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي ..... اللَّهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ ، وَعَنْ مُحَمَّدٍ وَأُمَّتِهِ بِسْمِ اللَّهِ ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ ” (میں نے اپنا رخ اس اللہ کی طرف کر لیا جس نے زمین اور آسمان کو پیدا کیاہے ، طریقے پر ابراہیم کے ہر طرف سے یکسو ہو کر اور میں شرک والوں میں سے نہیں ہوں ، میری نماز و عبادت اور میری قربانی اور میرا جینا اور مرنا اللہ رب العالمین کے لیے ہے اس کا کوئی شریک ساتھی نہیں ، اور مجھے اسی کا حکم ہے ، اور میں حکم ماننے والوں میں ہوں ، اے اللہ ! یہ قربانی تیری ہی طرف سے اور تیری ہی توفیق سے ہے اور تیرے ہی واسطے ہے ، تیرے بندے محمد کی اور اس کی امت کی جانب سے بسم اللہ واللہ اکبر) یہ دعا پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مینڈھے پر چھری چلائی اور اس کو ذبح کیا۔ اور مسند احمد و سنن ابی داؤد اور جامع ترمذی کی اسی حدیث کی ایک دوسری روایت میں آخری حصہ اس طرح ہے کہ آپ نے “ اللَّهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ ” کہنے کے بعد اپنے ہاتھ سے ذبح کیا اور زبان سے کہا : “ بِسْمِ اللَّهِ ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ ” (اے اللہ ! یہ میری جانب سے اور میرے ان امتیوں کی جانب سے جنہوں نے قربانی نہ کی ہو) ۔ تشریح قربانی کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ تعالیٰ سے یہ عرض کرنا کہ : “ میری جانب سے اور میرے ان امتیوں کی جانب سے جنہوں نے قربانی نہیں کی ” ظاہر ہے کہ یہ امت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انتہائی شفقت و رأفت ہے ۔ لیکن ملحوظ رہے کہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری امت کی طرف سے یا قربانی نہ کرنے والے امتیوں کی طرف سے قربانی کر دی اور سب کی طرف سے ادا ہو گئی بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ اے اللہ ! اس کے ثواب میں میرے ساتھ میرے امتیوں کو بھی شریک فرما ! ثواب میں شرکت اور چیز ہے اور قربانی کا ادا ہو جانا دوسری چیز ہے ۔
قربانی کے جانور کے بارے میں ہدایات
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ قربانی میں کیسے جانوروں سے پرہیز کیا جائے (یعنی وہ کیا عیوب اور خرابیاں ہیں جن کی وجہ سے جانور قربانی کے قابل نہیں رہتا) ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ سے اشارہ فرمایا اور بتایا کہ چار (یعنی چار عیوب اور نقائص ایسے ہیں کہ ان میں سے کوئی عیب و نقص جانور میں پایا جائے تو قربانی کے قابل نہیں رہتا) ۔ ایک ایسا لنگڑا جانور جس کا لنگڑا پن بہت کھلا ہوا ہو (کہ اس کی وجہ سے اس کو چلنا بھی مشکل ہو) ۔ دوسرے وہ جس کی ایک آنکھ خراب ہو گئی ہو ، اور وہ خرابی بالکل نمایاں ہو ۔ تیسرے وہ جو بہت بیمار ہو ۔ چوتھے وہ جو ایسا کمزور اور لاغر ہو کہ اس کی ہڈیوں میں گودا بھی نہ رہا ہو ۔ (موطا امام مالک ، مسند احمد ، جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ ، سنن دارمی)
قربانی کے جانور کے بارے میں ہدایات
حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو ایسے جانور کی قربانی سے منع فرمایا جس کا سینگ ٹوٹا ہوا ہو ۔ (سنن ابن ماجہ) تشریح قربانی در اصل بندہ کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے حضور میں نذر ہے ، اس لئے ضروری ہے کہ اپنی استطاعت کی حد تک اچھے جانور کا انتخاب کیا جائے ۔ یہ بات بہت غلط ہے کہ لولا ، لنگڑا ، اندھا ، کانا ، بیمار ، مریل ، سینگ ٹوٹا ، کان کٹا جانور اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیش کیا جائے ۔ قرآن مجید میں اصول کے طور پر فرمایا گیا ہے کہ : “ لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ” تم کو نیکی کا مقام اس وقت تک ہرگز حاصل نہیں ہو سکتا ، جب تک کہ وہ چیزیں اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو جو تمہیں مرغوب و محبوب ہوں ۔ بہرحال قربانی کے بارے م یں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان ہدایات کی روح اور ان کا خاص مقصد یہی ہے ۔
بڑے جانور میں کتنے حصے
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : گائے یا بیل کی قربانی سات آدمیوں کی طرف سے اور اسی طرح اونٹ کی قربانی سات آدمیوں کی طرف سے ہو سکتی ہے ۔ (صحیح مسلم و سنن ابی داؤد) تشریح بھینس اہل عرب کے نزدیک گویا گائے ہی کی ایک قسم ہے جو عرب میں نہیں ہوتی اس لئے اس کا اس حدیث میں الگ ذکر نہیں کیا گیا ، اس کی قربانی بھی سات آدمیوں کی طرف سے ہو سکتی ہے ۔
قربانی کا وقت عید کی نماز کے بعد
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید قرباں کے دن خطبہ دیا اس میں ارشاد فرمایا : آج کے دن کے خاص کاموں میں سب سے پہلا کام یہ ہے کہ ہم اللہ کے حضور میں نماز عید ادا کریں ، پھر وہاں سے لوٹ کر ہم قربانی کریں ، جو اس طرح کرے گا وہ ہمارے طریقے کے مطابق ٹھیک کرے گا (اور اس کی قربانی ٹھیک ادا ہو گی) اور جس نے نماز سے پہلے قربانی کر ڈالی اس کی قربانی بالکل نہیں ہوئی ، بلکہ اس نے اپنے گھر والوں کے گوشت کھانے کے لئے بکری ذبح کر لی ہے (اس سے زیادہ اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
قربانی کا وقت عید کی نماز کے بعد
حضرت جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ میں عید قربان کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا ، آپ جیسے ہی عید کی نماز سے فارغ ہوئے آپ کی نگاہ قربانیوں کے گوشت پر پڑی ، یہ قربانیاں نماز سے فارغ ہونے کے قبل ہی ذبح کی جا چکی تھیں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جن لوگوں نے نماز سے پہلے قربانی کر دی ہے وہ اس کی جگہ دوسری قربانی کریں (کیوں کہ ان کی قربانی قبل از وقت ہونے کی وجہ سے صحیح نہیں ہوئی) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت و حرمت
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کو عمل صالح جتنا ان دس دنوں میں محبوب ہے اتنا کسی دوسرے دن میں نہیں ۔ (صحیح بخاری) تشریح جس طرح اللہ تعالیٰ نے ہفتہ کے سات دنوں میں جمعہ کو ، اور سال کے بارہ مہینوں میں سے رمضان المبارک کو ، اور پھر رمضان المبارک کے تین عشروں میں سے عشرہ اخیر کو خاص فضیلت بخشی ہے ، اسی طرح ذی الحجہ کے پہلے عشرہ کو بھی فضل و رحمت کا خاص عشرہ قرار دیا ہے ، اور اسی لئے حج بھی انہی ایام میں رکھا گیا ہے ۔ بہرحال یہ رحمت خداوندی کا خاص عشرہ ہے ۔ ان دنوں میں بندے کا ہر نیک عمل اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے ، اور اس کی بڑی قیمت ہے ۔
عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت و حرمت
ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب ذی الحجہ کا پہلا عشرہ شروع ہو جائے (یعنی ذی الحجہ کا چاند دیکھ لیا جائے) اور تم میں سے کسی کا ارادہ قربانی کا ہو تو اس کو چاہیے کہ اب قربانی کرنے تک اپنے بال یا ناخن بالکل نہ تراشے ۔ (صحیح مسلم) تشریح دراصل یہ عشرہ حج کا ہے ، اور ان ایام کا خاص الخاص عمل حج ہے ، لیکن حج مکہ معظمہ جا کر ہی ہو سکتا ہے ، اس لئے وہ عمر میں صرف ایک دفعہ اور وہ بھی اہل استطاعت پر فرض کیا گیا ہے ، اس کی خاص برکات وہی بندے حاصل کر سکتے ہیں جو وہاں حاضر ہو کر حج کریں ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے سارے اہل ایمان کو اس کا موقع دیا ہے کہ جب حج کے یہ ایام آئیں تو وہ اپنی اپنی جگہ رہتے ہوئے بھی حج اور حجاج سے ایک نسبت پیدا کر لیں اور ان کے کچھ اعمال میں شریک ہو جائیں ، عید الاضحیٰ کی قربانی کا خاص راز یہی ہے ۔ حجاج دسویں ذی الحجہ کو منیٰ میں اللہ کے حضور میں اپنی قربانیاں پیش کرتے ہیں ، دنیا بھر کے دوسرے مسلمان جو حج میں شریک نہیں ہو سکے ان کو حکم ہے کہ وہ اپنی اپنی جگہ ٹھیک اسی دن اللہ کے حضور میں اپنی قربانیاں نذر کریں ، اور جس طرح حاجی احرام باندھنے کے بعد بال یا ناخن نہیں ترشواتا ، اسی طرح یہ مسلمان جو قربانی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ذی الحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد بال یا ناخن نہ ترشوائیں اور اس طریقے سے بھی حجاج سے ایک مناسبت اور مشابہت پیدا کریں ۔ کس قدر مبارک ہدایت ہے جس پر چل کر مشرق و مغرب کے مسلمان حج کے انوار و برکات میں حصہ لے سکتے ہیں ۔ تنبیہ ...... واضح رہے کہ یہاں قربانی اور اس سے پہلے صدقہ فطر سے متعلق احادیث ، نماز عیدین کی احادیث کے ساتھ تبعا ذکر کر دی گئی ہیں ، ورنہ یہ “ کتاب الصلوٰۃ ” ہے ۔ لیکن اکثر محدثین نے ایسا ہی کیا ہے کہ صدقہ فطر اور قربانی سے متعلق احادیث بھی انہوں نے صلوٰۃ عیدین کے ساتھ ہی درج کی ہیں ۔ انہی کی پیروی میں اس کتاب میں بھی یہی طریقہ اختیار کیا گیا ہے ۔
صلوٰۃ کسوف اور صلوٰۃ استسقا
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں خاص اس دن جس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ابراہیم کا انتقال ہوا سورج گرہن کو گہن لگا۔ تو بعض لوگوں نے کہا کہ سورج کو یہ گہن ابراہیم کے انتقال فرما جانے کی وجہ سے لگا ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سورج اور چاند کو گہن کسی کی موت و حیات کی وجہ سے نہیں لگتا۔ (بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت قاہرہ کی نشانیوں میں سے ہے) تم ایسا دیکھو تو اللہ تعالیٰ کے حضور میں نماز پڑھو اور اس سے خوب دعا کرو ۔ تشریح جمعہ اور عیدین کی نمازیں (جن سے متعلق احادیث صفحات ما سبق میں درج کی گئی ہیں) وہ اجتماعی نمازیں ہیں ، جن کا دن یا تاریخ مقرر اور معلوم ہے ، ان کے علاوہ دو نمازیں اور بھی ہیں جو اجتماعی طور پر ادا کی جاتی ہیں ، لیکن نہ ان کا دن مقرر ہے نہ تاریخ ۔ ان میں ایک “ صلوٰۃ کسوف ” ہے جو سورج کے گہن میں آ جانے کے وقت پڑھی جاتی ہے ، اور دوسرے “ صلوٰۃ استسقا ” جو کسی علاقہ میں سوکھا پڑنے یعنی بارش نہ ہونے کی صورت میں بارش کی دعا کے لئے پڑھی جاتی ہے ۔ نماز کسوف سورج یا چاند کا گہن میں آ جانا اللہ تعالیٰ کی قدرت قاہرہ اور اس کے جلال و جبروت کی ایک نشانیوں میں سے ہے جن کا کبھی کبھی ظہور ہوتا ہے اور جن کا حق ہے کہ جب ان کا ظہور ہو تو اللہ کے بندے عاجزی کے ساتھ اس قادر و قہار کی عظمت و جلال کے سامنے جھک جائیں اور اس سے رحم و کرم کی بھیک مانگیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں ٹھیک اس دن جس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شیر خوار صاحبزادے ابراہیم (علی ابیہ وعلیہ الصلوٰۃ والسلام) کا قریبا ڈیڑھ سال کی عمر میں انتقال ہوا تھا (1) سورج کو گہن لگا ۔ عربوں میں زمانہ جاہلیت کے توہمات میں سے ایک یہ خیال بھی تھا کہ بڑے آدمیوں کی موت پر سورج کو گہن لگتا ہے ، اور گویا وہ اس کے ماتم میں سیاہ چادر اوڑھ لیتا ہے ۔ حضرت ابراہیم کی وفات کے دن سورج کے گہن میں آ جانے سے اس توہم پرستی اور غلط عقیدہ کو تقویت پہنچ سکتی تھی ، بلکہ بعض روایات میں ہے کہ کچھ لوگوں کی زبانوں پر یہی بات آئی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت غیر معمولی خشیت اور انتہائی فکر مندی کے ساتھ اللہ کے حضور میں جماعت سے دو رکعت نماز پڑھی ، یہ نماز بھی غیر معمولی قسم کی تھی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں بہت طویل قرأت کی اور قرأت کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار اللہ کے حضور جھک جاتے تھے (گویا رکوع میں چلے جاتے تھے) اور پھر کھڑے ہو کر قرأت کرنے لگتے تھے ۔ اسی طرح اس نماز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع اور سجدے بھی بہت طویل کئے اور اثناء نماز میں دعا بھی بہت اہتمام اور ابتہال کے ساتھ کی ، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور اس میں خاص طور سے اس غلط خیال کی تردید کی کہ سورج یا چاند کو گہن کسی بڑے آدمی کی موت کی وجہ سے لگتا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ محض جاہلانہ توہم پرستی ہے جس کی اصل بنیاد کوئی نہیں ، یہ تو دراصل اللہ کی قدرت وسطوت اور اس کے جلال و جبروت کی نشانی ہے ، جب ایسی کسی نشانی کا ظہور ہو تو عاجزی کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہونا چاہئے ۔ اس کی عبادت اور اس سے دعا کرنی چاہئے ۔اس تمہید کے بعد “ صلوٰۃ کسوف ” سے متعلق چند احادیث ذیل میں پڑھیے : تشریح ..... حضرت مغیرہ بن شعبہ کی ایک حدیث میں بہت اختصار ہے ، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھنے کا بھی ذکر نہیں ہے ۔ دوسری روایات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اور اس کی خاص کیفیت کا ذکر تفصیل سے کیا گیا ہے ۔
صلوٰۃ کسوف اور صلوٰۃ استسقا
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن) سورج گہن میں آ گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے خوفزدہ اور گھبرائے ہوئے اٹھے جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈر ہو کہ اب قیامت ہو جائے گی ، پھر آپ مسجد آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت طویل قیام اور ایسے ہی طویل رکوع و سجود کے ساتھ نماز پڑھائی ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : (اللہ کی قدرت قاہرہ کی) یہ نشانیاں جن کو اللہ تعالیٰ ظاہر کرتا ہے۔ یہ کسی کی موت اور حیات کی وجہ سے واقع نہیں ہوتیں بلکہ بندوں کے دلوں میں یہ اللہ کا خوف پیدا کرنے کے لیے ظاہر ہوتی ہیں ۔ جب تم ایسی کوئی چیز دیکھو تو خوف اور فکر کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہو جاؤ ، اس کو یاد کرو اور اس سے دعا و استغفار کرو ۔
صلوٰۃ کسوف اور صلوٰۃ استسقا
حضرت قبیصہ ہلالی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج کو گرہن لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھبرائے ہوئے باہر تشریف لائے (اور اس گھبراہٹ کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال یہ تھا کہ اپنی چادر مبارک اچھی طرح اوڑھ بھی نہیں سکے تھے بلکہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر زمین پر گھسٹ رہی تھی ، میں اس دن مدینہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز پڑھی اور اس میں بہت طویل قیام کیا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے اور آفتاب اس اثناء میں معلمول کے مطابق روشن ہو گیاتھا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے) فرمایا : ان نشانیوں کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کے دلوں میں اللہ کا خوف پیدا ہو (اور وہ معاصی سے بچیں) لہٰذا جب تم ایسی نشانیاں دیکھو تو اس طرح نماز پڑھو جیسی فرض نماز تم نے ابھی تھوڑی دیر پہلے پڑھی تھی (یعنی فجر کی نماز کی طرح دو رکعت نماز کسوف کے وقت بھی پڑھو) ۔ (سنن ابی داؤد ، سنن نسائی)
صلوٰۃ کسوف اور صلوٰۃ استسقا
حضرت عبدالرحمن بن سمرہ سے روایت ہے کہ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں اپنے تیروں سے نشانہ بازی کر رہا تھا کہ اچانک آفتاب گہن میں آ گیا ، میں نے اپنے تیر وہیں چھوڑ دئیے اور اپنے جی میں کہا کہ میں ابھی چل کر دیکھوں گا کہ سورج گہن کے اس وقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا نئی واردات ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا نیا عمل کیا ۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت کھڑے نماز پڑھ رہے (یعنی نماز شروع ہو چکی تھی) اسی حال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ اٹھائے (جس طرح دعا میں اٹھائے جاتے ہیں) اور دیر تک اللہ کی تسبیح و تہلیل اور تکبیر و حمد کے ساتھ اس سے دعا کرتے رہے ، یہاں تک کہ آفتاب گہن سے نکل گیا (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اور دعا کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک کہ آفتاب گہن ختم ہوا ، اور وہ معمول کے مطابق روشن ہو گیا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نماز میں دو سورتیں اور دو رکعتیں پڑھیں ۔ (صحیح مسلم)
صلوٰۃ کسوف اور صلوٰۃ استسقا
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آفتاب کو گہن لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔ اس نماز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت طویل قیام فرمایا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں گئے اور بہت طویل رکوع کیا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے اور پھر بہت طویل قیام فرمایا ، لیکن قیام پہلے قیام کی بنسبت کچھ کم طویل تھا ، اس کے بعد پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طویل رکوع کیا ، لیکن پہلے رکوع کی بہ نسبت یہ رکوع کچھ کم طویل تھا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں گئے اور سجدہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت طویل کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری رکعت میں بھی بالکل اسی طرح کیا ، جس طرح پہلی رکعت میں کیا ھتا ۔ اس کے بعد (قاعدے کے مطابق قعدہ اخیرہ اور سلام کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ختم کر دی اور آفتاب گہن سے نکل گیا ۔ اور (معمول کے مطابق) روشن ہو گیا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد اس میں فرمایا کہ سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی قدرت و صنعت کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں کسی کی موت و حیات سے ان کو گہن نہیں لگتا۔ (بلکہ زمین و آسمان کی دوسری مخلوقات کی طرح ان پر بھی اللہ کا حکم چلتا ہے اور ان کی روشنی اور تاریکی اسی مالک الملک اور قادر مطلق کے ہاتھ میں ہے) لہذا جب تم ان کو گہن لگتے دیکھو تو اللہ سے دعا کرو اور اس کی کبریائی بیان کرو اور اس کے حضور میں نماز پڑھو اور صدقہ کرو۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے امت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ! کسی غلام یا باندی کی بدکاری سے کسی کو اتنی ناگواری نہیں ہوتی جتنی ناگواری اللہ تعالیٰ کو اپنے کسی بندے یا بندی کی بدکاری سے ہوتی ہے (اس لیے اس کے قہر و جلال سے ڈرو اور ہر قسم کی بدکاری اور معصیت سے بچو) اے امت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ! قسم ہے اللہ کی اگر (اللہ کے قہر و جلال کے بارے میں) تم وہ جانتے جو میں جانتا ہوں تو تم بہت کم ہنستے اور بہت زیادہ روتے ۔ تشریح نماز کسوف کا واقعہ چونکہ غیر معمولی قسم کا واقعہ تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نماز بھی غیر معمولی طرح پڑھی اس لئے بہت سے صحابہؓ نے اس کو روایت کیا ہے ، یہاں صرف پانچ صحابیوں کی روایتیں نقل کی گئی ہیں کتب حدیث میں بیس سے زیادہ صحابیوں کے مجمل یا مفصل بیانات اس واقعہ کے بارے میں ملتے ہیں ۔ امام بخاریؒ نے صحیح بخاری کے کسوف کے متعلق ابواب میں اس واقعہ سے متعلق نو صحابیوں کی حدیثیں روایت کی ہیں ، ان سب حدیثوں سے واقعہ کی پوری تفصیلات معلوم ہو جاتی ہیں ۔ ایک بات جو ان میں سے اکثر حدیثوں سے مشترک طور پر معلوم ہوتی ہے یہ ہے کہ صحابہؓ کے لئے یہ نماز نئی سی بات تھی اور انہوں نے اس سے پہلے کبھی صلوٰۃ کسوف نہیں پڑھی تھی ، اور یہ بات بھی روایات میں صراحۃ موجود ہے کہ یہ کسوف اسی دن ہوا جس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شیرخوار صاحبزادہ ابراہیم کا انتقال ہوا تھا ، اور محدثین کا اس پر قریب قریب اتفاق ہے کہ ان کا انتقال ۱۰ھ میں ہوا یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چند ہی مہینے پہلے ، اس طرح یہ بات متعین ہو جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسوف کی نماز بس ایک ہی دفعہ پڑھی ہے جس کا ان احادیث میں ذکر ہے ۔ چاند گرہن کے وقت بھی نماز پڑھنے کا حکم ان احادیث میں صاف موجود ہے لیکن کسی صحیح حدیث سے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی چاند گرہن کے وقت بھی نماز پڑھی ، غالبا اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس نماز کا حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کسوف ہی کے موقع پر ملا ، اور اس کے بعد جو چند مہینے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں رونق افروز رہے ان میں چاند گرہن کی نوبت ہی نہیں آئی ۔ واللہ اعلم ۔ یہ نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت غیر معمولی کیفیات کے ساتھ پڑھی (حالانکہ جماعت کے ساتھ اتنی طویل نماز پڑھنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ نہ تھی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے) ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ایک روایت میں ہے کہ میرا اندازہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نماز کی ایک رکعت میں سورہ بقرہ پڑھی ، اور دوسری میں آل عمران ۔ اور حضرت جابرؓ کا بیان ہے کہ بعض لوگ اس نماز میں کھڑے نہیں رہ سکے بلکہ گر پڑے ۔ اور بعض روایات میں ہے کہ اس نماز میں بہت سے لوگ بے ہوش ہو گئے اور ان کےک سروں پر پانی ڈالا گیا ۔ اسی طرح کی ایک نئی بات اس نماز میں یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام کے دوران ہاتھ اٹھا کے اللہ کی تسبیح و تہلیل اور تحمید و تکبیر کے ساتھ دیر تک دیا بھی کی ۔ اسی طرح ایک دوسری نئی اور عجیب بات یہ بھی ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیام کے دوران اللہ تعالیٰ کے حضور میں جھک گئے اور دیر تک رکوع میں رہنے کے بعد پھر کھڑے ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرأت کی اور اس کے بعد رکوع اور سجدہ کیا اور بعض روایات کے مطابق قیام کے دوران میں صرف ایک دفعہ نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کئی دفعہ اسی طرح رکوع میں گئے ۔ بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس نماز کے دوران ایک دفعہ پیچھے کی جانب ہٹے اور پھر آگے بڑھے ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ ہاتھ آگے بڑھایا جس طرح کسی چیز کو لینے اور پکڑنے کے لئے ہاتھ بڑھاتے ہیں اور پھر خطبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عالم غیب کے بہت سے حقائق منکشف کیے گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت اور دوزخ کو اپنے سامنے دیکھا ، اور دوزخ میں عذاب کے نہایت ہیبت ناک اور کرزہ خیز مناظر دیکھے اور وہ دیکھا جو کبھی پہلے نہیں دیکھا تھا ۔ یہ بات بہت قریب قیاس ہے کہ اس نماز میں جو غیر معمولی باتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ظہور میں آئیں ۔ مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دوران نماز ہاتھ اٹھا کر دیر تک دعا کرنا ، دوران قیام و قرأت میں بار بار اللہ کے حضور میں جھک جانا کبھی پیچھے ہٹنا کبھی آگے بڑھنا اور کبھی اپنا ہاتھ آگے بڑھانا ، یہ سب ان غیبی مشاہدات کی وجہ سے ہوا ۔ فائدہ ....... ٹھیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے کی وفات کے دن سورج گہن لگنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ میں پورے روز و قوت کے ساتھ یہ اعلان فرمانا کہ اس گہن کا میرے گھر کے اس حادثہ سے کوئی تعلق نہیں اور یسا سمجھنا غلط فہمی اور توہم پرستی ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور بے لوثی کی ایسی دلیل ہے جو بڑے سے بڑے منکر کو متاثر کرتی ہے بشرطیکہ اس کا دل بالکل ہی مردہ نہ ہو ۔
نماز استسقا
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدمت میں حاضر ہو کر بارش نہ ہونے اور سوکھا پڑ جانے کی تکلیف بیان کی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم (مدینہ کی آبادی سے باہر) اس جگہ جہاں عیدین کی نماز پڑھی جاتی تھی نماز استسقا پڑھنے کا فیصہ فرمایا ، اور لوگوں کو ایک دن متعین کر کے بتلایا کہ کہ اس دن سب لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل کر نماز استسقا پڑھیں ، اور حکم یا کہ اور حکم فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منبر اس دن وہاں لے جا کر رکھا جائے ، چنانچہ منبر وہاں پہنچا دیا گیا ۔ آگے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ جب وہ دن آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی الصبح آفتاب طلوع ہوتے ہی وہاں تشریف لے گئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف فرما ہوئے ، پھر اللہ کی کبریائی اور حمد و ثناء بیان کی پھر فرمایا : تم لوگوں نے اپنے علاقہ میں وقت پر بارش نہ ہونے اور سوکھا پڑ جانے کی شکایت کی ہے ، اور اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اپنی حاجات میں تم اس سے دعا کرو اور اس کا وعدہ ہے کہ وہ ضرور قبول فرمائے گا “ ، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حضور میں عرض کیا : الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ، يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ ، اللَّهُمَّ أَنْتَ اللَّهُ ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ الْغَنِيُّ وَنَحْنُ الْفُقَرَاءُ ، أَنْزِلْ عَلَيْنَا الْغَيْثَ ، وَاجْعَلْ مَا أَنْزَلْتَ لَنَا قُوَّةً وَبَلَاغًا إِلَى حِينٍ ساری حم و ستائش اللہ رب العالمین کے لیے ہیں وہ نہایت رحمت والا اور بڑا مہربان ہے یوم جزا کا مالک و فرمانروا ہے ، اللہ کے سوا کوئی الہ و معبود نہیں ، اس کی شان یہ ہے کہ جو چاہے کر ڈالے ، خدا وند تو ہی اللہ ہے ، ہے ، تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں ، تو غنی ہے اور ہم سب تیرے محتاج بندے ہیں ، ہم پر باش نازل فرما اور جو بارش تو بھیجے اس کو ہمارے لیے تقویت کا ذریعہ اور ایک مدت تک کفایت کا ذریعہ بنا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے (غالبا مطلب یہ ہے کہ اس دعا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ جتنے اٹھائے ہوئے تھے اس سے اور اوپر اٹھائے) اور بہت دیر تک اسی طرح ہاتھ اٹھائے دعا کرتے رہے اور ہاتھ اتنے اوپر اٹھائے کہ (باوجود یکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چادر مبارک اوڑھے ہوئے تھے لیکن) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بغل کے اندرونی حصے کی سپیدی بھی نظر آنے لگی ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا رخ قبلہ کی طرف کیا اور پشت لوگوں کی طرف کر لی ہاتھ اور جو چادر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اوڑھے ہوئے تھے اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پلٹا اور دعا میں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ اب تک اٹھے ہوئ ے رہے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا رخ لوگوں کی طرف کر لیا اور منبر سے نیچےت آ کر دو رکعت نماز پڑھائی ، اللہ کے حکم اسی وقت ایک بدلی اٹھی ، جس میں گرج اور چمک بھی تھی ، پھر وہ اللہ کے حکم سے خوب برسی (اور ایسی بھرپور بارش ہوئی کہ ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مسجد تک واپس نہیں پہنچے تھے کہ پانی سے راستے اور نالے بھر کر بہنے لگے ، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ منظر دیکھا کہ لوگ (جو قحط اور سوکھا کی شکایت کر رہے تھے) بارش سے پناہ لینے کے لئے سائبان یا چھپر کی طرف دوڑ رہے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنسی آ گئی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک ظاہر ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کو ہر چیز پر قدرت ہے اور میں اس کا بندہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ہوں “ ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح بارش عام انسانوں کی بلکہ اکثر حیوانات کی بھی ان کی ضروریات میں سے ہے جن پر زندگی کا گویا انحصار ہے ، اس لیے کسی علاقہ میں قحط اور سوکھا پڑ جانا وہاں کی عمومی مصیبت بلکہ ایک گونہ عذاب عما ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح شخصی اور انفرادی حاجتوں اور پریشانیوں کے لیے وہ “ صلوٰۃ حاجت ” تعلیم فرمائی جس کا بیان پچھلے صفحات میں اپنے موقع پر گزر چکا ہے ۔ اسی طرح اس عمومی مصیبت اور پریشانی کی دفیعہ کے لیے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اجتماعی نماز اور دعا کی تعلیم فرمائی جس کی منظم اور مکمل شکل “ صلوٰۃ استسقا ” ہے ۔ استسقا کے لغوی معنی ہی پانی مانگنے اور سیرابی طلب کرنے کے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک دفعہ قحط پڑا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلوٰۃ استسقا پڑھی اور اللہ کے حکم سے اسی وقت بارش ہوئی ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی مندرجہ ذٰل حدیث میں اس واقعہ کی تفصیل پڑھئے ۔
نماز استسقا
حضرت عبداللہ بن زید سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز استسقا کے لئے لوگوں کو ساتھ لے کر عید گاہ تشریف لے گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نماز میں دو رکعتیں پڑھیں اور قرأت بالجہر کی اور قبلہ رو ہو کر اور ہاتھ اٹھا کر دعا کی اور جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ کی طرف اپنا رخ کیا ، اس وقت اپنی چادر کو پلٹ کر اوڑھا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
نماز استسقا
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز استسقا کے لئے چلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت معمولی اور کم حیثیت لباس پہنے ہوئے تھے ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انداز خاکساری اور مسکینی اور عاجزی کا تھا ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ) تشریح جیسا کہ ابھی عرض کیا گیا صلوٰۃ استسقا قحط کی عمومی اور اجتماعی مصیبت کے دفیعہ کے لئے اجتماعی نماز اور دعا ہے ۔ مندرجہ بالا حدیثوں سے اس نماز کے بارے میں چند باتیں معلوم ہوئیں ۔ اول ...... یہ کہ یہ نماز آبادی اور بستی سے باہر صحرا اور جنگل میں براہ راست زمین پر ہونی چاہئے ، بارش طلبی کے لئے صحرا اور جنگل ہی نسبتاً زیادہ موزوں جگہ ہے اور اس میں پانی بے مائگی کا اظہار بھی زیادہ ہوتا ہے ۔ دوسرے ..... یہ جمعہ یا عید کی نماز کی طرح اس نماز کے لئے نہانے دھونے اور اچھے کپڑے پہننے کا اہتمام نہ کیا جائے بلکہ اس کے برعکس بالکل معمولی اور کم حیثیت لباس ہو ، مسکینوں اور فقیروں کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے حضور میں حاضری ہو ، سائل کے لئے فقیرانہ صورت اور پھٹے حال مسکینوں کی سی حالت ہی زیادہ مناسب ہے ۔ تیسرے ...... یہ کہ دعا بہت ابتہال اور الحاح کے ساتھ کی جائے ، اور اس غرض سے ہاتھ آسمان کی طرف زیادہ اونچے اٹھائے جائیں ۔ پہلی دونوں حدیثوں میں “ تحویل رداء ” کا بھی ذکر ہے یعنی یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ رو ہر کر اپنی چادر مبارک پلٹ کر اوڑھی ۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ اے اللہ ! جس طرح میں نے اس چادر کو الٹ دیا اسی طرح تو بارش نازل فرما کر صورت حال بالکل پلٹ دے ، گویا ہاتھ اٹھانے کی طرح یہ عمل بھی دعا ہی کا ایک جز تھا ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی پہلی حدیث میں گزرا کہ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز استسقا پڑھی اسی وقت ایک بدلی اٹھی اور بھرپور بارش ہوئی ۔ دوسرے بعض صحابہ کرامؓ کی روایت میں بھی اس کا ذکر ہے ۔ الحمد للہ یہ امت کا بھی عام تجربہ ہے ۔ اس عاجز و عاصی کو بھی اپنی عمر میں تین دفعہ نماز استسقاپڑھنے کا اتفاق ہوا ہے ۔ پہلی دفعہ اپنے بالکل بچپن میں اپنے اصل وطن سنبھل میں ، دوسری دفعہ اب سے قریبا پندرہ سال پہلے لکھنو میں اور تیسری دفعہ ۱۹۵۱ میں مدینہ طیبہ میں اور یہ تینوں دفعہ کی نماز کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے بارش نازل فرمائی ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ : جب نماز اور دعا کے نتیجہ میں بارش ہوئی اور بھرپور ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : أَشْهَدُ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ، وَأَنِّي عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے اور میں اس کا بندہ اور رسول ہوں ۔ یہ کمال عبدیت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز اور دعا کے نتیجہ میں جب معجزانہ طور پر بارش نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حقیقت کا اعتراف و اعلان ضروری سمجھا کہ یہ جو کچھ ہوا اللہ تعالیٰ کی قدرت و مشیت سے ہوا لہٰذا وہی حمد و شکر کا مستحق ہے اور میں تو بس اس اللہ کا ایک بندہ اور پیغامبر ہوں ۔ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى سيدنا مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ وَرَسُولِكَ.
نماز جنازہ ، اور اس کے قبل و بعد
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لوگو ! موت کو یاد کرو اور یاد رکھو جو دنیا کی لذتوں کو ختم کر دینے والی ہے ۔ (جامع ترمذی ، سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ) تشریح محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلوٰۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت موت ، مرض الموت بلکہ مطلق مرض و دیگر مصائب و بلیات اور ان حوادث کے وقت کے طرز عمل ، پھر غسل میت ، تجہیز و تکفین ، نماز جنازہ ، دفن ، تعزیت ، یہاں تک کہ زیارت قبور ان سب ہی امور کے متعلق حدیثیں درج کرتے ہیں ۔ اس دستور کی پیروی میں یہاں بھی ان تمام امور سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور معمولات اسی طرح ذکر کئے جائیں گے ۔ ان حدیثوں سے جو کچھ معلوم ہو گا ان کا حاصل اور خلاصہ یہ ہے کہ موت چونکہ یقیناً آنے والی ہے ، اور اس کا کوئی وقت معلوم نہیں ہے ، اس لئے مسلمان کو چاہئے کہ کسی وقت بھی اس سے غافل نہ ہو ، ہمیشہ اس کو یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے ۔ خصوصا جب بیمار ہو تو اپنی دینی و ایمانی حالت کو درست کرنے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے تعلق کو صحیح کرنے کی زیادہ فکر کرے ، دوسرے بھائی اس کی خدمت و ہمدردی اور اس کا غم ہلکا کرنے اور جی بہلانے کی کوشش کریں ، اور اس کے سامنے اجر و ثواب کی باتیں اور اللہ تعالیٰ کی شان رحمت کے خوش آئند تذکرے کریں ۔ خصوصا جب محسوس ہو کہ مریض بظاہر اچھا ہونے والا نہیں اور سفر آخرت کے قریب ہے تو اس کے دل کو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ کرنے کی اور کلمہ ایمان کی یاد دہانی کی مناسب طریقے پر کوشش کریں ۔ پھر جب موت وارد ہو جائے تو اس کے اقارب صبر سے کام لیں ، طبعی اور فطری رنج و غم کے باوجود موت کو اللہ تعالیٰ کا فیصلہ سمجھ کر وفادار بندے کی طرح اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دیں ، اور اس کے کرم سے اس صدمہ پر اجر و ثواب کی امید رکھیں اور اس کی دعائیں کریں ۔ پھر میت کو غسل دیا جائے ، پھر اس کو اچھے صاف ستھرے کپڑوں میں کفنایا جائے ، اور خوشبو کا استعمال کیا جائے ۔ پھر اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے جس میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء اور تسبیح و تقدیس ہو ، اس کی عظمت و کبریائی کا اعتراف و اقرار ہو ، اللہ کے نبی و رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دعائے رحمت ہو جن سے اس میت کو اور نماز پڑھنے والوں کو ہدایت ملی ، اس سب کے بعد مرنے والے بھائی کے لئے اللہ تعالیٰ سے بخشش اور رحم و کرم کی دعا اور التجا ہو ، پھر پورے اعزاز و احترام کے ساتھ اس کا اس زمین کے سپرد کر دیا جائے اور اس کی گود میں دے دیا جائے جس کے اجزاء سے اس کا جسم بنا اور پلا تھا ، اور جو ایک طرح سے گویا اس کی ماں تھی ۔ پھر لوگ زبانی اور عملی طور پر میت کے اقارت اور گھر والوں کی غمخواری اور ہمدردی کریں اور ان کی تسلی و تشفی اور غم ہلکا کرنے کی کوشش کریں ۔ ان میں سے ہر بات کی حکمت اور مصلحت بالکل ظاہر ہے اور یہ واقعہ اور تجربہ ہے کہ مرض و موت اور دوسری مصیبتوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان ہدایات پر عمل کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے ، اور اس سلسلہ کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر تعلیم و ہدایت دل کے زخم کا مرہم اور صدمہ کی دوا بن جاتی ہے ، اور موت تو لقاء الٰہی کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے محبوب و مطلوب ہو جاتی ہے ۔ یہ تو ان ہدیت کے دینوی اور نقد برکات ہیں ، اور آخرت میں ان شاء اللہ وہ سب سامنے آنے والا ہے ۔ جس کا وعدہ آگے آنے والی حدیثوں میں کیا گیا ہے ۔ اس تمہید کے بعد اس سلسلہ کی حدیثیں پڑھئے۔
نماز جنازہ ، اور اس کے قبل و بعد
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ میرا مونڈھا پکڑا اور مجھ سے فرمایا : دنیا میں اس طرح رہ جیسے کہ تو پردیسی اور راستہ چلتا مسافر ہے ، اور (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہدایت و تعلیم کا اثر تھا کہ اپنے نفس کو یا دوسروں کو بھی مخاطب کر کے) ابن عمرؓ نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ جب شام آئے تو صبح کا انتظار نہ کر (معلوم نہیں کہ صبح تک تو رہے گا یا نہیں) اور جب صبح ہو تو شام انتظار نہ کر (نہیں معلوم کہ شام تک تو زندہ رہے گا یا نہیں) اور تندرستی کی حالت میں بیماری کے لئے اور زندگی میں موت کے لئے کچھ کمائی کر لے ۔ (صحیح بخاری)
نماز جنازہ ، اور اس کے قبل و بعد
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس کو اللہ سے ملنا اور اس کے حضور میں حاضر ہونا محبوب ہو اللہ کو اس سے ملنا محبوب ہے ، اور جس کو اللہ سے ملنا نا گوار ہو ، اللہ کو اس سے ملنا ناگوار ہے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح حضرت عبادہ بن صامت کی اسی روایت میں آگے یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ بات ارشاد فرمائی تو ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا یا ازواج مطہرات میں سے کسی اور نے عرض کیا : حضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) ہمارا حال تو یہ ہے کہ : اِنَّا نَكْرَهُ الْمَوْتَ “ ہم موت سے گھبراتے ہیں اور موت ہم کو محبوب اور گوارا نہیں ہے ” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں جو کچھ فرمایا اس کا حاصل یہ ہے کہ میرا مطلب یہ نہیں کہ آدمی کو خود موت محبوب ہونی چاہیے ، موت کا محبوب نہ ہونا تو ایک طبعی اور فطری سی بات ہے ، بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ موت کے بعد اللہ تعالیٰ کی جو رضا اور اس کا جو فضل و کرم مؤمن پر ہونے والا ہے جو موت کے وقت اس پر منکشف کر دیا جاتا ہے وہ آدمی کو محبوب اور اس کا شوق ہونا چاہئے اور جس بندے کا یہ حال ہو اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرتا ہے اور اس سے ملنا اللہ تعالیٰ کو محبوب ہوتا ہے ، اور اس کے بر عکس جو بندہ اپنی بداعمالی اور بدبختی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے غضب اور عذاب کا مستحق ہوتا ہے ، موت کے وقت اس کے اس برے انجام پر اس کو مطلع کر دیا جاتا ہے اس لئے وہ اللہ کے حضور میں جانا نہیں چاہتا اور اس کو اپنے حق میں سخت مصیبت سمجھتا ےہے تو ایسے شخص سے اللہ تعالیٰ بھی ملنا نہیں چاہتا اور اس سے نفرت کرتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تشریح کی بناء پر لقاء اللہ سے مراد یہاں موت نہیں ہے بلکہ موت کے بعد اللہ تعالیٰ کا جو معاملہ بندے کے ساتھ ہونے والا ہے وہ مراد ہے ، چنانچہ اسی مضمون کی جو حدیث خود حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے اس کے آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تصریح ہے کہ : والموت قبل لقاء الله (یعنی موت لقاء اللہ سے پہلے ہے) ۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے اس حدیث کی شرح میں فرمایا ہے کہ جب اس دنیا سے دوسرے عالم کی طرف منتقل ہونے کا وقت بالکل قریب آتا ہے تو بہیمیت اور مادیت کے غلیظ پردے چاک ہونے لگتے ہیں ، اور روح کے لئے عالم ملکوت کا ظہور ہونے لگتا ہے ، اس وقت عالم غیب اور عالم آخرت کی وہ حقیقتیں گویا مشاہدے میں آنے لگتی ہیں جن کی اطلاع انبیاء علیہم السلام نے دی ہے ، اس وقت اس صاحب ایمان بندے کی روح جس نے ہمیشہ بہیمی تقاضوں کو دبایا اور ملکی صفات کو غالب کرنے کی کوشش کی ، اللہ تعالیٰ کی عنایات اور اس کے لطف و کرم کے نقشوں کا مشاہدہ کر کے اس کی مشتاق ہو جاتی ہے اور اس کا داعیہ اور شوق یہ ہوتا ہے کہ جلد سے جلد وہ اسی عالم میں اور اللہ تعالیٰ کی آغوش رحمت میں پہنچ جائے اور اس کے برعکس جو منکر یا خدا فراموش اور نفس پرست بندہ ہمیشہ اپنے بہیمی تقاضوں میں غرق اور دنیوی لذتوں میں مست رہا ، اس کی روح موت کے وقت جب اپنے مستقبل کے مہیب نقشے دیکھتی ہے تو کسی طرح دنیا سے نکلنا نہیں چاہتی ۔ شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں کہ انہیں دونوں حالتوں کو “ أَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ ” اور “ كَرِهَ لِقَاءَ اللَّهِ ” سے تعبیر کیا گیا ہے ، اور آگے أَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُاور كَرِهَ اللَّهُ لِقَاءَهُ کا مطلب بس اللہ تعالیٰ کی رضا اور ناراضی اور انعام اور غضب اور ثواب و عذاب ہے ۔
نماز جنازہ ، اور اس کے قبل و بعد
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : مؤمن کا تحفہ موت ہے ۔ (شعب الایمان للبیہقی) تشریح جیسا کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے موت طبعی طور پر کسی کے لئے بھی خوشگوار نہیں ہوتی ، لیکن اللہ کے جن بندوں کو ایمان و یقین کی دولت نصیب ہے وہ موت کے بعد کے اللہ تعالیٰ کے انعامات اور قرب خصوصی اور لذت دیدار پر نظر رکھتے ہوئے عقلی طور پر موت کے مشتاق ہوتے ہیں ، بلکل اس طرح جس طرح کہ آنکھ میں نشتر لگوانا طبعی طور پر کسی کو بھی مرغوب اور گوارا نہیں ہو سکتا لیکن اس امید پر کہ آپریشن سے آنکھ میں روشنی آ جائے گی ، عقلی طور پر وہ محبوب و مطلوب ہوتا اور ڈاکٹر کو فیس دے کر آنکھ میں نشتر لگوایا جاتا ہے ۔ بس فرق اتنا ہے کہ آپریشن کے نتیجہ میں آنکھ کا روشن ہو جانا قطعی اور یقینی نہیں ہے ، آپریشن ناکامیاب بھی ہو جاتا ہے ، لیکن صاحب ایمان و یقین کے لیے اللہ تعالیٰ کے انعامات اور اس کا قرب اور لذت و دیدار بالکل یقینی ہے ، اسی لحاظ سے اصحاب ایمان و یقین کے لئے موت محبوب ترین تحفہ ہے ۔ سمجھنے کے لئے بلا تشبیہ اس کی دوسری ایک مثال یہ ہے کہ ہر لڑکی کے لئے شادی اور ماں باپ کے گھر سے رخصت ہو کر شوہر کے ہاں جانا اس حیثیت سے بڑے رنج اور صدمہ کی بات ہوتی ہے کہ ماں باپ کی شفقت اور گھر کا ماحول اس سے چھوٹ جائے گا اور اس کی آئندہ زندگی ایک نئے گھر اور نئے خاندان میں گزرے گی ، لیکن شادی سے مستقبل کے بارے میں جو خاص توقعات ہوتی ہیں جن کے لئے شادی کی جاتی ہے ان کی وجہ سے بلا شبہ شادی کا شوق اور ارمان بھی ہوتا ہے ۔ بس اسی طرح اللہ تعالیٰ کے ساتھ صحیح ایمانی تعلق رکھنے والے بندوں کا معاملہ ہے ۔ موت کے بعد اللہ تعالیٰ کی جن الطاف و عنایات اور جس طرح قرب خصوصی کی ان کو توقع ہوتی ہے اسی کی وجہ سے ان کو موت کا اشتیاق اور ارمان ہوتا ہے !
موت کی تمنا کرنے کی ممانعت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : تم میں سے کوئی موت کی تمنا نہ کرے ، اگر وہ نیکو کار ہے تو امید ہے کہ جب تک وہ زندہ رہے گا نیکیوں کے اس کے ذخیرے میں اضافہ ہوتا رہے گا اور اگر اس کے اعمال خراب ہیں تو ہو سکتا ہے آئندہ زندگی میں وہ توبہ وغیرہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کو راضی کر لے ۔ (صحیح بخاری) تشریح بہت سے لوگ دنیا کی تنگیوں اور پریشانیوں سے گھبرا کر موت کی آرزو اور دعا کرنے لگتے ہیں ، یہ بڑی بے دانشی ، کم ہمتی اور بے صبری کی بات اور ایمان کی کمزوری کی علامت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے ۔ تشریح ..... صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کے الفاظ یہی ہیں جو اوپر درج کئے گئے ہیں لیکن صحیح مسلم کی روایت میں خفیف سا لفظی فرق ہے اور اس میں موت کی تمنا کے ساتھ اس کی دعا کرنے سے بھی منع فرمایا گیا ہے ۔
موت کی تمنا کرنے کی ممانعت
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے کوئی کسی دکھ اور تکلیف کی وجہ سے موت کی تمنا (اور دعا) نہ کرے اگر (اندر کے داعیہ سے) بالکل ہی لاچار ہو ، تو یوں دعا کرے کہ اے اللہ ! میرے لئے جب تک زندگی بہتر ہو اس وقت تک مجھے زندہ رکھ اور جب میرے لئے موت بہتر ہو اس وقت تو مجھے دنیا سے اٹھا لےئ ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
بیماری بھی مومن کے لئے رحمت اور گناہوں کا کفارہ
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : مرد مومن کو جو بھی دکھ اور جو بھی بیماری اور جو بھی پریشانی اور جو بھی رنج و ٹم اور جو بھی اذیت پہنچتی ہے ، یہاں تک کہ کانٹا بھی اگر اس کے لگتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان چیزوں کے ذریعہ اس کے گناہوں کی صفائی کر دیتا ہے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کے متعلق بتلایا کہ وہ فنا اور نیست ہو جانا نہیں ہے بلکہ ایک دوسری زندگی کا آغاز اور ایک دوسرے عالم کی طرف منتقل ہو جانا ہے جو اللہ کے ایمان والے بندوں کے لئے نہایت ہی خوشگوار ہو گا ، اور اس لحاظ سے وہ موت مومن کا تحفہ ہے ۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ بیماری بھی صرف دکھ اور مصیبت نہیں ہے بلکہ ایک پہلو سے وہ رحمت ہے اور اس سے گناہوں کی صفائی ہوتی ہے ، اور اللہ کے سعادت مند بندوں کو چاہئے کہ بیماری اور دوسری تکلیفوں اور مصیبتوں کو خدائی تنبیہ سمجھتے ہوئے اپنی اصلاح کی فکر اور کوشش میں لگ جائیں ۔ ذیل کی حدیثوں میں یہی تعلیم اور ہدایت دی گئی ہے ۔
بیماری بھی مومن کے لئے رحمت اور گناہوں کا کفارہ
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کسی مرد مومن کو جو بھی تکلیف پہنچتی ہے مرض سے یا اس کے علاوہ ، اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے اس کے گناہوں کو اس طرح جھاڑ دیتا ہے جس طرح خزاں رسیدہ درخت اپنے پتے جھاڑ دیتا ہے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
بیماری بھی مومن کے لئے رحمت اور گناہوں کا کفارہ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : اللہ تعالیٰ کے بعض ایمان والے بندوں یا ایمان والی بندیوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مصائب اور حوادث آتے رہتے ہیں ۔ کبھی اس کی جان پر کبھی اس کے مال پر ، کبھی اس کی اولاد پر (اور اس کے نتیجہ میں اس کے گناہ جھڑتے رہتے ہیں) یہاں تک کہ مرنے کے بعد وہ اللہ کے حضور میں اس حال میں پہنچتا ہے کہ اس کا ایک گناہ بھی باقی نہیں رہتا ۔ (جامع ترمذی)
بیماری بھی مومن کے لئے رحمت اور گناہوں کا کفارہ
محمد بن خالد سلمی اپنے والد سے روایت ہیں اور وہ ان کے دادا سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کسی بندہ مومن کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا بلند مقام طے ہو جاتا ہے جس کو وہ اپنے عمل سے نہیں پا سکتا ، تو اللہ تعالیٰ اس کو کسی جسمانی یا مالی تکلیف میں یا اولاد کی طرف سے کسی صدمہ اور پریشانی میں مبتلا کر دیتا ہے ، پھر اس کو صبر کی توفیق دے دیتا ہے ، یہاں تک کہ (ان مصائب و تکالیف اور ان پر صبر کرنے کی وجہ سے) اس بلند مقام پر پہنچا دیتا ہے جو اس کے لئے پہلے سے طے ہو چکا تھا ۔ تشریح اللہ تعالیٰ مالک الملک اور احکم الحاکمین ہے ، وہ اگر چاہے تو بغیر کسی عمل اور استحقاق کے بھی اپنے کسی بندے کو بلند سے بلند درجہ عطا فرما سکتا ہے ، لیکن اس کی حکمت اور صفت عدالت کا تقاضا یہ ہے کہ جو بندے اپنے اعمال اور احوال کی وجہ سے جس درجہ کے مستحق ہوں ان کو اسی درجہ پر رکھا جائے ، اس لئے اللہ تعالیٰ کا یہ دستور اور معاملہ ہے کہ جب وہ کسی بندے کے لئے اس کی کوئی ادا پسند کر کے یا خود اس کی یا اس کے حق میں کسی دوسرے بندے کی دعا قبول کر کے اس کو ایسا بلند درجہ عطا فرمانے کا فیصلہ کرتا ہے جس کا وہ اپنے اعمال کی وجہ سے مستحق نہیں ہوتا تو اعمال کی اس کمی کو مصائب حوادث اور صبر کی توفیق سے پورا کر دیتا ہے ۔ واللہ اعلم ۔
بیماری بھی مومن کے لئے رحمت اور گناہوں کا کفارہ
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قیامت کے دن جب ان بندوں کو جو دنیا میں مبتلائے مصائب رہے ، ان مصائب کے عوض اجر و ثواب دیا جائے گا تو وہ لوگ جو دنیا میں ہمیشہ آرام و چین سے رہے حسرت کریں گے کہ کاش دنیا میں ہماری کھالیں قینچیوں سے کاٹی گئی ہوتیں ۔ (جامع ترمذی)
بیماری بھی مومن کے لئے رحمت اور گناہوں کا کفارہ
عامر رامی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ بیماریوں کے سلسلہ میں کچھ ارشاد فرمایا (یعنی بیماری کی حکمتیں اور اس میں جو خیر کا پہلو ہے اس کا تذکرہ فرمایا) اس سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : جب مرد مومن بیماری میں مبتلا ہوتا ہے پھر اللہ تعالیٰ اس کو صحت و عافیت دیتا ہے تو یہ بیماری اس کے پچھلے گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہے اور مستقبل کے لئے نصیحت و تنبیہ کا کام کرتی ہے اور (خدا و آخرت سے غافل و بے پرواہ) منافق آدمی جب بیمار پڑتا ہے اور اس کے بعد اچھا ہو جاتا ہے (تو وہ اس سے کوئی سبق نہیں لیتا اور کوئی نفع نہیں اٹھاتا) اس کی مثال اس اونٹ کی سی ہے جس کو اس کے مالک نے باندھ دیا ، پھر کھول دیا ، لیکن اس کو کوئی احساس نہیں کیوں اس کو باندھا اور کیوں کھولا ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان سب ارشادات کا خاص سبق اور پیغام یہی ہے کہ بیماریوں اور دوسری تکلیفوں اور پریشانیوں کو (جو اس دنیوی زندگی کا گویا لازمہ ہیں) صرف مصیبت اور اللہ تعالیٰ کے غضب اور قہر کا ظہور ہی نہ سمجھنا چاہیے ۔ اللہ سے صحیح تعلق رکھنے والے بندوں کے لئے ان میں بھی بڑا خیر اور رحمت کا بڑا سامان ہے ، ان کے ذریعہ کے ذریعہ گناہوں کی صفائی اور تطہیر ہوتی ہے ، اللہ تعوالیٰ کی خاص عنایات اور بلند درجات کا استحقاق حاصل ہوتا ہے اعمال کی کمی کی کسر پوری ہوتی ہے ۔ اور ان کے ذریعہ سعادت مند بندوں کی تربیت ہوتی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تعلیم کی یہ کتنی عظیم برکت ہے کہ جن بندوں کو ان حقیقتوں کا یقین ہے وہ بڑی سے بڑی بیماری اور مصیبت کو بھی اللہ تعالیٰ کی عنایت و رحمت کی ایک صورت سمجھتے ہیں ۔ اپنے جن بندوں کو اللہ تعالیٰ نے یہ دولت نصیب فرمائی ہے بس وہی جانتے ہیں کہ یہ کتنی عظیم نعمت ہے اور اس سے بیماری اور مصیبت کے حال میں بھی دل اور روح کو کتنی تقویت حاصل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق اور محبت میں کتنی ترقی اور کس قدر اضافہ ہوتا ہے ۔
بیماری میں زمانہ تندرستی کے اعمال کا ثواب
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : جب کوئی بندہ بیمار ہو یا سفر میں جائے (اور اس بیماری یا سفر کی وجہ سے اپنی عبادت وغیرہ کے معمولات پورا کرنے سے مجبور ہو جائے) تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے اعمال اسی طرح لکھے جاتے ہیں جس طرح وہ صحت و تندرستی کی حالت میں اور زمانہ اقامت میں کیا کرتا تھا ۔ (صحیح بخاری) تشریح یہ بھی اللہ تعالیٰ کا خاص لطف و کرم اور فضل و اھسان ہے کہ اگر آدمی بیماری یا سفر جیسی کسی مجبوری سے اپنے ذکر و عبادت و غیرہ کے معمولات پورے نہ کر سکے تو اللہ تعالیٰ اس کے اعمال نامہ میں اپنے حکم سے وہ معمولات لکھواتا ہے ، جو یہ بندہ تندرستی اور اقامت کی حالت میں کیا کرتا تھا ۔ اللهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ وَلَكَ الشُّكْرُ لَا تُحْصِي ثَنَاءعَلَيْكَ.
مریض کی عیادت اورتسلی و ہمدردی
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بھوکوں کو کھانا کھلاؤ ، بیماروں کی عیادت کرو اور جو لوگ ناحق قید کر دیئے گئے ہوں ان کی رہائی کی کوشش کرو ۔ (صحیح بخاری) تشریح مریض کی عیادت و تسلی اس کی خدمت و ہمدردی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونچے درجہ کا نیک عمل اور ایک طرح کی مقبول ترین عبادت بتلایا ہے اور مختلف طریقوں سے اس کی ترغیب دی ہے ، خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دستور اور معمول بھی تھا کہ مریضوں کی عیادت کے لئے تشریف لے جاتے ، ان سے ایسی باتیں کرتے جن سے ان کو تسلی ہوتی اور ان کا غم ہلکا ہوتا ، اللہ کا نام اور اس کا کلام پڑھ کر ان پر دم بھی فرماتے اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین فرماتے
مریض کی عیادت اورتسلی و ہمدردی
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : بندہ مومن جب اپنے صاحب ایمان بندے کی عیادت کرتا ہے تو واپس آنے تک وہ گویا جنت کے باغ میں ہوتا ہے ۔ (صحیح مسلم)
مریض کی عیادت اورتسلی و ہمدردی
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس بندے نے کسی مریض کی عیادت کی تو اللہ کا منادی آسمان سے پکارتا ہے کہ تو مبارک ، اور عیادت کے لئے تیرا چلنا مبارک اور تو نے یہ عمل کر کے جنت میں اپنا گھر بنا لیا ۔ (سنن ابن ماجہ)
مریض کی عیادت اورتسلی و ہمدردی
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم کسی مریض کے پاس جاؤ تو اس کی عمر کے بارے میں اس کے دل کو خوش کرو (یعنی اس کی عمر اور زندگی کے برے میں خوش کن اور اطمینان بخش باتیں کرو ۔ مثلاً یہ تمہاری حالت بہتر ہے ، ان شاء اللہ تم جلد ہی تندرست ہو جاؤ گے) اس طرح کی باتیں کسی ہونے والی چیز کو روک تو نہ سکیں گی (جو ہونے ولا ہے وہی ہو گا) لیکن اس سے اس کا دل خوش ہو گا (اور یہی عیادت کا مقصد ہے) ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ)
مریض کی عیادت اورتسلی و ہمدردی
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی لڑکا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا ، وہ مریض ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی عیادت کے لئے اس کے پاس تشریف لے گئے اور اس کے سرہانے بیٹھ گئے اور اس سے فرمایا تو اللہ کا دین اسلام قبول کر لے اس نے اپنے والد کی طرف دیکھا جو وہیں موجود تھے ، اس نے لڑکے سے کہا تو ابو القاسم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بات مان لے ، اس لڑکے نے اسلام قبول کر لیا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور فرماتے تھے ۔ “ حمد اس اللہ کی جس نے اس لڑکے جو جہنم سے نکال لیا ” ۔ (صحیح بخاری) تشریح اس حدیث سے ایک بات یہ معلوم ہوئی کہ بعض غیر مسلم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خادمانہ تعلق رکھتے تھے ۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غیر مسلموں کی بھی عیادت فرماتے تھے ۔ تیسری بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ جن غیر مسلموں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ قریب ہونے کا موقع ملتا تھا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنے متاثر ہوتے تھے کہ اپنی اولاد کے لئے اسلام قبول کرنا بہتر اور بھلائی کا وسیلہ سمجھتے تھے ۔
مریض پر دم اور اس کے لئے دعا صحت
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ جب ہم میں سے کوئی آدمی بیمار ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا داہنا ہاتھ اس کے جسم پر پھیرتے اور یہ دعا پڑھتے : أَذْهِبِ الْبَاسَ ، رَبَّ النَّاسِ ۔ (اے سب آدمیوں کے پروردگار ! اس بندے کی تکلیف دور فرما دے اور شفا عطا فرما دے ، تو ہی شفا دینے والا ہے ، بس رتیری ہی شفا شفا ہے ، ایسی کامل شفا عطا فرما جو بیماری بالکل نہ چھوڑے) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
مریض پر دم اور اس کے لئے دعا صحت
حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درد کی شکایت کی جو ان کے جسم کے کسی حصے میں تھا ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : تم اس جگہ پر اپنا ہاتھ رکھو جہاں تکلیف ہے اور تین دفعہ کہو “ بِسْمِ اللهِ ” اور سات مرتبہ کہو “ أَعُوذُ بِعِزَّةِ اللهِ وَقُدْرَتِهِ مِنْ شَرِّ مَا أَجِدُ وَأُحَاذِرُ ” (میں پناہ لیتا ہوں اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کی قدرت کی اس تکلیف کے شر سے جو میں پا رہا ہوں اور جس کا مجھے خطرہ ہے) کہتے ہیں کہ میں نےایسا ہی کیا تو اللہ تعالیٰ نے میری وہ تکلیف دور فرما دی ۔ (صحیح مسلم)
مریض پر دم اور اس کے لئے دعا صحت
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھ کے حسن و حسین (رضی اللہ عنہما) کو اللہ کی پناہ میں دیتے تھے : أُعِيذُ كُمَا بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ ، مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ ، وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ میں تمہیں پناہ میں دیتا ہوں اللہ کے کلمات تامہ کی ہر شیطان کے شر سے اور ہر زہریلے جانور سے اور اثر ڈٖالنے والی آنکھ سے ۔ اور فرماتے تھے کہ : تمہارے جد امجد ابراہیم اپنے دونوں صاحبزادوں اسماعیل اور اسحٰق پر ان کلمات سے دم کرتے تھے ۔ تشریح “ كَلِمَاتٍ تَامَّة ” سے مراد یا تو اللہ کے احکام ہیں یا اس کی نازل کی ہوئی کتابیں ہیں بہرحال آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسن و حسین (رضی اللہ عنہما) پر بطور تعویذ اور دم کے یہ دعا پڑھا کرتے تھے اور اس طرح ان کے لئے اللہ سے پناہ اور حفاظت مانگتے تھے ۔
مریض پر دم اور اس کے لئے دعا صحت
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خود بیمار ہوتے تو معوذات پڑھ کر اپنے اوپر دم فرمایا کرتے تھے اور خود اپنا دست مبارک اپنے جسم پر پھیرتے ۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ بیماری لاحق ہوئی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو میں وہی معوذات پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر دم کرتی جن کو پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دم کیا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دست مبارک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم پر پھیرتی ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں “ مُعَوِّذَاتِ ” سے مراد بظاہر سورہ “ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ” اور “ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ ” ہیں ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ دعائیں مراد ہوں جن میں اللہ سے پناہ طلب کی جاتی ہے ، اور جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیماروں پر پڑھ کر اکثر دم کیا کرتے تھے ۔ اس طرح بعض دعائیں اوپر بعض حدیثوں میں بھی آ چکی ہیں اور باقی ان شاء اللہ اپنے موقع پر “ کتاب الدعوات ” میں مذکور ہوں گی ۔
جب موت کے آثار ظاہر ہونے لگیں تو کیا کریں ؟
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : مرنے والوں کو کلمہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ کی تلقین کرو ۔ (صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں مرنے ولوں سے مراد وہ لوگ ہیں جن پر موت کے آثار ظاہر ہونے لگیں اس وقت ان کے سامنے کلمہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ پڑھا جائے یہی تلقین کا مطلب ہے ، تا کہ اس وقت ان کا ذہن اللہ تعالیٰ کی توحید کی طرف متوجہ ہو جائے ، اور اگر زبان کے ساتھ دے سکے تو اس وقت اس کلمہ کو پڑھ کر اپنا ایمان تازہ کر لیں اور اسی حال میں دنیا سے رخصت ہو جائیں ، علماء کرام نے تصریح کی ہے کہ اس وقت اس مریض سے کلمہ پڑھنے کو نہ کہا جائے ، نہ معلوم اس وقت اس بیچارے کے منہ سے کیا نکل جائے ، بلکہ اس کے سامنے بس کلمہ پڑھا جائے ۔
جب موت کے آثار ظاہر ہونے لگیں تو کیا کریں ؟
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص کا آخری کلمہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ہو وہ جنت میں جائے گا ۔ (سنن ابی داؤد)
جب موت کے آثار ظاہر ہونے لگیں تو کیا کریں ؟
حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم اپنے مرنے والوں پر سورہ یس پڑھا کرو ۔ (مسند احمد ، سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ) تشریح یہاں بھی مرنے والوں سے مراد وہی لوگ ہیں جن پر موت کے آثار ظاہر ہو گئے ہوں اللہ ہی جانتا ہے کہ اس حکم کی خاص حکمت اور مصلحت کیا ہے ، البتہ اتنی بات ظاہر ہے کہ یہ سورت دین و ایمان سے متعلق بڑے اہم مضامین پر مشتمل ہے اور موت کے بعد جو کچھ ہونے والا ہے اس میں اس کا بڑا مؤثر اور تفصیلی بیان ہے ، اور خاص کر اس کی آخری آیت فَسُبْحَانَ الَّذِي بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ۔ موت کے وقت کے لئے بہت موزوں اور مناسب ہے ۔
جب موت کے آثار ظاہر ہونے لگیں تو کیا کریں ؟
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے تین ہی دن پہلے سنا ، تم میں سے ہر ایک کو چاہئے کہ اس کو ایسی حالت میں موت آئے کہ اس کو اللہ کے ساتھ اچھا گمان ہو ۔ (صحیح مسلم) تشریح اللہ پر ایمان اور اس کی معرفت کا تقاضا یہ ہے کہ بندے کو اللہ کا خوف بھی ہو اور اس سے رحمت کی امید بھی ، لیکن خاص کر اخیر وقت میں رحمت کی امید غالب ہونی چاہئے ۔ مریض اس کی خود بھی کوشش کرے اور اس کے تیماردار ، عیادت کرنے والے بھی اس وقت ایسی ہی باتیں کریں جس سے اس کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اچھا گمان اور رحم و کرم کی امید پیدا ہو ۔
مرنے کے بعد کیا کیا جائے گا ؟
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ (ان کے شوہر ابو سلمہ کی وفات کے وقت) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ، ان کی آنکھیں کھلی رہ گئی تھیں ، آپ نے ان کو بند کر دیا اور فرمایا : جب روح جسم سے نکال لی جاتی ہے تو بینائی بھی اس کے ساتھ چلی جاتی ہے (اس لئے موت کے بعد آنکھوں کو بند ہی کر دینا چاہئے) ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات سن کر ان کے گھر کے آدمی چلا چلا کر رونے لگے (اور اس رنج اور صدمہ کی حالت میں ان کی زبان سے ایسی باتیں نکلنے لگیں جو خود ان لوگوں کے حق میں بد دعا تھیں) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لوگو ! اپنے حق میں خیر اور بھلائی کی دعا کرو ، اس لئے تم جو کچھ کہہ رہے ہو ملائکہ اس پر آمین کہتے ہیں ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس طرح دعا فرمائی : اے اللہ ! ابوسلمہ کی مغفرت فرما اور اپنے ہدایت یاب لوگوں میں ان کا درجہ بلند فرما ، اور اس کے بجائے تو ہی سرپرستی اور نگرانی فرما اس کے پسمندگارن کی ، اور رب العالمین بخش دے ہم اور اس کو اور اس کی قبر کو وسیع اور منور فرما ۔ (صحیح مسلم)
مرنے کے بعد کیا کیا جائے گا ؟
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : جس صاحب ایمان پر کوئی مصیبت آئے اور کوئی چیز فوت ہو جائے اور وہ اس وقت اللہ تعالیٰ سے وہ عرض کرے جو عرض کرنے کا حکم ہے یعنی : إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ، اللهُمَّ أْجُرْنِي فِي مُصِيبَتِي ، وَأَخْلِفْ لِي خَيْرًا مِنْهَا (ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہم سب لوٹ کر جانے والے ہیں۔ اے اللہ ! مجھے میری اس مصیبت میں اجر عطا فرما اور (جو چیز مجھ سے لے لی گئی ہے) اس کے بجائے اس سے بہتر مجھے عطا فرما ، تو اللہ تعالیٰ اس سے کے بجائے اس سے بہتر ضرور عطا فرمائے گا ۔ (ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ) جب میرے پہلے شوہر ابو سلمہ کا انتقال ہوا تو میں نے اپنے جی میں سوچا کہ میرے شوہر مرحوم ابو سلمہ سے اچھا اب کون ہو سکتا ہے ، وہ سب سے پہلے مسلمان تھے جنہوں نے گھر بار کے ساےھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کی (لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے مطابق) میں نے ان کی وفات کے بعد إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ، کہا اور دعا کی اللهُمَّ أْجُرْنِي فِي مُصِيبَتِي ، وَأَخْلِفْ لِي خَيْرًا مِنْهَا تو اللہ تعالیٰ نے ابو سلمہ کی جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے نصیب فرمائے ۔ (صحیح مسلم)
مرنے کے بعد کیا کیا جائے گا ؟
حصین ابن وحوح رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ طلحہ بن براءؓ بیمار ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپ کی عیادت کے لئے تشریف لائے (ان کی نازک حالت دیکھ کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے آدمیوں سے فرمایا : میں محسوس کرتا ہوں کہ ان کی موت کا وقت آ ہی گیا ہے (اگر ایسا وقت ہو جائے) تو مجھے خبر کی جائے اور (ان کی تجہیز و تکفین میں) جلدی کی جائے ، کیوں کہ کسی مسلمان کی میت کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ گھر والوں کے بیچ میں دیر تک رہے ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ موت کے بعد میت کی تجہیز و تکفین اور دفن وغیرہ میں جلدی کی جائے ۔
میت پر گریہ و بکا اور نوحہ و ماتم
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ ایک دفعہ مریض ہوئے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عبدالرحمٰن بن عوف ‘ سعد بن ابی وقاص اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم کو ساتھ لئے ان کی عیادت کے لئے آئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب اندر تشریف لائے تو ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے “ غاشیہ ” میں یعنی بڑی سخت حالت میں دیکھا (یا یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس حال میں دیکھا کہ ان کے گرد آدمیوں کی بھیڑ لگی ہوئی ہے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : “ ختم ہو چکے ” (یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یا تو ان کی حالت سے مایوس ہو کر اپنے اندازہ سے فرمائی یا بطور استفہام ان لوگوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا جو پہلے سے وہاں موجود تھے ۔ ان لوگوں نے کہا نہیں حضرت ! ابھی ختم تو نہیں ہوئے ہیں ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (ان کی وہ حالت دیکھ کر) رونا آ گیا ۔ جب اور لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر گریہ کے آثار دیکھے تو وہ بھی رونے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : لوگو ! اچھی طرح سن لو اور سمجھ لو ! اللہ تعالیٰ آنکھ کے آنسو اور دل کے رنج و غم پر تو سزا نہیں دیتا (کیوں کہ اس پر بندہ کا اختیار اور قابو نہیں ہے اور زبان کی طرف اشارہ کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) لیکن اس زبان کی (غلط روی پر ، یعنی زبان سے نوحہ و ماتم کرنے پر) سزا بھی دیتا ہے اور (اور انا للہ پڑھنے پر اور دعا و استغفار کرنے پر) رحمت بھی فرماتا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ میت کے رونے پیٹنے کی وجہ سے اس کو عذاب ہوتا ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) ۔ تشریح کسی کی موت پر اس کے اقارب اور اعزہ و متعلقین کا رنجیدہ و غمگین ہونا اور اس کے نتیجہ میں آنکھوں سے آنسو بہنا اور اسی طرح بے اختیار گریہ کے دوسرے آثاار کا ظاہر ہو جانا بلکل فطری بات ہے اور اس بات کی علامت ہے کہ اس آدمی کے دل میں محبت اور درد مندی کا جذبہ موجود ہے ، جو انسانیت کا ایک قیمتی اور پسندیدہ عنصر ہے ، اس لئے شریعت نے اس پر پابندی نہیں عائد کی ، بلکہ ایک درجہ میں اس کی تحسین اور قدر افزائی کی ہے ، لیکن نوحہ و ماتم اور ارادی و اختیاری طور پر رونے پیٹنے کی سخت ممانعت فرمائی گئی ہے ، اولا تو اس لئے کہ یہ مقام عبدیت اور رضا بالقضا کے بالکل خلاف ہے ، دوسرے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل و فہم کی جو بیش بہا نعمت عطا فرمائی ہے اور حوادث کو انگیز کرنے کی جو خاص صلاحیت بخشی ہے ، نوحہ و ماتم اور رونا پیٹنا اس نعمت خداوندی کا گویا کفران ہے ۔ نیز اس سے اپنے اور دوسروں کے رنج و غم میں اضافہ ہوتا ہے اور فکر و عمل کی قوت کم از کم اس وقت مفلوج اور معطل ہو جاتی ہے علاوہ ازیں نوحہ و ماتم اور رونا پیٹنا میت کے لئے بھی باعث تکلیف ہوتا ہے ۔ تشریح ..... اس حدیث کا اصل پیغام تو یہی ہے کہ کسی کے مرنے پر نوحہ و ماتم نہ کیا جائے ، یہ چیز اللہ کے غضب اور عذاب کا باعث ہے ، بلکہ انا للہ اور دعا و استغفار کے ایسے کلمے پڑھے جائیں اور ایسی باتیں کی جائیں جو اللہ کی رحمت اور اس کے فضل و کرم کا وسیلہ بنیں ۔ اس حدیث میں گھر والوں کے رونے پیٹنے کی وجہ سے میت کو عذاب ہونے کا بھی ذکر ہے ۔ یہ مضمون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت ابن عمرؓ کے علاوہ ان کے والد ماجد حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ اور بعض دوسرے صحابہ کرامؓ نے بھی روایت کیا ہے ، لیکن حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور ان کے ساتھ حضرت عبداللہ بن عباسؓ بھی اس سے انکار فرماتے ہیں ۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم ہی میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا یہ بیان مروی ہے کہ جب ان کے سامنے حضرت عمرؓ اور ان کے صاحبزادے حضرت ابن عمرؓ کی حدیث اس سلسلہ میں نقل کی گئی تو انہوں نے فرمایا کہ : یہ دونوں حضرات بلاشبہ صادق ہیں ۔ لیکن اس معاملہ میں یا تو ان کو سہو ہوا ، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سننے یا سمجھنے میں ان کو غلطی ہوئی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات نہیں فرمائی تھی ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس بارے میں قرآن مجید کی آیت “ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى ” سے بھی استدلال کیا ہے ، وہ فرماتی ہیں کہ : اس آیت میں یہ قاعدہ اور اصول بیان کیا گیا ہے کہ کسی آدمی کے گناہ کی سزا دوسرے کو نہیں دی جائے گی ، پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ روئیں گھر والے اور اس کی سزا دی جائے بے چارے مرنے والے کو ۔ لیکن حضرت عمرؓ اور عبداللہ بن عمرؓ نے جس طرح مضمون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نقل فرمایا ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ نہ انہیں بھول چوک ہوئی ہے اور نہ غلط فہمی ، دوسری طرف حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کا استدلال بھی وزنی ہے ، اس لئے شارحین حدیث نے دونوں باتوں میں تطبیق کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کےک لئے توجیہ کے مختلف طریقے اختیار کیے ہیں ، ان میں سے ایک جو زیادہ معروف اور سہل الفہم بھی ہے یہ ہے کہ حضرت عمرو بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیثوں کا تعلق اس صورت سے ہے جب کہ گھر والوں کے رونے میں مرنے والے کے قصور اور غفلت کو بھی کچھ دخل ہو ، مثلا یہ کہ وہ خود رونے اور نوحہ و ماتم کرنے کی وصیت کر گیا ہو جیسا کہ عربوں میں اس کا رواج تھا ، یا کم سے کم یہ کہ گھر والوں کو رونے پیٹنے سے اس نے کبھی منع نہ کیا ہو ۔ خود امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح بخاری میں یہی توجیہ کر کے تطبیق کی کوشش کی ہے ۔ ایک دوسری توجیہ یہ بھی کی گئی ہے کہ جب میت کے گھر والے اس پر روحہ و ماتم کرتے ہیں اور جاہلانہ رواج کے مطابق اس مرنے والے کے “ کارنامے ” بیان کر کے اس کو آسمان پر چڑھاتے ہیں تو فرشتے میت سے کہتے ہیں “ کیوں جناب آپ ایسے ہی تھے ؟ ” یہ بات بعض حدیثوں میں بھی وارد ہوئی ہے ۔ یہاں اس سلسلہ میں بس اتنا ہی لکھا مناسب سمجھا گیا ۔ جو حضرات اہل علم اس سے زیادہ تفصیل چاہیں وہ فتح الملہم شرح صحیح مسلم کی طرف رجوع فرمائیں ، اس میں اس مسئلہ پر بہت سیر حاصل بحث کی گئی ہے ۔ ملحوظ رہے کہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ جن کی سخت بیماری کا اس حدیث میں ذکر ہے ، اس بیماری سے صحت یاب ہو گئے تھے ، ان کی وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک روایت کے مطابق عہد صدیقی میں اور دوسری روایت کے مطابق عہد فاروقی میں ہوئی ۔
میت پر گریہ و بکا اور نوحہ و ماتم
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے ابو بردہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ ابو موسیٰؓ (بیمار پڑے اور ان) پر غشی کی کیفیت طاری ہو گئی تو ان کی بیوی ام عبداللہ بلند آواز سے اور لے کے ساتھ رونے لگیں۔ پھر ابو موسیٰؓ کو افاقہ ہو گیا اور ہوش آ گیا تو انہوں نے (اپنی ان بیوی سے) فرمایا : کیا تمہیں یہ معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی (موت اور غمی کے موقع پر) سر منڈائے یا چلائے یا کپڑے پھاڑے (اور جاہلیت کے ان طریقوں سے اظہار غم و ماتم کرے تو میں اس سے بری اور بے تعلق ہوں ۔ ابو بردہ کہتے ہیں کہ ابو موسیٰؓ یہ حدیث اپنی بیوی کو سنایا بھی کرتے تھے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
میت پر گریہ و بکا اور نوحہ و ماتم
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : جو کوئی (غمی اور موت کے موقع پر) اپنے رخساروں پر تماچے مارے اور منہ پیٹے اور گریبان پھاڑے اور اہل جالیت کے طریقے پر واویلا کرے وہ ہم میں سے نہیں (یعنی وہ ہمارے طریقے پر نہیں ہے) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
آنکھ کے آنسو اور دل کا صدمہ
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں ابوسیف آہنگر کے گھر گئے۔ یہ ابو سیف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند ابراہیم (علیہ وعلی ابیہ السلام) کی دایہ اور مرضعہ (خولہ بنت المنذر) کے شوہر تھے۔ (اور ابراہیم اس وقت کے رواج کے مطابق اپنی دایہ کے گھر ہی رہتے تھے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صاسحبزادے ابراہیم کو اٹھا لیا اور چوما اور (ان کے رخسار) پر ناک رکھی (جیسا کہ بچوں کو پیار کرتے وقت کیا جاتا ہے) اس کے بعد پھر ایک دفعہ (ان صاحبزادے ابراہیم کی آخری بیماری میں) ہم وہاں گئے۔ ابراہیم جان دے رہے تھے (یعنی ان کا بلکل آخری وقت تھا) ۔ ان کی اس حالت کو دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسوؤں بہنے لگے۔ تو عبدالرحمٰن بن عوف ! جو ناواقفی سے سمجھتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس قسم کی چیزوں سے متاثر نہں ہو سکتے) انہوں نے کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی یہ حالت ؟ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے ابن عوف ! یہ (کوئی بری بات اور بری حالت نہیں بلکہ یہ) شفقت اور درد مندی ہے۔ پھر دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ آنکھ آنسو بہاتی ہے اور دل مغموم ہے اور زبان سے ہم وہی کہیں گے جو اللہ کو پسند ہو (یعنی إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ) اور اے ابراہیم ! ہم تمہاری جدائی کا ہمیں صدمہ ہے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح س حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قلب مبارک رنج و غم والے حوادث سے رنجیدہ و غمگین ہوتا تھا اور اس حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بھی بہتے تھے ، اور بلا شبہ یہی انسانیت کا کمال ہے کہ خوشی اور مسرت والی باتوں سے مسرت ہو اور رنج و غم کے موجبات سے رنج و غم ہو ، اگر کسی کا یہ حال نہ ہو تو یہ اس کا نقص ہے ، کمال نہیں ہے ۔ امام ربانی شیخ احمد فاروقی مجدد الف ثانی نے اپنے ایک مکتوب میں لکھا ہے کہ : “ ایک زمانہ میں میرے دل کی یہ حالت ہو گئی تھی کہ اسباب مسرت سے مجھے مسرت نہیں ہوتی تھی ، اور موجبات غم سے غم نہیں ہوتا تھا ۔ میں اس زمانہ میں سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع کی نیت سے ایسے مواقع پر مسرت اور رنج و غم کو بہ تکلف اپنے پر طاری کیا کرتا تھا ، اس کے بعد خدا کے فضل سے وہ کیفیت زائل ہو گئی ، اور اب میرا یہ حال ہے کہ رنج و غم پہنچانے والے حوادث سے مجھے طبعی رنج و غم ہوتا ہے اور اسی طرح خوشی اور مسرت والی باتوں سے مجھے طبعی خوشی اور مسرت ہوتی ہے ۔ ”
مصیبت زدہ کی تعزیت اور ہمدردی
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے کسی مصیبت زدہ کی تعزیت کی تو اس کے لئے مصیبت زدہ کا سا ہی اجر ہے ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ) تشریح موت یا ایسے ہی کسی اور شدید حادثہ کے وقت مصیبت زدہ کو تسلی دینا اور اس کے ساتھ اظہار ہمدردی اور اس کا غم ہلکا کرنے کی کوشش کرنا بلا شبہ مکار اخلاق میں سے ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی اس کا اہتمام فرماتے تھے اور دوسروں کو اس کی ہدایت اور ترغیب بھی دیتے تھے ۔
اہل میت کے لئے کھانے کا اہتمام
حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب ان کے والد ماجد حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر آئی ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : جعفر کے گھر والوں کے لئے کھانا تیار کیا جائے ، وہ اس اطلاع کی وجہ سے ایسے حال میں ہیں کہ کھانے وغیرہ کی طرف توجہ نہ کر سکیں گے ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ) تشریح میت کے گھر والے تازہ صدمہ کی وجہ سے ایسے حال میں نہیں ہوتے کہ کھانے وغیرہ کا اہتمام کر سکیں ، اس لئے ان کے ساتھ ہمدردی کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ اس دن ان کے کھانے کا اہتمام دوسرے اعزہ اور تعلق والے کریں ۔
موت پر صبر اور اس کا اجر
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اپنے ایمان والے بندے (یا بندی) کے کسی پیارے کو جب میں اٹھا لوں پھر وہ ثواب کی امید میں صبر کرے تو میرے پاس اس کے لئے جنت کے سوا کوئی معاوضہ نہیں ہے ۔ (صحیح بخاری)
موت پر صبر اور اس کا اجر
حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب اللہ کے کسی بندے کا بچہ انتقال کر جاتا ہے ۔ تو اللہ تعالیٰ روح قبض کرنے والے فرشتے سے فرماتا ہے تم نے میرے بندے کے بچے کی روح قبض کی ؟ وہ عرض کرتے ہیں : جی ہاں ! اس بندے نے آپ کی حمد ، آپ کا شکر کیا اور إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پڑھا (یعنی ہم سب اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ (اس کے صابرانہ رویہ پر) اس کے لیے جنت میں ایک عالیشان گھر بناؤ اور اس کا نام بیت الحمد رکھو ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک تعزیت نامہ اور صبر کی تلقین
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے ایک لڑکے کا انتقال ہو گیا ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یہ تعزیت نامہ لکھا : بسم اللہ الرحمن الرحیم اللہ کے رسول محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف سے معاذ بن جبل کے نام ۔ سلا م علیک ! میں پہلے تم سے اللہ کی حمد بیان کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں (بعد ازاں) دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تم کو اس صدمہ پر اجر عظیم دے ، اور تمہارے دل کو صبر عطا فرمائے ، اور ہم کو اور تم کو نعمتوں پر شکر کی توفیق دے حقیقت یہ ہے کہ ہماری جانیں اور ہمارے مال اور ہمارے اہل عیال یہ سب اللہ تعالیٰ کے مبارک عطیے ہیں اور اس کی سپرد کی ہوئی امانتیں ہیں (اس اصول کے مطابق تمہارا لڑکا بھی تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت تھا) اللہ تعالیٰ نے جب تک چاہا خوشی اور عیش کے ساتھ تم کو اس سے نفع اٹھانے اور جی بہلانے کا موقع دیا اور جب اس کی مشیت ہوئی اپنی اس امانت کو تم سے واپس لے لیا وہ تم کو اس کا بڑا اجر دینے والا ہے ، اللہ کی خاص نوازش اور اس کی رحمت اور اس کی طرف سے ہدایت (کی تم کو بشارت ہے) اگر تم نے ثواب اور رضاء الہی کی نیت سے صبر کیا ۔ پس اے معاذ ! صبر کرو اور ایسا نہ ہو کہ جزع و جزع تمہارے قیمتی اجر کو غارت کر دے اور پھر تمہیں ندامت ہو (کہ صدمہ بھی پہنچا اور اجر سے بھی محرومی رہی) اور یقین رکھو کہ جزع و فزع سے کوئی مرنے والا واپس نہیں آتا اور نہ اس سے رنج و غم دور ہوتا ہے ، اور اللہ کی طرف سے جو حکم اترتا ہے وہ ہو کر رہنے والا ہے ، بلکہ یقینا ہو چکا ہے ۔ والسلام ۔ (معجم کبیر و معجم اوسط للطبرانی) تشریح قران مجید میں مصائب پر صبر کرنے والے بندوں کو تین چیزوں کی بشارت دی گئی ہے : أُولَـٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۖوَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ ان پر اللہ تعالیٰ کی خاص نوازش اور عنایت ہو گی اور وہ رحمت سے نوازے جائیں گے اور ہدایت یاب ہوں گے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تعزیت نامہ میں اسی قرانی بشارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ : “ اے معاذ ! اگر تم نے ثواب اور رضاء الہی کی نیت سے اس صدمہ پر صبر کیا تو تمہارے لئے اللہ کی خاص نوازش اور اس کی رحمت اور ہدایت کی بشارت ہے ” ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مبارک تعزیت نامہ میں ہر اس صاحب ایمان بندہ کے لئے تعزیت و نصیحت اور تسلی و تشفی کا پورا سامان ہے جس کو کوئی صدمہ پہنچے ۔ کاش اپنی مصیبتوں میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ایمان افروز اور سکرن بخش تعزیت سے سکون حاصل کریں اور صبر و شکر کو اپنا شعار بنا کر دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت اور رحمت و ہدایت سے بہرہ اندوز ہوں ۔
میت کا غسل و کفن
حضرت ام عطیہ انصاریہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک فوت شدہ صاحبزادی کو ہم غسل دے رہے تھے ، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لائے اور ہم سے فرمایا کہ : تم اس کو بیری کے پتوں کے ساتھ جوش دئیے ہوئے پانی سے تین دفعہ یا پانچ دفعہ اور اگر تم مناسب سمجھو تو اس سے بھی زیادہ غسل دیجو ، اور آخری دفعہ کافور بھی مل کیجو ، پھر جب تم غسل دے چکو تو مجھے خبر دیجو ۔ (ام عطیہؓ کہتی ہیں کہ) جب ہم غسل دے کر فارغ ہو گئے تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دے دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا تہبند ہماری طرف پھینک دیا اور فرمایا کہ : “ سب سے پہلے یہ اسے پہنا دو ” ۔ اور اس حدیث کی ایک دوسری روایت میں اس طرح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم اس کو طاق دفعہ غسل دیجو ۔ تین دفعہ یا پانچ دفعہ اور داہنے اعضاء سے اور وضو کے مقامات سے شروع کیجو ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اللہ کا جو بندہ اس دنیا سے رخصت ہو کر موت کے راستے سے دار آخرت کی طرف جاتا ہے اسلامی شریعت نے اس کو اعزاز و اکرام کے ساتھ رخصت کرنے کا ایک خاص طریقہ مقرر کیا ہے ، جو نہایت ہی پاکیزہ ، انتہائی خدا پرستانہ اور نہایت ہمدردانہ اور شریفانہ طریقہ ہے ۔ حکم ہے کہ پہلے میت کو ٹھیک اس طرح غسل دیا جائے جس طرح کوئی زندہ آدمی پاکی اور پاکیزگی حاصل کرنے کے لئے نہاتا ہے ۔ اس غسل میں پاکی اور صفائی کے علاوہ غسل کے آداب کا بھی پورا لحاظ رکھا جائے ۔ غسل کے پانی میں وہ چیزیں شامل کی جائیں جو میل کچیل صاف کرنے کے لئے لوگ زندگی میں بھی نہانے میں استعمال کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ آخر میں کافور جیسی خوشبو بھی پانی میں شامل کی جائے تا کہ میت کا جسم پاک صاف ہونے کے علاوہ معطر بھی ہو جائے پھر اچھے صاف ستھرے کپڑوں میں دفنایا جائے ، لیکن اس سلسلہ میں اسراف سے بھی کام نہ لیا جائے اس کے بعد جماعت کے ساتھ نماز جنازہ پڑھی جائے جس میں میت کے لئے مغفرت اور رحمت کی دعا اہتمام اور خلوص سے کی جائے ۔ پھر رخصت کرنے کے لئے قبرستان تک جایا جائے ، پھر اکرام و احترام کے ساتھ بظاہر قبر کے حوالے اور فی الحقیقت اللہ کی رحمت کے سپرد کر دیا جائے اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشادات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات ذیل میں پڑھئے ۔ اس حدیث کی صحیح مسلم کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جن صاحبزادی کو غسل دینے کا اس حدیث میں ذکر ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے بڑی صاحبزادی زینب تھیں ، جو ابو العاص بن الربیع کے نکاح میں تھیں ، ان کی وفات ۸ھ کے اوائل میں ہوئی تھی ، اور ام عطیہ انصاریہ رضی اللہ عنہا جو اس حدیث کی راوی ہیں اور جو اس موقع پر غسل دینے والیوں میں تھیں ممتاز صحابیات میں سے ہیں ، اس قسم کی خدمتوں میں یہ پیش پیش رہتی تھیں ، خاص کر مرنے والی خواتین کو غسل دینا ان کو خوب آتا تھا ۔ ابن سیرین تابعی جیسے جلیل القدر امام کا بیان ہے کہ میں نے غسل میت انہی سے سیکھا ۔ اس حدیث میں بیری کے پتوں کے ساتھ ابالے ہوئے پانی سے غسل دینے کا ذکر ہے ایسا پانی جسم سے میل وغیرہ کو خوب صاف کرتا ہے ۔ ہمارے زمانہ میں جس مقصد کے لئے نہانے میں طرح طرح کے صابون استعمال کئے جاتے ہیں اس زمانہ میں اس مقصد کے لئے بیری کے پتوں کے ساتھ جوش دیا ہوا پانی استعمال کیا جاتا تھا ۔ مقصد صرف یہ ہے کہ میت کے جسم سے ہر قسم کے میل کچیل کی صفائی کا پورا اہتمام کیا جائے ۔ اس لئے حکم فرمایا کہ غسل کم سے کم تین دفعہ دیا جائے اور اگر اس سے زیادہ مناسب سمجھا جائے تو چونکہ طاق عدد اللہ کو محبوب ہے ، اس لئے اس کا لحاظ بہرحال رکھا جائے ۔ یعنی تین دفعہ یا پانچ دفعہ اور اگر ضرورت محسوس ہو تو اس سے بھی زیادہ سات دفعہ غسل دیا جائے اور آخری دفعہ کافور بھی پانی میں ملا لیا جائے جو نہایت مہک دار اور دیرپا خوشبو ہے ۔ یہ سب میت کا اعزاز و اکرام ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر صاحبزادی کے لئے جس اہتمام سے اپنا تہبند مبارک دیا (اور بعض روایات میں تصریح ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل مکمل ہو جانے کی اطلاع دی گئی اس وقت آپ نے اپنے جسم اقدس سے نکال کر وہ تہبند دیا) اور تاکید فرمائی کہ اس کو شعار (یعنی سب سے اندر کا لباس) بنا دو ، اس سے علماء کرام نے سمجھا ہے کہ اللہ کے نیک اور مقبول بندوں کے لباس وغیرہ کا تبرک کے طور پر اس طرح کا استعمال درست ہے اور اس سے نفع کی امید ہے ۔ ہاں ان چیزوں میں غلو اور ان کے بھروسہ پر عمل سے غافل ہو جانا یقیناً گمراہی ہے ۔ اس روایت سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ ان صاحبزادی کو کیسے کپڑوں میں کفیایا گیا ، لیکن حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں جوزقی کی تخریج سے حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کے سلسلہ میں یہ اضافہ بھی نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : فَكَفَّنَهَا فِي خَمْسَةِ أَثْوَابٍ وَخَمَرْنَاهَا كَمَا يُخْمَرُ الْحَىُّ ہم نے ان صاحبزادی کو پانچ کپڑوں میں کفنایا اور خمار (اوڑھنی) بھی اڑھائی ، جس طرح زندوں کو اڑھائی جاتی ہے ۔ (اس بناء پر وعورتوں کے لئے کفن میں پانچ کپڑے ہی مسنون کہے گئے ہیں) ۔
کفن میں کیا کیا اور کیسے کپڑے ہونے چاہئیں ؟
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (وصال کے بعد) تین سفید یمنی کپڑوں میں کفنائے گئے جو سحولی تھے ، ان تین کپڑوں میں نہ تو کرتا تھا اور نہ عمامہ ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اکثر شارحین نے سحولی کی تشریح میں کہا ہے کہ یمن کے علاقہ میں سحول ایک بستی تھی جہاں کے کپڑے مشہور تھے ۔ بعض حضرات نے اس کے دوسرے معنی بھی بیان کئے ہیں ، لیکن راجح یہی ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات سے پہلے بھی یمنی چادریں استعمال فرماتے تھے ، وصال کے بعد آپ کے کفن میں بھی وہی استعمال کی گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تین کپڑوں میں کفنایا گیا جس میں نہ کرتا تھا اور نہ عمامہ ۔ اور مردوں کے لئے کفن کے تین ہی کپڑے مسنون ہیں ۔
کفن میں کیا کیا اور کیسے کپڑے ہونے چاہئیں ؟
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب تم میں کوئی اپنے کسی مرنے والے بھائی کو کفن دے تو اچھا کفن دے ۔ (صحیح مسلم) تشریح اس حدیث کا اصل منشاء بھی میت کا اعزاز و اکرام ہے اور مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص استطاعت کے باوجود اپنی میت کو اس خیال سے کہ اب تو اس کو قبر میں دفن ہونا اور مٹی میں ملنا ہے پھٹے پرانے اور ردی کپڑے میں نہ کفنائے بلکہ اچھا اور مناسب کفن دے یہ میت کے اعزاز اکرام کا تقاضا اور حق ہے ۔
کفن میں کیا کیا اور کیسے کپڑے ہونے چاہئیں ؟
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم لوگ سفید کپڑے پہنا کرو وہ تمہارے لئے اچھے کپڑے ہیں اور انہی میں اپنے مرنے والوں کو کفنایا کرو ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ)
کفن میں کیا کیا اور کیسے کپڑے ہونے چاہئیں ؟
حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : زیادہ بیش قیمت کفن نہ استعمال کرو کیوں کہ وہ جلدی ہی ختم ہو جاتا ہے ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ جس طرح یہ بات ٹھیک نہیں ہے کہ استطاعت کے باوجود میت کو کفن ردی کپڑے کا دیا جائے ، اسی طرح یہ بھی درست نہیں ہے کہ بیش قیمت کپڑا کفن میں استعمال کیا جائے ۔ واضح رہے کہ مردوں کو تین اور عورتوں کو پانچ کپڑوں میں کفنانے اور درمیانی حیثیت کے اچھے سفید کپڑے کا کفن دینے کے مذکورہ بالا احکام کا تعلق اس صورت سے ہے جب کہ میت کے گھر والے سہولت سے اس کا انتظام کر سکتے ہوں اور اس کی استطاعت رکھتے ہوں ، ورنہ مجبوری کی حالت میں صرف ایک اور پرانے کپڑے میں بھی کفن دیا جا سکتا ہے اور اس میں کوئی عار نہیں ہونی چاہئے ۔ ٍغزوہ احد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی چچا سیدنا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور حضرت مصعب بن عمیرؓ کو صرف ایک پرانی اور اتنی چھوٹی سی چادر میں کفنایا گیا تھا جب اس سے آپ کا سر ڈھکتے تو پاؤں کھل جاتے تھے اور جب پاؤں ڈھکتے تھے تو سر کھل جاتا تھا ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے اس چادر سے سر ڈھک دیا گیا ، اور پاؤں کو اذخر گھاس سے چھپا دیا گیا اور اسی کفن کے ساتھ دفن کر دیا گیا ۔
جنازہ کے ساتھ چلنے اور نماز جنازہ پڑھنے کا ثواب
حضرت ابو رہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو آدمی ایمان کی صفت کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے کسی مسلمان کے جنازے کے ساتھ جائے اور اس وقت تک جنازے کے ساتھ رہے جب تک کہ اس پر نماز پڑھی جائے اور اس کے دفن سے فراغت ہو تو وہ ثواب کے دو قیراط لے کر واپس ہو گا ، جن میں سے ہر قیراط گویا احد پہاڑ کے برابر ہو گا ، اور جو آدمی صرف نماز جنازہ پڑھ کے واپس آ جائے (دفن ہونے تک ساتھ نہ رہے) تو وہ ثواب کا (ایسا ہی) ای قراط لے کر واپس ہو گا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح جیسا کہ ظاہر ہے حدیث کا مقصد جنازہ کے ساتھ جانے ، اس پر نماز پڑھنے اور دفن میں شرکت کرنے کی ترغیب دینا اور فضیلت بیان کرنا ہے ۔ حاصل یہ ہے کہ جو شخص جنازہ کے ساتھ چلا اور صرف نماز میں شرکت کر کے واپس آ گیا ، وہ بقدر ایک قیراط کے اجر کا مستحق ہو گا ، اور جو شخص دفن تک شریک رہا وہ دو قیراط کا مستحق ہو گا ۔ قیراط راجح قول کے مطابق درہم کا بارہواں حصہ ہوتا ہے ۔ قریبا دو پیسہ چونکہ اس زمانہ میں مزدوروں کو ان کے کام کی اجرت قیراط کے حساب سے دی جاتی تھی ، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس موقع پر قیراط کا لفظ بولا ، اور یہ بھی واضح فرما دیا کہ اس کو دنیا کا قیراط (درہم کا بارھواں حصہ آنہ آدھ آنہ) نہ سمجھا جائے ، بلکہ یہ ثواب آخرت کا قیراط ہو گا جو دنیا کے قیراط کے مقابلہ میں اتنا بڑا ہو گا جتنا احد پہاڑ اس کے مقابلے میں بڑا اور عظیم الشان ہے ۔ اسی کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی واضح کر دیا کہ اس عمل پر یہ عظیم ثواب تب ہی ملے گا جب کہ یہ عمل ایمان و یقین کی بنیا پر اور ثواب ہی کی نیت سے کیا گیا ہو ، یعنی اس عمل کا اصل محرک اللہ و رسول کی باتوں پر ایمان و یقین اور آخرت کے ثواب کی امید ہو ۔ پوس اگر کوئی شخص صرف تعلق اور رشتہ داری کے خیال سے یا میت کے گھر والوں کا جی خوش کرنے ہی کی نیت سے یا ایسے ہی کسی دوسرے مقصد سے جنازہ کے ساتھ گیا اور نماز جنازہ اور دفن میں شریک ہوا ، اللہ اور رسول کے حکم اور آخرت کا ثواب اس کے پیش نظر تھا ہی نہیں ، تو وہ اس ثواب عظیم کا مستحق نہیں ہو گا ۔ حدیث کے الفاظ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا کا مطلب یہ ہے ۔ اور سمجھنا چاہئے کہ اعمال کے اجر اخروی کے لیے ایک عام شرط ہے ۔ اس سلسلہ “ معارف الحدیث ” کی پہلی جلد کے بالکل شروع میں حدیث “ إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ ” کی تشریح اور دوسری جلد میں “ اخلاص ” کے زیر عنوان اس پر تفصیلی روشنی ڈالی جا چکی ہے ۔
جنازہ کے ساتھ تیز رفتاری اور جلدی کا حکم
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جنازے کو تیز لے جایا کرو ، اگر وہ نیک ہے تو (قبر اس کے لیے) خیر ہے (یعنی اچھی منزل ہے) جہاں تم (تیز چل کے) اس کو جلدی پہنچا دو گے ، اور اگر اس کے سوا دوسری صورت ہے (یعنی جنازہ نیک کا نہیں ہے) تو ایک برا (بوجھ تمہارے کندھوں پر) ہے (تم تیز جلدی) اس کو اپنے کندھوں سے اتار دو گے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح حدیث کا مقصد یہ ہے کہ جنازہ کو جلدی اپنے ٹھکانے یہ پہنچانے کی کوشش کی جائے ۔ تجہیز و تکفین کے انتظام میں بھی بے ضرورت تاخیر نہ کی جائے اور جب دفن کے لئے جنازہ لے جایا جائے تو خواہ مخواہ آہستہ آہستہ نہ چلا جائے بلکہ مناسب حد تک تیز چلا جائے ، اگر میت نیک اور اللہ کی رحمت کی مستحق ہے تو پھر جلدی اس کو اس کے اچھے ٹھکانے پر پہنچا دیا جائے ، اور اگر خدانخواستہ اس کے برعکس معاملہ ہے تو پھر جلدی اس کے بارے میں سبکدوشی حاصل کی جائے ۔
نماز جنازہ اور میت کے لئے دعا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم کسی میت کی نماز جنازہ پڑھو تو پورے خلوص سے اس کے لئے دعا کرو ۔ (سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ) تشریح نماز جنازہ کا اصل مقصد میت کے لئے دعا ہی ہے ۔ پہلی تکبیر کےبعد اللہ کی حمد تسبیح اور دوری تکبیر کے بعد درود شریف گویا دعا ہی کی تمہید ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز جنازہ میں دعائیں پڑھتے تھے ۔ (جو آگے درج کی جارہی ہیں) وہ سب اس موقع کے لئے بہترین دعائیں ہیں ۔
نماز جنازہ اور میت کے لئے دعا
حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک میت کے جنازہ کی نماز پڑھی (اس میں آپ نے میت کے لئے جو دعا کی) اس دعا کے یہ الفاظ مجھے یاد ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے حضور میں عرض کر رہے تھے اے اللہ ! تو اس بندے کی مغفرت فرما ، اس پر رحمت فرما ، اس کو عافیت دے ، اس کو معاف کر دے ، اس کی باعزت مہمانی فرما دے (جہنم کی آگ اور اس کی سوزش و جلن کی بجائے) پانی سے ، برف اور اولوں سے اس کو نہلا دے (اور ٹھنڈا اور پاک فرما دے) ، اور گناہوں کی گندگی سے اس کو صاف فرما دے ، جس طرح اجلے کپڑے کو تو نے میل سے صاف فرما دیا ہے اور اس کو دنیا کے گھر کے بدلے میں آخرت کا اچھا گھر اور گھر والوں کے بدلہ میں اچھے گھر والے اور رفیق حیات کے بدلہ میں سے اچھا رفیق حیات عطا فرما دے ، اور اس کو جنت میں پہنچا دے ، اور عذاب قبر اور عذاب دوزخ سے اس کو پناہ دے ۔ (حدیث کے راوی عوف بن مالک صحابیؓ) کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا سن کر میرے دل میں آرزو پیدا ہوئی کہ کاش یہ میت میں ہوتا ۔ (صحیح مسلم)
نماز جنازہ اور میت کے لئے دعا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی جنازے پر نماز پڑھتے تھے تو اس میں یوں دعا کرتے تھے ۔ ” اے اللہ ! ہمارے زندوں کی اور ہمارے مردوں کی ، حاضروں کی اور غائبوں کی ، چھوٹوں کی اور بڑوں کی ، مردوں کی اور عورتوں کی سب کی مغفرت فرما ، اے اللہ ! جس کو تو ہم میں سے زندہ رکھے اس کو اسلام پر قائم رکھ ، اور جس کو اس عالم سے اٹھائے ، اس کو ایمان کی حالت میں اٹھا ، اے اللہ ! اس میت کی موت کے اجر سے ہمیں آخرت میں محروم نہ رکھ ، اور اس دنیا میں اس کے بعد ہمیں کسی فتنہ اور آزمائش میں نہ ڈال “ ۔ (مسند احمد ، سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ)
نماز جنازہ اور میت کے لئے دعا
حضرت واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں میں سے ایک شخص کی نماز جنازہ پڑھائی ، میں نے سنا اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ی دعا کر ہے تھے ۔ اے اللہ ! تیرا یہ بندہ فلاں بن فلاں تیری امان میں اور تیری پناہ میں ہے ، تو اس کو عذاب قبر اور عذاب نار سے بچا ، تو وعدوں کا وفا کرنے والا اور خداوند حق ہے ۔ اے اللہ ! تو اس بندے کی مغفرت فرما دے ، اس پر رحمت فرما تو بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے ۔ (سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ) تشریح جنازہ کی نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض اور دعائیں بھی ثابت ہیں ، لیکن زیادہ مشہور یہی تین ہیں ، جو مندرجہ بالا حدیثوں میں مذکور ہوئیں ، پڑھنے والے کو اختیار ہے جو چاہے دعا پڑھے ، اور چاہے تو ان میں سے متعدد دعائیں پڑھے ۔ مندرجہ بالا حدیثوں سے خاص کر واثلہ بن اسقع اور ابو ہریرہؓ کی حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنازہ کی نماز میں یہ دعائیں اتنی آواز سے پڑھیں کہ ان صحابہ کرامؓ نے سن کر ان کو محفوظ کر لیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات نماز میں بعض دعائیں وغیرہ اس لئے بالجہر اور آواز سے پڑھتے تھے کہ دوسرے لوگ سن کر سیکھ لیں ۔ جنازہ کی ان نمازوں میں دعاؤں کا بآواز پڑھنا بھی غالبا اسی مقصد سے تھا ، ورنہ عام قانون دعا کے بارے میں یہ ہے کہ اس کا آہستہ کرنا افضل ہے ۔ قرآن مجید میں بھی فرمایا گیا ہے : “ ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً ” “ اپنے رب سے دعا کر عاجزی و مسکینی کے ساتھ اور چپکے چپکے ”
نماز جنازہ میں کثرت تعداد کی برکت اور اہمیت
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس میت پر مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت نماز پڑھے ، ۔ جن کی تعداد سو تک پہنچ جائے اور وہ سب اللہ کے حضور میں اس میت کے لیے سفارش کریں (یعنی مغفرت و رحمت کی دعا کریں) تو ان کی یہ سفارش اور دعا ضرور ہی قبول ہو گی ۔ (صحیح مسلم)
نماز جنازہ میں کثرت تعداد کی برکت اور اہمیت
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام اور خادم خاص کریب تابعی بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس کے ایک صاحبزادے کا انتقال مقام قدید میں یا مقام عسفان میں ہو گیا (جب کچھ لوگ جمع ہو گئے) تو حضرت ابن عباس نے مجھ سے فرمایا کہ جو لوگ جمع ہو گئے ہیں ذرا تم ان پر نظر ڈالو ، کریب کہتے ہیں کہ میں باہر نکلا تو دیکھا کہ کافی لوگ جمع ہو چکے ہیں ، میں نے ان کو اس کی اطلاع دی ۔ انہوں نے فرمایا : تمہارا خیال ہے کہ وہ چالیس ہوں گے ؟ کریب نے کہا ہاں ۴۰ ضرور ہوں گے) ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ : اب جنازہ باہر لے چلو ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ جس مسلمان کا انتقال ہو جائے اور اس کے جنازے کی نماز چالیس ایسے آدمی پڑھیں جن کی زندگی شرک سے بالکل پاک ہو اور وہ نماز میں اس میت کے لئے مغفرت اور رحمت کی دعا اور سفارش کریں) تو اللہ تعالیٰ ان کی سفارش اس میت کے حق میں ضرور قبول فرماتا ہے ۔ (صحیح مسلم) تشریح قدید ، مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے راستہ میں رابغ کے قریب ایک قصبہ تھا ، اور عسفان مکہ معظمہ اور رابغ کے درمیان مکہ معظمہ سے قریبا ۳۵ ، ۳۶ میل کے فاصلہ پر ایک بستی تھی ۔ راوی کو شک ہے گیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے صاحبزادے کے انتقال کا یہ واقعہ ان دونوں مقامات میں سے کس مقام پر پیش آیا تھا ۔
نماز جنازہ میں کثرت تعداد کی برکت اور اہمیت
حضرت مالک بن ہبیرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سنا کہ جس مسلمان بندے کا انتقال ہو جائے اور مسلمانوں کی تین صفیں اس کی نماز جنازہ پڑھیں (اور اس کے لئے مغفرت و جنت کی دعا کریں) تو ضرور ہی اللہ تعالیٰ اس بندے کے واسطے (مغفرت اور جنت) واجب کر دیتا ہے ۔ (مالک بن ہبیرہؓ سے اس حدیث کی روایت کرنے والے مرثد یزنی کہتے ہیں کہ) مالک بن ہبیرہؓ کا یہ دستور تھا کہ جب وہ جنازہ پڑھنے والوں کی تعداد کم محسوس کرتے تو اسی حدیث کی وجہ سے ان لوگوں کو تین صفوں میں تقسیم کر دیتے تھے ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح یہ تین حدیثیں ہیں ۔ سب سے پہلی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں سو مسلمانوں کے لیے نماز جنازہ پڑھنے پر اور اس کے بعد والی حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی حدیث میں چالیس مسلمانوں کے نماز پڑھنے پر اور آخری مالک بن ہبیرہ والی حدیث میں مسلمانوں کی تین صفوں کے نماز پڑھنے پر مغفرت و جنت کی سفارش اور دعا کے قبول ہونے کا اطمینان ظاہر فرمایا گیا ہے ۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مختلف اوقات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ تینوں باتیں منکشف ہوئیں ۔ غالبا پہلے آپ کو بتایا گیا کہ اگر کسی بندے کی نماز جنازہ سو مسلمان بندے پڑھیں اور اس نماز میں اس بندے کے لئے مغفرت و رحمت کی دعا کریں تو اللہ تعالیٰ اس بندے کے حق میں ضرور ہی ان کی یہ دعا قبول فرما لے گا ۔ اس کے بعد ارو تخفیف کر دی گئی اور صرف ۴۰ مسلمانوں کے نماز پڑھنے پر یہی بشارت سنا دی گئی ۔ اس کے بعد اور مزید تخفیف کر دی گئی اور تین صفوں کے نماز پڑھنے پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہی اطمینان دلا دیا گیا اگرچہ تعداد ۴۰ سے بھی کم ہو ۔ واللہ اعلم ۔ بہرحال ان حدیثوں سے صاف ظاہر ہے کہ نماز جنازہ میں کثرت مطلوب اور باعث برکت و رحمت ہے ، اس لئے مناسب حد تک اس کا اہتمام اور اس کی کوشش ضرور کرنی چاہئے ۔
دفن کا طریقہ اور اس کے آداب
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے عامر بیان کرتے ہیں کہ (والد ماجد) سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے اپنے مرض وفات میں وصیت فرمائی تھی کہ میرے واسطے بغلی قبر بنائی جائے اور اس کو بند کرنے کے لئے کچی اینٹیں کھڑی کر دی جائیں ، جس طرح کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کیا گیا تھا ۔ (صحیح مسلم) تشریح اس سے معلوم ہوا کہ قبر کا افضل ار بہتر طریقہ یہی ہے ک وہ بغلی بنائی جائے اور کچی اینٹوں سے اس کو بند کیا جائے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک بھی اسی طرح بنائی گئی تھی ۔ لیکن اگر زمین ایسی کچی ہو کہ بغلی قبر نہ بن سکتی ہو تو پھر دوسرے طریقہ کی قبر بنائی جائے جس کو شق کہتے ہیں ۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں حسب موقع دونوں طرح کی قبریں بنائی جاتی تھیں ، لیکن افضل لحد یعنی بغلی قبر ہی کا طریقہ ہے ۔
دفن کا طریقہ اور اس کے آداب
ہشام بن عامر انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دن فرمایا کہ : (شہداء کے لئے) قبریں کھودو اور ان کو وسیع اور گہرا کر دو ، اور اچھی طرح بناؤ اور دو دو تین تین کو ایک ایک قبر میں دفن کرو ، اور ان میں سے جس کے پاس قرآن زیادہ ہو اس کو آگے کرو اور مقدر رکھو ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، سنن نسائی) تشریح غزوہ احد میں قریب ستر کے صحابہ کرامؓ شہید ہوئے تھے ان سب کے لے اس وقت الگ الگ قبریں کھودنا بہت مشکل بھی تھا ، اور ایسے خاص موقعوں کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک نظیربھی قائم کرنی تھی ، اس لئے آپ نے حکم دیا کہ ایک ایک قبر میں دو دو تین تین دفن کئے جائیں ، لیکن اس کی تاکید فرمائی کہ قبریں باقاعدہ کھودی جائیں ، گہری بھی ہوں اور وسیع بھی ہوں ۔ اور ایک ہدایت یہ بھی دی کہ ایک قبر میں جب متعدد شہید دفن کئے جائیں تو ترتیب میں مقدم یعنی پہلے اور قبلہ کی جانب اس کو رکھا جائے جس کے پاس قرآن زیادہ ہو ، گویا وہ امام ہے اور اس کے ساتھ والے مقتدی اس حدیث کی بناء پر ۔ جنگ کے جیسے غیر معمولی حالات میں جائز ہے کہ ایک ایک قبر میں کئی کئی مردوں کو دفن کیا جائے ۔
دفن کا طریقہ اور اس کے آداب
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی میت کو قبر میں اتارتے (یا کوئی میت قبر میں اتاری جاتی) تو فرماتے تھے : “ بِسْمِ اللهِ وَبِاللَّهِ ، وَعَلَى مِلَّةِ رَسُولِ اللهِ ” (ہم اس بندے کو اللہ کے نام پاک کے ساتھ اور اس کی مدد سے اور اس کے نبی کے طریقے پر سپرد خاک کرتے ہیں) اور اس حدیث کی بعض روایتوں میں “ عَلَى مِلَّةِ رَسُولِ اللهِ ” کے بجائے “ عَلَى سُنَّةِ رَسُولِ اللهِ ” کا لفظ بھی روایت کیا گیا ہے ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ ، سنن ابی داؤد)
دفن کا طریقہ اور اس کے آداب
امام جعفر صادق اپنے والد ماجد امام محمد باقر سے بطریق ارسال روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک میت پر (یعنی دفن کے وقت اس کی قبر پر) دونوں ہاتھ ایک ساتھ بھر کے تین دفعہ مٹی ڈالی ۔ اور اپنے صاحبزادے ابراہیم کی قبر پر پانی چھڑکا یا چھڑکوایا اور اس کے اوپر سنگ ریزے ڈلوائے ۔ (شرح السنہ)
دفن کا طریقہ اور اس کے آداب
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ : جب تمہارا کوئی آدمی انتقال کر جائے تو اس کو دیر تک گھر میں مت روکو اور قبر تک پہنچانے اور دفن کرنے میں سرعت سے کام لو اور (دفن کے بعد) سر کی جانب سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات (تا مفلحون) اور پاؤں کی جانب کی اختتامی آیات (امن الرسول سے ختم سورۃ تک) پڑھی جائیں (یہ حدیث امام بیہقی نے شعب الایمان میں روایت کی ہے اور ساتھ ہی کہا ہے کہ صحیح یہ ہے کہ یہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے ، روایت میں جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس کی نسبت کی گئی ہے سند کے لحاظ سے یہ ثابت نہیں ہے) ۔ تشریح میت کو دیر تک گھر میں نہ رکھنے اور کفن دفن میں جلدی کرنے کی ہدایت تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعدد حدیثوں میں وارد ہوئی ہے ، اور سورہ بقرہ کی ابتدائی اور اختتامی آیات کے قبر پر پڑھنے کا حکم ظاہر ہے کہ حضرت ابن عمرؓ اپنی طرف سے نہیں دے سکتے تھے ، یقیناً یہ بات بھی انہون نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے سیکھی ہو گی اس لئے سند کے لحاظ سے اگرچہ یہ حدیث مرفوعا ثابت نہ ہو ، لیکن محدثین اور فقہا کے اصول پر یہ حکم میں مرفوع ہی کے ہے ۔
قبور کے متعلق ہدایات
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ممانعت فرمائی ہے کہ قبر کو گچھ سے پختہ کیا جائے یا اس پر عمارت بنائی جائے یا اس پر بیٹھا جائے ۔ (صحیح مسلم) تشریح قبر کے بارے میں شریعت کا اصولی نقطہ نظر یہ ہے کہ ایک طرف تو میت کے تعلق سے اس کا احترام کیا جائے کسی قسم کی بےحرمتی نہ کی جائے ۔ اسی بناء پر اس حدیث میں فرمایا گیا ہے ، کہ کوئی اس پر بیٹھے نہیں ، یہ اس کے احترام کے خلاف ہو گا ۔ اور دوسری طرف یہ کہ وہ دیکھنے میں ایسی سادہ ہو کہ اس کو دیکھ کر دنیا کی بےثباتی کا احساس اور آخرت کی یاد اور فکر دل میں پیدا ہو ، اسی واسطے اس کو گچھ وغیرہ سے پختہ اور شاندار بنانے کی اور اس کے اوپر بطور یادگار وغیرہ کے عمارت کھڑی کرنے کی بھی ممانعت فرمائی گئی ہے ۔ دوسری حکمت اس حکم میں یہ بھی ہے کہ قبر جب بالکل سادہ اور کچی ہو گی اور اس پر کوئی شاندار عمارت بھی نہ کھڑی ہو گی تو شرک پسند طبیعتیں اس کو پرستش گاہ بھی نہ بنائیں گی ۔ جن صحابہ ؓ یا تابعین یا اولیاء امت کی قبریں شریعت کے اس حکم کے مطابق بالکل سادہ اور کچی ہیں وہاں کوئی خرافات نہیں ہوتی ، اور جن بزرگوں کے مزارات پر شاندار مقبرے بنے ہوئے ہیں ۔ وہاں جو کچھ ہو رہا ہے آنکھوں کے سامنے ہے ، اور اس کی وجہ سے سب سے زیادہ تکلیف ان بزرگوں کی پاک روحوں کو ہی ہو رہی ہے ۔
قبور کے متعلق ہدایات
حضرت ابو مرثد غنوی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نہ تو قبروں کے اوپر بیٹھو اور نہ ان کی طرف رخ کر کے نماز پڑھو ۔ (صحیح مسلم) تشریح جیسا کہ ابھی اوپر کہا گیا قبر پر بیٹھنے میں اس کی بےحرمتی ہے ، اور آگے درج ہونے والی حدیث سے معلوم ہو گا کہ اس سے صاحب قبر کو اذیت بھی ہوتی ہے ، اور قبر کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کی ممانعت کا خاص مقصد امت کو شرک کے شبہ اور شائبہ سے بھی بچانا ہے ۔
قبور کے متعلق ہدایات
حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا کہ میں ایک قبر سے تکیہ لگائے بیٹھا ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا : “ اس قبر والے کو تکلیف نہ دو ” ۔ (مسند احمد)
زیارت قبور
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں نے تم کو زیارت قبور سے منع کر دیا تھا ، اب (اجازت دیتا ہوں کہ) تم قبروں کی زیارت کر لیا کرو ، کیوں کہ (اس کا یہ فائدہ ہے کہ) اس سے دنیا کی بے رغبتی اور آخرت کی یاد اور فکر پیدا ہوتی ہے ۔ (سنن ابن ماجہ) تشریح شروع شروع میں جب تک کہ توحید پوری طرح عام مسلمانوں کے دلوں میں راسخ نہیں ہوئیتھی اور انہیں شرک اور جاہلیت سے نکلے ہوئے تھوڑا ہی زمانہ ہوا تھا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر جانے سے منع فرما دیا تھا ، کیوں کہ ان سے ان لوگوں کے شرک اور قبر پرستی میں ملوث ہو جانے کا خطرہ تھا ۔ پھر جب امت کا توحیدی مزاج پختہ ہو گیا ، اور ہر قسم کے جلی اور خفی شرک سے دلوں میں نفرت بھر گئی اور قبروں پر جانے کی اجازت دے دی اور یہ بھی واضح فرما دیا کہ یہ اجازت اس لیے دی جا رہی ہے کہ وہ دنیا سے بے رغبتی اور آخرت کی یاد اور فکر دلوں میں پیدا ہونے کا ذریعہ ہے ۔ اس حدیث سے شریعت کا یہ بنیادی اصول معلوم ہوا کہ اگر کسی مام میں خیر اور نفع کا کوئی پہلو ہے اور اسی کے ساتھ کسی بڑے ضرر کا بھی اندیشہ ہے تو اس اندیشہ کی وجہ سے خیر کے پہلو سے صرف نظر کر کے اس کی ممانعت کر دی جائے گی ، لیکن اگر کسی وقت حالات میں ایسی تبدیلی ہو کہ ضرر کا وہ اندیشہ باقی نہ رہے تو پھر اس کی اجازت دے دی جائے گی ۔
زیارت قبور
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرامؓ کو تعلیم فرماتے تھے کہ جب وہ قبرستان جائیں تو اہل قبور پر اس طرح سلام پڑھیں ، اور ان کے لیے دعا کریں : “ السَّلَامُ عَلَى أَهْلِ الدِّيَارِ ” (سلام ہو تم پر ان گھروں والوں ! مومنوں میں سے اور مسلموں میں سے ، اور ان شاء اللہ ہم تم سے آ ملنے والے ہیں ۔ ہم اللہ سے دعا اور سوال کرتے ہیں اپنے لیے اور تمہارے لیے عافیت کا (یعنی چین اور سکون کا) ۔ (صحیح مسلم)
زیارت قبور
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر مدینہ ہی میں چند قبروں پر ہوا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف رخ کیا اور فرمایا “ السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ يَا أَهْلَ القُبُورِ ” (سلام ہو تم پر اے قبر والوں ! اللہ تعالیٰ ہماری اور تمہاری مغفرت فرمائے ، تم ہم سے آگے جانے والے ہو اور ہم پیچھے پیچھے آ رہے ہیں ۔ (جامع ترمذی) تشریح ان دونوں حدیثوں میں قبر والوں پر سلام و دعا کے جو کلمات وارد ہوئے ہیں ، جن میں صرف الفاظ کا معمولی سا فرق ہے ۔ ان میں ان کے واسطے بس سلام اور دعائے مغفرت ہے ، اور ساتھ ہی اپنی موت کی یاد ہے ۔ معلوم ہوا کہ یہی دو چیزیں کسی کی قبر پر جانے کا اصل مقصد ہونی چاہئیں ، اور صحابہ کرام اور ان کے تابعین بالاحسان کا طریقہ یہی تھا ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں انہی کے طریقے پر قائم رکھے اور اسی پر اٹھائے ۔
اموات کے لئے ایصال ثواب
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ کی والدہ کا انتقال ایسے وقت ہوا کہ خود سعد موجود نہیں تھے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں گے ہوئے تھے ، جب واپس آئے) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) میری عدم موجودگی میں میری والدہ کا انتقال ہو گیا تو اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو ان کے لئے نفع مند ہو گا ؟ (اور ان کو اس کا ثواب پہنچے گا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں پہنچے گا ۔ انہوں نے عرض کیا : تو میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ اپنا باغ (مخراف) میں نے اپنی مرحوم والدہ کے لئے صدقہ کر دیا ۔ (صحیح بخاری) تشریح کسی کی موت کے بعد اس کی خدمت اور اس کے ساتھ حسن سلوک کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کے لئے مغفرت اور رحمت کی دعا کی جائے اور رحم و کرم کی بھیک مانگی جائے ۔ جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے ، نماز جنازہ کی خاص غرض و غایت بھی یہی ہے ، اور زیارت قبور کے سلسلہ میں ابھی اوپر جو حدیثیں مذکور ہوئی ہیں ان میں بھی اصحاب قبور کو سلام کے ساتھ ان کے لئے دعائے مغفرت بھی کی گئی ہے ۔ دعائے خیر کے اس طریقہ کے علاوہ اموات کی خدمت اور نفع رسانی کی ایک دوسری صورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی بتائی ہے کہ ان کی طرف سے صدقہ یا اسی طرح کا کوئی دوسرا عمل خیر کر کے اس کا ثواب ان کو ہدیہ کیا جائے “ ایصال ثواب ” اسی کا عنوان ہے ۔ اس بارے میں ذیل کی حدیثیں پڑھئے ۔ یہ حدیث جیسا کہ ظاہر ہے کہ ایصال ثواب کے مسئلہ میں بالکل واضح ہے ۔ قریب قریب اسی مضمون کی ایک حدیث صحیح بخاری و صحیح مسلم دونوں میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے بھی مروی ہے ، اس میں حضرت سعد کا نام نہیں ہے ، لیکن شارحین نے لکھا ہے کہ اس کا تعلق بھی اسی واقعہ سے ہے ۔
اموات کے لئے ایصال ثواب
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے دادا عاص بن وائل نے (جن کو اسلما نصیب نہیں ہوا ، اپنے بیٹوں کو) وصیت کی تھی کہ ان کی طرف سے سو غلام آزاد کئے جائیں ۔ (اس وصیت کے مطابق ان کے ایک بیٹے) ہشام بن العاص نے اپنے حصے کے پچاس غلام آزاد کر دئیے تھے ، (دوسرے بیٹے) عمرو بن العاص نے بھی ارادہ کیا کہ وہ بھی اپنے حصے کے باقی پچاس آزاد کر دیں گے ، لیکن انہوں نے طے کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کر کے ایسا کروں گا ۔ چنانچہ وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ : کہ میرے والد نے سو غلام آزاد کرنے کی وصیت کی تھی اور میرے بھائی ہشام نے پچاس اپنی طرف سے آزاد کر دیئے ، اور پچاس باقی ہیں تو کیا میں اپنے والد کی طرف سے آزاد کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر تمہارے والد اسلام و ایمان کے ساتھ دنیا سے گئے ہوتے پھر تم ان کی طرف سے غلام آزاد کرتے ، یا صدقہ کرتے یا حج کرتے تو ان اعمال کا ثواب ان کو پہنچ جاتا ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح یہ حدیث بھی مسئلہ ایصال ثواب کے بارے میں بالکل واضح ہے ۔ اس میں صدقے کے ذریعے ایصال ثواب کے علاوہ حج کا بھی ذکر ہے اور اسی حدیث کی مسند احمد کی روایت میں بجائے حج کے روزہ کا ذکر ہے ۔ بہرحال اس حدیث سے یہ بات اصول اور قاعدے کے طور پر معلوم ہوئی کہ اموات کو ان سب اعمال خیر کا ثواب پہنچایا جا سکتا ہے لیکن ایمان و اسلام شرط ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے فائدہ اٹھانے کی توفیق دے ۔ “ کتاب الصلوٰۃ ” ختم ہوئی فَلِلَّهِ الحَمْدُ وَالْمَنَّةُ وَعَلَى رَسُولِهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ محمد منظور نعمانی عفا اللہ عنہ