8. کتاب الحج
حج کی فرضیت اور فضیلت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن خطبہ دیا اور اس میں فرمایا : اے لوگو ! تم پر حج فرض کر دیا گیا ہے لہٰذا اس کو ادا کرنے کی فکر کرو .... ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کیا ہر سال حج کرنا فرض کیا گیا ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں سکوت فرمایا اور کوئی جواب نہیں دیا ، یہاں تک کہ اس شخص نے تین دفعہ اپنا وہ سوال دوہرایا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ناگواری کے ساتھ) فرمایا کہ : اگر میں تمہارے اس سوال کے جواب میں کہہ دیتا کہ : “ ہاں ! ہر سال حج کرنا فرض کیا گیا ” تو اسی طرح فرض ہو جاتا ، اور تم ادا نہ کر سکتے .... اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی کہ : کسی معاملہ میں جب میں خود تم کو کوئی حکم نہ دوں تم مجھ سے حکم لینے (اور سوال کر کر کے اپنی پابندیوں میں اضافہ کرنے) کی کوشش نہ کرو .... تم سے پہلی امتوں کے لوگ اسی لیے تباہ ہوئے کہ وہ اپنے نبیوں سے سوال بہت کرتے تھے اور پھر ان کے احکام کی خلاف ورزی کرتے تھے .... لہذا (میری ہدایت تم کو یہ ہے کہ) جب میں تم کو کسی چیز کا حکم دوں تو جہاں تک تم سے ہو سکے اس کی تعمیل کرو اور جب تم کو کسی چیز سے منع کروں تو اس کو چھوڑ دو ۔ (صحیح مسلم) تشریح بسم اللہ الرحمٰن الرحیم جیسا کہ معلوم ہو چکا ہے اسلام کے پانچ ارکان میں سے آخری اور تکمیلی رکن “ حج بیت اللہ ” ہے ۔ حج کیا ہے ؟ .... ایک معین اور مقررہ وقت پر اللہ کے دیوانوں کی طرح اس کے دربار میں حاضر ہونا ، اور اس کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اداؤں ، اور طور طریقوں کی نقل کر کے ان کے سلسلے اور مسلک سے اپنی وابستگی اور وفاداری کا ثبوت دینا اور اپنی استعداد کے بقدر ابراہیمی جذبات اور کیفیات سے حصہ لینا اور اپنے کو ان کے رنگ میں رنگنا ۔ مزید وضاحت کے لیے کہا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ایک شان یہ ہے کہ وہ ذو الجلال والجبروت ، احکم الحاکمین اور شہنشاہ کل ہے ، اور ہم اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں ۔ اور دوسری شان اس کی یہ ہے کہ ان تمام صفات جمال سے بدرجہ اتم متصف ہے جس کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے اور اس لحاظ سے وہ .... بلکہ صرف وہی .... محبوب حقیقی ہے ۔ اس کی پہلی حاکمانہ اور شاہانہ شان کا تقاضا یہ ہے کہ بندے اس کے حضور میں ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں .... ارکان اسلام میں پہلا عملی رکن نماز اسی کا خاص مرقع ہے اور اس میں یہی رنگ غالب ہے ۔ اور زکوٰۃ بھی اسی نسبت کے ایک دوسرے رخ کو ظاہر کرتی ہے .... اور اس کی دوسری شان محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا تعلق اس کے ساتھ محبت اور والہیت کا ہو ۔ روزے میں بھی کسی قدر یہ رنگ ہے ، کھانا پینا چھوڑ دینا اور نفسانی خواہشات سے منہ موڑ لینا عشق و محبت کی منزلوں میں سے ہے ، مگر حج اس کا پورا پورا مرقع ہے ۔ سلے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس پہن لینا ، ننگے سر رہنا ، حجامت نہ بنوانا ، ناخن نہ ترشوانا ، بالوں میں کنگھا نہ کرنا ، تیل نہ لگانا ، خوشبو کا استعمال نہ کرنا ، میل کچیل سے جسم کی صفائی نہ کرنا ، چیخ چیخ کے لبیک لبیک پکارنا ، بیت اللہ کے گرد چکر لگانا ، اس کے ایک گوشے میں لگے ہوئے سیاہ پتھر (حجر اسود) کو چومنا ، اس کے در و دیوار سے لپٹنا اور آہ و زاری کرنا ، پھر صفا و مروہ کے پھیرے کرنا ، پھر مکہ شہر سے بھی نکل جانا اور منیٰ اور کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں جا پڑنا ، پھر جمرات پہ بار بار کنکریاں مارنا ، یہ سارے اعمال وہی ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں ، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام گویا اس رسم عاشقی کے بانی ہیں .... اللہ تعالیٰ کو ان کی یہ ادائیں اتنی پسند آئیں کہ اپنے دربار کی خاص الخاص حاضری حج و عمرہ کے ارکان و مناسک ان کو قرار دے دیا ۔ انہی سب کے مجموعہ کا نام گویا حج ہے ، اور یہ اسلام کا آخری اور تکمیلی رکن ہے ۔ اس سلسلہ معارف الحدیث کی پہلی جلد “ کتاب الایمان ” میں وہ حدیثیں گزر چکی ہیں جن میں اسلام کے ارکان پنجگانہ کا بیان ہے ، اور ان میں آخری رکن “ حج بیت اللہ ” بتایا گیا ہے ۔ حج کی فرضیت کا حکم راجح قول کے مطابق ۹ھ میں آیا ، اور اس کے اگلے سال ۱۰ھ میں اپنی وفات سے صرف تین مہینے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بڑی تعداد کے ساتھ حج فرمایا ، جو “ حجۃ الوداع ” کے نام سے مشہور ہے ۔ اور اسی حجۃ الوداع میں خاص عرفات کے میدان میں آپ پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي (المائدة5 : 3) آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا ، اور تم پر اپنی نعمت کا اتمام کر دیا ۔ اس میں اس طرف ایک لطیف اشارہ ہے کہ حج اسلام کا تکمیلی رکن ہے ۔ اگر بندہ کو صحیح اور مخلصانہ حج نصیب ہو جائے جس کو دین و شریعت کی زبان میں “ حج مبرور ” کہتے ہیں اور ابراہیمیؑ و محمدیؑ نسبت کا کوئی ذرہ اس کو عطا ہو جائے تو گویا اس کو سعادت کا اعلیٰ مقام حاصل ہو گیا ، اور وہ نعمت عظمیٰ اس کے ہاتھ آ گئی جس سے بڑی کسی نعمت کا اس دنیا میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ، اس کو حق ہے کہ تحدیث نعمت کے طور پر کہے اور مست ہو ہو کر کہے ؎ نازم بچشم خود کہ جمالِ تو دیدہ استافتم بہ پائے خود کہ مکویت رسیدہ است ہر دم ہزار بوسہ زنم دست خویش راکہ دامنت گرفتہ بسویم کشیدہ است اس مختصر تمہید کے بعد حج کے متعلق ذیل کی حدیثیں پڑھئے ۔ تشریح ..... جامع ترمذی وغیرہ میں قریب قریب اسی مضمون کی ایک حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے ۔ اس میں یہ تصریح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حج کی فرضیت کا یہ اعلان اور اس پر یہ سوال و جواب جو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مندرجہ بالا حدیث میں ذکر کیا گیا ہے سورہ آل عمران کی اس آیت کے نازل ہونے پر پیش آیا تھا ۔ وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ البَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا اللہ کے واسطے بیت اللہ کا حج کرنا فرض ہے ان لوگوں پر جو اس کی استطاعت رکھتے ہوں ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں ان صحابی کا نام مذکور نہیں ہے جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گھا کہ : “ کیا ہر سال حج کرنا فرض کیا گیا ہے ؟ ” لیکن حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی اسی مضمون کی حدیث جس کو امام احمد اور دارمی اور نسائی وغیرہ نے روایت کیا ہے ، اس میں تصریح ہے کہ یہ سوال کرنے والے اقرع بن حابس تمیمی تھے ، یہ ان لوگوں میں ہیں جنہوں نے فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کیا ، ان کو تعلیم و تربیت حاصل کرنے کا ابھی پورا موقع نہیں ملا تھا ، اسی لیے ان سے یہ لغزش ہوئی کہ ایسا سوال کر بیٹھے اور جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا تو پھر دوبارہ اور سہ بارہ سوال کیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا کہ : “ اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال حج کرنا واجب ہو جاتا ” ۔ اس کا منشاء اور مطلب یہ ہے کہ سوال کرنے والے کو سوچنا سمجھنا چاہئے تھا کہ میں نے حج کے فرض ہونے کا جو حکم سنایا تھا اس کا تقاضا اور مطالبہ عمر بھر میں بس ایک حج کا تھا ، اس کے بعد ایسا سوال کرنے کا نتیجہ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ اگر میں ہاں کہہ دیتا (اور ظاہر ہے کہ آپ ہاں جب ہی کہتے جب اللہ تعالیٰ کا حکم ہوتا) تو ہر سال حج کرنا فرض ہو جاتا ، اور امت سخت مشکل میں پڑ جاتی .... اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : اگلی امتوں کے بہت سےلوگ کثرت سوال اور قیل و قال کی اسی بری عادت کی وجہ سے تباہ ہوئے ، انہوں نے اپنے نبیوں سے سوال کر کر کے شرعی پابندیوں میں اضافہ کرایا اور پھر اس کے مطابق عمل کر نہیں سکے ۔ حدیث کے آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بڑی اور اصولی بات فرمائی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : “ جب میں تم کو کسی چیز کا حکم دوں تو جہاں تک تم سے ہو سکے اس کی تعمیل کرو ، اور جس چیز سے منع کروں اس کو ترک کر دو ” ۔ مطلب یہ ہے کہ میری لائی ہوئی شریعت کا مزاج سختی اور تنگی نہیں ہے بلکہ سہولت اور وسعت کا ہے ، جس حد تک تم سے تعمیل ہو سکے اس کی کوشش کرو ، بشری کمزوریوں کی وجہ سے جو کمی کسر رہ جائے گی اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم سے اس کی معافی کی امید ہے ۔
حج کی فرضیت اور فضیلت
حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس کے پاس سفر حج کا ضروری سامان ہو اور اس کو سواری میسر ہو جو بیت اللہ تک اس کو پہنچا سکے اور پھر وہ حج نہ کرے ، تو کوئی فرق نہیں کہ وہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہو کر ، اور یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ : “ اللہ کے لیے بیت اللہ کا حج فرض ہے ان لوگوں پر جو اس تک جانے کی استطاعت رکھتے ہوں ۔ ” (جامع ترمذی) تشریح اس حدیث میں ان لوگوں کے لیے بڑی سخت وعید ہے جو حج کرنے کی استطاعت رکھنے کے باوجود حج نہ کریں ۔ فرمایا گیا ہے کہ ان کا اس حال میں مرنا اور یہودی یا نصرانی ہو کر مرنا گویا برابر ہے (معاذ اللہ) یہ اس طرح کی وعید ہے جس طرح ترک نماز کو کفر و شرک کے قریب کہا گیا ہے .... قرآن مجید میں بھی ارشاد ہے : أَقِيمُوا الصَّلاَةَ وَلاَ تَكُونُوا مِنَ المُشْرِكِينَ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ترک صلوٰۃ مشرکوں والا عمل ہے ۔ حج فرض ہونے کے باوجود حج نہ کرنے والوں کو مشرکین کے بجائے یہود و نصاریٰ سے تشبیہہ دینے کا راز یہ ہے کہ حج نہ کرنا یہود و نصاریٰ کی خصوصیت تھی کیوں کہ مشرکین عرب حج کیا کرتے تھے لیکن وہ نماز نہیں پڑھتے تھے ، اس لیے ترک نماز کو مشرکوں والا عمل بتلایا گیا ۔ اس حدیث میں استطاعت کے باوجود حج نہ کرنے والوں کے لیے جو سخت وعید ہے اس کے لیے سورہ آل عمران کی اس آیت کا جو حوالہ دیا گیا ہے اور اس کی سند پیش کی گئی ہے جس میں حج کی فرضیت کا بیان ہے ، یعنی “ وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ البَيْتِ مَنْ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلاً ” لیکن معلوم ہوتا ہے کہ راوی نے صرف حوالہ کے طور پر آیت کا یہ ابتدائی حصہ پڑھنے پر اکتفا کیا ، یہ وعید آیت کے جس حصے سے نکلتی ہے وہ اس کے آگے والا حصہ ہے ، یعنی “ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ العَالَمِينَ ” (جس کا مطلب یہ ہے کہ اس حکم کے بعد جو کوئی کافرانہ رویہ اختیار کرے یعنی باوجود استطاعت کے حج نہ کرے تو اللہ کو کوئی پرواہ نہیں ، وہ ساری دنیا اور ساری کائنات سے بے نیاز ہے) .... اس میں استطاعت کے باوجود حج نہ کرنے والوں کے رویہ کو “ وَمَنْ كَفَرَ ” کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے ، اور “ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ العَالَمِينَ ” کی وعید سنائی گئی ہے ، اس کا مطلب یہی ہوا کہ ایسے ناشکرے اور نافرمان جو کچھ بھی کریں اور جس حال میں مریں اللہ کو ان کی کوئی پرواہ نہیں ۔ قریب قریب اسی مضمون کی ایک حدیث مسند دارمی وغیرہ میں حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔
حج کی فرضیت اور فضیلت
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ، اور اس نے پوچھا کہ : کیا چیز حج کو واجب کر دیتی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سامان سفر اور سواری ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ) تشریح قرآن مجید میں فرضیت حج کی شرط کے طور پر “ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ” فرمایا گیا ہے ، یعنی حج ان لوگوں پر فرض ہے جو سفر کر کے مکہ معظمہ تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں .... اس میں جو اجمالی ہے غالباً سوال کرنے والے صحابی نے اس کی وضاحت چاہی اور دریافت کیا کہ اس کی استطاعت کا متعین معیار کیا ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ایک تو سواری کا انتظام ہو جس میں مکہ معظمہ تک سفر کیا جا سکے اور اس کے علاوہ کھانے پینے جیسی ضروریات کے لیے اتنا سرمایہ ہو جو اس زمانہ سفر کے گزارے کے لیے کافی ہو .... فقہائے کرام نے اس گزارے میں ان لوگوں کے گزارے کو بھی شامل کیا ہے جن کی کفالت جانے والے کے ذمہ ہو ۔
حج کی فرضیت اور فضیلت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس آدمی نے حج کیا اور اس میں نہ تو کسی شہوانی اور فحش بات کا ارتکاب کیا ، اور نہ اللہ کی کوئی نافرمانی کی تو وہ گناہوں سے ایسا پاک و صاف ہو کر واپس ہو گا جیسا اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اس کو جنا تھا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے : الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَّعْلُومَاتٌ ۚ فَمَن فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ اس آیت میں حج کرنے والوں کو ہدایت فرمائی گئی ہے کہ خاص کر زمانہ حج میں وہ شہوت کی باتوں اور اللہ کی نافرمانی والے سارے کاموں اور آپس کی جھگڑے بازی سے بچیں ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں اس ہدایت پر عمل کرنے ولوں کو بشارت سنائی گئی ہے اور فرمایا گیا ہے کہ جو شخص حج کرے اور ایام حج میں نہ شہوت کی باتیں کرے ، اور نہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی کوئی ایسی حرکت کرے جو جسق کی حد میں آتی ہو ، تو حج کی برکت سے اس کے سارے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے اور وہ گنوہوں سے بالکل ایسا پاک و صاف ہو کر واپس ہو گا جیسا کہ وہ اپنی پیدائش کے دن بے گناہ تھا ۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے یہ دولت نصیب فرمائے ۔
حج کی فرضیت اور فضیلت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایک عمرہ سے دوسرے عمرہ تک کفارہ ہو جاتا ہے اس کے درمیان کے گناہوں کا ۔ اور “ حج مبرور ” (پاک اور مخلصانہ حج) کا بدلہ تو بس جنت ہے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
حج کی فرضیت اور فضیلت
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : پے در پے کیا کرو حج اور عمرہ کیوں کہ حج اور عمرہ دونوں فقر و محتاجی اور گناہوں کو اس طرح دور کر دیتے ہیں جس طرح لوہا اور سنار کی بھٹی لوہے اور سونے چاندی کا میل کچیل دور کر دیتی ہے اور “ حج مبرور ” کا صلہ اور ثواب تو بس جنت ہی ہے .... (جامع ترمذی ، سنن نسائی) تشریح جو شخص اخلاص کے ساتھ حج یا عمرہ کرتا ہے وہ گویا اللہ تعالیٰ کے دریائے رحمت میں غوطہ لگاتا اور غسل کرتا ہے جس کے نتیجہ میں وہ گناہوں کے گندے اثرات سے پاک صاف ہو جاتا ہے اور اس کے علاوہ دنیا میں بھی اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ فضل ہوتا ہے کہ فقر و محتاجی اور پریشان حالی سے اس کو نجات مل جاتی ہے اور خوش حالی اور اطمینان قلب کی دولت نصیب ہو جاتی ہے اور مزید برآں “ حج مبرور ” کے صلہ میں جنت کا عطا ہونا اللہ تعالیٰ کا قطعی فیصلہ ہے ۔
حج کی فرضیت اور فضیلت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : حج اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں ، اگر وہ اللہ سے دعا کریں تو وہ ان کی دعا قبول فرمائے ، اور اگر وہ اس سے مغفرت مانگیں تو وہ ان کی مغفرت فرمائے ۔ (سنن ابن ماجہ)
حج کی فرضیت اور فضیلت
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب کسی حج کرنے والے سے تمہاری ملاقات ہو تو اس کے اپنے گھر میں پہنچنے سے پہلے اس کو سلام کرو اور مصافحہ کرو اور اس سے مغفرت کی دعا کے لئے کہو ، کیوں کہ وہ اس حال میں ہے کہ اس کے گناہوں کی مغفرت کا فیصلہ ہو چکا ہے (اس لیے اس کی دعا کے قبول ہونے کی کاص توقع ہے) ۔ (مسند احمد)
حج کی فرضیت اور فضیلت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کا جو بندہ حج یا عمرہ کی نیت سے یا راہ خدا میں جہاد کے لیے نکلا پھر راستہ ہی میں اس کو موت آ گئی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے واسطے وہی اجر و ثواب لکھ دیا جاتا ہے جو حج و عمرہ کرنے کے لیے اور راہ جہاد کرنے والے کے لیے مقرر ہے ۔ (شعب الایمان للبیہقی) تشریح تشریح ..... اللہ تعالیٰ کے اس کریمانہ دستور و قانون کا اعلان خود قرآن مجید میں بھی کیا گیا ہے ۔ ارشاد ہے : وَمَن يَخْرُجْ مِن بَيْتِهِ مُهَاجِرًا إِلَى اللَّـهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى اللَّـهِ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا (النساء 100 : 4) اور جو بندہ اپنا گھر بار چھوڑ کے اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کی نیت سے نکل پڑے ، پھر آ جائے اس کو موت (راستہ ہی میں) تو مقرر ہو گیا اس کا اجر اللہ کے ہاں ، اور اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور بڑا مہربان ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی بندہ اللہ کی رضا کا کوئی کام کرنے کے لیے گھر سے نکلے اور اس کے عمل میں آنے سے پہلے راستہ ہی میں اس کی زندگی ختم ہو جائے تو اللہ تعالیی کے ہاں اس عمل کا پورا اجر اس بندہ کے لئے مقرر ہو جاتا ہے ، اور یہ اللہ تعالیٰ کی شان رحمت کا تقاضا ہے ۔ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا
میقات ، احرام ، تلبیہ: مواقیت
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذو الحلیفہ کو اہل مدینہ کا میقات مقرر کیا ، اور جحفہ کو اہل شام کا اور قرن المنازل کو اہل نجد کا ، اور یلملم کو اہل یمن کا ۔ پس یہ چاروں مقامات خود ان کے رہنے والوں کے لیے میقات ہیں ، اور ان سے لوگوں کے لیے جو دوسرے علاقوں سے ان مقامات پر ہوئے ہوئے آئیں جن کا ارادہ حج یا عمرہ کا ہو ۔ پس جو لوگ ان مقامات کے ورے ہوں (یعنی ان مقامات سے مکہ معظمہ کی طرف سے رہنے والے ہوں) تو وہ اپنے گھر ہی سے احرام باندھیں گے ۔ اور یہ قاعدہ اسی طرح چلے گا ، یہاں تک کہ خاص مکہ کے رہنے والے مکہ ہی سے احرام باندھیں گے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح کعبہ مکہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کا قبلہ اور اپنا محترم و مقدس “ بیت ” (گھر) قرار دیا ہے ، اور جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے ، جو لوگ وہاں ھاضری کی استطاعت رکھتے ہوں ، ان پر عمر میں ایک دفعہ حاضر ہونا اور حج کرنا فرض کیا ہے ، اور اس حاضری اور حج کے کچھ لازمی آداب مقرر کئے ہیں ۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ یہ حاضر ہونے والے اپنے روزمرہ کے اور عام عادی لباس مین حاضر نہ ہوں بلکہ ایسے فقیرانہ لباس میں حاضر ہوں جو مردوں کے کفن سے مشابہت رکھتا ہو ، اور آخرتمیں میدان حشر کی حاضری کو یاد دلاتا ہو ...... کرتا ، پاجامہ ، صدری ، شیروانی ، کوٹ ، پتلون کچھ نہ ہو بس ایک تہبند باندھ لیں ، اور ایک چادر جسم کے اوپر کے حصے میں ڈال لیں ، سر بھی کھلا ہو ، پاؤںمیں موزہ بلکہ ایسا جوتا بھی نہ ہو جس سے پورا پاؤں ڈھک جائے ۔ (1) اسی قسم کی کچھ اور بھی پابندیاں عائد کی گئی ہیں جن کا منشاء یہ ہے کہ بندہ ایسی ہیئت اور صورت میں حاضر ہو جس سے اس کی عاجزی اور بےچارگی اور بے حیثیتی و بے مائگی اور عیش دنیوی سے بے رغبتی ظاہر ہو .... لیکن بندوں کے ضعف کا لحاظ رکھتے ہوئے اس کو اس کا مکلف نہیں کیا گیا کہ وہ اپنے گھر ہی سے احرام بند اور ان آداب کے پابند ہو کے روانہ ہوں ، اگر یہ حکم دیا جاتا تو اللہ کے بندے بڑی مشکل میں پڑ جاتے ۔ اب سے کچھ ہی زمانہ پہلے تک بہت سے ملکوں کے حاجی کئی کئی مہینے سفر کرنے کے بعد مکہ معظمہ پہنچا کرتے تھے ، اور اب بھی بہت سے ملکوں کے حجاج کئی کئی ہفتے کا بری اور بحری سفر کر کے وہاں پہنچتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ اتنی طویل مدت تک احرام کی پابندیوں کا نبھانا اکثر لوگوں کے لیے سخت مشکل ہوتا ہے ، اس لیے مختلف راستوں سے آنے والے حجاج کے لیے مکہ معظمہ کے قریب مختلف سمتوں میں کچھ مقامات مقرر کر دئیے گئے ہیں اور حکم دیا گیا ہے کہ حج یا عمرہ کے لیے آنے والے جب ان میں سے کسی مقام پہ پہنچیں تو “ بیت اللہ ” اور “ بلد اللہ الحرام ” کے ادب میں وہیں سے احرام بن ہو جائیں .... مختلف سمتوں کے یہ معین مقامات جن کی تفصیل آگے آئے گی “ میقات ” کہلاتے ہیں ۔ یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ احرام باندھنے کا مطلب صرف احرام والے کپڑے پہن لینا نہیں ہے ، بلکہ یہ کپڑے پہن کے پہلے دو رکعت نماز (دوگانہ احرام) پڑھی جاتی ہے اس کے بعد پکار کر تلبیہ پڑھا جاتا ہے : لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ ، لَا شَرِيكَ لَكَ اس تلبیہ کے پڑھنے کے بعد آدمی محرم (احرام بند) ہو جاتا ہے ، اور اسی سے حج کا عمل شروع ہو جاتا ہے ، اور احرام والی ساری پابندیاں اس پر عائد ہو اجاتیں ہیں .... جس طرح تکبیر تحریمہ کہنے کے بعد نماز کا عمل شروع ہو جاتا ہے اور نماز والی ساری پابندیاں عائد ہو جاتی ہیں ۔ اس تمہید کے بعد مواقیت ، احرام اور تلبیہ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مندرجہ ذیل احادیث پڑھئے :
میقات ، احرام ، تلبیہ: مواقیت
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اہل مدینہ کا میقات (جہاں سے ان کو احرام باندھنا چاہئے) ذو الحلیفہ ہے ، اور دورے راستہ سے جانے والوں کا میقات جحفہ ہے ، اور اہل عراق کا میقات ، ذات عرق ہے ، اور اہل نجد کا میقات قرن المنازل ہے ، اور اہل یمن کا میقات یلملم ہے ۔ (صحیح مسلم) تشریح اوپر والی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت میں صرف چار میقاتوں کا ذکر ہے ۔ (۱) ذو الحلیفہ (۲) جحفہ (۳) قرن المنازل (۴) یلملم .... اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی اس روایت میں پانچویں میقات “ ذات عرق ” کا بھی ذکر ہے جس کو اہل عراق کا میقات قرار دیا گیا ہے ۔ دونوں روایتوں میں ایک خفیف سا فرق یہ بھی ہے کہ پہلی روایت میں جحفہ کو اہل شام کا میقات بتایا گیا ہے اور دوسری روایت میں اس کو “ دوسرے راستہ والوں کا ” میقات کہا گیا ہے ، جس کا مطلب بظاہر یہ ہے کہ اہل مدینہ بھی اگر دوسرے راستہ سے (یعنی جحفہ کی طرف سے) مکہ معظمہ جائیں تو وہ جحفہ سے بھی احرام باندھ سکتے ہیں ، اور ان کے علاوہ جو دوسرے علاقوں کے لوگ مثلاً اہل شام جحفہ کی طرف سے آئیں وہ بھی جحفہ سے احرام باندھیں ۔ اور بعض شارحیں نے “ دوسرے طریقہ والوں سے ” مراد اہل شام ہی لیے ہیں ، اس صورت میں دونوں روایتوں میں صرف تعبیر اور لفظ ہی کا فرق رہے گا .... بہر حال یہ پانچوں مقامات معین اور متفق علیہ میقات ہیں ۔ جن علاقوں کے لیے یہ میقات قرار دئیے گئے ہیں ان سے مکہ مکرمہ آنے والوں کے راستہ میں یہ پڑتے تھے ۔ ان کا مختصر تعارف یہ ہے : ذو الحلیفہ : جو اہل مدینہ کے لیے میقات مقرر کیا گیا ہے ، مدینہ طیبہ سے مکہ معظمہ جاتے ہوئے صرف پانچ چھ میل پہ پڑتا ہے ، یہ مکہ معظمہ سے سب سے زیادہ بعید میقات ہے ۔ یہاں سے مکہ مکرمہ قریباً دو سو میل ہے ، بلکہ آج کل کے راستے سے قریباً ڈھائی سو میل ہے .... چونکہ اہل مدینہ کا دین سے خاص تعلق ہے اس لیے ان کا میقات اتنی بعید مسافت پر مقرر کیا گیا ہے ، دین میں جس کا مرتبہ جتنا بڑا ہے اس کو مشقت بھی اتنی ہی زیادہ اٹھانی پڑتی ہے ؎ جن کے رتبے میں سوا ان کو سوا مشکل ہے جحفہ : یہ شام وغیرہ مغربی علاقوں سے آنے والوں کے لیے میقات ہے ، یہ موجودہ رابغ کے قریب ایک بستی تھی ، اب اس نام کی کوئی بستی موجود نہیں ہے ، لیکن یہ معلوم ہے کہ اس کا محل وقوع رابغ کے قریب تھا جو مکہ معظمہ سے قریباً سو میل کے فاصلہ پر بجانب مغرب ساحل کے قریب ہے ۔ قرن المنازل : یہ نجد کی طرف سے آنے والوں کا میقات ہے ۔ مکہ معظمہ سے قریباًٍ ۳۰ ، ۳۵ میل مشرق میں نجد جانے والے راستہ پر ایک پہاڑی ہے ۔ ذات عرق : یہ عراق کی طرف سے آنے والوں کے لیے میقات ہے ۔ مکہ معظمہ سے شمال مشرق میں عراق جانے والے راستہ پر واقع ہے ۔ مسافت مکہ معظمہ سے ۵۰ میل کے قریب ہے ۔ یلملم : یہ یمن کی طرف سے آنے والوں کے لیے میقات ہے ۔ یہ تہامہ کی پہاڑیوں میں سے ایک معروف پہاڑی ہے ، جو مکہ معظمہ سے قریباً ۴۰ میل جنوب مشرق میں یمن سے مکہ آنے والے راستہ پر پڑتی ہے ۔ جیسا کہ مندجہ بالا دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پانچوں مقامات کو خود اب کے باشندوں کے لیے اور دوسرے تمام علاقوں کے ان لوگوں کے لیے جو حج یا عمرہ کے واسطے ان مقامات کی طرف سے آئیں “ میقات ” مقرر فرمایا ہے ۔ فقہائے امت کا اس پر اتفاق اور اجماع ہے کہ جو شخص حج یا عمرہ کے لیے ان مقامات میں سے کسی مقام کی طرف سے آئے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ احرام باند کر اس مقام سے آگے بڑھے ۔ احرام باندھنے کا مطلب اور اس کا طریقہ ابھی اوپر ذکر کیا جا چکا ہے ۔
احرام کا لباس
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے بیان فرماتے ہیں کہ : ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ : محرم (حج یا عمرہ کا احرام باندھنے والا) کیا کیا کپڑے پہن سکتا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ (حالت احرام میں) نہ تو کرتا قمیض پہنو اور نہ سر پر عمامہ اور نہ شلوار پاجامہ پہنو اور نہ بارانی پہنو اور نہ پاؤں میں موزے پہنو ، سوائے اس کے کہ کسی آدمی کے پاس پہننے کے لیے چپل جوتا نہ ہو تو وہ مجبوراً پاؤں کی حفاظت کے لیے موزے پہن لے اور ان کو ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ کے جوتا سا بنا لے (آگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حالت احرام میں) ایسا بھی کوئی کپڑا نہ پہنو جس کو زعفران یا ورس لگا ہو ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں قمیض ، شلوار ، عمامہ وغیرہ صرف ان چند کپڑوں کا نام لیا ہے جن کا اس وقت رواج تھا یہی حکم ان تمام کپڑوں کا ہے جو مختلف زمانوں میں اور مختلف قوموں اور ملکوں میں ان مقاصد کے لیے استعمال ہوتے ہیں یا آئندہ استعمال ہوں گے جن مقاصد کے لیے قمیض ، شلوار ، عمامہ وغیرہ استعمال ہوتے تھے ۔ زعفران تو معروف ہے ، ورس بھی ایک خوشبودار رنگ کی پتی ہے ۔ یہ دونوں چیزیں چونکہ خوشبو کے لیے استعمال ہوتی تھیں اس لیے حالت احرام میں ایسے کپڑے کے استعمال کی بھی ممانعت کر دئی گئی ہے جس کو زعفران یا ورس لگی ہو ۔ سوال کرنے والے شخص نے پوچھا تھا کہ : مُحرم کون سے کپڑے پہنے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوجواب میں فرمایا کہ : “ فلاں فلاں کپڑے نہ پہنے ” ۔ اس جواب میں گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بھی تلقین فرمائی کہ پوچھنے کی بات یہ نہیں ہے کہ محرم کون سے کپڑے پہنے ؟ بلکہ یہ دریافت کرنا چاہئے کہ کس قسم کے کپڑنے پہننے کی اس کو ممانعت ہے ، کیوں کہ احرام کا اثر یہی پڑتا ہے کہ کچھ کپڑے اور کچھ چیزیں جن کا استعمال عام حالات میں جائز ہے احرام کی وجہ سے ان کا استعمال ناجائز ہو جاتا ہے ، اس لیے یہ دریافت کرنا چاہئے کہ احرام میں کن کپڑوں اور کن چیزوں کا استعمال ممنوع اور ناجائز ہو جاتا ہے ۔
احرام کا لباس
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں عورتوں کو احرام کی حالت میں دستانے پہننے اور چہرے پر نقاب ڈالنے اور ان کپڑوں کے استعمال سے جن کو زعفران یا ورس لگی ہو اور ان کے بعد اور ان کے علاوہ جو رنگین کپڑے وہ چاہیں پہن سکتی ہیں کسمبی کپڑا ہو یا ریشمی ، اور اسی طرح وہ چاہیں تو زیور بھی پہن سکتی ہیں اور شلوار اور قمیض اور موزے بھی پہن سکتی ہیں ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح اس حدیث سے معلوم ہو گیا کہ احرام کی حالت میں قمیض ، شلوار وغیرہ سلے کپڑے پہننے کی ممانعت صرف مردوں کو ہے ، عورتوں کو پردہ کی وجہ سے ان سب کپڑوں کے استعمال کی اجازت ہے اور موزے پہننے کی بھی اجازت ہے ، ہوں دستانے پہننے کی ان کو بھی ممانعت ہے اور منہ پر نقاب ڈالنے کی بھی ممانعت ہے .... لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اجنبی مردوں کے سامنے بھی اپنے چہرے بالکل کھلے رکھیں ۔ حدیث میں ممانعت چہرے پر باقاعدہ نقاب ڈالنے کی ہے ، لیکن جب اجنبی مردوں کا سامنا ہو تو اپنی چادر سے یا کسی اور چیز سے ان کو آڑ کر لینی چاہیے .... سنن ابی داؤد میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے ، فرماتی ہیں کہ : “ ہم عورتیں حج میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ احرام کی حالت میں تھیں (تو احرام کی وجہ سے ہم چہروں پر نقاب نہیں ڈالتی تھیں) جب ہمارے سامنے سے مرد گزرتے تو ہم اپنی چادر سر کے اوپر سے لٹکا لیتی تھیں اور اس طرح پردہ کر لیتی تھیں ، پھر جب وہ مرد آگے بڑھ جاتے تو ہم اپنے چہرے کھول دیتی تھیں ” ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے اس بیان سے یہ بات بالکل واضح ہو گئی کہ احرام کی حالت میں عورتوں کو نقاب کے استعمال کی ممانعت ہے ، لیکن جب اجنبی مردوں کا سامنا ہو تو چادر سے یا کسی اور چیز سے ان کو آڑ کر لینی چاہئے ۔
احرام سے پہلے غسل
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے کپڑے اتارے اور غسل فرمایا احرام باندھنے کے لیے ۔ (جامع ترمذی ، مسند دارمی) تشریح اس حدیث کی بناء پر احرام سے پہلے غسل کو سنت کہا گیا ہے ، لیکن اگر کسی نے دوگانہ احرام پڑھنے کے لیے صرف وضو کر لیا تب بھی کافی ہے اور اس کا احرام صحیح ہو گا ۔
تلبیہ احرام
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلبیہ پڑھتے ہوئے سنا اس حال مین کہ آپ کے سر کے بال جمے ہوئے اور مرتب طور پر لگے ہوئے تھے (جیسا کہ غسل کے بعد سر کے بالوں کا حال ہوتا ہے) آپ اس طرح تلبیہ پڑھتے تھے : لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ ، إِنَّ الحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالمُلْكَ ، لاَ شَرِيكَ لَكَ. ” میں حاضر ہوں خدا وندا تیرے حضور حاضر ہوں ، حاضر ہوں ، تیرا کوئی شریک ساتھی نہیں ، میں تیرے حضور حاضر ہوں ، ساری حمد و ستائش کا تو ہی سزاوار ہے اور ساری نعمتیں تیری ہی ہیں ، اور ساری کائنات میں فرماں روائی بھی بس تیری ہی ہے ، ، تیرا کوئی شریک نہیں “ یہی کلمات تلبیہ آپ پڑھتے تھے ، ان پر کسی اور کلمہ کا اضافہ نہیں فرماتے تھے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح شارحین حدیث نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل ابراہیم (علیہ السلام) کے ذریعہ اپنے بندوں کو حج یعنی اپنے دربار کی حاضری کا بلاوا دلوایا تھا (جس کا ذکر قرآن مجید میں بھی ہے) تو حج کو جانے والا بندہ جب احرام باند کے یہ تلبیہ پڑھتا ہے تو گویا وہ ابراہیم علیہ السلام کی اس پکار اور اللہ تعالیٰ کے اس بلاوے کے جواب میں عرض کرتا ہے کہ خداوندا تو نے اپنے دربار کی حاضری کے لیے بلوایا تھا اور اپنے خلیل علیہ السلام سے ندا دلوائی تھی ۔ میں ھاضر ہو اور سر کے بل حاضر ہوں .... لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ.... الخ
احرام کا پہلا تلبیہ کس وقت
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ (ذو الحلیفہ کی مسجد میں دو رکعت نماز پڑھنے کے بعد) جب آپ مسجد کے پاس ہی ناقہ کی رکاب میں پاؤں رکھتے اور ناقہ آپ کو لیکر سیدھی کھڑی ہو جاتی تو اس وقت آپ احرام کا تلبیہ پڑھتے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح صحابہ کرام کی روایات اور ان کے اقوال اس بارے میں مختلف ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع مین احرام کا پہلا تلبیہ کس وقت اور کس جگہ پڑھا تھا ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان (جیسا کہ اس حدیث میں بھی مذکور ہے) یہ ہے کہ : ذو الحلیفہ کی مسجد میں دو رکعت نماز پڑھنے کے بعد آپ وہیں اپنی ناقہ پر سوار ہوئے ، اور ج ب ناقہ آپ کو لے کر سیدھی کھڑی ہوئی تو اس وقت آپ نے پہلی دفعہ احرام کا تلبیہ پڑھا اور گویا اس وقت سے آپ محرم ہوئے ، اور بعض دوسرے صحابہ کا بیان ہے کہ جب آپ ناقہ پر سوار ہو کر کچھ آگے بڑھے اور مقام “ بیداء ” پر پہنچے (جو ذو الحلیفہ کے بالکل قریب کسی قدر بلند میدان سا تھا) تو اس وقت آپ نے پہلا تلبیہ کہا ۔ اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب آپ نے مسجد ذو الحلیفہ میں دو گانہ احرام پڑھا تو اسی وقت ناقہ پر سوار ہونے سے پہلے آپ نے پہلا تلبیہ پڑھا .... سنن ابی داؤد اور مستدرک حاکم وغیرہ میں مشہور جلیل القدر تابعی حضرت سعید بن جبیر کا ایک بیان مروی ہے کہ میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے صحابہ کرام کے اختلاف کے بارے میں دریافت کیا تھا تو انہوں نے بتایا کہ : “ اصل واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد ذو الحلیفہ میں دو گانہ احرام پڑھنے کے بعد متصلاً پہلا تلبیہ پڑھا تھا ، لیکن اس کا علم صرف ان چند لوگوں کو ہوا جو اس قت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب وہاں موجود تھے اس کے جب آپ وہیں ناقہ پر سوار ہوئے اور ناقہ سیدھی کھڑی ہوئی تو اس وقت پھر آپ نے تلبیہ پڑھا اور ناقہ پر سوار ہونے کے بعد یہ آپ کا پہلا تلبیہ تھا تو جن لوگوں نے یہ تلبیہ آپ سے سنا اور پہلا نہیں سنا تھا ، انہوں نے سمجھا کہ پہلا تلبیہ آپ نے ناقہ پر سوار ہو کر پڑھا ۔ پھر جب ناقہ چل دی اور مقام بیداء پر پہنچی تو آپ نے تلبیہ پڑھا ، تو جن لوگوں نے پہلا اور دوسرا تلبیہ آپ سے نہیں سنا تھا انہوں نے سمجھا کہ آپ نے پہلا تلبیہ اس وقت پڑھا جب آپ بیداء پر پہنچے ” ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے اس بیان سے اصل حقیقت پوری طرح واضح ہو جاتی ہے ۔
تلبیہ بلند آواز سے پڑھا جائے
خلاد بن سائب تابعی اپنے والد سائب بن خلاد انصاری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : میرے پاس جبرئیل آئے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے حکم پہنچایا کہ میں اپنے ساتھیوں کو حکم دوں کہ تلبیہ بلند آواز سے پڑھیں ۔ (موطا امام مالک ، جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ ، مسند دارمی)
تلبیہ بلند آواز سے پڑھا جائے
حضرت سہل بن سعد سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ کا مؤمن و مسلم بندہ جب حج یا عمرہ کا تلبیہ پکارتا ہے (اور کہتا ہے : لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ الخ) تو اس کے داہنی طرف اور بائیں طرف اللہ کی جو بھی مخلوق ہوتی ہے ، خواہ وہ بے جان پتھر اور درخت یا ڈھیلے ہی ہوں ، وہ بھی اس بندے کے ساتھ لبیک کہتی ہیں ، یہاں تک کہ زمین اس طرف اور اس طرف سے تمام ہو جاتی ہے ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ) تشریح یہ حقیقت واضح طور پر قرآن مجید میں بیان کی گئی ہے کہ کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور حمد کرتی ہے ، لیکن اس حمد و تسبیح کو انسان نہیں سمجھ سکتے .... بس اسی طرح سمجھنا چاہیے کہ لبیک کہنے والے صاحب ایمان بندہ کے ساتھ اس کے داہنے اور بائیں کی ہر چیز لَبَّيْكَ کہتی ہے ، لیکن ہم انسان اس لبیک کو نہیں سن سکتے ۔
تلبیہ کے بعد کی خاص دعا
عمارہ بن خزیمہ بن ثابت انصاری اپنے والد سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تلبیہ سے فارغ ہوتے (یعنی تلبیہ پڑھ کر محرم ہوتے) تو اللہ تعالیٰ سے اس کی رضا اور جنت کی دعا کرتے اور اس کی رحمت سے دوزخ سے خلاصی اور پناہ مانگتے ۔ (مسند شافعی) تشریح اس حدیث کی بناء پر علماء نے تلبیہ کے بعد ایسی دعا کو افضل اور مسنون کہا ہے جس میں اللہ تعالیٰ سے اس کی رضا اور جنت کا سوال کیا جائے اور دوزخ کے عذاب سے پناہ مانگی جائے ..... ظاہر ہے کہ مومن بندہ کی سب سے بڑی حاجت اور اس کا سب سے اہم مقصد یہی ہو سکتا ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ کی رضا اور جنت نصیب ہو جائے ، اور اللہ کے غضب اور دوزخ کے عذاب سے اس کو پناہ مل جائے ، اس لیے اس موقع کی سب سے اہم اور مقدم دعا یہی ہے ، اس کے بعد اس کے علاوہ بھی جو چاہے دعا کرے ۔ اَللَّهُمَّ اِنَّا نَسْأَلُكَ رِضَاكَ وَالْجَنَّةَ وَنَعُوْذُبِكَ مِنْ غَضَبِكَ وَالنَّار.
حجۃ الوداع یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخصتی حج
جعفر بن محمد (جو سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے پرپوتے ہیں ، اور امام جعفر صادق کے لقب سے معروف ہیں) اپنے والد ماجد محمد بن علی (معروف بہ امام باقر) سے روایت کرتے ہیں کہ : ہم چند ساتھی جابر بن عبداللہ کی خدمت میں پہنچے ، انہوں نے ہم سے دریافت کیا کہ ہم کون کون ہیں ؟ (ہم میں سے ر ایک نے اپنے متعلق بتلایا) یہاں تک کہ جب میری باری آئی تو میں نے کہا کہ میں محمد بن علی بن حسین ہوں (وہ اس وقت بہت بوڑھے تھے اور نابینا ہو چکے تھے انہوں نے شفقت اور محبت سے) اپنا ہاتھ میرے سر پر رکھا ، پھر میرے کرتے کی اوپر والی گھنڈی کھولی ، اس کے نیچے والی گھنڈی کھولی ، پھر اپنا ہاتھ (کرتے کے اندر لے جا کر) میرے بیچ سینے پر رکھا ، اور میں ان دنوں بالکل جوان تھا (1) ، اور (میرے آنے پر اپنی مسرت کا اظہار کرتے ہوئے) مجھ سے فرمایا : مَرْحَبًا بِكَ ، يَا ابْنَ أَخِي (مرحبا ! میرے بھتیجے ، میرے بھائی حسین کی یادگار ! !) جو کچھ تمہیں مجھ سے پوچھنا ہے بے تکلف پوچھو ! (امام باقرؒ کہتے ہیں) کہ اس اثناء میں نماز کا وقت آ گیا ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ ایک چھوٹی سی چادر لپیٹے ہوئے تھے ، وہ اسی میں لپٹے ہوئے نماز کے لیے کھڑے ہو گئے ، اور اس کے چھوٹے ہونے کی وجہ سے حالت یہ تھی کہ جب وہ اس کو اپنے مونڈھوں پر رکھتے تو اس کے کنارے اٹھ کر ان کی طرف آ جاتے ، حالانکہ ان کی رداء (یعنی بڑی چادر) ان کے قریب ہی لٹکن پر رکھی ہوئی تھی (مگر انہوں نے اس کو اوڑھ کر نماز پڑھنا ضروری نہیں سمجھا ، بلکہ وہی چھوٹی چادر لپیٹ کر ہمیں نماز پڑھائی) نماز سے فارغ ہونے کے بعد میں نے کہا کہ : “ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج (حجۃ الوداع) کی تفصیلات بتائیے ؟ ” .... انہوں نے ہاتھ کی انگلیوں سے نو کی گنتی کا اشارہ کرتے ہوئے مجھ سے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ آ کر نو سال تک کوئی حج نہیں کیا ۔ پھر ۱۰ھ میں آپ نے اعلان کرایا کہ اس سال آپ کا ارادہ حج کرنے کا ہے ۔ یہ اطلاع پا کر لوگ بہت بڑی تعداد میں مدینہ آ گئے ۔ ہر ایک کی خواہش اور آرزو یہ تھی کہ اس مبارک سفر میں آپ کے ساتھ رہ کر آپ کی پوری پوری پیروی کرے اور آپ کے نقش قدم پر چلے ..... (حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : پھر جب روانگی کا دن آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں) یہ پورا قافلہ مدینہ سے روانہ ہو کر ذو الحلیفہ آیا ، اور اس دن یہیں قیام کیا ۔ یہاں پہنچ کر ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ اسماء بنت عمیس (جو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں ، اور وہ بھی اس قافلہ میں تھیں) ان کے یہاں بچہ پیدا ہوا (یعنی محمد بن ابی بکر) ۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ایسی حالت میں میں کیا کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ اسی حالت میں احرام کے لیے غسل کر لیں ، اور جس طرح عورتیں ایسی حالت میں کپڑے کا لنگوٹ استعمال کرتی ہیں اسی طرح استعمال کریں ، اور احرام باندھ لیں ..... پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذو الحلیفہ کی مسجد میں آخری نماز (ظہر کی) پڑھی ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ناقہ قصواء پر سوار ہوئے ، یہاں تک کہ جب ناقہ (مسجد ذو الحلیفہ سے کچھ آگے بڑھ کر) بیداء پر پہنچی (جو ذوالحلیفہ کے قریب ہی ذرا بلند اور ہموار میدان سا تھا) تو میں نے اس بلندی سے ہر طرف نگاہ دوڑائی تو آگے پیچھے دائیں بائیں حد نظر تک سوار اور پیادے آدمی ہی آدمی نظر آئے ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان میں تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل ہوتا تھا اور آپ اس کی حقیقت اور اس کا صحیح مطلب و مدعا جانتے تھے (اس لیے آپ جو کچھ بھی کرتے تھے اللہ کے حکم اور اس کی وحی کے مطابق کرتے تھے) اور ہمارا رویہ یہ تھا کہ جو کچھ آپ کو کرتے دیکھتے تھے وہی ہم بھی کرتے تھے (تو جب آپ کی ناقہ بیداء پر پہنچی) اس وقت آپ نے بلند آواز میں توحید کا یہ تلبیہ کہا : لَبَّيْكَ اللهُمَّ ، لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ ، وَالْمُلْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ. اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رفقاء صحابہ جو تلبیہ پڑھتے تھے (جس میں بعض الفاظ کا اضافہ بھی ہوتا تھا) انہوں نے اپنا وہی تلبیہ بلند آواز سے کہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے تلبیہ کی کوئی تردید اور تغلیظ نہیں کی اور خود اپنا ہی تلبیہ پڑھتے رہے (مطلب یہ ہے کہ آپ کے بعد صحابہ تلبیہ میں بعض تعظیمی اور تعبدی کلمات کا اضافہ کر کے پکارتے تھے ، اور چونکہ اس کی اجازت اور گنجائش ہے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس سے منع نہیں فرمایا ، لیکن آپ نے اپنے تلبیہ میں کوئی کمی زیادتی نہیں فرمائی) ۔ تشریح اس بارے میں علماء کے اختلاف رائے کا پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ حج کی فرضیت کا حکم کس سنہ میں آیا ، اور یہ بھی لکھا جا چکا ہے کہ راجح قول یہ ہے کہ ۸ھ میں مکہ معظمہ پر اسلامی اقتدار قائم ہو جانے کے بعد ۹ھ میں حج کی فرضیت کا حکم آیا ۔ اس سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تو حج نہیں فرمایا ، لیکن حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امیر حج بنا کر بھیجا اور ان کی امارت میں اس سال حج ادا ہوا ، اور آئندہ کے لیے چند اہم اعلانات کئے گئے جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ آئندہ کوئی مشرک اور کافر حج میں شرکت نہیں کر سکے گا اور جاہلیت کے گندے اور مشرکانہ طور طریقوں کی کسی کو اجازت نہیں ہو گی .... غالباً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس سال خود حج نہ کرنے کی خاص حکمت یہ بھی تھی کہ آپ چاہتے تھے کہ آپ کا حج ایسا مثالی حج ہو جس میں کوئی ایک آدمی بھی کفر و شرک اور جاہلیت کے طور طریقوں سے حج کو مکدر کرنے والا نہ ہو ، بلکہ از اول تا آخر بس نور ہی نور اور خیر ہی خیر ہو ، اور آپ کی دعوت ہدایت اور تعلیم و تربیت کے نتائج کا صحیح آئینہ ہو .... اس طرح گویا ۹ھ کا یہ حج جو صدیق اکبر کی امارت میں ادا ہوا اگلے سال ہونے والے آپ کے حج کا پیش خیمہ اور اس کی تیاری کے سلسلہ ہی کا ایک قدر تھا ۔ پھر اگلے سال ۱۰ھ میں جو آپ کی حیا مبارکہ کا آخری سال ہے آپ نے حج کا ارادہ فرمایا ، اور چونکہ آپ کو یہ اشارہ مل چکا تھا کہ اب دنیا میں آپ کے قیام اور کام کا وقت تھوڑا ہی باقی رہ گیا ہے اس لیے آپ نے اس ارادہ حج کی خاص اہتمام سے اطلاع اور تشہیر کرائی تا کہ زیادہ سے زیادہ مسلمان اس مبارک سفر میں آپ کے ساتھ رہ کر مناسک حج اور دین کے دوسرے مسائل و احکام سیکھ سکیں اور سفر حج کی صحبت و رفاقت کے خاص برکات حاصل کر سکیں ۔ چنانچہ دور و قریب کے ہزارہا مسلمان جن کو اس کی اطلاع ہوئی اور ان کو کوئی خاص مجبوری نہیں تھی مدینہ طیبہ آ گئے ۔ ۲۴ ذی قعدہ کو جمعہ تھا اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ میں حج اور سفر حج کے متعلق خصوصیت سے ہدایتیں دیں اور اگلے دن ۲۵ ذیقعدہ ۱۰ھ بروز شنبہ بعد نماز ظہر مدینہ طیبہ سے یہ عظیم الشان قافلہ روانہ ہوا ، اور عصر کی نماز ذو الحلیفہ جا کر پڑھی ، جہاں آپ کو پہلی منزل کرنی تھی ، اور یہیں سے احرام باندھنا تھا ، رات بھی وہیں گزاری ار اگلے دن یکشنبہ کو ظہر کی نماز کے بعد آپ نے اور کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے احرام باندھا اور مکہ معظمہ کی طرف روانہ ہو گئے اور نویں دن ۴ ذی الحجہ کو مکہ معظمہ میں داخل ہوئے .... رفقاء سفر کی تعداد میں راستہ میں بھی اضافہ ہوتا رہا ۔ اس سفر میں آپ کے ساتھ حج کرنے والوں کی تعداد کے بارے میں روایات میں بہت اختلاف ہے ۔ چالیس ہزار سے لے کر ایک لاکھ بیس ہزار اور ایک لاکھ تیس ہزار تک کے بیانات روایتوں میں موجود ہیں ۔ اس عاجز کے نزدیک یہ اختلاف ایسا ہی ہے جیسا کہ بڑے مجمعوں اور میلوں میں شرکت کرنے والوں کی تعداد کے بارے میں لوگوں کے اندازے آج بھی مختلف ہوتے ہین ، جس نے جو عدد بتایا اپنے اندازے کے مطابق بتایا ۔ باقاعدہ حساب لگا کے اور شمار کر کے کسی نے بھی نہیں بتایا ، تاہم اتنی بات بطور قدر مشترک کے تمام ہی روایات میں ہے کہ مجمع بے حد و حساب تھا ، جدھر نظر جاتی تھی آدمی ہی آدمی نظر پڑتے تھے ۔ اس حج میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر خطبے دئیے اور بالکل اس انداز سے بلکہ صاف صاف یہ آگاہی دے کے یہ خطبے دئیے ک اب میرا وقت موعود قریب ہے اور تمہیں دین کی تعلیم و تربیت مجھ سے حاصل کرنے کا موقع اس کے بعد نہیں مل سکے گا ۔ بہر حال اس پورے سفر میں آپ نے تعلیم و تلقین اور ہدایت و ارشاد کا خاص اہتمام فرمایا ۔ حجۃ الوداع کے سلسلے مین جو روایات کتب حدیث میں ہیں (جن میں سے چند یہاں بھی درج کی جا رہی ہیں) ان سے حج کے مناسک و احکام اور اس کا تفصیلی طریقہ معلوم ہونے کے علاوہ دین اور شریعت کے دوسرے بہت سے ابواب اور شعبوں کے بارے میں نہایت اہم تعلیمات اور ہدایات بھی امت کو مل جاتی ہیں ..... حقیقت یہ ہے کہ قریباًٍ ایک مہینے کے اس سفر میں دین کی تعلیم و تبلیغ اور ہدایت و ارشاد کا اتنا کام ہوا ، اور اتنے وسیع پیمانے پر ہوا کہ اس کے بغیر برسوں بھی انجام نہیں پا سکتا .... اسی سے بعض باتوفیق اکابر امت نے سمجھا ہے کہ دین اور برکات دین حاصل کرنے کا موثر ترین ذریعہ دینی سفروں کی رفاقت اور صحبت ہے ۔ اس تمہید کے بعد حجۃ الوداع کے سلسلہ میں سب سے پہلے حضرت جابر بن عبداللہ کی حدیث صحیح مسلم سے نقل کی جاتی ہے ، لیکن چونکہ یہ حدیث بہت طویل ہے اس لیے ناظرین کی سہولت فہم کے لیے اس کے ایک ایک حصہ کا ترجمہ کر کے تشریح کی جائے گی ۔
حجۃ الوداع یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخصتی حج
حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے (حجۃ الوداع کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے) بتلایا کہ اس سفر میں ہماری نیت (اصلاً) صرف حج کی تھی (مقصد سفر کی حیثیت سے) عمرہ ہمارے ذہن میں نہیں تھا ، یہاں تک کہ جب ہم سفر پورا کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیت اللہ پر پہنچ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے حجر اسود کا استلام کیا (یعنی قاعدے کے مطابق اس پر ہاتھ رکھ کر اس کو چوما ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف شروع کیا) جس میں تین چکروں میں آپ نے رمل کیا (یعنی وہ خاص چال چلے جس میں قوت اور شجاعت کا اظہار ہوتا ہے) اور باقی چار چکروں میں اپنی عادت کے مطابق چلے پھر (طواف کے سات چکر پورے کر کے) آپ مقام ابراہیمؑ کی طرف بڑھے ، اور یہ آیت تلاوت فرمائی : وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى (اور مقام ابراہیم کے پاس نماز ادا کرو) پھر اس طرح کھڑے ہو کر کہ مقام ابراہیم آپ کے اور بیت اللہ کے درمیان تھا آپ نے نماز پڑھی (یعنی دو گانہ طواف ادا کیا ۔) حدی کے راوی امام جعفر صادق بیان کرتے ہیں کہ : میرے والد ذکر کرتے تھے کہ ان دو رکعتوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ اور قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ کی قراءت کی ۔ اس کے بعد آپ پھر حجر اسود کی طرف واپس آئے اور پھر اس کا استلام (1) کیا ، پھر ایک دروازہ سے (سعی کے لیے) صفا پہاڑی کی طرف چلے گئے اور اس کے بالکل قریب پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی : إِنَّ الصَّفَا والْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللهِ (بلاشبہ صفا اور مروہ اللہ کے شعائر میں سے ہیں جن کے درمیان سعی کا حکم ہے) اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : “ میں اسی صفا سے سعی شروع کرتا ہوں جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں پہلے کیا ہے ۔ چنانچہ آپ پہلے صفا پر آئے اور اس حد تک اس کی بلندی پر چڑھے کہ بیت اللہ آپ کی نظر کے سامنے آ گیا ، اس وقت آپ قبلہ کی رخ ، رخ کر کے کھڑے ہو گئے اور اللہ کی توحید اور تکبیر اور تمجید میں مصروف ہو گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا : لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ ، أَنْجَزَ وَعْدَهُ ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ ، وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ (اللہ کے سوا کوئی عبادت اور پرستش کے لائز نہیں ، وہی تنہا معبود مالک ہے کوئی اس کا شریک ساجھی نہین ، ساری کائنات پر اسی کی فرماں روائی ہے ، اور حمد و ستائش اسی کا حق ہے ، وہ ہر چیز پر قادر ہے ، وہی تنہا مالک و معبود ہے ۔ اس نے (مکہ پر اور سارے عرب پر اقتدار بخشنے اور اپنے دین کو سربلند کرنے کا) اپنا وعدہ پورا فرمایا ، اپنے بندے کی اس نے بھرپور مدد فرمائی ، اور کفر و شرک کے لشکروں کو اس نے تنہاء اسی نے شکست دی) ..... آپ نے تین دفعہ یہ کلمات فرمائے اور ان کے درمیان دعا مانگی ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتر کر مروہ کی طرف چلے ، یہاں تک کہ جب آپ کے قدم وادی کے نشیب میں پہنچے تو آپ کچھ دوڑ کے چلے پھر جب آپ نشیب سے اوپر آ گئے تو پھر اپنی عام رفتار کے مطابق چلے ، یہاں تک کہ مروہ پہاڑی پر آ گئے اور یہاں آپ نے بالکل وہی کیا جو صفا پر کیا تھا ۔ یہاں تک کہ جب آپ آخری پھیرا پورا کر کے مروہ پر پہنچے ، آپ نے اپنے رفقاء صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مخاطب کر کے فرمایا ..... اگر پہلے سے میرے خیال میں وہ بات آ جاتی جو بعد میں آئی تو میں قربانی کے جانور مدینہ سے ساتھ نہ لاتا اور اسی طواف و سعی کو جو میں نے کیا ہے عمرہ بنا دیتا ..... تو اب میں تم لوگوں سے کہتا ہوں کہ تم میں سے جن کے ساتھ قربانی کے جانور نہیں آئے ہیں وہ اپنا احرام ختم کر دیں اور اب تک جو طواف و سعی انہوں نے کی ان کو عمرہ بنا دیں ..... آپ کا یہ ارشاد سن کر سراقہ بن مالک نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کیا یہ حکم کہ اشہر حج (حج کے مہینوں) میں عمرہ کیا جائے خاص اسی سال کے لیے ہے یا ہمیشہ کے لیے حکم ہے ..... آپ نے اپنے ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر فرمایا کہ : دَخَلَتِ الْعُمْرَةُ فِي الْحَجِّ لَا بَلْ لِأَبَدِ أَبَدٍ (عمرہ حج میں داخل ہو گیا ، خاص اسی سال کے لیے نہیں بلکہ ہمیشہ کے لیے) ۔ تشریح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مروہ کے خاتمہ پر جو یہ بات فرمائی کی “ جو لوگ قربانی کے جانور ساتھ نہیں لائے ہیں وہ اپنے طواف و سعی کو عمرہ قرار دے دیں ، اور میں بھی اگر قربانی کے جانور ساتھ نہ لایا ہوتا تو ایسا ہی کرتا ” ..... اس کا مطلب اور اس کی حقیقت سمجھنے کے لیے پہلے یہ جان لینا چاہئے کہ زمانہ جاہلیت میں حج اور عمرہ کے سلسلہ میں جو اعتقادی اور عملی غلطیاں اور رواج پر کر دلوں میں راسخ ہو چکی تھیں ان میں ایک یہ بھی تھی کہ شوال ، ذی قعدہ ، ذی الحجہ جو “ اشهر الحج ” (یعنی حج کے مہینے) کہلاتے ہیں (کیوں کہ حج کا سفر انہی مہینوں میں ہوتا ہے) ان مہینوں میں عمرہ کرنا سکٹ گناہ سمجھا جاتا تھا ، حالانکہ یہ بات بالکل غلط اور من گھڑت تھی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع سفر ہی میں وجاحت کے ساتھ لوگوں کو یہ بات بتا دی تھی کہ جس کا جی چاہے صرف حج کا احرام باندھے (جس کو اصطلاح مین افراد کہتے ہیں) اور جس کا جی چاہے شروع میں صرف عمرہ کا احرام باندھے اور مکہ معظمہ میں عمرہ سے فارغ ہونے کے بعد حج کے لیے دوسرا احرام باندھے (جس کو تمتع کہتے ہیں) اور جس کا جی چاہے حج و عمرہ دونوں کا مشترک احرام باندھے اور ایک ہی احرام سے دونوں کو ادا کرنے کی نیت کرے ۔ (جس کو قران کہتے ہیں) ..... آپ کا یہ ارشاد سننے کے بعد صحابہ کرام مین سے غالباً چند ہی نے اپنے کاص حالات سے تمتع کا رادہ کیا ، اور انہوں نے ذو الحلیفہ میں صرف عمرہ کا احرام باندھا ..... ان میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں ۔ ورنہ زیادہ تر صحابہ نے صرف حج کا یا حج و عمرہ دونوں کا مشترک احرام باندھا ۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کا احرام باندھا ، یعنی (قِران) اختیار فرمایا ۔ اس کے علاوہ اپنی قربانی کے جانور (اونٹ) بھی آپ مدینہ طیبہ ہی سے ساتھ لے کر چلے ، اور جو حاجی قربانی کے جانور ساتھ لے کر چلے وہ اس وقت تک احرام ختم نہیں کر سکتا جب تک دسویں ذی الحجہ کو قربانی نہ کر دے ۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح اپنی قربانی کے جانور ساتھ لائے تھے حج سے پہلے (یعنی ۱۰ ذی الحجہ کو قربانی کرنے سے پہلے) احرام سے باہر نہیں آ سکتے تھے ، لیکن جو لوگ قربانی کے جانور ساتھ نہیں لائے تھے ان کے واسطے یہ شرعی مجبوری نہیں تھی ۔ مکہ معظمہ پہنچ کر آپ کو اس کا حساس زیادہ ہوا کہ یہ جو جاہلانہ بات لوگوں کے دلوں میں بیٹھی ہوئی ہے کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا سخت گناہ ہے اس کی تردید اور بیخ کنی کے لیے اور دماغوں سے اس کے جراثیم ختم کرنے اور دلوں سے اس کے اثرات کو دھونے کے لیے ضروری ہے کہ وسیع پیمانے پر ان کے خلاف عمل کر کے دکھایا جائے ، اور اس کی ممکن صورت یہی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں سے زیادہ سے زیادہ لوگ جو آپ کے ساتھ طواف اور سعی کر چکے تھے ، اس طواف اور سعی کو عمرہ قرار دے کے احرام ختم کر دیں اور حلال ہو جائین اور حج کے لیے اس کے وقت پر دوسرا احرام باندھیں ، اور خود آپ چونکہ قربانی کے جانور ساتھ لے کے آئے تھے اس لیے آپ کے لیے اس کی گنجائش نہیں تھی ، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : “ اگر شروع میں مجھے اس بات کا احساس ہو جاتا جس کا احساس بعد میں ہوا تو میں اپنے ساتھ قربانی کے جانور نہ لاتا ، اور جو طواف و سعی میں نے کی ہے اس کو مستقل عمرہ قرار دے کر یہ احرام ختم کر دیتا (لیکن میں تو قربانی کے جانور لانے کی وجہ سے ایسا کرنے سے مجبور ہوں ، اس لیے آپ لوگوں سے کہتا ہوں کہ) آپ میں سے جو لوگ قربانی کے جانور ساتھ نہیں لائے ہیں وہ اپنے اس طواف و سعی کو مستقل عمرہ قرار دے دیں اور اپنا احرام ختم کر کے حلال ہو جائیں ” .... آپ کا یہ ارشاد سن کر سراقہ (1) بن مالک کھڑے ہو گئے ، چونکہ وہ اب تک یہی جانتے تھے کہ حج کے مہینوں میں مستقل عمرہ کرنا سخت گناہ کی بات ہے ، اس لیے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ : ان دنوں میں مستقل عمرہ کرنے کا یہ حکم کیا صرف اسی سال کے لیے ہے ، یا اب ہمیشہ کے لیے مسئلہ یہی ہے کہ اشہر حج میں مستقل عمرہ کیا جا سکتا ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اچھی طرح سمجھانے اور ان کو ذہن نشین کرنے کے لیے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں مین ڈال کر فرمایا : دَخَلَتِ الْعُمْرَةُ فِي الْحَجِّ (حج میں عمرہ اس طرح داخل ہو گیا) یعنی حج کے مہینوں میں اور ایام حج کے بالکل قریب بھی عمرہ کیا جا سکتا ہے ، اور اس کو گناہ سمجھنے والی بات بالکل غلط ارو جاہلانہ ہے ، اور یہ حکم ہمیشہ کے لیے ہے ۔
حجۃ الوداع یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخصتی حج
حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ (جو زکوٰۃ اور دوسرے مطالبات کی وصولی وغیرہ کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے یمن گئے ہوئے تھے) وہاں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی کے لیے مزید جانور لے کر مکہ معظمہ پہنچے ، انہوں نے اپنی بیوی فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ وہ احرام ختم کر کے حلال ہو چکی ہیں ، اور رنگین کپڑے پہنے ہوئے ہیں اور سرمہ بھی استعمال کیا ہے ، تو انہوں نے ان کے اس رویہ کو بہت غلط سمجھا اور ناگواری کا اظہار کیا (اور ابو داؤد کی روایت میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ : تم کو کس نے یہ کہا تھا کہ تم احرام ختم کرکے حلال ہو جاؤ) حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہ کہ : مجھے ابا جان (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) نے یہ حکم دیا تھا (میں نے اس کی تعمیل میں ایسا کیا ہے) ..... پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ : جب تم نے حج کی نیت کی اور تلبیہ کہہ کے احرام باندھا تو اس وقت تم نے کیا کہا تھا ؟ (یعنی افراد کے طریقے پر صرف حج کی نیت کی تھی یا تمتع کے طریقے پر صرف عمرہ کی یا قِران کے طریقے پر دونوں کی ساتھ ساتھ نیت کی تھی ؟) انہوں نے عرض کیا کہ : میں نے نیت اس طرح کی تھی کہ : اللهُمَّ ، إِنِّي أُهِلُّ بِمَا أَهَلَّ بِهِ رَسُولُكَ (سے اللہ ! میں احرام باندھتا ہوں اس چیز کا جس کا احرام باندھا ہو تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے) ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : میں چونکہ قربانی کے جانور ساتھ لایا ہوں (اور اس کی وجہ سے اب حج سے پہلے احرام ختم کرنے کی میرے لیے گنجائش نہیں ہے ، اور تم نے میرے جیسے احرام کی نیت کی ہے) اس لیے تم بھی میری طرح احرام ہی کی حالت میں رہو ...... آگے حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ قربانی کے جو جانور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ لے کے آئے تھے اور جو بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن سے لے کر آئے ان کی مجموعی تعداد سو تھی (بعض روایات سے تفصیل یہ معلوم ہوتی ہے کہ ۶۳ اونٹ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آئے تھے اور ۳۷ حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن سے لائے تھے) حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے آگے بیان کیا ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق تمام ان صحابہ نے احرام ختم کر دیا جو قربانی کے جانور ساتھ نہیں لائے تھے اور صفا مروہ کی سعی سے فارغ ہونے کے بعد اپنے سروں کے بال ترشوا کر وہ سب حلال ہو گئے اور جو طواف و سعی انہوں نے کی تھی اس کو مستقل عمرہ قرار دے دیا ۔ بس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور وہ صحابہؓ حالت احرام مین رہے جو اپنی قربانیاں ساتھ لائے تھے ۔ تشریح جن صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ کی ہدایت اور حکم کے مطابق اپنا احرام ختم کیا انہوں نے اس موقع پر بال منڈوائے نہیں بلکہ صرف ترشوائے ، ایسا انہوں نے غالباً اس لیے کیا کہ منڈوانے کی فضیلت حج کے احرام کے خاتمہ پر حاصل کر سکیں ۔ واللہ اعلم ۔
حجۃ الوداع یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخصتی حج
پھر جب یوم الترویہ (یعنی ۸ ذی الحجہ کا دن) ہوا تو سب لوگ منیٰ جانے لگے (اور صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے صفا مروہ کی سعی کر کے اپنا احرام ختم کر چکے اور حلال ہو گئے تھے) انہوں نے حج کا احرام باندھا ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ناقہ پر سوار ہو کر منیٰ کو چلے ، پھر وہاں پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مسجد خیف میں) ظہر ، عصر ، مغرب ، عشاء اور فجر پانچوں نمازیں پڑھیں ، پھر فجر کی نماز کے بعد تھوڑی دیر آپ منیٰ میں اور ٹھہرے ، یہاں تک کہ جب سورج نکل آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات کی طرف روانہ ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ صوف کا بنا ہوا خیمہ آپ کے لیے نمرہ میں نصب کیا جائے ۔ نمرہ دراصل وہ جگہ ہے جہاں سے آگے عرفات کا میدان شروع ہوتا ہے) آپ کے خاندان قریش کے لوگوں کو اس کا یقین تھا اور اس کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں تھا کہ آپ “ مشعر احرام ” کے پاس قیام کریں گے ، جیسا کہ قریش زمانہ جاہلیت میں کیا کرتے تھے (لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا بلکہ) آپ مشعر حرام کے حدود سے آگے بڑھ کر عرفہ پہنچ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ (آپ کی ہدایت کے مطابق) نمرہ میں آپ کا خیمہ نصب کر دیا گیا ہے تو آپ اس خیمہ میں اتر گئے ۔ تشریح حج کی خاص نقل و حرکت کا سلسلہ ۸ ذی الحجہ سے شرع ہوتا ہے جس کو “ یوم الترویہ ” کہا جاتا ہے ۔ اس دن صبح کو حجاج منیٰ کے لیے روانہ ہوتے ہیں ، افراد یا قران کے طریقے پر حج کرنے والے تو پہلے سے احرام کی حالت میں ہوتے ہیں ، ان کے علاوہ اور حجاج اسی دن یعنی ۸ ذی الحجہ کو احرام باندھ کر منیٰ کو جاتے ہیں اور نویں کی صبح تک وہیں قیام کرتے ہیں ..... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے استھ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم جو اپنی قربانیاں اپنے ساتھ لائے تھے وہ تو احرام کی حالت میں تھے باقی صحابہ جنہوں نے عمرہ کر کے احرام ختم کر دیا تھا ان سب نے آٹھویں کی صبح کو حج کا احرم باندھا اور حج کا قافلہ منیٰ کو روانہ ہو گیا ، اور اس دن وہیں قیام کیا ، اور پھر نویں کی صبح کو سورج نکلنے کے بعد عرفات کے روانگی ہوئی ۔ عرفات منیٰ سے قریباً ۶ میل اور مکہ سے قریباً ۹ میل ہے ، اور یہ حدود حرم سے باہر ہے ، بلکہ اس جانب میں حرم کی سرحد جہاں ختم ہوتی ہے وہیں سے عرفات کا علاقہ شروع ہوتا ہے ..... عرب کے عام قبائل جو حج کے لیے آتے تھے وہ سب نویں ذی الحجہ کو حدود حرم سے باہر نکل کے عرفات میں وقوف کرتے تھے ، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان والے یعنی قریش جو اپنے کو کعبہ کا مجاور و متولی اور “ اہل حرم اللہ ” کہتے تھے وہ وقوف کے لیے بھی حدود حرم سے باہر نہیں نکلتے تھے ، بلکہ اس کی حد کے اندر ہی مزدلفہ کے علاقہ میں مشعر حرام پہاڑی کے پاس وقوف کرتے تھے اور اس کو اپنا امتیاز سمجھتے تھے ۔ اپنے اس پرانے خاندانی دستور کی بنناء پر قریش کو یقین تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مشعر حرام کے پاس ہی وقوف کریں گے ، لیکن چونکہ ان کا یہ طریقہ غلط تھا اور وقوف کی صحیح جگہ عرفات ہی ہے ، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منیٰ سے چلتے وقت ہی اپنے لوگوں کو ہدایت فرما دی تھی کہ : آپ کے قیام کے لیے خیمہ نمزہ (1) میں نصب کیا جائے ۔ چنانچہ اس ہدایت کے مطابق وادی نمرہ ہی میں آپ کے لیے خیمہ نصب کیا گیا ، اور آپ وہیں جا کر اترے ، اور اس خیمہ میں قیام فرمایا :
حجۃ الوداع یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخصتی حج
یہاں تک کہ جب آفتاب ڈھل گیا تو آپ نے اپنی ناقہ قصواء پر کجاوا کسنے کا حکم دیا ، چنانچہ اس پر کجاوا کس دیا گیا ، آپ اس پر سوار ہو کر وادی (وادی عرنہ) کے درمیان آئے ، اور آپ نے اونٹنی کی پشت پر ہی سے لوگوں کو خطبہ دیا جس میں فرمایا : “ لوگوں ! تمہارے خون اور تمہارا مال تم پر حرام ہیں (یعنی ناحق کسی کا خون کرنا اور ناجائز طریقے پر کسی کا مال لینا تمہارے لیے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حرام ہے) بالکل اسی طرح جس طرح کہ آج یوم العرفہ کے دن ذی الحجہ کے اس مبارک مہینہ میں ، اپنے اس مقدس شہر میں (تم ناحق کسی کا خون کرنا اور کسی کا مال لینا حرام جانتے ہو) ..... کوب ذہن نشین کر لو کہ جاہلیت کی ساری چیزیں (یعنی اسلام کی روشنی کے دور سے پہلے تاریکی اور گمراہی کے زمانہ کی ساری باتیں اور سارے قصے ختم ہیں) میرے دونوں دقدموں کے نیچے دفن اور پامال ہیں (میں اس کے خاتمہ اور منسوخی کا اعلان کرتا ہوں) اور زمانہ جاہلیت کے خون بھی ختم ہیں معاف ہیں (یعنی اب کوئی مسلمان زمانہ جاہلیت کے کسی خون کا بدلہ نہیں لے گا) ، اور سب سے پہلے میں اپنے گھرانے کے ایک خون ربیعہ ابن الحارث بن عبدالمطلب کے فرزند کے خون کے ختم اور معاف کئے جانے کا اعلان کرتا ہوں جو قبیلہ بنی سعد کے ایک گھر میں دودھ پینے کے لیے رہتے تھے اور ان کو قبیلہ ہذیل کے آدمیوں نے قتل کر دیا تھا ۔ (1) (ہذیل سے اس خون کا بدلہ لینا ابھی بھی باقی تھا لیکن اب میں اپنے خاندان کی طرف سے اعلان کرتا ہوں کہ اب یہ قصہ ختم ، بدلہ نہیں لیا جائے گا) اور زمانہ جاہلیت کے سارے سودی مطالبات (جو کسی کے کسی کے ذمہ باقی ہیں وہ سب بھی) ختم اور سوخت ہیں (اب کوئی مسلمان کسی سے اپنا سودی مطالبہ وصول نہیں کرے گا) اور اس باب میں بھی سب سے پہلے اپنے خاندان کے سودی مطالبات میں سے اپنے چچا عباس بن عبدالمطلب کے سودی مطالبات کے ختم اور سوخت ہونے کا اعلان کرتا ہوں (اب وہ کسی سے اپنا سودی مطالبہ وصول نہیں کریں گے) ان کے سارے سودی مطالبات آج ختم کر دئیے گئے ..... اور اے لوگو ! عورتوں کے حقوق اور ان کے ساتھ برتاؤ کے بارے میں خدا سے ڈرو ، اس لئے کہ تم نے ان کو اللہ کی امانت کے طور پر لیا ہے اور اللہ کے حکم اور اس کے قانون سے اس کے ساتھ تمتع تمہارے لئے حلال ہوا ہے ، اور تمہارا خاص حق ان پر یہ ہے کہ جس آدمی کا گھر میں آنا اور تمہاری جگہ تمہارے بستر پر بیٹھنا تم کو پسند نہ ہو وہ ا س کو اس کا موقع نہ دیں ..... لیکن اگر وہ یہ غلطی کریں تو تم (تنبیہ اور آئندہ سد باب کے لیے اگر کچھ سزا دینا مناسب اور مفید سمجھو) ان کو کوئی خفیف سی سزا دے سکتے ہو .... اور ان کا خاص حق تم پر یہ ہے کہ اپنے مقدور اور حیثیت کے مطابق ان کے کھانے پینے کا بندوبست کرو ..... اور میں تمہارے لیے وہ سامان ہدایت چھوڑ رہا ہوں کہ اگر تم اس سے وابستہ رہے اور اس کی پیروی کرتے رہے تو پھر کبھی تم گمراہ نہ ہو ..... وہ ہے “ کتاب اللہ ” .... اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم سے میرے متعلق پوچھا جائے گا (کہ میں نے تم کو اللہ کی ہدایت اور اس کے احکام پہنچائے یا نہیں) ۔ تو بتاؤ ! کہ وہاں تم کیا کہو گے اور کیا جواب دو گے ؟ ..... حاضرین نے عرض کیا کہ ہم گواہی دیتے ہیں اور قیامت کے دن بھی گواہی دیں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا پیغام اور اس کے احکام ہم کو پہنچا دئیے اور رہنمائی اور تبلیغ کا حق ادا کر دیا اور نصیحت و خیر خواہی میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا .... اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگشت شہادت آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے اور لوگوں کے مجمع کی طرف اس سے اشارہ کرتے ہوئے تین دفعہ فرمایا : اللهُمَّ ، اشْهَدْ ، اللهُمَّ ، اشْهَدْ اللهُمَّ ، اشْهَدْ ! ! ! یعنی اے اللہ ! تو گواہ رہ ، کہ میں نے تیرا پیام اور تیرے احکام تیرے بندوں تک پہنچا دئیے اور تیرے بندے اقرار کر رہے ہیں ..... اس کے بعد (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے) حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی ، پھر اقامت کہی ، اور ظہر کی نماز پڑھائی ، اس کے بعد پھر بلال رضی اللہ عنہ نے اقامت کہی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھائی ۔ تشریح یہ معلوم ہے کہ اس دن (یعنی اس سال وقوف عرفہ کے دن) جمعہ تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زوال آفتاب کے بعد پہلے مندرجہ بالا خطبہ دیا ، اس کے بعد ظہر اور عصر کی دونوں نمازیں (ظہر ہی کے وقت میں) ساتھ ساتھ بلا فصل پڑھیں ۔ حدیث میں صاف ظہر کا ذکر ہے ، جس سے ظاہر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن جمعہ کی نماز نہیں پڑھی ، بلکہ اس کے بجائے ظہر پڑھی اور جو خطبہ آپ نے دیا وہ جمعہ کا خطبہ نہیں تھا بلکہ یوم العرفات کا خطبہ تھا ..... جمعہ نہ پڑھنے کی وجہ غالباً یہ تھی کہ عرفات کوئی آبادی اور بستی نہیں ہے ، بلکہ ایک وادی اور صحرا ہے ، اور جمعہ بستیوں اور آبادیوں میں پڑھا جاتا ہے ۔ واللہ اعلم ۔ یوم العرفہ کے اس خطبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ہدایات دیں اس وقت اور اس مجمع میں انہی چیزوں کا اعلان اور تبلیغ و تلقین ضروری اور اہم تھی .... خطبہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر و عصر ایک ساتھ ظہر ہی کے وقت ادا فرمائیں اور درمیان میں سنت یا نفل کی دو رکعتیں بھی نہیں پڑھیں .... امت کا اس پر اتفاق ہے کہ وقوف عرفات کے دن یہ دونوں نمازیں اسی طرح پڑھی جائیں گی ، اور اسی طرح مغرب و عشاء اس دن مزدلفہ پہنچ کر عشاء کے وقت میں ایک ساتھ پڑھی جائیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا تھا جیسا کہ آگے معلوم ہو گا ..... اس دن ان نمازوں کا صحیح طریقہ اور ان کے صحیح اوقات یہی ہیں ..... اس کی ایک حکمت تو یہی ہو سکتی ہے کہ اس دن کا یہ امتیاز ہر خاص و عام کو معلوم ہو جائے کہ آج کے دن کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نمازوں کے اوقات میں بھی تبدیلی کر دی گئی ہے .... اور دوسری حکمت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس دن کا اصل وظیفہ جو ذکر اور دعا ہے اس کے لیے پوری یکسوئی کے ساتھ بندہ فارغ رہے ، اور ظہر سے مغرب تک بلکہ عشاء تک نماز کی بھی فکر نہ ہو ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم العرفات کے اس خطبہ میں جو اپنے موقع اور محل کے لحاظ سے آپ کی حیات طیبہ کا سب سے اہم خطبہ کہا جا سکتا ہے ۔ سب سے آخری بات اپنی وفات ار جدائی کے قرب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ فرمائی کہ : “ میں تمہارے لیے ہدایت و روشنی کا وہ کامل و مکمل سامان چھوڑ کر جاؤں گا جس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہو سکو گے بشرطیکہ تم اس سے وابستہ رہے اور اس کی روشنی میں چلتے رہے ، اور وہ اللہ کی مقدس کتاب قرآ ن مجید ” ..... اس سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ مرض وفات کے آخری دنوں میں جب کہ شدت مرض کی وجہ سے آپ کو سخت تکلیف تھی آپ نے بطور وصیت کے ایک تحریر لکھانے کا جو خیال ظاہر کیا تھا جس کے بارے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ : “ تم اس کے بعد گمراہ نہ ہو گے ” ۔ اس میں آپ کیا لکھانا چاہتے تھے ۔ حجۃ الوداع کے اس اہم خطبہ سے صاف ظاہر ہے کہ آپ کتاب اللہ سے وابستگی اور اس کی پیروی کی وصیت لکھانا چاہتے تھے ۔ آپ اس اہم خطبہ میں بھی بتا چکے تھے یہ شان کتا اللہ کی ہے ، اور چونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس حقیقت سے آشنا تھے اور اللہ نے موقع پر بات کہنے کی جبرؤت بھی دی تھی اس لیے انہوں نے اس موقع پر یہ رائے ظاہر کی کہ آپ کی مسلسل تعلیم و تربیت سے ہمیں معلوم ہو چکا ہے کہ یہ حیثیت کتاب اللہ کی ہے اس لیے اس سخت تکلیف کی حالت میں وصیت لکھنے لکھانے کی زحمت کیوں فرمائی جائے ، ہمیں آپ کا پڑھایا ہواسبق یاد ہے اور یاد رہے گا ۔ حسبنا كتاب الله.
حجۃ الوداع یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخصتی حج
پھر (جب آپ ظہر و عصر کی نماز ایک ساتھ بلا فصل پڑھ چکے تو اپنی ناقہ پر سوار ہو کر آپ میدان عرفات مین خاص وقوف کی جگہ پر تشریف لائے اور اپنی ناقہ قصواء کا رخ آپ نے اس طرف کر دیا جدھر پتھر کی بڑی بڑی چٹانیں ہیں اور پیدل مجمع آپ نے اپنے سامنے کر لیا اور آپ قبلہ رو ہو گئے اور وہیں کھڑے رہے یہاں تک کہ غروب آفتاب کا وقت آ گیا ، اور (شام کے آخری وقت میں فصا جو زرد ہوتی ہے وہ) زردی بھی ختم ہو گئی ، اور آفتاب بالکل ڈودب گیا ، تو آپ (عرفات سے مزدلفہ کے لیے) روزنہ ہوئے ، اور اسامہ بن زید کو آپ نے اپنی ناقہ پر اپنے پیچھے سوار کر لیا تھا یہاں تک کہ آپ مزدلفہ آ گئے (جو عرفات سے قریباً تین میل ہے) یہاں پہنچ کر آپ نے مغرب اور عشاء کی نمازیں ایک ساتھ پڑھیں ، اور ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ (یعنی اذان ایک ہی دفعہ کہی گئی اور اقامت مغرب کے لیے الگ کہی گئی اور عشاء کے لیے الگ کہی گئی) اور ان دونوں نمازوں کے درمیان بھی آپ نے سنت یا نفل کی رکعتیں بالکل نہیں پڑھیں ، اس کے بعد آپ لیٹ گئے ، اور لیٹے رہے ، یہاں تک کہ صبح صادق ہو گئی اور فجر کا وقت آ گیا ، تو آپ نے صبح صادق کے ظاہر ہوتے ہی اذان اور اقامت کے ساتھ نماز فجر ادا کی ، اس کے بعد آپ مشعر حرام کے پاس آئے (راجح قول کے مطابق یہ ایک بلند ٹیلہ سا تھا مزدلفہ کے حدود میں ، اب بھی یہی صورت ہے اور وہاں نشانی کے طور پر ایک عمارت بنا دی گئی ہے) یہاں آ کر آپ قبلہ رو کھڑے ہوئے اور دعا اور اللہ کی تکبیر و تہلیل اور توحید و تمجید میں مشغول رہے ، یہاں تک کہ خوب اجالا ہو گیا ۔ پھر طلوع آفتاب سے ذرا پہلے آپ وہاں سے منیٰ کے لیے روانہ ہو گئے اور اس وقت آپ نے اپنی ناقہ کے پیچھے فضل بن عباس کو سوار کر لیا اور چل دئیے ، یہاں تک کہ جب وادی محسر کے درمیان پہنچے تو آپ نے اونٹنی کی رفتار کچھ تیز کر دی ، پھر اس سے نکل کر اس درمیان والے راستہ سے چلے جو بڑے جمرہ پر پہنچتا ہے ، پھر اس جمرہ کے پاس پہنچ کر جو درخت کے پاس ہے آپ نے اس پر رمی کی ، سات سنگ ریزے اس پر پھینک کر مارے جن مین سے ہر ایک کے ساتھ آپ تکبیر کہتے تھے ، یہ سنگ ریزے “ خذف کے سنگریزوں ” کی طرح کے تھے (یعنی چھوٹے چھوٹے تھے جیسے کہ انگلیوں میں رکھ کر پھینکے جاتے ہین جو قریباً چنے اور مٹر کے دانے کے برابر ہوتے ہیں) آپ نے جمرہ پر یہ سنگ ریزے (جمرہ کے قریب والی) نشیبی جگہ سے پھینک کر مارے ، اور اس رمی سے فارغ ہو کر قربان گاہ کی طرف تشریف لے گئے ، وہاں آپ نے تریسٹھ (۶۳) اونٹوں کی قربانی اپنے ہاتھ سے کی ، پھر جو باقی رہے وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حوالہ فرما دئیے ۔ ان سب کی قربانی انہوں نے کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنی قربانی میں شریک فرمایا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ قربانی کے ہر اونٹ میں سے گوشت کا ایک پارچہ لے لیا جائے ، یہ سارے پارچے ایک دیگ مین ڈال کر پکائے گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی رضی اللہ عنہ دونوں نے اس میں سے گوشت کھایا اور شوربا پیا ۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی رضی اللہ عنہ دونوں نے اس میں سے گوشت کھایا اور شوربا پیا ۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ناقہ پر سوار ہو کر طواف زیارت کے لیے بیت اللہ کی طرف چل دئیے اور ظہر کی نماز آپ نے مکہ میں جا کر پڑھی ، نماز سے فارغ ہو کے (اپنے اہل خاندان) بنی عبدالمطلب کے پاس آئے جو زمزم سے پانی کھینچ کھینچ کر لوگوں کو پلا رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ : اگر یہ خطرہ نہ ہوتا کہ دوسرے لوگ غالب آ کر تم سے یہ خدمت چھین لیں گے تو میں بھی تمہارے ساتھ ڈول کھینچتا ۔ ان لوگوں نے آپ کو بھر کے ایک ڈول زمزم کا دیا تو آپ نے اس میں سے نوش فرمایا ۔ (صحیح مسلم) تشریح حج کے سلسلہ کا سب سے بڑا عمل اور رکن اعظم “ وقوف عرفہ ” ہے یعنی ۹ ذی الحجہ کو بعد زوال ظہر و عصر کی نماز پڑھ کر میدان عرفات میں اللہ کے حضور میں کھڑے ہونا ۔ اس حدیث سے معلوم ہو گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ وقوف کتنا طویل فرمایا تھا .... ظہر و عصر کی نماز آپ نے ظہر کے شروع وقت ہی میں پڑھ لی تھی اور اس وقت سے لے کر غروب آفتاب تک آپ نے وقوف فرمایا اور اس کے بعد سیدھے مزدلفہ چل دئیے اور مغرب و عشاء آپ نے وہاں پہنچ کر ایک ساتھ ادا فرمائیں اور جیسا کہ گرز چکا یہی اس دن کے لیے اللہ تعالیٰ کا حکم ہے ۔ مزدلفہ کی اس رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء سے فارغ ہو کر فجر تک آرام فرمایا ، اور اس رات تہجد یکسر ناغہ کیا ، دو رکعتیں بھی نہیں پڑھیں (حالانکہ تہجد آپ سفر میں بھی ناغہ نہیں کرتے تھے) اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ نویں کے پورے دن آپ سخت مشغول رہے تھے ۔ صبح کو منیٰ سے چل کر عرفات پہنچے ، جہاں پہلے خطبہ دیا ، پھر ظہر و عصر کی نماز پڑھی اور اس کے بعد وسے مغرب تک مسلسل وقوف فرمایا ، پھر اسی وقت عرفات سے مزدلفہ تک کی مسافت طے کی ، گویا فجر سے لے کر عشاء تک مسلسل حرکت اور مشقت ، اور اگلے دن ۱۰ ذی الحجہ کو بھی اسی طرح مشغول رہنا تھا ، یعنی صبح کو مزدلفہ سے چل کر منیٰ پہنچنا ، وہاں جا کر پہلے رمی کرنا ، اس کے بعد صرف ایک یا دو یا دس بیس نہیں بلکہ ساٹھ سے بھی اوپر اونٹوں کی قربانی اپنے ہاتھ سے کرنا ، اس کے بعد طواف زیارت کے لیے منیٰ سے مکہ جانا اور وہاں سے پھر منیٰ واپس آنا ۔ بہر حال نویں اور دسویں ذی الحجہ کا پروگرام چونکہ اس قدر بھرا ہوا اور پر مشقت تھا ، اس لیے ان دونوں کی مزدلفہ والی درمیانی رات میں پوری طرح آرام فرمانا ضروری تھا ۔ جسم اور جسمانی قوتوں کے لیے بھی کچھ حقوق ہین اور ان کی رعایت خاص کر ایسے مجمعوں میں ضروری ہے ، تا کہ سہولت اور رعایت کا پہلو بھی عوام کے علم میں آئے اور وہ شریعت کے صحیح اور معتدل مزاج کو سمجھ سکیں ۔ واللہ اعلم ۔ اس حدیث میں صراحۃً مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تریسٹھ (۶۳) اونٹ اپنے ہاتھ سے قربان کئے ۔ یہ غالباً وہی تریسٹھ (۶۳) اونٹ تھے جو آپ مدینہ طیبہ سے اپنے ساتھ قربانی کے لیے لائے تھے ، باقی سینتیس اونٹ جو حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن سے لائے تھے وہ آپ نے انہی کے ہاتھ سے قربان کرائے ، تریسٹھ کے عدد کی یہ حکمت بالکل کھلی ہوئی ہے کہ آپ کی عمر تریسٹھ سال تھی ، گویا زندگی کے ہر سال کے شکر میں آپ نے ایک اونٹ قربان کیا ۔ واللہ اعلم ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے اپنی قربانی کے اونٹوں کا گوشت پکوا کے کھایا ، اور شوربا پیا ، اس سے یہ بات سب کو معلوم ہو گئی کہ قربانی کرنے والا اپنی قربانی کا گوشت خود بھی کھا سکتا ہے اور اپنے اعزہ کو بھی کھلا سکتا ہے ۔ ۱۰ ذی الحجہ کو قربانی سے فارغ ہونے کے بعد آپ طواف زیارت کے لیے مکہ معظمہ تشریف لے گئے ۔ مسنون اور بہتر یہی ہے کہ طواف زیارت قربانی سے فارغ ہونے کے بعد ۱۰ ذی الحجہ ہی کو کر لیا جائے ، اگرچہ تاخیر کی بھی اس میں گنجائش ہے ۔ زمزم کا پانی کھینچ کھینچ کر حجاج کو پلانا یہ خدمت اور سعادت زمانہ قدیم سے آپ کے گھرانے بنی عبدالمطلب ہے کے حصے میں تھی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طواف زیارت سے فارغ ہونے کے بعد زمزم پر تشریف لائے ، وہاں آپ کے اہل خاندان ڈول کھینچ کھینچ کر لوگوں کو اس کا پانی پلا رہے تھے ۔ آپ کا بھی جی چاہا کہ اس خدمت میں کچھ حصہ لیں ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بالکل صحیح سوچا کہ جب آپ ایسا کریں گے تو آپ کے اتباع اور تقلید میں آپ کے سارے رفقاء بھی اس سعادت میں حصہ لینا چاہیں گے ک ، اور پھر بنی عبدالمطلب جن کا یہ قدیمی حق ہے وہ محروم ہو جائیں گے ، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل خاندان کی دلداری اور اظہار تعلق کے لیے اپنی دلی خواہش کا اظہار تو فرما دیا ، مگر ساتھ ہی وہ مصلحت بھی بیان فرما دی جس کی وجہ سے آپ نے اپنی اس دلی خواہش کے قربان کر دینے کا فیصلہ کیا تھا ۔ جیسا کہ شروع میں ذکر کیا گیا تھا ، حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث حجۃ الوداع کے بیان میں سب سے طویل اور مفصل حدیث ہے ، لیکن پھر بھی بہت سے واقعات کا ذکر اس سے چھوٹ گیا ہے ، یہاں تک کہ حلق اور دسویں تاریخ کے خطبہ کا بھی اس میں ذکر نہیں آیا ہے جو دوسری حدیثوں میں مذکور ہے ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کے بعد راویوں نے اسی حدیث میں یہ اضافہ بھی نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی اعلان فرمایا کہ : نَحَرْتُ هَاهُنَا ، وَمِنًى كُلُّهَا مَنْحَرٌ ، فَانْحَرُوا فِي رِحَالِكُمْ ، وَوَقَفْتُ هَاهُنَا ، وَعَرَفَةُ كُلُّهَا مَوْقِفٌ ، وَوَقَفْتُ هَاهُنَا ، وَجَمْعٌ كُلُّهَا مَوْقِفٌ (رواه مسلم) میں نے قربانی اس جگہ کی ہے لیکن منیٰ کا سارا علاقہ قربانی کی جگہ ہے اس لیے تم سب لوگ اپنی اپنی جگہ قربانی کر سکتے ہو ، اور میں نے عرفات میں وقوف (پتھر کی بڑی بڑی چٹانوں کے قریب کیا ہے) اور سارا عرفات وقوف کی جگہ ہے (اس کے جس حصہ میں بھی وقوف کیا جائے صحیح ہے) اور میں نے مزدلفہ میں یہاں (مشعر حرام کے قریب) قیام کیا اور سارا مزدلفہ موقف ہے (اس کے جس حصے میں بھی اس رات میں قیام کیا جائے صحیح ہے) ۔
حجۃ الوداع یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخصتی حج
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حج میں اپنی ازواج مطہرات کی طرف سے گائے کی قربانی فرمائئی ۔ (صحیح مسلم)
حجۃ الوداع یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخصتی حج
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ آپ کی قربانیوں کا انتظام و انصرام کروں اور ان کا گوشت اور کھالیں اور جھولیں صدقہ کر دوں اور قصاب کو (بطور اجرت اور حق المحنت کے) ان میں سے کوئی چیز نہ دوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ہم ان کو اجرت الگ اپنے پاس سے دیں گے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
حجۃ الوداع یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخصتی حج
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (۱۰ ذی الحجہ کو صبح مزدلفہ سے) منیٰ تشریف لائے تو پہلے جمرۃ العقبیٰ پر پہنچ کر اس کی رمی کی ۔ پھر آپ اپنے خیمہ پر تشریف لائے اور قربانی کے جانوروں کی قربانی کی ، پھر آپ نے حجام کو طلب فرمایا اور پہلے اپنے سر مبارک کی داہنی جانت اس کے سامنے کی ، اس نے اس جانب کے بال مونڈے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو طلحہ انصاری کو طلب فرمایا اور وہ بال ان کے حوالے کر دئیے ، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر کی بائیں جانب حجام کے سامنے کی اور فرمایا کہ اب میں اس کو بھی مونڈو ، اس نے اس جانب کو بھی مونڈ دیا ، تو آپ نے وہ بال بھی ابو طلحہ ہی کے حوالے فرما دئیے اور ارشاد فرمایا کہ ان بالوں کو لوگوں کے درمیان تقسیم کر دو ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی مندرجہ بالا مفصل حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر منڈوانے کا یہواقعہ ذکر سے چھوٹ فیا ہے ، حالانکہ یہ حج کے سلسلے کے دسویں ذی الحجہ کے خاص اعمال اور مناسک میں سے ہے ۔ جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوا ، حلق (سر منڈوانے) کا صحیح طریقہ یہی ہے کہ داہنی جانب کے بال صاف کرائے جائیں اور پھر بائیں جانب کے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر اپنے بال او طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کو عطا فرمائے ۔ یہ ابو طلحہ آپ کے خاص محبین اور فدائیوں میں سے تھے ۔ غزوہ احد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کافروں کے حملے سے بچانے کے لیے انہوں نے اپنا جسم تیروں سے چھلنی کرا لیا تھا ، اس کے علاوہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے راحت و آرام اور آپ کے ہاں آنے والے مہمانوں کا بھی یہ بڑا خیال رکھتے تھے ۔ الغرض اس قسم کی خدمتوں میں ان کا اور ان کی بیوی ام سلیم (والدہ انس رضی اللہ عنہ) کا ایک خاص مقام تھا ۔ غالباً ان کی انہی خصوصی خدمات کی وجہ سے آپ نے سر مبارک کے بال ان کو مرحمت فرمائے اور دوسروں کو بھی انہی کے ہاتھوں تقسیم کرائے ..... یہ حدیث اہل اللہ اور صالحین کے تبرکات کے لیے بھی واضح اصل اور بنیاد ہے ۔ بہت سے مقامات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو “ موئے مبارک ” بتائے جاتے ہیں ان مین سے جن کے بارے میں قابل اعتماد تاریخی ثبوت اور سند موجود ہے ، غالب گمان یہ ہے کہ وہ حجۃ الوداع کے تقسیم کئے ہوئے انہی بالوں میں سے ہوں گے ....... بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو ایک ایک دو دو بال تقسیم کئے تھے ، اس طرح ظاہر ہے کہ وہ ہزاروں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس پہنچے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ان میں سے ہر ایک نے ، اور ان کے انتقال کے بعد ان کے اخلاف نے اس مقدس تبرک کی حفاظت کا کافی اہتمام کیا ہو گا ، اس لئے ان میں سے بہت سے اگر اب تک بھی کہیں کہیں محفوظ ہوں وت کوئی تعجب کی بات نہیں ..... لیکن قابل اعتماد تاریخی ثبوت اور سند کے بغیر کسی بال کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا “ موئے مبارک ” قرار دینا بڑی سنگین بات اور گناہ عظیم ہے ، اور بہر حال (اصلی ہو یا فرضی) اسکو اور اس کی زیارت کو ذریعہ تجارت بنانا جیسا کہ بہت سی جگہوں پر ہوتا ہے بدترین جرم ہے ۔
حجۃ الوداع یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخصتی حج
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں فرمایا : “ اللہ کی رحمت ہو ان پر جنہوں نے یہاں اپنا سر منڈوایا ۔ ” حاضرین نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! رحمت کی یہی دعا بال ترشوانے والوں کے لیے بھی فرما دیجئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ ارشاد فرمایا کہ : “ اللہ کی رحمت ہو سر منڈوانے والوں پر ۔ ” ان لوگوں نے پھر وہی عرض کیا : تو تیسری دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : “ اور ان لوگوں پر بھی اللہ کی رحمت ہو جنہوں نے یہاں بال ترشوائے ۔ ” تشریح عادت یا ضرورت کے طور پر بال منڈوانا یا ترشوانا کوئی عبادت نہیں ہے ، لیکن حج و عمرہ میں جو بال منڈوائے یا ترشوائے جاتے ہیں یہ بندہ کی طرف سے عبدیت ارو تذلل کا ایک اظہار ہے اس لیے خاص عبادت ہے ، اور اسی نیت سے منڈوانا یا ترشوانا چاہئے اور چونکہ عبدیت اور تذلل کا اظہار سر منڈوانے میں زیادہ ہوتا ہے اس لیے وہی افضل ہے ، اور اسی واسطے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعائے رحمت میں اس کو ترجیح دی ۔ واللہ اعلم ۔
حجۃ الوداع یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخصتی حج
حضرت ابو بکرہ ثقفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (حجۃ الوداع) میں دسویں ذی الحجہ کو خطبہ دیا ۔ جس مین فرمایا : زمانہ گھوم پھر کر اپنی اس اصلی ہیئت پر آ گیا ہے جس پر وہ زمین و آسمان کی تخلیق کےک وقت تھا .... سال پورے بارہ مہینہ کا ہوتا ہے ، ا ن میں سے ۴ مہینے خاص طور سے قابل احترام ہیں ۔ تین مہینے تو مسلسل ذی قعدہ ، ذی الحجہ ، محرم اور چوتھا وہ رجب جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان ہوتا ہے اور جس کو قبیلہ مضر زیادہ مانتا ہے ..... اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بتاؤ یہ کون سا مہینہ ہے ؟ ہم لوگوں نے عرض کیا کہ : اللہ و رسول کو ہی زیادہ علم ہے ۔ اس کے بعد کچھ دیر آپ خاموش رہے ، یہاں تک کہ ہم نے خیال کیا کہ اب آپ اس مہینہ کا کوئی اور نام مقرر کریں گے ۔ (لیکن) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا یہ “ ذی الحجہ ” کا مہینہ نہیں ہے ؟ ہم نے عرض کیا : بے شک یہ ذی الحجہ ہی ہے ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بتلاؤ یہ کونسا شہر ہے ؟ ہم لوگوں نے عرض کیا کہ : اللہ و رسول ہی کو زیادہ علم ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دیر خاموش رہے ، یہاں تک کہ ہم نے خیال کیا کہ اب آپ اس شہر کا نام مقرر کریں گے ۔ (لیکن) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا یہ “ بلدہ ” کا نہیں ہے ؟ (مکہ کے معروف ناموں مین ایک “ بلدہ ” تھا) ہم نے عرض کیا : بے شک ایسا ہی ہے ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ کون سا دن ہے ؟ ہم عرض کیا کہ : اللہ و رسول ہی کو زیادہ علم ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا آج “ یوم النحر ” نہیں ہے ؟ (یعنی ۱۰ ذی الحجہ جس میں قربانی کی جاتی ہے) ۔ ہم نے عرض کیا : بے شک یہ آج یوم النحر ہے ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمہارے خون اور تمہارے اموال اور تمہاری آبروئیں حرام ہیں تم پر (یعنی کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ ناحق کسی کا خون کرے ، یا کسی کے مال پر یا اس کی آبرو پر دست درازی کرے ۔ یہ سب تم پر ہمیشہ کے لیے حرام ہیں جیسا کہ آج کے مبارک اور مقدس دن میں خاص اس شہر اور اس مہینہ میں تم کسی کی جان لینا یا اس کا مال یا اس کی آبرو لوٹنا حرام سمجھتے ہو (بالکل اسی طرح یہ باتیں تمہارے واسطے ہمیشہ کے لیے حرام ہیں) ..... اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اور عنقریب (مرنے کے بعد آخرت میں) اپنے پروردگار کے سامنے تمہاری پیشی ہو گی ، اور وہ تم سے تمہارے اعمال کی بابت سوال کرے گا ۔ دیکھو ، میں خبردار کرتا ہوں کہ تم میرے بعد ایسے گمراہ نہ ہو جانا کہ تم میں سے بعض بعض کی گردنیں مارنے لگیں ...... (اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :) بتاؤ کیا میں نے اللہ کا پیام تم کو پہنچا دیا ؟ سب نے عرض کیا : بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ کا حق ادا فرما دیا ۔ (اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو کر کہا) : اللَّهُمَّ اشْهَدْ (اے اللہ ! تو گواہ رہ) (اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاضرین سے فرمایا) : جو لوگ یہاں حاضر اور موجود ہیں (اور انہوں نے میری بات سنی ہے) وہ ان لوگوں کو پہنچا دیں جو یہاں موجود نہیں ہیں ۔ بہت سے وہ لوگ جن کو کسی سننے والے سے بات پہنچے اس سننے والے سے زیادہ یاد رکھنے والے ہوتے ہیں (اور وہ اس علم کی امانت کا حق ادا کرتے ہیں) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس خطبہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ابتدائی حصے میں زمانہ کے گھوم پھر کے اپنے اصلی ابتدائی ہیئت پر آ جانے کا جو ذکر ہے اس کا مطلب سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ جاہلیت میں اہل عرب کا ایک گمراہانہ دستور اور طریقہ یہ بھی تھا کہ وہ اپنی خاص مصلحتوں کے تحت کبھی کبھی سال تیرہ مہینے کا قرار دے دیتے تھے اور اس کے لیے ایک مہینہ کو مکرر مان لیتے تھے ۔ اس کا لازی نتیجہ یہ تھا کہ مہینوں کا سارا نظام غلط اور حقیقت کے خلاف تھا ، اس لے حج جو ان کے حساب سے ذی الحجہ میں ہوتا تھا دراصل ذی الحجہ میں نہیں ہوتا بلکہ جاہلیت کے پچاسوں اور سینکڑوں برس کے چکر کے بعد ایسا ہوا کہ ان اہل عرب کے حساب سے مثلاً جو محرم کا مہینہ تھا وہی اصل آسمانی حساب سے بھی محرم کا مہینہ تھا ، اسی طرح جو اہل عرب کے حساب سے ذی الحجہ کا مہینہ تھا وہی اصل آسمانی حساب سے ذی الحجہ کا مہینہ تھقا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ کے ابتدائی حصے میں یہی بات فرمائی ہے ، اور یہ بتلایا ہے کہ یہ ذی الحجہ جس میں یہ حج ادا ہو رہا ہے اصل آسمانی حساب سے بھی ذی الحجہ ہی ہے اور سال بارہ ہی مہینہ کا ہوتا ہے ، اور آئندہ صرف یہی اصلی اور حقیقی نظام چلے گا ۔ خطبہ کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص وصیت و ہدایت امت کو یہ فرمائی کہ میرے بعد باہم جدال و قتال اور خانہ جنگی میں مبتلا نہ ہو جانا ، اگر ایسا ہوا تو یہ انتہائی گمراہی کی بات ہو گی ..... اسی خطبے کی بعض روایات میں “ ضلالاً ” کے بجائے “ کفارا ” کا لفظ آیا ہے ، جس کا مطلب یہ ہو گا کہ باہم جدال و قتال اور خانہ جنگی اسلام کے مقاصد اور اس کی روح کے بالکل خلاف کافرانہ رویہ ہو گا ، اور اگر امت اس میں مبتلا ہوئی تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اس نے اسلام رویہ کے بجائے کافرانہ طرز عمل اختیار کر لیا ۔ امت کو یہ آگاہی آپ نے بہت سے اہم خطبوں میں دی تھی اور غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ پر کسی درجہ پر منکشف ہو چکا تھا کہ شیطان اس امت کے مختلف طبقوں کو باہم لڑانے اور بھڑکانے میں بہت کامیاب ہو گا ..... وَكَانَ ذَالِكَ قَدَرًا مَّقْدُورًا
حج کے اہم افعال و ارکان: مکہ میں داخلہ اور پہلا طواف
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے خادم نافع سے روایت ہے کہ : عبداللہ بن عمر جب بھی مکہ آتے تو اس میں داخلہ سے پہلے رات ذی طویٰ میں گذارتے (جو مکہ کے قریب ایک بستی تھی) یہاں تک کہ صبح ہونے پر غسل کرتے اور نماز پڑھتے ، اور اس کے بعد دن کے وقت میں مکہ معظمہ میں داخل ہوتے ، اور جب مکہ معظمہ سے واپس لوٹتے تو بھی ذی طویٰ میں رات گذار کر صبح کو وہاں سے روانہ ہوتے ، اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بتاتے ہیں کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دستور بھی یہی تھا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح حجۃ الوداع کے سلسلہ میں حج کے قریباً سارے ہی اعمال و مناسک کا ذکر واقعہ کی شکل میں آ چکا ہے ، اب الگ الگ س کے اہم افعال و ارکان کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات اور آپ کا طرز عمل معلوم کرنے کے لیے مندرجہ ذیل حدیثیں پڑھئے ۔ مکہ معظمہ کو اللہ تعالیٰ نے کعبہ مکرمہ کی نسبت سے جو خاص شرف بخشا ہے اور اس کی بلد اللہ الحرام اور مرکز حج قرار دیا ہے اس کا لازمی تقاضا ہے کہ اس میں داخلہ اہتمام اور احترام کے ساتھ ہو ، اور اس کے بعد کعبہ مقدسہ کا حق ہے کہ سب سے پہلے اس کا طواف کیا جائے اور پھر اسی کعبہ کے ایک گوشہ میں جو ایک خاص مبارک پتھر (حجر اسود) لگا ہوا ہے (جس کو اللہ تعالیٰ سے اور جنت سے خاص نسبت ہے) اس کا حق ہے کہ طواف کا آغاز ادب اور محبت کے ساتھ اس کے استلام سے کیا جائے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمول تھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ سے یہی سکھایا تھا ۔
حج کے اہم افعال و ارکان: مکہ میں داخلہ اور پہلا طواف
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ پہنچے تو سب سے پہلے حجر اسود پر آئے اور اس کا استلام کیا ، پھر آپ نے داہنی طرف طواف کیا ، جس میں پہلے تین چکروں میں آپ نے رمل کیا ، اور اس کے بعد چار چکروں میں آپ چار چکروں میں آپ اپنی عادی رفتار سے چلے ۔ (صحیح مسلم) تشریح ہر طواف حجر اسود کے استلام سے شروع ہوتا ہے ، استلام کا مطلب ہے حجر اسود کو چومنا یا اس پر اپنا ہاتھ رکھ کر یا ہاتھ اس کی طرف کر کے اپنے اس ہاتھ ہی کو چوم لینا ۔ بس یہ استلام کر کے طواف شروع کیا جاتا ہے ، اور ہر طواف میں خانہ کعبہ کے سات چکر لگائے جاتے ہیں ۔ رمل ایک خاص انداز کی چال کو کہتے ہیں جس میں طاقت و قوت کا اظہار ہوتا ہے ۔ روایات میں ہے کہ ۷ھ میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک بڑی جماعت کے ساتھ عمرہ کے لیے مکہ معظمہ پہنچے تو وہاں کے لوگوں نے آپس میں کہا کہ یثرب یعنی مدینہ کی آب و ہوا کی خرابی اور بخار وغیرہ وہاں کی بیماریوں نے ان لوگوں کو کمزور اور دبلا پتلا کر دیا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ بات پہنچی تو آپ نے حکم دیا کہ طواف کے پہلے تین چکروں میں رمل کی چال چلی جائے ، اور اس طرح طاقت و قوت کا مظاہرہ کیا جائے ، چنانچہ اسی پر عمل کیا گیا ..... لیکن اللہ تعالیٰ کو اس وقت کی یہ ادا ایسی پسند آئی کہ اس کو مستقل سنت قرار دے دیا گیا ۔ اب یہی طریقہ جاری ہے کہ حج یا عمرہ کرنے والا جو پہلا طواف کرتا ہے جس کے بعد اس کو صفا ، مروہ کے درمیان سعی بھی کرنی ہوتی ہے ۔ اس کے پہلے تین چکروں مین رمل کیا جاتا ہے ، اور باقی چار چکر اپنی عادی رفتار سے کئے جاتے ہیں ۔
حج کے اہم افعال و ارکان: مکہ میں داخلہ اور پہلا طواف
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لائے تو مکہ میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے حجر اسود کے قریب پہنچ کر آپ نے اس کا استلام کیا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف کیا ، پھر صفا پہاڑی پر آئے اور اس کے اتنے اوپر چڑھ گئے کہ بیت اللہ نظر آنے لگا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھائے (جس طرح دعا میں اٹھائے جاتے ہیں) اور پھر جتنی دیر تک آپ نے چاہا آپ اللہ کے ذکر و دعا میں مشغول رہے ۔ (سنن ابی داؤد)
حج کے اہم افعال و ارکان: مکہ میں داخلہ اور پہلا طواف
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ پر سوار ہو کر بیت اللہ کا طواف کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک خمدار چھڑی تھی اسی سے آپ حجر اسود کا استلام کرتے تھے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اوپر صحیح مسلم کے حوالہ سے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی جو روایت نقل کی گئی ہے اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طواف کے بارے میں یہ صریح الفاظ ہیں : ثُمَّ مَشَى عَلَى يَمِينِهِ ، فَرَمَلَ ثَلَاثًا وَمَشَى أَرْبَعًا آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجر اسود کا استلام کرنے کے بعد داہنی جانب کو چلے (اور طواف شروع کیا ۔ پھر تین چکروں میں تو آپ نے رمل کیا اور چار چکر آپ نے اپنی عادی رفتار سے لگائے) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف اپنے پاؤں پر چل کر کیا تھا ۔ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس روایت میں اونٹ پر سوار ہو کر طواف کا تذکرہ ہے ۔ لیکن ان دونوں بیانوں میں کوئی تضاد نہیں ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں مکہ معظمہ پہنچنے کے بعد پہلا طواف پیادہ پا کیا تھا ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے اسی کا ذکر کیا ہے ، اور اس کے بعد دسویں ذی الحجہ کو منیٰ سے مکہ آ کر جو طواف کیا تھا وہ اونٹ پر کیا تھا ، تا کہ سوالات کرنے والے آپ سے سوالات کر سکیں ، گویا آپ کی اونٹنی اس وقت آپ کے لیے منبر بنی ہوئی تھی ، اور غالباًٍ اپنے عمل سے اس کا اظہار بھی مقصود تھا کہ خاص حالات میں سواری پر بھی طواف کیا جا سکتا ہے ۔ واللہ اعلم ۔
حج کے اہم افعال و ارکان: مکہ میں داخلہ اور پہلا طواف
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ (حجۃ الوداع میں) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : مجھے بیماری کی تکلیف ہے (میں طواف کیسے کروں ؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : تم سوار ہو کر لوگوں کے پیچھے پیچھے طواف کر لو ، تو میں نے اسی طرح طواف کیا ، اور اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے پہلو میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے ، اور اس میں سورہ طور تلاوت فرما رہے تھے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
حج کے اہم افعال و ارکان: مکہ میں داخلہ اور پہلا طواف
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہم لوگ (حجۃ الوداع والے سفر میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ سے چلے ۔ ہماری زبانوں پر بس حج ہی کا ذکر تھا ، یہاں تک کہ جب (مکہ کے بالکل قریب) مقام سرف پر پہنچے (جہاں سے مکہ صرف ایک منزل رہ جاتا ہے) تو میرے وہ دن شروع ہو گئے جو عورتوں کو ہر مہینے آتے ہیں ..... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (خیمہ) میں تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ میں بیٹھی رو رہی ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : شاید تمہارے ماہواری ایام شروع ہو گئے ہیں ؟ .... میں نے عرض کیا کہ : ہاں ! یہی بات ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (رونے کی کیا بات ہے) یہ تو ایسی چیز ہے جو اللہ نے آدمؑ کی بیٹیوں (یعنی سب عورتوں) کے ساتھ لازم کر دی ہے ، تم وہ سارے عمل کرتی رہو جو حاجیوں کو کرنے ہوتے ہیں سوائے اس کے کہ بیت اللہ کا طواف اس وقت تک نہ کرو جب تک اس سے پاک صاف نہ ہو جاؤ ..... (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
حج کے اہم افعال و ارکان: مکہ میں داخلہ اور پہلا طواف
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : بیت اللہ کا طواف نماز کی طرح کی عبادت ہے ، بس یہ فرق ہے کہ طواف میں تم کو باتیں کرنے کی اجازت ہے ، تو جو کوئی طواف کی حالت میں کسی سے بات کرے تو نیکی اور بھلائی ہی کی بات کرے (لغو و فضول یا ناجائز باتوں سے طواف کو مکدر نہ کرے) ۔ (جامع ترمذی ، سنن نسائی ، سنن دارمی)
حج کے اہم افعال و ارکان: مکہ میں داخلہ اور پہلا طواف
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ : حجر اسود اور رکن کمانی ان دونوں پر ہاتھ پھیرنا گناہوں کے کفارہ کا ذریعہ ہے ۔ اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی سنا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ : جس نے اللہ کے اس گھر کا سات بار طواف کیا اور اہتمام اور فکر کے ساتھ کیا (یعنی سنن و آداب کی رعایت کے ساتھ کیا) تو اس کا یہ عمل ایک غلام آزاد کرنے کے برابر ہو گا ۔ اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی سنا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ : بندہ طواف کرتے ہوئے جب ایک قدم رکھے گا اور دوسرا قدم اٹھائے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے ہر قدم کے بدلہ ایک گناہ معاف کرے گا اور ایک نیکی کا ثواب اس کے لیے لکھا جائے گا ۔ (جامع ترمذی) تشریح حدیث کے لفظ “ مَنْ طَافَ بِهَذَا البَيْتِ أُسْبُوعًا ” کا ترجمہ ہم نے سات بار طواف کرنا کیا ہے ۔ شارحین نے لکھا ہے کہ اس میں تین احتمال ہیں : اول طواف کے سات چکر (یہ بات پہلے ذکر کی جا چکی ہے کہ ایک طواف میں بیت اللہ کے ساتھ چکر کئے جاتے ہیں) اور دوسرا احتمال ہے پورے ساتھ طواف جس کے انچاس چکر ہوں گے اور تیسرا احتمال ہے بلا ناغہ سات دن طواف ........ لیکن بظاہر پہلا راجح ہے ۔ واللہ اعلم ۔
حجر اسود
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود کے بارے میں فرمایا : خدا کی قسم ! قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو نئی زندگی دے کر اس طرح اٹھائے گا کہ اس کی دو آنکھیں ہوں گی جن سے وہ دیکھے گا ، اور زبان ہو گی جس سے وہ بولے گا ، اور جن بندوں نے اس کا استلام کیا ہو گا ان کے حق میں سچی شہادت دے گا ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ ، سنن دارمی) تشریح حجر اسود دیکھنے میں پتھر کا ایک ٹکڑا ہے ، لیکن اس میں ایک روحانیت ہے اور وہ ہر اس شخص کو پہچانتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی نسبت سے ادب اور محبت کے ساتھ اس کو بلا واسطہ یا بالواسطہ چومتا ہے اور اس کا استلام کرتا ہے ، قیامت میں اللہ تعالیٰ اوس کو ایک دیکھنے اور بولنے والی ہستی بنا کر کھڑا کرے گا اور وہ ان بندوں کے حق میں شہادت دے گا جو اللہ کے حکم کے مطابق عاشقانہ اور نیاز مندانہ شان کے ساتھ اس کا استلام کرتے تھے ۔
حجر اسود
عابس بن ربیۃ تابعی سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا وہ حجر اسود کو بوسہ دیتے تھے اور کہتے تھے میں یقین کے ساتھ جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے (تیرے اندر کوئی خدائی صفت نہیں ہے) نہ تو کسی کو نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقسان اور اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے چومتے نہ دیکھا ہوتا ، تو میں تجھے نہ چومتا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بات بالاعلان اور علی رؤس الاشہاد اس لیے کہی کہ کوئی ناتربیت یافتہ نیا مسلمان حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور دوسرے اکابر مسلمین کا حجر اسود کو چومنا دیکھ کر یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ اس پتھر میں کوئی خدائی کرشمہ اور خدائی صفت اور بناؤ بگاڑ کی کوئی طاقت ہے ، اور اس لیے اس کو چوما جا رہا ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد سے ایک اصولی اور بنیادی بات یہ معلوم ہوئی کہ کسی چیز کی جو تعظیم و تکریم اس نظریہ سے کی جائے کہ اللہ و رسول کا حکم ہے ۔ وہ تعظیم برحق ہے ، لیکن اگر کسی مخلوق کو نافع اور ضار اور بناؤ بگاڑ کا مختار یقین کر کے اس کی تعظیم کی جائے تو وہ شرک کا ایک شعبہ ہے ، اور اسلام میں اس کی گنجائش نہیں ۔
طواف میں ذکر اور دعا
حضرت عبداللہ بن السائب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (طواف کی حالت میں) رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان (کی مسافت میں) یہ دعا پڑھتے ہوئے سنا : رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً ، وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ . (سنن ابنی داؤد)
طواف میں ذکر اور دعا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : رکن یمانی پر ستر فرشتے مقرر ہیں جو ہر اس بندے کی دعا پر آمین کہتے ہیں جو اس کے پاس یہ دعا کرے کہ : اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ، رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً ، وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً ، وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ. (اے اللہ ! میں تجھ سے دنیا اور آخرت میں معافی اور عافیت مانگتا ہوں ۔ اے پروردگار ! ہم کو دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی ، اور دوزخ کے عذاب سے ہم کو بچا !)
وقوف عرفہ کی اہمیت اور فضیلت
حضرت عبدالرحمن بن یعمر دئلی سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے : حج (کا خاص الخاص رکن جس پر حج کا دار و مدار ہے) وقووف عرفہ ہے ، جو حاجی مزدلفہ والی رات میں (یعنی ۹ اور ۱۰ ذی الحجہ کی درمیانی شب میں) بھی صبح صادق سے پہلے عرفات میں پہنچ جائے تو اس نے حج پا لیا اور اس کا حج ہو گیا ...... (یوم النحر یعنی ۱۰ ذی الحجہ کے بعد) منیٰ میں قیام کے عین دن میں (جن میں تینوں جمروں کی رمی کی جاتی ہے ۱۱ ، ۱۲ ، ۱۳ ذی الحجہ) اگر کوئی آدمی صرف دو دن میں یعنی (۱۱ ، ۱۲ کو رمی کر کے) جلدی منیٰ سے چل دے تو اس میں بھی کوئی گناہ نہیں ہے ، اور اگر کوئی ایک دن مزید ٹھہر کے (۱۳ ذی الحجہ کی رمی کر کے) وہاں سے جائے تو اس پر بھی کوئی گناہ اور الزام نہیں ہے (دونوں باتیں جائز ہیں) ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ ، سنن دارمی) تشریح حج کا سب سے اہم رکن نویں ذی الحجہ کو میدان عرفات کا وقوف ہے ، اگر یہ ایک لحظہ کے لیے بھی نصیب ہو گیا تو حج نصیب ہو گیا ، اور اگر کسی وجہ سے حاجی ۹ ذی الحجہ کے دن ، اور اس کے بعد والی رات کے کسی حصے میں بھی عرفات میں نہ پہنچ سکا تو اس کا حج فوت ہو گیا ۔ حج کے دوسرے ارکان و مناسک طواف ، سعی ، رمی ، جمرات وغیرہ اگر کسی وجہ سے فوت ہو جائیں تو ان کا کوئی نہ کوئی کفارہ اور تدارک ہے ، لیکن اگر وقوف عرفہ فوت ہو جائے تو اس کا کوئی تدارک نہیں ہے ۔ چونکہ وقوف عرفات پر حج کا دار و مدار ہے اس لیے اس میں اتنی وسعت رکھی گئی ہے کہ اگر کوئی آدمی نویں ذی الحجہ کے دن میں عرفات نہ پہنچ سکے (جو وقوف کا اصلی وقت ہے) وہ اگر اگلی رات کے کسی حصے میں بھی وہاں پہنچ جائے تو اس کا وقوف ادا ہو جائے گا اور وہ حج سے محروم نہ سمجھا جائے گا ۔ یوم العرفہ کے بعد ۱۰ ذی الحجہ کو یوم النحر ہے جس میں ایک جمرہ کی رمی اور قربانی اور حلق وغیرہ کے بعد احرام کی پابندیاں ختم ہو جاتی ہیں اور اسی دن مکہ جا کر طواف زیارت کرنا ہوتا ہے ۔ اس کے بعد منیٰ میں زیادہ سے زیادہ تین دن اور کم سے کم دو دن ٹھہر کر تینوں جمروں پر کنکریاں مارنا مناسک میں سے ہے ....... پس اگر کوئی شخص صرف دو دن ۱۱ ، ۱۲ ذی الحجہ کو رمی جمرات کر کے منیٰ سے چلا جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ، اور اگر کوئی ۱۳ ذی الھجہ کو بھی ٹھہرے ، اور رمی کر لے ، تو یہ بھی جائز ہے ۔
وقوف عرفہ کی اہمیت اور فضیلت
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کوئی دن ایسا نہیں ہے جس میں اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن سے زیادہ اپنے بندوں کے لیے جہنم سے آزادی اور رہائی کا فیصلہ کرتا ہو (یعنی گناہ گار بندوں کی مغفرت اور جہنم سے آزادی کا سب سے بڑے اور وسیع پیمانے پر فیصلہ سال کے ۳۶۰ دنوں میں سے ایک دن یوم العرفہ میں ہوتا ہے) اس دن اللہ تعالیٰ اپنی صفت رحمت اور رافت کے ساتھ (عرفات میں جمع ہونے والے) اپنے بندوں کے بہت ہی قریب ہو جاتا ہے اور ان پر فخر کرتے ہوئے فرشتوں سے کہتا ہے کہ : مَا أَرَادَ هَؤُلَاءِ دیکھتے ہو ! میرے یہ بندے کس مقصد سے یہاں آئے ہیں ؟ (صحیح مسلم)
وقوف عرفہ کی اہمیت اور فضیلت
طلحہ بن عبیداللہ بن کریز (تابعی) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : شیطان کسی دن بھی اتنا ذلیل خوار ، اتنا دھتکارا اور پھٹکارا ہوا اور اتنا جلا بھنا ہوا نہیں دیکھا گیا جتنا کہ وہ عرفہ کے دن ذلیل و خوار رو سیاہ اور جلا بھنا دیکھا جاتا ہے اور یہ صرف اس لیے کہ وہ اس دن کی رحمت کو (موسلا دھار) برستے ہوئے اور بڑے بڑے گناہوں کی معافی کا فیصلہ ہوتے ہوئے دیکھتا ہے (اور یہ اس لعین کے لیے ناقابل برداشت ہے) ۔ (موطا امام مالک مرسلاً) تشریح عرفات کے مبارک میدان میں ذی الحجہ کی نویں تاریخ کو ، جو رحمتوں اور برکتوں کے نزول کا خاص دن ہے جب ہزاروں یا لاکھوں کی تعداد میں اللہ کے بندے فقیروں ، محتاجوں کی صورت بنا کر جمع ہوتے ہین اور اس کے حضور میں اپنے اور دوسروں کے لیے مغفرت اور رحمت کے لیے دعائیں اور آہ و زاری کرتے ہین اور اس کے سامنے روتے اور گڑگڑاتے ہیں تو لا محالہ ارحم الراحمین کی رحمت کا اتھاہ سمندر جوش میں آ جاتا ہے ، اور پھر وہ اپنی شان کریمی کے مطابق گناہ گار بندوں کی مغفرت اور جہنم سے رہائی و آزادی کے وہ عظیم فیصلے فرماتا ہے کہ شیطان بس جل بھن کے رہ جاتا ہے اور اپنا سر پیٹ لیتا ہے ۔
رمی جمرات
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جمرات پر کنکریاں پھینکنا اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنا اور پھیرے لگانا (لہو و لعب کی باتیں نہیں ہیں ، بلکہ) یہ ذکر اللہ کی گرم بازاری کے وسائل ہیں ..... (جامع ترمذی ، سنن دارمی) تشریح منیٰ میں کافی کافی فاصلے سے تین جگہوں پر تین ستون بنے ہوئے ہیں ۔ انہی ستونوں کو جمرات کہا جاتا ہے ، ان جمرات پر کنکریاں پھینکنا بھی حج کے اعمال اور مناسک میں سے ہے ، دسویں ذی الحجہ کو صرف ایک جمرہ پر سات کنکریاں پھینکی جاتی ہیں ، اور ۱۱ ، ۱۲ ، ۱۳ ذی الحجہ کو تینوں جمروں پر سات سات کنکریاں پھینکی جاتی ہیں ..... ظاہر بات ہے کہ کنکریاں پھینکنا بذات خود کوئی نیک عمل نہیں ہے ، لیکن اللہ کے حکم سے ہر عمل میں عبادت کی شان پیدا ہو جاتی ہے ، اور بندگی یہی ہے کہ بے چوں و چرا اللہ کے حکم کی تعمیل کی جائے ، علاوہ ازیں اللہ کے بندے جب اللہ کے حکم سے اس کے جلال و جبروت کا دھیان کرتے ہوئے اور اس کی کبریائی کا نعرہ لگاتے ہوئے شیطانی خیالات و عادات اور نفسانی خواہشات و معصیات کو عالم تصور میں نشانہ بنا کر ان جمروں پر کنکریاں مارتے ہیں ، اور اس طرح گمراہی اور معصیت کو سنگسار کرتے ہیں تو ان کے قلوب کی اس وقت جو کیفیت ہوتی ہے اور ان کے ایمان والے سینوں کو جو انشراح اور سرور و انبساط اس سے نصیب ہوتا ہے اس کا ذائقہ بس وہی جانتے ہیں ..... بہر حال اللہ کے حکم سے اور اس کا حکم نام لے کر جمروں پر کنکریاں پھینکنا بھی اہل بصیرت کی نگاہ میں ایک ایمان افروز عمل ہے ۔
رمی جمرات
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دسویں ذی الحجہ کو جمرہ عقبہ کی رمی چاشت کے وقت فرمائی اور اس کے بعد ایام تشریق میں جمرات کی رمی آپ نے زوال آفتاب کے بعد کی ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح یہی سنت ہے کہ ۱۰ ذی الحجہ کو جمرۃ العقبہ کی رمی دوپہر سے پہلے کر لی جائے اور بعد کے دنوں میں زول کے بعد ۔
رمی جمرات
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رمی کے لیے جمرہ کبریٰ کے پاس پہنچے ، پھر اس طرح اس کی طرف رخ کر کے کھڑے ہوئے کہ بیت اللہ (یعنی مکہ) اس کے بائیں جانب تھا اور منیٰ داہنی جانب ۔ اس کے بعد انہوں نے جمرہ پر سات کنکریاں ماریں ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر کہتے تھے ۔ اس کے بعد فرمایا کہ : اسی طرح رمی کی تھی اس مقدس ہستی نے جس پر سورہ بقرہ نازل ہوئی تھی (جس میں حج کے احکام اور مناسک کا بیان ہے) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رمی کرنے کے طریقے کو تفصیل سے یاد رکھا تھا ، اور اسی کے مطابق عمل کر کے لوگوں کو دکھایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جن پر اللہ نے حج کے احکام نازل کئے گھے اسی طرح رمی کیا کرتے تھے ۔
رمی جمرات
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (۱۰ ذی الحجہ کو) اپنی ناقہ پر سے رمی کرتے ہوئے دیکھا ، آپ اس وقت فرما رہے تھے کہ تم مجھ سے اپنے مناسک سیکھ لو ، میں نہیں جانتا کہ شاید اس حج کے بعد میں کوئی اور حج نہ کروں (اور پھر تمہیں اس کا موقع نہ ملے) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح دسویں ذی الحجہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ناقہ پر مزدلفہ سے روانہ ہو کر منیٰ پہنچے تو اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناقہ پر سوار ہونے ہی کی حالت میں جمرہ عقبہ کی رمی کی ، تا کہ سب لوگ آپ کو رمی کرتا ہوا دیکھ کر رمی کا طریقہ سیکھ لیں اور آسانی سے مسائل اور مناسک پوچھ سکیں ، لیکن دوسرے اور تیسرے دن آپ نے رمی پاپیادہ کی ...... بہر حال رمی سوار ہو کر بھی جائز ہے اور پا پیادہ بھی ۔ یہ اشارہ حجۃ الوداع میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار فرمایا کہ : اہل ایمان مجھ سے مناسب اور دین و شریعت کے احکام سیکھ لیں ، شاید اب اس دنیا میں میرا قیام بہت زیادہ نہیں ہے ۔
رمی جمرات
سالم بن عبداللہ اپنے والد ماجد حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ رمی جمرات کے بارے میں ان کا معمول اور دستور تھا کہ وہ پہلے جمرہ پر سات کنکریاں مارتے اور ہر کنکری پر اللہ اکبر کہتے ، اس کے بعد اگے نشیب میں اتر کر قبلہ رو کھڑے ہوتے اور ہاتھ اٹھا کے دیر تک دعا کرتے ، پھر درمیان والے جمرہ پر بھی اسی طرح سات کنکریاں مارتے اور ہر کنکری پر تکبیر کہتے ، پھر بائیں جانب نشیب میں اتر کر قبلہ ر کھڑے ہوتے اور دیر تک کھڑے رہتے اور ہاتھ اٹھا کے دعا کرتے ، پھر آخری جمرہ (جمرۃ العقبہ) پر بطن وادی سے سات کنکریاں مارتے اور کے ساتھ اللہ اکبر کہتے اور اس جمرہ کے پاس کھڑے نہ ہوتے بلکہ واپس ہو جاتے ، اور بتاتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔ (صحیح بخاری) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے اور دوسرے جمروں کی رمی کے بعد قریب میں قبلہ رو کھڑے ہو کر دیر تک دعا کرتے تھے اور آخری جمرہ کی رمی کے بعد بغیر کھڑے ہوئے اور دعاکئے واپس ہو جاتے تھے ، یہی سنت ہے ۔ افسوس ہے کہ ہمارے زمانہ میں اس سنت پر عمل کرنے والے بلکہ اس کے جاننے والے بھی بہت کم ہیں ۔
قربانی
عبداللہ بن قرط رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عظمت والا دن یوم النحر (قربانی کا دن یعنی ۱۰ ذی الحجہ کا دن) ہے (یعنی یوم العرفہ کی طرح یوم النحر بھی بڑی عظمت والا دن ہے) اس کے بعد اس سے اگلا دن یوم القر (۱۱ ذی الحجہ) کا درجہ ہے (اس لیے قربانی جہاں تک ہو سکے ۱۰ ذی الحجہ کو کر لی جائے) اور کسی وجہ سے ۱۰ ذی الحجہ کو نہ کی جا سکے تو ۱۱ کو ضرور کر لی جائے ۔ اس کے بعد (یعنی ۱۲ ذی الحجہ کو) اگر کی جائے تو ادا تو ہو جائے گی لیکن فضیلت کا کوئی درجہ ہاتھ نہ آئے گا) حدیث کے راوی عبداللہ بن قرط (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرنے کے بعد اپنا یہ عجیب و غریب مشاہدہ) بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ پانچ یا چھ اونٹ قربانی کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب لائے گئے تو ان میں سے ہر ایک آپ کے قریب ہونے کی کوشش کرتا تھا ، تا کہ پہلے اسی کو آپ ذبح کریں ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح قربانی کی عام فضیلت اور اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عام ہدایات “ کتاب الصلوٰۃ ” میں عیدالاضحیٰ کے بیان میں ذکر کی جا چکی ہیں ، اور حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے دست مبارک سے ۶۳ اونٹوں کی ، اور آپ کے حکم پر حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے ۳۷ اونٹوں کی جو قربانی کی تھی ، اس کا ذکر حجۃ الوداع کے بیان میں گزر چکا ہے ، یہاں قربانی کے بارے میں صرف دو تین حدیثیں اور پڑھ لی جائیں ۔ تشریح ..... اللہ تعالیٰ کو قدرت ہے کہ وہ جانوروں میں ، بلکہ مٹی ، پتھر جیسے جمادات میں حقائق جکا شعور پیدا کر دے ۔ یہ ۵ ، ۶ اونٹ جو قربانی کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب کئے گئے تھے ان میں اللہ تعالیٰ نے اس وقت یہ شعور پیدا فرما دیا تھا کہ اللہ کی راہ میں اس کے محبوب اور برگزیدہ رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے قربان ہونا ان کی کتنی بڑی خوش بختی ہے اس لیے ان میں سے ہر ایک اس خواہش کے ساتھ آپ سے قریب ہونا چاہتا تھا کہ پہلے آپ اسی کو ذبح کریں ؎ ہمہ آہوانِ صحرا سرِ خود نہادہ بر کف بہ اُمید آنکہ روزے بہ شکار خواہی آمد
قربانی
حضرت سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک سال عیدالاضحیٰ کے موقع پر) ہدایت فرمائی کہ تم میں سے جو کوئی قربانی کرے تو (اس کا گوشت بس تین دن تک کھا سکتا ہے) تیسرے دن کے بعد اس کے گھر میں اس قربانی کے گوشت میں سے کچھ بھی باقی نہیں رہنا چاہیے ..... پھر جب اگلا سال آیا تو لوگوں نے دریافت کیا : کیا ہم اس سال بھی ایسا کریں جیسا کہ گزشتہ سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق ہم نے کیا تھا ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (نہیں ! اس سال تین دن والی وہ پابندی نہیں ہے بلکہ اجازت ہے کہ جب تک چاہو) کھاؤ ، کھلاؤ اور محفوظ رکھو ۔ گزشتہ سال وہ ہدایت اس لیے دی گئی تھی کہ عوام کو (غذا کی کمی اور تنگدستی کی وجہ سے) کھانے پینے کی تکلیف تھی اس لیے میں نے چاہا کہ قربانی کے گوشت سے تم ان کی پوری مدد کرو (اس لیے میں نے عارضی اور وقتی طور پر وہ حکم دیا تھا ، اب جب کہ وہ ضرورت باقی نہیں رہی تمہارے لیے کھانے کھلانے اور محفوظ رکھنے کی پوری گنجائش ہے) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
قربانی
نبیشہ ہذلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (عیدالاضحیٰ کے موقع پر فرمایا) پہلے ہم نے قربانیوں کا گوشت تین دن سے زیادہ کھانے کی ممانعت کر دی تھی ، اور یہ پابندی اس لیے لگائی گئی تھی کہ سب لوگوں کو گوشت اچھی طرح مل جائے ، اب اللہ تعالیٰ کا فضل ہے (وہ تنگدستی اور فقر و فاقہ والی بات اب نہیں رہی ہے بلکہ) اللہ کے کرم سے لوگ اب خوشحال ہیں ، اس لیے (اب وہ پابندی نہیں ہے) اجازت ہے ، لوگ کھائیں اور محفوظ رکھیں ، اور قربانی کا ثواب بھی حاصل کریں ..... یہ دن کھانے پینے کے اور اللہ کی یاد کے ہیں ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح جیسا کہ ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا قربانی کے گوشت کے بارے میں اجازت ہے کہ جب تک چاہیں کھائیں اور رکھیں ۔ اور آخری حدیث کے آخری جملہ سے معلوم ہوا کہ ایام تشریق میں بندوں کا کھانا پینا بھی اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے ، گویا یہ دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کی ضیافت کے دن ہیں ، لیکن اس کھانے پینے کے ساتھ اللہ کی یاد اور اس کی تکبیر و تمجید تقدیس و توحید سے بھی زبان تر رہنی چاہیے ..... اس کی آمیزش کے بغیر اللہ کے بندوں کے لیے ہر چیز بے ذائقہ ہے ۔ اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ ، وَاللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ وَلِلَّهِ الْحَمْدُ
طوافِ زیارت اور طوافِ وداع
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف زیارت کے سات چکروں میں رمل نہیں کیا (یعنی پورا طواف عادی رفتار سے کیا) ۔ (سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ) تشریح حج کے اعمال و مناسک اور ان کی ترتیب سے جیسا کہ سمجھا جا سکتا ہے اس کا اہم مقصد بیت اللہ کی تعظیم و تکریم اور اس کے ساتھ اپنی وابستگی کا اظہار ہے جو ملت ابراہیمیؑ کا خاص شعار ہے ...... اس لیے جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا جا چکا ہے مکہ معظمہ میں حاضری کے بعد حج کا سب سے پہلا عمل طواف ہی کرنا ہوتا ہے ، یہاں تکک کہ مسجد حرام میں داخل ہو کر پہلے تحیۃ المسجد بھی نہیں پڑھی جاتی ، بلکہ طواف پہلے کیا جاتا ہے ، اور دوگانہ طواف اس کے بعد پڑھا جاتا ہے ...... حاجی کے اس پہلے طواف کا معروف اصطلاحی نام ہی “ طواف قدوم ” ہے ، (یعنی حاضری کا طواف) ۔ اس کے متعلق احادیث پہلے گزر چکی ہیں ۔ اس کے بعد ۱۰ ذی الحجہ کو قربانی اور حلق سے فارغ ہونے کے بعد ایک طواف کا حکم ہے ، اس کا معروف اصطلاحی نام “ طواف زیارۃ ” ہے ۔ یہ وقوف عرفات کے بعد حج سب سے اہم رکن ہے ..... پھر حج سے فارغ ہونے کے بعد جب حاجی مکہ معظمہ سے اپنے وطن واپس ہونے لگے تو حکم ہے کہ وہ آخری وداعی کر کے واپس ہو ، اور اس کے سفر حج کا آخری عمل بھی طواف ہی ہو ، اس کا معروف اصلاحی نام طواف وداع اور طواف رخصت ہے ..... ان دونوں طوافوں سے متعلق چند حدیثیں ذیل میں پڑھئے ! تشریح ..... پہلے گزر چکا ہے کہ حاجی جب مکہ معظمہ حاضر ہو کر پہلا طواف کرے (جس کے بعد اس کو صفا و مروہ کے درمیان سعی بھی کرنی ہو گی) تو اس طواف کے پہلے تین چکروں میں وہ رمل کرے گا ۔ حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ نے ایسا ہی کیا تھا ، اس کے بعد ۱۰ ذی الحجہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منیٰ سے مکہ معظمہ آ کر طواف کیا اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمل نہیں کیا ، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں تصریح ہے ۔
طوافِ زیارت اور طوافِ وداع
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف زیارت کو موخر کیا (یعنی اس کی تاخیر کی اجازت دے دی) دسویں ذی الحجہ کی رات تک ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ) تشریح حدیث کا مطلب یہ ہے کہ طواف زیارت کے لیے افضل دن یوم النحر (عیدالاضحیٰ) کا دن ہے ، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی ہے کہ اس دن کے ختم ہونے کے بعد رات میں بھی وہ کیا جا سکتا ہے اور اس رات کا طواف بھی افضلیت کے لحاظ سے ۱۰ ذی الحجہ ہی کا طواف شمار ہو گا .... عام عربی قاعدے کے مطابق رات کی تاریخ اگلے دن والی تاریخ ہوتی ہے اور ہر رات اگلے دن کے ساتھ لگتی ہے ، لیکن حج کے مناسک اور احکام میں بندوں کی سہولت کے لیے اس کے برعکس قاعدہ مقرر کیا گیا ہے اور ہر دن کے بعد والی رات کو اس دن کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے ، اسی بناء پر جو طواف ۱۰ ذی الحجہ کا دن گزرنے کے بعد رات میں کیا جائے گا وہ ۱۰ ذی الحجہ ہی میں شمار ہو گا ، اگرچہ عام قاعدے کے لحاظ سے وہ ۱۱ ذی الحجہ کی رات ہے ۔
طوافِ زیارت اور طوافِ وداع
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگ (حج کرنے کے بعد) اپنے اپنے وطنوں کے رخ پر چل دیتے تھے (طواف وداع کا اہتمام نہیں کرتے تھے) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک وطن کی طرف کوچ نہ کرے جب تک کہ اس کی آخری حاضری بیت اللہ پر نہ ہو (یعنی جب تک کہ طواف وداع نہ کر لے) البتہ جو عورت خاص ایام کے عذر کی وجہ سے طواف سے معذور ہو وہ اس حکم سے مستثنیٰ ہے (اس کو طواف وداع معاف ہے) (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح جیسا کہ اس حدیث میں صراحۃً مذکور ہے ۔ پہلے لوگ طواف وداع کا اہتمام اور پابندی نہیں کرتے تھے ۔ ۱۲ یا ٍ۱۳ ذی الحجہ تک منیٰ میں قیام کر کے اور رمی جمرات وغیرہ وہاں کے مناسک ادا کر کے اپنے اپنے وطنوں کو چل دیتے تھے ..... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ارشاد کے ذریعہ گویا اس کے وجوب اور اہمیت کا اعلان فرمایا ۔ چنانچہ فقہاء نے طواف وداع کوواجب قرار دیا ہے ، البتہ حدیث کی تصریح کے مطابق وہ مستورات جو اپنے خاص ایام کی وجہ سے طواف سے معذور ہوں ، وہ اگر طواف زیارت کر چکی ہوں تو بغیر طواف وداع کیے مکہ معظمہ سے وطن رخصت ہو سکتی ہیں ....... ان کے علاوہ ہر بیرونی حاجی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے ملک کی طرف روانہ ہونے سے پہلے وداع اور رخصت ہی کی نیت سے آخری طواف کرے اور یہی حج کے سلسلے کا آخری عمل ہو ۔
طوافِ زیارت اور طوافِ وداع
حارث ثقفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص حج یا عمرہ کرے تو چاہئے کہ اس کی آخری حاضری بیت اللہ پر ہو اور آخری عمل طواف ہو ۔ (مسند احمد)
طوافِ زیارت اور طوافِ وداع
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حجۃ الوداع کے سفر میں قیام مکہ کی اس آخری رات میں جس میں مدینہ کی طرف واپسی ہونے والی تھی) میں نے مقام تنعیم جا کر عمرہ کا احرام باندھا ، اور عمرہ کے ارکان (طواف ، سعی وغیرہ) ادا کئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (منیٰ اور مکہ کی درمیان) مقام ابطح میں میرا انتظار فرمایا ۔ جب میں عمرہ سے فارغ ہو چکی تو آپ نے لوگوں کو کوچ کرنے کا حکم دیا اور آپ طواف وداع کے لیے بیت اللہ کے پاس آئے اور طواف کیا ، اور اسی وقت مکہ سے مدینہ کی طرف چل دئیے ۔ تشریح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جب حجۃ الوداع کے سفر میں مدینہ سے روانہ ہوئی تھیں تو آ نے تمتع کا ارادہ کیا تھا اور اس وجہ سے عمرہ کا احرام باندھا تھا لیکن جب مکہ معظمہ کے قریب پہنچیں ، تو (جیسا کہ پہلے گزر چکاہے) خاص ایام شروع ہو گئے جس کی وجہ سے وہ عمرہ کا طواف وغیرہ کچھ بھی نہ کر سکیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق آپ نے عمرہ ترک کر کے ۸ ذی الحجہ کو حج کا احرام باندھ لیا ، اور آپ کے ساتھ پورا حج کیا ۔ ۱۳ ذی الحجہ کو جمرات کی رمی کر کے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منی سے واپس ہوئے تو آ نے ابطح میں قیام فرمایا اور رات وہیں بسر کرنے کا فیصلہ کیا ۔ اسی رات میں آپ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو ان کے بھائی عبدالرحمٰن بن ابی بکر کے ساتھ بھیجا کہ حدود حرم سے باہر تنعیم جا کر وہاں سے عمرہ کا احرام باندھیں ار عمرہ سے فارغ ہو کر آ جائیں ، اس حدیث میں اس واقعہ کا ذکر ہے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جب عمرہ سے فارغ ہو کے آئیں تو آپ نے قافلے کو کوچ کرنے کا حکم دیا ، قافہ ابطح سے مسجد حرام آیا ، آپ نے اور آپ کے اصحاب کرام رضی اللہ عنہم نے سحر میں طواف وداع کیا اور اسی وقت مدینہ کے لیے روانہ ہو گئے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا یہ عمرہ اس عمرہ کی قضا تھا جو احرام باندھنے کے باوجود نہ کر سکی تھیں ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ طواف وداع مکہ معظمہ سے روانگی ہی کے وقت کیا جائے ۔
طواف کے بعد ملتزم سے چمٹنا اور دعا کرنا
عمرو بن شعیب اپنے والد شعیب سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ میں اپنے دادا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے ساتھ طواف کر رہا تھا ، میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ وہ بیت اللہ سے چمٹ رہے ہیں تو میں نے اپنے دادا (حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ) سے عرض کیا کہ ہم کو یہاں لے چلئے ان لوگوں کے ساتھ ہم بھی ان کی طرح بیت اللہ سے چمٹ جائیں ؟ انہوں نے فرمایا کہ : میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں مردود شیطان سے (مطلب غالباً یہ تھا کہ اگر میں طواف کے درمیان ان لوگوں کی طرح ملتزم کی خاص جگہ کا لحاظ کئے بغیر بیت اللہ کی کسی دیوار سے چمٹ جاؤں تو یہ خلاف سنت اور غلط کام ہو گا اور اس سے خدا راضی نہیں ہو گا بلکہ شیطان راضی ہو گا اور میں اس مردود سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں ..... شعیب کہتے ہیں کہ) پھر جب میرے دادا طواف سے فارغ ہو گئے تو دیوار کعبہ کے خاص اس حصہ پر آئے جو باب کعبہ اور حجر اسود کے درمیان ہے (جس کو ملتزم کہتے ہیں) اور مجھ سے فرمایا : خدا کی قسم ! یہی وہ جگہ ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چمٹ گئے تھے ۔ (سنن بیہقی) تشریح خانہ کعبہ کی دیوار کا قریباًٍ دو گز کا جو حصہ حجر اسود اور باب کعبہ کے درمیان ہے وہ ملتزم کہلاتا ہے ۔ حج کے مسنون اعمال میں سے یہ بھی ہے کہ اگر موقع ملے تو طواف کے بعد اس ملتزم سے چمٹ کر دعا کی جائے ۔ مندرجہ ذیل احادیث سے معلوم ہو گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں ایسا ہی کیا تھا : اور سنن ابی داؤد کی روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو ملتزم سے اس طرح چمٹ گئے کہ اپنا سینہ اور اپنا چہرہ اس سے لگا دیا اور ہاتھ بھی پوری طرح پھیلا کے اس پہ رکھ دئیے ، اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا تھا ۔ تشریح ..... اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ملتزم سے چمٹنے والا یہ عمل طواف کے بعد ہونا چاہیے اور اس کی خاص جگہ ملتزم ہی ہے ۔ اللہ کے دیوانوں کو اس میں جو کیفیت نصیب ہوتی ہے وہ بس انہی کا حصہ ہے اور حج کی خاص الخاص کیفیات میں سے ہے ۔
فضائل حرمین: حرم مکہ کی عظمت
عیاش بن ابی ربیعہ مخزومی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میری امت جب تک اس حرم مقدس کا پورا احترام کرتی رہے گی اور اس کی حرمت و تعظیم کا حق ادا کرے گی خیریت سے رہے گی اور جب اس میں یہ بات باقی نہ رہے گی برباد ہو جائے گی ۔ (سنن ابن ماجہ) تشریح ٍمحدثین کرام کا دستور ہے کہ کتاب الحج ہی میں حرمین پاک کے فضائل کی حدیثیں بھی درج کرتے ہیں ، اسی دستور کی پیروی میں حرم مکہ اور حرم مدینہ کے فضائل کی احادیث یہاں درج کی جا رہی ہیں ۔ حرم مکہ کی عظمت خانہ کعبہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنا مقدس بیت (گھر) قرار دیا ہے ، اور اسی نسبت سے شہر مکہ کو جس میں بیت اللہ واقع ہے بلد اللہ الحرام قرار دیا گیا ہے ، گویا جس طرح دنیا بھر کے گھروں میں کعبہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ سے خاص نسبت ہے اسی طرح دنیا بھر کے شہروں میں مکہ معظمہ کو اللہ تعالیٰ کی نسبت کا خاص شرف حاصل ہے ۔ پھر اسی نسبت سے اس کی ہر سمت میں کئی کئی میل کے علاقہ کو حرم (یعنی واجب الاحترام) قرار دیا گیا ہے اور اس کے خاص آداب و احکام مقرر کئے گئے ہیں اور ادب و احترام ہی کی بنیاد پر بہت سی ان باتوں کی بھی وہاں ممانعت ہے جن کی باقی ساری دنیا مین اجازت ہے ۔ مثلاً ان حدود میں کسی کو شکار کی اجازت نہیں ، جنگ اور قتال کی اجازت نہیں ، درخت کاٹنے اور درختوں کے پتے جھاڑنے کی اجازت نہیں ۔ اس محترم علاقہ میں ان سب چیزوں کو ادب و احترام کے خلاف گناہ گارانہ جسارت قرار دیا گیا ہے ۔ اس علاقہ حرم کی حدود پہلے سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے معین کی تھیں ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عہد میں انہی کی تجدید فرمائی اور اب وہ حدود معلوم و معروف ہیں ، گویا یہ پورا علاقہ بلد اللہ الحرام کا صحن ہے اور اس کا وہی ادب و احترام ہے جو اللہ کے مقدس شہر مکہ معظمہ کا .... اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چند احادیث ذیل میں پڑھئے ۔ تشریح ..... گویا بیت اللہ اور بلد اللہ الحرام (مکہ معظمہ) اور پورے علاقہ حرم کی تعظیم و حرمت اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندگی کے صحیح تعلق اور سچی وفاداری کی علامت اور نشانی ہے ۔ جب تک یہ چیز اجتماعی حیثیت سے امت میں باقی رہے گی اللہ تعالیٰ اس مات کی نگہبانی فرمائے گا اور وہ دنیا میں سلامتی اور عزت کے ساتھ رہے گی اور جب امت کا رویہ بحیثیت مجموعی اس بارے میں بدل جائے گا اور خانہ کعبہ اور حرم مقدس کی حرمت و تعظیم کے بارے میں اس میں تقصیر آ جائے گی تو پھر یہ امت اللہ تعالیٰ کی حمایت و نگہبانی کا استحقاق کھو دے گی ، اور اس کے نتیجہ میں تباہیاں اور بربادیاں اس پر مسلط ہوں گی ۔ ہمارے اس زمانہ میں سجر کی سہولتوں کی وجہ سے اور بعض دوسری وجوہ سے بھی اگرچہ حج کرنے والوں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے لیکن وہاں ساری دنیا کے جو مسلمان آتے ہیں ان کا طرز عمل بتاتا ہے کہ بیت اللہ اور حرم مقدس کے ادب و احترام کے لحاظ سے امت میں بحیثیت مجموعی بہت بڑی تقصیر آ گئی ہے اور بلا شبہ یہ بھی ان اسباب میں سے ایک اہم سبب ہے جن کی وجہ سے امت مشرق و مغرب میں اللہ تعالیٰ کی نصرت اور نگہبانی سے محروم کر دی گئی ہے ۔ اللَّهُمَّ عَافِنَا ، وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَعَامِلَنَا بِمَا اَنْتَ اَهْلُهُ وَلَا تُعَامِلْنَا بِمَا نَحْنُ اَهْلُهُ.
حرم مکہ کی عظمت
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اب ہجرت کا حکم نہیں رہا لیکن جہاد ہے ، اور نیت ! تو جب تم سے راہ خدا میں کوچ کرنے کو کہا جائے تو چل دو ..... اور اسی فتح مکہ کے دن آپ نے یہ بھی اعلان فرمایا کہ : یہ شہر مکہ اللہ نے اس کو اسی دن سے محترم قرار دیا ہے جس دن کہ زمین و آسمان ک ی تخلیق ہوئی (یعنی جب اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اسی وقت زمین کے اس قطعہ کو جس پر مکہ معظمہ آباد ہے ، اور اس کے آس پاس کے علاقہ احرام کو واجب الاحترام قرار دیا ، لہذا اللہ کے اس حکم سے قیامت تک کے لیے اس کا ادب و احترام واجب ہے) اور مجھ سے پہلے اللہ نے اپنے کسی بندے کو یہاں قتال فی سبیل اللہ کی بھی اجازت نہیں دی ، اور مجھے بھی دن کے تھوڑے وقت کے لیے اس کی عارضی اور وقتی اجازت دی گئی تھی اور وہ وقت ختم ہو جانے کے بعد اب قیامت تک کے لیے یہاں قتال اور ہر وہ اقدام اور عمل جو اس مقدس جگہ کے ادب و احترام کے خلاف ہو حرام ہے ، اس علاقہ کے خاردار جھاڑ بھی نہ کاٹے چھانٹے جائیں ۔ یہاں کے کسی قابل شکار جانور کو پریشان بھی نہ کیا جائے اور اگر کوئی گری پڑی چیز نظر پڑے تو اس کو وہی اٹھائے جو قاعدے کے مطابق اس کا اعلان اور تشہیر کرتا رہے ، اور یہاں کی سبز گھاس بھی نہ کاٹی اکھاڑی جائے ..... (اس پر آپ کے چچا) حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : “ اذخر گھاس کو مستثنیٰ قرار دیا جائے ، کیوں کہ یہاں کے لوہار اس کو استعمال کرتے ہیں اور گھروں کی چھتوں کے لیے بھی اس کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے اس عرض کرنے پر اذخر گھاس کو مستثنیٰ فرما دیا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو اعلانوں کا ذکر ہے ، جو آپ نے فتح مکہ کے دن خاص طور سے فرمائے تھے ..... پہلا اعلان یہ تھا کہ : اب ہجرت کا حکم نہیں رہا ..... اس کا مطلب سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ فتح مکہ سے پہلے جب مکہ پر ان اہل کفر و شرک کا اقتدار تھا جو اسلام اور مسلمانوں کے سخت دشمن تھا ، اور مکہ میں رہ کر کسی مسلمان کے لیے اسلامی زندگی گذارنا گویا ناممکن تھا تو حکم یہ تھا کہ مکہ میں اللہ کا جو بندہ اسلام قبول کرے اس کے لیے اگر ممکن ہو تو وہ مکہ سے مدینہ ہجرت کر جائے جو اس وقت اسلامی مرکز اور روئے زمین پر اسلامی زندگی کی واحد تعلیم گاہ اور تربیت گاہ تھی ۔ بہرحال ان کاص حالات میں یہ ہجرت فرض تھی اور اس کی بڑی فضیلت اور اہمیت تھی ..... لیکن جب ۸ھ میں اللہ تعالیٰ نے مکہ معظمہ پر بھی اسلامی اقتدار قائم کرا دیا تو پھر ہجرت کی ضرورت ختم ہو گئی ، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ ہی کے دن اعلان فرما دیا کہ : اب ہجرت کا وہ حکم اٹھا لیا گیا ..... اس سے قدرتی طور پر ان لوگوں کو بڑی حسرت اور مایوسی ہوئی ہو گی جن کو اب اسلام کی توفیق ملی تھی اور ہجرت کی عظیم فضیلت کا دروازہ بند ہو جانے کی وجہ سے وہ اس سعادت سے محروم رہ گئے تھے ..... ان کی اس حسرت کا مداوا فرماتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ہجرت کی فضیلت و سعادت کا دروازہ اگرچہ بند ہو گیا ہے لیکن جہاد فی سبیل اللہ کا راستہ اور اللہ تعالیٰ کے سارے اوامر کی اطاعت کی نیت اور بالخصوص اعلاء کلمۃ اللہ کی راہ میں ہر قربانی کے لیے دلی عزم و آمادگی کا دروازہ کھلا ہوا ہے ، اور برٰ سے بڑی سعادت اور فضیلت ان راہوں سے اللہ کا ہر بندہ حاصل کر سکتا ہے ۔ دوسرا اعلان فتح مکہ کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ : یہ شہر جس کی عظمت و حرمت دور قدیم سے مسلم چلی آ رہی ہے یہ مضح رسم و رواج یا کسی فرد یا پنچائیت کی تجویز نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے ازلی حکم سے ہے اور قیامت تک کے لیے اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اس کا خاص ادب و احترام کیا جائے ، یہاں تک کہ اللہ کے لیے جہاد و قتال جو ایک اعلیٰ درجہ کی عبادت اور بڑے درجہ کی سعادت ہے یہاں اس کی بھی اجازت نہیں ہے ۔ مجھ سے پہلے کسی بندہ کو اس کی اجازت وقتی طور پر بھی نہیں دی گئی ۔ مجھے بھی بہت تھوڑے سے وقت کے لیے اس کی اجازت اللہ تعالیٰ نے دی تھی اور وہ بھی وقت ختم ہونے کے ساتھ ختم ہو گئی ۔ اب قیامت تک کے لیے کسی بندے کو یہاں قتال کی اجازت نہیں ہے .... جس طرح مخصوص سرکاری علاقوں کے خاص قوانین ہوتے ہیں اسی طرح یہاں کے خاص آداب اور قوانین ہیں ، اور وہ وہی ہیں جن کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر اعلان فرمایا .... قریب قریب اسی مضمون کی حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے ۔
حرم مکہ کی عظمت
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ : کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ مکہ میں ہتھیار اٹھائے ۔ (صحیح مسلم) تشریح جمہور علماء امت کے نزدید اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مکہ اور حدود حرم میں کسی مسلمان کو دوسرے کے خلاف ہتھیار اٹھانا اور اس کا استعمال کرنا جائز نہیں ، یہ اس مقام مقدس کے ادب و احترام کے خلاف ہے ۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ کسی کو ہتھیار ہاتھ میں لینے کی اجازت ہی نہ ہو ۔ واللہ اعلم ۔
حرم مکہ کی عظمت
ابو شریح عدوی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عمرو بن سعید سے کہا ، جب کہ وہ (یزید کی طرف سے مدینہ کا حاکم تھا اور اس کے حکم سے عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ کے خلاف) مکہ پر چڑھائی کرنے کے لیے لشکر تیار کر کے روانہ کر رہا تھا کہ اے امیر ! مجھے اجازت دیجئے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فرمان بیان کروں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے اگلے دن (مکہ میں) ارشاد فرمایا تھا ۔ میں نے اپنے کانوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ فرمان خود سنا تھا اور میرے ذہن نے اس کو یاد کر لیا تھا اور جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے وہ فرمان صادر ہو رہا تھا اس وقت میری آنکھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہی تھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کی ، اس کے بعد فرمایا تھا کہ : اور اس کے ماحو کو اللہ نے حرم قرار دیا ہے ، اس کی حرمت کا فیصلہ انسانوں سے نہیں کیا ہے ، اس لیے جو آدمی اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اس کے لیے حرام ہے کہ وہ یہاں خونریزی کرے بلکہ یہاں کے درختوں کا کاٹنا بھی منع ہے ۔ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) اور اگر کوئی شخص میرے قتال کو سند بنا کر اپنے لیے اس کا جواز نکالے تو اس سے کہو کہ اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اجازت دی تھی ، تجھے اجازت نہیں دی ہے ، اور مجھے بھی اللہ نے ایک دن کے تھوڑے سے وقت کے لیے عارضی اور وقتی طور پر اجازت دی تھی ، اور اس وقت کے ختم ہونے کے بعد وہ حرمت لوٹ آئی ، اور اب قیامت تک کسی کے لیے اس کا جواز نہیں ہے ..... (اس کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ) جو لوگ یہاں موجود ہیں اور جنہوں نے میری یہ بات سنی ہے وہ دوسرے لوگوں کو یہ بات پہنچا دیں (اس لیے اے امیر ! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان تم کو پہنچایا ہے) ..... ابو شریح سے کسی نے پوچھا کہ پھر عمرو بن سعید نے کیا جواب دیا ، انہوں نے بتلایا کہ اس نے کہا کہ : ابو شریح ! مین یہ باتیں تم سے زیادہ جانتا ہوں ، حرم کسی نافرمان کو یا ایسے آدمی کو جو کسی کا ناحق خون کر کے یا کوئی نقصان کر کے بھاگ گیا ہو پناہ نہیں دیتا (یعنی ایسے لوگوں کے خلاف حرم میں بھی کاروائی کی جائے گی) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اسلام کی پہلی ہی صدی میں سیاسی اقتدار کی ہوس رکھنے والوں نے اسلام کے ساتھ جو معاملہ کیا اور اس کے احکام کو اپنی اغراض کے لیے جس طرح توڑا مروڑا وہ تاریخ اسلام کا نہایت تکلیف دہ باب ہے ۔ ابو شریح عدوی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تھے ، انہوں اموی حاکم عمرو بن سعید کے سامنے بروقت کلمہ حق کہہ کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سنا کر اپنا فرض ادا کر دیا .... صحیحین کی اس روایت میں یہ مذکور نہیں ہے کہ عمرو بن سعید نے جو بات کہی ، ابو شریح نے اس کے جواب میں کچھ کہا یا نہیں ۔ لیکن مسند احمد کی روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا : قَدْ كُنْتُ شَاهِدًا ، وَكُنْتَ غَائِبًا وَقَدْ أَمَرَنَا أَنْ يُبَلِّغَ شَاهِدُنَا غَائِبَنَا ، وَقَدْ بَلَّغْتُكَ فتح مکہ کے دن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات فرمائی تھی مین اس وقت وہاں حاضر اور موجود تھا اور تم وہاں نہیں تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا تھا کہ جو یہاں موجود ہے وہ میری یہ بات ان لوگوں کو پہنچا دیں جو یہاں حاضر نہیں ہیں ..... میں نے اس حکم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعمیل کر دی اور تم کو یہ بات پہنچا دی ۔ ابو شریح عدوی رضی اللہ عنہ کے اس جواب میں یہ بھی مضمر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مقصد و منشاء سمجھنے کے زیادہ حقدار وہ لوگ ہیں جن کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات فرمائی ، اور جنہوں نے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سنی ۔
حرم مکہ کی عظمت
عبداللہ بن عدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ مکہ میں حزورہ (ایک ٹیلے) پر کھڑے تھے اور مکہ سے مخاطب ہو کر فرما رہے تھے : خدا کی قسم ! تو اللہ کی زمین میں سب سے بہتر جگہ ہے ، اور اللہ کی نگاہ میں سب سے زیادہ محبوب ہے ، اور اگر مجھے یہاں سے نکلنے اور ہجرت کرنے پر مجبور نہ کیا گیا ہوتا ، تو میں ہرگز تجھے چھوڑ کے نہ جاتا ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد) تشریح اس حدیث میں اس کی تصریح ہے کہ مکہ معظمہ تمام روئے زمیں میں سب سے افضل اور باعظمت اور اللہ کے نزدیک محبوب ترین جگہ ہے ، اور ہونا بھی یہی چاہئے ، کیوں کہ اس میں کعبۃ اللہ ہے جو حق تعالیٰ کی خاص الخاص تجلی گاہ اور قیامت تک کے لیے اہل ایمان کا قبلہ ہے ، جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی طواف کرتے تھے ، اور اسی کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے ..... اسی مضمون کی حدیث قریب قریب انہی الفاظ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کی گئی ہے :
حرم مکہ کی عظمت
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا : تو کس قدر پاکیزہ اور دل پسند شہر ہے ، اور تو مجھے کتنا محبوب ہے ، اور اگر میری قوم نے مجھے نکالا نہ ہوتا تو میں تجھے چھوڑ کے کسی اور جگہ نہ بستا .... (جامع ترمذی) تشریح ان دونوں حدیثوں میں اس کا ذکر نہیں ہے کہ یہ بات آپ نے کس موقع پر فرمائی ۔ شارحین نے حضرت عبداللہ بن عباس والی اس حدیث کی شرح میں ذکر کیا ہے کہ آپ نے یہ بات فتح مکہ کے سفر میں مکہ سے واپس ہونے کے وقت فرمائی تھی ۔ واللہ اعلم ۔
مدینہ طیبہ کی عظمت اور محبوبیت
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ : اللہ تعالیٰنے مدینہ کا نام “ طابہ ” رکھا ہے ۔ (و صحیح مسلم) تشریح اکثر محدثین کا دستور ہے کہ وہ اپنی مؤلفات میں حج و عمرہ سے متعلق حدیثوں کے ساتھ “ باب فضل مکہ ” کے تحت مکہ معظمہ کی عظمت و فضیلت کی حدیثیں ، اور انہی کے ساتھ “ باب فضل مدینہ ” کے تحت مدینہ طیبہ کی عظمت کی حدیثیں بھی درج کرتے ہیں ۔ اس طریقہ کی پیروی کرتے ہوئے یہاں بھی پہلے مکہ معظمہ سے متعلق احادیث درج کی گئی ہیں اور اب مدینہ طیبہ سے متعلق درج کی جا رہی ہیں ۔ تشریح ..... طابہ ، طیبہ ، اور طیّبہ ان تینوں کے معنی پاکیزہ اور خوشگوار کے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا نام رکھا اور اس کو ایسا ہی کر دیا ، اس میں روحون کے لیے جو خوشگواری ، جو سکون و اطمینان اور جو پاکیزگی ہے وہ بس اسی کا حصہ ہے ۔
مدینہ طیبہ کی عظمت اور محبوبیت
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : حضرت ابراہیمؑ نے مکہ کے “ حرم ” ہونے کا اعلان کیا تھا (اور اس کے خاص آداب و احکام بتائے تھے) اور میں مدینہ کے “ حرم ” قرار دئیے جانے کا اعلان کرتا ہوں ، اس کے دونوں طرف کے دروں کے درمیان پورا رقبہ واجب الاحترام ہے ، اس میں خوں ریزی نہ کی جائے ، کسی کے خلاف ہتھیار نہ اٹھایا جائے (یعنی اسلحہ کا استعمال نہ کیا جائے) اور جانورون کے چارے کی ضرورت کے سوا درختوں کے پتے بھی نہ جھاڑے جائیں ۔ (صحیح مسلم) تشریح جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوا ، مدینہ طیبہ بھی سرکاری علاقہ کی طرح واجب الاحترام ہے ، اور وہاں ہر وہ عمل اور اقدام منع ہے جو اس کی عظمت و حرمت کے خلاف ہو ، لیکن اس کے احکام بالکل وہ نہیں ہیں جو حرم مکہ کے ہیں ۔ خود اسی حدیث مین اس کا اشارہ موجود ہے ، اس میں جانوروں کے چارہ کے لیے وہاں کے درختوں کے پتے توڑنے اور جھاڑنے کی اجازت دی گئی ہے ، جب کہ حرم مکہ میں اس کی بھی اجازت نہیں ہے ۔
مدینہ طیبہ کی عظمت اور محبوبیت
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں حرم قرار دیتا ہوں مدینہ کے دونوں طرف کے سنکتانی کناروں کے درمیان کے علاقہ کو (یعنی اس کےواجب الاحترام ہونے کا اعلان کرتا ہوں ، اور حکم دیتا ہوں کہ) اس کے خاردار درخت کاٹے نہ جائیں اور اس میں رہنے والے جانوروں کو شکار نہ کیا جائے .... اسی سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا : کہ (بعض اشیاء کی کمی اور بعض تکلیفوں کے باوجود) مدینہ لوگوں کے لیے بہتر ہے ، اگر وہ اس کی خیر و برکت کو جانتے (تو کسی تنگی اور پریشانی کی وجہ سے اور کسی لالچ میں اس کو نہ چھوڑتے) جو کوئی اپنی پسند اور خواہش سے اس کو چھوڑ کے جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ اپنے کسی ایسے بندے کو بھیج دے گا جو اس سے بہتر اور افضل ہو گا (یعنی کسی کے اس طرح چلے جانے سے مدینہ میں کوئی کمی نہیں آئے گی بلکہ وہ جانے والا ہی اس کی برکات سے محروم ہو کر جائے گا) اور جو بندہ مدینہ کی تکلیفوں ، تنگیوں اور مشقتوں پر صبر کر کے وہاں پڑا رہے گا میں قیامت کے دن اس کی سفارش کروں گا یا اس کے حق میں شہادت دوں گا ۔ (صحیح مسلم) تشریح سفارش اس کی کہ اس کے قصور اور اس کی خطائیں معاف کر دی جائیں اور اس کو بخش دیا جائے ۔ اور شہادت اس کے ایمان اور اعمال صالحہ کی اور اس بات کی کہ یہ بندہ تنگیوں تکلیفوں پر صبر کئے ہوئے مدینہ ہی میں پڑا رہا ۔
مدینہ طیبہ کی عظمت اور محبوبیت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میرا جو امتی مدینہ کی تکلیفوں اور سختیوں پر صبر کر کے وہاں رہے گا ، میں قیامت کے دن اس کی شفاعت اور سفارش کروں گا ۔ (صحیح مسلم)
مدینہ طیبہ کی عظمت اور محبوبیت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں کا دستور تھا کہ جب وہ درخت پر نیا پھل دیکھتے تو اس کو لا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرتے ، آپ اس کو قبول فرما کر اس طرح دعا فرماتے : اے اللہ ! ہمارے پھلوں میں اور پیداوار میں برکت دے ، اور ہمارے شہر مدینہ میں برکت دے ، اور ہمارے صاع اور ہمارے مد میں برکت دے ! الہٰی ! ابراہیمؑ تیرے خاص بندے ار تیرے خلیل اور تیرے نبی تھے ، اور میں بھی تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں ۔ انہوں نے مکہ کے لیے تجھ سے دعا کی تھی ، اور میں مدینہ کے لیے تجھ سے ویسی ہی دعا کرتا ہوں اور اس کے ساتھ اتنی ہی مزید ....... پھر آپ کسی چھوٹے بچے کو بلاتے اور وہ نیا پھل اس کو دے دیتے ۔ (صحیح مسلم) تشریح پھلوں اور پیداوار میں برکت کا مطلب تو ظاہر ہے کہ زیادہ سے زیادہ پیداوار ہو اور فصل بھرپور ہو ۔ اور شہر مدینہ میں برکت کا مطلب یہ ہے کہ وہ خوب آباد ہو ، اور اس کے رہنے والوں پر اللہ کا فضل ہو .... اور صاع اور مد دو پیمانے ہیں ۔ اس زمانہ میں غلہ وغیرہ کی خرید و فروخت ان پیمانوں ہی سے ہوتی تھی ، ان میں برکت کا مطلب یہ ہے کہ ایک صاع ایک مد جتنے آدمیوں کے لیے یا جتنے دنوں کے لیے کافی ہوتا ہے اس سے زیادہ کے لیے کافی ہو ۔ قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کا ذکر ہے جو آپ نے اپنی بیوی بچے کو مکہ کی غیر آباد اور بے آب و گیاہ وادی میں بسا کر اللہ سے ان کے لیے کی تھی ، کہ : “ اے اللہ ! تو اپنے بندوں کے دلوں میں ان کی محبت و مودت ڈال دے ، اور ان کو ان کی ضرورت کا رزق اور پھل وغیرہ پہنچا ، اور یہاں کے لیے امن اور سلامتی مقدر فرما ! ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بطور نظیر اس ابراہیمیؑ دعا کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ سے مدینہ کے لیے وہی دعا ، بلکہ مزید اضافے کے ساتھ کرتے تھے ..... اس دعا کا یہ ثمرہ بھی ظاہر ہے کہ دنیا بھر کے جن ایمان والے بندوں کو مکہ سے محبت ہے ان سب کو مدینہ طیبہ سے بھی محبت ہے ، اور اس محبوبیت میں تو اس کا حصہ مکہ سے یقیناً زیادہ ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دعا میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ کا بندہ ، اس کا نبی اور خلیل کہا ، اور اپنے کو صرف بندہ اور نبی کہا ، حبیب ہونے کا ذکر نہیں کیا ۔ یہ تواضع اور کسر نفسی آپ کا مستقل مزاج تھا ۔ بالکل نیا اور درخت کا پہلا پھل چھوٹے بچے کو بلا کر دینے میں یہ سبق ہے کہ ایسے مواقعوں پر چھوٹے معصوم بچوں کو مقدم رکھنا چاہئے ۔ اس کے علاوہ نئے پھل اور کمسن بچے کی مناسبت بھی ظاہر ہے ۔
مدینہ طیبہ کی عظمت اور محبوبیت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک مدینہ اپنے فاسد اور خراب عناصر کو اس طرح باہر نہ پھینک دے گا جس طرح لوہار کی بھٹی لوہے کے میل کو دور کر دیتی ہے ۔ (صحیح مسلم) تشریح یعنی قیامت آنے سے پہلے مدینہ کی آبادی کو ایسے خراب عناصر سے پاک صاف کر دیا جائے گا جو عقائد و افکار اور اعمال و اخلاق کے لحاظ سے گندے ہوں گے ۔
مدینہ طیبہ کی عظمت اور محبوبیت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : “ مدینہ کے راستوں پر فرشتے مقرر ہیں ، اس میں طاعون اور دجال داخل نہیں ہو سکتا ۔ ” (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح صحیحین ہی کی بعض دوسری حدیثوں میں مدینہ طیبہ کے ساتھ مکہ معظمہ کی بھی یہ خصوصیت بیان کی گئی ہے کہ دجال اس میں داخل نہیں ہو سکے گا ۔ یہ غالباً ان دعاؤں کی برکات میں سے ہے جو اللہ کے خلیل سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور اس کے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں مقدس و مبارک شہروں کے لیے کی تھیں ۔
مدینہ طیبہ کی عظمت اور محبوبیت
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : جو اس کی کوشش کر سکے کہ مدینہ میں اس کی موت ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ (اس کی کوشش کرے ، اور) مدینہ میں مرے ۔ میں ان لوگوں کی ضرور شفاعت کروں گا جو مدینہ میں مریں گے (اور وہاں دفن ہوں گے) ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی) تشریح ظاہر ہے کہ یہ بات کہ موت فلاں جگہ آئے ، کسی کے اختیار میں نہیں ہے ۔ تاہم بندہ اس کی آرزو اور دعا کر سکتا ہے اور کسی درجہ میں اس کی کوشش بھی کر سکتا ہے ۔ مثلاً یہ کہ جس جگہ مرنا چاہے وہیں جا کر پڑ جائے ، اگر قضا و قدر کا فیصلہ خلاف نہیں ہے ، تو موت وہیں آئے گی ....... بہر حال حدیث کا مدعا یہی ہے کہ جو شخص یہ سعادت حاصل کرنا چاہے ، وہ اس کے لیے اپنے امکان کی حد تک کوشش کرے ، اخلاص کے ساتھ کوشش کرنے والوں کی اللہ تعالیٰ بھی مدد کرتا ہے ۔
مدینہ طیبہ کی عظمت اور محبوبیت
یحییٰ بن سعید انصاری تابعی سے بطریق ارسال روایت ہے (یعنی وہ صحابی کا واسطہ ذکر کئے بغیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مدینہ کے قبرستان میں) تشریف فرما تھے اور (کسی میت کی) قبر کھودی جا رہی تھی ۔ ایک صاحب نے قبر میں جھانک کر دیکھا اور ان کی زبان سے نکلا کہ مسلمان کے لیے یہ اچھی آرام گاہ نہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ تمہاری زبان سے بہت بری بات نکلی ۔ (ایک مسلمان کو مدینہ میں موت اور قبر نصیب ہوئی اور تم کہتے ہو کہ مسلمان کے لیے یہ آرام گاہ اچھی نہیں) ۔ ان صاحب نے (بطور معذرت) عرض کیا : حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرا مطلب یہ نہیں تھا (کہ مدینہ میں موت اور قبر اچھی نہیں) بلکہ میرا مقصد راہ خدا میں شہادت سے تھا (یعنی میں یہ عرض کرنا چاہتا تھا کہ یہ مرنے والے بھائی اگر بستر پر مرنے اور اس قبر میں دفن ہونے کے بجائے جہاد کے کسی میدان میں شہید ہوتے ، اور ان کی لاش وہاں خاک و خون میں پڑپتی تو اس قبر میں دفن ہونے سے یہ زیادہ اچھا ہوتا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : راہ خدا میں شہید ہونے کے برابر تو نہیں (یعنی شہادت کا مقام تو بے شک بلند ہے ، لیکن مدینہ میں مرنا اور اس کی خاک میں دفن ہونا بھی بڑی سعادت اور خوش نصیبی ہے) روئے زمین پر کوئی جگہ ایسی نہیں ہے جہاں اپنی قبر کا ہونا مجھے مدینہ سے زیادہ محبوب ہو ..... یہ بات آپ نے تین دفعہ ارشاد فرمائی ۔ (موطا امام مالک) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مطلب بظاہر یہ ہے کہ شہادت فی سبیل اللہ کی فضیلت و عظمت بے شک مسلم ہے اور بستر پر مرنا اور میدان جہاد میں اللہ کے لیے سر کٹانا برابر نہیں ، لیکن مدینہ میں مرنا اور یہاں دفن ہونا بھی بڑی خوش بختی ہے ، جس کی خود مجھے بھی چاہت اور آرزو ہے ۔ امام بخاریؒ نے اپنی جامع صحیح بخاری میں کتاب الحج کے بالکل آخر میں مدینہ طیبہ کے فضائل کے سلسلہ کی حدیثیں ذکر کرنے کے بعد اس بیان کا خاتمہ امیر المومنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی اس مشہور دعا پر کیا ہے کہ : اللَّهُمَّ ارْزُقْنِي شَهَادَةً فِي سَبِيلِكَ ، وَاجْعَلْ مَوْتِي فِي بَلَدِ رَسُولِكَ اے اللہ ! مجھے اپنی راہ میں شہادت بھی دے اور اپنے محبوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک شہر (مدینہ) میں مرنا اور دفن ہونا بھی نصیب فرما ! اس دعا کا واقعہ ابن سعد نے صحیح سند کے ساتھ یہ روایت کیا ہے کہ عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ نے خواب دیکھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ شہید کر دئیے گئے ہیں ۔ انہوں نے یہ خواب حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بڑی حسرت سے کہا : أَنَّى لِيْ بِالشَّهَادَةِ وَأَنَا بَيْنَ ظَهْرَانَيْ جَزِيْرَةِ الْعَرَبِ لَسْتُ أَغْزُوْ وَالنَّاسُ حَوْلِيْ مجھے شہادت فی سبیل اللہ کیسے نصیب ہو سکتی ہے جب کہ میں جزیرۃ العرب کے درمیان مقیم ہوں (اور وہ سب دارالاسلام بن چکا) اور میں خود جہاد نہیں کرتا ، اور اللہ کے بندے ہر وقت میرے آس پاس رہتے ہیں ۔ پھر خود ہی کہا : بَلَى يَاْتِىْ بِهَا اللهُ اِنْ شَاءَ (فتح البارى بحواله ابن سعد) مجھے شہادت کیوں نہیں نصیب ہو سکتی ، اگر اللہ چاہے تو انہی حالات میں مجھے شہادت سے نوازے گا ۔ اس کے بعد آپ نے اللہ تعالیٰ سے وہ دعا کی جو اوپر درج کی گئی ہے ۔ اللَّهُمَّ ارْزُقْنِي شَهَادَةً فِي سَبِيلِكَ ، وَاجْعَلْ مَوْتِي فِي بَلَدِ رَسُولِكَ آپ کی زبان سے یہ دعا سن کر آپ کی صاحبزادی ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ : “ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ راہِ خدا میں شہید ہوں ، اور موت مدینہ میں بھی ہو ؟ ” آپ نے فرمایا : “ اللہ چاہے گا تو یہ دونوں باتیں ہو جائیں گی ۔ ” اس سلسلہ کی روایات میں یہ بھی ہے کہ لوگوں کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس عجیب و غریب بلکہ بظاہر ناممکن سی دعا سے تعجب ہوا تھا اور کسی کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ دونوں باتیں کس طرح ہو سکتی ہیں ۔ جو ابو لؤلو نے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی محراب میں آپ کو زخمی کیا ، تب سب نے سمجھا کہ دعا کی قبولیت اس طرح مقدر تھی ۔بے شک جب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے تو اس چیز کو واقع کر کے دکھا دیتا ہے جس کے امکان میں بھی انسانی عقلیں شبہ کریں ۔ إِنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ.
مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و فضیلت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میری اس مسجد میں (یعنی مدینہ طیبہ کی مسجد نبوی میں) ایک نماز ، دوسری تمام مساجد کی ہزار نمازوں سے بہتر ہے ، سوائے مسجد خرم کے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم جس کی بنیاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد مدینہ طیبہ میں رکھی ، پھر جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بھر نمازیں پڑھیں اور جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری دینی سرگرمیوں ، تعلیم و تربیت ، ہدایت و ارشاد اور دعوت و جہاد کا مرکز بنی رہی ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنے مقدس بیت خانہ کعبہ اور مسجد حرام کے ما سوا دنیا کے سارے معبدوں پر عظمت و فضیلت بخشی ہے ۔ صحیح احادیث میں ہے کہ اس کی ایک نماز اجر و ثواب میں دوسری عام مساجد کی ہزار نمازوں سے بڑھ کر ہے ۔ اس حدیث میں مسجد نبوی کی نماز کو مکہ معظمہ اور مسجد حرام کے علاوہ دوسری عام مساجد کی ہزار نمازوں سے بہتر بتلایا گیا ہے لیکن مسجد حرام کے درجہ سے یہ حدیث ساکت ہے ، مگر دوسری مندرجہ ذیل حدیث میں اس کی بھی وضاحت فرما دی گئی ہے ۔
مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و فضیلت
حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میری اس مسجد میں ایک نماز دوسری مسجدوں کی ہزار نمازوں سے افضل ہے سوائے مسجد حرام کے ، اور مسجد حرام کی ایک نماز میری اس مسجد کی سو نمازوں سے افضل ہے ۔ (مسند احمد) تشریح اس حدیث سے یہ بات واضح ہو گئی کہ دنیا کی عام مسجدوں کے مقابلہ میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں نماز کا ثواب ہزار گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے اور مسجد حرام کی نماز مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے بھی سو درجہ افضل ہے ، یعنی عام مساجد کے مقابلہ میں مسجد حرام میں نماز کا ثواب ایک لاکھ گنا بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ ہے ۔
مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و فضیلت
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے میری مسجد میں مسلسل ۴۰ نمازیں پڑھیں ایک نماز بھی فوت نہیں ہوئی اس کے لیے لکھ دی جائے گی نجات اور براءت دوزخ سے اور اسی طرح براءت نفاق سے ۔ (مسند احمد ، معجم للطبرانی) تشریح بعض اعمال اللہ تعالیٰ کے ہاں اپنی خاص مقبولیت اور محبوبیت کی وجہ سے بڑے بڑے فیصلوں کا باعث بن جاتے ہین ۔ اس حدیث میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں مسلسل ۴۰ نمازیں ادا کرنے پر بشارت سنائی گئی ہے کہ ایسے شخص کے بارے میں فرمان الٰہی ہو جائے گا کہ یہ بندہ نفاق کی نجاست سے بالکل پاک ہے ، اور دوزخ اور ہر قسم کے عذاب سے اس کو نجات اور چھٹی ہے ۔
مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و فضیلت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان کی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغیچہ ہے ، اور میرا منبر میرے حوض کوثر پر ہے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جس جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منبر مبارک تھا جس پر رونق افروز ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبات دیتے تھے (اور وہ جگہ اب بھی معلوم اور متعین ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ منبر کی اس جگہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ شریفہ کے درمیان جو قطعہ زمین ہے وہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور عنایتوں کا خاص مورد اور محل ہے اور اس کی وجہ سے وہ گویا جنت کے باغوں میں سے ایک باغیچہ ہے اور اس لیے اس کا مستحق ہے کہ اللہ کی رحمت اور جنت کے طالبوں کو اس کے ساتھ جنت کی سی دلچسپی ہو ۔ اور کہا جا سکتا ہے کہ اللہ کا جو بندہ ایمان و اخلاص کے ساتھ اللہ کی رحمت اور جنت کا طالب بن کر اس قطعہ ارض میں آیا وہ گویا جنت کے ایک باغیچہ میں آ گیا اور آخرت میں وہ اپنے کو جنت کے ایک باغیچہ ہی میں پائے گا ۔ حدیث کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : “ میرا منبر میرے حوض کوثر پر ہے ” اس کا مطلب بظاہر یہ ہے کہ آخرت میں حوض کوثر پر میرا منبر ہو گا اور جس طرح اس دنیا میں اس منبر سے میں اللہ کے بندوں کو اس کی ہدایت پہنچاتا ہوں اور پیغام سناتا ہوں اسی طرح آخرت میں اس منبر پر جو حوض کوثر پر میرا نصب ہو گا اس خداوندی ہدایت کے قبول کرنے والوں کو رحمت کے جام پلاؤں گا ، پس جو کوئی قیامت کے دن کے لیے آب کوثر کا طالب ہو وہ آگے بڑھ کر اس منبر پر سے دئیے جانے والے پیغام ہدایت کو قبول کرے اور اس دنیا میں اس کو اپنی روحانی غذا بنائے ۔
مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و فضیلت
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : دنیا میں صرف تین مسجدیں ہیں ، ان کے سوا کسی مسجد کے لیے رخت سفر نہ باندھا جائے ۔ مسجد حرام ، مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) اور میری یہ مسجد (مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ یہ عظمت و شرف صرف ان تین مسجدوں کو حاصل ہے کہ ان میں اللہ کی عبادت کرنے کے لیے سفر کرنا درست ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے قرب و رضا کا باعث ہے ۔ ان کے علاوہ کسی مسجد کو یہ درجہ اور شرف حاصل نہیں ہے ، بلکہ ان کے لیے سفر کرنے کی ممانعت ہے ۔ ظاہر ہے کہ اس حدیث کا تعلق صرف مساجد سے ہے ، اور بلا شبہ اس حدیث کی رو سے مسجد حرام اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسجد اقصیٰ کے سوا دنیا کی کسی بھی مسجد میں عبادت کے لیے سفر کرنا ممنوع ہے ، لیکن دوسرے جائز دنیوی و دینی مقاصد مثلاً تجارت ، تحصیل دین ، صحبت صلحاء اور تبلیغ و دعوت وغیرہ کے لیے سفر کرنے سے اس حدیث کا کوئی تعلق نہیں ۔
زیارتِ روضہ مطہرہ
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے حج کیا اور اس کے بعد میری قبر کی زیارت میری وفات کے بعد ، تو وہ (زیارت کی سعادت حاصل کرنے میں) انہی لوگوں کی طرح ہے جنہوں نے میری حیات میں میری زیارت کی ۔ (شعب الایمان للبیہقی ، معجم کبیر و اوسط للطبرانی) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی قبر مبارک میں بلکہ تمام انبیااء علیہم السلام کا اپنی منور قبور میں زندہ ہونا جمہور امت کے مسلمات میں سے ہے ، اگرچہ حیات کی نوعیت میں اختلاف ہے اور روایات اور خواص امت کے تجربات سے یہ بھی ثابت ہے کہ جو امتی قبر پر حاضر ہو کر سلام عرض کرتے ہیں آپ ان کا سلام سنتے ہیں اور جواب دیتے ہیں ، ایسی صورت میں بعد وفات آپ کی قبر پر حاضر ہونا اور سلام عرض کرنا ایک طرح سے آپ کی خدمت میں حاضر ہونے اور بالمشافہ سلام کا شرف حاصل کرنے ہی کی ایک صورت ہے ، اور بلا شبہ ایسی سعادت ہے کہ اہل ایمان ہر قیمت پر اس کو حاصل کرنے کی کوشش کریں ۔ اگرچہ روضہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت حج کا کوئی رکن یا جز نہیں ہے ، لیکن قدیم سے امت کا یہ تعامل چلا آ رہا ہے کہ خاص کر دور دراز علاقوں کے مسلمان جب حج کو جاتے ہیں تو روضہ پاک کی زیارت اور وہاں صلوٰۃ و سلام کی سعادت بھی ضرور حاصل کرتے ہیں ۔ اسی لیے حدیث کے بہت سے مجموعوں میں کتاب الحج کے آخر میں زیارتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں بھی درج کی گئی ہیں ، اسی دستور کی پیروی کرتے ہوئے کتاب الحج کے اس سلسلہ کو ہم بھی زیارت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی حدیثوں پر ختم کرتے ہیں۔
زیارتِ روضہ مطہرہ
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو گی ۔ (صحیح ابن خزیمہ ، سنن دار قطنی ، شعب الایمان للبیہقی) تشریح اس سلسلہ “ معارف الحدیث ” کی جلد اول میں وہ حدیثیں درج ہو چکی ہیں جن میں فرمایا گیا ہے کہ جب تک ایک امتی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اللہ تعالیٰ کے سوا دنیا کی ہر چیز سے (حتیٰ کے اپنے ماں باپ ، اہل و عیال اور خود اپنی ذات سے بھی) زیادہ نہ ہو اس وقت تک اس کو ایمان کی حقیقت و لذت حاصل نہیں ہو سکتی ..... اور روضہ اقدس نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت بلا شبہ اس محبت کے لازمی تقاضوں میں سے ہے ، اور گویا اس کی ایک عملی صورت ہے ۔ عربی شاعر نے کہا ہے ؎ امر (1) على الديار ديار ليلى أقبل ذا الجدار و ذا الجدارا وما حب الديار شغف قلبى و لكن حب من سكن الديارا علاوہ ازیں زیارت کے وقت زائر کے قلب مومن کی جو کیفیت ہوتی ہے اور جوار نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت ہے ایمانی عہد کی تجدید ، گنوہوں پر ندامت و شرمساری ، انابت الی اللہ اور توبہ و استغفار کی جو لہریں اس وقت اس کے قلب میں اٹھتی ہیں اور محبت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے جو جذبات موجزن ہوتے ہیں اور محبت و ندامت کے ملے جلے جذبات آنکھوں سے جو آنسو گراتے ہیں ان میں سے ہر چیز ایسی ہے جو شفاعت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بلکہ مغفرت خداوندی کو بھی واجب کر دیتے ہے ، اس لیے اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ روضہ اقدس نبوی کے ہر صاحب ایمان زائر کو ان شاء اللہ ضرور شفاعت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نصیب ہو گی .... ہاں اگر بدنصیبی سے کوئی “ زائر ” ایسا ہے جس کے قلب کو ان کیفیات و جذبات اور ان واردات میں سے کچھ بھی نصیب نہیں ہوتا تو سمجھنا چاہیے کہ اس کا قلب دولت ایمانی سے خالی ہے پھر اس کی زیارت حقیقی زیارت نہیں صرف صورت زیارت ہے ، اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں کسی عمل کی بھی صرف صورت معتبر نہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کے جن منافع اور برکات و مصالح کا اوپر ذکر کیا گیا ہے اگر اس کو پیش نظر رکھ کے ان احادیث پر غور کیا جائے جو اس زیارت کی ترغیب میں مروی ہیں تو خواہ سند کی لحاظ سے ان پر کلام کیا جا سکے (1) لیکن معنوی لحاظ سے وہ دین کے پورے فکری اور عملی نظام کے ساتھ بالکل مرتبط اور ہم آہنگ نظر آئیں گی اور ذہن سلیم اس پر مطمئن ہو جائے گا ۔ کہ قبر مبارک کی یہ زیارت صاحب قبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کے ساتھ ایمانی تعلق اور محبت و توقیر میں اضافہ اور دینی ترقی کا خاص وسیلہ ہے ، یقین ہے کہ ہر خوش نصیب صاحب ایمان بندہ جسے اللہ تعالیٰ نے زیارت کی سعادت سے بہرہ ور فرمایا ہے اس کی شہادت دے سکے گا ۔ زیارت روضہ اقدس کے آداب یہ عاجز پوری تفصیل کے ساتھ اپنی کتاب “ آپ حج کیسے کریں؟ ” میں لکھ چکا ہے ۔ ناظرین سے گزارش ہے کہ وہ اس کو ضرور ملاحظہ فرمائیں ۔ ان شاء اللہ بڑی روحانی لذتیں پائیں گے ۔ “ معارف الحدیث ” (جلد چہارم) زیارت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مختصر بیان پر ختم ہوئی ۔ فَلِلَّهِ الْحَمْدُ وَعَلَى رَسُولِهِ الصَّلَاة وَالسَّلَامُ