9. کتاب الاذکار والدعوات
ذکر اللہ کی عظمت اور اس کی برکات
حضرت ابو ہریرہ اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب بھی اور جہاں بھی بیٹھ کے کچھ بندگانِ خدا اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو لازمی طور پر فرشتے ہر طرف سے ان کے گرد جمع ہو جاتے ہیں اور ان کو گھیر لیتے ہیں اور رحمت الہی ان پر چھا جاتی ہے اور ان کو اپنے سایہ میں لے لیتی ہے اور ان پر سکینہ کی کیفیت نازل ہوتی ہے اور اللہ اپنے ملائکہ مقربین میں کا ذکر فرماتا ہے ۔ (صحیح مسلم) تشریح بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ اسی سلسلہ معارف الحدیث میں “کتاب الطہارۃ” کے بالکل شروع میں “حجۃ اللہ البالغہ” کے حوالے سے حضرت شاہ ولی اللہؒ کا یہ ارشاد نقل کیا جا چکا ہے کہ : “اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے مجھے یہ حقیقت سمجھا دی ہے کہ فلاح و سعادت کی شاہراہ کی طرف دعوت دینے کے لئے انبیاء علیہم السلام کی بعثت ہوئی (جس کا نام شریعت ہے) اگرچہ اس کے بہت سے ابواب ہیں ، اور ہر باب کے تحت سینکڑوں ہزاروں احکام ہیں لیکن اپنی اس بے پناہ کثرت کے باوجود وہ سب بس ان چار اصولی عنوانوں کے تحت آ جاتے ہیں : ۱۔ طہارت ۲۔ اخبات ۳۔ سماحت ۴۔ عدالت یہ لکھنے کے بعد شاہ صاحبؒ نے ان چاروں میں سے ہر ایک کی حقیقت بیان کی ہے جس کے مطالعہ سے یہ بات بالکل واضح ہو کر سامنے آ جاتی ہے کہ بلا شبہ ساری شریعت ان ہی چار شعبوں میں منقسم ہے ۔ جلد سوم میں (کتاب الطہارۃ) کے شروع میں حضرت شاہ صاحبؒ کے اس سلسلہ کلام کا صرف وہ حصہ تلخیص کے ساتھ نقل کیا گیا تھا جس میں انہوں نے طہارت کی حقیقت بیان فرمائی تھی ۔ اخبات کی حقیقت کے بارے میں جو کچھ انہوں نے فرمایا ہے اس کو مختصر الفاظ میں اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ وہ : “تحیر اور خوف و محبت کی کیفیات اور رضا جوئی و عنایت طلبی کے جذبہ کے ساتھ ساتھ اللہ ذوالجلال والجبروت کے حضور میں ظاہر و باطن سے اپنی بندگی و نیاز مندی اور محتاجی و رحمت طلبی کا اظہار ہے ۔” اسی کا دوسرا معروفِ عام عنوان عبادت ہے ، اور وہی انسانوں کی تخلیق کا خاص مقصد ہے ۔ وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ حضرت شاہ صاحبؒ نے سعادت کے ان چاروں شعبوں میں “حجۃ اللہ البالغہ” مقصد دوم میں ابواب الاحسان کے ذیل میں بھی کلام فرمایا ہے ، وہاں فرماتے ہیں کہ : “ان میں سے پہلی چیز یعنی طہارت کی تحصیل کے لئے وضو اور غسل وغیرہ کا حکم دیا گیا ہے ، اور دوسری بنیات یعنی اخبات کی تحصیل کا خاص وسیلہ نماز اور اذکار اور قرآن مجید کی تلاوت ہے”۔ (1) بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ فی الحقیقت ذکر اللہ ہی اخبات کا مخصوص وسیلہ ہے اور نماز اور تلاوت اور اسی طرح دُعا بھی اس کی خاص خاص شکلیں ہیں ۔ بہرحال نماز اور ذکر اللہ اور تلاوتِ کلام مجید ، ان سب کی غرض و غایت اس مبارک صفت کی تحصیل و تکمیل ہے جس کو حضرت شاہ ولی اللہؒ نے اخبات کے عنوان سے ادا کیا ہے ، اس لئے یہ سب ایک ہی قبیل کی چیزیں ہیں ۔ نماز کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی احادیث اور آپ ﷺ کے ارشادات و معمولات اللہ کی توفیق سے اس سلسلہ کی تیسری جلد میں پیش کئے جا چکے ہیں ۔ اذکار و دعوات اور تلاوتِ قرآن مجید سے متعلق حدیثیں اب اس پانچویں جلد میں پیش کی جا رہی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ لکھنے والے اپنے اس گنہگار بندے کو اور پڑھنے والے حضرات کو ان احادیث پاک پر عمل کرنے اور پورا نفع اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ ذکر اللہ کی عظمت اور اس کی برکات جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے “ذکر اللہ” اپنے وسیع معنی کے لحاظ سے نماز ، تلاوتِ قرآن اور دُعا و استغفار وغیرہ سب ہی کو شامل ہے ، اور یہ سب اس کی خاص خاص شکلیں ہیں ۔ لیکن مخصوص عرف و اصطلاح میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس ، توحید و تمجید ، اس کی عظمت و کبریائی اور اس کی صفات کمال کے بیان اور دھیان کو “ذکر اللہ” کہا جاتا ہے اور جیسا کہ آگے درج ہونے والی بعض احادیث سے صراحۃً معلوم ہو گا یہ اللہ تعالیٰ کے قرب و رضا اور انسان کی روحانی ترقی اور ملاءِ اعلیٰ سے اس کے ربط کا خاص الخاص وسیلہ ہے ۔ شیخ ابن القیم نے “مدارج السالکین” میں ذکر اللہ کی عظمت و اہمیت اور اس کی برکات پر ایک بڑا بصیرت افروز اور روح پرور مضمون لکھا ہے ، اس کے ایک حصہ کا خلاصہ ہم یہاں بھی درج کرتے ہیں ۔ آگے درج ہونے والی احادیث میں ذِکراللہ کی جو عظمت بیان ہو گی اس مضمون کے مطالعہ کے بعد اس کا سمجھنا ان شاء اللہ آسان ہو گا ۔ فرماتے ہیں : قرآن مجید میں ذِکراللہ کی تاکید و ترغیب کے ہم کو مندرجہ ذیل دس عنوانات ملتے ہیں : ۱۔ بعض آیات میں اہل ایمان کو تاکید کے ساتھ اس کا حکم دیا گیا ہے ، مثلاً ارشاد فرمایا گیا ہے : يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِيْرًا وَّ سَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِيْلًا (الاحزاب۳۳: ۴۱، ۴۲) اے ایمان والو! اللہ کو بہت یاد کیا کرو ، اور صبح و شام اس کی پاکی بیان کرو ۔ دوسری جگہ ارشاد فرمایا گیا ہے : وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ فِيْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّ خِيْفَةً اور اپنے رب کا ذکر کرو اپنے جی میں (یعنی دل سے) گِڑگِڑا کر اور خوف کی کیفیت کے ساتھ ۔ ۲۔ بعض آیات میں اللہ کو بھولنے اور اس کی یاد سے غافل ہونے سے شدت کے ساتھ منع فرمایا گیا ہے ۔ یہ بھی ذِکراللہ کی تاکید ہی کا ایک عنوان ہے ۔ مثلاً ارشاد ہے : وَ لَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِيْنَ (اعفار ۷ : ۲۰۵) اور نہ ہونا تم غفلت والوں میں سے دوسری جگہ ارشاد ہے : وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ نَسُوا اللّٰهَ فَاَنْسٰىهُمْ اَنْفُسَهُمْ (الحشر ۵۹ : ۱۹) اور تم ان میں سے نہ ہو جاؤ ، جنہوں نے اللہ کو بُھلا دیا پھر (اس کی پاداش میں) اللہ نے ان کو ان کے نفس بھلا دئیے (اور خدا فراموشی کے نتیجہ میں وہ خود فراموش ہو گئے) ۳۔ بعض آیات میں فرمایا گیا ہے کہ فلاح اور کامیابی اللہ کے ذکر کی کثرت کے ساتھ وابستہ ہے ۔ ارشاد ہے : وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ (سورۃ الجمعہ ۶۲ : ۱۰) اور کثرت کے ساتھ اللہ کا ذکر کرو ، پھر تم فلاح و کامیابی کی امید کر سکتے ہو ۔ ۴۔ بعض آیات میں حق تعالیٰ کی طرف سے اہلِ ذکر کی تعریف کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ ذکر کے صلہ میں ان کے ساتھ رحمت و مغفرت کا خاص معاملہ کیا جائے گا اور ان کو اجرِ عظیم سے نوازا جائے گا ۔ چنانچہ سورہ احزاب میں ایمان والے بندوں اور بندیوں کے چند دوسرے ایمانی اوصاف بیان کرنے کے بعد ارشاد فرمایا گیا ہے : وَ الذّٰكِرِيْنَ اللّٰهَ كَثِيْرًا وَّ الذّٰكِرٰتِ١ۙ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِيْمًا اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے اس کے بندے اور اس کی بندیاں اللہ تعالیٰ نے اپنے ان بندوں اور بندیوں کے لئے تیار کر رکھی ہے خاص بخشش اور عظیم ثواب ۔ ۵۔ اسی طرح بعض آیات میں آگاہی دی گئی ہے کہ جو لوگ دنیا کی بہاروں اور لذتوں میں منہمک اور مست ہو کر اللہ کی یاد سے غافل ہو جائیں گے وہ ناکام اور نامراد رہیں گے ۔ مثلا سورہ منافقون میں ارشاد فرمایا گیا ہے : يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ١ۚ وَ مَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ اے ایمان والو ! تمہاری دولت اولاد تم کو اللہ کے ذکر سے غافل نہ کرے ، اور جو لوگ اس غفلت میں مبتلا ہوں گے وہ بڑے گھاٹے اور نقصان میں رہیں گے ۔ یہ تینوں عنوان بھی ذِکراللہ کی تاکید اور ترغیب کے لئے بلاشبہ بڑے مؤثر ہیں ۔ ۶۔ بعض آیات میں فرمایا گیا ہے کہ جو بندے ہمیں یاد کریں گے ہم ان کویاد کریں گے اور یاد رکھیں گے ۔ فَاذْكُرُوْنِيْۤ۠ اَذْكُرْكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِيْ وَ لَا تَكْفُرُوْنِ (بقرہ : ۲ : ۱۵۲) میرے بندو ! تم مجھے یاد کرو ، میں تم کو یاد رکھوں گا اور میرے احسان مانو اور ناشکری نہ کرو ۔ سبحان اللہ وبحمدہ ۔ بندے کی اس سے بڑی سعادت و کامیابی اور کیا ہو سکتی ہے کہ پوری کائنات کا خالق و مالک اس کو یاد کرے اور یاد رکھے ۔ ۷۔ بعض آیات میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ کے ذکر کو ہر چیز کے مقابلہ میں عظمت و فوقیت حاصل ہے اور اس کائنات میں وہ ہر چیز سے بالاتر اور بزرک تر ہے ۔ وَ لَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ (عنکبوت ع : ۵) “اور یقین کرو کہ اللہ کا ذکر ہر چیز سے بزرک تر ہے” بےشک اگر بندے کو عرفان نصیب ہو تو اللہ کا ذکر اس کے لئے اس ساری کائنات سے عظیم تر ہے ۔ ۸۔ بعض آیات میں بڑے اونچے درجہ کے اعمال کے بارے میں ہدایت فرمائی گئی ہے کہ ان کے اختتام پر اللہ کا ذکر ہونا چاہئے گویا ذکر اللہ ہی کو ان اعمال کا “خاتمہ” بنانا چاہئے ۔ مثلا نماز کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا ہے : فَاِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلٰوةَ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ قِيٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِكُمْ جب تم نماز ادا کر لو تو اللہ کا ذکر کرو (ہر حال میں) کھڑے بیٹھے اور پہلوؤں کے بل لیٹے ۔ اور خاص کر جمعہ کی نماز کے بارے میں ارشاد ہے : فَاِذَا قُضِيَتِ الصَّلٰوةُ فَانْتَشِرُوْا فِي الْاَرْضِ وَ ابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ جب جمعہ کی نماز ختم ہو جائے تو (اجازت ہے) کہ تم (مسجد سے نکل کر اپنے کام کاج کے سلسلہ میں) زمین میں چلو پھرو ، اور اللہ کا فضل تلاش کرو ، اور اس حالت میں بھی اللہ کا خوب ذکر کرو ، پھر تم فلاح کی امید کر سکتے ہو ۔ اور حج کے بارے میں ارشاد ہے : فَاِذَا قَضَيْتُمْ مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَذِكْرِكُمْ اٰبَآءَكُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِكْرًا پھر جب تم اپنے مناسک ادا کر کے فارغ ہو جاؤ تو اللہ کا ذکر کرو جیسے کہ تم (تفاخر کے طور پر) اپنے باپ داداؤں کا ذکر کیا کرتے تھے بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ اللہ کا ذکر کرو ۔ ان آیات سے معلوم ہوا کہ نماز اور حج جیسی اعلیٰ درجہ کی عبادات سے فارغ ہونے کے بعد بھی بندہ کے لئے اللہ کے ذکر سے غافل ہونے کی گنجائش نہیں ہے ، بلکہ ان سے فراغت کے بعد بھی اس کے دل میں اور اس کی زبان پر اللہ کا ذکر ہونا چاہئے اور اسی کو ان اعمال کا خاتمہ بننا چاہئے ۔ ۹۔ بعض آیات میں ذکراللہ کی ترغیب اس عنوان سے دی گئی ہے کہ دانش مند اور صاحب بصیرت بندے وہی ہیں جو ذکراللہ سے غافل نہیں ہوتے ۔ جس کا لازمی مفہوم یہ ہے کہ جو ذکراللہ سے غافل ہوں وہ عقل و بصیرت سے محرورم ہیں ۔ مثلاً سورہ آل عمرا کے آخری رکوع میں ارشاد فرمایا گیا ہے : اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّيْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِۚۙ۰۰۱۹۰ الَّذِيْنَ يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِيٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِهِمْ (آل عمران : ۳ : ۱۹۰ ، ۱۹۱) یقیناً زمین و آسمان کی تخلیق میں اور رات اور دن کی تبدیلیوں سے کھلی نشانیاں ہیں ان ارباب دانش کے لئے جو کھڑے بیٹھے اور لیٹنے کی حالت میں بھی اللہ کو یاد کرتے ہیں (اور اس سے غافل نہیں ہوتے) ۔ ۱۰۔ بعض آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اونچے سے اونچے اعمالِ صالحہ کا مقصد اور ان کی روح ذکراللہ ہے ۔ مثلاً نماز کے بارے میں ارشاد ہے : اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِيْ (طہ ۲۰ : ۱۴) میری یاد کے لئے نماز قائم کرو ۔ اور مناسک کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے : إِنَّمَا جُعِلَ الطَّوَافَ بِالْبَيْتِ، وَالسَّعْىُ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ وَرَمْيُ الْجِمَارِ لِإِقَامَةِ ذِكْرِ اللَّهِ. بیت اللہ کا طواف اور صفا ومروہ کے درمیان سعی ، اور جمرات کی رمی یہ سب چیزیں ذکراللہ ہی کے لئے مقرر ہوئی ہیں ۔ اور جہاد کے بارے میں ارشادِ خداوندی ہے : يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا لَقِيْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوْا وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ اے ایمان والو! جب تمہاری مڈ بھیڑ ہو جائے کسی دشمن فوج سے تو ثابت قدم رہو (اور قدم جما کے جنگ کرو) اور اللہ کا ذکر کرو ، امید ہے کہ تم فلاح یاب ہو گے ۔ اور ایک حدیث قدسی میں ہے : إِنَّ عَبْدِي كُلَّ عَبْدِيَ الَّذِي يَذْكُرُنِي وَهُوَ مُلاَقٍ قِرْنَهُ میرا بندہ مکمل بندہ وہ ہے جو اپنے حریف مقابل سے جنگ کے وقت بھی مجھے یاد کرتا ہے ۔ قرآن حدیث کے ان نصوص سے ظاہر ہے کہ نماز سے لے کر جہاد تک تمام اعمال صالحہ کی روح اور جان ذکراللہ ہے ۔ اور یہی ذکر اور دل و زبان سے اللہ کی یاد وہ پروانہ ولایت ہے جس کو عطا ہو گیا وہ واصل ہو گیا اور جس کو عطا نہیں ہوا وہ دور اور مہجور رہا ۔ یہ ذکراللہ والوں کے قلوب کی غذا اور ذریعہ حیات ہے ، اگر وہ ان کو نہ ملے تو جسم ان قلوب کے لئے قبور بن جائیں ۔ اور ذکر ہی سے دلوں کی دنیا کی آبادی ہے ، اگر دلوں کی دنیا اس سے خالی ہو جائے تو بالکل ویرانہ ہو کر رہ جائے اور ذکر ہی ان کا وہ ہتھیار ہے جس سے وہ روحانیت کے رہزنوں سے جنگ کرتے ہیں اور وہی ان کے لیے وہ ٹھنڈا پانی ہے جس سے وہ اپنے باطن کی آگ بجھاتے ہیں اور وہی ان کی بیماریوں کی وہ دوا ہے کہ اگر ان کو نہ ملے تو ان کے دل گرنے لگیں اور وہی وسیلہ رابط ہے ان کے اور ان کے علام الغیوب رب کے درمیان ۔ کیا خوب کہا گیا ہے ؎ اِذَا مَرِضْنَا تَدَاوَيْنَا بِذِكْرِكُمْفَنَتْرُكُ الذِّكْرَ اَحْيَانًا فَنَتَكَّسُ جب ہم بیمار پڑ جاتے ہیں تو تمہاری یاد سے اپنا علاج کرتے ہیں اور جب کسی وقت یاد سے غافل ہو جائیں تو مرنے لگتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح بینا آنکھوں کو روشنی اور بینائی سے منور کیا ہے اسی طرح ذکر کرنے والی زبانوں کو ذکر سے مزین رمایا ہے ، اسی لئے اللہ کی یاد سے غافل زبان اس آنکھ کی طرح ہے جو بینائی سے محروم ہے اور اس کان کی طرح ہے جو شنوائی کی صلاحیت کھو چکا ہے ، اور اس ہاتھ کی طرح ہے جو مفلوج ہو کر بیکار ہو گیا ہے ۔ ذکراللہ ہی وہ راستہ اور دروازہ ہے جو حق جل جلالہ اور اس کے بندے کے درمیان کھلا ہوا ہے اور اس سے بندہ اس کی بارگاہ عالی تک پہنچ سکتا ہے اور جب بندہ اللہ کے ذکر سے غافل ہوتا ہے تو یہ دروازہ بند ہو جاتا ہے ۔ کیا خوب کہا ہے کہنے والے نے ؎ فنسيان ذكر الله موت قلوبهم واجسامهم قبل القبور قبور وارواحهم فى وحشة من جسومهموليس لهم حتى النشور نشور اللہ کی یاد سے غافل ہو جانا اور فراموش کر دینا ان کے قلوب کی موت ہے ، اور ان کے جسم زمین والی قبروں سے پہلے ان کے مردہ دلوں کی قبریں ہیں ۔ اور ان کی روحیں سخت وحشت میں ہیں ان کے جسموں سے اور ان کے لئے قیامت اور حشر سے پہلے زندگی نہیں ۔(ملخصا من كلام الشيخ ابن القيم فى مدارج السالكين) ناچیز راقم سطور عرض کرتا ہے کہ مندرجہ بالا اقتباس میں ذکراللہ کی تاکید و ترغیب کے جن دس عنوانات کا ذکر کیا گیا ہے ، قرآن مجید میں ان کے علاوہ بھی بعض عنوانات سے ذکراللہ کی ترغیب دی گئی ہے ۔ مثلاً فرمایا گیا ہے کہ : “قلوب کو (یعنی اللہ سے رابطہ رکنے والوں کے دلوں اور ان کی روحوں کو) اللہ کے ذکر ہی سے چین و اطمینان حاصل ہوتا ہے ۔” اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ (جان لو کہ اللہ کے ذکر ہی سے دلوں کو چین اور سکون ملتا ہے)۔ ذکراللہ کی تاخیر اور برکت کے بارے میں ایک دوسرے ربانی محقق اور صرفی صاحب “سترصيع الجواهر الملكيه” کے چند فقروں کا ترجمہ بھی پڑھ لیا جائے ۔ آگے درج ہونے والی اس باب کی احادیث کے سمجھنے میں ان شاء اللہ اس سے بھی خاص مدد ملے گی ۔ فرماتے ہیں : “قلوب کو نورانی بنانے اور اوصاف ردیہ کو اوصاف حمیدہ میں تبدیل کر دینے میں سب طاعات و عبادات سے زیادہ زوداثر اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے” خود اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ١ؕ وَ لَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ بلاشبہ نماز گندی اور ناشائستہ باتوں سے روکتی ہے اور یہ یقینی حقیقت ہے کہ اللہ کا ذکر بہت ہی بڑی چیز ہے ۔ اور اکابر نے فرمایاہے کہ : “ذکر کا عمل قلب کو صاف کرنے میں بالکل ویسا ہی کام کرتا ہے جیسا کہ تانبے کو صاف کرنے اور مانجھنے میں بال ۔ اور باقی دوسری عبادات کا عمل قلوب کی صفائی کے بارے میں ویسا ہے جیسا کہ تانبے کے صاف کرنے میں صابن کا عمل ۔” (ترصیع الجواہر المکیہ) اس تمہید کے بعد ذکراللہ کی عظمت اور برکات کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کے ارشادات پڑھئے : تشریح ..... اس حدیث سے صراحۃً معلوم ہوا کہ اللہ کے کچھ بندوں کے ایک جگہ جمع ہو کر ذکر کرنے کی خاص برکات ہیں ۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے اسی حدیث کی شرح میں فرمایا ہے : “اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ مسلمانوں کا جمع ہو کر ذکر وغیرہ کرنا رحمت و سکینت اور قرب ملائکہ کا خاص وسیلہ ہے”۔ (حجۃ اللہ البالغہ ، ص ۷۰ ، جلد :۲) اس حدیث میں اللہ کا ذکر کرنے والے بندوں کے لیے چار خاص نعمتوں کا ذکر کیا گیا ہے ۔ ایک یہ کہ ہر طرف سے اللہ کے فرشتے ان کو گھیر لیتے ہیں ۔ دوسرے یہ کہ رحمت الٰہی ان کو اپنے آغوش اور سایہ میں لے لیتی ہے ، اور ان دونوں نعمتوں کے لازمی نتیجہ کے طور پر تیسری نعمت ان کو یہ حاصل ہوتی ہے کہ ان کے قلب پر “سکینت” نازل ہوتی ہے، جو عظیم ترین روحانی نعمتوں میں سے ہے ۔ یہاں سکینت سے مراد خاص درجہ کا قلبی اطمینان اور روحانی سکون ہے جو اللہ کے خاس بندوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خصوصی عطیہ کے طور پر نصیب ہوتا ہے ، اسی کو اہلِ سلوک “جمعیت قلبی” بھی کہتے ہیں ۔ اس دولت اور نعمت کا صاحبِ سکینہ کو احساس اور شعور بھی ہوتا ہے ۔اور ذاکر بندوں کو ملنے والی چوتھی نعمت جس کا اس حدیث میں سب سے آخر میں ذکر کیا گیا ہے ۔ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ملائکہ مقربین کے حلقہ میں ان ذاکر بندوں کا ذکر فرماتے ہیں ۔ مثلاً فرماتے ہیں کہ : “دیکھو آدمؑ کی اولاد میں سے میرے یہ بھی بندے ہیں جنہوں نے مجھے دیکھا نہیں غائبانہ ہی ایمان لائے ہیں ، اس کے باوجود محبت و خشیت کی کیسی کیفیت اور کیسے ذوق و شوق اور کیسے سوز و گداز کے ساتھ میرا ذکر کر رہے ہیں ۔ بلاشبہ مالک الملک کا اپنے مقرب فرشتوں کے سامنے اپنے بندوں کا اس طرح ذکر فرمانا وہ سب سے بڑی نعمت ہے جس سے آگے کسی نعمت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ اللہ تعالیٰ اس سے محروم نہ رکھے ۔” فائدہ ...... اس حدیث سے یہ بھی اشارہ ملا کہ اگر اللہ کا کوئی ذاکر بندہ اپنے قلب و باطن میں “سکینت” کی کیفیت محسوس نہ کرے (جو ایک محسوس کی جانے والی چیز ہے) تو اس کو سمجھنا چاہئے کہ ابھی وہ ذِکر کے اس مقام تک نہیں پہنچ سکا جس پر یہ نعمتیں موجود ہیں ، یا اس کی زندگی میں کچھ ایسی خرابیاں ہیں جو آثارِ ذکر کے حصول میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں ۔ بہرحال اسے اپنی اصلاح کی فکر کرنی چاہئے ۔ ربِ کریم کے وعدے برحق ہیں ۔
ذکر اللہ کی عظمت اور اس کی برکات
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ مسجد میں قائم ایک حلقہ پر پہنچے تو آپ نے ان اہلِ حلقہ سے پوچھا: تم کس لئے بیٹھے ہو؟ انہوں نے کہا: ہم بیٹھ کر اللہ کو یاد کر رہے ہیں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا اللہ کی قسم! تم صرف ذِکر اللہ ہی کے لیےبیٹھے ہو ؟ انہوں نے کہا : قسم بخدا ! ہمارے بیٹھنے کا کوئی اور مقصد اللہ کے ذِکر کے سوا نہیں ہے ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ لوگوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ میں نے کسی بدگمانی کی بناء پر آپ لوگوں سے قسم نہیں لی ہے ، اصل بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جس درجہ کا تعلق اور قرب مجھے حاصل تھا اس درجہ کے تعلق والا آدمی آپ کو حدیثیں مجھ سے کم بیان کرنے والا نہیں ہے (یعنی میں روایت حدیث میں بہت زیادہ احتیاط کرتا ہوں اس لئے اپنے جیسے دوسرے لوگوں کی بہ نسبت بہت کم حدیثیں بیان کرتا ہوں اور میں نے اسی کی پیروی میں آپ لوگوں سے قسم لی ہے ۔ وہ حدیث یہ ہے کہ “رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن اپنے اصحاب کے ایک حلقہ کے پاس پہنچے آپ ﷺ نے ان سے پوچھا ۔ “آپ لوگ یہاں کیوں جڑے بیٹھے ہیں ؟ ” انہوں نے عرض کیا: ہم اللہ کو یاد کر رہے ہیں اور اس نے جو ہم کو ہدایت سے نوازا اور ایمان و اسلام کی توفیق دے کر احسانِ عظیم فرمایا اس پر اس کی حمد و ثناء کر رہے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں معلوم ہے کہ میں نے تمہارے ساتھ کسی بدگمانی کی بناء پر تم سے قسم نہیں لی ، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ابھی جبرئیل امین علیہ السلام میرے پاس آئے اور انہوں نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ فخر و مباہات کے ساتھ فرشتوں سے تم لوگوں کا ذکر فرما رہے ہیں ۔ (صحیح مسلم) تشریح معلوم ہوا کہ اللہ کے کچھ بندوں کا ایک جگہ بیٹھ کے اخلاص کے ساتھ اللہ کو یاد کرنا ، اس کی باتیں کرنا ، اس کی حمد و تسبیح کرنا اللہ کو بےحد پسند ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے خاص فرشتوں کے سامنے ایسے بندوں کے لئے اپنی رضا کا اظہار فرماتا ہے ۔ اَللَّهُمَّ اجْعَلْنَا مِنْهُمْ
ذکر اللہ کی عظمت اور اس کی برکات
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جس وقت بندہ میرا ذکر کرتا ہے اور میری یاد میں اس کے ہونٹ حرکت کرتے ہیں تو اس وقت میں اپنے اس بندہ کے ساتھ ہوتا ہوں ۔” (صحیح بخاری) تشریح اللہ تعالیٰ کی ایک معیت وہ ہے جو اس کائنات کی ہر اچھی بری چیز کو اور ہر مؤمن و کافر کو ہر وقت حاصل ہے ۔ کوئی چیز بھی کسی وقت اللہ سے دور نہیں ، اللہ ہر چیز کو محیط ہے ، ہر جگہ اور ہمہ وقت حاضر و ناظر ہے ۔ اور ایک معیت رضا اور قبول والی معیت ہے ۔ اس حدیث قدسی میں جس معیت کا ذکر ہے وہ یہی رضا اور قبول والی معیت ہے ۔ اور حدیث کا مدعا یہ ہے کہ جب میرا بندہ میرا قرب اور میری رضا حاصل کرنے کے لئے میرا ذکر کرتا ہے تو اس کو میرے قرب و رضا کی دولت فوراً مل جاتی ہے جو وہ ذکر کے ذریعہ حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس دولت کی طلب ، اس کا ذوق و شوق اور پھر وہ دولت نصیب فرمائے ۔
ذکر اللہ کی عظمت اور اس کی برکات
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میرا معاملہ بندے کے ساتھ اس کے یقین کے مطابق ہے ۔ اور میں اس کے بالکل ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھے یاد کرتا ہے ۔ اگر وہ مجھے اپنے جی میں اس طرح یاد کرے کہ کسی اور کو خبر بھی نہ ہو تو میں بھی اس کو اسی طرح یاد کروں گا ۔ اور اگر وہ دوسرے لوگوں کے سامنے مجھے یاد کرے تو میں ان سے بہتر بندوں کی جماعت میں اس کا ذکر کروں گا (یعنی ملائکہ کی جماعت میں اور ان کے سامنے)” ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح حدیث کے پہلے جملے (أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي) کا مطلب یہ ہے کہ بندہ میرے بارے میں جیسا یقین قائم کرے گا تو میرا معاملہ اس کے ساتھ بالکل اسی کے مطابق ہو گا ۔ مثلاً وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں رحم اور کرم کا یقین کرے تو اللہ تعالیٰ کو رحیم کریم ہی پائے گا ۔ اسی لئے بندہ کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اچھا یقین کرے اور اسی کے مطابق عمل کرے ۔ حدیث کے آخری حصہ میں جو فرمایا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جب بندہ مجھے خلوت میں اس طرح یاد کرتا ہے کہ اس کے اور میرے سوا کسی کو اس کی خبر نہیں ہوتی تو میری عنایت بھی اس کے ساتھ اسی طرح مخفی ہوتی ہے ۔ ؎ میانِ عاشق و معشوق رمزیستکراماً کاتبین را ہم خبر نیست اور جب بندہ جلوت میں اور دوسروں کے سامنے میرا ذکر کرتا ہے (جس میں دعوت اور ارشاد اور وعظ و نصیحت بھی داخل ہے) تو اس بندہ کے ساتھ اپنے تعلق اور اس کی قبولیت کا ذکر میں فرشتوں کے سامنے بھی کرتا ہوں ، جس کے بعد وہ بندہ فرشتوں میں مقبول و محبوب ہو جاتا ہے ، اور اس کے بعد اس دنیا میں بھی اس کو قبولِ عام اور محبوبیت عامہ حاصل ہو جاتی ہے ۔ اسی سنت اللہ کا ظہور ہے کہ بہت سے عرفاء کاملین جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے خاص تعلق کا اخفا کرتے ہیں اگرچہ اللہ کے ہاتھ اُن کو مقبولیت کا خاص الخاص مقام حاصل ہوتا ہے ۔ لیکن دنیا میں ان کو پہچانا ہی نہیں جاتا ، اور جن کا تعلق باللہ اور دعوتِ الی اللہ ظاہر اور جلی قسم کی ہوتی ہے ان کو دنیا میں بھی مقبولیت امہ حاصل ہو جاتی ہے ۔
ذکر اللہ کی عظمت اور اس کی برکات
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک سفر میں مکہ مکرمہ کی طرف تشریف لے جا رہے تھے ، راستے میں جَمْدان نامی پہاڑ پر سے گزر ہوا تو آپ ﷺنے فرمایا : یہ پہاڑ جمدان ہے ، مُفَرِّدُونَ سبقت لے گئے ۔ عرض کیا گیا : مُفَرِّدُونَ کون لوگ ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ کا زیادہ ذکر کرنے والے بندے اور زیادہ ذکرنے والی بندیاں ۔ (صحیح مسلم) تشریح جمدان ایک پہاڑی کا نام ہے جو مدینہ طیبہ کے قریب ہی ایک دن کی مسافت پر ہے ۔ متعدد حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین کے جس حصہ پر اللہ کا نام لیا جاتا ہے اس کا شعور و احساس اس حصہ زمین کو ہوتا ہے ۔ چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ “ایک پہاڑ دوسرے پہاڑ پوچھتا ہے کہ کیا آج اللہ کا نام لینے والا کوئی بندہ تجھ پر سے گزرا ؟” جب وہ بتاتا ہے کہ ہاں گزرا ، تو وہ کہتا ہے کہ “تجھے بشارت ہو ، مبارک ہو !” معلوم ہوتا ہے کہ جمدان پہاڑ پر سے گزرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ پر یہ بات منکشف ہوئی کہ جو زیادہ ذکر کرنے والے بندے اور بندیاں ہیں اُنہوں نے قبول و رضا کے بڑے مقامات حاصل کر لئے اور وہ بہت آگے بڑھ گئے ، تو آپ ﷺ نے یہ بات فرمائی کہ مُفَرِّدُونَ یعنی بہت زیادہ ذکر کرنے والے سبقت لے گئے ۔ مُفَرِّدُونَ کے لغوی معنی ہیں اپنے کو سب سے الگ اور اکیلا اور ہلکا پھلکا کر لینے والے ۔ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ کے قرب و رضا کی طلب میں اپنے کو اس دنیا کی الجھنوں سے ہلکا کر لیں ، اور سب طرف سے کٹ کے اکیلے اللہ کے ہو جائیں ، یہی مقام تفرید ہے ، اور یہی قرآن مجید کی خاص اصطلاح میں تَبَتُّلْ ہے (وَ اذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَ تَبَتَّلْ اِلَيْهِ تَبْتِيْلًا) پس “الذَّاكِرُونَ اللهَ كَثِيرًا، وَالذَّاكِرَاتُ” کے مصداق وہی بندے ہیں جن کا یہ حال ہوا اور جنہوں نے ہر طرف سے کٹ کر اللہ جل جلالہ کو اپنا قبلہ مقصود بنا لیا ہو ۔
دوسرے تمام اعمال کے مقابلہ میں ذکر اللہ کی افضلیت
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “کیا میں تم کو وہ عمل بتاؤں جو تمہارے سارے اعمال میں بہتر اور تمہارے مالک کی نگاہ میں پاکیزہ تر ہے اور تمہارے درجوں کو دوسرے تمام اعمال سے زیادہ بلند کرنے والا ہے ، اور راہِ خدا میں سونا اور چاندی خرچ کرنے سے بھی زیادہ اس میں خیر ہے ، اور اس جہاد سے بھی زیادہ تمہارے لئے اس میں خیر ہے جس میں تم اپنے دشمنوں اور خدا کے دشمنوں کو موت کے گھاٹ اُتارو اور وہ تمہیں ذبح کریں اور شہید کریں ؟ صحابہؓ نے عرض کیا ۔ “ہاں یا رسول اللہ ! ایسا قیمتی عمل ضرور بتائیے ۔” آپ ﷺ نے فرمایا ۔ “وہ اللہ کا ذِکر ہے ۔” (مسند احمد ، جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ) تشریح یہ حدیث دراصل قرآن مجید کی آیت “ولذكر الله اكبر” کی تشریح و تفسیر ہے ۔ بےشک “ذکراللہ” اس لحاظ سے کہ وہ اصلاً بالذات مقصد اعلیٰ ہے اور اللہ کی رضا اور اس کے تقرب کا سب سے قریبی ذریعہ ہے ۔ وہ دوسرے تمام اعمال سے بہتر اور بالاتر ہے ۔ اور یہ اس کے منافی نہیں ہے کہ کسی خاص حالت میں اور کسی ہنگامی موقع پر صدقہ اور انفاق لوجہ اللہ یا جہاد و قتال فی سبیل اللہ کو زیادہ اہمیت حاصل ہو جائے ۔ اسی طرح یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک عمل ایک اعتبار سے افضل و اہم ہو اور دوسرے اعتبار سے کوئی دوسرا عمل زیادہ اہمیت رکھتا ہو ۔ آگے درج ہونے والی حضرت ابو سعید خدریؓ اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی حدیثوں کا مطلب و مدعا بھی قریب قریب یہی ہے اور ان میں سے ہر حدیث سے دوسری حدیث کی شرح اور تائید ہوتی ہے ۔
دوسرے تمام اعمال کے مقابلہ میں ذکر اللہ کی افضلیت
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ یا رسول اللہ! بندوں میں کون (یعنی کس عمل کا کرنے والا) سب سے افضل ہے ، اور قیامت میں کس کو اللہ کے ہاں زیادہ بلند درجہ ملنے والا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : “اللہ کو زیادہ یاد کرنے والے بندے اور زیادہ یاد کرنے والی بندیاں ”۔ (یعنی افضلیت اور قیامت میں درجہ کی بلندی انہیں کے لئے ہے) عرض کیا گیا : “یا رسول اللہ! کیا ان لوگوں کا درجہ اس بندے سے بھی اُونچا ہے جو (سربکف ہو کر) راہِ خدا میں جہاد کرے ؟” آپ ﷺ نے فرمایا : “اگر کسی بندہ نے (اس طرح جہاد میں جانبازی کی کہ) دشمنانِ حق (کفار و مشرکین) کی صفوں میں گھس کر تلوار چلائی یہاں تک کہ اس کی تلوار ٹوٹ گئی اور وہ دشمنوں کے ہاتھوں سے زخمی ہو کر خون میں شرابور ہو گیا ، جب بھی اللہ کا ذکر کرنے والا بندہ درجہ میں اس سے افضل ہے۔” (مسند احمد ، جامع ترمذی)
دوسرے تمام اعمال کے مقابلہ میں ذکر اللہ کی افضلیت
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کرتے تھے کہ : “ہر چیز کی صفائی کے لئے کوئی صیقل ہے ، اور قلوب کی صیقل (یعنی ان کی صفائی کا خاص مسالہ) ذِکراللہ ہے ، اور اللہ کے عذاب سے بچانے اور نجات دلانے میں اللہ کا ذکر جس قدر موثر ہے اتنی کوئی دوسری چیز موثر نہیں ۔” لوگوں نے عرض کیا : “یا رسول اللہ! کیا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں ؟” آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : “ہاں ! وہ جہاد بھی عذاب خداوندی سے نجات دلانے میں ذِکر کے برابر مؤثر نہیں جس کا کرنے والا ایسی جانبازی سے جہاد کرے کہ تلوار چلاتے چلاتے اس کی تلوار بھی ٹوٹ جائے ۔ (دعوات کبیر للبیہقی)” تشریح اصل حقیقت یہی ہے کہ سارے اعمالِ صالحہ کے مقابلہ میں “ذکر اللہ” افضل اور عنداللہ محبوب تر ہے (وَ لَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ) بندے کو اللہ تعالیٰ کا جو قرب اور اس کی وجہ سے جو سعادت اور شرف ذکر کے وقت حاصل ہوتا ہے وہ کسی دوسرے عمل کے وقت نہیں ہوتا ، بشرطیکہ یہ ذکر عظمت اور محبت و خشیت اور دل کی توجہ کے ساتھ ہو ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : فَاذْكُرُوْنِيْۤ اَذْكُرْكُمْ (تم مجھے یاد کرو میں تم کو یاد کروں گا) اور حدیث قدسی : “أَنَا جَلِيْسُ مَنْ ذَكَرَنِي...... وَأَنَا مَعَ عَبْدِي إِذَا هُوَ ذَكَرَنِي، وَتَحَرَّكَتْ بِي شَفَتَاهُ” (میں اپنے ذکر کرنے والے بندے کے ساتھ اور اس کا ہم نشین رہتا ہوں) ۔۔۔۔۔ اور میرا بندہ جب میرا ذکر کرتا ہے اور اس کے لب میرا ذکر کرنے سے حرکت کرتے ہیں تو بس اس کے بالکل پاس اور ساتھ ہوتا ہوں) بہرحال قرآن و حدیث کے ان واضح نصوص کا مدعا یہی ہے کہ تمام اعمالِ صالحہ میں ذکر اللہ ہی افضل اور عنداللہ محبوب تر اور اس کے قرب و رضا کا خاص الخاص وسیلہ ہے ۔ البتہ یہ ملحوظ رہے کہ اس ذکر میں اور نماز اور تلاوت قرآن وغیرہ اس قسم کی عبادات سب داخل ہیں ۔
خاص ذِکر لسانی کی فضیلت
حضرت عبداللہ بسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پوچھا کہ : “یا رسول اللہ! آدمیوں میں کون بہتر ہے”؟ (یعنی کس قسم کے آدمیوں کا انجام زیادہ اچھا ہونے والا ہے) آپ ﷺ نے فرمایا : “وہ لوگ جن کی عمر زیادہ ہو اور عمل اچھے ہوں” ۔ پھر انہوں نے پوچھا کہ : “یا رسول اللہ ! اعمال میں کون سا عمل افٖضل ہے” ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : “یہ کہ تم دنیا کو خیرباد کہو اور اس وقت تمہاری زبان اللہ کے ذکر دے تر ہو ۔ ” (مسند احمد ، جامع ترمذی) تشریح پہلے سوال کے جواب میں رسول اللہ ﷺ نے جو کچھ فرمایا اس کی وجہ ظاہر ہے کہ اچھے اعمال کے ساتھ عمر جتنی زیادہ ہو گی بندہ اتنی ہی ترقی کرے گا اور اللہ تعالیٰ کی رضا و رحمت کا اسی قدر زیادہ مستحق ہو گا ۔ دوسرے سوال کے جواب میں آپ ﷺ نے سب سے اچھا عمل یہ بتایا کہ مرتے دم تک اور خاص کر آخری وقت بندہ اللہ کے ذکر سے رطب اللسان ہو ۔ یعنی اس کی زبان پر ذوق اور لذت کے ساتھ اللہ کا نام ہو ۔ بلا شبہ یہ عمل اور یہ حال بڑا ہی عزیز اور قیمتی ہے ، اور جو بندہ اس کی قدر جانتا ہو وہ سب کچھ دے کے بھی اس کو لینے کے لئے خوشی سے آمادہ ہو گا ۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ یہ بات اسی بندے کو نصیب ہو گی جو زندگی میں اللہ کے ذکر سے خاص مناسبت پیدا کر لے ، اور ذِکر اللہ اس کی روح کی غذا بن جائے ۔
خاص ذِکر لسانی کی فضیلت
حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ : “اے اللہ کے پیغمبر (ﷺ) نیکی کے ابواب (یعنی ثواب کے کام) بہت ہیں اور یہ بات میری طاقت سے باہر ہے کہ میں ان سب کو بجا لاؤں ، لہذا آپ مجھے کوئی ایسی بات بتا دیجئے جس کو میں مضبوطی سے تھام لوں اور اس پر کاربند ہو جاؤں (اور بس وہی میرے لئے کافی ہو جائے) اسی کے ساتھ یہ بھی عرض ہے کہ جو کچھ آپ ﷺ بتائیں وہ بہت زیادہ بھی نہ ہو ، کیوں کہ خطرہ ہے کہ میں اس کو یاد بھی نہ رکھ سکوں ؟” آپ ﷺ نے فرمایا : (بس اس کا اہتمام کرو اور اس کی عادت ڈالو کہ) تمہاری زبان اللہ کے ذکر سے تر رہے ۔ (جامع ترمذی) تشریح مطلب یہ ہے کہ تمہاری فلاح و کامیابی کے لئے بس یہی کافی ہے کہ اللہ کے ذکر سے رطب اللسان رہو ۔
خاص ذِکر لسانی کی فضیلت
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : اللہ کا ذکر اتنا اور اس طرح کرو کہ لوگ کہیں کہ یہ دیوانہ ہے ۔ تشریح اہل دنیا جو تعلق باللہ کی دولت سے محروم ہیں جب کسی ایسے اللہ والے کو دیکھتے ہیں جس کو یہ دولت نصیب ہے ،اور اس کی وجہ سے وہ دنیا کی طرف سے کسی قدر بےفکر اور اللہ کی یاد اور اس کی رضا طلبی میں منہمک ہے ، اور اسی کے نام کی رَٹ لگا رہا ہے تو اپنے خیال کے مطابق وہ اس کو دیوانہ کہتے ہیں ، حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ وہ خود ہی دیوانے ہیں ؎ اوست دیوانہ کہ دیوانہ نہ شداوست فرزانہ کہ فرزانہ نہ شد
ذکراللہ سے غفلت کا انجام حسرت و محرومی اور دل کی قساوت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص کہیں بیٹھا اور اس نشست میں اس نے اللہ کو یاد نہیں کیا تو یہ نشست اس کے لئے بڑی حسرت اور خسران کا باعث ہو گی ، اور اسی طرح جو شخص کہیں لیٹا اور اس میں اس نے اللہ کو یاد نہیں کیا تو یہ لیٹنا اس کے لئے بڑی حسرت اور خسران کا باعث ہو گا ۔ (سنن ابی داؤد)
ذکراللہ سے غفلت کا انجام حسرت و محرومی اور دل کی قساوت
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : “اللہ کے ذکر کے بغیر زیادہ کلام نہ کیا کرو ، کیوں کہ اس سے دل میں قساوت (سختی اور بےحسی) پیدا ہوتی ہے اور لوگوں میں وہ آدمی اللہ سے زیادہ دو ر ہے جس کے قلب میں قساوت ہو ۔” (جامع ترمذی) تشریح حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی اللہ کے ذکر کے بغیر زبان زیادہ چلانے کا عادی ہو گا اس کے دل میں قساوت یعنی بےحسی اور بےنوری پیدا ہو گی اور وہ اللہ کے قرب اور اس کی خاص رحمت سے محروم رہے گا ۔ اعاذنا الله منه
کلمات ذِکر اور ان کی فضیلت و برکت
حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمام کلموں میں افضل یہ چار کلمے ہیں : سُبْحَانَ اللَّهِ اور الْحَمْدُ لِلَّهِ اور لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ اور اللَّهُ أَكْبَرُ. (صحیح مسلم) تشریح رسول اللہ ﷺ نے جس طرح اللہ کے ذکر کی ترغیب دی اور تاکید فرمائی اُسی طرح اس کے خاص کلمات بھی تلقین فرمائے ، اگر یہ نہ ہوتا تو اس کا امکان تھا کہ علم و معرفت کی کمی کی وجہ سے بہت سے لوگ اللہ کا ذکر اس طرح کرتے جو اس کے شایان شان نہ ہوتا ، یا جس سے بجائے حمد و ثناء کے معاذ اللہ اس کی تنقیص ہوتی ۔ عارف رومی نے اپنی مثنوی میں حضرت موسیٰؑ اور ایک چرواہے کی جو حکایت بیان کی ہے وہ اسی کی ایک مثال ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے جو کلمات ذِکر تلقین فرمائے ہیں وہ معنوی لحاظ سے مندرجہ ذیل چند قسموں میں سے کسی ایک قسم کے ہیں : یا تو ان میں اللہ تعالیٰ کی تنزیہ اور تقدیس ہے (یعنی ان کا مفہوم اور مدعا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر اس بات سے منزہ اور پاک ہے جس میں عیب و نقص کا شائبہ بھی ہو) (سُبْحَانَ اللهِ) کا یہی مفہوم اور مدعا ہے ۔ یا ان میںٰ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء ہے (یعنی ان کا مفہوم اور مدعا یہ ہے کہ ساری خوبیاں اور تمام کمالی صفات اللہ تعالیٰ میں ہیں اور اس لئے حمد و ثناء اسی کو سزاوار ہے ۔ (الْحَمْدُ لِلَّهِ) کی یہی خصوصیت ہے ۔ یا ان میں اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی شانِ یکتائی کا بیان ہے ۔ چنانچہ (لَا إِلَهَ إِلا اللهُ) کی یہی شان ہے ۔ یا ان میں اللہ تعالیٰ کی اس شانِ عالی کا اظہار ہے کہ ہم نے اس کے بارے میں منفی اور مثبت طور پر جو کچھ جانا اور سمجھا ہے اللہ تعالیٰ اس سے بھی بلند و بالا اور وراء الوراء ہے ، (اللهُ أَكْبَرُ) کا یہی مفہوم و مدعا ہے ۔ یا ان کلمات میں اس حقیقت کا اظہار ہے کہ سب کچھ کرنے والا اللہ ہی ہے اس کے سوا کسی کے بس میں کچھ نہیں ، لہذا وہی اس کا حقدار ہے کہ اس سے مدد مانگی جائے اور اس پر بھروسہ کیا جائے ۔ (لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ) کی یہی نوعیت اور خصوصیت ہے ۔ اس طرح کے کلماتِ ذکر کے علاوہ مختلف اوقات اور مختلف حاجتوں کے لئے دعائیں آپ ﷺ نے تعلیم فرمائیں ۔ ان کے بارے میں ان شاء اللہ آگے مستقلاً لکھا جائے گا ۔ رسول اللہ ﷺ نے آگے درج ہونے والی حدیثوں میں جن کلماتِ ذکر کی تلقین فرمائی ہے وہ اختصار کے باوجود اللہ تعالیٰ کی تنزیہ و تقدیس اور تحمید و توحید اور اس کی شانِ کبریائی و صمدیت کے بیان میں بلاشبہ معجزانہ شان رکھتے ہیں اور اس کی معرفت کے گویا دروازے ہیں ۔ اس مختصر تمہید کے بعد اس سلسلہ کے رسول اللہ ﷺ کے چند ارشادات ذیل میں پڑھئے ۔ تشریح ..... اسی حدیث کی ایک دوسری روایت میں “أَفْضَلُ الْكَلَامِ أَرْبَعٌ” کے بجائے “أَحَبُّ الْكَلَامِ إِلَى اللهِ أَرْبَعٌ” کے الفاظ بھی نقل کئے گئے ہیں ، جس کا ترجمہ یہ ہو گا کہ سب کلموں مین اللہ تعالیٰ کو زیادہ پیارے یہ چار کلمے ہیں ۔
کلمات ذِکر اور ان کی فضیلت و برکت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “اس دنیا کی وہ تمام چیزیں جن پر سورج کی روشنی اور اس کی شعاعیں پڑتی ہیں ، ان سب چیزوں کے مقابلے میں مجھے یہ زیادہ محبوب ہے کہ میں ایک دفعہ “سُبْحَانَ اللهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَاللهُ أَكْبَرُ” کہوں ۔ (صحیح مسلم) تشریح ان چاروں کلموں کا اجمالی مفہوم اوپر کی تمہیدی سطروں میں ذکر کیا جا چکا ہے اس سے یہ اندازہ بھی ہو گیا ہو گا کہ یہ نہایت مختصر اور ہلکے پھلکے چار کلمے اللہ تعالیٰ کی تمام مثبت و منفی صفاتِ کمال پر کس قدر حاوی ہیں ۔ بعض عرفاء کاملین نے لکھا ہے کہ : اللہ تعالیٰ کے تمام اسماء حسنیٰ جو اس کی تمام صفات کمال کی ترجمانی کرتے ہین ان میں سے کسی کا مفہوم بھی ان چار کلموں سے باہر نہیں ہے ۔ مثلاً الْقُدُّوسُ، السَّلامُ الظَّاهِرُ جیسے اسماء جو اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک سے ہر عیب و نقص کی نفی کرتے ہیں ۔ سبحان اللہ کا مفہوم ان سب پر حاوی ہے ۔ اسی طرح الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ الْكَرِيْمُ الْعَلِيمُ اَلْقَدِيْرُ السَّمِيعُ، الْبَصِيرُ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ جیسے وہ تمام اسماء حسنیٰ جو اللہ تعالیٰ کی ایجابی صفاتِ کمال پر دلالت کرتے ہیں ، وہ سب الحمدللہ کے احاطے میں آ جاتے ہیں ۔ اسی طرح جو اسماء حسنیٰ اس کی وحدانیت و یکتائی اور اس کی شانِ لاشریکی و بےمثالی پر فلالت کرتے ہیں ، جیسے الْوَاحِدُ، الْأَحَدُ وغیرہ ، ان کی پوری ترجمانی کلمہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ کرتا ہے ۔ علیٰ ہذا الْعَلِيُّ الْاَعْلَى الْكَبِيْرُ الْمُتَعَالِي جیسے اسماء حسنیٰ جن کا مفہوم و مدعا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو جو کچھ کسی نے جانا اور سمجھا ہے اللہ تعالیٰ اس سے بھی بلند و بالا اور وراء الوراء ہے ۔ بلا شبہ الله اكبر اس حقیقت کی بہترین تعبیر ہے ۔ پس جس نے دل کے شعور و یقین کے ساتھ کہا سُبْحَانَ اللهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَاللهُ أَكْبَرُ اس نے اللہ کی ساری ثناء و صفت بیان کر دی اور تمام اسماء حسنیٰ میں اللہ تعالیٰ کی جن ایجابی یا سلبی صفاتِ کمال کا بیان ہے دل سے ان سب کی شہادت دے دی ، اس لئے یہ چار کلمے اپنی قدر و قیمت اور عظمت و برکت کے لحاظ سے بلاشبہ اس ساری کائنات کے مقابلے میں فائق ہیں جس پر سورج کی روشنی یا اس کی شعاعیں پڑتی ہیں ۔ جن قلوب کو ایمان کی دولت نصیب ہے ان کے لئے یہ حقیقت بالکل وجدانی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ایمان کی یہ دولت نصیب فرمائے ۔
کلمات ذِکر اور ان کی فضیلت و برکت
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک ایسے درضت کے پاس سے گزرے جس کے پتے سوکھ چکے تھے ، آپ ﷺ نے اس پر اپنا عصائے مبارک مارا تو اس کے سوکھے پتے جھڑ پڑے (اور ساتھ والوں نے وہ منظر دیکھا) پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ : یہ کلمے : “سُبْحَانَ اللهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَاللهُ أَكْبَرُ” بندے کے گناہوں کو اس طرح جھاڑ دیتے ہیں جس طرح تم نے اس درخت کے پتے جھڑتے دیکھے ۔ (جامع ترمذی) تشریح نیک اعمال کی اس خاصیت کا ذکر قرآن مجید میں بھی فرمایا گیا ہے کہ ان کی برکت اور تاثیر سے گناہ مِٹ جاتے ہیں ۔ ارشاد ہے : “اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِ ” (یقینی بات ہے کہ نیکیاں گناہوں کا صفایا کر دیتی ہیں) ۔ احادیث میں رسول اللہ ﷺ نے نماز اور صدقہ وغیرہ بہت سے اعمالِ صالحہ کی اس تاثیر کا خصوصیت سے بیان فرمایا ہے ۔ اس حدیث میں آپ ﷺ نے ان چار کلموں کی یہ تاثیر بیان فرمائی اور درخت کے سوکھے پتے عصا کی ایک ضرب سے جھاڑ کے صحابہ کرامؓ کو اس کا ایک نمونہ بھی دکھایا ۔ اللہ تعالیٰ ان حقیقتوں کا یقین نصیب فرمائے ، اور ان کلموں کی عظمت و تاثیر سے استفادہ کی توفیق دے ۔
کلمات ذِکر اور ان کی فضیلت و برکت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے روزانہ سو دفعہ کہا (سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ) اس کے قصور معاف کر دئیے جائیں گے اگرچہ کثرت میں سمندر کے جھاگوں کے برابر ہوں ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح “سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ” کا مطلب وہی ہے جو “سُبْحَانَ اللهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ” کا ہے ، یعنی ہر اس بات سے اللہ تعالیٰ کی تنزیہہ و تقدیس جو اس کے شایان شان نہیں ہے اور جس میں ذرا بھی قصور یا عیب کا کوئی شائبہ ہے ، اور اسی کے ساتھ تمام صفات کمال کا اس کی ذات عالی کے لئے اثبات اور اس کی بناء پر اس کی حمد و ثناء اس طرح یہ مختصر کلمہ “سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ” اس سب پر حاوی ہے جو سلبی یا ایجابی طور پر اللہ تعالیٰ کی ثناء و صفت کہا جا سکتا ہے ۔ حدیث سابق کی طرح اس حدیث میں مختصر دو حرفی کلمہ کی یہ تاثیر بیان کی گئی ہے کہ جو بندہ روزانہ یہ کلمہ سو دفعہ پڑھے تو اس کے سارے گناہ دور ہو جائیں گے اور وہ گناہوں کی گندگی سے پاک صاف ہو جائے گا ، اگرچہ اس کے گناہ سمندر کے جھاگوں کے برابر حد و حساب سے باہر ہوں ۔ گویا جس طرح تیز روشنی اندھیرے کو ایک دم ختم کر دیتے ہے اور جس طرح سخت تپش بالخاصہ نمی اور رطوبت کو فنا کر دیتی ہے اسی طرح اللہ کا ذکر اور دوسری نیکیاں گناہوں کے گندے اثرات کو فنا کر دیتی ہیں ۔ لیکن جیسا کہ اسی سلسلہ (معارف الحدیث) میں کئی بار پہلے ذکر کیا جا چکا ہے قرآن مجید کی بعض آیات اور رسول اللہ ﷺ کے بعض ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ نیکیوں کی برکت اور تاثیر سے صرف وہ خطائیں معاف ہوتی ہیں جو “کبیرہ” درجہ کی نہ ہوں ، اس لئے بڑے درجہ کے گناہ جن کو خاص اصطلاح میں گناہ کبیرہ کہا جاتا ہے ۔ ان کی معافی کے لئے توبہ و استغفار ضروری ہے ۔ واللہ اعلم ۔
کلمات ذِکر اور ان کی فضیلت و برکت
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ : کلاموں میں کون سا کلام افضل ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ کلام جو اللہ تعالیٰ نے اپنے ملائکہ کے لئے منتخب فرمایا ہے ۔ یعنی “سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ”. (صحیح مسلم) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فرشتوں کا خاص ذکر یہی “سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ” ہے ۔ اس حدیث مین اس کلمہ کو سب سے افضل کہا گیا ہے ۔ اور حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی حدیث میں جودو ہی ورق پہلے درج ہو چکی ہے فرمایا گیا ہے کہ سب سے افضل یہ چار کلمے ہیں : “سُبْحَانَ اللهِ، الْحَمْدُ لِلَّهِ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، اللهُ أَكْبَرُ” اور ایک دوسری حدیث میں “لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ” کو افضل الذکر فرمایا گیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ ان تینوں باتوں میں کوئی منافات نہیں ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ سب کلمے دوسرے سب کلاموں کے مقابلے میں افضل اور اللہ کو زیادہ محبوب ہیں ۔
کلمات ذِکر اور ان کی فضیلت و برکت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “دو کلمے زبان پر ہلکے پھلکے ، میزانِ اعمال میں بڑے بھاری اور خدا وند مہربان کو بہت پیارے ۔ “سُبْحَانَ اللَّهِ العَظِيمِ، سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ”. (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح ان دو کلموں کا زبان پر ہلکا ہونا تو ظاہر ہے ، اور اللہ تعالیٰ کو محبوب ہونا بھی آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے ، لیکن میزانِ اعمال مین بھاری ہونے والی بات کا سمجھنا شاید بعض لوگوں کے لئے آسان نہ ہو ۔ واقعہ یہ ہے کہ جس طرح مادی چیزیں ہلکی اور بھاری ہوتی ہیں اور ان کا وزن معلوم کرنے کے لئے آلات ہوتے ہیں جن کو میزان (ترازو یا کانٹا) کہا جاتا ہے ۔ اسی طرح بہت سی غیر مادی چیزیں بھی ہلکی اور بھاری ہوتی ہیں اور ان کا ہلکا اور بھاری پن بتانے والا آلہ ہوتا ہے ۔ وہی اس کی میزان ہوتی ہے ۔ مثلاً حرارت اور برودت یعنی گرمی اور ٹھنڈک ظاہر ہے کہ مادی چیزیں نہیں ہیں بلکہ کیفیات ہیں ، لیکن ان کا ہلکا اور بھاری پن تھرمامیٹر کے ذریعہ معلوم کیا جاتا ہے ۔ اسی طرح قیامت مین اللہ کے نام کا وزن ہو گا ، کلمات ذکر کا وزن ہو گا ، تلاوتِ قرآن کا وزن ہو گا ، نماز کا وزن ہو گا ۔ ایمان کا اور اللہ تعالیٰ کے خوف اور اس کی محبت کا وزن ہو گا ۔ اس وقت یہ بات کھل کر سامنے آئے گی کہ بعض بہت ہلکے پھلکے کلمے بےحد وزنی ہوں گے ۔ ایک دوسری حدیث میں ہے حضور ﷺ نے فرمایا کہ : “اللہ کے نام کے مقابلے میں کوئی چیز بھی بھاری اور وزنی نہ ہو گی ۔ ” لَا يَزِنُ مَعَ اسْمِ اللهِ شَيْئٌ. اس کلمہ “سُبْحَانَ اللَّهِ العَظِيمِ، سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ ” کا مطلب یہ ہے کہ میں اللہ کی پاکی بیان کرتا ہوں اس کی حمد و ستائش کے ساتھ ، میں اللہ کی پاکی بیان کرتا ہوں جو بڑی عظمت والا ہے ۔
کلمات ذِکر اور ان کی فضیلت و برکت
ام المؤمنین حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن نمازِ فجر پڑھنے کے بعد ان کے پاس سے باہر نکلے ، وہ اس وقت اپنی نماز پڑھنے کی جگہ بیٹھی کچھ پڑھ رہی تھیں ۔ پھر آپ ﷺ دیر کے بعد جب چاشت کا وقت آ چکا تھا واپس تشریف لائے ، حضرت جویریہؓ اسی طرح بیٹھی اپنے وظیفہ میں مشغول تھیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : “تمہارے پاس سے جانے کے بعد میں نے چار کلمے تین دفعہ کہے ، اگر وہ تمہارے اس پورے وظیفے کے ساتھ تولے جائیں جو تم نے آج صبح سے پڑھا ہے تو ان کا وزن بڑھ جائے گا ، وہ کلمے یہ ہیں : سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ، عَدَدَ خَلْقِهِ وَرِضَا نَفْسِهِ وَزِنَةَ عَرْشِهِ وَمِدَادَ كَلِمَاتِهِ (اللہ کی تسبیح اور اس کی حمد اس کی ساری مخلوقات کی تعداد کے برابر اور اس کے عرش عظیم کے وزن کے برابر ، اور اس کی ذاتِ پاک کی رضا کے مطابق اور اس کے کلموں کی مقدار کے مطابق ۔ (صحیح مسلم)
کلمات ذِکر اور ان کی فضیلت و برکت
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ پہنچے ایک بیوی کے پاس اور ان کے آگے کھجور کی گٹھلیاں تھیں ، (یا سنگریزے تھے) وہ ان گٹھلیوں (یا سنگریزوں) پر تسبیح پڑھ رہی تھیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : “میں تم کو نہ نہ بتا دوں جو تمہارے لئے اس سے زیادہ آسان ہے ۔ (یا فرمایا کہ اس سے افضل ہے) وہ یہ ہے کہ تم اس طرح کہو : سُبْحَانَ اللهِ عَدَدَ مَا خَلَقَ فِي السَّمَاءِ، وَسُبْحَانَ اللهِ عَدَدَ مَا خَلَقَ فِي الأَرْضِ، وَسُبْحَانَ اللهِ عَدَدَ مَا بَيْنَ ذَلِكَ، وَسُبْحَانَ اللهِ عَدَدَ مَا هُوَ خَالِقٌ. سبحان اللہ ساری مخلوق کی تعداد کے مطابق ۔ سبحان اللہ ساری زمینی مخلوق کی تعداد کے مطابق ۔ سبحان اللہ زمین و آسمان کے درمیان کی ساری مخلوقات کی تعداد کے مطابق ۔ جس کو وہ ابد الآباد تک پیدا فرمانے والا ہے ۔ اور (اللهُ أَكْبَرُ) اسی طرح ، اور (الْحَمْدُ لِلَّهِ) اسی طرح اور (لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ) اسی طرح اور (لا حول ولا قوة الا بالله) اسی طرح ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد) تشریح ان دونوں حدیثوں سے معلو ہوا کہ زیادہ ثواب حاصل کرنے کا ایک طریقہ جس طرح کثرتِ ذکر ہے اسی طرح ایک آسان تر طریقہ یہ بھی ہے کہ اس کے ساتھ ایسے الفاظ شامل کر دئیے جائیں جو کثرتِ تعداد پر دلالت کرنے والے ہوں ۔ جیسا کہ مندرجہ بالا دونوں حدیثوں میں حضور ﷺ نے بتلایا ہے ۔ یہاں یہ بات ملحوظ رکھنے کی ہے کہ خود رسول اللہ ﷺ نے بعض حدیثوں میں کثرتِ ذکر کی ترغیب دی ہے ۔ اور قریب ہی وہ حدیث گزر چکی ہے جس میں آپ ﷺ نے روزینہ سو دفعہ “سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ” کہنے والے کو گناہوں کے معاف کئے جانے کی خوشخبری سنائی ہے ۔ اس لئے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ اس حدیث ، اور اس سے پہلے والی حضرت جویریہؓ کی حدیث سے کثرتِ ذکر کی نفی یا باپسندیدگی سمجھنا ہرگز صحیح نہ ہو گا ۔ ان دونوں حدیثوں کا منشاء اور مدعا دراصل یہ ہے کہ زیادہ ثواب حاصل کرنے کا ایک زیادہ آسان طریقہ یہ بھی ہے اور خاص کر وہ لوگ جو اپنے مخصوص حالات کی وجہ سے ذِکر اللہ کے لئے زیادہ وقت فارغ نہ کر سکیں ، وہ اس طرح سے بھی بڑا ثواب حاصل کر سکتے ہیں ۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلہ میں فرمایا ہے کہ : “جس شخص کا مقصد اپنے باطن اور اپنی زندگی کو ذکر کے رنگ میں رنگنا ہو اس کو کثرت ذکر کا طریقہ اختیار کرنا ناگزیر ہے ، اور جس کا مقصد ذکر سے صرف ثوابِ اُخروی حاصل کرنا ہو اس کو ایسے کلمات ذکر کا انتخاب کرنا چاہئے جو معنوی لحاظ سے زیادہ فائق اور سیع تر ہوں جیسے کہ ان دونوں حدیثوں میں مذکور ہیں ۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عہدِ نبویﷺ میں تسبیح کا رواج تو نہیں تھا لیکن بعض حضرات اس مقصد کے لئے گٹھلیاں یا سنگریزے استعمال کرتے تھے ، اور رسول اللہ ﷺ نے ان کو اس سے منع نہیں فرمایا ۔ ظاہر ہے کہ اس میں اور تسبیح کے دانوں کے ذریعے شمار میں کوئی فرق نہیں ، بلکہ تسبیح دراصل اس کی ترقی یافتہ اور سہل شکل ہے ۔ جن حضرات نے تسبیح کو بدعت قرار دیا ہے بلاشبہ انہوں نے شدت اور غلو سے کام لیا ہے ۔
لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ کی خاص فضیلت
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سب سے افضل ذکر “لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ” ہے ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد) تشریح حضرت سمرہ بن جندبؓ والی وہ حدیث پہلے گزر چکی ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ سب کلموں میں افضل یہ چار کلمے ہیں : سُبْحَانَ اللهِ اور الْحَمْدُ لِلَّهِ اور لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ اور اللهُ أَكْبَرُ. اور حضرت جابرؓ والی اس حدیث میں لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ کو افضل ترین کلمہ فرمایا گیا ہے ۔ واقعہ یہی ہے کہ دنیا بھر کے دوسرے سب کلموں اور کلاموں کے مقابلے میں تو یہ چاروں کلمے افضل ہیں ، لیکن ان سب میں نسبتاً لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ افضل ہے ، کیوں کہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ باقی تینوں کلموں کے مدعا کو بھی ضمنی طور پر اپنے اندر لئے ہوئے ہے ۔ جب بندہ یہ کہتا ہے کہ معبود برحق صرف اللہ ہے اس کے سوا کوئی نہیں ، تو اس کے ضمن میں یہ بات خود بخود آ جاتی ہے کہ وہ ہر نقص و عیب سے پاک اور منزہ ہے ، اور تمام صفاتِ کمال کا وہ جامع ہے اور عظمت و کبریائی میں وہ برتر ہے ، کیوں کہ جو لا شریک معبود ہو اس میں یہ سب باتیں ہونا لازمی ہیں ۔ اس لئے جس نے صرف لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ کہا اس نے گویا وہ سب کچھ بھی کہہ دیا جو سُبْحَانَ اللهِ، الْحَمْدُ لِلَّهِ اور اللهُ أَكْبَرُ کے ذریعے کہا جاتا ہے ۔ علاوہ ازیں “لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ” کلمہ ایمان ہے ۔ اور اسی لئے سب پیغمبروں کی تعلیم کا پہلا سبق ہے ۔ نیز اپنے اپنے تجربہ کی بناء پر عرفا اور صوفیاء کا اس پر گویا اتفاق ہے کہ باطن کی تطہیر اور قلب کو ہر طرف سے موڑ کے اللہ تعالیٰ سے وابستہ کرنے مین سب سے زیادہ مؤثر اسی کلمہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ کا ذکر ہوتا ہے ۔ اسی لئے ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے ایمانی کیفیت کو قلب میں تازہ کرنے اور ترقی دینے کے لئے اس کلمہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ کی کثرت کا حکم دیا ہے ۔
لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ کی خاص فضیلت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “جو بندہ دل کے اخلاص سے کہے لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ اس کے لئے لازماً آسمانوں کے دروازے کھل جائیں گے ، یہاں تک کہ وہ کلمہ عرش الٰہی تک پہنچے گا بشرطیکہ وہ آدمی کبیرہ گناہوں سے بچتا رہے ۔ (جامع ترمذی) تشریح اس حدیث میں کلمہ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ کی ایک خاص فضیلت و خصوصیت یہ بیان کی گئی ہے کہ اگر اخلاص سے یہ کلمہ کہا جائے اور اللہ سے دور کرنے والے بڑے گناہوں سے بچنے کا اہتمام کیا جائے تو یہ کلمہ براہِ راست عرشِ الٰہی تک پہنچتا ہے اور خاص مقبولیت سے نوازا جاتا ہے ۔ اور ترمذی ہی کی ایک دوسری حدیث میں ہے : وَلاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ لَيْسَ لَهَا حِجَابٌ مِنْ دُونِ اللهِ حَتَّى تَخْلُصَ إِلَيْهِ. کلمہ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ کے اور اللہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں ، یہ کلمہ سیدھا اللہ کے پاس پہنچتا ہے ۔ معلوم ہوا کہ ذکر اللہ کے دوسرے کلموں کے مقابلے میں اس کلمہ کی یہ ایک مخصوص فضیلت اور خصوصیت ہے ۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ “حجۃ اللہ البالغہ” میں فرماتے ہیں “لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ” میں بہت سے خواص ہیں ۔ پہلی خاصیت یہ ہے کہ وہ شرکِ جلی کو ختم کر دیتا ہے ۔ دوسری خاصیت یہ ہے کہ وہ شرکِ خفی کو بھی ختم کرتا ہے ، اور تیسری خاصیت یہ ہے کہ وہ بندے کے اور معرفتِ الہٰی کے درمیان حجابات کو سوخت کر کے حصول معرفت اور قرب کا ذریعہ بن جاتا ہے ۔
لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ کی خاص فضیلت
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا کہ : “اللہ کے نبی موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور میں عرض کیا کہ اے میرے رب مجھ کو کوئی کلمہ تعلیم فرما جس کے ذریعے میں تیرا ذکر کروں (یا کہا کہ جس کے ذریعے میں تجھے پکاروں) تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کہ اے موسیٰؑ ! لاالہ الا اللّٰہ کہا کرو۔ انہوں نے عرض کیا کہ اے میرے رب! یہ کلمہ تو تیرے سارے ہی بندے کہتے ہیں، میں تو وہ کلمہ چاہتا ہوں جو آپ خصوصیت سے مجھے ہی بتائیں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ: اے موسیٰؑ ! اگر ساتوں آسمان اور میرے سواوہ سب کائنات جس سے آسمانوں کی آبادی ہے اور ساتوں زمینیں ایک پلڑے میں رکھی جائیں اور لاالہ الا اللّٰہ دوسرے پلڑے میں تو لاالہ الا اللّٰہ کا وزن ان سب سے زیادہ ہوگا۔ (شرح السنہ للبغوی) تشریح موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بندگی اور محبت کا جو خاص تعلق تھا اور اس کی بناء پر قربِ خصوصی کی جو قدرتی خواہش تھی اسی کی وجہ سے انہوں نے اللہ تعالیٰ سے استدعا کی کہ مجھے ذکر کا کوئی خاص کلمہ تعلیم فرمایا جائے ، اللہ تعالیٰ نے ان کو لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ بتایا جو افضل الذکر ہے ۔ انہوں نے عرض کیا کہ میری استدعا کسی خاص کلمہ کے لئے ہے جس سے مجھے ہی نوازا جائے ۔ الغرض کلمہ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ کا عموم اس کی قدر و قیمت اور عظمت کے بارے میں ان کے لئے حجاب بن گیا ۔ اس لئے ان کو بتایا گیا کہ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ کی حقیقت زمین و آسمان کی ساری کائنات کے مقابلے میں زیادہ قیمتی اور بھاری ہے ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت عامہ ہے کہ اس نے اپنے پیغمبروں کے ذریعہ یہ نعمت عظمیٰ ہر عامی کو بھی پہنچا دی ہے ۔ بہرکیف انبیاء و مرسلینؑ کے لئے بھی کوئی کلمہ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ سے زیادہ قیمتی اور بابرکت نہیں ہے ۔ اس بے بہا نعمتِ خداوندی کا شکر یہی ہے کہ اس کلمہ پاک کو اپنا ورد بنایا جائے اور اس کی کثرت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے خاص رابطہ قائم کیا جائے ۔
کلمہ توحید کی خاص عظمت و برکت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے سو دفعہ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ وَلَهُ الحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کے ، وہ اکیلا ہے، کوئی اس کا شریک ساجھی نہیں، فرمانروائی اسی کی ہے اور اس کے لئے ہر قسم کی ستائش ہے اور ہر چیز پر اس کی قدرت ہے) تو وہ دس غلام آزاد کرنے کے برابر ثواب کا مستحق ہو گا اور اس کے لئے سو نیکیاں لکھی جائیں گی اور اس کی سو غلط کاریاں محو کر دی جائی گی ، اور یہ عمل اس کے لئے اس دن شام تک شیطان کے حملہ سے حفاظت کا ذریعہ ہو گا ،ا ور کسی آدمی کا عمل اس کے عمل سے افضل نہ ہو گا سوائے اس آدمی کے جس نے اس سے بھی زیادہ عمل کیا ہو ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح بےشک کلمہ توحید جس میں کلمہ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ پر کچھ اور اضافہ ہے جس سے اس کے منفی و مثبت مضمون کی مزید تشریح اور وضاحت ہوتی ہے اتنا ہی عظیم القدر اور بابرکت ہے جتنا کہ اس حدیث شریف میں بتایا گیا ہے ۔ مرنے کے بعد ان شاء اللہ یہ چیز ہم سب کے مشاہدے میں آ جائے گی ۔ بعض لوگوں کو ایسی حدیثوں کے بارے میں شکوک و شبہات ہوتے ہیں جن میں کسی کلمہ کا اتنا بڑا ثواب بتایا جائے ۔ حالانکہ خود انہیں اپنی زندگی میں بارہا اس کا تجربہ ہوا ہو گا کہ برائی اور فساد کا ایک کلمہ آگ لگا دیتا ہے ، اور اس کے منحوس اثرات برسہا برس تک کے لئے خاندانوں اور گروہوں کی زندگیوں کو جہنم بنا دیتے ہیں ۔ اسی طرح کبھی خلوص سے نکلا ہوا ایک اصلاحی کلمہ خیر و فساد کی بھڑکتی آگ کو بجھانے میں ٹھنڈے پانی کا کام کرتا ہے اور بےچینیوں اور تلخیوں کو دور کر کے زندگیوں کو باغ و بہار بنا دیتا ہے ۔ انسان کی زبان سے نکلے ہوئے ایک ایک کلمہ کے جو اثرات ہماری اس دنیا میں ہوتے ہیں ان میں غور و فکر کر کے آخرت کے ان سے بڑے اور دور رس نتائج و ثمرات کا سمجھنا زیادہ مشکل نہیں رہتا ۔
لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ کی خاص فضیلت
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے ایک دن فرمایا : “میں تمہیں وہ کلمہ بتاؤں جو جنت کے خزانوں میں سے ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ : “ہاں حضرت ﷺ! ضرور بتائیں” ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ ہے “لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ” (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس کلمہ کے “خزائن جنت” میں سے ہونے کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جو شخص یہ کلمہ اخلاص کے ساتھ پڑھے گا اس کے لئے اس کلمہ کے بےبہا اجر و ثواب کا خزانہ اور ذخیرہ جنت میں محفوظ کیا جائے گا جس سے وہ آخرت میں ویسا ہی فائدہ اُٹھا سکے گا جیسا کہ ضرورت کے موقعوں پر محفوظ خزانوں سے اٹھایا جاتا ہے ۔ اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ حضور ﷺ کا منشا اس لفظ سے اس کلمہ کی صرف عظمت اور قدر و قیمت بتانا ہے ، یعنی یہ کہ جنت کے خزانوں کے جواہرات میں سے یہ ایک جوہر ہے ۔ کسی چیز کو بہت قیمتی بتانےکے لئے یہ بہترین تعبیر ہو سکتی ہے ۔ واللہ اعلم ۔ “لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ” کا مطلب یہ ہے کہ کہ کسی کام کے لئے سعی و حرکت اور اس کے کرنے کی قوت و طاقت بس اللہ ہی سے مل سکتی ہے ، کوئی بندہ خود کچھ بھی نہیں کر سکتا ۔ دوسرا ایک مطلب جو اس کے قریب ہی قریب ہے یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ “گناہ سے باز آنا اور طاعت کا بجا لانا اللہ کی مدد و توفیق کے بغیر بندے سے ممکن نہیں” ۔
لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ کی خاص فضیلت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ : “لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ” زیادہ پڑھا کرو ، کیوں کہ یہ خزائن جنت میں سے ہے ۔ (جامع ترمذی)
لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ کی خاص فضیلت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : “میں تم کو وہ کلمہ بتاؤں جو عرش کے نیچے سے اُترا ہے اور خزانہ جنت میں سے ہے ، وہ ہے “لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ” (جب بندہ دل سے یہ کلمہ پڑھتا ہے تو) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ : “یہ بندہ (اپنی انانیت سے دستبردار ہو کر) میرا تابعدار اور بالکل فرمانبردار ہو گیا ۔” (دعوات کبیر للبیہقی) تشریح اس حدیث میں کلمہ “لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ” کو “مِنْ كَنْزِ الْجَنَّةِ” کے علاوہ “مِنْ تَحْتِ الْعَرْشِ” بھی فرمایا گیا ہے ۔ یہ بھی دراصل اس کلمہ کی عظمت کے اظہار کا ایک عنوان ہے ، اور مطلب یہ ہے کہ مجھ پر اس کا نزول عرشِ الہٰی سے ہوا ہے ۔ واللہ اعلم ۔ فائدہ ........ بعض مشائخ طریقت کا ارشاد ہے کہ : “جس طرح شرکِ جلی و خفی اور قلب نفس کی دوسری کدورتیں دور کرنے اور ایمان و معرفت کا نور حاصل کرنے میں کلمہ “لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ” خاص اثر کرتا ہے ۔ اسی طرح عملی زندگی درست کرنے یعنی معصیات اور منکرات سے بچنے اور نیکی کی راہ پر چلنے میں یہ کلمہ “لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ” خاص اثر رکھتا ہے ۔”
اسمائے حسنیٰ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام یعنی ایک کم سو نام ہیں ، جس نے ان کو محفوظ کیا اور ان کی نگہداشت کی وہ جنت میں جائے گا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح حقیقی معنی میں اللہ پاک کا نام یعنی اسم ذات صرف ایک ہی ہے ، اور وہ ہے “اللہ” البتہ اس کے صفاتی نام سینکڑوں ہیں جو قرآن مجید اور احادیث مین وارد ہوئے ہیں ، انہی کو اسماء حسنیٰ کہا جاتا ہے ۔ حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے فتح الباری شرح صحیح بخاری میں امام جعفر بن محمد صادق اور سفیان بن عیینہ اور بعض دوسرے اکابر امت سے نقل کیا ہے کہ : “اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام تو صرف قرآن مجید ہی میں مذکور ہیں ۔ اور پھر انہی حضرات سے ان کی تفصیل اور تعیین بھی نقل ہے ۔ اس کے بعد حافظ ممدوحؒ نے ان میں سے بعض اسماء کے متعلق یہ تبصرہ کر کے کہ یہ اپنی خاص شکل میں قرآن مجید میں مذکور نہیں ہیں بلکہ استخراج اور اشتقاق کے طور پر وضع کئے گئے ہیں ، ان کے بجائے دوسرے اسماء قرآن مجید ہی سے نکال کے بتایا ہے کہ یہ ننانوے اسماء الٰہیہ قرآن مجید میں اپنی اصل شکل میں مذکور ہیں اور ان کی پوری فہرست دی ہے جو ان شاء اللہ عنقریب نقل ہو گی”۔ ہمارے ہی زمانہ کے بعض علماء نے اللہ تعالیٰ کے صفاتی اسماء کا تتبع احادیث سے کیا تو دو سو سے زائد ان کو ملے ۔ یہ سارے صفاتی اسماء حسنیٰ اللہ تعالیٰ کے صفاتِ کمال کے عنوانات اور اس کی معرفت کے دروازے ہیں ۔ پس اللہ تعالیٰ کے ذکر کی ایک بڑی جامع اور تفصیلی شکل یہ بھی ہے کہ بندہ عظمت اور محبت کے ساتھ ان اسماء کے ذریعے اللہ تعالیٰ کو یاد کرے اور ان کو اپنا وظیفہ بنائے ۔ اس تمہید کے بعد اس سلسلہ کی چند احادیث ذیل میں پڑھئے ۔ تشریح ..... صحیحین کی روایت میں صرف اتنا ہی ہے ، ان ننانوے ناموں کی تفصیل اور تعین اس روایت میں نہیں کی گئی ہے ۔ عنقریب ہی ان شاء اللہ جامع ترمذی وغیرہ کی اس روایت کا ذکر آئے گا جس میں تفصیل کے ساتھ یہ ننانوے نام بیان کئے گئے ہیں ۔ شارحین حدیث اور علماء کا اس پر قریب قریب اتفاق ہے کہ اسماء الہیہ صرف ننانوے پر منحصر نہیں ہیں اور یہ ان کی پوری تعداد نہیں ہے ، کیوں کہ تتبع اور تلاش کے بعد احادیث میں اس سے بہت زیادہ تعداد مل جاتی ہے ۔ اس لئے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس کا مطلب اور مدعا صرف یہ ہے کہ جو بندہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے ناموں کو یاد کرے گا اور ان کی نگہداشت کرے گا وہ جنت میں جائے گا ۔ یعنی صرف ننانوے ناموں کا احصاء کر لینے پر بندہ اس بشارت کا مستحق ہو جائے گا۔ حدیث پاک کے جملہ “مَنْ أَحْصَاهَا دَخَلَ الجَنَّةَ” کی تشریح میں علماء اور شارحین نے مختلف باتیں لکھیں ہیں ۔ ایک مطلب اس کا یہ بیان کیا گیا ہے کہ جو بندہ اسماء الہیہ کے مطالب سمجھ کر اور ان کی معرفت حاصل کر کے اللہ تعالیی کی ان صفات پر یقین کرے گا جن کے یہ اسماء عنوانات ہیں وہ جنت میں جائے گا ۔ دوسرا ایک مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ جو بندہ ان اسماء حسنیٰ کے تقاضوں پر عمل پیرا ہو گا وہ جنت میں جائے گا ۔ تیسرا ایک مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ جو بندہ ننانوے ناموں سے اللہ تعالیٰ کو یاد کرے گا اور ان کے ذریعے اس سے دعا کرے گا وہ جنت میں جائے گا ۔ امام بخاریؒ نے “مَنْ أَحْصَاهَا” کی تشریح “مَنْ حَفِظَهَا” سے کی ہے ، بلکہ اس حدیث کی بعض روایات میں “مَنْ أَحْصَاهَا” کی جگہ “مَنْ حَفِظَهَا” کے الفاظ بھی وارد ہوئے ہیں ، اس لئے اس تشریح کو ترجیح دی گئی ہے ، اور اسی لئے ترجمہ میں اس عاجز نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے ۔ اس بناء پر حدیث کا مطلب یہ ہو گا کہ جو بندہ ایمان اور عقیدت کے ساتھ اللہ تعالیی کا قرب اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے اس کے ننانوے نام محفوظ کر لے اور ان کے ذریعہ اس کو یاد کرے وہ جنت میں جائے گا ۔ واللہ اعلم ۔
ننانوے اسماءِ حسنیٰ جو سب کے سب قرآن مجید میں ہیں
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں (ایک کم سو) جس نے ان کو محفوظ کیا اور ن کی نگہداشت کی وہ جنت میں جائے گا ۔ (ان ناموں کی تفصیل یہ ہے) ۔ وہ اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ الرَّحْمَنُ (بڑی رحمت والا) الرَّحِيمُ (نہایت مہرباب) الْمَلِكُ (حقیقی بادشاہ) الْقُدُّوسُ (نہایت مقدس اور پاک) السَّلامُ (جس کی ذاتی صفت سلامتی ہے) الْمُؤْمِنُ (امن و امان عطا فرمانے والا) الْمُهَيْمِنُ (پوری نگہبانی فرمانے والا) الْعَزِيزُ (غلبہ اور عزت جس کی ذاتی صفت ہے ، اور جو سب پر غالب ہے) الْجَبَّارُ (صاحب جبروت ہے ، ساری مخلوق اس کے زیر تصرف ہے ،) الْمُتَكَبِّرُ (کبریائی اور بڑائی اس کا حق ہے) الْخَالِقُ (پیدا فرمانے والا) الْبَارِئُ (ٹھیک بنانے والا) الْمُصَوِّرُ (صورت گری کرنے والا) الْغَفَّارُ (گناہوں کا بہت زیادہ بخشنے والا) الْقَهَّارُ (سب پر پوری طرح غالب اور قابو یافتہ جس کے سامنے سب عاجز اور مغلوب ہیں) الْوَهَّابُ (بغیر کسی عوض اور منفعت کے خوب عطا فرمانے والا) الرَّزَّاقُ (سب کو روزی دینے والا) الْفَتَّاحُ (سب کے لئے رحمت اور رزق کے دروازے کھولنے والا) الْعَلِيمُ (سب کچھ جاننے والا) الْقَابِضُ ، الْبَاسِطُ (تنگی کرنے والا ، فراخی کرنے والا ۔ یعنی اس کی شان یہ ہے کہ اپنی حکمت اور مشیت کے مطابق کبھی کسی کے حالات میں تنگی پیدا کرتا ہے اور کبھی فراخی کر دیتا ہے) الْخَافِضُ ، الرَّافِعُ (پست کرنے والا ، بلند کرنے والا) الْمُعِزُّ ، الْمُذِلُّ (عزت دینے والا ، ذلت دینے والا) (یعنی کسی کو نیچا اور کسی کو اونچا کرنا ، کسی کو عزت دے کر سرفراز کرنا اور کسی کو قعر مذلت میں گرا دینا اس کے قبضہ و اختیار میں ہے ، اور یہ سب کچھ اسی کی طرف سے ہوتا ہے) السَّمِيعُ ، الْبَصِيرُ (سب کچھ سننے والا ، سب کچھ دیکھنے والا) الْحَكَمُ ، الْعَدْلُ (حاکم حقیقی ، سراپا عدل و انصاف) اللَّطِيفُ (لطافت اور لطف و کرم جس کی ذاتی صفت ہے) الْخَبِيرُ (ہر بات سے باخبر) الْحَلِيمُ (نہایت بردبار) الْعَظِيمُ (بڑی عظمت والا ، سب سے بزرگ و برتر) الْغَفُورُ (بہت بخشنے والا) الشَّكُورُ (حسن عمل کی قدر کرنے والا اور بہتر سے بہتر جزا دینے والا) الْعَلِيُّ ، الْكَبِيرُ (سب سے اعلیٰ ، سب سے بڑا) الْحَفِيظُ (سب کا نگہبان) الْمُقِيتُ (سب کو سامانِ حیات فراہم کرنے والا) الْحَسِيبُ (سب کے لئے کفایت کرنے والا) الْجَلِيلُ (عظیم القدر) الْكَرِيمُ (صاحب کرم) الرَّقِيبُ (نگہدار اور محافظ) الْمُجِيبُ (قبول فرمانے والا) الْوَاسِعُ (وسعت رکھنے والا) الْحَكِيمُ (سب کام حکمت سے کرنے والا) الْوَدُودُ (اپنے بندوں کو چاہنے والا) الْمَجِيدُ (بزرگی والا) الْبَاعِثُ (اٹھانے والا ، موت کے بعد مُردوں کو جلانے والا) الشَّهِيدُ (حاضر جو سب کچھ دیکھتا ہے اور جانتا ہے) الْحَقُّ (جس کی ذات اور جس کا وجود اصلاً حق ہے) الْوَكِيلُ (کارسازِ حقیقی) الْقَوِيُّ ، الْمَتِينُ (صاحب قوت اور بہت مضبوط) الْوَلِيُّ (سرپرست مددگار) الْحَمِيدُ (مستحق حمد و ستائش) الْمُحْصِي (سب مخلوقات کے بارے میں پوری معلومات رکھنے والا) الْمُبْدِئُ ، الْمُعِيدُ (پہلا وجود بخشنے والا ، دوبارہ زندگی دینے والا) الْمُحْيِي ، الْمُمِيتُ (زندگی بخشنے والا ، موت دینے والا) الْحَيُّ (زندہ جاوید ، زندگی جس کی ذاتی صفت ہے) الْقَيُّومُ (خود قائم رہنے والا اور سب مخلوق کو اپنی مشیت کے مطابق قائم رکھنے والا) الْوَاجِدُ (سب کچھ اپنے پاس رکھنے والا) الْمَاجِدُ (بزرگی اور عظمت والا) الْوَاحِدُ ، الاحد (ایک اپنی ذات میں ، یکتا اپنی صفات میں) الصَّمَدُ (سب سے بےنیاز اور سب اس کے محتاج) الْقَادِرُ ، الْمُقْتَدِرُ (قدرت والا ، سب پر کامل اقتدار رکھنے والا) الْمُقَدِّمُ ، الْمُؤَخِّرُ (جسے چاہے آگے کر دینے والا اور جسے چاہہے پیچھے کر دینے والا) الأَوَّلُ ، الآخِرُ (سب سے پہلے اور سب سے پیچھے) (یعنی جب کوئی نہ تھا ، کچھ نہ تھا ، جب بھی وہ موجود تھا اور جب کوئی نہ رہے گا کچھ نہ رہے گا وہ اس وقت اور اس کے بعد بھی موجود رہے گا) الظَّاهِرُ ، الْبَاطِنُ (بالکل آشکار اور بالکل مخفی) الْوَالِي (مالک و کارساز) الْمُتَعَالِي (بہت بلند و بالا) الْبَرُّ (بڑا محسن) التَّوَّابُ (توبہ کی توفیق دینے والا اور توبہ قبول کرنے والا) الْمُنْتَقِمُ (مجرمین کو کیفر کردار کو پہنچانے والا) الْعَفُوُّ (بہت معافی دینے والا) الرَّءُوفُ (بہت مہربان) مَالِكُ الْمُلْكِ (سارے جہان کا مالک) ذُو الْجَلالِ وَالإِكْرَامِ (صاحب جلال اور بہت کرم فرمانے والا ۔ جس کے جلال سے بندہ ہمیشہ خائف رہے اور جس کے کرم سے ہمیشہ امید رکھے) الْمُقْسِطُ (حقدار کا حق ادا کرنے والا عادل و منصف) الْجَامِعُ (ساری مخلوق کو قیامت کے دن یکجا کرنے والا) الْغَنِيُّ ، الْمُغْنِي (خود بےنیاز جس کو کسی سے کوئی حاجت نہیں ، اور اپنی عطا کر ذریعہ بندوں کو بےنیاز کر دینے والا) الْمَانِعُ (روک دینے والا ہر اس چیز کو جس کو روکنا چاہے) الضَّارُّ ، النَّافِعُ (اپنی حکمت اور مشیت کے تحت ضرر پہنچانے والا اور نفع پہنچانے والا) النُّورُ (سراپا نور) الْهَادِي (ہدایت دینے والا) الْبَدِيعُ (بغیر مثالِ سابق کے مخلوق کا پیدا فرمانے والا) الْبَاقِي (ہمیشہ رہنے والا جس کو کبھی فنا نہیں) الْوَارِثُ (سب کے فنا ہو جانے کے بعد باقی رہنے والا) الرَّشِيدُ (صاحبِ رُشد و حکمت جس کا ہر فعل اور فیصلہ درست ہے) الصَّبُورُ (بڑا صابر کہ بندوں کی بڑی سے بڑی نافرمانیاں دیکھتا ہے اور فوراً عذاب بھیج کر ان کو تہس نہس نہیں کر دیتا) . (جامع ترمذی ، دعوات کبیر للبیہقی) تشریح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کا ابتدائی حصہ بالکل وہی ہے جو صحیحین کے حوالے سے ابھی اوپر نقل ہو چکا ہے ۔ البتہ اس میں ننانوے ناموں کی تفصیل بھی ہے جو صحیحین کی روایت میں نہیں ہے ۔ اس بناء پر بعض محدثین اور شارحینِ حدیث کی یہ رائے ہے کہ حدیث مرفوع یعنی رسول اللہ ﷺ کا اصل ارشاد بس اسی قدر ہے جتنا صحیحین کی روایت میں ہے یعنی : “إِنَّ لِلَّهِ تَعَالَى تِسْعَةً وَتِسْعِينَ اسْمًا، مِئَةً غَيْرَ وَاحِدَةٍ، مَنْ أَحْصَاهَا دَخَلَ الجَنَّةَ” (اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں جس نے ان کا احصاء کیا وہ جنت میں جائے گا) اور ترمذی کی اس روایت میں اور اسی طرح ابن ماجہ اور حاکم وغیرہ کی روایتوں میں جو ننانوے نام بہ تفصیل ذکر کئے گئے ہیں وہ ارشادِ نبویﷺ کا جز نہیں ہیں ، بلکہ حضرت ابو ہریرہؓ کے بلاواسطہ یا بالواسطہ کسی شاگرد نے حدیث کے اجمال کی تفصیل اور ابہام کی تفسیر کے طور پر قرآن و حدیث میں وارد شدہ اسماءِ الہٰیہ ذکر کر دئیے ہیں ، گویا محدثین کی اصطلاح میں یہ اسماء حسنیٰ مدرج ہیں ۔ اس کا ایک قرینہ یہ بھی ہے کہ ترمذی اور ابنِ ماجہ اور حاکم کی روایات میں ننانوے ناموں کی جو تفصیل ذکر کی گئی ہے اس میں بہت بڑا فرق اور اختلاف ہے ۔ اگر یہ ننانوے اسماء حسنیٰ رسول اللہ ﷺ کے تعلیم فرمائے ہوئے ہوتے تو ان میں اتنا اختلاف اور فرق ناممکن تھا ۔ بہرحال یہ تو فنِ حدیث و روایت کی ایک بحث ہے ، مگر اتنی بات سب کے نزدیک مسلم ہے کہ ترمذی کی مندرجہ بالا روایت مین اور اسی طرح ابنِ ماجہ وغیرہ کی روایات میں جو ننانوے اسماءِ حسنیٰ ذکر کئے گئے ہیں وہ سب قرآن مجید اور احادیث میں وارد ہوئے ہیں ، اور رسول اللہ ﷺ نے ننانوے اسماء الٰہیہ کے احصاء پر (محفوظ کرنے پر) جو بشارت سنائی ہے اس کے وہ بندے یقیناً مستحق ہیں جو اخلاص اور عظمت کے ساتھ ان اسماءِ حسنیٰ کو محفوظ کریں اور ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کو یاد کرے ۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے اس کی لِم اور اس کے سبب پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا ہے کہ : “جو صفاتِ کمال حق تعالیٰ کے لئے ثابت کی جانی چاہئیں اور جن چیزوں کی اس کی ذاتِ پاک سے نفی کی جانی چاہئے ، ان ننانوے اسماءِ حسنیٰ میں وہ سب کچھ آ جاتا ہے ، اس بناء پر یہ اسماءِ حسنیٰ اللہ تعالیٰ کی معرفت کا مکمل اور صالح نصاب ہیں ، اور اسی وجہ سے ان کے مجموعہ میں غیر معمولی برکت ہے ، اور عالمِ قدس میں ان کو خاص قبولیت حاصل ہے اور جب کسی بندے کے اعمال نامہ میں یہ اسماءِ الٰہیہ ثبت ہوں تو یہ اس کے حق میں رحمتِ الٰہی کے فیصلہ کے موجب ہوں گے ۔ واللہ اعلم۔ ترمذی کی مندرجہ بالا روایت میں جو ننانوے اسماءِ حسنیٰ ذکر کئے گئے ہیں ان میں سے دو تہائی قرآن مجید میں مذکور ہیں باقی احادیث میں وارد ہوئے ہیں ۔ حضرت امام جعفر صادق وغیرہ جن حضرات نے دعویٰ کیا ہے کہ اللہ تعایلٰ کے ننانوے نام قرآن مجید میں موجود ہیں ان کا ذِکر ابھی اوپر کیا جا چکا ہے ، اور اس سلسلہ میں حافظ ابن حجرؒ کی آخری کاوش کا بھی حوالہ دیا جا چکا ہے کہ انہوں نے صرف قرآن مجید سے وہ ننانوے اسماءِ الٰہیہ نکالے ہیں جو اپنی اصل شکل میں قرآن پاک میں موجود ہیں ۔ اگر ان محدثین اور شارحین کی بات مان لی جائے جن کی رائے ہے کہ ترمذی کی مندرجہ بالا روایت میں جو اسماءِ حسنیٰ ذکر کئے گئے ہیں یہ حدیث مرفوع کا جزو نہیں ہیں بلکہ کسی راوی کی طرف سے مُدرج ہیں (1) یعنی حدیث کے اجمال کی تفصیل کے طور پر انہوں نے قرآن و حدیث میں وارد شدہ ان ناموں کا اضافہ کر دیا ہے تو پھر حافظ ابن، حجر کی پیش کردہ وہ فہرست قابلِ ترجیح ہونی چاہئے جس کے سب اسماء بغیر کسی خاص تصرف کے قرآن مجید ہی سے لئے گئے ہین ۔ ہم ذیل میں ان کی وہ فہرست فتح الباری سے نقل کرتے ہیں ، انہوں نے اسم ذات اللہ کو بھی ان ننانوے ناموں مین شمار کیا ہے ، بلکہ اسی سے اپنی فہرست کا آغاز کیا ہے ۔ اللَّهُ الرَّحْمَنُ، الرَّحِيمُ، الْمَلِكُ، الْقُدُّوسُ، السَّلامُ، الْمُؤْمِنُ، الْمُهَيْمِنُ، الْعَزِيزُ، الْجَبَّارُ، الْمُتَكَبِّرُ، الْخَالِقُ، الْبَارِئُ، الْمُصَوِّرُ، الْغَفَّارُ، الْقَهَّارُ، التَّوَّابُ، الْوَهَّابُ، الْخَلَّاقُ، الرَّزَّاقُ، الْفَتَّاحُ، الْعَلِيمُ، الْحَلِيْمُ، الْعَظِيْمُ، الْوَاسِعُ، الْحَكِيمُ، الْحَيُّ، الْقَيُّومُ، السَّمِيعُ، الْبَصِيرُ، اللَّطِيفُ، الْخَبِيرُ، الْعَلِيُّ، الْكَبِيرُ، الْمُحِيْطُ، الْقَدِيْرُ، الْمَوْلَى، النَّصِيْرُ، الْكَرِيمُ، الرَّقِيبُ، الْقَرِيْبُ، الْمُجِيبُ، الْوَكِيْلُ، الْحَسِيبُ، الْحَفِيظُ، الْمُقِيتُ، الْوَدُودُ، الْمَجِيدُ، الْوَارِثُ، الشَّهِيدُ، الْوَلِيُّ، الْحَمِيدُ، الْحَقُّ، الْمُبِيْنُ، الْقَوِيُّ، الْمَتِينُ، الْغَنِيُّ، الْمَالِكُ، الشَّدِيْدُ، الْقَادِرُ، الْمُقْتَدِرُ، الْقَاهِرُ، الْكَافِىُ، الْمُسْتَعَانُ، الْفَاطِرُ، الْبَدِيْعُ، الْغَافِرُ، الأَوَّلُ، الآخِرُ، الظَّاهِرُ، الْبَاطِنُ، الْكَفِيْلُ، الْغَالِبُ، الْحَكَمُ، الْعَالِمُ، الرَّفِيْعُ، الْحَافِظُ، الْمُنْتَقِمُ، الْقَائِمُ، الْمُحْيِي، الْجَامِعُ، الْمَلِيْكُ، الْمُتَعَال، النُّورُ، الْهَادِي، الْغَفُورُ، الشَّكُورُ، الْعَفُوُّ، الرَّءُوفُ، الْاَكْرَمُ، الْاَعْلَى، الْبِرُّ، الْحَفِىُّ، الرَّبُّ، الْاِلَهُ. الْوَاحِدُ، الْأَحَدُ، الصَّمَدُ، الَّذِي، لَمْ يَلِدْ، وَلَمْ يُولَدْ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ، كُفُوًا أَحَدٌ. (فتح الباری ، صفحہ ۸۳، جز ۲۶) ننانوے اسماءِ حسنیٰ جو ترمذی کی روایت میں مذکور ہیں اور اسی طرح یہ جو حافظ ابن حجرؒ نے قرآن مجید سے نکالے ہیں ، بلاشبہ ان میں سے ہر ایک معرفتِ الٰہی کا دروازہ ہے ۔ علمائے اُمت نے مختلف زمانوں میں ان کی شرح میں مستقل کتابیں لکھی ہیں ۔ مہمات میں ان کے ذریعہ دعا کرنا بہت سے اہل اللہ کے خاص معمولات میں سے ہے اور اس کی قبولیت مجرب ہے ۔
اسم اعظم
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو اس طرح دُعا کرتے ہوئے سنا ، وہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں عرض کر رہا تھا : “اے اللہ! میں اپنی حاجت تجھ سے مانگتا ہوں بوسیلہ اس کے کہ بس تو اللہ ہے ، تیرے سوا کوئی مالک و معبود نہیں ، ایک اور یکتا ہے ، بالکل بےنیاز ہے ، اور سب تیرے محتاج ہیں ، نہ کوئی تیری اولاد ، نہ تو کسی کی اولاد اور نہ تیرا کوئی ہمسر” رسول اللہ ﷺ نے (جب اس بندے کو یہ دُعا کرتے سنا تو) فرمایا کہ : اس بندے نے اللہ سے اس کے اس اسم اعظم کے وسیلہ سے دعا کی ہے جب اس کے وسیلہ سے اس سے مانگا جائے تو وہ دیتا ہے ، اور جب اس کے وسیلہ سے دعا کی جائے تو وہ قبول کرتا ہے ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد) تشریح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسماءِ حسنیٰ میں سے بعض وہ ہیں جن کو اس لحاظ سے خاص عظمت و امتیاز حاصل ہے کہ جب ان کے ذریعہ دعا کی جائے تو قبولیت کی زیادہ امید کی جا سکتی ہے ۔ ان اسماڑ کو حدیث میں “اسم اعظم” کہا گیا ہے ، لیکن صفائی اور صراحت کے ساتھ ان کو متعین نہیں کیا گیا ہے ، بلکہ کسی درجہ میں ان کو مبہم رکھا گیا ہے ، اور یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ لیلۃ القدر کو اور جمعہ کے دن قبولیت دعا کے خاص وقت کو مبہم رکھا گیا ہے ۔ احادیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی ایک ہی اسمِ پاک “اسمِ اعظم” نہیں ہے جیسا کہ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں ، بلکہ متعدد اسماءِ حسنیٰ کو “اسمِ اعظم” کہا گیا ہے ۔ نیز انہی احادیث سے یہ بات بھی صاف ہو جاتی ہے کہ عوام میں اسمِ اعظم کا جو تصور ہے اور اس کے بارے میں جو باتیں مشہور ہین وہ بالکل بےاصل ہیں ، اصل حقیقت وہی ہے جو اوپر عرض کی گئی ہے ۔ اس کے بعد اس سلسلہ کی احادیث ذیل میں پڑھی جائیں :
اسم اعظم
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک دن مسجد میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھا اور ایک بندہ وہاں نماز پڑھ رہا تھا ، اس نے اپنی دعا میں عرض کیا : “اے اللہ ! میں تجھ سے اپنی حاجت مانگتا ہوں بوسیلہ اس کے کہ ساری حمد و ستائش تیرے ہی لئے سزاوار ہے ، کوئی معبود نہیں تیرے سوا ، تو نہایت مہربان اور بڑا محسن ہے ، زمین و آسمان کا پیدا فرمانے والا ہے ، میں تجھ ہی سے مانگتا ہوں ، اے ذوالجلال والاکرام ! اے حی اے قیوم ! تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : “اس بندے نے اللہ کے اُس اسمِ اعظم کے وسیلہ سے دعا کی ہے کہ اس نے وسیلہ سے جب خدا سے دعا کی جائے تو وہ قبول فرماتا ہے ، اور جب اس کے وسیلہ سے مانگا جائے تو عطا فرماتا ہے”۔ (جامع ترمذی ، سنن ابو داؤد ، سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ)
اسم اعظم
اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : “اسْمُ اللهِ الأَعْظَمُ” ان دو آیتوں میں موجود ہے ۔ ایک “وَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ”اور دوسری آل عمران کی ابتدائی آیت “الم اللَّهُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الحَيُّ القَيُّومُ” (جامع ترمذی ، سنن ابو داؤد ، سنن ابن ماجہ ، سنن دارمی) تشریح ان احادیث میں غور کرنے سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کسی ایک مخصوص نام پاک کو اسم اعظم نہیں فرمایا گیا ہے ، بلکہ یہ بات زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کہ آخری حدیث میں جن دو آیتوں کا حوالہ دیا گیا ، اور اس سے پہلی دونوں حدیثوں مین دو شخصوں کی جو دو دُعائیں نقل کی گئی ہیں ان میں سے ہر ایک میں متعدد اسماءِ الٰہیہ کی خاص ترکیب سے اللہ تعالیٰ کا جو مرکب اور جامع وصف مفہوم ہوتا ہے اس کو “اسم اعظم” سے تعبیر فرمایا گیا ہے ۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ جن کو اللہ تعالیٰ نے اس نوع کے علوم و معارف سے خاص طور پر نوازا ہے ، انہوں نے ان احادیث سے یہی سمجھا ہے ۔ واللہ اعلم ۔
قرآن مجید کی عظمت و فضیلت
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جس شخص کو قرآن نے مشغول رکھا میرے ذکر سے اور مجھ سے سوال اور دعا کرنے سے میں اس کو اس سے افضل عطا کروگا جو سائلوں اور دعاکرنے والوں کوعطا کرتاہوں ،اور دوسرے اور کلاموں کے مقابلے میں اللہ کے کلام کو ویسی ہی عظمت و فضلیت حاصل ہے جیسی اپنی مخلوق کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کو ۔ (جامع ترمذی ، سنن دارمی ، شعب الایمان للبیہقی) تشریح ذکر کیا جا چکا ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت بھی “ذکراللہ” کی ایک قسم ہے ، اور بعض حیثیتوں سے سب سے افضل اور اعلیٰ قسم ہے ۔ اس میں بندے کی مشغولیت اللہ تعالیٰ کو بےحد محبوب ہے ۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ تشبیہ اور مثال سے وراء الورا ہے ، لیکن ناچیز راقم سطور نے اس حقیقت کو اپنے اس ذاتی تجربہ سے خوب سمجھا ہے کہ جب کبھی کسی کو اس حال میں دیکھا کہ وہ میری لکھی ہوئی کوئی کتاب قدر اور توجہ سے پڑھ رہا ہے تو دل سرور سے بھر گیا اور اس شخص سے ایک خاص تعلق اور لگاؤ پیدا ہو گیا ، ایسا تعلق اور لگاؤ جو بہت سے قریبی عزیزوں ، دوستوں سے بھی نہیں ہوتا ۔ بہرحال میں نے تو اپنے اسی تجربہ سے یہ سمجھا کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو اپنے پاک کلام قرآن مجید کی تلاوت کرتے سنتا اور دیکھتا ہو گا ، تو اس بندہ پر اس کو کیسا پیار آتا ہو گا (الا یہ کہ اپنے کسی شدید جرم کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کے پیار اور نظرِ کرم کا مستحق ہی نہ ہو) رسول اللہ ﷺ نے امت کو قرآن مجید کی عظمت سے آشنا کرنے اور اس کی تلاوت وغیرہ کی ترغیب دینے کے لئے مختلف عنوانات استعمال فرمائے ہیں ۔ ہم نے بھی اسی سلسلہ کی احادیث کو مختلف عنوانات میں تقسیم کر دیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ رسول اللہ ﷺ کے ان ارشادات سے وہ نفع اٹھانے کی توفیق دے جو ان کا اصل مقصد ہے ۔ قرآن مجید کی عظمت و فضیلت قرآن مجید کی بےانتہا عظمت کے لئے بس اتنا کافی ہے کہ وہ کلام اللہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی حقیقی صفت ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ اس دنیا میں جو کچھ بھی ہے ، یہاں تک کہ زمینی مخلوقات میں کعبۃ اللہ اور انبیاء علیہم السلام کی مقدس ہستیاں ، اور عالم بالا و عالم غیب کی مخلوقات میں عرش ، کرسی ، لوح و قلم ، جنت اور جنت کی نعمتیں اور اللہ کےئ مقرب ترین فرشتے ، یہ سب اپنی معلوم و مسلم عظمت کے باوجود غیراللہ اور مخلوق ہیں ۔ لیکن قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی اور اس سے الگ اور اس سے الگ کی کوئی چیز نہیں ہے ، بلکہ اس کی حقیقی صفت ہے جو اس کی ذاتِ عالی کے ساتھ قائم ہے ۔ یہ اللہ پاک کا بےانتہا کرم اور اس کی عظیم تر نعمت ہے کہ اس نے اپنے رسولِ امین کے ذریعے وہ کلام ہم تک پہنچایا اور ہمیں اس لائق بنایا کہ اس کی تلاوت کر سکیں اور اپنی زبان سے اس کو پڑھ سکیں پھر اس کو سمجھ کر اپنی زندگی کا راہنما بنا سکیں ۔ قرآن مجید مین ہے کہ اللہ تعالیٰ نے طویٰ کی مقدس وادی میں ایک مبارک درخت سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنا کلام سنوایا تھا ۔ کتنا خوشقسمت تھا وہ بےجان درخت جس کو حق تعالیٰ نے اپنا کلام سنوانے کے لئے بطور آلہ کے استعمال فرمایا تھا ۔ جو بندہ اخلاص اور عظمت و احترام کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہے اس کو اس وقت شجرہ موسوی والا یہ شرف نصیب ہوتا ہے ، اور گویا وہ اس وقت اللہ تعالیٰ کے کلامِ مقدس کا ریکارڈ ہوتا ہے ۔ حق یہ ہے کہ انسان اس سے آگے کسی شرف کا تصور بھی نہیںٰ کر سکتا ۔ اس مختصر تمہید کے بعد قرآن مجید کی عظمت و فضیلت کے بیان میں رسول اللہ ﷺ کی مندرجہ ذیل چند حدیثیں پڑھئے : تشریح ..... اس سلسلہ معارف الحدیث میں پہلے بھی ذکر کیا جا چکا ہے کہ جب کسی حدیث میں رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کے حوالہ سے کوئی بات فرمائیں اور وہ بات قرآن مجید میں نہ ہو تو خاص عرف و اصطلاح میں ایسی حدیثوں کو “حدیث قدسی” کہتے ہیں ۔ حضرت ابو سعید خدریؓ کی یہ حدیث بھی اسی طرح کی ہے ۔ اس میں دو باتیں فرمائی گئی ہیں : ایک یہ لہ اللہ کے جس بندے کو اللہ تعالیٰ کے کلام پاک سے ایسا شغف ہو کہ وہ دن رات اسی میں لگا لپٹا رہتا ہو ، یعنی اس کی تلاوت میں اس کے یاد کرنے میں ، اس کے تدبر اور تفکر میں ، یا اس کے سیکھنے سکھانے میں اخلاص کے ساتھ مشغول رہتا ہو ، اور قرآن پاک میں اس ہمہ وقتی مشغولیت کی وجہ سے اس کے علاوہ اللہ کے ذکر اس کی حمد و تسبیح اور اس سے دعائیں کرنے کا موقع ہی اس کو نہ ملتا ہو ، تو وہ یہ نہ سمجھے کہ وہ کچھ خسارے مین رہے گا اور ذکر و دعا کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ جو کچھ عطا فرماتا ہے وہ اس کو نہ پا سکے گا ۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں : “اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ ایسے بندوں کو میں اس سے زیادہ اور اس سے بہتر دوں گا جو ذکر کرنے والے اور دعائین مانگنے والے اپنے بندوں کو دیتا ہوں ۔دوسری بات اس حدیث میں یہ فرمائی گئی ہے کہ اللہ کے کلام کو دوسرے کلاموں کے مقابلے میں ویسی ہی عظمت و فضیلت حاصل ہے جیسی کہ خود اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوق کے مقابلہ میں ، اور اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا کلام اور اس کی صفتِ قائمہ ہے ۔
قرآن مجید کی عظمت و فضیلت
حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ ﷺ نے ایک دن فرمایا : “آگاہ ہو جاؤ ایک بڑا فتنہ آنے والا ہے ۔” میں نے عرض کیا : “یا رسول اللہ! اس فتنہ کے سر سے بچنے اور نجات پانے کا ذریعہ کیا ہے ؟ ” آپ ﷺ نے فرمایا : “کتاب اللہ ، اس میں تم سے پہلے امتوں کے (سبق آموز) واقعات ہیں ، اور تمہارے بعد کی اس میں اطلاعات ہیں ، (یعنی اعمال و اخلاق کے جو دنیوی و اخروی نتائج و ثمرات مستقبل میں سامنے آنے والے ہیں ، قرآن مجید میں ان سب سے بھی آگاہی دے دی گئی ہے) اور تمہارے درمیان جو مسائل پیدا ہوں قرآن میں ان کا حکم اور فیصلہ موجود ہے (حق و باطل اور صحیح و غلط کے بارے میں) وہ قول فیصل ہے ، وہ فضو بات اوریا وہ گوئی نہیں ہے ۔ جو کوئی جابر و سرکش اس کو چھوڑے گا (یعنی غرور و سرکشی کی راہ سے قرآن سے منہ موڑے گا) اللہ تعالیٰ اس کو توڑ کے رکھ دے گا ، اور جو کوئی ہدایت کو قرآن کے بغیر تلاش کرے گا اس کے حصہ میں اللہ کی طرف سے صرف گمراہی آئے گی (یعنی وہ ہدایتِ حق سے محروم رہے گا) قرآن ہی حبل اللہ المتین یعنی اللہ سے تعلق کا مضبوط وسیلہ ہے ، اور محکم نصیحت نامہ ہے ، اور وہی صراطِ مستقیم ہے ۔ وہی وہ حق مبین ہے جس کے اتباع سے خیالات کجی سے محفوظ رہتے ہیں اور زبانیں اس کو گڑ بڑ نہیں کر سکتیں (یعنی جس طرح اگلی کتابوں میں زبانوں کی راہ سے تحریف داخل ہو گئی اور محرفین نے کچھ کا کچھ پڑھ کے اس کو محرف کر دیا اس طرح قرآن مین کوئی تحریف نہیں ہو سکے گی ، اللہ تعالیی نے تا قیامت اس کے محفوظ رہنے کا انتظام فرما دیا ہے) اور علم والے بھی اس کے علم سے سیر نہیں ہوں گے (یعنی قرآن میں تدبر کا عمل اور اس کے حقائق و معارف کی تلاش کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا اور کبھی ایسا وقت نہیں آئے گا کہ قرآن کا علم حاصل کرنے والے محسوس کریں کہ ہم نے علم قرآن پر پورا عبور حاصل کر لیا اور اب ہمارے حاصل کرنے کے لئے کچھ باقی نہیں رہا ، بلکہ قرآن کے طالبین علم کا حال ہمیشہ یہ رہے گا کہ وہ علم قرآن میں جتنے آگے بڑھتے رہین گے اتنی ہی ان کی طلب ترقی کرتی رہے گی اور ان کا احساس یہ ہو گا کہ جو کچھ ہم نے حاصل کیا ہے وہ اس کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں ہے جو ابھی ہم کو حاصل نہیں ہوا ہے) اور وہ قرآن کثرت مزاولت سے کبھی پرانا نہیں ہو گا (یعنی جس طرح دنیا کی دوسری کتابوں کا حال ہے کہ بار بار پڑھنے کے بعد ان کے پڑھنے میں آدمی کو لطف نہیں آتا ، قرآن مجید کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے وہ جتنا پڑھا جائے گا اور جتنا اس میں تفکر و تدبر کیا جائے گا اتنا ہی اس کے لطف و لذت میں اضافہ ہو گا) اور اس کے عجائب (یعنی اس کے دقیق و لطیف حقائق و معارف) کبھی ختم نہیں ہوں گے ۔ قرآن کی یہ شان ہے کہ جب جنوں نے اس کو سنا تو بےاختیار بول اٹھے ۔ إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا يَهْدِي إِلَى الرُّشْدِ فَآمَنَّا بِهِ (الجن ، 1،2:72) ہم نے قرآن سنا جو عجیب ہے ، رہنمائی کرتا ہے بھلائی کی ، پس ہم اس پر ایمان لے آئے ۔ جس نے قرآن کے موافق بات کہی اس نے سچی بات کہی ، اور جس نے قرآن پر عمل کیا وہ مستحقِ اجر و ثواب ہوا اور جس نے قرآن کے موافق فیصلہ کیا اس نے عدل و انصاف کیا اور جس نے قرآن کی طرف دعوت دی اس کو صراطِ مستقیم کی ہدایت نصیب ہو گئی ۔ (جامع ترمذی ، سنن دارمی) تشریح یہ حدیث قرآن کریم کی عظمت و فضیلت کے بیان میں بلاشبہ نہایت جامع حدیث ہے ۔ اس میں جو کلمات اور جو جملے وضاحت طلب تھے ان کی وضاحت ترجمہ ہی میں کر دی گئی ہے ۔
قرآن کا معلم اور متعلم
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “تم میں سب سے بہتر اور افضل بندہ وہ ہے جو قرآن کا علم حاصل کرے اور دوسروں کو اس کی تعلیم دے”۔ (صحیح بخاری) تشریح قرآن مجید کو کلام اللہ ہونے کی حیثیت سے جب دوسرے کلاموں پر اس طرح کی فوقیت اور فضیلت حاصل ہے جس طرح کی اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوق پر حاصل ہے تو ظاہر ہے کہ اس کا سیکھنا ، سکھانا دوسرے تمام اچھے کاموں سے افضل و اشرف ہو گا ۔ علاوہ ازیں یہ ایک حقیقت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا سب سے اہم پیغمبرانہ وظیفہ وحی کے ذریعہ قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ سے لینا ، اس کی حکمت کو سمجھنا اور دوسروں تک اس کو پہنچانا اور اس کو سکھانا تھا اس لئے اب قیامت تک جو بندہ قرآن مجید کے سیکھنے سکھانے کو اپنا شغل اور وظیفہ بائے گا وہ گویا رسول اللہ ﷺ کے خاص مشن کا علمبردار اور خادم ہو گا ۔ اور اس کو آنحضرت ﷺ سے خاص الخاص نسبت حاصل ہو گی ۔ اس بناء پر قرآن پاک کے متعلم اور معلم کو سب سے افضل و اشرف ہونا ہی چاہئے ۔ لیکن یہ اسی صورت میں ہے جب کہ قرآن مجید کا یہ سیکھنا سکھانا اخلاص کے ساتھ اور اللہ کے لئے ہو ، اگر بدقسمتی سے کسی دنیوی غرض کے لئے قرآن سیکھنے سکھانے کو کوئی اپنا پیشہ بنائے تو حدیث پاک میں ہے کہ : وہ ان بدنصیبوں میں سے ہو گا جو سب سے پہلے جہنم میں جھونکے جائیں گے اور اس کا اولین ایندھن بنیں گے ۔ اَللَّهُمَّ احْفَظْنَا (یہ حدیث صحیح مسلم کے حوالہ سے معارف جلد دوم کے بالکل آخر میں درج ہو چکی ہے)
حامل قرآن پر رشک برحق
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صرف دو آدمی قابل رشک ہیں ۔ (اور ان پر رشک آنا برحق ہے) ایک وہ جس کو اللہ نے قرآن کی نعمت عطا فرمائی پھر وہ دن اور رات کے اوقات میں اس میں لگا رہتا ہے.اور دوسرا وہ خوش نصیب آدمی جس کو اللہ نے مال و دولت سے نوازا،اور وہ دن اور رات کے اوقات میں راہ خدا میں اس کو خرچ کرتا رہتا ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح دن اور رات میں قرآن پاک میں مشغول ہونے اور رہنے کی مختلف شکلیں ہو سکتی ہیں ۔ ایک یہ کہ اس کے سیکھنے سکھانے میں لگا رہتا ہے ۔ دوسرے یہ کہ نماز میں اور بیرونِ نماز اس کی تلاوت کرتا رہتا ہے ۔ تیسرے یہ کہ فکر و اہتمام کے ساتھ اس کے احکام و ہدایات پر عمل کرتا رہتا ہے ۔ حدیث کے الفاظ : فَهُوَ يَقُومُ بِهِ آنَاءَ اللَّيْلِ، وَآنَاءَ النَّهَارِ اس طرح کی سب شکلوں پر حاوی ہیں ۔ قرآن پاک کی عظیم نعمت کا شکر یہی ہے کہ بندہ اس کو اپنا شغل اور اپنی زندگی کا دستور بنا لے ۔
قرآن کے خاص حقوق
حضرت عبیدہ ملیکی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے قرآن والوں ! قرآن کو اپنا تکیہ اور سہارا نہ بنا لو ، بلکہ دن اور رات کے اوقات میں اس کی تلاوت کیا کرو جیسا کہ اس کا حق ہے ، اور اس کو پھیلاؤ اور اس کو دلچسپی سے اور مزہ لے لے کر پڑھا کرو ، اور اس میں تدبر کرو ، امید رکھو کہ تم اس سے فلاح پا جاؤ گے ، اور اس کا عاجل معاوضہ لینے کی فکر نہ کرو ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا عظیم ثواب اور معاوضہ (اپنے وقت پر) ملنے والا ہے ۔ (شعب الایمان للبیہقی) تشریح حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے جن بندوں کو قرآن کی دولت نصیب فرمائی ہے وہ اسی پر تکیہ کر کے نہ بیٹھ جائیں کہ ہمارے پاس قرآن ہے اور ہم قرآن والے ہیں ، بلکہ انہیں چاہئے کہ قرآن مجید کے حقوق ادا کریں ، رات اور دن کے اوقات میں اس کے حق کے مطابق اس کی تلاوت کیا کریں ، اس کو اور اس کے پیغامِ ہدایت کو دوسروں تک پہنچائیں ، اس کو م زہ لے لے کے پڑھیں ، اس کے احکام ، اس کی ہدایات ، اس کے قصص اور نصائح پر غور و فکر کیا کریں ۔ اگر انہوں نے ایسا کیا تو ان کی فلاح کی پوری امید ہے ۔ اور انہیں چاہئے کہ وہ قرآن کے اس پڑھنے اور پڑھانے اور اس کی خدمت کا معاوضہ دنیا ہی میں نہ چاہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو اپنے وقت پر اس کا بڑا غیر معمولی معاوضہ اور عظیم صلہ ملنے والا ہے ۔
قرآن اور قوموں کا عروج و زوال
حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : اللہ تعالیٰ اس کتابِ پاک (قرآن مجید) کی وجہ سے بہت سوں کو اونچا کرے گا اور بہت سوں کو نیچے گرائے گا ۔ (صحیح مسلم) تشریح قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی صفتِ قائمہ اور بندوں کے لئے اس کا فرمان اور عہد نامہ ہے ۔ اس کی وفاداری اور تابعداری اللہ تعالیٰ کی وفاداری اور تابعداری ہے ۔ اسی طرح اس سے انحراف اور بغاوت اللہ تعالیی سے انحراف اور سرکشی ہے ، اور اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ جو قوم اور جو اُمت خواہ وہ کسی نسل سے ہو ، اس کا کوئی بھی رنگ اور کوئی بھی زبان ہو ، قرآن مجید کو اپنا راہنما بنا کر اپنے کو اس کا تابعدار بنا دے گی اور اس کے ساتھ وہ تعلق رکھے گی جو کلام اللہ ہونے کی حیثیت سے اس کا حق ہے ، اللہ تعالیٰ اس کو دنیا اور آخرت میں سربلند کرے گا ۔ اور اس کے برعکس جو قوم اور امت اس سے انحراف اور سرکشی کرے گی وہ اگر بلندیوں کے آسمان پر بھی ہو گی تو نیچی گرا دی جائے گی ۔ اسلام اور مسلمانون کی پوری تاریخ اس حدیث کی گواہ اور اللہ تعالیٰ کے اس فیصلہ کی آئینہ دار ہے ۔ اس حدیث میں “اَقْوَامًا” کے لفظ سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ عروج و زوال کے اس الٰہی قانون کا تعلق افراد سے نہیں بلکہ قوموں اور امتوں سے ہے ۔ واللہ اعلم ۔
تلاوت قرآن کا اجر و ثواب
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے قرآن پاک کا ایک حرف پڑھا اس نے ایک نیکی کما لی، اور یہ کہ ایک نیکی اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق دس نیکیوں کے برابر ہے ۔ (مزید وجاحت کے لئے آپ نے فرمایا) میں نہیں کہتا (یعنی میرا مطلب یہ نہیں ہے) کہ الم ایک حرف ہے، بلکہ الف ایک حرف ہے، لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے ۔ (اس طرح الم پڑھنے والا بندہ تیس نیکیوں کے برابر ثواب حاصل کرنے کا مستحق ہو گا ۔) (جامع ترمذی ، سنن دارمی) تشریح اللہ تعالیٰ کا یہ کریمانہ قانون کہ ایک نیکی کرنے والے کو دس نیکیوں کے برابر ثواب عطا ہو گا ۔ واضح طور پر قرآن مجید میں بھی بیان فرمایا گیا ہے ۔ سورہ انعام میں ارشاد ہے : مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا(الانعام ع: 20) جو بندہ ایک نیکی لے کر آئے گا اس کو اس جیسی دس نیکیوں کا ثواب دیا جائے گا ۔ مندرجہ بالا حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے اُمت کو یہ خوشخبری سنائی ہے کہ جو بندہ اخلاص کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کرے گا تو حروف تہجی کے ہر حرف کی تلاوت ایک نیکی شمار ہو گی جو اجر و ثواب کے لحاظ سے دس نیکیوں کے برابر ہو گی ۔ اسی حدیث کی بیہقی کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ : “بسم اللہ” ایک حرف ہے بلکہ “ب” ایک حرف ہے “س” ایک حرف ہے “م” ایک حرف ہے ۔ اور میں یہ نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے بلکہ “ا ، ل ، م” الگ الگ حروف ہیں ۔ اللہ پاک یقین کی دولت نصیب فرمائے ۔ اس حدیث میں کلام پاک کی تلاوت کرنے والوں کے لئے بڑی ہی خوشخبری ہے ۔ فَطُوْبىٰ لَهُمْ اس حدیث سے ایک واضح اشارہ یہ بھی ملا کہ قرآن مجید کی تلاوت پر ثواب کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ تلاوت معنی مفہوم سمجھ کر ہی ہو ۔ کیوں کہ “الم” اور سارے حروف مقطعات کی تلاوت معنی مفہوم سمجھے بغیر ہی کی جاتی ہے ، اور حدیث نے صراحۃً بتلایا کہ ان حروف کی تلاوت کرنے والوں کو بھی ہر حرف پر دس نیکیوں کا ثواب ملے گا ۔ واللہ اعلم ۔
قرآن کی تلاوت قلب کا صیقل
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “بنی آدم کے قلوب پر اسی طرح زنگ چڑھ جاتا ہے جس طرح پانی لگ جانے سے لوہے پر زنگ آ جاتا ہے ۔ عرض کیا گیا کہ : “حضور (ﷺ) دلوں کے اس زنگ کے دور کرنے کا ذریعہ کیا ہے ؟” آپ ﷺ نے فرمایا کہ : “موت کو زیادہ یاد کرنا ، اور قرآن مجید کی تلاوت” ۔ (شعب الایمان للبیہقی) تشریح قلب کا زنگ یہ ہے کہ وہ اللہ سے اور آخرت کے انجام سے غافل اور بےفکر ہو جائے ، یہ سارے چھوٹے بڑے گناہوں کی جڑ بنیاد ہے ۔ اور بلاشبہ اس بیماری کی اکسیر دوا یہی ہے کہ اپنی موت کو بہت زیادہ یاد کیا جائے ، اس کا دھیان اور مراقبہ کیا جائے اور قرآن مجید کی عظمت اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کے خاص الخاص نسبت کو ملحوظ رکھتے ہوئے ادب اور اخلاص کے ساتھ اس کی تلاوت کی جائے اگر یہ تلاوت اللہ تعالیٰ کی توفیق سے شوق اور تدبر کے ساتھ ہو گی تو ان شاء اللہ قلب کے زنگ کو دور کر کے اس کو نور سے بھر دے گی ۔ اللہ تعالیٰ نصیب فرمائے ۔ (1) (1) حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے حجۃ اللہ البالغہ میں “ احسان ” کے بیان میں قرآن مجید کی تلاوت پر کلام کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے : “ تلاوت قرآن کی روح یہ ہے کہ شوق و محبت اور انتہائی تعظیم و اجلال کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو کر قرآن پاک کی تلاوت کرے ، اور اس کے مواعظ اور نصائح میں غور اور ان سے اثر لینے کی کوشش کرے ، اور اس کے احکام و ہدایات کی تعمیل اور پیروی کے عزم کے ساتھ تلاوت کرے اور اسم میں بیان ہونے والے قصص اور امثال سے عبرت حاصل کرے ، اور جب اللہ کی صفات کا بیان آئے تو کہے “سبحان اللہ” اور جب ان آیتوں سے گزرے جن میں جنت اور اللہ کی رحمت کا بیان ہے تو اللہ سے فضل و کرم فرمانے کی دُعا کرے اور اپنے لئے جنت اور رحمت کا سوال کرے ۔ اور جب ان آیتوں سے گزرے جن میں دوزخ اور اللہ کے غضب کا بیان ہے تو اللہ سے پناہ مانگے” ۔ بلاشبہ اس طرح کی تلاوت قلب کا خاص الخاص صیقل ہے اور جس بندہ کو کسی درجہ میں بھی ایسی تلاوت نصیب ہو اس پر اللہ تعالیٰ کا خاص الخاص فضل ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے اس فضل سے محروم نہ فرمائے ۔ ۱۲
ماہر قرآن کا مقام
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے قرآن میں مہارت حاصل کر لی ہو (اور اس کی وجہ سے وہ اس کو ..... حفظ یا ناظرہ ......... بہتر طریقے پر اور بےتکلف رواں پڑھتا ہو وہ معزز اور وفادار و فرمانبردار فرشتوں کے ساتھ ہو گا ۔ اور جو بندہ قرآن پاک (اچھا یاد اور رواں نہ ہونے کی وجہ سے زحمت اور مشقت کے ساتھ) اس طرح پڑھتا ہو کہ اس میں اٹکتا ہو تو اس کو دو اجر ملیں گے (ایک تلاوت کا اور دوسرے زحمت و مشقت کا) (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں سفرہ کا جو لفظ ہے اس سے اکثر شارحین نے حامل وحی فرشتے مراد لئے ہیں ، اور بعض حضرات نے اس سے انبیاء و رُسل علیہم السلام مراد لئے ہیں ، اور لفظی معنی میں ان دونوں ہی کی گنجائش ہے ۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے جو بندے قرآن کو کلام اللہ یقین کرتے ہوئے اس سے شغف رکھیں اور کثرتِ تلاوت اور اہتمام کی وجہ سے قرآنِ پاک سے ان کو خاص مناسبت اور مہارت حاصل ہو جائے ۔ ان کو انبیاء و رسل کی یا حاملِ وحی فرشتوں کی معیت اور رفاقت حاصل ہو گی ۔ اور جن ایمان والے بندوں کا حال یہ ہو کہ صلاحیت اور مناسبت کی کمی کی وجہ سے وہ قرآن کو رواں نہ پڑھ سکتے ہوں ، بلکہ تکلف کے ساتھ اور اٹک اٹک کے پڑھتے ہوں اور اس کے باوجود اجر و ثواب کی امید پر تلاوت کرتے ہوں ، ان کو تلاوت کے اجر و ثواب کے علاوہ اس زحمت و مشقت کا بھی ثواب ملے گا ، اس لئے ان کو اپنی اس حالت کی وجہ سے شکستہ دل نہ ہونا چاہئے ۔
قرآن پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کا انعام
حضرت معاذ جھنی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “جس نے قرآن پڑھا اور اس میں جو کچھ ہے اس پر عمل کیا ، قیامت کے دن اس کے ماں باپ کو ایسا تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی سورج کی روشنی سے بھی زیادہ حسین ہو گی ، جب کہ وہ روشنی دنیا کے گھروں مین ہو اور سورج آسمان سے ہمارے پاس ہی اتر آئے ۔ (اس ک بعد حضور ﷺ نے فرمایا) پھر تمہارا کیا گمان ہے خود اس آدمی کے بارے میں جس نے خود یہ عمل کیا ہو ؟ ” (مسند احمد ، سنن ابی داؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ قرآن کے پڑھنے اور اس پر عمل کرنے والے کے والدین کو جب ایسا تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی سورج کی روشنی سے بھی حسین تر ہو گی ، تو سمجھ لو کہ خود اس قرآن پڑھنے والے اور اس پر عمل کرنے والے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیا کیا عطا فرمایا جائے گا ۔
قیامت میں قرآنِ پاک کی شفاعت و وکالت
حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ ارشاد فرماتے تھے کہ : “قرآن پڑھا کرو ، وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کا شفیع بن کر آئے گا .... (خاص کر) “زہراوین” یعنی اس کی دو اہم نورانی سورتیں البقرۃ اور آل عمران پڑھا کراو ، وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کو اپنے سایہ میں لئے اس طرح آئیں گی جیسے کہ وہ اَبر کے ٹکڑے ہیں ، یا سائبان ہیں ، یا صف باندھے پرندوں کے پرے ہیں ۔ یہ دونوں سورتیں قیامت میں اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے مدافعت کریں گی (آپ ﷺ نے فرمایا) پڑھا کرو سورہ بقرہ کیونکہ اس کو حاصل کرنا بڑی برکت والی بات ہے ، اور اس کو چھوڑنا بڑی حسرت اور ندامت کی بات ہے ،ا ور اہلِ بطالت اس کی طاقت نہیں رکھتے ۔” (صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے قرآن پاک پڑھنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ : قرآنِ اپنے “اصحاب” کے لئے بارگاہِ خداوندی میں شفاعت کرے گا ۔ “اصحاب قرآن” وہ سب لوگ ہیں جو قرآنِ پاک پر ایمان رکھتے ہوئے اور اس سے تعلق اور شغف کو اللہ تعالیی کی رضا اور رحمت کا وسیلہ یقین کرتے ہوئے اس سے خاص نسبت اور لگاؤ رکھیں ، جس کی شکلیں مختلف ہو سکتی ہیں ۔ مثلاً کثرت سے اس کی تلاوت کریں ، اس میں تدبر اور تفکر اور اس کے احکام پر عمل کرنے کا اہتمام رکھیں ، یا اس کی تعلیم ہدایت کو عام کرنے اور پھیلانے کی جدوجہد کریں ، ان سب کے لئے رسول اللہ ﷺ کی بشارت ہے کہ قرآنِ ان کے حق میں شفیع ہو گا ۔ ہاں اخلاص یعنی اللہ کی رضا اور ثواب کی نیت شرط ہے ۔ اس حدیث میں قرآنِ پاک کی قرأت و تلاوت کی عمومی ترغیب کے بعد رسول اللہ ﷺ نے سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران کی تلاوت و قرأت کی خصوصیت کے ساتھ بھی ترغیب دی ہے ۔ اور فرمایا کہ : قیامت میں اور حشر میں جب ہر شخص سایہ کا بہت ہی محتاج اور ضرورت مند ہو گا ، یہ دونوں سورتیں بادل یا سایہ دار چیز کی طرح یا پرندوں کے پرے کی طرح اپنے اصحاب پر سایہ کئے رہیں گی اور ان کی طرف سے وکالت اور جواب دہی کریں گی ۔ اور آخر میں سورہ بقرہ کے متعلق مزید فرمایا کہ : اس کے سیکھنے اور پڑھنے میں بڑی برکت ہے ، اور اس سے محرومی میں بڑا خسارہ ہے ۔ اور اہلِ بطالت اس کی طاقت نہیں رکھتے ۔ اس حدیث کے بعض راویوں نے کہا ہے کہ اس سے مراد “ساحرین” ہیں ۔ اور مطلب یہ ہے کہ سورہ بقرہ کی تلاوت کا معمول رکھنے والے پر کبھی کسی جادو گر کا جودو نہیں چلے گا ۔ سورہ بقرہ کی اس خاصیت اور تاثیر کا اشارہ اس حدیث سے بھی ملتا ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ : جس گھر میں سورہ بقرہ پڑھی جائے شیطان اس گھر سے بھاگنے پر مجبور ہوتا ہے ۔ (1) بعض شارحین نے یہ مطلب بھی بیان کیا ہے کہ اہل بطالت یعنی ناحق کوش لوگ شورہ بقرہ کی برکات حاصل نہ کر سکیں گے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر ان برکات کا دورازہ بند کر دیا ہے ۔ واللہ اعلم ۔
قیامت میں قرآنِ پاک کی شفاعت و وکالت
حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے کہ : “قیامت کے دن قرآن کو اور ان قرآن والوں کو لایا جائے گا جو اس پر عامل تھے ۔ سورہ بقرہ اور آل عمران (جو قرآن کی سب سے پہلی سورتیں ہیں) وہ پیش پیش ہوں گی (محسوس ہو گا) گویا کہ وہ بادل کے دو ٹکڑے ہیں ، یا سیاہ رنگ کے دو سائبان ہیں جن میں نور کی چمک ہے ، یا صف باندھے پرندوں کے دو پرے ہین ، اور وہ مدافعت اور وکالت کریں گی اپنے سے تعلق رکھنے والوں کی ”۔ (صحیح مسلم) تشریح اس حدیث کا مضمون قریب قریب وہی ہے جو حضرت ابو امامہ کی مندرجہ بالا حدیث کا ہے ۔ ذرا تصور کیا جائے قیامت اور میدانِ حشر کی ہولناکیوں کا ۔ کیسے خوش نصیب ہوں گے اللہ کے وہ بندے جو قرآنِ پاک سے خاص تعلق اور شغف اور اس کے احکام کی فرمانبرداری کی برکت سے حشر کے اس پرہول میدان میں اس شان سے آئیں گے کہ اللہ کا کلام پاک ان کا شفیع و وکیل بن کر ان کے ساتھ ہو گ ، اور اس کی پہلی اور اہم نورانی سورتیں بقرہ اور آل عمران اپنے انوار کے ساتھ ان کے سروں پر سایہ فگن ہوں گی ۔ ان احادیث پر مطلع ہو جانے کے بعد بھی جو بندے اس سعادت کے حاصل کرنے میں کوتاہی کریں ، بلاشبہ وہ بڑے محروم ہیں ۔
خاص خاص سورتوں اور آیتوں کی برکات: سورۃ الفاتحہ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ابی بن کعب سے فرمایا کہ : “کیا تمہاری خواہش ہے کہ میں تم کو قرآن کی وہ سورت سکھاؤں جس کے مرتبہ کی کوئی سورت نہ تورتت میں نازل ہوئی نہ انجیل میں نہ زبور میں اور نہ قرآن ہی میں ؟ ابی نے عرض کیا ہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے وہ سورت بتا دیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم نماز میں قرات کس طرح کرتے ہو؟ ابی نے آپ ﷺ کو سورہ فاتحہ پڑھ کر سنائی (کہ میں نماز میں یہ سورت پڑھتا ہوں ، اور اس طرح پڑھتا ہوں) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قسم اس ذات پاک کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ توریت، انجیل ، زبورمیں کسی میں اور خود قرآن میں بھی اس جیسی کوئی سورت نازل نہیں ہوئی۔ یہی وہ سَبْعٌ مِنَ الْمَثَانِي وَالقُرْآنُ الْعَظِيمُ ہے جو مجھے اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے۔” (جامع ترمذی) تشریح بعض حدیثوں میں خاص خاص سورتوں اور آیتوں کے فضائل و برکات بھی بیان فرمائے گئے ہیں ۔ چنانچہ حضرت ابو امامہ باہلیؓ اور حضرت نواس بن سمعانؓ کی مندرجہ بالا حدیثوں میں پورے قرآن کی فضیلت کے ساتھ خاص طور سے سورہ بقرہ اور آل عمران کی فضیلت بھی بیان ہوئی ہے ۔ اس طرح دوسری بعض سورتوں اور خاص خاص آیتوں کے فضائل و برکات بھی مختلف مواقع پر رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمائے ہیں ۔ ذیل میں اس سلسلہ کی بھی چند حدیثیں درج کی جا رہی ہیں ۔ تشریح ..... قرآنِ مجید میں سورہ حجر کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ پر اپنے خاص الخاص انعام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے : “وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ”(اور ہم نے تم کو سات آیتیں وظیفہ کے طور پر بار بار دہرائی جانے والی عطا کیں اور قرآن عظیم) رسول اللہ ﷺ نے مندرجہ بالا حدیث میں اس آیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ “سَبْعٌ مِنَ الْمَثَانِي وَالقُرْآنُ الْعَظِيمُ” سورہ فاتحہ ہی ہے ۔ اور یہ ایسی عظیم الشان اور عظیم البرکت سورت ہے کہ اس درجہ کی سورت کسی پہلی آسمانی کتاب میں بھی نازل نہیں کی گئی ، اور قرآن میں بھی اس کے درجہ کی کوئی دوسری سورت نہیں ہے ۔ یہ پورے قرآن کے مضامین پر حاوی ہے ۔ اسی لئے اس کو “ام القرآن” بھی کہا جاتا ہے ۔ اور اسی لئے اس کو قرآن کا افتتاحیہ قرار دیا گیا ہے ، اور ہر نماز کی ہر رکعت میں اس کا پڑھنا ضروری قرار دیا گیا ہے ۔ اس حدیث کی بناء پر کہا جا سکتا ہے کہ جس بندے کو سورہ فاتحہ یاد ہے اور اخلاص کے ساتھ اس کا پڑھنا اس کو نصیب ہوتا ہے اس کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے بڑی دولت اور نعمت نصیب ہے ۔ چاہئے کہ وہ اس کی قدر و عظمت کو محسوس کرے اور اس کا حق ادا کرے ۔
سورہ بقرہ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : “ہر چیز کی کوئی چوٹی ہوتی ہے (جو سب سے اوپر اور بالا تر ہوتی ہے) اور قرآن کی چوٹی سورہ بقرہ ہے ، اور اس میں ایک آیت (آیت الکرسی) تمام آیاتِ قرآنی کی گویا سردار ہے ۔” (جامع ترمذی) تشریح اسلام کے بنیادی اصول و عقائد اور احکام شریعت کا جتنا تفصیلی بیان سورہ بقرہ میں کیا گیا ، اتنا اور ایسا قرآن پاک کی کسی دوسری سورت میں نہیں کیا گیا ۔ غالباً اسی خصوصیت کی وجہ سے اس کو قرآن مجید میں سب سے مقدر رکھا گیا ہے ، اور غالبا اسی امتیاز کی وجہ سے اس کو اس حدیث میں “سنام القرآن” کا لقب دیا گیا ہے ۔ واللہ اعلم ۔
سورہ بقرہ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : “اپنے گھروں کو مقبرے نہ بنا لو یعنی جس طرح قبرستانوں میں مُردے ذکر و تلاوت نہیں کرتے اور اس کی وجہ سے قبرستانوں کی فضا ذِکر و تلاوت کے انوار و آثار سے خالی رہتی ہے ، تم اس طرح اپنے گھروں کو نہ بنا و ، بلکہ گھروں کو ذکر تلاوت سے معمور رکھا کرو) اور جس گھر میں (خاصکر) سورہ بقرہ پڑھی جائے اس گھر میں شیطان نہیں آ سکتا”۔ (جامع ترمذی) تشریح بعض سورتوں کے ، اور اسی طرح بعض آیات کے کچھ خواص ہیں ۔ اس حدیث میں سورہ بقرہ کی خاص برکت اور تاثیر یہ بیان فرمائی ہے کہ جس گھر میں اس کی تلاوت کی جائے وہ شیطان کے اثرات اور تسلط سے محفوظ رہے گا ۔ سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران کی بعض خاص فضیلتوں کا بیان اس سے پہلے بھی بعض حدیثوں میں ضمناً گزر چکا ہے ۔
سورۃ الکہف
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “جو شخص جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھے اس کے لئے نور روشن ہو جائے گا دو جمعوں کے درمیان”۔ (دعوات الکبیرللبیہقی) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سورہ کہف کو جمعہ کے دن کے ساتھ کوئی خاص مناسبت ہے جس کی وجہ سے اس دن میں اس کی تلاوت کے لئے رسول اللہ ﷺ نے خصوصیت کے ساتھ ترغیب دی ہے ۔ اور فرمایا ہے کہ جمعہ کے دن سورہ کہف کے پڑےھنے سے قلب میں ایک خاص نور پیدا ہو گا جس کی روشنی اور برکت اگلے جمعہ تک رہے گی ۔ اس حدیث کو حاکم نے بھی مستدرک میں روایت کیا ہے اور کہا ہے ۔ “(هذا حديث صحيح الاسناد ولم يخرجاه” ایک دوسری حدیث میں (جس کو امام مسلم نے بھی روایت کیا ہے) سورہ کہف کی ابتدائی دس آیتوں کے بارے میں وارد ہوا ہے کہ : “جو ان کو یاد کر لے گا اور پڑھے گا وہ دجال کے فتنہ سے محفوظ رہے گا” ۔ اس کی توجیہ میں شارحین حدیث نے لکھا ہے کہ سورہ کہف کے ابتدائی حصہ میں جو تمہیدی مضمون ہے اور اسی کے ساتھ اصحاب کہف کا جو وقعہ بیان فرمایا گیا ہے اس میں ہر دجالی فتنہ کا پورا توڑ موجود ہے اور جس دل کو ان حقائق اور مضامین کا یقین نصیب ہو جائے جو کہف کی ان ابتدائی آیتوں میں میںٰ بیان کئے گئے ہیں وہ دل کسی دجالی فتنہ سے کبھی متاثر نہ ہو گا ۔ اسی طرح اللہ کے جو بندے ان آیتوں کی اس خاصیت اور برکت پر یقین کرتے ہوئے ان کو اپنے دل و دماغ میں محفوظ کریں گے اور ان کی تلاوت کریں گے اللہ تعالیٰ ان کو بھی دجالی فتنوں سے محفوظ رکھے گا ۔
سورہ یٰسین
حضرت معقل بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے اللہ رضا کے لئے سورہ یٰسین پڑھی اس کے پچھلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے ، لہذا یہ مبارک سورت مرنے والوں کے پاس پڑھا کرو ۔ (شعب الایمان للبیہقی) تشریح اس حدیث میں مرنے والوں کے پاس (عِنْدَ مَوْتَاكُمْ) یٰسین شریف پڑھنے کے لئے جو فرمایا گیا ہے اس کا مطلب بظاہر یہی ہے کہ مرنے ولے کے پاس اس کے آخری وقت میں یہ سورت پڑھی جائے ۔ اور اکثر علماء نے یہی سمجھا ہے اور اس لئے یہی معمول ہے لیکن دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مر جانے والے کی قبر پر یہ سورۃ پڑھی جائے تا کہ یہ اس کی مغفرت کا وسیلہ بن جائے ۔
سورہ یٰسین
عطاء بن ابی رباح تابعی سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : “جو بندہ دن کے ابتدائی حصے میں یعنی علی الصباح سورہ یٰسین پڑھے گا اللہ تعالیٰ اس کی حاجتیں پوری فرمائے گا ۔” (سنن دارمی)
سورہ واقعہ
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “جو شخص ہر رات سورہ واقعہ پڑھا کرے اسے کبھی فقر و فاقہ کی نوبت نہیں آئے گی ۔ (نیچے کے راوی بیان کرتے ہیں) کہ خود حضرت ابنِ مسعودؓ کا یہ معمول تھا کہ وہ اپنی صاحبزادیوں کو اس کی تاکید فرماتے تھے اور وہ ہر رات کو سورہ واقعہ پڑھتی تھیں ۔” (شعب الایمان للبیہقی)
سورۃ الملک
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : “قرآن کی ایک سورت نے جو صرف تیس آیتوں کی ہے اس نے ایک بندے کے حق میں اللہ تعالیٰ کے حضور میں سفارش کی ، یہاں تک کہ وہ بخش دیا گیا اور وہ سورۃ ہے : تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ. (مسند احمد ، جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ)
الم تنزیل
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس وقت تک نہیں سوتے تھے جب تک کہ الم تَنْزِيلُ اور تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ نہ پڑھ لیتے ۔ (یعنی رات کو سونے سے پہلے یہ دونوں سورتیں پڑھنے کا حضور ﷺ کا معمول تھا) (مسند احمد ، جامع ترمذی ، سنن دارمی)
سورۃ الاعلیٰ
حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو یہ سورۃ (سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى) خاص طور سے محبوب تھی ۔ (مسند احمد) تشریح کتاب الصلوٰۃ میں وہ حدیثیں گزر چکی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جمعہ کی نماز میں اور اسی طرح عیدین کی نماز میں اکثر پہلی رکعت میں “سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى” پڑھتے تھے آپ ﷺ کا یہ معمول اسی لئے تھا کہ یہ سورۃ اپنے خاص مضمون اور پیغام کے لحاظ سے آپ ﷺ کو زیادہ محبوب تھی ۔
سورۃ التکاثر
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “کیا تم میں سے کوئی یہ نہیں کر سکتا کہ روزانہ ایک ہزار آیتیں قرآن پاک کی پڑھ لیا کرے ؟” صحابہؓ نے عرض کیا : “حضور ﷺ ! کس میں یہ طاقت ہے کہ روزانہ ایک ہزار آیتیں پڑھے” (یعنی یہ بات ہماری استطاعت سے باہر ہے) آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : “کیا تم میں کوئی اتنا نہیں کر سکتا کہ سورہ “أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ” پڑھ لیا کرے” ۔ (شعب الایمان للبیہقی) تشریح قرآن مجید کی بعض بہت چھوٹی سورتیں ایسی ہیں جو اپنے مضمون اور پیغام کی اہمیت کی وجہ سے سینکڑوں اور ہزاروں آیتوں کے برابر ہیں ۔ انہی میں سورہ التکاثر بھی ہے ۔ اس میں دنیا پرستی اور آخرت فراموشی پر سخت ضرب لگائی گئی ہے ، اور آخرت کے محاسبہ اور دوزخ کے عذاب کا تذکرہ اس طرح کیا گیا ہے کہ اگر دل بالکل مُردہ نہ ہو گیا ہو تو اس میں فکر اور بیداری پیدا ہو جانا لازمی ہے ۔ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے غالباً اسی لحاظ سے اس کے پڑھنے کو ہزار آیتیں پڑھنے کے قائم مقام بتایا ہے ۔ آگے درج ہونے والی بعض حدیثوں میں جن دوسری چھوٹی چھوٹی سورتوں کو نصف قرآن یا تہائی قرآن یا چوتھائی قرآن کے برابر بتایا گیا ہے ، ان کے بارے میں بھی اسی طرح سمجھ لینا چاہئے اور ممکن ہے ان کی تلاوت کا ثواب بھی اسی حساب سے زیادہ عطا فرمایا جائے ۔ اللہ کا خزانہ ہمارے وہم و گمان سے زیادہ وسیع ہے ۔
سورہ زلزال ، سورہ کافرون ، سورہ اخلاص
حضرت عبداللہ ابن عباس اور حضرت انس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : سورہ “اِذَا زُلْزِلَتِ” نصف قرآن کے برابر ہے اور “قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ” تہائی قرآن کے برابر ہے اور “قُلْ يٰۤاَيُّهَا الْكٰفِرُوْنَ” چوتھائی قرآن کے برابر ہے ۔ (جامع ترمذی) تشریح سورہ “اِذَا زُلْزِلَتِ” میں قیامت کا بیان اور اس کی منظر کشی نہایت ہی مؤثر انداز میں کی گئی ہے اور اسی طرح اس کی آخری آیت : “فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهٗؕ۰۰۷ وَ مَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهٗؒ۰۰۸” میں جزا و سزا کا بیا اختصار کے باوجود ایسے مؤثر پیرایہ میں کیا گیا ہے کہ اگر اس موضوع پر پوری کتاب بھی لکھی جائے تو اس سے زیادہ مؤثر نہ ہو گی ۔ غالباً اس سورت کی اسی خصوصیت کی وجہ سے اس حدیث میں اس کو نصف قرآن کے برابر بتایا گیا ہے ۔ اسی طرح سورہ اخلاص (قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ) میں انتہائی اختصار کے ساتھ اللہ کی توحید ، اس کی تنزیہ اور اس کی صفاتی کمال جس معجزانہ انداز میں بیان کیا گیا ہے وہ بھی اس سورت کی خصوصیت ہے ، اور غالباً اسی کی وجہ سے اس کو تہائی قرآن کے برابر فرمایا گیا ہے ۔ اور “قُلْ يٰۤاَيُّهَا الْكٰفِرُوْنَ” میں واشگاف طریقے پر شرک اور اہلِ شرک سے براءت ہے ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابو داؤد ، سنن نسائی) شرک سے براءت اور بیزاری کا اعلان کر کے جس طرح خالص توحید کی تعلیم دی گئی ہے (جو دین کی جڑ ، بنیاد ہے) وہ اس سورت کی خصوصیت ہے اور غالباً اسی کی وجہ سے اس سورت کو اس حدیث میں چوتھائی قرآن کے برابر کہا گیا ہے ۔ واللہ اعلم ۔
سورہ زلزال ، سورہ کافرون ، سورہ اخلاص
فروہ بن نوفل اپنے والد ماجد نوفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا مجھے کوئی ایسی چیز پڑھنے کو بتا دیجئے جس کو میں سوتے وقت بستر پر پڑھ لیا کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : “قُلْ يٰۤاَيُّهَا الْكٰفِرُوْنَ” پڑھ لیا کرو اس میں شرک سے براءت ہے ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابو داؤد ، سنن نسائی)
سورہ زلزال ، سورہ کافرون ، سورہ اخلاص
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “کیا تم میں سے کوئی اس سے بھی عاجز ہے کہ ایک رات میں تہائی قرآن پڑھ لیا کرے ؟” صحابہ نے عرض کیا کہ ایک رات میں تہائی قرآن کیسے پڑھا جا سکتا ہے ۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : “قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ” تہائی قرآن کے برابر ہے ” (تو جس نے رات میں وہی پڑھی اس نے گویا تہائی قرآن پڑھ لیا) ۔ (صحیح مسلم) اور امام بخاریؒ نے یہی حدیث حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے ، اور امام ترمذی نے اسی مضمون کی ایک حدیث حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے ۔
سورہ زلزال ، سورہ کافرون ، سورہ اخلاص
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ : “حضرت ﷺ! مجھے یہ سورۃ “قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ” خاص طور سے محبوب ہے ؟ ” آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : “اس سورت کے ساتھ تمہاری یہ محبت تم کو جنت میں پہنچا دے گی ” ۔ (جامع ترمذی) (الفاظ و عبارت کے کچھ فرق کے ساتھ اسی مضمون کی ایک حدیث امام بخارؒ نے بھی روایت کی ہے) ۔
سورہ زلزال ، سورہ کافرون ، سورہ اخلاص
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو “قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ” پڑھتے ہوئے سنا تو آپ ﷺ نے فرمایا : “اس کے لئے واجب ہو گئی ہے” میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! کیا چیز واجب ہو گئی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : “جنت” ۔ (موطا امام مالک ، جامع ترمذی ، سنن نسائی) تشریح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنہوں نے تعلیم و تربیت براہِ راست رسول اللہ ﷺ سے حاصل کی تھی اور جو ہر عمل میں آپ ﷺ کی تقلید اور پیروی کے حریص تھے ، ظاہر ہے کہ جب وہ قرآنِ پاک کی اور خاص کر ان سورتوں اور آیتوں کی تلاوت کرتے ہوں گے جن میں اللہ کی توحید اور صفات کا بیان نہایت موثر انداز میں کیا گیا ہے تو دوسروں کو بھی صاف محسوس ہوتا ہو گا کہ یہ ان کے دل کا حال ہے اور ان کی زبان پر اللہ بول رہا ہے ۔ اس حدیث میں جن صحابیؓ کے (قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ) پڑھنے کا ذکر ہے ان کا حال اس وقت یہی ہو گا اور حضور ﷺ کو محسوس ہوا ہو گا کہ یہ پوری ایمانی کیفیت اور ایمانی ذوق کے ساتھ (قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ) پڑھ رہے ہیں ۔ ایسے شخص کے لئے جنت واجب ہونے میں کیا شبہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس نعمت کا کچھ حصہ ہم کم نصیبوں کو بھی نصیب فرمائے ۔
سورہ زلزال ، سورہ کافرون ، سورہ اخلاص
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “جو شخص بستر پر سونے کا ارادہ کرے ، پھر وہ (سونے سے پہلے) سو دفعہ سورہ “قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ” پڑھے تو ، جب قیامت قائم ہو گی تو اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا : “اے میرے بندے ! اپنے داہنے ہاتھ پر جنت میں چلا جا” ۔ (جامع ترمذی) تشریح “عَلَى يَمِينِكَ” (اپنے داہنے ہاتھ پر) کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ بندہ حساب کے موقف میں جہاں ہو گا وہاں سے جنت اس کے داہنی جانب ہو گی اور اس سے فرمایا جائے گا کہ : “اپنے داہنے رخ پر چل کر جنت میں چلا جا” دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خود جنت کا جو داہنی جانب کا حصہ ہو گا وہ بائیں جانب کے حصہ سے افضل ہو گا ، اور اس بندے سے فرمایا جائے گا کہ : “تو داہنی جانب والی جنت میں چلا جا” بلاشبہ بڑا سستا ہے یہ سودا کہ سونے سے پہلے صرف سو دفعہ قُلْ هُوَ اللّٰهُ شریف پڑھنے پر یہ دولت نصیب ہو جائے ۔ اللہ تعالیٰ توفیق دے کوئی بڑی بات نہیں ہے ۔ اللہ کے بعض بندوں کو دیکھا ہے کہ ان کا رات کو سونے سے پہلے کا روزمرہ کا معمول اس سے بہت زیادہ ہے ۔
معوذتین
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “کیا تمہیں معلوم نہیں آج رات جو آیتیں مجھ پر نازل ہوئی ہیں (وہ ایسی بےمثال ہیں کہ ان کی مثل نہ کبھی دیکھی گئیں نہ سنی گئیں : “قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ”اور “قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ” (صحیح مسلم) تشریح یہ دونوں سورتیں اس لحاظ سے بےمثال ہیں کہ ان میں اول سے آخرت تک تعوذ ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی پناہ لی گئی ہے ۔ ظاہر ہے کہ شرور سے بھی اور باطن کے شرور سے بھی ۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان میں شرور سے حفاظت کی بےپناہ تاثیر رکھی ہے ، گویا ہر قسم کے شرور سے حفاظت کے لئے یہ حصن حصین ہیں ، اور دونوں اختصار کے باوجود نہایت جامع اور کافی وافی ہیں ۔
معوذتین
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا جحفه اور ابواء کے درمیان (یہ دونوں دو مشہور مقام تھی مدینہ اور مکہ کے درمیان) اچانک سخت آندھی آ گئی اور سخت اندھیری چھا گئی رسول اللہ ﷺ یہ دونوں سورتیں (معوذتین) پڑھ کر اللہ سے پناہ مانگنے لگے اور مجھ سے ارشاد فرمانے لگے : “عقبہ تم بھی دو سورتیں پڑھ کر اللہ کی پناہ لو ۔ کسی پناہ لینے والے نے ان کے مثل پناہ نہیں لی” (یعنی اللہ کی پناہ لینے کے لئے کوئی دعا ایسی نہیں ہے جو ان دونوں سورتوں کے مثل ہو ، اس خصوصیت میں یہ بے مثل اور بےمثال ہیں) ۔ (صحیح مسلم) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب کسی مصیبت اور خطرے کا سامنا ہو تو معوذتین پڑھ کر اللہ تعالیٰ کی پناہ لینی چاہئے ، اس سے بہتر بلکہ اس جیسا بھی کوئی دوسرا تعوذ نہیں ہے ۔
معوذتین
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا کہ ہر رات کو جب آرام فرمانے کے لئے اپنے بستر پر تشریف لاتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو ملا لیتے (جس طرح دعا کے وقت دونوں ہاتھ ملائے جاتے ہیں) پھر ہاتھوں پر پھونکتے اور قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ پڑھتے ، پھر جہاں تک ہو سکتا اپنے جسم مبارک پر اپنے دونوں ہاتھ پھیرتے ، سر مبارک اور چہرہ مبارک اور جسدِ اطہر کے سامنے کے حصے سے شروع فرماتے (اس کے بعد باقی جسم پر جہاں تک آپ کے ہاتھ جا سکتے وہاں تک ہاتھ پھیرتے) ۔ یہ آپ تین دفعہ کرتے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح رات کو سونے سے پہلے کا یہ معمولِ نبیﷺ تو بہت آسان ہے ، کم از کم اس کا اہتمام ہم سب کو کرنا چاہئے ، اس کی برکات بیان سے باہر ہیں ۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے ۔
چند مخصوص آیات کی فضیلت اور امتیاز: آیۃ الکرسی
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (ان کی کنیت ابو المنذر سے مخاطب کرتے ہوئے) ان سے فرمایا : “اے ابوالمنذر ! تم جانتے ہو کہ کتاب اللہ کی کون سی آیت تمہارے پاس سب سے زیادہ عظمت والی ہے ؟” میں نے عرض کیا کہ : “اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے” ۔ آپ ﷺ نے (مکرر) فرمایا : “اے ابوالمنذر ! تم جانتے ہو کہ کتاب اللہ کی کون سی آیت تمہارے پاس سب سے زیادہ عظمت والی ہے ؟” میں نے عرض کیا کہ : “اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ”تو آپ ﷺ نے میرا سینہ ٹھونکا (گویا اس جواب پر شاباش دی) اور فریاما : “اے ابوالمنذر ! تجھے یہ علم موافق آئے ار مبارک ہو” ۔ (صحیح مسلم) تشریح مندرجہ بالا احادیث میں جس طرح خاص خاص سورتوں کے فضائل بیان ہوئے ہیں ، اسی طرح بعض احادیث میں بعض مخصوص آیات کی فضیلت اور ان کا امتیاز بھی بیان فرمایا گیا ہے ۔ اس سلسلہ کی چند حدیثیں ذیل میں پڑھی جائیں ۔ تشریح ..... رسول اللہ ﷺ کے اس جواب مین ابی بن کعب نے پہلے عرض کیا کہ “اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ” (اللہ اور اس کے رسول کو اس کا علم زیادہ ہے کہ کون سی آیت کتاب اللہ میں زیادہ عظمت والی ہے) یہ جواب ادب کے تقاضے کے مطابق تھا ، لیکن جب رسول اللہ ﷺ نے دوبارہ وہی سوال فرمایا تو ابی بن کعب نے اپنے علم و فہم کے مطابق جواب دیا کہ میرے خیال میں تو “اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ” یعنی آیۃ الکرسی قرآن مجید کی سب سے زیادہ عظمت والی آیت ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس جواب کی تصویب فرمائی اور شاباش دی ، اور اس شاباش میں ان کا سینہ آپ ﷺ نے غالباً اس لئے ٹھوکا کہ قلب (جو محلِ علم و معرفت ہے) وہ سینہ ہی میں ہوت ہے ۔ بہرحال اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آیاتِ قرآنی میں آیۃ الکرسی سب سے زیادہ باعظمت آیت ہے ، اور یہ اس لئے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی توحید و تنزیہ اور صفاتِ کمال اور اس کی شانِ عالی کی عظمت و رفعت جس طرح بیان کیا گئی ہے وہ اس میں منفرد اور بےمثال ہے ۔
سورہ بقرہ کی آخری آیتیں
ایفع بن عبدالکلاعی سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا : یا رسول اللہ! قرآن کی کون سی سورت سب سے زیادہ عظمت والی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : “قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ” اس نے عرض کیا : “اور آیتوں میں قرآن کی کون سی آیت زیادہ عظمت والی ہے ؟” آپ ﷺ نے فرمایا : “آیۃ الکرسی اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ” اس نے عرض کیا : اور قرآن کی کون سی آیت ہے جس کے بارے میں آپ ﷺ کی خاص طور سے خواہش ہے کہ اس کا فائدہ اور اس کی برکات آپ ﷺ کو اور آپ ﷺ کی امت کو پہنچیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : “سورہ بقرہ کی آخری آیتیں (آمَنَ الرَّسُوْلُ سے ختم سورہ تک)” پھر آپ ﷺ نے فرمایا : “یہ آیتیں اللہ تعالیٰ کی رحمت کے ان خاص الخاص خزانوں میں سے ہیں جو ان کے عرش عظیم کے تحت ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیاتِ رحمت اس امت کو عطا فرمائی ہیں ، یہ دنیا اور آخرت کی ہر بھلائی اور ہر خیر کو اپنے اندر لئے ہوئے ہیں ۔ ”(مسند دارمی) تشریح تشریح ..... قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ اور آیۃ الکرسی کی عظمت اور امتیاز کے بارے میں اوپر عرض کیا جا چکا ہے ۔ سورہ بقرہ کی آخری آیات کے متعلق جیسا کہ اس حدیث میں فرمایا گیا ہے بلاشبہ یہ آیتیں اللہ تعالیٰ کے خاص الخاص خزائن رحمت میں سے ہیں ۔ شروع میں “آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ” سے “لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ” تک ایمان کی تلقین فرمائی گئی ہے ، اس کے بعد “سَمِعْنَا وَأَطَنَعْا” میں اسلام اور اطاعت و فرمانبرداری کا عہد لیا گیا ہے ، اس کے بعد “غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ” میں ان کوتاہیوں کی معافی اور مغفرت کی استدعا ہے جو ایمان اور عہدِ اطاعت کے بعد بھی ہم بندوں سے سرزد ہوتی ہیں ۔ اس کے بعد “لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا” میں کمزور بندوں کو تسلی دی گئی ہے اور اطمینان دلایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ایسا بوجھ بندوں پر نہیں ڈالا جاتا اور کسی ایسی چیز کا مطالبہ نہیں کیا جاتا جو ان کی استطاعت سے باہر ہو ۔ اس کے بعد “رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا” سے آخر سورت تک نہایت جامع دعا کی تلقین فرمائی گئی ہے ۔ بلاشبہ یہ آیتیں بجائے خود رحمتِ الٰہی کا خزانہ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کی قدر شناسی اور ان سے استفادہ کی توفیق عطا فرمائے ۔
سورہ بقرہ کی آخری آیتیں
جبیر بن نفیر تابعی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کو ایسی دو آیتوں پر ختم فرمایا ہے جو اس نے اپنے اس خاص خزانے سے مجھے عطا فرمائی ہیں جو اس کے عرشِ عظیم کے تحت ہے ۔ تم لوگ ان کو سیکھو اور اپنی خواتین کو سکھاؤ ، کیوں کہ یہ آیتیں سراپا رحمت ہیں اور اللہ تعالیٰ کے تقرب کا خاص وسیلہ ہیں ، اور ان میں بڑی جامع دُعا ہے ۔ (مسند دارمی) تشریح واضح رہے کہ جبیر بن نفیر جنہوں نے یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے روایت کی ہے تابعی ہیں ، انہوں نے ان صحابی کا ذکر نہیں کیا جن سے ان کو یہ حدیث پہنچی ۔ اس لئے یہ حدیث مرسل ہے ۔ اسی طرح پہلی حدیث بھی مرسل ہے کیوں کہ اس کے روای ایفع بن عبد کلاعی بھی تابعی ہیں ، انہوں نے بھی کسی صحابی کا حوالہ دئیے بغیر اس کو روایت کیا ہے ۔
سورہ بقرہ کی آخری آیتیں
حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : “سورہ بقرہ کے آخر کی دو آیتیں جو کوئی کسی رات میں ان کو پڑھے گا وہ اس کے لئے کافی ہوں گی” ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح حدیث کا مطلب بظاہر یہ ہے کہ جو شخص رات کو بقرہ کی یہ آخری آیتیں پڑھ لے گا وہ ان شاء اللہ ہر شر سے محفوظ رہے گا ۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر کوئی شخص تہجد میں صرف یہی آیتیں پڑھ لے تو اس کے لئے اتنا ہی کافی ہو گا ۔ واللہ اعلم ۔
آل عمران کی آخری آیات
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے فرمایا کہ : “جو شخص کسی رات کو آل عمران کی آخری آیات پڑھے گا اس کے لئے پوری رات کی نماز کا ثواب لکھا جائے گا” ۔ (مسند دارمی) تشریح “آخر آل عمران” سے مراد “إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ” سے ختم سورت تک کی آیات ہیں ۔ صحیح روایات میں وارد ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ رات کو تہجد کے لئے اٹھتے تو سب سے پہلے (وضو کرنے سے بھی پہلے) یہی آیات پڑھتے تھے ۔ آل عمران کا یہ آخری رکوع بھی سورہ بقرہ کے آخری رکوع کی طرح نہایت جامع دعا پر مشتمل ہے ، اور غالباً اس رکوع کی خاص فضیلت کا راز ان دعائیہ آیات ہی میں مضمر ہے ۔ کائنات کی تخلیق میں تفکر کرنے والے اور ہر حال میں اللہ کو یاد کرنے والے بندوں کی زبان سے یہ جامع دعا اس رکوع میں اس طرح ذکر کی گئی ہے : رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (191) رَبَّنَا إِنَّكَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ أَخْزَيْتَهُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ (192) رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي لِلْإِيمَانِ أَنْ آمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَآمَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ (193) رَبَّنَا وَآتِنَا مَا وَعَدْتَنَا عَلَى رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ. اے ہمارے پروردگار ! تو نے یہ کارخانہ ہستی بےمقصد نہیں پیدا کیا ، تو اس بات سے پاک اور مقدس ہے کہ کوئی عبث کام کرے (یقیناً اس دنیوی زندگی کے بعد جزا و سزا برحق ہے) سو تو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا ۔ اے ہمارے رب ! جس کو تو نے دوزخ میں ڈالا بےشک اس کو تو نے رسوا کر دیا اور ایسے ظالموں کا کوئی بھی حمایتی اور مددگار نہیں ہو گا ۔ اے ہمارے رب ہم نے ایک داعی اور منادی کو سنا کہ وہ ایمان کی دعوت دیتا ہے کہ لوگو ! اپنے رب پر ایمان لاؤ ۔ تو ہم ایمان لے آئے ۔ اے ہمارے رب ! ہمارے گنوہوں کو بخش دے ہماری برائیوں کو ہم سے دور کر دے ، اور ہمیں اپنا وفادار نیکو کار بندوں کے ساتھ دنیا سے اٹھا ، اور اے ہمارے رب ہمیں وہ سب عطا فرما جس کا تو نے اپنے رسولوں کی زبانی اہلِ ایمان کے لئے وعدہ فرمایا ہے ، اور ہمیں قیامت کے دن کی رسوائی سے بچا ۔ بےشک تو اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرے گا ۔ سورہ آل عمران کے آخری رکوع کی یہ دعا قرآنِ مجید کی جامع ترین دو تین دعاؤں میں سے ہے ، اور جیسا کہ عرض کیا گیا اس رکوع کی خاص فضیلت ان دعائیہ آیات ہی کی وجہ سے ہے ۔ واللہ اعلم ۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے جو یہ فرمایا کہ : “جو شخص رات کو یہ آیتیں پڑھے اس کے لئے پوری رات کے نوافل کا ثواب لکھا جائے گا ۔” ظاہر ہے کہ یہ بات انہوں نے رسول اللہ ﷺ ہی سے سنی ہو گی ۔ حضور ﷺ سے سنے بغیر کوئی صحابیؓ اپنی طرف سے ایسی بات نہیں کہہ سکتے ، اس لئے حضرت عثمانؓ کا یہ ارشاد حدیثِ مرفوع ہی کے حکم میں ہے ۔ فائدہ ...... امتِ مسلمہ مرحومہ پر اللہ تعالیٰ کی جو خاص رحمتیں ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ تھوڑے عمل پر بڑے اجر و ثواب کی بہت سی صورتیں اور بہت سے طریقے رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ اس امت کو بتلائے گئے ہیں ، تا کہ جو لوگ اپنے خاص حالات کی وجہ سے بڑے بڑے عمل نہ کر سکیں وہ یہ چھوٹے چھوٹے عمل کر کے ہی اللہ تعالیٰ کی خاص عنایات کے مستحق ہو سکیں ۔ مندرجہ بالا حدیثیں جن میں رسول اللہ ﷺ نے خاص خاص سورتوں اور مخصوص آیتوں کے فضائل بیان فرمائے ہیں ، یہ اسی سلسلہ کی کڑیاں ہیں ۔ ان کا مقصد یہی ہے کہ بہت سے بندے جو اپنے خاص حالات کی وجہ سے قرآنِ مجید کی بہت زیادہ تلاوت نہیں کر سکتے وہ ان مخصوص سورتوں اور آیتوں کی تلاوت کے ذریعے بڑے اجر و ثواب اور اللہ تعالیٰ کی خاص عنایات کے قابل ہو جائیں ۔ اس لئے ان حدیثوں کا حق ہے کہ ان پر یقین کر کے ان سورتوں اور آیات کی تلاوت کا ہم خاص طور سے اہتمام کریں ، تا کہ اللہ تعالیٰ کے خاص الطاف و عنایات میں ہمارا بھی حصہ ہو ۔ بلاشبہ ہم بڑے محروم ہیں اگر اتنا بھی نہ کر سکیں ۔ یہاں تک جو ستر حدیثیں درج ہوئیں وہ “ذکر اللہ” اور “تلاوتِ قرآنِ مجید” سے متعلق تھیں ۔ آگے وہ حدیثیں پیش کی جا رہی ہیں جن کا تعلق بابِ دُعا سے ہے ، ان میں وہ بھی ہیں جن میں دُعا سے متعلق ہدایات دی گئی ہیں ، وہ بھی ہیں جن میں اللہ کے حضور میں رسول اللہ ﷺ کی دعائیں محفوظ کر کے پیش کی گئی ہیں ، جو امت کے لئے آپ ﷺ کی عظیم ترین میراث ہیں ۔ آخر میں استغفار اور درود شریف سے متعلق احادیث ہیں ۔
دُعا کا مقام اور اس کی عظمت
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “دعا عین عبادت ہے” ۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے سند کے طور پر یہ آیت پڑھی : “وَقَالَ رَبُّكُمْ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ” (تمہارے رب کا فرمان ہے کہ مجھ سے دعا کرو اور مانگو میں قبول کروں گا اور تم کو دوں گا ، جو لوگ میری عبادت سے متکبرانہ روگردانی کریں گے ان کو ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں جانا ہو گا) ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی ، سنن ابو داؤد ، سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ) تشریح اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو جن کمالات و امتیازات سے نوازا ان میں سب سے بڑا امتیاز و کمال وعبدیت کاملہ کا مقام ہے ۔ عبدیت کیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ کے حضور میں انتہائی تذلل ، بندگی و سرافگندگی عاجزی و لاچاری اور محتاجی و مسکینی کا پورا پورا اظہار ، اور یہ یقین کرتے ہوئے کہ سب کچھ اسی کے قبضہ و اختیار میں ہے ، اس کے دَر کی فقیری و گدائی ۔ اس سب کے مجموعہ کا عنوان مقامِ عبدیت ہے ، جو تمام مقامات میں اعلیٰ و بالا ہے اور بلاشبہ سیدنا حضرت محمدﷺ اس صفت کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی ساری مخلوق میں کامل ترین اور سب پر فائق ہیں ، اور اسی لئے افضل مخلوقات اور اشرف کائنات ہیں ۔ قاعدہ ہے کہ ہر چیز اپنے مقصد کے لحاظ سے کامل یا ناقص سمجھی جاتی ہے ۔ مثلاً گھوڑا جس مقصد کے لئے پیدا کیا گیا ہے یعنی سواری اور تیز رفتاری ، اس کو بڑھیا یا گھٹیا اسی مقصد کے پیمانے سے سمجھا جائے گا ۔ اسی طرح گائے یا بھینس کا جو مقصد ہے یعنی دوددھ کا حاصل ہونا اس کی قدر و قیمت دودھ کی کمی یا زیادتی ہی کے حساب سے لگائی جائے گی ۔ وقس علیٰ ہذا ۔ انسان کی تخلیق کا مقصد اس کے پیدا کرنے والے نے عبدیت اور عبادت بتایا ہے : “ وما خلقت الجن والانس الا ليعبدون ” اس لئے سب سے افضل و اشرت انسان وہی ہو گا جو اس مقصد میں سب سے اکمل و فائق ہو ۔ پس سیدنا حضرت محمدﷺ چونکہ کمالِ عبدیت میں سب سے فائق ہیں اس لئے آپ ﷺ افضلِ مخلوقات اور اشرفِ کائنات ہیں اور اسی وجہ سے قرآنِ مجید جہاں جہاں آپ ﷺ کے بلند ترین خصائص و کمالات اور اللہ تعالیٰ کے آپ ﷺ پر خاص الخاص انعامات کا ذکر کیا گیا ہے وہاں معزز ترین لقب کے طور پر آپ ﷺ کو عبد ہی کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے ۔ معراج کا ذکر کرتے ہوئے سورہ اسراء میں فرمایا گیا ہے : “سُبْحانَ الَّذِي أَسْرى بِعَبْدِهِ” پھر اسی سفر معراج کی آخری منزلوں کا ذکر کرتے ہوئے سورۃ النجم میں فرمایا گیا : “فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى” اور سب سے بڑی نعمت و دولت قرآنِ حکیم کی تنزیل کا ذکر کرتے ہوئے سورہ فرقان میں ارشاد فرمایا گیا : “تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ” اور سورہ کہف میں فرمایا گیا : “الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَى عَبْدِهِ الْكِتَابَ” حاصلِ کلام یہ ہے کہ بندوں کے مقامات میں سب سے بلند عبدیت کا مقام ہے م اور سیدنا حضرت محمد ﷺ اس مقام کے امام یعنی اس وصف خاص میں سب پر فائق ہیں ۔ اور دعا چونکہ عبدیت کا جوہر اور خاص مظہر ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے وقت (بشرطیکہ حقیقی دعا ہو) بندے کا ظاہر و باطن عبدیت میں ڈوبا ہوتا ہے ، اس لئے رسول اللہ ﷺ کے احوال و اوصاف میں غالب ترین وصف اور حال دُعا کا ہے ، اور امت کو آپ کے ذریعہ روحانی دولتوں کے جو عظیم خزانے ملے ہیں ان میں سب سے بیش قیمت خزانہ ان دُعؤں کا ہے جو مختلف اوقات میں اللہ تعالیٰ سے خود آپ ﷺ نے کیں یا امت کو ان کی تلقین فرمائی ۔ ان میں سے کچھ دعائیں ہیں جن کا تعلق خاص حالات یا اوقات اور مخصوص مقاصد و حاجات سے ہے ، اور زیادہ تر وہ ہیں جن کی نوعیت عمومی ہے ۔ ان دُعاؤں کی قدر و قیمت اور افادیت کا ایک عام عملی پہلو تو یہ ہے کہ ان سے دعا کرنے اور اللہ سے اپنی حاجتیں مانگنے کا سلیقہ اور طریقہ معلوم ہوتا ہے اور اس باب میں وہ رہنمائی ملتی ہے جو کہیں سے نہیں مل سکتی ۔ اور ایک دوسرا خاص عملی اور اور عرفانی پہلو یہ ہے کہ ان سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی روحِ پاک کو اللہ تعالیٰ سے کتنی گہری اور ہمہ وقتی وابستگی تھی اور آپ کے قلب پر اس کا جلال و جمال کس قدر چھایا ہوا تھا ، اور اپنی اور ساری کائنات کی بےبسی اور لاچاری اور اس مالک الملک کی قدرتِ کاملہ اور ہمہ گیر رحمت و ربوبیت پر آپ کو کس درجہ یقین تھا کہ گویا یہ آپ کے لئے غیب نہیں شہود تھا ۔ حدیث کے ذخیرے میں رسول اللہ ﷺ کی جو سینکڑوں دعائیں محفوظ ہیں ان میں اگر تفکر کیا جائے تو کھلے طور پر محسوس ہو گا کہ ان میں سے ہر دعا معرفت الہی کا شاہکار اور آپ کے کمالِ روحانی و خدا آشنائی اور للہ تعالیٰ کے ساتھ آپ ﷺ کلے صدقِ تعلق کا مستقل برہان ہے ، اور اس لحاظ سے ہر ماثور دُعا بجائے خود آپ کے ایک روشن معجزہ ہے ۔صلی اللہ علیہ والہ وبارک وسلم ۔ اس عاجز راقم سطور کا دستور ہے کہ جب کبھی پڑھے لکھے اور سمجھ دار غیر مسلموں کے سامنے رسول اللہ ﷺ کا تعارف کرانے کا موقع ملتا ہے تو آپ ﷺ کی کچھ دعائیں ان کو ضرور سناتا ہوں ۔ قریب قریب سو فیصد تجربہ ہے کہ وہ ہر چیز سے زیادہ آپ ﷺ کی دعاؤں سے متاثر ہوتے ہیں اور آپ ﷺ کے کمالِ خدا رسی و خدا شناسی میں ان کو شبہ نہیں رہتا ۔ اس تمہید کے بعد پہلے چند وہ حدیثیں پڑھئے جن میں رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے کی ترغیب دی ہے اور اس کی برکتیں بیان فرمائی ہیں ، یا دعا کے آداب بتائے ہیں ، یا اس کے بارے میں کچھ ہدایتیں دی ہیں ۔ ان کے بعد ایک خاص ترتیب کے ساتھ وہ حدیثیں درج کی جائیں گی جن میں وہ دعائین مذکور ہیں جو مختلف موقعوں پر آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے حضور میں کیں ، یا امت کو جن کی تلقین فرمائی ۔ تشریح ..... اصل حدیث صرف اتنی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : “دعا عین عبادت ہے ۔” غالباً حضور ﷺ کے اس ارشاد کا منشاء یہ ہے کہ کوئی یہ خیال نہ کرے کہ بندے جس طرح اپنی ضرورتوں اور حاجتوں کے لئے دوسری محنتیں اور کوششیں کرتے ہیں اسی طرح کی ایک کوشش دُعا بھی ہے ، جو اگر قبول ہو گئی تو بندہ کامیاب ہو گیا اور اس کو کوشش کا پھل مل گیا ، اور اگر قبول نہ ہوئی تو وہ کوشش بھی رائیگاں گئی ۔ بلکہ دعا کی ایک مخصوص نوعیت ہے اور وہ یہ کہ وہ حصولِ مقصد کا ایک مقدس عمل ہے جس کا پھل اس کو آخرت میں ضرور ملے گا ۔ جو آیت آپ ﷺ نے سند کے طور پر تلاوت فرمائی اس سے یہ بات صراحۃً معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دُعا عین عبادت ہے ۔ آگے درج ہونے والی دوسری حدیث میں دُعا کو عبادت کا مغز اور جوہر فرمایا گیاہے ۔
دُعا کا مقام اور اس کی عظمت
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “دعا عبادت کا مغز اور جوہر ہے” ۔ (جامع ترمذی) تشریح عبادت کی حقیقت ہے اللہ کے حضور میں خضوع تذلل اور اپنی بندگی و محتاجی کا مظاہرہ ، اور دعا کا جزو و کل اور اول و آخر اور ظاہر و باطن یہی ہے ، اس لئے دعا بلاشبہ عبادت کا مغز اور جوہر ہے ۔
دُعا کا مقام اور اس کی عظمت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : “اللہ کے یہاں کوئی چیز اور کوئی عمل دعا سے زیادہ عزیز نہیں ۔ ” (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ) تشریح جب یہ معلوم ہو چکا کہ دعا عبادت کا مغز اور جوہر ہے اور عبادت ہی انسان کی تخلیق کا اصل مقصد ہے تو یہ بات خود بخود متعین ہو گئی کہ انسانوں کے اعمال و احوال میں دعا ہی سب سے زیادہ محترم اور قیمتی ہے ، اور اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت کو کھینچنے کی سب سے زیادہ طاقت اسی میں ہے ۔
دُعا کا مقام اور اس کی عظمت
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “تم میں سے جس کے لئے دعا کا دروازہ کھل گیا اس کے لئے رحمت کے دروازے کھل گئے ۔ اور اللہ کو سوالوں اور دعاؤں میں سب سے زیادہ محبوب یہ ہے کہ بندے اس سے عافیت کی دعا کریں ، یعنی کوئی دعا اللہ تعالیٰ کو اس سے زیادہ محبوب نہیں ۔” (جامع ترمذی) تشریح عافیت کا مطلب ہے تمام دنیوی و اُخروی اور ظاہری و باطنی آفات اور بلیات سے سلامتی اور تحفظ ۔ تو جو شخص اللہ تعالیٰ سے عافیت کی دعا مانگتا ہے وہ برملا اس بات کا اعتراف اور اظہار کرتا ہے کہ اللہ کی حفاظت اور کرم کے بغیر وہ زندہ اور سلامت بھی نہیں رہ سکتا اور کسی چھوٹی یا بڑی مصیبت اور تکلیف سے اپنے کو نہیں بچا سکتا ۔ پس ایسی دعا اپنی کامل عاجزی و بےبسی اور سراپا محتاجی کا مظاہرہ ہے اور یہی کمالِ عبدیت ہے ، اسی لئے عافیت کی دعا اللہ تعالیٰ کو سب دعاؤں سے زیادہ محبوب ہے ۔ دوسری بات حدیث میں یہ فرمائی گئی ہے کہ جس کے لئے دعا کا دروازہ کھل گیا یعنی جس کو دعا کی حقیقت نصیب ہو گئی اور اللہ سے مانگنا آ گیا اس کے لئے رحمتِ الٰہی کے دروازے کھل گئے ۔ دعا دراصل ان دعائیہ الفاظ کا نام نہیں ہے جو زبان سے ادا ہوتے ہیں ، ان الفاظ کو تو زیادہ سے زیادہ دعا کا لباس یا قالب کہا جا سکتا ہے ۔ دعا کی حقیقت انسان کے قلب اور اس کی روح کی طلب اور تڑپ ہے اور حدیث پاک میں اس کیفیت کے نصیب ہونے ہی کو بابِ دعا کے کھل جانے سے تعبیر کیا گیا ہے ، اور جب بندے کو وہ نصیب ہو جائے تو اس کے لئے رحمت کے دروازے کھل ہی جاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نصیب فرمائے ۔
دُعا کا مقام اور اس کی عظمت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “جو اللہ سے نہ مانگے اس پر اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے” ۔ (جامع ترمذی) تشریح دنیا میں کوئی نہیں ہے جو سوال نہ کرنے سے ناراض ہوتا ہو ، ماں باپ تک کا یہ حال ہوتا ہے کہ اگر بچہ ہر وقت مانگے اور سوال کرے تو وہ بھی چِڑ جاتے ہیں ۔ لیکن رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ ایسا رحیم و کریم اور بندوں پر اتنا مہربان ہے کہ جو بندہ اس سے نہ مانگے وہ اس سے ناراض ہوتا ہے اور مانگنے پر اسے پیار آتا ہے ۔ اوپر حدیث گزر چکی ہے کہ اللہ کی نگاہ میں بندے کا سب سے عزیز اور قیمتی عمل دعا اور سوال ہے ۔ لك الحمد يارب العالمين و يا ارحم الرا حمين !
دُعا کا مقام اور اس کی عظمت
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “اللہ سے اس کا فضل مانگو (یعنی دعا کرو کہ وہ فضل و کرم فرمائے) کیوں کہ اللہ کو یہ بات محبوب ہے کہ اس کے بندے اس سے دعا کریں اور مانگیں ! اور فرمایا کہ : اللہ کے کرم سے امید رکھتے ہوئے) اس بات کا انتظار کرنا کہ وہ بلا اور پریشانی کو اپنے کرم سے دور فرمائے گا اعلیٰ درجہ کی عبادت ہے ۔ (کیوں کہ اس میں عاجزانہ اور سائلانہ طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ ہے) ۔ (جامع ترمذی)
دعا کی مقبولیت اور نافعیت
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “دعا کارآمد اور نفع مند ہوتی ہے اور ان حوادث میں بھی جو نازل ہو چکے ہیں اور ان میں بھی جو ابھی نازل نہیں ہوئے ، پس اے خدا کے بندو ! دعا کا اہتمام کرو” ۔ (جامع ترمذی) (اور امام احمد نے مسند میں اس حدیث کو بجائے عبداللہ بن عمر کے معاذ بن جبل سے روایت کیا ہے) تشریح مطلب یہ ہے کہ جو بلا اور مصیبت ابھی نازل نہیں ہوئی ، بلکہ اس کا صرف خطرہ اور اندیشہ ہے اس سے حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے ان شاء اللہ نفع مند ہو گی ۔ اور جو بلا یا مصیبت نازل ہو چکی ہے اس کے دفعیہ کے لئے بھی دعا کرنی چاہئے ، ان شاء اللہ وہ بھی نافع ہو گی ، اور اللہ تعالیٰ اس کو دور فرما کر عافیت نصیب فرمائے گا ۔
دعا کی مقبولیت اور نافعیت
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : “تمہارے پروردگار میں بدرجہ غایت حیا اور کرم کی صفت ہے ، جب بندہ اس کے آگے مانگنے کے لئے ہاتھ پھیلاتا ہے تو اس کو شرم آتی ہے کہ ان کو خالی واپس کرے ” ۔ (کچھ نہ کچھ عطا فرمانے کا فیصلہ ضرور فرماتا ہے) ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد) تشریح دعاو بندے کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے حضور میں معروضہ کی پیشی ہے ، اور وہ مالکِ کل اور قادر مطلق ہے ، چاہے تو اسی لمحہ دعا کرنے والے بندے کو وہ عطا فرما دے جو وہ مانگ رہا ہے لیکن اس کی حکمت کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ وہ ظلوم و جہال بندے کی خواہش کی ایسی پابندی کرے بلکہ بسا اوقات خود اس بندے کی مصلحت اسی میں ہوتی ہے کہ اس کی مانگ جلد پوری نہ ہو ۔ لیکن انسان کے خمیر میں جو جلد بازی ہے اس کی وجہ سے وہ چاہتا ہے کہ جو میں مانگ رہا ہوں وہ مجھے فوراً مل جائے ، اور جب ایسا نہیں ہوتا تو وہ مایوس ہو کر دعا کرنا بھی چھوڑ دیتا ہے ۔ یہ انسان کی وہ غلطی ہے جس کی وجہ سے وہ قبولیتِ دعا کا مستحق نہیں رہتا اور گویا اس کی یہ جلد بازی ہی اس کی محرومی کا باعث بن جاتی ہے ۔
دعا کی مقبولیت اور نافعیت
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “کیا میں تمہیں وہ عمل بتاؤں جو تمہارے دشمنوں سے تمہارا بچاؤ کرے اور تمہیں بھرپور روزی دلائے ۔ وہ یہ ہے کہ اپنے اللہ سے دُعا کیا کرو رات میں اور دن میں ، کیوں کہ دعا مومن کا خاص ہتھیار یعنی اس کی خاص طاقت ہے ۔ ” (مسند ابو یعلی موصلی) تشریح دعا دراصل وہی ہے جو دل کی گہرائی سے اور اس کے یقین کی بنیاد پر ہو کہ زمین و آسمان کے سارے خزانے صرف اللہ تعالیٰ کے قبضہ و اختیار میں ہیں ، اور وہ اپنے در کے سائلوں ، مانگنے والوں کو عطا فرماتا ہے ، اور مجھے جب ہی ملے گا جب وہ عطا فرمائے گا ، اس کے در کے سوا میں کہیں سے نہیں پا سکتا ۔ اس یقین اور اپنی سخت محتاجی اور کامل بےبسی کے احساس سے بندے کے دل میں جو خاص کیفیت پیدا ہوتی ہے جس کو قرآن مجید میں “اضطرار” سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ وہ دعا کی روح ہے ، اور یہ واقعہ ہے کہ کوئیبندہ جب اس اندرونی کیفیت کے ساتھ کسی دشمن کے حملہ سے یا کسی دوسری بلا اور آفت سے بچاؤ کے لئے یا وسعتِ رزق یا اس قسم کی کسی دوسری عام و خاص حاجت کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے تو اس کریم کا عام دستور ہے کہ وہ دعا قبول فرماتا ہے اس لئے بلاشبہ دعا ان بندوں کا بہت بڑا ہتھیار اور میگزین ہے جن کو ایمان و یقین کی دولت اور دعا کی روح و حقیقت نصیب ہو ۔
دُعا سے متعلق ہدایات
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “جب اللہ سے مانگو اور دعا کرو تو اس یقین کے ساتھ کرو کہ وہ ضرور قبول کرے گا اور عطا فرمائے گا ، اور جان لو اور یاد رکھو کہ اللہ اس کی دعا قبول نہیں کرتا جس کا دل (دعا کے وقت) اللہ سے غافل اور بےپرواہ ہو” ۔ (جامع ترمذی) تشریح رسول اللہ ﷺ نے دعا کے بارے میں کچھ ہدایات بھی دی ہیں ، ضروری ہے کہ دعا کرنے والے بندے ان کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں ۔ تشریح ..... مطلب یہ ہے کہ دعا کے وقت دل کو پوری طرح اللہ کی طرف متوجہ ہونا چاہئے اور اس کی کریمی پر نگاہ رکھتے ہوئے یقین کے ساتھ قبولیت کی امید رکھنی چاہئے ، تذبذب اور بےیقینی کے ساتھ جو دعا ہو گی وہ بےجان اور روح سے خالی ہو گی ۔
دُعا سے متعلق ہدایات
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “جب تم میں سے کوئی دعا کرے تو اس طرح نہ کہے کہ : “اے اللہ ! تو اگر چاہے تو مجھے بخش دے اور تو چاہے تو مجھ پر رحمت فرما اور تو چاہے تو مجھے روزی دے ۔” بلکہ اپنی طرف سے عزم اور قطعیت کے ساتھ اللہ کے حضورمیں اپنی مانگ رکھے ۔ بےشک وہ کرے گا وہی جو چاہے گا ۔ کوئی ایسا نہیں جو زور ڈال کر اس سے کرا سکے ۔ ” (صحیح بخاری) تشریح مطلب یہ ہے کہ عاجزی اور محتاجی اور فقیری اور گدائی کا تقاضا یہی ہے کہ بندہ اپنے رب کریم سے بغیر کسی شک اور تذبذب کے اپنی حاجت مانگے ، اس طرح نہ کہے کہ اے اللہ اگر تو چاہے تو ایسا کر دے ، اس میں استغنا کا شائبہ ہے اور یہ مقامِ عبدیت اور دعا کے منافی ہے ، نیز ایسی دعا کبھی جاندار دعا نہیں ہو سکتی ۔ اس لئے بندے کو چاہئے کہ اپنی طرف سے اس طرح عرض کرے کہ : “میرے مولا ! میری یہ حاجت تو پوری کر ہی دے ۔ بےشک اللہ تعالیٰ جو کچھ کرے گا وہ اپنے ارادہ اور مشیت سے کرے گا ، کوئی ایسا نہیں ہے جو زور ڈال کر اس کی مشیت کے خلاف اس سے کچھ کرا لے ۔
دُعا سے متعلق ہدایات
جو کوئی یہ چاہے کہ پریشانیوں اور تنگیوں کے وقت اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول فرمائے ، تو اس کو چاہئے کہ عافیت اور خوشحالی کے زمانہ میں دعا زیادہ کیا کرے ۔ (جامع ترمذی) تشریح یہ تجربہ اور واقعہ ہے کہ جو لوگ صرف پریشانی اور مصیبت کے وقت ہی خدا کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اسی وقت ان کے ہاتھ دعا کے لئے اٹھتے ہیں ، ان کا رابطہ اللہ کے ساتھ بہت ضعیف ہوتا ہے ، اور خدا کی رحمت پر ان کو وہ اعتماد نہیں ہوتا جس سے دعا میں روح اور جان پیدا ہوتی ہے ۔ اس کے برعکس جو بندے ہر حال میں اللہ سے مانگنے کے عادی ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کا رابطہ قوی ہوتا ہے اور اللہ کے کرم اور اس کی رحمت پر ان کو بہت زیادہ اعتماد اور بھروسہ ہوتا ہے ، اس لئے ان کی دعا قدرتی طور پر جاندار رہتی ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں یہی ہدایت دی ہے کہ بندوں کو چاہئے کہ عافیت اور خوش حالی کے دنوں میں بھی وہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ سے زیادہ دعا کیا کریں اور مانگا کریں ، اس سے ان کو وہ مقام حاصل ہو گا کہ پریشانیوں اور تنگیوں کے پیش آنے پر جب وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے تو ان کی دعا خاص طور سے قبول ہو گی ۔
دُعا میں عجلت طلبی کی ممانعت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : “تمہاری دعائیں اس وقت تک قابلِ قبول ہوتی ہیں جب تک کہ جلد بازی سے کام نہ لیا جائے ۔” (جلد بازی یہ ہے) کہ بندہ کہتے لگے کہ میں نے دُعا کی تھی مگر وہ قبول ہی نہیں ہوئی ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ بندہ اس جلد بازی اور مایوسی کی وجہ سے قبولیت کا استحقاق کھو دیتا ہے ، اس لئے چاہئے کہ بندہ ہمیشہ اس کے در کا فقیر بنا رہے اور مانگتا رہے ، یقین کرے کہ ارحم الراحمین کی رحمت دیر سویر ضرور اس کی طرف متوجہ ہو گی ۔ کبھی کبھی بہت سے بندوں کی دعا جو وہ بڑے اخلاص و اضطرار سے کرتے ہیں اس لئے بھی جلدی قبول نہیں کی جاتی کہ اس دعا کا تسلسل ان کے لئے ترقی اور تقرب الی اللہ کا خاص ذریعہ ہوتا ہے ، اگر ان کی منشاء کے مطابق ان کی دعا جلدی قبول کر لی جائے تو اس عظیم نعمت سے وہ محروم رہ جائیں ۔
حرام کھانے اور پہننے والے کی دُعا قبول نہیں
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “لوگو اللہ تعالیٰ پاک ہے وہ صرف پاک ہی کو قبول کرتا ہے ، اور اس نے اس بارے میں جو حکم اپنے پیغمبروں کو دیا ہے وہی اپنے سب مومن بندوں کو دیا ہے ۔ پیغمبروں کے لئے اس کا ارشاد ہے : “اے رسولو ! تم کھاؤ پاک اور حلال غذا ، اور عمل کرو صالح ، میں خوب جانتا ہوں تمہارے اعمال” ۔ اور اہل ایمان کو مخاطب کر کے اس نے فرمایا ہے کہ : “اے ایمان والو ! تم ہمارے رزق میں سے حلال اور طیب کھاؤ(اور حرام سے بچو)” اس کے بعد حضور ﷺ نے ذکر فرمایا ایک ایسے آدمی کا جو طویل سفر کر کے (کسی مقدس مقام پہ) ایسی حالت میں جاتا ہے کہ اس کے بال پراگندہ ہیں اور جسم اور کپڑوں پر گرد غبار ہے ، اور آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کے دیا کرتا ہے : “سے میرے رب ! اے میرے پروردگار !” اور حالت یہ ہے کہ اس کا کھانا حرام ہے ، اس کا پینا حرام ہے ، اس کا لباس بھی حرام ہے ، اور حرام غذا سے اس كا نشوونما ہوا ہے ، تو ایسے آدمی کی دعا کیسے قبول ہو گی ۔ (صحیح مسلم) تشریح آج بہت سے دعا کرنے والوں کے دلوں میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ جب دعا اور اس کی قبولیت برحق ہے اور دعا کرنے والوں کے لئے اللہ کا وعدہ ہے : “ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ”(تم دعا کرو میں قبول کروں گا) تو پھر ہماری دعائیں کیوں قبول نہیں ہوتی ؟ اس حدیث میں اس کا پورا پورا جواب ہے آج دعا کرنے والوں میں کتنے ہیں جن کو اطمینان ہے کہ وہ جو کھا رہے ہیں جو پی رہے ہیں جو پہن ررہے ہیں وہ سب حلال اور طیب ہے اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے ۔
وہ دُعائیں جن کی ممانعت ہے
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “کم کبھی اپنے حق میں یا اپنی اولاد اور مال و جائیداد کے حق میں بد دعا نہ کرو ، مبادا وہ وقت دعا کی قبولیت کا ہو اور تمہاری و دعا اللہ تعالیٰ قبول فرما لے ۔ (جس کے نتیجہ میں خود ت پر یا تمہاری اولاد یا مال و جائیداد پر کوئی آفت آ جائے) ۔ (صحیح مسلم) تشریح انسان بےصبر اور جلد گھبرا جانے والا ہے ، اور اس کا علم بھی بہت محدود اور ناقص ہے اس لئے بعض اوقات وہ اللہ تعالیٰ سے ایسی دعائیں بھی کرنے لگتا ہے جو اگر قبول ہو جائیں تو اس میں خود اسی کا خسارہ ہو ۔ رسول اللہ ﷺ نے ایسی دعاؤں سے منع فرمایا ہے ۔
وہ دُعائیں جن کی ممانعت ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “تم میں سے کوئی اپنی موت کی تمنا نہ کرے ، نہ جلدی موت آنے کے لئے اللہ سے دعا کرے ، کیوں کہ جب موت آ جائے گی تو عمل کا سلسلہ منقطع ہو جائے گا (اور اللہ کی رضا و رحمت حاصل کرنے والال کوئی عمل بندہ نہیں کر سکے گا ، جو عمل بھی کیا جا سکتا ہے جیتے جی ہی کیا جا سکتا ہے) اور بندہ مومن کی عمر تو اس کے لئے خیر ہی میں اضافہ اور ترقی کا وسیلہ ہے (اس لئے موت کی تمنا و دعا کرنا بڑی غلطی ہے) ۔ ” (صحیح مسلم)
وہ دُعائیں جن کی ممانعت ہے
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : “تم لوگ موت کی دعا اور تمنا نہ کرو ، اور کوئی آدمی ایسی دعا کے لئے مضطر ہی ہو (اور کسی وجہ سے زندگی اس کے لئے دو بھر ہو) تو اللہ کے حضور میں یوں عرض کرے : “اے اللہ ! جب تک میرے لئے زندگی بہتر ہے مجھے زندہ رکھ ، اور جب میرے لئے موت بہتر ہو تو دنیا سے مجھے اٹھا لے” ۔ (سنن نسائی) تشریح ان حدیثوں میں دراصل موت کی اس دعا اور تمنا سے ممانعت فرمائی گئی ہے جو کسی تکلیف اور پریشانی سے تنگ آ کر زبان پر آ جاتی ہے ۔ بعض حدیثوں کے الفاظ میں اس کی صراحت بھی ہے ۔ چنانچہ صحیحین میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت کے الفاظ یہ ہیں : “لاَ يَتَمَنَّيَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمُ المَوْتَ لِضُرٍّ نَزَلَ بِهِ” الحدیث (تم میں سے کوئی کسی پیش آ جانے والی تکلیف کی وجہ سے موت کی تمنا نہ کرے) اس صورت میں موت کی تمنا اور دعا سے ممانعت کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ صبر کی صفت کے خلاف ہے اور دوسری اس سے بھی اہم وجہ یہ ہے کہ آدمی جب تک زندہ ہے اس کے لئے توبہ و استغفار کے ذریعہ اپنے کو پاک صاف کرنے کا اور حسنات و طاعات کے ذریعہ اپنے ذخیرہ آخرت میں اضافہ اور اللہ تعالیٰ کا مزید تقرب حاصل کرنے کا راستہ کھلا ہوا ہے پس موت کی دعا اس کھلے دروازے کو بند کرنے کی دعا ہے ، اور ظاہر ہے کہ اس میں بندہ کے لئے خسارہ ہی خسارہ ہے ۔ البتہ اللہ کے خاص مقرب بندے جب ان کا وقتِ موعود قریب آتا ہے تو لقاءِ الٰہی کے غلبہ شوق کی وجہ سے کبھی کبھی ان سے موت کی تمنا اور دعا کا ظہور بھی ہوتا ہے ۔ قرآن مجید میں حضرت یوسف علیہ السلام کی دُعا : (1) “ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ” اور آخر وقت میں رسول اللہ ﷺ کی دعا : “اللهم الرفيق الاعلى” (اے اللہ ! میں رفیق اعلیٰ کا طالب و سائل ہوں) اسی قبیل سے ہیں ۔ واللہ اعلم ۔
دعا کے چند آداب: دوسرے سے پہلے اپنے لئے دعا
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی کو یاد فرماتے اور اس کے لئے دعا کرنا چاہتے تو پہلے اپنے لئے مانگتے ، پھر اس شخص کے لئے دعا فرماتے ۔ (جامع ترمذی) ہاتھ اٹھا کر دُعا کرنا تشریح دعا کا ایک ادب یہ ہے کہ جب کسی دوسرے کے لئے دعا کرنی ہو تو پہلے اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے مانگے اس کے بعد دوسرے کے لئے ۔ اگر صرف دوسرے کے لئے مانگے گا تو اس کی حیثیت محتاج سائل کی نہ ہو گی ، بلکہ صرف “سفارشی” کی سی ہو گی اور یہ بات دربارِ الٰہی کے کسی منگتا کے لئے مناسب نہیں ہے ، اس لئے رسول اللہ ﷺ کا بھی یہی دستور تھا کہ جب آپ کسی دوسرے کے لئے دعا فرمانا چاہتے تو پہلے اپنے لئے مانگتے ۔ عبدیت کاملہ کا تقاضا یہی تھا ۔
دوسرے سے پہلے اپنے لئے دعا
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “اللہ سے اس طرح ہاتھ اٹھائے مانگا کرو کہ ہتھیلیوں کا رُخ سامنے ہو ہاتھ الٹے کر کے نہ مانگا کرو ، اور جب دُعا کر چکو تو اٹھے ہاتھ چہرے پر پھیر لو ۔ ” (سنن ابی داؤد) تشریح دوسری بعض حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب آنے والی اور نازل ہونے والی کسی بلا کو رکوانے کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے تو ہاتھوں کی پشت آسمان کی طرف ہوتی تھی ، اور جب دنیا یا آخرت کی کوئی خیر اور بھلائی مانگتے تھے تو سیدھے ہاتھ پھیلا کے مانگتے تھے جس طرح کسی سائل اور منگتا کو ہاتھ پسار کے اور پھیلا کے مانگنا چاہئے ۔ اس کی روشنی میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کو مطلب یہی ہے کہ جب اللہ سے اپنی کوئی حاجت مانگی جائے تو اس کے سامنے فقیروں کی طرح ہاتھ سیدھے پھیلا کے مانگی جائے اور آکر میں وہ پھیلے ہوئے ہاتھ منہ پر پھیر لئے جائیں ۔ اس تصور کے ساتھ کہ یہ پھیلے ہوئے ہاتھ خالی نہیں رہے ہیں ، رب کریم کی رحمت و برکت کا کوئی حصہ ان کو ضرور ملا ہے ۔
دوسرے سے پہلے اپنے لئے دعا
سائب بن یزید تابعی اپنے والد یزید بن سعید بن ثمامہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا دستور تھا کہ جب آپ ﷺ ہاتھ اٹھا کے دعا مانگتے تو آخر میں اپنے ہاتھ چہرہ مبارک پر پھیر لیتے تھے ۔ (سنن ابی داؤد ، دعوات کبیر للبیہقی) تشریح دعا میں ہاتھ اُٹھانا اور آخر میں ہاتھ منہ پر پھیرنا رسول اللہ ﷺ سے قریب قریب بتواتر ثابت ہے ۔ جن لوگوں نے اس سے انکار کیا ہے ان کو حضرت انس رضی اللہ عنہ کی ایک روایت سے صرف غلط فہمی ہوئی ہے ۔ امام نوویؒ نے شرح مہذب میں قریباً تیس حدیثیں اس کے متعلق یکجا کر دی ہیں اور تفصیل سے ان حضرات کی غلط فہمی کی حقیقت واضح کی ہے ۔
دُعا سے پہلے حمد و صلوٰۃ
فضالہ بن عبید راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو سنا اس نے نماز میں دعا کی جس میں نہ اللہ کی حمد کی نہ نبی ﷺ پر درود بھیجا تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ : اس آدمی نے دعا میں جلد بازی کی ۔ پھر آپ ﷺ نے اس کو بلایا اور اس سے یا اس کی موجودگی میں دوسرے آدمی کو مخاطب کر کے آپ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو (دعا کرنے سے پہلے) اس کو چاہئے کہ اللہ کی حمد و ثناء کرے ، پھر اس کے رسول ﷺ پر درود بھیجے ، اس کے بعد جو چاہے اللہ سے مانگے ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، سنن نسائی)
دعا کے آخر میں “آمین”
ابو زہیر نمیری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک رات ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ باہر نکلے ۔ ہمارا گزر اللہ کے ایک نیک بندے پر ہوا جو بڑے الحاح سے اللہ سے مانگ رہا تھا ۔ رسول اللہ ﷺ کھڑے ہو کر اس کی دعا اور اللہ کے حضور میں اس کا مانگنا ، گڑگڑانا سننے لگے ۔ پھر آپ ﷺ نے ہم لوگوں سے فرمایا کہ : “اگر اس نے دعا کا خاتمہ صحیح کیا اور مہر ٹھیک لگائی تو جو اس نے مانگا ہے اس کا اس نے فیصلہ کرا لیا ” ۔ ہم میں سے ایک نے پوچھا کہ : “حضور ﷺ ! صحیح کاتمہ اور مُہر ٹھیک لگانے کا طریقہ کیا ہے ؟” آپ ﷺ نے فرمایا : “آخر میں آمین کہہ کے دعا ختم کرے ” (تو اگر اس نے ایسا کیا تو بس اللہ سے طے کرا لیا) (سنن ابی داؤد) تشریح ختم کے معنی ختم کرنے کے بھی ہیں اور مہر لگانے کے بھی ہیں ، بلکہ یہ دونوں دراصل ایک ہی حقیقت کی دو تعبیریں ہیں ، اس لئے ترجمہ میں دونوں ہی لفظوں کو استعمال کیا گیا ہے ۔ حدیث کا اصل سبق یہ ہے کہ ہر دعا کے خاتمہ پر بندے کو آمین کہنا چاہئے جس کا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ ! میری یہ دعا قبول فرما ! اسی پر ہر دعا کا خاتمہ ہونا چاہئے ۔ اس کی حکمت عنقریب ہی پہلے لکھی جا چکی ہے ۔
اپنے چھوٹوں سے بھی دُعا کی درخواست
حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، بیان فرماتے ہیں کہ : “ایک دفعہ میں نے عمرہ کرنے کے لئے مکہ معظمہ جانے کی رسول اللہ ﷺ سے اجازت چاہی ، تو آپ ﷺ نے مجھے اجازت عطا فرما دی ، اور ارشاد فرمایا : “بھیا ہمیں بھی اپنی دعاؤں میں شامل کرنا اور ہم کو بھول نہ جانا ؟” حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : “آپ ﷺ نے مجھے مخاطب کر کے یہ بھیا کا جو کلمہ کہا ، اگر مجھے اس کے عوض ساری دنیا دے دی جائے تو میں راضی نہ ہوں گا ۔” (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دعا ایسی چیز ہے جس کی استدعا بڑوں کو بھی اپنے چھوٹوں سے کرنی چاہئے ۔ بالخصوص اس وقت جب کہ وہ کسی ایسے مقبول عمل کے لئے یا ایسے مقدس مقام کو جا رہا ہوں جہاں قبولیت کی خاص امید ہو ۔ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو “اُخَىَّ” کے لفظ سے خطاب فرمایا جو “أُخَيَّ” کی تصغیر ہے ، اور جس کا لفظی ترجمہ “بھیا” ہے ۔ اس سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جتنی خوشی ہوئی (جس کا انہوں نے اظہار بھی فرمایا ہے) وہ بالکل برحق ہے ۔ اس کے ساتھ اس حدیث سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مقام کی رفعت اور بارگاہِ الٰہی میں ان کی مقبولیت کی جو شہادت ملتی ہے وہ بجائے خود بہت بڑی سند ہے ۔
وہ دُعائیں جو خصوصیت سے قبول ہوتی ہیں
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “کسی مسلمان کی اپنے بھائی کے لئے غائبانہ دعا قبول ہوتی ہے ۔ اس کے پاس ایک فرشتہ ہے جس کی یہ ڈیوٹی ہے کہ جب وہ اپنے کسی بھائی کے لئے (غائبانہ) کوئی اچھی دعا کرے تو وہ فرشتہ کہتا ہے کہ : “تیری یہ دعا للہ قبول کرے ، اور تیرے لئے بھی اسی طرح کا خیر عطا فرمائے” ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح غائبانہ دعا کی جس خصوصی قبولیت اور برکت کا اس حدیث میں ذکر ہے اس کی خاص وجہ بظاہر یہ ہے کہ ایسی دعا میں اخلاص زیادہ ہوتا ہے ۔ واللہ اعلم ۔
وہ دُعائیں جو خصوصیت سے قبول ہوتی ہیں
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “تین دعائیں ہیں جو خاص طور سے قبول ہوتی ہیں ، ان کی قبولیت میں شک ہی نہیں ہے ۔ ایک اولاد کے حق میں ماں باپ کی دعا ۔ دوسرے مسافر اور پردیسی کی دعا ۔ تیسرے مظلوم کی دعا ۔” (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ) تشریح ان دعاؤں کی مقبولیت کا خاص راز بھی یہی ہے کہ یہ دعائیں اخلاص سے اور دل سے ہوتی ہیں ۔ اولاد کے لئے ماں باپ کا خلوص تو ظاہر ہے ۔ اسی طرح بےچارےپردیسی اور مظلوم کا دل شکستہ ہوتا ہے ، اور دل کی شکستگی میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کو کھینچنے کی خاص طاقت ہے ۔
وہ دُعائیں جو خصوصیت سے قبول ہوتی ہیں
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “پانچ آدمیوں کی دعائیں خاص طور پر قبول ہوتی ہیں ۔ مظلوم کی دعا جب تک وہ بدلہ نہ لے لے ۔ اور حج کرنے والے کی دعا جب تک وہ لوٹ کے اپنے گھر واپس نہ آئے اور راہِ خدا میں جہاد کرنے والے کی دعا جب تک وہ شہید ہو کے دنیا سے لاپتہ نہ ہو جائے ، اور بیمار کی دعا جب تک وہ شفایاب نہ ہو اور ایک بھائی کی دوسرے بھائی کے لئےغائبانہ دُعا ۔ یہ سب بیان فرمانے کے بعد آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا اور ان دعاؤں میں سب سے جلدی قبول ہونے والی دعا کسی بھائی کے لئے غائبانہ دعا ہے ۔ ” (دعوات کبیر للبیہقی) تشریح دُعا اگر حقیقۃً دعا ہو اور خود دعا کرنے والے کی ذات اور اس کے اعمال میں کوئی ایسی چیز نہ ہو جو قبولیت میں مانع ہوتی ہے تو دعا عموماً قبول ہی ہوتی ہے لیکن بندہ مومن کے بعض خاص احوال یا اعمال ایسے ہوتی ہیں کہ ان کی وجہ سے رحمتِ الٰہی خصوصیت سے متوجہ ہوتی ہے اور دعا کی قبولیت کا خصوصی استحقاق پیدا ہو جاتا ہے ۔ اس حدیث میں جن پانچ آدمیوں کی دعاؤں کا ذکر ہے ان میں سے مظلوم کی دعا اور غائبانہ دعا کا ذکر پہلے ہو چکا ہے اور حج اور جہاد ایسے اعمال ہیں کہ جب تک بندہ ان میں مشغول ہو وہ گویا اللہ کی بارگاہ میں ہے اور اس سے قریب تر ہے ۔ اس طرح مرد مومن کی بیماری گناہوں سے اس کی تطہیر کا ذریعہ اور قربِ الہی کی راہ میں اس کی غیرمعمولی ترقی کا وسیلہ ہوتی ہے ۔ اور بیماری کے بستر پر وہ ولایت کی منزلیں طے کرتا ہے اس لئے اس کی دعا بھی خاص طور پر قبول ہوتی ہے ۔
قبولیت دُعا کے خاص احوال و اوقات
حضرت عرباص بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “جو بندہ فرض نماز پڑھے (اور اس کے بعد دل سے دعا کرے) تو اس کی دعا قبول ہو گی ، اسی طرح جو آدمی قرآن مجید ختم کرے (اور دعا کرے) تو اس کی دعا بھی قبول ہو گی ”۔ (معجم کبیر للطبرانی) تشریح دُعا کی قبولیت میں بنیادی دخل تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ دعا کرنے والے کے تعلق اور اس کی اندرونی کیفیت کو ہوتا ہے جس کو قرآن مجید میں “اضطرار” اور “ابتہال” سے تعبیر فرمایا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ کچھ خاص احوال اور اوقات بھی ایسے ہوتے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت کی خاص طور سے امید کی جاتی ہے ۔ مندرجہ ذٰل حدیثوں میں رسول اللہ ﷺ نے ان احوال و اوقات کی خاص طور سے نشاندہی فرمائی ہے ۔ تشریح ..... نماز اور خاص کر فرض نماز میں اور قرآن پاک کی تلاوت کے وقت بندہ اللہ تعالیٰ سے قریب تر اور اس سے ہم کلام ہوتا ہے ، بشرطیکہ نماز اور تلاوت کی صرف صورت نہ ہو ، بلکہ حقیقت ہو ۔ گویا یہ دونوں عمل بندہ مومن کی معراج ہیں ۔ پس ان دونوں کے ختم پر بندہ اللہ تعالیٰ سے جو دعا کرے وہ اس کی مستحق ہے کہ رحمتِ الٰہی خود آگے بڑھ کے اس کا استقبال کرے ۔
قبولیت دُعا کے خاص احوال و اوقات
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : “اذان اور اقامت کے درمیان دعا رَد نہیں ہوتی قبول ہی ہوتی ہے ۔” (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد)
قبولیت دُعا کے خاص احوال و اوقات
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “چار موقعے ہیں جن میں دعا خصوصیت سے قبول ہوتی ہے : راہِ خدا میں جنگ کے وقت ، اور جس وقت آسمان سے بارش ہو رہی ہو (اور رحمت کا سماں ہو) اور نماز کے وقت اور جب کعبۃ اللہ نظر کے سامے ہو ۔” (معجم کبیر طبرانی)
قبولیت دُعا کے خاص احوال و اوقات
حضرت ربیعہ بن وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “تین موقعے ایسے ہیں کہ ان میں دعا کی جائے تو وہ رد نہیں ہو گی (بلکہ لازماً قبول ہی ہو گی) ایک یہ کہ کوئی آدمی ایسے جنگل بیابان میں ہو جہاں خدا کے سوا کوئی اسے دیکھنے والا نہ ہو وہاں وہ خدا کے حضور میں کھڑے ہو کر نماز پڑھے (اور پھر دعا کرے) دوسے یہ کہ کوئی شخص میدانِ جہاد میں (دشمن کی فوج کے سامنے) ہو ، اس کے ساتھی میدان چھوڑ کر بھاگ گئے ہوں ، مگر دشمنوں کے نرغہ میں ثابت قدم رہا ہو (اور اس حال میں دعا کرے) تیسرے وہ آدمی جو رات کے آخری حصہ میں (بستر چھوڑ کے) اللہ کے حضور میں کھڑا ہو (اور پھر دعا کرے تو ان بندوں کی یہ دعائیں ضرور قبول ہوں گی) ۔”
قبولیت دُعا کے خاص احوال و اوقات
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، بیان فرماتے ہیں کہ : میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ بات سنی ہے کہ : “رات میں ایک خاص وقت ہے جو مومن بندہ اس وقت میں اللہ تعالیٰ سے دنیا یا آخرت کی کوئی خیر اور بھلائی مانگے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو ضرور عطا فرما دے گا ۔ اور اس میں کسی خاص رات کی خصوصیت نہیں بلکہ اللہ کا یہ کرم ہر رات میں ہوتا ہے ،” (صحیح مسلم) تشریح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث (معارف الحدیث کی جلد سوم میں) تہجد کے بیان میں صحیحین کے حوالہ سے ذکر کی جا چکی ہے جس میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ : جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ سماء دنیا کی طرف نزول فرماتے ہیں اور خود ان کی طرف سے پکار ہوتی ہے کہ کوئی ہے مانگنے والا کہ میں اس کو عطا کروں ، کوئی ہے بخشش چاہنے والا کہ میں اس کی بخشش کا فیصلہ کروں ، کوئی ہے مجھ رات کا آخری حصہ ہے ۔ واللہ اعلم ۔ مندجہ بالا حدیثوں سے دعا کی قبولیت کے جو خاص احوال و اوقات معلوم ہوئے ہیں وہ یہ ہیں : فرض نمازوں کے بعد ، ختم قرآن کے بعد ، اذان اور اقامت کے درمیان ، میدانِ جہاد میں جنگ کے وقت ، بارانِ رحمت کے نزول کے وقت ، جس وقت کعبۃ اللہ آنکھوں کے سامنے ہو ، ایسے جنگل بیابان میں نماز پڑھ کے جہاں خدا کے سوا کوئی دیکھنے والا نہ ہو ، میدانِ جہاد میں ، جب کمزور ساتھیوں نے بھی ساتھ چھوڑ دیا ہو ، اور رات کے آخری حصے میں ۔ وہ حدیثیں اپنے موقع پر پہلے ذِکر کی جا چکی ہیں جن میں شبِ قدر میں اور عرفہ کے دن میدانِ عرفات میں اور جمعہ کی خاص ساعت میں اور روزہ کے افطار کے وقت ، اور سفرِ حج اور سفر جہاد میں اور بیماری اور مسافری کی حالت میں دعاؤں کی قبولیت کی خاص توقع دلائی گئی ہے ۔ لیکن یہ بات برابر ملحوظ رہنی چاہئے کہ دعا کا مطلب دعا کے الفاظ اور صرف اس کی صورت نہیں ہے بلکہ اس کی وہ حقیقت ہے جو پہلے ذکر کی جا چکی ہے ، پودا اسی دانے سے اگتا ہے جس میں مغز ہو ۔ اسی طرح آگے درج ہونے والی احادیث سے دعا کی قبولیت کا مطلب بھی سمجھ لینا چاہئے ۔
دعا قبول ہونے کا مطلب اور اس کی صورتیں
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “جو مومن بندہ کوئی دعا کرتا ہے جس میں کوئی گناہ کی بات نہ ہو اور نہ قطع رحمی ہو تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو تین چیزوں میں سے کوئی ایک چیز ضرور عطا ہوتی ہے : یا تو جو اس نے مانگا ہے وہی اس کو ہوہاتھ کے ہاتھ عطا فرما دیا جاتا ہے ، یا اس کی دعا کو آخرت میں اس کا ذخیرہ بنا دیا جاتا ہے یا آنے والی کوئی مصیبت اور تکلیف اس دعا کے حساب میں روک دی جاتی ہے ۔ صحابہؓ نے عرض کیا : جب بات یہ ہے (کہ ہر دعا ضرور قبول ہوتی ہے اور اس کے حساب میں کچھ نہ کچھ ضرور ملتا ہے) تو ہم بہت زیادہ دعائیں کریں گے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ کے پاس اس سے بھی زیادہ ہے ۔ (مسند احمد) تشریح بہت سے لوگ ناواقفیت سے قبولیتِ دعا کا مطلب صرف یہ سمجھتے ہیں کہ بندہ اللہ سے جو کچھ مانگے وہ اس کو مل جائے اور اگر وہ نہیں ملتا تو سمجھتے ہیں کہ دعا قبول نہیں ہوئی ۔ یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے ۔ بندے کا علم بےحد ناقص ہے ، بلکہ اپنی خلقت کے لحاظ سے وہ ظلوم و جہول ہے ۔ بہت سے بندے ہیں جن کے لئے دولتمندی نعمت ہے ، اور بہت سے ہیں جن کے لئے دولت فتنہ ہے ۔ بہت سے بندے ہیں جن کے لئے حکومت اور اقتدار قربِ خداوندی کا وسیلہ ہے ۔ اور حجاج اور ابنِ زیاد کی طرح بہت سے ہیں جن کے لئے حکومتی اقتدار خدا سے دوری اور اس کے غضب کا سبب بن جاتا ہے ۔ بندہ نہیں جانتا کہ کیا میرے لئے بہتر ہے اور کیا مریے لئے فتنہ اور زہر ہے ۔ اس لئے بسا اوقات وہ ایسی چیز اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہے جو اس کے لئے بہتر نہیں ہوتی ، یا اس کا عطا کرنا حکمتِ الہی کے خلاف ہوتا ہے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ جو حکیم و دانا ہے ، یہ بات اس کے علم و حکم کے خلاف ہے کہ ہر بندہ جا مانگے وہ اس کو ضرور عطا فرما دے ۔ دوسری طرف اس کی کریمی کا یہ تقاضا ہے کہ جب اس کا بندہ ایک محتاج اور مسکین کی طرح اس کے حضور میں ہاتھ پھیلائے اور دعا کرے تو وہ اس کو خالی ہاتھ نہ لوٹائے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کا یہ دستور ہے کہ وہ دعا کرنے والے بندے کو محروم نہیں لوٹاتا کبھی تو اس کو وہی عطا فرما دیتا ہے جو دعا میں اس نے مانگا اور کبھی اس کی دعا کے عوض آخرت کی بیش بہا نعمتوں کا فیصلہ فرما دیتا ہے اور اس طرح اس کی یہ دعا اس کے لئے ذخیرہ آخرت بن جاتی ہے ، اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اس دنیا میں اسباب و مسببات کا جو سلسلہ ہے اس کے حساب سے اس دعا کرنے والے بندے پر کئی آفت اور مصیبت نازل ہونے والی ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی اس دعا کے نتیجے میں اس آنے والی بلا اور مصیبت کو روک دیتا ہے ۔ بہرحال دعا کے قبول ہونے کا مطلب یہ ہے کہ دعا رائیگاں نہیں جاتی ، اور دعا کرنے والا محروم نہیں رہتا ۔ اللہ تعالیٰ اپنے علم و حکمت کے مطابق مذکورہ بالا صورتوں میں سے کسی نہ کسی طرح اس کو ضرور نوازتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے بڑی وضاحت کے ساتھ اس حقیقت کو بیان فرمایا ہے ۔ تشریح ..... مطلب یہ ہے کہ اللہ کا خزانہ لا انتہا اور غیر فانی ہے اگر سارے بندے ہر وقت اس سے مانگیں اور وہ ہر ایک کے لئے عطا فرمانے کا فیصلہ کرے تو اس کے خزانہ میں کوئی کمی نہیں آئے گی ۔ مستدرک حاکم میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی ایک ھدیث ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ : اللہ تعالیٰ جب اس بندے کو جس نے دنیا میں بہت سی ایسی دعائیں کی ہوں گی جو بظاہر دنیا میں قبول نہیں ہوئی ہوں گی ان دعاؤں کے حساب میں جمع شدہ ذخیرہ آخرت میں عطا فرمائیں گے تو بندے کی زبان سے نکلے گا : يَالَيْتَهُ لَمْ يُعَجَّلْ لَهُ شَيْئٌ مِنْ دِعَائِهِ. (كنز العمال : ص 57 ، جلد 2) اے کاش ! میری کوئی بھی دعا دنیا میں قبول نہ ہوئی ہوتی اور ہر دعا کا پھل مجھے یہیں ملتا ۔
رسول اللہ ﷺ کی دعائیں: تکبیرِ تحریمہ کے بعد کی بعض افتتاحی دُعائیں
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز شروع فرماتے تو پہلے تکبیر تحریمہ کہتے ، پھر اللہ تعالیٰ کے حضور میں یوں عرض کرتے : “میری نماز اور میری ہر عبادت اور میرا جینا مرنا سب اللہ کے لئے ہے جو رب العالمین ہے اس کا کوئی شریک ساجھی نہیں ، مجھے اسی کا حکم ہے اور میں سب سے پہلے اس کی فرمانبرداری کرنے والا ہوں ، اے میرے اللہ ! مجھے بہترین اعمال و اخلاق کی ہدایت فرما ، یہ ہدایت صرف تجھ ہی سے مل سکتی ہے ، اور برے اعمال و اخلاق سے مجھے بچا اور میری حفاظت فرما ، یہ حفاظت بھی تو ہی فرما سکتا ہے ۔ (سنن نسائی) تشریح دعا سے متعلق جو حدیثیں یہاں تک مذکور ہوئیں ان میں یا تو دعا کی ترغیب اور اس کی عظمت و برکات کا بیان تھا یا دعا کے آداب اور اس سے متعلق ہدایات اور موجبات قبولیت بیان فرمائے گئے تھے ۔ یہ سب مضامین گویا تمہیدی تھے ۔ اب رسول اللہ ﷺ کی وہ اصل دعائیں اور سوز و گداز سے بھری ہوئی بارگاہِ خداوندی میں آپ ﷺ کی وہ مناجاتیں پڑھئے جو آپ کے مقامِ معرفت اور قلبی کیفیات و واردات کو ممکن حد تک جاننے کا بہترین وسیلہ اور امت کے لئے آپ ﷺ کا عظیم ترین ورثہ ہیں اور جن کو پورے ذخیرہ حدیث کا بجا طور پر گل سرسبد کہا جا سکتا ہے ۔ نبوی ﷺ دعاؤں کے اس پورے ذخیرے کو تین حصوں میں تقسم کیا جا سکتا ہے ۔ ایک وہ جن کا تعلق خاص اوقات اور مخصوص حالات سے ہے مثلاً صبح نمودار ہونے کے وقت کی دعا ، شام کے وقت کی سونے کے وقت کی دعا ، نیند سے بیدار ہونے کے وقت کی دعاو ، آندھی یا بارش کے وقت کی دعا ، کسی مصیبت اور پریشانی کے وقت کی دعا وغیرہ وغیرہ ۔ ٍدوسری وہ دعائیں جو عام نوعیت کی ہیں ، کسی خاص وقت اور مخصوص حالات سے ان کا تعلق نہیں ۔ یہ دعائیں اکثر جا مع قسم کی ہیں ۔ تیسری قسم کی دعائیں وہ ہیں جو رسول اللہ ﷺ نماز میں یہا نماز سے فارغ ہو کر یعنی سلام کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور میں کیا کرتے تھے ۔ یہاں پہلے یہی تیسری قسم کی نماز والی دعائیں درج کی جا رہی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ رسول اللہ ﷺ کے اس عظیم ترین اور بیش بہا ورثہ کی شایانِ شان قدر اور اس سے فائدہ اٹھانے کی پوری توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ۔ تشریح ..... اس دعا میں شروع میں تو جیسا کہ چاہئے توحید کی شہادت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کئے حضور میں اپنی بندگی و نیاز مندی اور مخلصانہ فدویت و وفاداری کا اقرار و اظہار ہے اور آخر میں اللہ تعالیٰ سے اچھے اعمال و اخلاق کی ہدایت توفیق اور برے اعمال و اخلاق سے حفاظت اور بچاؤ کی التجا اور استدعا کی گئی ہے ، اور دراصل اسی ہدایت اور حفاظت پر انسان کی سعادت اور فلاح کا دار ومدار ہے ۔ معارف الحدیث جلد سوم میں (صفحہ .... سے ...... تک) حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ایک طویل حدیث صحیح مسلم کے حوالہ سے درج کی جا چکی ہے ، اس میں تکبیر تحریمہ کے بعد یہی افتتاحی دعا کافی اضافہ کے ساتھ مذکور ہو چکی ہے اور وہ اضافہ بڑا دلگداز ہے ۔ نیز اس میں اس افتتاحی دعا کے علاوہ رکوع اور قومہ اور سجدہ ، اور پھر جلسہ اور قعدہ اخیرہ کی خاص پرسوز دعائیں بھی ذکر کی گئی ہیں ۔ اور بلاشبہ نماز کی دعاؤں کے بار میں وہ بڑی جامع حدیث ہے ۔ اس کی تشریح میں یہ بھی ذکر کیا جا چکا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس قسم کی دعائیں زیادہ تر رات کے نوافل میں پڑھتے تھے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کی نماز کی جو دعائیں تفصیل سے ذکر کی ہیں ان میں آپ ﷺ کی نماز کی باطنی کیفیات کا عکس ممکن حد تک دیکھا جا سکتا ہے ۔ حدیث کے زیادہ طویل ہونے کی وجہ سے یہاں اس کو مکرر درج نہیں کیا جا رہا ہے ۔ ان چیزوں کا ذوق و شوق رکھنے والے حضرات اس کو معارف الحدیث جلد سوم میں پڑھ لیں ۔
تکبیرِ تحریمہ کے بعد کی بعض افتتاحی دُعائیں
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب رات کو تہجد پڑھنے کھڑے ہوتے تو یہ دعا کرتے : “اللَّهُمَّ لَكَ الحَمْدُ أَنْتَ قَيِّمُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ الخ” (اے میرے اللہ ! ساری حمد و ستائش تیرے ہی لئے ہے اور تو ہی اس کا مستحق ہے ، تو ہی قائم رکھنے والا ہے زمین و آسمان کا اور ان سب چیزوں کا جو ان میں ہیں (یعنی سارے عالم علوی اور سفلی کا وجود تیرے ہی ارادہ سے قائم ہے) مولا ! ساری حمد و ستائش کا تو ہی مستحق ہے ، تو ہی نور ہے زمین و آسمان کا اور ان سب کا جو زمین و آسمان میں ہیں (یعنی سارے عالم میں جہاں بھی نور کی کوئی کرن ہے وہ تیرے ہی نور سے ہے) اور ساری حمد و ستائش تیرے ہی لئے ہے ، تو فرمانروا ہے زمین و آسمان اور اس ساری کائنات کا جو زمین و آسمان میں ہے ، ساری حمد و ستائش تیرے ہی لئے سزاوار ہے ، تو حق ہے تیرا وعدہ حق ہے ، مرنے کے بعد تیرے حضور حاضری اور تیری ملاقات حق ہے ، اور تیرا فرمان حق ہے اور جنت حق ہے اور دوزخ حق ہے اور سارے نبی برحق ہیں اور محمد ﷺ بھی برحق ہیں اور قیامت کا آنا برحق ہے ، اے اللہ ! میں نے اپنے کو تیرے سپرد کر دیا اور میں تجھ پر ایمان لایا اور میں نے تیرا سہارا پکڑ لیا اور پورا بھروسہ تجھ پر کر لیا اور اپنا رخ تیری طرف کر دیا اور (مخالفین حق سے) تیری ہی مدد سے میری ٹکر ہے ، اور میں نے اپنا مقدمہ فیصلے کے لئے تیری ہی بارگاہ میں پیش کر دیا ہے ، پس اے میرے اللہ ! بخش دے میرے وہ سب قصور جو مجھ سے پہلے سرزد ہوئے اور جو پیچھے ہوئے اور جو میں نے پوشیدہ کئے اور جو اعلانیہ کئے اور جن کے بارے میں تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے ، تو جسے چاہے آگے بڑھانے والا ہے اور جسے چاہے پیچھے ڈال دینے والا ہے ، تیرے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں ۔ صرف تو ہی معبود برحق ہے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح یہ بھی رسول اللہ ﷺ کی ان دعاؤں میں سے ہے جن سے آپ ﷺ کے مقامِ معرفت اور آپ ﷺ کی باطنی کیفیات و واردات کا کچھ اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔
تکبیرِ تحریمہ کے بعد کی بعض افتتاحی دُعائیں
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب رات کو نمازِ تہجد کے لئے کھڑے ہوتے تو بالکل شروع میں اللہ تعالیٰ کے حضور میں عرض کرتے : “اللهُمَّ رَبَّ جَبْرَائِيلَ، وَمِيكَائِيلَ الخ” اے امیرے اللہ ! جبرائیل و میکائیل اور اسرافیل کے پروردگار ! زمین و آسمان کو پیدا کرنے والے غیب اور شہود کو یکساں جاننے والے ، تو ہی فیصلہ فرمائے گا بندوں کے درمیان ان کے اختلافات کے بارے میں ، مجھے اپنی خاص توفیق سے اس راہِ حق و ہدایت پر چلا جس کے بارے میں لوگوں میں اختلاف ہو گیا ہے ، تو ہی جسے چاہے گا سیدھے راستہ پر چلائے گا ۔ (صحیح مسلم)
رکوع و سجود کی دعائیں
حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز میں کھڑا ہو گیا ۔ جب آپ ﷺ رکوع میں گئے تو آپ ﷺ نے اتنی دیر تک رکوع کیا جتنی دیر میں سورہ بقرہ پڑھی جائے ۔ اس رکوع میں آپ ﷺ کی زبانِ مبارک پر یہ کلمات جاری تھے : «سُبْحَانَ ذِي الْجَبَرُوتِ وَالْمَلَكُوتِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْعَظَمَةِ» پاک ہے اللہ زور و قوت اور فرمانروائی والا ، اور عظمت و کبریائی والا ۔ (سنن نسائی) تشریح معارف الحدیث جلد سوم میں ذکر کیا جا چکا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا عام معمول رکوع میں “سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ” اور سجدے میں “سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى” پڑھنے کا تھا ، اور آپ ﷺ نے اسی کی تعلیم فرمائی ۔ لیکن کبھی کبھی ان کے علاوہ دوسرے تسبیح و تقدیس کے کلمات اور دوسری دعائیں بھی آپ ﷺ رکوع و سجود میں کرتے تھے ۔ اس سلسلہ کی متعدد اھادیث وہاں ذکر کی جا چکی ہیں ۔ نیز یہ بھی وہاں ذکر کیا جا چکا ہے کہ آپ ﷺ نفل نماز میں خاص کر رات کے نوافل میں کبھی کبھی طویل رکوع و سجود بھی کرتے تھے ۔ یہ نماز جس میں عوف بن مالکؓ حضور ﷺ کے شریک ہو گئے اور جس میں آپ ﷺ نے بقدر سورہ بقرہ کے طویل رکوع کیا یہ نفلی نماز تھی ۔ اللہ تعالیٰ ہم امتیوں کو کوئی ذرہ اس کیفیت کا نصیب فرمائے جو اس رکوع میں آپ ﷺ کے قلبِ مبارک پر طاری رہی ہو گی ۔
رکوع و سجود کی دعائیں
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک رات کو (میری آنکھ کھلی تو) میں نے رسول اللہ ﷺ کو بستر پر نہ پایا ، پس میں (اندھیرے میں) آپ ﷺ کو ٹٹولنے لگی تو میرا ہاتھ آپ کے پاؤں کے تلوؤں پر پڑا ، اس وقت آپ ﷺ سجدے میں تھے اور آپ ﷺ کے دونوں پاؤں کھڑے تھے (جیسے کہ سجدے کی حالت میں ہوتے ہیں) اور آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے حضور میں عرض کر رہے تھے : “اللهُمَّ أَعُوذُ بِرِضَاكَ الخ” (اے میرے اللہ ! میں تیری ناراضگی سے تیری رضامندی کی پناہ لیتا ہوں ، اور تیری سزا سے تیری معافی کی پناہ لیتا ہوں اور تیری پکڑ سے تیری پناہ لیتا ہوں ، میں تیری ثنا و صفت پوری طرح بیا نہیں کر سکتا (بس یہی کہہ سکتا ہوں کہ) تو ویسا ہی ہے جیسا کہ تو نے اپنی ذاتِ اقدس کے بارے میں بتلایا ہے ۔ (صحیح مسلم)
رکوع و سجود کی دعائیں
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے سجدے میں (کبھی کبھی) یہ دعا بھی کرتے تھے : “اللهُمَّ اغْفِرْ لِي ذَنْبِي كُلَّهُ الخ” (اے میرے اللہ ! میرے سارے گناہ بخش دے ، چھوٹے بھی ، بڑے بھی ، پہلے بھی ، پچھلے بھی ، کھلے بھی اور ڈھکے چھپے بھی) ۔ (صحیح مسلم) تشریح حضرت ابو ہریرہؓ اور حضرت عائشہؓ کی یہ دونوں حدیثیں معارف الحدیث جلد سوم میں بھی ذکر کی جا چکی ہیں ۔
قعدہ اخیرہ کی بعض دعائیں
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نما زمیں یہ دعا بھی کرتے تھے : “اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ الخ” (اے اللہ ! میں تیری پناہ لیتا ہوں قبر کے عذاب سے اور دجال کے فتنہ سے اور زندگی اور موت کے سارے فتنوں سے اور گناہ کے ہر کام سے اور قرضہ کے بار سے) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح صحیح مسلم میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کے ساتھ متصلاً حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : قعدہ اخیرہ میں تشہد کے بعد عذابِ نار ، عذابِ قبر ، فتنہ دجال اور زندگی اور موت کے سارے فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہئے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے یہ بات متعین ہو گئی کہ یہ دعا آخری قعدہ میں سلام سے پہلے کی جائے ۔ حضرت ابو ہریرہ کی یہ حدیث صحیح مسلم ہی کے حوالہ سے معارف جلد سوم میں ذکر کی جا چکی ہے ۔
قعدہ اخیرہ کی بعض دعائیں
حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز میں اللہ تعالیٰ کے حضور میں یوں عرض کرتے تھے : “اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الثَّبَاتَ فِي الْأَمْرِ الخ” (اے میرے اللہ ! میں تجھ سے مانگتا ہوں دین مین ثابت قدمی اور حق و ہدایت پر استواری و مضبوطی اور تجھ سے سوال کرتا ہوں تیری نعمتوں کی شکر گزاری کا اور اچھی طرح تیری عبادت گزاری کا ، اور مانگتا ہوں تجھ سے وہ دل جس میں روگ نہ ہو اور وہ زبان جو صداقت شعار ہو ، اور تجھ سے سائل ہوں اس خیر اور بھلائی کا جو تیرے علم میں ہے ، اور پناہ چاہتا ہوں اس شر اور برائی سے جس کا تجھے علم ہے ، اور معافی اور مغفرت مانگتا ہوں ان گناہوں کے لئے جو تجھے معلوم ہیں ۔ (سنن نسائی)
قعدہ اخیرہ کی بعض دعائیں
قیس بن عباد (تابعی) سے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کے جلیل القدر صحابی حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے کچھ ہلکی اور مختصر نماز پڑھائی تو لوگوں نے اس پر کچھ چہ میگوئیاں کیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : “کیا بات ہے ؟ کیا میں نے رکوع اور سجدے (اور دوسرے ارکان) پوری طرح ادا نہیں کئے ؟” لوگوں نے کہا : “یہ بات تو نہیں ، لیکن ہم نے محسوس یہی کیا کہ آپ نے (اس وقت) بہت ہلکی نماز پڑھی ۔” حضرت عمارؓ نے فرمایا : “میں نے تو رکوع و سجود اور دوسرے ارکان پوری طرح ادا کرنے کے علاوہ نماز میں (اچھی خاصی طویل) وہ خاص دعا بھی کی تھی جو رسول اللہ ﷺ کبھی کبھی کیا کرتے تھے (اور وہ یہ ہے): “اللَّهُمَّ بِعِلْمِكَ الْغَيْبَ، وَقُدْرَتِكَ عَلَى الْخَلْقِ الخ” (اے میرے اللہ ! تو عالم الغیب ہے ، اور تجھے اپنی مخلوق پر پوری قدرت حاصل ہے ۔ تو اپنے اس علم غیب اور اس قدرت مطلقہ سے مجھے اس وقت تک دنیا میں رکھ جب تک تیرے علم میں میری زندگی میرے لئے باعث خیر ہو اور مجھے اس وقت دنیا سے اٹھا لے جب اٹھایا جانا میرے لئے بہتر ہو ۔ اے اللہ ! میں تجھ سے مانگتا ہوں تیرا خوف اور تیری خشیت خلوت میں اور جلوت میں ، اور مانگتا ہوں تجھ سے بےلاگ اور خدا لگتی مخلصانہ بات کرنے کی توفیق رضامندی کی حالت میں اور سخت ناراضی کی حالت میں (یعنی مجھے توفیق دے کہ کسی کی رضامندی یا ناراضی کی وجہ سے حق و انصاف کے خلاف کوئی بات نہ کہوں) اور اے اللہ ! میں تجھ سے مانگتا ہوں میانہ روی ، تنگدستی میں اور خوش حالی میں اور میں سائل ہوں رضا بالقضا کی صفت کا ، اور سوال کرتا ہوں تجھ سے آخرت کے جاودانی عیش و آرام کا اور آنکھووں کی اس ٹھنڈک کا جو کبھی منقطع نہ ہو ، اور تجھ سے مانگتا ہوں مرنے کے بعد ٹھنڈی اور چین و سکون کی زندگی اور تیرے دیدار کی لذت اور تیری ملاقات کا اشتیاق ، بغیر اس کے کہ کوئی ضرر رساں کیفیت پیدا ہو ، اور بغیر اس کے کہ کسی گمراہ کن فتنہ میں ابتلا ہو ۔ اے میرے اللہ ! ہم کو ایمان کی زینت سے آراستہ فرما اور ہمیں ہدایت یافتہ اور دوسرے کے لئے ذریعہ ہدایت بنا ۔ (سنن نسائی) تشریح حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی اس حدیث اور اس سے پہلے والی حدیث میں صراحت کے ساتھ یہ مذکور نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعائیں نماز میں کس موقع پر کرتے تھے لیکن دوسری حدیثوں کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے کہ آپ ﷺ یہ دعائیں نماز کے آخری قعدہ میں سلام سے پہلے کرتے تھے ، نماز میں اس قسم کی دعاؤں کا خاص موقع و محل یہی ہے ۔ اس موقع کے لئے رسول اللہ ﷺ نے حضرت صدیق اکبرؓ کی درخواست پر جو دعا ان کو تعلیم فرمائی تھی : “اللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا الخ” وہ معارف الحدیث کی جلد سوم میں ذکر کی جا چکی ہے اور اسی کی تشریح میں وہ دلائل اور قرائن لکھے جا چکے ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان دعاؤں کا موقع اور محل تشہد کے بعد اور سلام سے پہلے ہے ۔
قعدہ اخیرہ کی بعض دعائیں
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہم کو تشہد کے بعد یہ دعا سکھایا کرتے تھے : “أَلِّفْ اللَّهُمَّ عَلَى الْخَيْرِ بَيْنَ قُلُوبِنَا الخ” (اے اللہ ! خیر اور بھلائی پر ہمارے دلوں کو جوڑ دے اور ہمارے باہمی تعلقات کو درست کر دے اور ہمیں سلامتی کی راہوں پر چلا اور ہمیں اندھیروں سے نکال کے روشنی کی فضا میں لا اور ظاہر و باطن کی ساری گندگیوں سے ہمیں بچا اور دور رکھ ۔ اور ہمارے کانوں ، ہماری آنکھوں اور ہماری بیویوں اور ہماری نسل میں برکت دے اور ہم پر عنایت فرما ، تو بڑا عنایت فرما اور مہربان ہے ، اور ہمیں تو اپنی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والا اور شایانِ شان طریقے پر ان کا استقبال کرنے والا بنا اور نعمتوں کا ہم پر اتمام فرمای ، یعنی اپنی نعمتیں بھرپور عطا فرما ۔ (سنن ابی داؤد)
نماز کے بعد کی دعائیں
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہر نماز کے بعد کرتے تھے : “اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَرَبَّ كُلِّ شَيْءٍ الخ” (اے میرے اللہ ! اے ہمارے پروردگار ! اور ہر چیز کے پروردگار ! میں گواہی دیتا ہوں کہ صرف تو ہی اکیلا تو مالک اور پروردگار ہے ، تیرا کوئی شریک ساجھی نہیں ۔ اے میرے اللہ ! اے ہمارے پروردگار ! اور ہر چیز کے پروردگار ! میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ تیرا بندہ اور تیرا رسول ہے ۔ اے میرے اللہ ! اے میرے پروردگار ! اور ہر چیز کے پروردگار ! میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سارے بندے (بندگی کے رشتے سے) بھائی بھائی ہیں ۔ اے میرے اللہ ! اے ہمارے پروردگار ! اور ہر چیز کے پروردگار ! مجھے اور میرے گھر والوں کو ہمیشہ کے لئے دنیا اور آخرت کی ایک ایک ساعت کے لئے اپنا مخلص اور وفادار بندہ بنا لے ۔ اے ذو الجلال والاکرام میری التجا سن لے ، میری دعا قبول فرما لے ، اللہ ہی سب سے بڑا ہے ، وہی بزرگ و برتر ہے ، اللہ زمین و آسما کا نور ہے (سارا جہان اسی کے نور سے قائم ہے اور منور ہے) اللہ ہی سب سے بڑا ہے وہی بزرگ و برتر ہے ، میرا اللہ کافی ہے اور وہ بہت اچھا میرا سہارا اور بھروسا ہے ۔ اللہ ہی سب سے بڑا ہے ، وہی بزرگ و برتر ہے) ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح دعائیں دو قسم کی ہوتی ہیں : ایک وہ جن میں اللہ تعالیٰ سے دنیا یا آخرت کی کوئی چیز طلب کی جائے ، یا کسی شر اور بلا سے اس کی پناہ مانگی جائے ۔ اور دوسری وہ جن میں بندہ اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی اور اس کے جلال و جبروت اور بے نہایت احسانات کو یاد کر کے اس کے حضور میں اپنی بندگی و نیازمندی اور مخلصانہ وفاداری و ممنونیت کا مظاہرہ کرے اور اس طرح اس کی رحمت و عنایت اور اس کا قرب چاہے ۔ نماز کے بعد کی حضور ﷺ کی یہ دعا جو حضرت زید بن ارقمؓ کی روایت سے یہاں مذکور ہوئی اسی دوسری قسم کی ہے ۔ اس سے پہلے جو دعائیں درج ہو چکی ہیں ان میں سے اکثر میں بھی یہی عنصر غالب ہے ۔
نماز کے بعد کی دعائیں
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم جب رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھتے تھے تو ہم یہ چاہا کرتے تھے کہ آپ ﷺ کے داہنی جانت کھڑے ہوں آپ ﷺ (نماز سے فارغ ہونے کے بعد ہماری طرف رخ فرماتے تھے تو میں نے سنا آپ ﷺ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کر رہے تھے : “رَبِّ قِنِي عَذَابَكَ يَوْمَ تَبْعَثُ عِبَادَكَ” (اے پروردگار ! مجھے اپنے عذاب سے بچا اس دن جس دن کہ تو بندوں کو اٹھائے اور دوبارہ ان کو زندہ کرے) ۔ (صحیح مسلم) تشریح حضرت براءؓ کی اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز کے بعد داہنی جانب رخ کر کے بیٹھتے تھے ۔ اور حضرت سمرہ بن جندبؓ کی ایک روایت سے جس کو امام بخاریؒ نے بھی روایت کیا ہے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ سلام کے بعد مقتدیوں کی جانب رخ کر کے بیٹھتے تھے ۔ ان دونوں باتوں میں کوئی تضاد نہیں ہے ۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ آپ ﷺ مقتدیوں کی طرف رخ کر کے اس طرح بیٹھتے تھے کہ کسی قدر داہنی جانب کو بھی آپ ﷺ کا رخ ہوتا تھا ، اس بناء پر یہ دونوں بیان بجائے خود صحی ہیں ۔ واللہ اعلم ۔
نماز کے بعد کی دعائیں
حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہر نماز کے بعد دعا کرتے تھے : “اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْكُفْرِ، وَالْفَقْرِ، وَعَذَابِ الْقَبْرِ” (اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں کفر سے ، اور فقر و فاقہ سے اور قبر کے عذاب سے) ۔ (جامع ترمذی)
نماز کے بعد کی دعائیں
حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز کا سلام پھیرنے کے بعد یہ دعا کرتے تھے : “اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ الخ” (اے اللہ ! میرے سارے گناہ معاف فرما دے جو میں نے پہلے جئے اور جو بعد میں کئے اور جو چھپا کے کئے اور جو اعلانیہ کئے اور جو بھی میں نے یادتی کی ، اور وہ گناہ بھی معاف فرما دے جن کا تجھ کو مجھ سے زیادہ علم ہے ، تو آگے بڑھانے والا ہے اور تو ہی پیچھے کرنے والا ہے ، تیرے سوا کوئی مالک و معبود نہیں) ۔ (سنن ابی داؤد)
نماز کے بعد کی دعائیں
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز فجر کے بعد (کبھی کبھی) یہ دعا کرتے تھے : “اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا، وَعَمَلًا مُتَقَبَّلًا، وَرِزْقًا طَيِّبًا” (اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اس علم کا جو نفع مند ہو ، اور ایسے اعمال کا جو تیری نگاہ میں قابل قبول ہوں ، اور تجھ سے سائل ہوں حلال طیب روزی کا ۔) (جامع زرین)
نماز کے بعد کی دعائیں
حضرت مسلم بن الحارث رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو خصوصیت کے ساتھ تلقین فرمائی کہ جب تم مغرب کی نماز ختم کرو تو کسی آدمی سے بات کرنے سے پہلے سات دفعہ یہ دعا کرو : “اللَّهُمَّ أَجِرْنِي مِنَ النَّارِ” (اے اللہ ! مجھے دوزخ سے پناہ دے) تم نے مغرب کے بعد اگر یہ دعا کی اور اسی رات میں تم کو موت آ گئی تو دوزخ سے تمہارے بچاؤ کا فیصلہ کر دیا جائے گا ، اور اسی طرح جب تم صبح کی نماز پڑھو تو کسی آدمی سے بات کرنے سے پہلے سات دفعہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں عرض کرو: “اللَّهُمَّ أَجِرْنِي مِنَ النَّارِ” (اے اللہ ! مجھے دوزخ سے پناہ دے) اگر اس دن تمہاری موت مقدر ہو گی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم کو دوزخ سے بچانے کا حکم ہو گا ۔ (سنن ابی داؤد)
نماز کے بعد کی دعائیں
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑ کے فرمایا : “اے معاذ ! مجھے تجھ سے محبت ہے ، میں تجھے وصیت کرتا ہوں کہ ہر نماز کے بعد یہ دعا ضرور کیا کر : “اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ، وَشُكْرِكَ، وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ” (اے اللہ ! میری مدد فرما اور مجھے توفیق دے اپنے ذکر کی ، اپنے شکر کی اور اپنی اچھی عبادت کی) ” (سنن ابی داؤد ، سنن نسائی) تشریح نہایت مختصر ہونے کے باوجود یہ بڑی عظیم اور اہم دعا ہے ۔ اس کی عظمت اور اہمیت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل کو اپنی محبت کا واسطہ دے کر تاکید کے ساتھ اس کی وصیت اور تلقین فرمائی ۔ اسی طرح اس سے پہلی حدیث کی دعا “اللَّهُمَّ أَجِرْنِي مِنَ النَّارِ” کی تلقین بھی آپ ﷺ نے مسلم بن الحارثؓ کو خصوصیت اور اہتمام سے فرمائی تھی اور وہ بھی نہایت مختصر ہے ۔ اس غیر معمولی اہتمام کے ساتھ حضور ﷺ کی تعلیم و تلقین کے بعد ان دعاؤں کا اہتمام نہ کرنا بڑی ناقدری اور کم نصیبی کی بات ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے ۔
ختم تہجد پر آپ ﷺ کی ایک نہایت جامع دعا
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک رات نمازِ تہجد سے فارغ ہوئے تو میں نے آپ ﷺ کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا : “اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ رَحْمَةً مِنْ عِنْدِكَ تَهْدِي بِهَا قَلْبِي الخ” (اے اللہ !میں تجھ سے دعا اور التجا کرتا ہوں تو محض اپنے فضل و کرم سے مجھ پر ایسی وسیع اور ہمہ گیر رحمت فرما جس سے میرا قلب تیری ہدایت سے بہرہ یاب ہو اور اپنے سارے معاملات میں مجھے تیری اس رحمت سے جمیعت نصیب ہو اور میری ظاہری و باطنی پراگندگی اور ابتری دور ہو اور مجھ سے تعلق رکھنے والی جو چیزیں میرے پاس نہیں دور اور غائب ہیں تیری رحمت سے ان کو صلاح و فلاح حاصل ہو اور جو میرے پاس حاضر و موجود ہیں ان کو تیری رحمت سے رفعت اور قدر افزائی نصیب ہو اور خود میرے اعمال کا تیری اس رحمت سے تزکیہ ہو اور تیری طرف سے میرے قلب میں وہی ڈالا جائے جو میرے لئے صحیح اور مناسب ہو اور جس چیز سے مجھے رغبت اور الفت ہو وہ مجھے تیری اس رحمت سے عطا ہو اور ہر برائی سے تو میری حفاظت فرما ۔ اے میرے اللہ ! میرے دل کو وہ یقین عطا فرما جس کے بعد کسی درجہ کا بھی کفر نہ ہو (یعنی کوئی بات بھی مجھ سے ایمان کے خلاف سرزد نہ ہو) اور مجھے اپنی اس رحمت سے نواز جس کے طفیل دنیا اور آخرت میں مجھے عزت و شرف کا مقام حاصل ہو ۔ اے اللہ ! میں تجھ سے التجا کرتا ہوں قضا و قدر کے فیصلوں میں کامیابی کی اور تجھ سے مانگتا ہوں تیرے شہید بندوں والا اعزاز ، اور تیرے نیک بخت بندوں والی زندگی اور دشمنوں کے مقابلے میں تیری حمایت اور مدد ۔ اے اللہ ! میں تیری بارگاہ میں اپنی حاجتیں لے کر حاضر ہوا ہوں ، اگرچہ میری عقل و رائے کوتاہ اور میرا عمل اور جدو جہد ضعیف ہے ۔ اے رحیم و کریم ! میں تیری رحمت کا محتاج ہوں پس اے سارے اُمور کا فیصلہ فرمانے والے اور قلوب کے روگ دور کر کے ان کو شفا بخشنے والے مالک و مولا ! جس طرح تو نے اپنی قدرتِ کاملہ سے (ایک سارھ بہنے والے) سمندروں کو ایک دوسرے سے جدا رکھتا ہے (کہ کھاری شیریں سے الگ رہتا ہے اور شیریں کھاری سے) اسی طرح تو مجھے آتش دوزخ سے اور اس عذاب سے جدا اور دور رکھ جس کو دیکھ کے آدمی موت کی دعا مانگے گا ۔ اور اسی طرح مجھے عذابِ قبر سے بچا ۔ اے میرے اللہ ! تو نے جس خیر اور نعمت کا اپنے بندے کے لئے وعدہ فرمایا ہو ، یا جو چیز اور نعمت تو کسی کو بغیر وعدے کے عطا فرمانے والا ہوا اور میری عقل و رائے اس کے شعور اور اس کی طلب سے قاصر رہی ہو اور میری نیت بھی اس تک نہ پہنچتی ہو اور میں نے تجھ سے اس کی استدعا بھی نہ کی ہو تو اے میرے اللہ ! تیری رحمت سے میں اس کی بھی تجھ سے التجا کرتا ہوں ، اور تیرے کرم کے بھروسے اس کا طالب اور شائق ہوں ، تو اپنے رحم و کرم سے وہ خیر و نعمت بھی مجھے عطا فرما ۔ اے میرے وہ اللہ ! جس کا رشتہ مضبوط و محکم ہے اور جس کا ہر حکم اور کام صحیح اور درست ہے ، میں تجھ سے استدعا کرتا ہوں کہ “یوم الوعید” یعنی قیامت کے دن مجھے امن و چین عطا فرما ، اور “یوم الخلود” یعنی آخرت میں میرے لئے جنت کا فیصلہ فرما اپنے ان بندوں کے ساتھ جو تیرے مقرب اور تیری بارگاہ کے حاضر باش ہیں اور رکوع و سجود یعنی نماز و عبادت میں مشغور رہنا جن کا وظیفہ حیات ہے اور وفائے عہد جن کی خاص صفت ہے ۔ اے میرے اللہ ! تو بڑا مہربان اور بڑی عنایت و محبت فرمانے والا ہے اور “فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ” تیری شان ہے ۔ اے اللہ ! ہمیں ایسا کر دے کہ ہم دوسروں کے لئے ہدایت کا ذریعہ بنیں ، اور خود ہدایت یاب ہوں ۔ نہ خود گم کردہ راہ ہوں اور نہ دوسروں کے لئے گمراہ کن ۔ تیرے دوستوں سے ہماری صلح ہو ، تیرے دشمنوں کے ہم دشمن ہوں ، جو کوئی تجھ سے محبت رکھے ہم تیری اس محبت کی وجہ سے اس سے محبت کریں اور جو تیرے خلاف چلے اور عداوت کی راہ اختیار کرے ، تیری عداوت کی وجہ سے ہم بھی اس سے عداوت اور بغض رکھیں ۔ اے اللہ ! یہ میری دعا ہے ، اور قبول فرمانا تیرے ذمہ ہے ، اور یہ میری حقیر کوشش ہے ، اور اعتماد و بھروسہ اپنی کوشش اور دعا پر نہیں بلکہ صرف تیرے کرم پر ہے ۔ اے اللہ ! میرے قلب میں نور پیدا فرما ، اور میری قبر کو نورانی کر دے ، اور منور کر دے میرے آگے اور میرے پیچھے اور میرے دائیں اور میرے بائیں اور میرے اوپر اور میرے نیچے (یعنی میرے ہر طرف تیرا نور ہی نور ہو) اور اے اللہ ! میرے نور کو بڑھا اور مجھے نور عطا فرما ، اور نور کو میرا اور میرے ساتھ کر دے ۔ پاک ہے وہ پروردگار جس نے عزت و جلال کی چادر اوڑھ لی ہے اور مجد و کرم اس کا لباس و شعار ہے ، پاک ہے وہ رب قدوس جس کے سوا کسی کو تسبیح سزاوار نہیں ، پاک ہے بندوں پر فضل و انعام فرمانے والا ، پاک ہے جس کی خاص صفت عظمت و کرم ہے ، پاک ہے رب ذوالجلال والاکرام ۔ (جامع ترمذی) تشریح سبحان اللہ ! کتنی بلند اور کس قدر جامع ہے یہ دُعا ، تنہا اسی ای دعا سے (اور اس سے پہلے جو دعائیں درج ہوئیں ان سے بھی) اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کے شُنُنون و صفات کی کتنی معرفت حاصل تھی ، اور عبدیت جو بندے کا سب سے بڑا کمال ہے اس میں آپ ﷺ کا کیا مقام تھا ، اور سید العالمین ﷺ اور محبوب رب العالمین ﷺ ہونے کے باوجود اپنے کو آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے کرم کا کتنا محتاج سمجھتے تھے ، اور بندگی و نیاز مندی کی کس فقیرانہ شان کے ساتھ اس سے اپنی حاجتیں مانگتے تھے ، نیز یہ بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ دعا کے وقت آپ ﷺ کے قلب مبارک کی کیا کیفیت ہوتی تھی ، اور اللہ تعالیٰ نے انسانی حاجتوں کا کتنا تفصیلی اور عمیق احساس آپ ﷺ کو عطا فرمایا تھا ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ جیسے رؤف اور رحیم و کریم ہیں اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ان دعاؤں کے ایک ایک فقرے پر اللہ تعالیٰ کے دریارئے رحمت میں کیسا تلاطم اور دعا مانگنے والے پر کتنا پیار آتا ہو گا ۔ پہلے لکھا جا چکا ہے کہ حضور ﷺ کی دعائیں امت کے لئے آپ کا عظیم ترین ورثہ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اس ورثہ کی قدر و قیمت سمجھیں اور اس سے پورا حصہ لینے کی کوشش کریں ۔
مختلف اوقات و احوال کی دعائیں: صبح و شام کی دعائیں
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ : “مجھے ذکر و دعا کے وہ کلمے تعلیم فرما دیجئے جن کو میں صبح و شام کہہ لیا کروں” ، آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کرو ۔ “اللَّهُمَّ فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ تا شَرِّ الشَّيْطَانِ وَشِرْكِهِ” (اے زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے ، غیب و شہود کا پورا علم رکھنے والے ، ہر چیز کے مالک و پروردگار ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی قابلِ پرستش نہیں ، میں تیری پناہ چاہتا ہوں ، اپنے نفس کے شر سے اور شیطان کے شر سے اور اس کے شرک سے (یعنی اس بات سے کہ مجھے شرک میں مبتلا کرے دے ۔) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “اے ابو بکر ! تم اللہ سے یہ دعا کیا کرو صبح کو اور شام کو اور سونے کے لئے بست پر لیٹتے وقت ۔”) ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی) تشریح مختلف اوقات و احوال کی دعائیں اب تک جو دعائیں مذکور ہوئیں وہ سب نماز کے اندر کی یا نماز کے بعد کی تھیں ، اور نماز چونکہ اپنی روح و حقیقت کے لحاظ سے خود دعا و مناجات بلکہ اس کی مکمل ترین صورت ہے ، اور اس کا موضوع ہی اللہ تعالیٰ کے حضور میں اظہارِ عجز و نیاز اور دعاو و سوال ہے ، اس لئے اس میں اس طرح کی دعائیں کامل معرفت اور کمالِ عبدیت کی علامت ہونے کے باوجود کوئی عجوبہ نہیں ۔ لیکن جو دعائیں رسول اللہ ﷺ نے دوسرے اوقات خاص کر کھانے پینے ، سونے جاگنے اور دوسرے بشری و حیوانی تقاضوں والے اعمال و اشغال کے اوقات کے لئے تعلیم فرمائی ہیں جن کے ذریعہ یہ اعمال و اشغال بھی سراسر روحانی و نورانی اور اللہ تعالیٰ کے تقریب کا وسیلہ بن جاتے ہیں ، وہ رسول اللہ ﷺ کی ہدایت و تعلیم کا خاص الخاص معجزہ ہے ذیل میں انہی دعاؤں کا سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے ۔ صبح و شام کی دعائیں ہر آدمی کے لئے رات کے بعد صبح ہوتی ہے اور دن ختم ہونے پر شام آتی ہے ، گویا ہر صبح اور ہر شام زندگی کی ایک منزل طے ہو کر اگلی منزل شروع ہو جاتی ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ارشادات اور اپنے عملی نمونہ سے امت کو ہدایت فرمائی کہ وہ ہر صبح و شام اللہ کے ساتھ اپنے تعلق کو تازہ و مستحکم کرے ، اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرے ، اپنے قصورون کے اعتراف کے ساتھ معافی مانگے ، اور سائل و بھکاری بن کر رب کریم سے مناسب وقت دعائیں کرے ۔
صبح و شام کی دعائیں
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے اصحاب کو تلقین فرماتے تھے کہ جب رات ختم ہو کر تمہاری صبح ہو تو اللہ تعالیٰ کے حضور میں عرض کیا کرو : “اللَّهُمَّ بِكَ أَصْبَحْنَا، وَبِكَ أَمْسَيْنَا تا وَإِلَيْكَ النُّشُورُ” (اے اللہ ! تیرے ہی حکم سے ہماری صبح ہوتی ہے ، اور تیرے ہی حکم سے ہماری شام ، تیرے ہی فیصلہ سے ہم زندہ ہیں ،ا ور رتیرے ہی حکم سے ہم وقت آ جانے پر مریں گے ، اور پھر تیری ہی طرف لوٹ کر جائیں گے) اسی طرح جب شام ہو تو عرض کرو : “اللَّهُمَّ بِكَ أَصْبَحْنَا، وَبِكَ أَمْسَيْنَا تا وَإِلَيْكَ النُّشُورُ” (اے اللہ ! تیرے ہی حکم سے ہماری شام ہوتی ہے ، اور تیرے ہی حکم سے ہماری صبح ، تیرے ہی فیصلہ سے ہم زندہ ہیں ،ا ور رتیرے ہی فیصلہ سے مریں گے ، اور پھر اُٹھ کر تیرے ہی حضور حاضر ہوں گے) ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد) تشریح رات کے اندھیرے کے بعد صبح کے اجالے کا نمودار ہونا اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے ۔ انسان عموماً دن ہی میں اپنے سارے کام کاج کرتے ہیں ، اگر رات کے بعد صبح نہ ہو تو گویا قیامت ہو جائے ۔ اسی طرح دن کے ختم پر شام کا آنا اور رات کا شروع ہونا بھی بڑی نعمت ہے ، شام آ کر کاموں سے چھٹی دلاتی ہے اور آرام و راحت کا پیام لاتی ہے ، اگر ایک دن شام نہ آئے ، تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ عام انسانون پر کیا گزر جائے ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں ہدایت فرمائی ہے کہ جب صبح یا شام ہو تو اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کا احساس و اعتراف کیا جائے ۔ اسی کے ساتھ اس کو بھی یاد کیا جائے کہ جس طرح اللہ کے حکم سے دن کی عمر ختم ہو کر رات آتی ہے اور رات کی عمر ختم ہو کر دن نکلتا ہے ۔ اسی طرح اس کے حکم سے ہماری زندگی چل رہی ہے ، اور اس کے حکم سے مقررہ وقت پر موت آ جائے گی اور پھر اللہ کے حضور میں پیشی ہو گی ۔ الغرض روزانہ صبح و شام اللہ کی نعمت کا اعتراف اور موت اور آخرت کو یاد کیا جائے ۔ نہ صبح کو اس سے غفلت ہو نہ شام کو ۔
صبح و شام کی دعائیں
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب شام ہوتی تو رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کے حضور میں عرض کرتے : “أَمْسَيْنَا وَأَمْسَى الْمُلْكُ لِلَّهِ الخ” (یہ شام اس حال میں ہو رہی ہے کہ ہم اور ساری کائنات اللہ ہی کے ہیں ۔ ساری حمد و ستائش اسی اللہ کے لئے ہے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، اس کا کوئی شریک ساجھی نہیں ، راج اور ملک اسی کا ہے ، وہی لائق حمد و ثنا ہے ، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ اے اللہ ! یہ آنے والی رات اور جو کچھ اس رات میں ہونے والا ہے میں اس کے خیر کا تجھ سے سائل ہوں ، اور اس کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں ۔ پروردگار ! تیری پناہ سستی اور کاہلی سے (جو اُمورِ خیر سے محرومی کا سبب بنتی ہے) تیری پناہ بالکلک نکما کر دینے والے بڑھاپے سے ، اور کبر سنی سے بُرے اثرات سے ، تیری پناہ دُنیا کے ہر فتنہ سے (اور یہاں کی ہر آزمائش سے) تیری پناہ قبر کے عذاب سے ۔ اور جب صبح ہوتی ہے تو رسول اللہ ﷺ بس ایک لفظ کی تبدیلی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور میں یوں عرض کرتے : “وَأَصْبَحَ الْمُلْكُ لِلَّهِ الخ” (ہماری صبح اس حال میں ہو رہی ہے کہ ہم اور یہ ساری کائنات اللہ ہی کے ہیں الخ ۔) ۔ (صحیح مسلم) تشریح اس دعا میں اپنی ذات اور ساری کائنات کے اوپر اللہ تعالیٰ کی ملکیت کا اقرار اور اس کی حمد و ثنا کے ساتھ اس کی توحید کا اعلان ہے ۔ پھر رات یا دن میں جو خیر اور برکتیں ہوں ان کا سوال ہے ، اور جو کمزوریاں خیر و سعادت سے محرورمی کا سبب بن جاتی ہیں ان سے پناہ طلبی ہے ۔ اور آخر میں دنیا کے ہر فتنہ اور عذابِ قبر سے پناہ مانگی گئی ہے ۔ سبحان اللہ ! کیسی جامع دُعا ہے اور اس میں اپنی بندگی اور نیاز مندی کا کیسا اظہار ہے ۔
صبح و شام کی دعائیں
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب شام یا صبح ہوتی تو رسول اللہ ﷺ یہ دعا ضرور کرتے تھے : “اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ الخ” (اے اللہ ! میں تجھ سے دنیا اور آخرت میں معافی اور عافیت کا طالب و سائل ہوں ۔ اے میرے اللہ ! میں اپنے دین اور دنیا اور اپنے اہل و عیال اور مال کے بارے میں معافی اور عافیت کا طلب گار ہوں ۔ اے اللہ ! میری شرم و عار والی باتوں کی پردہ داری فرما ۔ میرے دل کی گھبراہٹ اور تشویشات دور فرما کر مجھے امن و اطمینان نصیب فرما ۔ اے اللہ ! میری حفاظت فرما میرے آگے سے اور پیچھے سے اور میرے دائیں بائیں اور میری اوپر کی جانب سے اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں ۔ اس بات سے کہ نیچے کی جانب سے مجھ پر کوئی آفت آئے ، مجھے ہمیشہ اس سے محفوظ رکھ ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح رسول اللہ ﷺ کی صبح شام کی دعاؤں میں یہ دعا بھی بڑی جامع ہے ، انسانی ضرورت کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جو ان چند الفاظ میں نہ آ گیا ہو ۔ اللہ تعالیٰ قدر شناسی عطا فرمائے اور عمل کی توفیق دے ۔
صبح و شام کی دعائیں
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو مسلمان بندہ صبح اور شام تین دفعہ کہے : “رَضِيتُ بِاللَّهِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا” (میں راضی ہوں اللہ کو اپنا مالک و پروردگار مان کر اور اسلام کو اپنا دین بنا کر اور محمدﷺ کو نبی مان کر) تو اللہ نے اس بندے کے لئے اپنے ذمہ کر لیا ہے کہ قیامت کے دن اس کو ضرور خوش کر دے گا ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی) تشریح سبحان اللہ! کتنی عظیم بشارت ہے کہ جو مومن و مسلم بندہ اس مختصر کلمہ کو صبح شام تین تین دفعہ کہہ کے اللہ و رسول ﷺ اور ان کے دین کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو تازہ اور مستحکم کرے اس کے لئے اللہ تعالیٰ کا حتمی فیصلہ ہے کہ میں قیامت کے دن اس کو راضی اور خوش کر دوں گا ۔ اس بشارت کے معلوم ہو جانے کے بعد اس دولت کو حاصل کرنے سے غافل رہنا کتنا عظیم خسارہ اور کتنی بڑی محرومی ہو گی ۔
صبح و شام کی دعائیں
عبداللہ بن غنام بیاضی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “جو بندہ صبح ہونے پر اللہ تعالیٰ کے حضور میں عرض کرے کہ : “اللَّهُمَّ مَا أَصْبَحَ بِي مِنْ نِعْمَةٍ الخ” (اے میرے اللہ ! اس صبح جو بھی نعمت مجھے نصیب ہے یا تیری مخلوق میں سے کسی کو بھی میسر ہے وہ تنہا تیرے ہی کرم کا نتیجہ ہے ، تیرا کوئی شریک ساجھی نہیں ، تیرے ہی لئے ساری حمد و ثنا اور اے کریم تیرا ہی شکر ہے) تو اس نے اس دن کی ساری نعمتوں کا شکر ادا کر دیا ، اور جس نے شام ہونے پر اللہ تعالیٰ کے حضور میں اسی طرح عرض کیا تو اس نے پوری رات کی نعمتوں کا شکر اد اکر دیا ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح حق یہ ہے کہ بندہ اللہ کی نعمتوں کا کسی طرح شکر ادا نہیں کر سکتا ۔ یہ رب کریم کا صرف کرم ہے کہ ایسے حقیر سے شکر کو بھی وہ کافی قرار دیتا ہے ۔ منقول ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے اللہ کی بارگاہ میں عرض کیا کہ : “اے پروردگار ! تیری نعمتیں بےشمار ہیں میں کیسے ان کا شکر ادا کروں ” ۔ ارشاد ہوا کہ : “تمہارا یہ محسوس کرنا کہ وہ نعمتیں میری ہی طرف سے ہیں ، بس یہی شکر کافی ہے ۔ ” لك الحمد ولك الشكر ۔
صبح و شام کی دعائیں
حضرت ابو مالک اشعری سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب صبح ہو تو کہو : “أَصْبَحْنَا وَأَصْبَحَ الْمُلْكُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ تا وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا فِيهِ وَشَرِّ مَا بَعْدَهُ” (صبح اس حالت میں ہوئی کہ ہم اور ساری کائنات اللہ رب العالمین کی ملک اور اس کے قبضہ میں ہیں ۔ اے اللہ ! میں تجھ سے اس دن کی خیر اور فتح و نصرت ، نور و برکت اور ہدایت کا سائل ہوں اور اس دن اور اس کے بعد کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں) پھر جب شام ہو تو اسی طرح کہو ۔ (سنن ابی داؤد)
صبح و شام کی دعائیں
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : “جو کوئی (سورہ روم کی یہ تین آیتیں) صبح ہونے پر تلاوت کرے وہ اس دن کی وہ ساری خیر اور برکتیں پا لے گا جو اس سے فوت ہوئی ہوں گی ۔ اور اسی طرح جو کوئی شام آنے پر یہ تین آیتیں تلاوت کرے وہ اس رات کی وہ ساری خیر و برکت پا لے گا جو اس سے فوت ہوئی ہوں گی ۔ وہ آیات یہ ہیں : فَسُبْحَانَ اللَّـهِ حِينَ تُمْسُونَ وَحِينَ تُصْبِحُونَ ﴿١٧﴾ وَلَهُ الْحَمْدُ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَعَشِيًّا وَحِينَ تُظْهِرُونَ ﴿١٨﴾ يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَيُحْيِي الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ وَكَذَٰلِكَ تُخْرَجُونَ اللہ کی پاکی بیان کرو جب تمہارئے لئے صبح ہو اور جب شام آئے ۔ اور زمین و آسمان میں ہر وقت اس کی حمد و ثناء ہوتی ہے ۔ اور چوتھے پہر اور دوپہر کے وقت بھی اس کی پاکی بیان کرو ، وہی قادرِ مطلق زندہ کر مُردہ سے اور مُردہ کو زندہ سے برآمد کرتا ہے اور زمین پر مردگی طاری ہو جانے کے بعد اپنی رحمت سے اسے حیاتِ تازہ بخشتا ہے ۔ اور تم بھی اسی طرح مرنے کے بعد زندہ کر دئیے جاؤ گے ۔ (سنن ابی داؤد)
صبح و شام کی دعائیں
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “جو شخص ہر دن کی صبح اور ہر رات کی شام کو تین دفعہ یہ دعا پڑھ لیا کرے اسے کوئی مضرت نہیں پہنچے گی اور وہ کسی حادثہ سے دوچار نہیں ہو گا ۔ دعا یہ ہے : بِسْمِ اللهِ الَّذِي لاَ يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِي الأَرْضِ وَلاَ فِي السَّمَاءِ، وَهُوَ السَّمِيعُ العَلِيمُ (جامع ترمذی) اس اللہ کے نام کے ساتھ زمین و آسمان کی کوئی چیز بھی ضرر نہیں پہنچا سکتی اور وہ سب سننے والا اور جاننے والا ہے ۔ تشریح حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے اس حدیث کے ر اوی ان کے صاحبزادے ابان ہیں ۔ ان پر فالج کا حملہ ہو گیا تھا جس سے ان کا جسم متاثر تھا ۔ ایک دفعہ جب وہ یہ حدیث بیان کر رہے تھے ایک آدمی خاص طرح کی نظر سے ان کی طرف دیکھنے لگا ، وہ سمجھ گئے کہ اس کے دل میں یہ اعتراض پید اہو رہا ہے کہ جب آپ یہ حدیث اپنے والد ماجد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے سن چکے تھے تو پھر آپ پر فالج کا حملہ کیسے ہو گیا ، اس حدیث میں تو اس دعا کے صبح و شام پڑھنے والے کے لئے ہر حادثہ سے حفاظت کی ضمانت بتائی گئی ہے ۔ ابان نے اس آدمی سے کہا : “میاں دیکھتے کیا ہو ، نہ میں غلط بیان کر رہا ہوں نہ حضرت عثمانؓ نے مجھ سے غلب طیان کیا تھا ۔ حدیث بالکل صحیح ہے اور اس میں جو وعدہ ہے وہ بھی برحق ہے ، اصل واقعہ یہ ہے کہ ایک دفعہ کسی معاملہ کی وجہ سے مجھے سخت غصہ تھا ، اس غصہ کی حالت میں اس دن وقت پر دعا پڑھنا بھول گیا ، اسی دن یہ فالج کا حملہ ہوا ۔ چونکہ تقدیر الہی میں فالج ہونا مقرر تھا اس لئے اس دن بھلا دیا گیا ۔ حضرت ابان کا یہ بیان بھی حدیث کے ساتھ سنن ابی داؤد اور جامع ترمذی میں مروی ہے ۔ صبح شام تین دفعہ اس دعا کا پڑھنا اللہ کے نیک بندوں کے معمولات میں سے ہے ، اور بلاشبہ اس میں آفاتِ ارضی و سماوی سے حفاظت کی ضمانت ہے ۔
صبح و شام کی دعائیں
حضرت عبداللہ بن خبیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ و قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ تین بار پڑھ لیا کرو ۔ یہ ہر چیز کے واسطے تمہارے لئے کافی ہوں گی ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح قُلْ هُوَ اللّٰهُ اور معوذتین قرآن مجید کی بہت چھوٹی سورتوں میں ہیں ، لیکن اپنے مضمون کے لحاظ سے بہت فائق اور بالاتر ہیں ، جیسا کہ فضائل تلاوتِ قرآن کے سلسلہ میں کچھ ہی پہلے بیان بھی کیا جا چکا ہے ۔ حدیث کا مفاد یہ ہے کہ جو لوگ اور زیادہ نہ پڑھ سکیں وہ صبح و شام کم از کم یہی تین سورتیں پڑھ لیا کریں ، جیسا کہ حدیث میں فرمایا گیا ہے ، یہی ان شاء اللہ کافی ہوں گی ، ہر مسلمان کو یہ یاد بھی ہوتی ہیں ۔
خاص سونے کے وقت کی دعائیں
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو بتایا کہ جب تم سونے کے لئے بستر پر لیٹ جاؤ تو اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کرو : “اللهُمَّ خَلَقْتَ نَفْسِي تا أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ الْعَافِيَةَ ” (اے میرے اللہ ! تو نے ہی مجھے پیدا کیا ہے اور تو ہی جب چاہے گا میری روح قبض کر لے گا ، میرا مرنا اور جینا تیرے ہی اختیار میں ہے ، اگر تو مجھے زندہ رکھے تو (ہربلا اور گناہ سے اور شر و فتنہ کی بہر بات سے) میری حفاظت فرما ، اور اگر تیرا فیصلہ میری موت کا ہو تو میری مغفرت فرما اور مجھے بخش دے ، اے میرے اللہ ! مین تجھ سے معافی اور عافیت کا وسائل ہوں (تو میرے لئے معافی کا اور دنیا و آخرت میں عافیت کا فیصلہ فرما) حضرت عبداللہ بن عمر نے جب یہ دعا تلقین فرمائی تو کسی نے انؓ سے کہا کہ : “یہ آپ نے اپنے والد ماجد حضرت عمرؓ سے سنی ہو گی ؟” انہوں نے فرمایا : “میں نے اس ہستی سے سنا ہے جو حضرت عمرؓ سے بھی بہتر تھی ، میں نے یہ دعا براہِ راست رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے ۔” (صحیح مسلم) تشریح نیند کو موت سے بہت مشابہت ہے ۔ سونے والا مُردے ہی کی طرح دنیا ومافیہا سے بےخبر ہوتا ہے ۔ اس لحاظ سے نیند ، بیداری اور موت کے درمیان کی ایک حالت ہے ، اس لئے رسول اللہ ﷺ تاکید کے ساتھ ہدایت فرماتے تھے کہ جب سونے لگو تو اس سے پہلے دھیان اور اہتمام سے اللہ کو یاد کرو ، گناہوں سے معافی مانگو اور اس سے مناسب وقت دعائیں کرو ۔ اس سلسلہ میں جو دعائیں آپ ﷺ نے تلقین فرمائیں اور جو آپ ﷺ کے معمولات میں سے تھیں وہ ذیل میں پڑھی جائیں ۔ تشریح ..... یہ مختصر دعا عبدیت کے جذبات سے بھرپور ہے اور اللہ کے حضور میں عبدیت و نیاز مندی اور اظہارِ عاجزی و بےبسی ہی سب سے زیادہ اس کی رحمت کو کھینچنے والی چیز ہے ۔ خاص کر سوتے وقت کسی بندے کو اس طرح کی دعا کی توفیق ملنا اس بات کی علامت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خاص نظرِ عنایت و کرم اس کی طرف متوجہ ہے ۔
خاص سونے کے وقت کی دعائیں
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا کہ جب آرام کے لئے بستر پر تشریف لاتے تو اس طرح اللہ کی حمد اور اس کا شکر ادا کرتے “الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي تا وَلَا مُؤْوِيَ لَهُ” (اس اللہ کی حمد اور اس کا شکر جس نے ہمیں کھلایا پلایا اور ہماری پوری ضرورتیں عطا فرمائیں اور آرام کے لئے ہمیں ٹھکانہ دیا ، کتنے ہی ایسے بندے ہیں جن کی نہ کوئی ضروریات پوری کرنے والا ہے نہ کوئی انہیں ٹھکانا دینے والا ہے) ۔ (صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ ہم جو کھاتے پیتے ہیں ار جو کچھ ہمیں ملتا ہے وہ سب رب کریم کا عطیہ ہے ۔ ہمارے کسی ہنر اور کرتب کو اس میں دخل نہیں ، اس لیے وہی لائقِ حمد و شکر ہے ۔ جس نے سوتے وقت یہ دعا کی اس نے کھانے پینے اور ان سب نعمتوں کا جن سے اس نے فائد اٹھایا شکر ادا کر دیا ۔
خاص سونے کے وقت کی دعائیں
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب رات کو آرام فرمانے کے لئے بستر پر لیٹتے تو اپنا ہاتھ رخسار مبارک کے نیچے رکھ لیتے (یعنی داہنا ہاتھ داہنے رخسار کے نیچے رکھ کر داہنی کروٹ پر قبلہ رو لیٹ جاتے ، جیسا کہ دوسری احادیث میں تفصیل ہے) اور پھر اللہ کے حضور میں عرض کرتے “اللَّهُمَّ بِاسْمِكَ أَمُوتُ وَأَحْيَا” (اے اللہ ! تیرے ہی نام پہ مجھے مرنا اور تیرے ہی نام پر مجھے جینا ہے) اور جب سو کر اٹھتے تو اللہ کا شکر اس طرح ادا کرتے ۔ “الحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَحْيَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَإِلَيْهِ النُّشُورُ” (حمد و شکر اس اللہ کے لئے جس نے موت طاری کرنے کے بعد ہم کو جلایا اور بالآخر ہمیں اسی کے پاس جانا ہے) ۔ (صحیح بخاری) تشریح چونکہ نیند میں بہت کچھ مشابہت موت کی ہے اس لئے اس دعا میں نیند کو مرنے اور بیدار ہونے کو زندہ سے تعبیر کیا گیا ہے ، اور اس طرح روزمرہ کے سونے جاگنے کو حیات بعد الموت کی یاد دہانی اور اس کی تیاری کی فکر کا ذریعہ بنایا گیا ہے ۔ سونے اور جاگنے کے وقت کی دعاؤں میں سے یہ دعا بہت مختصر ہے اور اس کا یاد کرنا بہت آسان ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو توفیق عطا فرمائے ۔
خاص سونے کے وقت کی دعائیں
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : “جب تم بستر پر سونے کا ارادہ کرو تو پہلے وضو کرو (جس طرح نماز کے لئے وضو کرتے ہو) پھر اپنی داہنی کروٹ پر لیٹ جاؤ اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کرو : “اللَّهُمَّ أَسْلَمْتُ وَجْهِي إِلَيْكَتا وَنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ” (اے اللہ ! میں نے اپنی ہستی کو بالکل تیرے سپرد کر دیا اور اپنے سب امور تیرے حوالہ کر دئیے اور تجھ ہی کو اپنا پشت بناہ بنا دیا ، یا تیرے جلال سے ڈرتے ہوئے اور تیرے رحم و کرم کی طلب و امید کرتے ہوئے میرے مولا تیرے سوا کوئی جائے پناہ اور بچاؤ کی جگہ نہیں ، میں ایمان لایا تیری مقدس کتاب پر جو توے نازل فرمائی اور تیرے نبیﷺ پاک پر جن کو تو نے پیغمبر بنا کر بھیجا) آپ نے یہ دعا تلقین فرمانے کے بعد براء بن عازب سے ارشاد فرمایا کہ “رات کو سونے سے پہلے یہ دعا تمہارا آخری بول ہو ، یعنی اس دعا کے بعد کوئی بات نہ کرو اور بس سو جاؤ ، اگر اللہ کے حکم سے اسی حال میں تم کو موت آ گئی تو تمہاری موت بڑی مبارک اور دین فطرت پر ہو گی ۔ براء بن عازبؓ کہتے ہیں کہ میں حضور کے سامنے ہی اس دعا کو یاد کرنے لگا تو میں نے آخری جملہ میں “نَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ” کی جگہ “بِرَسُوْلِكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ” کہا (جو بالکل اس کے ہم معنی تھا ، صرف ایک لفظ کا فرق تھا) تو آپ ﷺ نے فرمایا : “نَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ” کہو ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس دعا میں اللہ پر اعتماد اور تسلیم و تفویض کی روح بھری ہوئی ہے ، اور ساتھ ہی ایمان کی تجدید بھی ہے ۔ اس مضمون کے لئے دنیا کا بڑے سے بڑا ادیب بھی اس سے بہتر الفاظ تلاش نہیں کر سکتا ۔ بلاشبہ یہ دعا بھی رسول اللہ ﷺ کی معجزانہ دعاؤں میں سے ہے ۔
خاص سونے کے وقت کی دعائیں
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہم کو ہدایت فرماتے تھے کہ جب ہم میں کوئی سونے کا ارادہ کرے تو اپنی داہنی کروٹ پر لیٹے اور اللہ سے یوں دعا کرے : “اللهُمَّ رَبَّ السَّمَاوَاتِ وَرَبَّ الْأَرْضِ تا وَأَغْنِنَا مِنَ الْفَقْرِ” (اے میرے اللہ ! آسمان و زمین کے مالک اور عرش عظیم کے مالک ، ہمارے اور ہر چیز کے مالک ، دانے اور گھٹلی کو اپنی قدرت سے پھاڑ کر اس سے پودا نکالنے ولے ، تورات و انجیل اور قرآن کے نازل فرمانے والے ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں زمین میں چلنے یا رینگنے والی تیری ہر مخلوق سے شر سے جس پر تیرا مکمل قابو ہے ۔ اے اللہ ! تو ہی اول (سب سے پہلا) ہے ، کوئی چیز تجھ سے پہلی نہیں ، تو ہی آخر (سب کے بعد باقی رہنے والا) ہے ، کوئی چیز نہیں جو تیرے بعد ہو (اے مالک کل اور قادرِ مطلق اور اول و آخر) مجھ پر جو قرض ہے اسے ادا کرا دے ، اور فقر و محتاجی دور فرما کر مجھے غنی اور خوشحال کر دے) ۔ (صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں بھی سونے کے لئے داہنی کروٹ پر لیٹنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے اور خود حضور ﷺ کا بھی یہی معمول تھا ۔ اس کروٹ پر لیٹنے کی صورت میں قلب جو بائیں پہلو میں ہے اوپر معلق رہتا ہے ، اور اللہ والوں کا تجربہ ہے کہ لیٹتے وقت ذکر و دعا اور توجہ الی اللہ کے لئے یہی شکل زیادہ مناسب ہوتی ہے ۔ یہ دعا اُن بندگانِ خدا کے زیادہ حسب حال ہے جو مقروض اور معاشی پریشانیوں میں مبتلا ہوں ۔ بندہ یہ دعا کر کے سوئے اور رب کریم سے امید رکھے کہ وہ رزق میں کشائش کی کوئی صورت پیدا فرمائے گا ۔
خاص سونے کے وقت کی دعائیں
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا کہ جب آپ ﷺ سونے کا ارادہ فرماتے تو اپنا داہنا ہاتھ رخسار مبارک کے نیچے رکھ کر لیٹ جاتے اور تین دفعہ یہ دعا کرتے : “اللَّهُمَّ قِنِي عَذَابَكَ يَوْمَ تَبْعَثُ، عِبَادَكَ ثَلَاثَ مِرَارٍ” (اے میرے اللہ ! مجھے اپنے عذاب سے بچا قیامت کے دن جب کہ سارے بندے دوبارہ زندہ کئے جائیں گے) ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح خاص سوتے وقت اس دعا کی ایک کھلی وجہ تو یہی ہے کہ سونے کو موت سے جو ایک خاص مشابہت ہے اس کی وجہ سے آپ ﷺ سونے کے لئے بستر پر لیٹتے وقت موت اور قیامت اور وہاں کے حساب اور ثواب و عذاب کو یاد کرتے تھے ، اور جس بندے کو اللہ کی معرفت حاصل ہو گئی اس کو جب موت و قیامت یاد آئے گی تو قدرتی طور پر اس کی سب سے اہم فکر اور دل کی پکار یہی ہو گی کہ وہاں عذاب سے نجات نصیب ہو ۔
خاص سونے کے وقت کی دعائیں
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “جو شخص سونے کے لئے بستر پر لیٹتے وقت اللہ کے حضور میں اس طرح توبہ و استغفار کرے ، اور تین دفعہ عرض کرے : “أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ الَّذِي لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الحَيَّ القَيُّومَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ” (میں مغفرت و بخشش چاہتا ہوں اس اللہ سے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ، اور وہ حی و قیوم ہے ہمیشہ رہنے والا اور سب کا کارساز ہے ، اور اس کے حضور میں توبہ کرتا ہوں) تو اس کے سب گناہ بخش دئیے جائیں گے ، اگرچہ وہ درختوں کے پتوں اور مشہور ریگستان عالج کے ذروں اور دنیا کے دِنوں کی طرح بےشمار ہوں ۔” (جامع ترمذی) تشریح اس حدیث میں سوتے وقت مذکورہ بالا الفاظ کے ساتھ توبہ و استغفار کرنے پر سارے گناہ بخش دئیے جانے کا مژدہ جانفرا سنایا گیا ہے ۔ کتنی بڑی محرومی ہو گی اگر حضور ﷺ کی اس ہدایت پر عمل کا اہتمام نہ کیا جائے ۔ ہاں یہ استغفار و توبہ سچے دل سے ہونا چاہئے ۔ اللہ تعالیٰ دلوں کا حال دیکھنے والا ہے ، اس کو زبان سے دھوکا نہیں دیا جا سکتا ۔
خاص سونے کے وقت کی دعائیں
فروہ بنت نوفل سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے والد نوفل سے فرمایا کہ : جب تم سونے کا ارادہ کرو تو سورہ “قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ” پڑھ لیا کرو ، اس کے بعد سو جایا کرو ، اس سورت کے مضمون میں شرک سے پوری براءت ہے ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی) تشریح ترمذی کی روایت میں یہ بھی ہے کہ نوفل نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ مجھے کوئی چیز بتا دیجئے جو میں سوتے وقت پڑھ لیا کروں ، اس کے جواب میں آپ ﷺ نے ان کو یہ بتلایا کہ : “قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ” پڑھ لیا کرو ۔
خاص سونے کے وقت کی دعائیں
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا دوامی معمول تھا کہ جب رات کو سونے کے لئے لیٹتے تو “قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ” و “قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ” اور “قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ” یہ تینوں سورتیں پڑھ کے دونوں پڑھ کر ہاتھوں پر دم کرتے ، اور جہاں تک آپ ﷺ کے ہارتھ پہنچ سکتے ان کو جسم مبارک پر پھیرتے ، پہلے سر اور چہرے پر اور جسم کے سامنے کے حصے پر پھیرتے ، تین دفعہ یہ عمل کرتے ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی) تشریح اس حدیث کی ایک روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ آخری مرض میں جب رسول اللہ ﷺ کو تکلیف زیادہ ہو گئی تو آپ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں اسی طرح تینوں سورتیں پڑھ کے اور اپنے ہاتھوں پر دم کر کے آپ ﷺ کے جسمِ مبارک پر پھیروں ، اور میں ایسا ہی کرتی تھی ۔ فائدہ ..... ممکن ہے بعض لوگوں کے لئے سونے کے وقت کی بعض دوسری ماثورہ دعائیں یاد کرنا مشکل ہوں ، وہ کم از کم “قُلْ يَآيُّهَا الْكَافِرُوْنَ ، قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ، وَ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور وَ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ ” تو پڑھ ہی سکتے ہیں ، ان کے لئے یہی سب کچھ ہے ۔ کم از کم یہ معمول تو مقرر ہی کر لینا چاہئے ، جو اتنا بھی اہتما نہ کر سکے اس کی محرومی قابلِ عبرت ہے ۔
نیند نہ آنے کی شکایت کی دعا
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خالد بن ولیدؓ نے رسول اللہ ﷺ سے شکایت کی کہ مجھے رات کو نیند نہیں آتی ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “جب تم بستر پر لیٹو تو اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کر لیا کرو ، “اللَّهُمَّ رَبَّ السَّمَوَاتِ السَّبْعِ تا لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ” (اے اللہ ! ساتوں آسمانوں کے اور ان سب چیزوں کے مالک جو اس کے نیچے واقع ہیں ، اور شیاطین اور ان کی گمراہ کن سرگرمیوں کے مالک ، اپنی ساری مخلوق کے شر سے مجھے اپنی پناہ اور حفاظت میں لے لے ، کوئی مجھ پر زیادتی اور ظلم نہ کر پائے ۔ باعزت اور محفوظ ہے وہ جس کو تیری پناہ حاصل ہے ۔ تیری حمد و ثنا کا مقام بلند ہے ، تیرے سوا کوئی لائق پرستش نہیں ، بس تو ہی معبود برحق ہے ۔ (جامع ترمذی)
نیند میں ڈر جانے کی دعا
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی (ڈراؤنا خواب دیکھ کے) سوتے میں ڈر جائے تو یوں دعا کرے : “أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ تا وَأَنْ يَحْضُرُونِ” (میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کے کلمات تامات کے ذریعہ خود اس کے غضب اور عذاب سے اور اس کے بندوں کے شر سے اور شیطانی وساوس و اثرات سے اور اس بت سے کہ شیاطین میرے پاس آئیں اور مجھے ستائیں) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : “پھر شیاطین اس بندے کو کچھ نہ بگاڑ سکیں گے ۔” (حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے یہ حدیث ان کے صاحبزادے شعیب نے روایت کی ہے) ان کا بیان ہے کہ ہمارے والد ماجد عبداللہ بن عمروؓ کا یہ دستور تھا کہ ان کی اولاد میں جو بڑے اور بالغ ہو جاتے وہ یہ دعا ان کو تلقین فرماتے تا کہ وہ اس کو اپنا معمول بنا لیں ۔اور جو بچے چھوٹے ہوتے تو یہی دعا ایک کاغذ پر لکھ کر ان کے گلے میں (بطور تعویذ کے) ڈال دیتے ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ڈراؤنے اور پریشان کن خواب شیطانی اثرات سے ہوتے ہیں ، اور اگر اس دعا کو معمول بنا لیا جائے تو ان شاء اللہ ان اثرات سے حفاظت ہو گی ۔ صحابی رسول ﷺ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ کے اس عمل سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا نام یا اس کا کلام یا کوئی دعا کاغذ پر لکھ کر بطور تعویذ گلے وغیرہ میں ڈال دینا کوئی غلط کام نہیں ہے ۔
سو کر اٹھنے کے وقت کی دعا
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب رات کو نیند سے بیدار ہوتے تو اللہ کے حضور میں عرض کرتے : “لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ تا إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ” (اے اللہ ! تو ہی معبود برحق ہے ، تیرے سوا کوئی معبود نہیں ، تو پاک ہے ، ہر حمد و ثناء کا تو ہی سزاوار ہے ، میں اپنے گناہوں کی تجھ سے معافی چاہتا ہوں اور تیری رحمت کا سائل ہوں ، اے میرے اللہ ! میرے علم و معرفت میں اضافہ فرما اور میرے دل کی حفاظت فرما کہ تیری طرف سے ہدایت ملنے کے بعد وہ کج روی اختیار نہ کرے ، اور اپنے کرم سے مجھے اپنی رحمت سے نواز تو بڑا بخشش والا اور بہت عطا فرمانے والا ہے ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح یہ دعا مختصر ہونے کے باوجود کتنی جامع ہے اور اس کے ایک ایک جز میں عبدیت کی کیسی روح بھری ہوئی ہے ، اس کا کچھ اندازہ ہر وہ شخص کر سکتا ہے جو بندہ کے اور اللہ کے تعلق کو کچھ جانتا سمجھتا ہو ۔ بلاشبہ جب بندہ نیند سے بیدار ہو کر اخلاص اور حضور قلب کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور میں یہ عرض کرے گا تو وہ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت و عنایت اور اس کے بڑے پیار کا مستحق ہو گا ۔ اللہ تعالیٰ اپنی اس عنایت و رحمت کی سچی طلب اور اس کے حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
سو کر اٹھنے کے وقت کی دعا
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “جب رات کو سو کر کسی کی آنکھ کھلے اور وہ اس وقت کہے : “لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ وَلَهُ الحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، الحَمْدُ لِلَّهِ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ، وَلاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ” اس کے بعد کہے ۔ “اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي” (اے اللہ ! میری مغفرت فرما اور مجھے بخش دے) یا کوئی اور دعا کرے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی یہ دعا و التجا قبول فرمائی جائے گی ۔ اس کے بعد اگر (وہ ہمت کر کے اٹھ اجائے اور) وضو کر کے نماز پڑھے تو اس کی یہ نماز بھی ضرور قبول ہو گی ۔ (صحیح بخاری) تشریح حدیث کا مندرجہ بالا متن صحیح بخاری سے نقل کیا گیا ہے ۔ اس میں کلمہ “الحمدللہ ، سبحان اللہ” سے پہلے ہے ۔ لیکن امام بخاریؒ کے علاوہ امام ابو داؤد اور امام ترمذی وغیرہ جن ائمہ نے اس حدیث کو روایت کیا ہے ان سب کی روایات میں “سبحان اللہ” پہلے اور “الحمدللہ” بعد میں ہے ، جیسا کہ کلمہ تمجید میں ہے ۔ اسی لئے حافظ ابن حجرؒ وغیرہ شارحین بخاری نے کہا ہے کہ بخاری کی روایت میں “الحمدللہ” کا مقدم ہو جانا کسی راوی کا تصرف ہے ۔ بہرحال ان شارحین کے نزدیک بھی ان کلمات کی صحیح ترتیب وہی ہے جو سنن ابی داؤد اور ترمذی کی روایت میں ہے ۔ اسی بنا پر ترجمہ میں اسی ترتیب کے مطابق لکھ دیا گیا ہے ۔ اس حدیث میں بشارت سنائی گئی ہے کہ جو بندہ رات کو آنکھ کھلنے پر اللہ تعالیٰ کی توحید تمجید اور تسبیح و تحمید اور اس کی مدد کے بغیر اپنی عاجزی و بےبسی کے اعتراف کے یہ کلمے پڑھے اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے اپنی مغفرت و بخشش کی دعا مانگے ، یا کوئی اور دعا کرے تو وہ ضرور قبول فرمائی جائے اسی طرح اس وقت وضو کر کے جو نماز پڑھی جائے گی وہ بھی قبول ہو گی ۔ بعض اکابر کا یہ ارشاد ہے کہ جس بندے کو یہ حدیث پہنچے وہ رسول اللہ ﷺ کا خاص الخاص عطیہ سمجھے اور آپ ﷺ کی اس بشارت پر یقین کرتے ہوئے اس کے مطابق عمل کر کے استغفار و دعا کی قبولیت کی یہ دولت حاصل کرنے کی پوری کوشش کرے ۔ بلاشبہ حضور ﷺ کے ایسے عطیات کی ناقدری بڑی محرومی ہے ۔ امام بخاریؒ سے صحیح بخاری کو روایت کرنے والے امام ابو عبداللہ فربریؒ فرماتے ہیں کہ : “ایک دن رات کو سوتے سے میری آنکھ کھلی اور میں نے اللہ کی توفیق سے یہ کلمے اپنی زبان سے ادا کئے ۔ اس کے بعد میری آنکھ لگ گئی تو میں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی میرے پاس آیا اور اس نے یہ آیت تلاوت کی : “وَهُدُوا إِلَى الطَّيِّبِ مِنَ الْقَوْلِ وَهُدُوا إِلَىٰ صِرَاطِ الْحَمِيدِ ” (1) (اور ان کو توفیق و ہدایت ملی بہت اچھی بات کی اور وہ لگا دئیے گئے اللہ کے راستے پر) ۔
استنجا کے وقت کی دعائیں
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ قضائے حاجت کے مقامات (شیاطین اور موذی چیزوں کے) اڈے ہیں ، لہذا جب تم میں سے کوئی قضائے حاجت کے لئے ان میں جانا چاہے تو اللہ کے حضو ر میں پہلے عرض کرے : “اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ” (اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں خبیثوں سے اور خبیثنیوں سے) ۔ (سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ) تشریح سونے اور کھانے پینے کی طرح بول و براز بھی انسانی زندگی کے لوازم میں سے ہے ، اور بلاشبہ وہ خاص وقت (جب کہ آدمی اس گندگی کے اخراج میں مشغول ہو) ایسا ہوتا ہے کہ اس وقت اللہ کا نام لینا اور اس سے دعا کرنا بےادبی کی بات ہو گی ۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ نے ہدایت فرمائی کہ جب کوئی بندہ قضائے حاجت کو جائے تو مشغول ہونے سے پہلے اللہ سے یہ دعا کرے ، اور فارغ ہونے کے بعد اس کے حضور میں یہ عرض کرے : تشریح ..... جس طرح مکھیاں اور دوسرے غلاظت پسند کیڑے مکوڑے غلاظت پر گرتے ہیں اسی طرح خبیث شیاطین اور بعض دوسری موذی مخلوقات غلاظت کے مقامات سے خاص دلچسپی اور مناسبت رکھتے ہیں ۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ نے ان مقامات میں جانے کے وقت کے لئے یہ دعا فرمائی اور (صحیح بخاری و صحیح مسلم میں آپ ﷺ کے خادم خاص حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ خود رسول اللہ ﷺرسول اللہ ﷺکا معمول تھا کہ بیت الخلاء جانے کے وقت دعا کرتے : “اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ”
استنجا کے وقت کی دعائیں
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب حاجت سے فارغ ہو کر بیت الخلاء سے باہر آتے تو کہتے : “الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَذْهَبَ عَنِّي الْأَذَى وَعَافَانِي” (حمد و شکر اس اللہ کے لئے جس نے میرے اندر سے گندگی اور تکلیف والی چیز دور فرما دی اور مجھے عافیت و راحت دی) ۔ (سنن ابن ماجہ) تشریح پیشاب یا پاخانہ خدانخواستہ رک جائے اور فطری طریقے سے خارج نہ ہو تو اللہ کی پناہ ! کیسی تکلیف ہوتی ہے اور اس کے خارج کرنے کے لئے اسپتالوں میں کیا کیا تدبیریں کی جاتی ہیں اگر بندہ اس کا دھیان کرے تو محسوس ہو کرے گا کہ فطری طریقے سے پیشاب یا پاخانہ کا خارج ہونا اللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی نعمت اور کتنا عظیم احسان ہے ۔ رسول اللہ ﷺ اسی احساس اور دھیان کے تحت اس موقع پر اس کلمہ کے ذریعہ اللہ کی حمد اور اس کا شکر ادا کرتے تھے : “الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَذْهَبَ عَنِّي الْأَذَى وَعَافَانِي” سبحان اللہ ! کیسی برمحل اور کتنی عارفانہ دعا ہے ۔
گھر سے نکلنے اور گھر میں آنے کے وقت کی دعا
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کوئی آدمی اپنے گھر سے نکلے اور نکلتے وقت کہے : “بِسْمِ اللَّهِ تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ” (میں اللہ کا نام لے کر نکل رہا ہوں ، اللہ ہی پر میرا بھروسا ہے ، کسی خیر کے حاصل کرنے یا کسی شر سے بچنے میں کامیابی اللہ ہی کے حکم سے ہو سکتی ہے) تو عالمِ غیب میں اس آدمی سے کہا جاتا ہے (یعنی فرشتے کہتے ہیں) : “اللہ کے بندے تیرا یہ عرض کرنا تیرے لئے کافی ہے ، تجھے پوری رہنمائی مل گئی اور تیری حفاظت کا فیصلہ ہو گیا ” اور شیطان مایوس و نامراد ہو کر اس سے دور ہو جاتا ہے ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد) تشریح آدمی کے لئے صبح و شام کے آنے جانے اور سونے جاگنے کی طرح گھر سے باہر نکلنا اور باہر سے گھر میں آنا بھی زندگی کے لوازم میں سے ہے اور بندہ قدم قدم پر اللہ کے رحم و کرم اور اس کی حفاظت و نگہبانی کا محتاج ہے ، اس لئے جب گھر سے باہر قدم نکالے یا باہر سے گھر مین آئے تو برکت و استعانت کے لئے خدئے پاک کا نام لے اور اس سے دعا کرے ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس موقع کے لئے ذکر و دعا کے جو کلمے تعلیم فرمائے وہ مندرجہ ذیل حدیثوں میں پڑھئے : تشریح ..... اس مختصر حدیث کا پیغام اور روح یہ ہے کہ جب بندہ گھر سے باہر قدم نکالے تو اپنی ذات کو بالکل عاجز ناتواں اور خدا کی حفاظت و مدد کا محتاج سمجھتے ہوئے اپنے کو اس کی پناہ میں دے دے ۔ اللہ تعالیٰ اس کو اپنی پناہ اور حفاظت میں لے لے گا اور شیطان اسے کوئی گزند نہ پہنچا سکے گا ۔
گھر سے نکلنے اور گھر میں آنے کے وقت کی دعا
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا دستور تھا کہ جب گھر سے نکلتے تو کہتے : “بِسْمِ اللهِ، تَوَكَّلْتُ تا أَوْ يُجْهَلَ عَلَيْنَا” (میں اللہ کا نام لے کر نکل رہا ہوں ، اللہ ہی پر میرا بھروسا ہے ۔اے اللہ ! ہم تیری پناہ مانگتے اس سے کہ ہمارے قدم بہکیں اور ہم غلط راہ پر چلیں (یا ہم دوسروں کی گمراہی اور غلط روی کا ذریعہ بنیں) یا ہم کسی پر ظلم و زیادتی کریں ، یا ہمارے ساتھ ظلم و زیادتی کی جائے یا ہم کسی کے ساتھ جہالت سے پیش آئیں یا کوئی ہمارے ساتھ جہالت سے پیش آئے) ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی) تشریح آدمی جب کسی کام سے گھر سے نکلتا ہے تو مختلف حالات اور مختلف لوگوں سے اس کا سابقہ پڑتا ہے ۔ اگر اللہ تعالیٰ کی مدد و توفیق اس کے شامل حال نہ ہو اور اس کی دستگیری اور حفاظت نہ کی جائے تو ہو سکتا ہے کہ وہ ظلوم و جہول بہک جائے اور کسی ناکردنی میں مبتلا ہو جائے ، یا کسی دوسرے بندے کی گمراہی اور بےراہ روی کا سبب بن جائے ، یا کسی سے کوئی جھگڑا ہو جائے اور اس میں وہ کوئی ظالمانہ یا جاہلانہ حرکت کر بیٹھے ، یا خود کسی کے ظلم و ستم اور جہل و نادانی کا نشانہ بن جائے ۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ گھر سے نکلتے وقت اللہ کا نام پاک لینے اور اس پر اپنا ایمان اور اعتماد و توکل تازہ کرنے کے علاوہ ان سب خطرات سے بھی اس کی پناہ مانگتے تھے اور اپنے عمل سے گویا اس کی شہادت دیتے تھے کہ آپ بھی قدم قدم پر اللہ تعالیٰ کی مدد و توفیق اور حفاظت و دستگیری کے حاجت مند ہیں ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی اس سے پہلے حدیث میں مختصر کلمہ “لَا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ” بھی ان سب خطرات سے پناہ جائی کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے ، اس لئے اس مقصد کے لئے وہ بھی کافی ہے ۔
گھر سے نکلنے اور گھر میں آنے کے وقت کی دعا
حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : “جب کوئی آدمی اپنے گھر میں داخل ہو تو اللہ تعالیٰ کے حضور میں یہ عرض کرتا ہوا داخل ہو “اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ تا تَوَكَّلْنَا” (اے خدا میں تجھ سے مانگتا ہوں گھر میں داخل ہونے اور گھر سے نکلنے کا خیر(یعنی میرا گھر میں داخل ہونا اور باہر نکلنا میرے واسطے خیر اور بھلائی کا وسیلہ بنے) ہم اللہ کا نام پاک لے کر داخل ہوتے ہیں اور اسی طرح اس کا نام پاک لے کر باہر نکلتے ہیں ، اور اسی پر ہمارا بھروسا ہے ، وہی کارساز ہے) اللہ کے حضور میں یہ عرض کرنے کے بعد داخل ہونے والا آدمی گھر والوں کو سلام کرے اور کہے : “السلام عليكم” (سنن ابی داؤد) تشریح اس تعلیم ہدایت کی روح یہی ہے کہ گھر میں آنے اور گھر سے نکلنے کے وقت بھی بندے کے دل کی نگاہ اللہ تعالیٰ پر ہو ، زبان پر اس کا بابرکت نام ہو ، اور یہ یقین کرتے ہوئے کہ ہر خیر و برکت اسی کے قبضہ قدرت میں ہے اس سے دعا اور سوال ہو اور اسی کی کریمی و کارسازی کا بھروسا اور اعتماد ہو ۔ پھر گھر کے بڑوں اور چھوٹوں پر سلام ہو ، جو درحقیقت ان کے لئے اللہ تعالیٰ ہی سے خیر اور سلامتی کی دعا ہے ۔
مسجد میں داخل ہونے اور نکلنے کے وقت کی دعا
حضرت ابو اسید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو اللہ تعالیٰ سے دعا کرے : “اللهُمَّ افْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ” (اے اللہ ! میرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے) اور جب مسجد سے باہر آنے لگے تو عرض کرے : “اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ” (اے اللہ ! میں تجھ سے تیرا فضل مانگتا ہوں) ۔ (صحیح مسلم) تشریح مسجد گویا خانہ خدا اور دربارِ الٰہی ہے ۔ آنے والے وہاں اس لئے آتے ہیں کہ عبادت کے ذریعہ ان کو اللہ تعالیٰ کی رضا اور رحمت حاصل ہو ۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ نے ہدایت فرمائی کہ کوئی بندہ غفلت کے ساتھ نہ مسجد میں جائے اور نہ مسجد سے نکلے ، بلکہ جانے کے وقت بھی اور آنے کے وقت بھی اس کے دل و زبان پر مناسب دعا ہو ۔ اللہ کے دربار کی حاضری کا یہ لازمی ادب ہے ۔ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ “رحمت” کا لفظ خاص طور سے روحانی اور اُخروی نعمتوں کے لئے بولا جاتا ہے ، جیسے کہ نبوت ، ولایت ، مقامِ قرب و رضا اور نعماء جنت وغیرہ ۔ چنانچہ سورہ زخرف میں فرمایا گیا ہے : “وَرَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ ” (1) اور “فضل” کا لفظ خصوصیت کے ساتھ دنیوی نعمتوں کے لئے بولا جاتا ہے ، جیسے رزق کی وسعت اور خوشحالی کی زندگی وغیرہ ۔ چنانچہ سورہ جمعہ میں فرمایا گیا ہے : “فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِن فَضْلِ اللَّـهِ ” (2) پس مسجد چونکہ ان اعمال کی مخصوص جگہ ہے جن کے صلہ میں روحانی اور اُخروی نعمتیں ملتی ہیں اس لئے مسجد میں داخل کے وقت کے لئے فتح ابواب رحمت کی اور مسجد سے نکلنے کے وقت کے لئے اللہ سے اس کا فضل مانگنے کی تلقین فرمائی گئی ہے ۔
کسی مجلس سے اُٹھنے کے وقت کی دعا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “جو شخص کسی مجلس میں بیٹھا جس میں اس سے بہت سی قابلِ مواخذہ فضول و لایعنی باتیں سرزد ہوئیں ، مگر اس نے اس مجلس سے اٹھتے وقت کہا : “سُبْحَانَكَ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ، اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ” (اے اللہ ! میں تیری حمد کے ساتھ تیری پاکی بیان کرتا ہوں ، گواہی دیتا ہوں کہ صرف تو ہی معبود برحق ہے ، تیرے سوا کوئی معبود نہیں ، میں اپنے گناہوں کی تجھ سے بخشش چاہتا ہوں ، اور تیرے حضور میں توبہ کرتا ہوں) تو اللہ تعالیٰ اس کی ان سب لغزشوں کو معاف کر دے گا جو اس مجلس میں اس سے سرزد ہوئیں ۔ (جامع ترمذی) تشریح جب آدمی کسی مجلس میں بیٹھتا ہے تو بسا اوقات اس میں ایسی باتیں کہتا یا سنتا ہے جو ایک مومن کے لئے مناسب نہیں ہوتیں ، اور ان پر مواخذہ ہو سکتا ہے ۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ نے ہدایت فرمائی کہ جب مجلس سے اٹھو تو اللہ کی حمد و تسبیح ، شہادتِ توحید اور توبہ و استغفار کا کلمہ پڑھو ، یہ مجلس کی بےاحتیاطیوں کا کفارہ ہو جائے گا ۔
کسی مجلس سے اُٹھنے کے وقت کی دعا
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : چند مختصر سے کلمے ہیں اگر کوئی بندہ کسی مجلس سے اٹھتے وقت اخلاص سے کہہ لے تو وہ اس مجلس کی ساری لغزشوں کا کفارہ ہو جائیں گے ، اور اگر یہی کلمے کسی مجلس خیر یا مجلس ذکر کے خاتمے پر کہے جائیں تو اس مجلس کی روئداد کے نوشتہ پر ان کلموں کی مہر لگا دی جائے گی ، جس طرح اہم کاغذات اور دستاویزوں پر مہر لگا دی جاتی ہے ، وہ کلمے یہ ہیں : “سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ” (سنن ابی داؤد) تشریح یہ بڑا ہی مختصر اور جامع کلمہ ہے ۔ س میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح و حمد بھی ہے ، اس کی توحید کی شہادت بھی ہے ، اور اپنے گناہوں سے توبہ و استغفار بھی ہے ۔ اللہ کے بعض مقبول بندوں کو دیکھا کہ ہر تھوڑی دیر کے بعد اور خاص کر ہر سلسلہ کلام کے ختم پر دل کی ایسی گہرائی سے جو اس وقت ان کے چہرے پر اور ان کی آواز میں بھی محسوس کی جاتی تھی یہی کلمے کہتے تھے جس سے سننے والوں کے دل بھی متاثر ہوتے تھے ۔ بلا شبہ یہ کلمہ اپنی معنویت اور خاص ترتیب کے لحاظ سے ایسا ہی ہے کہ جب اخلاص کے ساتھ بندہ اللہ کے حضور میں یہ عرض کرے گا تو اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت اس کی طرف ضرور بالضرور متوجہ ہو گی ۔ یہ کلمہ بھی رسول اللہ ﷺ کے عطا فرمائے ہوئے خاص تحفوں میں سے ہے ، اللہ تعالیٰ اس کی قدر اور استفادہ کی توفیق دے ۔
کسی مجلس سے اُٹھنے کے وقت کی دعا
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں : بہت کم ایسا ہوتا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کسی مجلس سے اٹھیں اور اپنے ساتھ اپنے اصحاب کے لئے بھی یہ دعا نہ فرمائیں ۔ “اللَّهُمَّ اقْسِمْ لَنَا مِنْ خَشْيَتِكَ تا وَلاَ تُسَلِّطْ عَلَيْنَا مَنْ لاَ يَرْحَمُنَا” (اے اللہ ! ہمیں اپنے خوف اور خشیت سے اتنا حصہ دے جو ہمارے درمیان اور تیری نافرمانیوں کے درمیان حائل ہو جائے (یعنی تیرے اس خوف کی وجہ سے ہمارے قدم تیری نافرمانیوں کے لئے نہ اُٹھ سکیں ۔) اور اپنی طاعت و عبادت سے اتنا حصہ عطا فرما جس سے تو ہمیں اپنی جنت میں پہنچا دے (یعنی جو ہمارے لئے داخلہ جنت کا وسیلہ بن جائے) ۔ اور (قضا و قدر) کے یقین سے اتنا حصہ دے جو ہمارے لئے دنیاوی مصائب کو ہلکا کر دے ، اور جب تک تو ہمیں زندہ رکھے اس لائق رکھ کہ اپنے کانوں اور اپنی آنکھوں اور اپنی دوسری قوتوں سے کام لیتے رہیں (یعنی مرتے دم تک ہم آنکھ ، کان وغیرہ تیری بخشی ہوئی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے رہیں) اور ان کو ہمارے مرنے کے بعد بھی باقی رکھ (یعنی ان سے ہم کچھ ایسے کام کر جائیں جو ہمارے مرنے کے بعد بھی کام آئیں) ۔ اور اے ہمارے مالک و مولا ! جو کوئی ہم پر (یعنی تیرے ایمان والے بندوں پر) ظلم ڈھائے تو تو اس سے ہمارا بدلہ لے ، اور جو کوئی ہماری دشمنی پر کمر بستہ ہو تو ، تو اس کے مقابلے میں ہماری مدد فرما ، اور ہمیں اس کے مقابلہ میں غالب اور منصور فرما ۔ اور ہمارے دین میں کوئی مصیبت نہ آئے (یعنی دینی مصائب اور فتنوں سے خاص طور پر ہماری حفاظت فرما) اور اے اللہ ایسا نہ ہو کہ دنیا ہمارا مقصدِ اعظم اور ہمارے علم و نظر کا منتہا بن جائے ۔ اور اے اللہ ! ہم پر کبھی بےرحم دشمنوں کو مسلط نہ فرما ۔ (جامع ترمذی) تشریح یہ دعا بھی رسول اللہ ﷺ کی نہایت جامع و بلیغ خاص معجزانہ دعاؤں میں سے ہے ۔ حق یہ ہے کہ اپنے پاس وہ الفاظ نہیں ہیں جن کے ذریعہ ان دعاؤں کی قدر و قیمت ظاہر کی جا سکے ۔ اللہ تعالیٰ ان صحابہ کرامؓ اور زمانہ مابعد کے ان سب بزرگوں کی قبروں کو منور فرمائے جنہوں نے اہتمام سے ان دعاؤں کو محفوظ رکھا اور امت کو پہنچایا اور ہمیں قدر و استفادہ کی توفیق دے ۔
بازار جانے کی دعا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا کہ جب آپ بازار جاتے تو کہتے : “بِسْمِ اللَّهِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ تا صَفْقَةً خَاسِرَةً” (میں اللہ کا نام لے کر بازار جاتا ہوں ۔ اے اللہ ! اس بازار میں اور اس کی چیزوں میں جو خیر اور بھلائی ہو اس کا میں تجھ سے سائل ہوں اور اس میں اور اس کی چیزوں میں جو شر ہو میں اس سے تیری پناہ مانگتا ہوں ، اور اس بات سے بھی تیری پناہ چاہتا ہوں کہ میں اس بازار میں کوئی گھاٹے کا سودا کروں) ۔ (دعوات کبیر للبیہقی) تشریح انسان اپنی ضروریات اور خرید و فروخت کے لئے بازار بھی جاتا ہے جہاں اس کے لئے نفع اور نقصان دونوں کے امکانات ہیں اور ہر دوسری جگہ سے زیادہ خدا سے غافل کرنے والی چیزیں ہیں اور اسی واسطے اس کو “شر البقاع” (بدترین جگہ) قرار دیا گیا ہے ۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ جب ضرورت سے بازار تشریف لے جاتے تو اللہ کے ذکر اور اس سے دعا کا خاص اہتمام فرماتے ۔
بازار کی ظلمانی فضاؤں میں اللہ کے ذکر کا غیر معمولی ثواب
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جو بندہ بازار گیا اور اس نے (بازار کی غفلت اور شور و شر سے بھرپور فضا میں دل کے اخلاص سے کہا “لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ تا وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ” تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے لئے ہزاروں ہزار نیکیاں لکھی جائیں گی اور ہزاروں ہزار گناہ محو کر دئیے جائیں گے اور ہزاروں ہزار درجے اس کے بلند کر دئیے جائیں گے ، اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے لئے جنت میں ایک شاندار محل تیار ہو گا ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ) تشریح بازار بلاشبہ غفلت اور معصیات کے مراکز اور شیاطین کے اڈے ہیں ۔ پس اللہ کا جو باتوفیق بندہ وہاں کی ظلمانی اور شیطانی فضاؤں میں ایسے طریقے پر اور ایسے کلمات کے ساتھ اللہ کا ذکر کرے جن کے ذریعہ وہاں کے ظلمتوں کا پورا توڑ ہوتا ہو ، وہ بلاشبہ اس کا مستحق ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس پر بےحد و حساب عنایت ہو ۔ اس کے لئے ہزار نیکیوں کا لکھا جانا ، ہزاروں ہزار گناہوں کا محو کیا جانا ، اور ہزاروں ہزار درجے بلند ہونا ، اور جنت میں ایک شاندار محل عطا ہونا اسی عنایتِ الٰہی کی تفصیلی تعبیر ہے ۔ بازار میں آدمی کی نگاہ کے سامنے طرح طرح کی وہ چیزیں آتی ہیں جن کو دیکھ کر وہ خدا کو اور اپنے اور ساری دنیا کے فانی ہونے کو بھول جاتا ہے ۔ یہ چیزیں اس کے دل کو اپنی طرف کھینچے لگتی ہیں ۔ کسی چیز کو وہ سمجھتا ہے کہ یہ بڑی دلکش اور بڑی حسین ہے ، کسی کو سمجھتا ہے کہ یہ بڑی نفع بخش ہے ، کسی بڑے کامیاب تاجر یا صاحب دولت و حکومت کو دیکھ کر دل میں سوچنے لگتا ہے کہ اگر اس سے تعلق قائم کر لیا جائے تو سارے کام بن جائیں گے ۔ بازار کی فضاؤں میں یہی وہ خیالات و وساوس ہوتے ہیں جو دلوں اور نگاہوں کو گمراہ کرتے ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے علاوہ اور تحفظ کے لئے ہدایت فرمائی کہ بازار جاؤ تو یہ کلمہ توحید تمہاری زبانوں پر ہو : لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الحَمْدُ يُحْيِي وَيُمِيتُ، وَهُوَ حَيٌّ لاَ يَمُوتُ، بِيَدِهِ الخَيْرُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ اللہ کے سوا کوئی قابلِ پرستش نہیں ، اکیلا وہی معبود برحق ہے ، کوئی اس کا شریک اور ساجھی نہیں ، صرف اسی کا راج اور اسی کی فرمانروائی ہے ، وہی حمد ستائش کے لائق ہے سب کی زندگی اور موت اسی کے قبصہ میں ہے اور وہ زندہ جاوید ہے ، اسی کبھی فنا نہیں ، ساری خیر اور بھلائی اسی کے ہاتھ میں ہے اور سب کچھ اسی کی قدرت میں ہے ۔ یہ کلمہ ان گمراہانہ خیالات اور ان شیطانی وسوسوں پر براہِ راست ضرب لگاتا ہے جو بازار میں انسان کے دل و دماغ کو متاثر کرتے ہیں ۔ اس کلمہ میں ان حقائق پر یقین کو تازہ کیا جاتا ہے : 1. الٰہ جو اس کا مستحق ہے کہ اس کو دل و جان سے چاہا جائے ، اس کی عبادت کی جائے اور اپنا مطلوب و مقصودِ حقیقی بنایا جائے صرف اللہ تعالیٰ ہے ، اس استحقاق میں کوئی چیز اور کوئی ہستی اس کی شریک نہیں ۔ 2.ساری کائنات میں صرف اسی کی فرمانروائی ہے ، بلاشرکت غیرے اسی کا حکم چلتا ہے ، وہی ساری کائنات کا مالک اور حاکم حقیقی ہے ۔ 3. حمد و ستائش کے لائق بھی صرف وہی ہے ، اس کے علاوہ اس کی مخلوق میں جو چیزیں دل یا نگاہ کو اچھی اور قابلِ تعریف نظر آتی ہیں وہ اس کی مخلوقات اور مصنوعات ہیں ، ان کا حسن و جمال اسی کا عطیہ ہے ۔ 4.اس کی اور صرف اسی کی شان “حی لا یموت” ہے ، اس کے علاوہ ہر چیز فانی ہے ، اور ہر ایک کی موت و حیات اور فنا و بقاء اسی کے ہاتھ میں ہے ۔ 5. ہر خیر اور بھلائی اسی کے ہاتھ میں ہے ، اس کے سوا کسی کے اختیار اور قبضہ میں کچھ نہیں ۔ 6.وہ اور صرف وہی قادرِ مطلق ہے ، ہر چیز اور ہر تبدیلی اسی کی قدرت میں ہے ۔ بازارکی فضاؤں میں جو بندہ اللہ کو اس طرح یاد کرتا ہے وہ گویا شیاطین کی سرزمین میں اللہ کے نام کا علم بلند کرتا ہے اور گمراہی کی گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ہدایت کی شمع جلا جاتا ہے ۔ اس لئے بلاشبہ وہ اس غیر معمولی عنایت اور رحمت کا مستحق ہے جس کا اس حدیث پاک میں ذکر کیا گیا ہے ۔ حدیث کے لفظ “الفِ الف” کا ترجمہ ہم نے بجائے دس لاکھ کے “ہزاروں ہزار” کیا ہے ۔ ہمارے نزدیک ان شارحین کی رائے زیادہ قرینِ قیاس ہے جنہوں نے کہا ہے کہ یہاں یہ لفظ معین عدد کے لئے استعمال نہیں کیا گیا ہے بلکہ غیر معمولی کثرت کے لئے کنایہ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے ۔ واللہ اعلم ۔
کسی کو مصیبت میں مبتلا دیکھنے کے وقت کی دُعا
امیر المومنین حضرت عمر بن الخطاب اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس آدمی کی نظر کسی مبتلائے مصیبت اور دکھی پر پڑے اور وہ کہے : “الحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي تا تَفْضِيلًا” (حمد اس اللہ کے لئے جس نے مجھے عافیت دی اور محفوظ رکھا اس بلا اور سے سے جس میں تجھ کو مبتلا کیا گیا اور اپنی بہت سے مخلوقات پر اس نے مجھے فضیلت بخشی) تو وہ اس بلا اور مصیبت سے محفوظ رہے گا خواہ کوئی بھی مصیبت ہو ۔ (جامع ترمذی) (اور سنن ابن ماجہ میں یہی حدیث حضرت ابنِ عمرؓ سے روایت کی گئی ہے) تشریح بسا اوقات ہماری نگاہ اللہ کے ایسے بندوں پر پڑتی ہے جو بےچارے کسی دکھ اور مصیبت میں مبتلا اور برے حال میں ہوتے ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے ایسے وقت کے لئے ہدایت فرمائی کہ بندہ ایسا کوئی منظر دیکھے تو اس بات پر اللہ کی حمد اور اس کا شکر کرے کہ اس نے مجھے اس مصیبت میں مبتلا نہیں کیا ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ : اس حمد و شکر کی برکت سے وہ اس مصیبت سے محفوظ رکھا جائے گا ۔ تشریح ..... امام ترمذیؒ نے اس حدیث کے ساتھ ہی گویا اس کی تشریح کے طور پر امام زین العابدینؓ کے صاحبزادے امام باقرؓ سے روایت کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ : “جب بندہ کسی مبتلائے مصیبت کو دیکھے تو پہلے اس مصیبت سے اللہ کی پناہ چاہے اس کے بعد یہ دعا اس طرح آہستہ پڑھے کہ وہ بےچارہ مبتلائے مصیبت سُن نہ سکے ۔ ظاہر ہے کہ اگر سُن لے گا تو اس سے اس کا دل دکھے گا ۔” حضرت شیخ شبلی علیہ الرحمۃ سے نقل کیا گیا ہے کہ : جب وہ کسی ایسے آدمی کو دیکھتے جو خدا سے غافل اور آخرت سے بےفکر ہو کر دنیا میں پھنسا ہو تو یہی دعا پڑھتے : “الحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي عَافَانِي مِمَّا ابْتَلاَكَ بِهِ، وَفَضَّلَنِي عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقَ تَفْضِيلاً”
کھانے پینے کے وقت کی دعا
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کچھ کھاتے پیتے تو کہتے : “الحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَطْعَمَنَا وَسَقَانَا وَجَعَلَنَا مُسْلِمِينَ ” (حمد و شکر اس اللہ کے لئے جس نے ہمیں کھانے اور پینے کو دیا اور (اس سے بھی بڑا کرم یہ فرمایا کہ) ہمیں اپنے مسلم بندوں میں سے بنایا ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی) تشریح کھانا پینا انسان کے لوازمِ حیات میں سے ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کو جب کچھ کھانے یا پینے کو میسر ہوتا تو آپ ﷺ اس کو اللہ کی طرف سے اور اس کا عطیہ یقین کرتے ہوئے اس کی حمد اور اس کا شکر ادا کرتے اور دوسروں کو بھی اس کی ہدایت فرماتے ۔
کھانے پینے کے وقت کی دعا
حضرت معاذ بن انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جو بندہ کھانا کھائے اور پھر کہے : “الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَطْعَمَنِي هَذَا الطَّعَامَ، وَرَزَقَنِيهِ مِنْ غَيْرِ حَوْلٍ مِنِّي وَلَا قُوَّةٍ” (ساری حمد اس اللہ کے لئے جس نے مجھے یہ کھانا کھلایا ،ا ور میری اپنی سعی و تدبیر اور قوت و طاقت کے بغیر محض اپنے فضل سے مجھے یہ عطا فرمایا) تو اس حمد و چکر کی برکت سے اس کے پہلے سارے گناہ بخش دئیے جائیں گے ۔ (جامع ترمذی) تشریح بعض اعمال بظاہر بڑے چھوٹے سے ہوتے ہیں لیکن اللہ کی نگاہ میں وہ بہت بڑے اور اس کی میزان میں بہت بھاری ہوتے ہیں اور ان کا نتیجہ بڑا غیر معمولی نکلتا ہے ۔ اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ جو بندہ کھانے کے بعد صدقِ دل سے یہ اعتراف کرے کہ یہ کھانا مجھے میرے پروردگار اور پالنہار نے عطا فرمایا ، میرے کسی ہنر اور کسی صلاحیت اور استحقاق کو اس میں کوئی دخل نہیں تھا ، جو کچھ عطا فرمایا وہ اس نے صرف اپنے کرم سے عطا فرمایا ، اور وساری حمد و ستائش کا مستحق وہی ہے ، تو اللہ تعالیٰ اس کی اس حمد کی اتنی قدر فرمائے گا کہ اس کے سارے پہلے گناہ اس کی برکت سے بخش دے گا اور سنن ابی داؤد کی روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ جس بندے نے کپڑا پہنا اور پھر اس طرح اللہ کی حمد کی : الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي كَسَانِي هَذَا الثَّوْبَ وَرَزَقَنِيهِ مِنْ غَيْرِ حَوْلٍ مِنِّي، وَلَا قُوَّةٍ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ. ساری حمد و ستائش اس اللہ کے لئے جس نے مجھے یہ کپڑا پہنایا ،اور بغیر میری سعی و تدبیر اور قوت و طاقت کے مجھے یہ عطا فرمایا ۔ تو اس کے پہلے اور پچھلے سب گناہ بخش دئیے جائیں گے ۔ دراصل بندے کا یہ اعتراف و احساس کہ اس کے پاس جو کچھ ہے اس کے رب کا عطیہ ہے وہ خود کسی لائق نہیں ہے ، عبدیت کا جوہر ہے ، اور اللہ تعالیٰ کے یہاں بڑی قدر و قیمت رکھتا ہے ۔ اور ان اعمال میں سے ہے جن کے صدقہ میں عمر بھر کی خطائیں معاف کر دی جائیں ۔ اللہ تعالیٰ ان حقائق کا فہم اور ان پر یقین نصیب فرمائے اور عمل کی توفیق دے ۔
کسی کے یہاں کھانا کھا کر کھلانے والے کے لئے دعا
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابو الہیثم بن التیہان نے اپنے ہاں کھانا تیار کرایا اور رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھیوں کی دعوت کی جب سب کھانا کھا کے فارغ ہو گئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : “اپنے بھائی کو بدلہ دو ۔ عرض کیا گیا کہ : حضور ﷺ ! ان کو کیا بدلہ دیا جا سکتا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : “جب کسی بھائی کے گھر جائیں اور وہاں کھائیں پیئں اور پھر اس کے لئے خیر و برکت کی دعا کریں تو بس یہی بندوں کی طرف سے اس کا بدلہ ہے” ۔ (سنن ابی داؤد)
کسی کے یہاں کھانا کھا کر کھلانے والے کے لئے دعا
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ حضرت سعد بن عبادہؓ کے ہاں تشریف لائے انہوںؓ نے آپ ﷺ کی خدمت میں پکی ہوئی روٹی اور روغنِ زیتون پیش کیا ۔ آپ ﷺ نے اس کو تناول فرمایا اور پھر ان کے لئے اس طرح دعا فرمائی : أَفْطَرَ عِنْدَكُمُ الصَّائِمُونَ، وَأَكَلَ طَعَامَكُمُ الْأَبْرَارُ، وَصَلَّتْ عَلَيْكُمُ الْمَلَائِكَةُ اللہ کے روزہ دار بندے تمہارے ہاں افطار کیا کریں اور ابرار و صالحین تمہارے ہاں کھانا کھایا کریں اور اللہ کے فرشتے تمہارے لئے دعائے خیر کیا کریں ۔ (سنن ابی داؤد)
کسی کے یہاں کھانا کھا کر کھلانے والے کے لئے دعا
عبداللہ بن بسر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ میرے والد بسر اسلمی کے مہمان ہوئے تو میرے والد نے آپ ﷺ کی خدمت میں کھانا اور وطبہ (ایک قسم کا مالیدہ) پیش کیا ۔ آپ ﷺ نے اس میں سے تناول فرمایا ۔ پھر آپ ﷺ کی خدمت میں کھجوریں پیش کی گئیں ، آپ ﷺ ان کو کھاتے تھے اور کلمہ والی انگلی اورا درمیانی انگلی دونوں کو ملا کر کھجور کی گٹھلیاں ان میں لے کر پھینکتے جاتے تھے ۔ پھر آپ ﷺ کی خدمت میں پینے کے لئے کوئی مشروب پیش کیا گیا تو آپ ﷺ نے اس کو بھی نوش فرمایا ، پھر آپ ﷺ تشریف لے جانے لگے تو میرے والد نے آپ ﷺ کی سواری کی لگام تھام کے عرض کیا کہ ہمارے لئے دعا فرما دیجئے تو آپ ﷺ نے دعا کی : «اللهُمَّ، بَارِكْ لَهُمْ فِي مَا رَزَقْتَهُمْ، وَاغْفِرْ لَهُمْ وَارْحَمْهُمْ» (صحيح مسلم) اے اللہ تو نے ان کو روزی کا جو سامان عطا فرمایا ہے اس میں ان کے لئے برکت دے اور ان کو اپنی مغفرت اور رحمت سے نوازا ۔ تشریح ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ جس طرح کھانے پینے کے بعد اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کا شکر ادا کرنا چاہئے اسی طرح جب اللہ کا کوئی بندہ کھلائے پلائے تو اس کے لئے بھی دعا کرنی چاہئے ۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کے یہاں کھانا کھانے کے بعد ان کے لئے جو دعا فرمائی جس کا حضرت انسؓ کی اوپر والی حدیث میں ذکر ہے ، یعنی : “أَفْطَرَ عِنْدَكُمُ الصَّائِمُونَ” اور بسر اسلمیؓ کے ہاں کھانے کے بعد ان کے لئے آپ ﷺ نے جو دعا فرمائی جس کا عبداللہ بن بسر والی اس حدیث میں ذکر ہے یعنی : “اللهُمَّ، بَارِكْ لَهُمْ فِي مَا رَزَقْتَهُمْ” ان دعاؤں کے مضمونوں میں فرق غالباً حضرت سعد بن عبادہؓ اور بسر اسلمیؓ کے دینی مقام اور درجہ کے لحاظ سے ہے ۔ حضرت سعد بن عبادہؓ آپ ﷺ کے خاص فیض یافتہ اور صفِ اول کے اصحاب کرامؓ میں سے تھے ، انؓ کو آپ ﷺ نے دعا دی کہ : “اللہ تعالیٰ ایسا کرے کہ ہمیشہ تمہارے ہاں اللہ کے روزہ دار بندے افطار کیا کریں ، اور اس کے صالح اور متقی بندے کھانا کھایا کریں اور فرشتے تمہاے لئے دعائے خیر کریں ، حضرت سعد بن عبادہؓ کے دینی مقام کے لئے ایسی ہی دعا مناسب تھی ۔ اور بسر اسلمیؓ جو اس درجہ کے نہیں تھے ان کے لئے خیر و برکت اور مغفرت و رحمت کی وہی دعا زیادہ مناسب تھی جو آپ ﷺ نے انؓ کو دی” ۔ واللہ اعلم ۔
نیا لباس پہننے کے وقت کی دعا
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : “جو بندہ نیا کپڑا پہنے اور کہے : “الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي كَسَانِي مَا أُوَارِي بِهِ عَوْرَتِي، وَأَتَجَمَّلُ بِهِ فِي حَيَاتِي” (حمد و شکر اس اللہ کے لئے جس نے مجھے وہ لباس عطا فرمایا جس سے میں اپنی پردہ داری کرتا ہوں اور زندگی میں وہ میرے لئے سامانِ زینت بنتا ہے) پھر وہ بندہ اپنا وہ لباس جو اس نے پرانا کر کے اتار دیا ہے صدقہ کر دے تو وہ زندگی میں اور مرنے کے بعد اللہ کی حفاظت و نگہہبانی میں رہے گا اور اللہ تعالیٰ اس کی پردہ داری فرمائے گا” ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ) تشریح لباس بھی اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے ، اور کھانے پینے ہی کی طرح انسان کی بنیادی ضرورتوں میں سے ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ہدایت فرمائی کہ : “جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو نیا کپڑا نصیب فرمائے اور وہ اس کو زیبِ تن کرے تو اللہ تعالیٰ کے احسان کے استحضار کے ساتھ اس کی حمد اور اس کا شکر ادا کرے ، اور جو پہنا ہوا کپڑا اس نے پرانا کر کے اتارا ہے اس کو صدقہ کر دے ۔ ، آپ ﷺ نے بشارت دی کہ ایسا کرنے والے بندے کو زندگی میں اور مرنے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور پردہ داری نصیب رہے گی” ۔
آئینہ دیکھنے کے وقت کی دعا
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا کہ جب آپ ﷺ آئینہ دیکھتے تو کہتے : “الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي تا مِنْ غَيْرِي” (حمد و شکر اس اللہ کے لئے جس نے میرے جسم کو برابر موزوں بنایا اور مجھے اچھی شکل و صورت عطا فرمائی اور مجھے اس خوشنمائی سے نوازا جس سے دوسرے بہت سے بندوں کو نہیں نوازا گیا) ۔ (مسند بزار) تشریح دوسری اکثر دعاؤں کی طرح اس دعا کی روح بھی یہی ہے کہ بندہ اپنے اندر جو حسن و خوبی اور جو جمال و کمال محسوس کرے وہ اس کو اللہ کی دین یقین کرتے ہوئے اس کی حمد اور اس کا شکر کرے ، اس طرز عمل سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کی محبت اور جذبہ عبودیت میں برابر ترقی ہوتی رہے گی اور وہ خود پسندی اور کبر نفس جیسے مہلک امراض سے محفوظ رہے گا ۔
نکاح اور شادی سے متعلق دعائیں
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہدایت فرمائی کہ : “جب تم میں سے کوئی کسی عورت کو اپنے نکاح میں لائے اور بیوی بنائے یا خدمت کے لئے غلام یا باندی خریدے تو یہ دعا کرے : “اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ تا وَشَرِّ مَا جَبَلْتَهَا عَلَيْهِ ” (اے اللہ ! اس مین اور اس کی فطرت مین جو خیر اور بھلائی ہو ۔ میں تجھ سے اس کی استدعا کرتا ہوں ، اور اس میں اور اس کی فطرت میں جو شر اور برائی ہو اس سے میں تیری پناہ مانگتا ہوں) ۔ (سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ) تشریح نکاح اور شادی بھی انسانی زندگی کے لوازم میں سے ہے اور بظاہر اس کا تعلق انسان کے صرف ایک بہیمی اور نفسانی تقاضا سے ہے ، اور اس وقت خدافراموشی کا بڑا امکان ہے ۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے امت کو ہدایت فرمائی کہ اس موقع پر بھی تمہاری نگاہ خدا پر رہے اور یہ یقین رکھتے ہوئے کہ اس سلسلہ کا خیر و شر بھی اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے ، اس سے دعا کیا کرو ، اس طرح آپ ﷺ نے زندگی کے اس شعبہ کو بھی خدا پرستی کے رنگ میں رنگ دیا ۔
نکاح اور شادی سے متعلق دعائیں
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ شادی کرنے والے آدمی کو ان الفاظ کے ساتھ دعا اور مبارک باد دیا کرتے تھے : “بَارَكَ اللهُ لَكَ، وَبَارَكَ عَلَيْكَ، وَجَمَعَ بَيْنَكُمَا فِي خَيْرٍ” (اللہ تعالیٰ تمہارے لئے مبارک کرے ، اور تم پر برکتیں نازل کرے ، اور تم دونوں (میاں اور بیوی) کو خیر اور بھلائی پر جوڑے رکھے) یعنی دنیا اور آخرت کی ہر چیز اور بھلائی کے معاملہ میں تم دونوں کے درمیان باہم اتفاق اور تعاون رہے ، اور شیطان کوئی فتنہ انگیزی نہ کر سکے ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ)
مباشرت کے وقت کی دعا
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “جب تم میں سے کوئی بیوی کے پاس جاتے وقت اللہ کے حضور میں یہ عرض کر لیا کرے : “بِاسْمِ اللَّهِ، اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ وَجَنِّبِ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا” (بسم اللہ ، اے اللہ ! تو شیطان کے شر سے ہم کو بچا ، اور ہم کو جو اولاد دے اس کو بھی بچا) تو اگر اس مباشرت کے نتیجہ میں ان کے لئے بچہ مقدر ہو گا تو شیطان اس کو کبھی نقصان نہ پہنچا سکے گا اور وہ ہمیشہ شر شیطان سے محفوظ رہے گا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ : “اس حدیث سے مفہوم ہوتا ہے کہ اگر مباشرت کے وقت اللہ تعالیٰ سے اس طرح کی دعا نہ کی (اور خدا کی طرف سے بالکل غافل ہو کر بہائم کی طرح بس اپنے نفس کا تقاضا پورا کر لیا)” تو ایسی مباشرت کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی اولاد شر شیطان سے محفوظ رہے گی ”۔ اس کے بعد فرماتے ہیں : “از نیجاست فساد احوال اولاد و تباہ کاری ایشاں” (یعنی اس زمانہ میں پیدا ہونے والی نسل کے احوال ، اخلاق و عادات جو عام طور سے خراب و برباد ہیں تو اس کی خاص بنیاد یہی ہے) ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں رسول اللہ ﷺ کی ان ہدایات کی قدر شناسی اور ان سے فائدہ اٹھانے کی پوری توفیق دے ۔
سفر پر جانے اور واپس آنے کے وقت کی دعائیں
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا دستور تھا کہ جب آپ ﷺ سفر پر جاتے وقت اونٹ پر سوار ہوتے تو پہلے تین دفعہ “اللہ اکبر” کہتے ، اس کے بعد کہتے “سبحان الله تا فى الاهل والمال” (پاک اور مقدس ہے وہ ذات جس نے ہماری سواری کے لئے اپنی اس مخلوق کو مسخر اور ہمارے قابو میں کر دیا ہے ، اور خود ہم میں اس کی طاقت نہ تھی کہ اپنی ذاتی تدبیر و طاقت سے اس طرح قابو یافتہ ہو جاتے (بلکہ اللہ ہی نے اپنے فضل و کرم سے ایسا کر دیا ہے) اور ہم بالآخر اپنے اس مالک کے پاس لوٹ کر جانے والے ہیں ۔ اے اللہ ! ہم استدعا کرتے ہیں تجھ سے اپنے سفر میں نیکوکاری اور پرہیزگاری ، اور ان اعمال کی جو تیری رضا کے باعث ہوں ۔ اے اللہ ! اس سفر کو ہم پر آسان کر دے اور اس کی طوالت کو اپنی قدرت و رحمت سے مختصر کر دے ۔ اے اللہ ! بس تو ہی ہمارا رفیق اور ساتھی ہے اس سفر میں (اور سب سے بڑا سہارا تیری ہی رفاقت کا ہے) اور ہمارے پیچھے تو ہی ہمارے اہل و عیال اور مال و جائیداد کی دیکھ بھال اور نگرانی کرنے والا ہے (اس سلسلہ میں بھی ہمارا اعتماد اور بھروسہ بس تجھ ہی پر ہے) اے اللہ ! میں تیری پنام چاہتا ہوں سفر کی مشقت اور زحمت سے اور اس بات سے کہ اس سفر میں کوئی رنج دِہ بات دیکھوں ، اور اس سفر سے لوٹ کر اہل و عیال یا مال و جائیداد میں کوئی بری بات پاؤں) اور جب آپ ﷺ سفر سے واپس ہوتے تب بھی اس کے حضور میں یہی دعا کرتے ۔ اور آخر میں ان کلمات کا اضافہ کرتے “آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ”(ہم واپس لوٹنے والے ہیں ، توبہ کرنے والے ہیں ، عبادت کرنے والے ہیں ، اپنے پروردگار کی حمد و ستائش کرنے والے ہیں) ۔ (صحیح مسلم) تشریح دیس سے پردیس جانے والے کے لئے بہت سے خطرات اور طرح طرح کے امکانات ہوتے ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے بتایا کہ : سفر کے لئے روانہ ہوتے وقت اللہ سے کیا کیا مانگنا چاہئے نیز یہ کہ ہر سفر کے موقع پر یقینی پیش آنے والے آخرت کے سب سے اہم سفر کو بھی یاد کرنا چاہئے ، اور اس کی تیاری سے غافل نہ ہونا چاہئے ۔ تشریح ..... اس دعا کا ایک ایک جز اپنے اندر بڑی معنویت رکھتا ہے ۔ پہلی بات اس حدیث میں یہ بتائی گئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ اونٹ پر سوار ہونے کے بعد سب سے پہلے تین دفعہ “اللہ اکبر” کہتے تھے ۔ اس زمانہ میں خاص کر اونٹ جیسے سواری پر سوار ہونے کے بعد خود سوار کو اپنی بلندی و برتری کا جو احساس یا وسوسہ پیدا ہو سکتا تھے اسی طرح دیکھنے والوں کے دلوں میں اس کی عظمت و بڑائی کا جو خیال آ سکتا تھا ۔ رسول اللہ ﷺ تین دفعہ “اللہ اکبر” کہہ کے اس پر تین ضربیں لگاتے تھے اور خود اپنے کو اور دوسروں کو جتاتے تھے کہ عظمت و کبریائی بس اللہ کے لئے ہے ۔ اس کے بعد آپ ﷺ کہتے تھے : “سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا، وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ” (پاک اور مقدس ہے وہ ذات جس نے ہمارے لئے اس سواری کو مسخر کر دیا ، ورنہ ہم میں وہ طاقت نہ تھی کہ ایسا کر سکتے) اس میں اس کا مترادت اور اظہار ہے کہ اس سواری کو ہمارے لئے مسخر کر دینا اور ہم کو اس طرح اس کے استعمال کی قدرت دینا بھی اللہ ہی کا کرم ہے ، ہمارا کوئی کمال نہیں ہے ۔ اس کے بعد آپ ﷺ فرماتے ہیں : “وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ” (یعنی جس طرح آج ہم یہ سفر کر رہے ہیں اسی طرح ایک دن اس دنیا سے سفر کر کے ہم اپنے خدا کی طرف جائیں گے جو اصل مقصود و مطلوب ہے ، وہی سفر حقیقی سفر ہو گا اور اس کی فکر اور تیاری سے بندے کو کبھی غافل نہ رہنا چاہئے اس کے بعد سب سے پہلی دعا آپ یہ کرتے کہ : “اے اللہ ! اس سفر میں مجھے نیکی اور پرہیزگاری کی اور ان اعمال کی توفیق دے جن سے تو راضی ہو” ۔ بلاشبہ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے بندوں کے لئے سب سے اہم مسئلہ یہی ہے ، اس لئے ان کی اولین دعا یہی ہونی چاہئے ۔ اس کے بعد آپ ﷺ سفر میں سہولت کی اور سفر جلدی پورا ہو جانے کی دعا کرتے ۔ اس کے بعد آپ اللہ کے حضور میں عرض کرتے : “اللهُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِي السَّفَرِ، وَالْخَلِيفَةُ فِي الْأَهْلِ” (یعنی اے اللہ تو ہی سفر مین میرا حقیقی رفیق و ساتھی ہے اور تریر ہی رفاقت و مدد پر میرا اعتماد ہے اور گھر بار اور اہل و عیال جن کو میں چھوڑ کر جا رہا ہوں ان کا نگہبان اور نگران بھی تو ہی ہے اور تیری ہی نگہبانی پر بھروسہ ہے ۔ ان مثبت دعاؤں کے بعد آپ ﷺ سفر کی مشقت سے یا دورانِ سجر میں یا واپسی پر کسی تکلیف دہ حدثہ کے سامنے آنے سے پناہ مانگتے جس کا حاصل یہی ہے کہ سفر میں بھی تیری رحمت سے عافیت و سہولت نصیب رہے اور واپس آ کر بھی خیر و عافیت دیکھوں) ۔ حدیث کے آخر میں بیان کیا گیا ہے کہ جب واپسی کے لئے آپ ﷺ سفر شروع فرماتے اس وقت بھی اللہ تعالیٰ کے حضور میں آپ ﷺ یہی سب کچھ عرض کتے اور آخر میں یہ کلمات مزید کہتے : “آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ” (یعنی اب ہم واپس ہو رہے ہیں ، اپنے قصوروں اور لغزشوں سے توبہ کرتے ہیں ، ہم اپنے پروردگار اور مالک ومولا کی عبادت اور حمد و ثناء کرتے ہیں) ذرا غور کیا جائے کہ جب سفر کے لئے سواری پر سوار ہوتے وقت رسول اللہ ﷺ کے قلب مبارک کی یہ واردات ہوتی تھیں ، جو ان کلمات ے قالب میں زبانِ مبارک پر جاری ہوتی تھیں ، تو خلوتوں کے خاص اوقات میں کیا حال ہوتا ہو گا ۔ کیسی خوش نصیبی ہے اس امت کی جس کے پاس اس کے نبی کا چھوڑا ہوا ایسا خزانہ محفوظ ہے ، اور کیسی قابلِ عبرت بدنصیبی ہے اس اُمت کے جس کے ۹۹ فیصد افراد یا اس سے بھی زیادہ اس سے بےخبر اور اس لئے اس استفادہ سے محروم ہیں ۔
سفر پر جانے اور واپس آنے کے وقت کی دعائیں
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جو مسلمان اپنے گھر سے نکلے خواہ بارادہ سفر ہو یا بغیر ارادہ سفر ، گھر سے روانگی کے وقت کہے : “آمَنْتُ بِاللهِ تا لَا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ” (میں اللہ پر ایمان لایا ، میں نے اللہ کو مضبوطی سے تھام لیا ، میں نے اللہ پر بھروسا کر لیا اور میں یقین کرتا ہوں کہ کوئی سعی و حرکت اور کوئی قوت و طاقت کام نہیں کر سکتی اللہ کے حکم کے بغیر) تو اس مسلمان کو گھر سے اس نکلنے کا خیر ضرور حاصل ہو گا ، اور اس کے شر سے وہ محفوظ رکھا جائے گا ۔ (مسند احمد)
سفر میں منزل پر اترنے کے وقت کی دعا
خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے : جو شخص اثنائے سفر میں کسی منزل پر اترے اور اس وقت یہ دعا کرے : “أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ” (میں اللہ کے کلمات تامہ کی پناہ لیتا ہوں اس کی ساری مخلوقات کے شر سے) تو جب تک وہ اس منزل سے روانہ ہو ہو جائے گا اس کو کوئی چیز ضرر نہ پہنچا سکے گی ۔ (صحیح مسلم)
کسی بستی میں داخل ہونے کے وقت کی دعا
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر کرتے تھے ۔ آپ ﷺ کا معمول تھا کہ جب وہ بستی دکھائی دیتی جس میں آپ ﷺ جانے کا ارادہ رکھتے تو پہلے تین دفعہ کہتے : “اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِيهَا” (اے اللہ ہمارے لئے اس بستی کو مبارک کر دے) اس کے بعد یہ دعا فرماتے : “اللَّهُمَّ ارْزُقْنَا جَنَاهَا تا وَحَبِّبْ صَالِحِي أَهْلِهَا إِلَيْنَا” (اے اللہ ! اس بستی کی اچھی پیداوار کو ہمارا رزق بنا ، اور ہماری محبت اس بستی والوں کے دل میں ڈال دے اور اس میں جو تیرے صالح بندے ہوں ان کی محبت ہمارے دلوں میں پیدا فرما دے) ۔ (معجم اوسط للطبرانی) تشریح کسی نئی بستی میں جانے والے کے لئے سب سے اہم یہی تین باتیں ہو سکتی ہیں ۔ سبحان اللہ ! کتنی مختصر ، برمحل اور جامع دعا ہے ۔
سفر پر جانے والے کو وصیت اور اس کے لئے دعا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ : میرا ارادہ سفر کا ہے ، حضور ﷺ مجھے کچھ وصیت اورا نصیحت فرمائیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : پہلی وصیت تو یہ ہے کہ اللہ کا خوف اور اس کی ناراضی سے بچنے کی فکر کو لازم پکڑ لو (اس بارے میں ادنیٰ تساہل اور غفلت نہ ہو) اور دوسری بات یاد رکھو کہ اثناءِ سفر میں جب کسی بلندی پر پہنچنا ہو تو “اللہ اکبر” کہو ۔ پھر جب وہ آدمی روانہ ہو گیا تو آپ ﷺ نے دعا دی : “اللَّهُمَّ اطْوِ لَهُ البُعْدَ، وَهَوِّنْ عَلَيْهِ السَّفَرَ” (اے اللہ ! اس کے طولِ مسافت کو سمیٹ کر مختصر کر دے ، اور سفر کو اس کے واسطے آسان فرما دے) ۔ (جامع ترمذی)
سفر پر جانے والے کو وصیت اور اس کے لئے دعا
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : “یا رسول اللہ! میرا ارادہ سفر کا ہے ، آپ ﷺ مجھے “زاد سفر” عنایت فرما دیجئے ؟ (یعنی ایسی دعائیں کر دیجئے جو سفر میں میرے کام آئیں) آپ ﷺ نے فرمایا کہ : اللہ تقویٰ کو تمہارا زاد سفر بنائے (اور تمہیں پورے سفر میں یہ دولت نصیب رہے) اس شخص نے عرض کیا : حضرت ﷺ ! اس میں اور اضافہ فرمائیے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اور تمہارے گناہوں کی اللہ مغفرت فرمائے ۔ اس نے پھر عرض کیا : میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان , اس میں اور اجافہ فرمائیے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اور جہاں بھی تم پہنچو ، اللہ تعالیٰ خیر اور بھلائی تمہارے لئے میسر فرمائے” ۔ (جامع ترمذی)
سفر پر جانے والے کو وصیت اور اس کے لئے دعا
حضرت عبداللہ الخطمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا کہ آپ ﷺ لشکر کو رخصت کرتے وقت فرماتے : “أَسْتَوْدِعُ اللَّهَ دِينَكُمْ وَأَمَانَتَكُمْ وَخَوَاتِيمَ أَعْمَالِكُمْ” (میں اللہ کے سپرد کرتا ہوں تمہارے دین کو اور تمہاری صفت امانت کو ، اور تمہارے آخری اعمال کو) ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح یہاں “امانت” سے مراد انسان کے دل کی وہ خاص صفت اور کیفیت ہے ، جو اس سے تقاضا کرتی ہے کہ وہ اللہ کے اور اس کے بندوں کے حقوق صحیح طور پر ادا کرے ۔ مختصر لفظوں میں اس کو “بندگی کی ذمہ داریوں کے احساس” سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ۔ مؤمن کی خاص پونجی اس کی یہ صفت امانت اور اس کا دینی اور اعمال ہیں ، اس لئے رسول اللہ ﷺ لشکر کو رخصت کرتے وقت مجاہدین کی ان چیزوں کو خاص طور سے اللہ کی سپردگی میں دیتے تھے اور دعا فرماتے تھے کہ وہ ان کی حفاظت فرمائے ۔ اسی طرح کسی شخص کو رخصت کرتے وقت بھی آپ ﷺ کا معمول تھا کہ آپ ﷺ اس کا ہاتھ اپنے دستِ مبارک میں لے لیتے اور فرماتے : “أَسْتَوْدِعُ اللَّهَ دِينَكَ وَأَمَانَتَكَ وَآخِرُ عَمَلِكَ” (تمہارے دین تمہارے امانت اور خاتمہ والے اعمال کو میں خدا کے سپرد کرتا ہوں ، وہ ان کی حفاظت فرمائے) ۔ رواہ الترمذی عن ابن عمر ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی کو رخصت کرنے کے وقت مصافحہ فرمانا بھی آپ ﷺ کا معمول تھا ۔ واللہ اعلم ۔
سخت خطرے کے وقت کی دعا
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگوں نے غزوہ خندق کے دن رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا : حضرتﷺ ! کیا اس نازک وقت کے لئے کوئی خاص دعا ہے ، جو ہم اللہ کے حضور میں عرض کریں ، حالت یہ ہے کہ ہمارے دل مارے دہشت کے اچھل اچھل کے گلوں میں آ رہے ہیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں ! اللہ کے حضور میں یوں عرض کرو : “اللهُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِنَا، وَآمِنْ رَوْعَاتِنَا” (اے اللہ ! ہماری پردہ داری فرما اور ہماری گھبراہٹ کو بےخوفی اور اطمینان سے بدل دے) ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : پھر اللہ نے آندھی بھیج کر دشمنوں کے منہ پھیر دئیے اور اس آندھی ہی سے اللہ نے ان کو شکست دی ۔ (مسند احمد) تشریح رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے اصحابِ کرام رضی اللہ عنہم پر جو سخت سے سخت دن گزرے ہیں ان میں غزوہ خندق کے بعض ایام بھی تھے ، جن کا ذِکر قرآن مجید میں بھی اس طرح کیا گیا ہے : إِذْ جَاءُوكُم مِّن فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنكُمْ وَإِذْ زَاغَتِ الْأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِاللَّـهِ الظُّنُونَا ﴿١٠﴾ هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِيدًا (الاحزاب ،۳۳:۱۰،۱۱) جب آ گئے دشمنوں کے لشکر تمہارے اوپر کی جانب سے اور نیچے کی طرف سے اور جب آنکھیں پھر گئیں اور دل مارے دہشت کے گلوں تک پہنچ گئے اور تم خدا کی نسبت طرح طرح کے گمان کرنے لگے اس وقت اہلِ ایمان بڑی آزمائش میں پڑے اور سخت طریقے سے ہلا ڈالے گئے ۔ انہی حالات میں ایک دن حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے حضور ﷺ سے وہ درخواست کی تھی جس کا حدیث میں ذکر کیا گیا ہے ، اور رسول اللہ ﷺ نے یہ مختصر دعا تلقین فرمائی تھی : “اللهُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِنَا، وَآمِنْ رَوْعَاتِنَا” اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی آندھی بھیجی گئی جس نے سارے لشکر کو تِتر بِتر کر دیا ، اور وہ بھاگنے پر مجبور ہوئے ۔
سخت خطرے کے وقت کی دعا
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو جب کسی دشمن گروہ کے حملہ کا خطرہ ہوتا تھا تو آپ ﷺ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے تھے : “اللهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُورِهِمْ وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُورِهِمْ” اے اللہ ! ہم تجھے ان دشمنوں کے مقابلے میں کرتے ہیں تو ان کو دفع فرما ، اور ان کے شر سے تیری پناہ مانگتے ہیحں ۔ (مسند احمد ، سنن ابی داؤد)
فکر اور پریشانی کے وقت کی دعا
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو جب کوئی پریشانی لاحق ہوتی تو زبانِ مبارک پر یہ کلمات جاری ہوتے : “لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ الْعَظِيمُ الْحَلِيمُ تا رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ” (کوئی مالک و معبود نہیں اللہ کے سوا ، وہ بڑی عظمت والا اور حلیم ہے ، کوئی مالک و معبود نہیں اللہ کے سوا ، وہ رب العرش العظیم ہے ، کوئی مالک و معبود نہیں اللہ کے سوا ، وہ رب السمٰوات والارض اور رب العرش الکریم ہے) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
فکر اور پریشانی کے وقت کی دعا
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو جب کوئی فکر اور پریشانی لاحق ہوتی تو آپ ﷺ کی یہ دعا ہوتی تھی : “يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغِيثُ” (اے حی و قیوم ! بس تیری رحمت سے مدد چاہتا ہوں) اور دوسروں سے فرماتے : “أَلِظُّوابِيَا ذَا الْجَلاَلِ وَالإِكْرَامِ” (یا ذالجلال والاکرام سے چمٹے رہو) یعنی اس کلمہ کے ذریعہ اللہ سے استغاثہ اور فریاد کرتے رہو ۔ (جامع ترمذی)
فکر اور پریشانی کے وقت کی دعا
حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے ارشاد فرمایا : “میں تمہیں ایسے کلمے بتا دوں جو پریشانی اور فکر کے وقت تم کہا کرو ۔ (ان شاء اللہ وہ تمہارے لئے باعث سکون ہوں گے) “اللَّهُ اللَّهُ رَبِّي لاَ أُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا” (اللہ اللہ وہی میرا رب ہے ، میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتی)” ۔
فکر اور پریشانی کے وقت کی دعا
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس آدمی کو پریشانی اور فکر زیادہ ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اللہ کے حضور میں اوس طرح عرض کرے : “اللهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ تا وَجِلَاءَ هَمِّي وَغَمِّىْ” (اے اللہ ! میں بندہ ہوں تیرا اور بیٹا ہوں تیرے ایک بندے کا اور تیری ایک بندی کا ، اور بالکل تیرے قبضہ میں ہوں اور ہمہ تن تیرے دست قدرت میں ہوں ، نافذ ہے میرے بارے میں تیرا حکم اور عین عدل ہے میرے بارے میں تیرا ہر فیصلہ ، میں تجھ سے تیرے ہر اس اسم پاک کے واسطے سے جس سے تو نے اپنی مقدس ذات کو موسوم کیا ہے یا اپنی کسی کتاب میں اس کو نازل فرمایا ہے ، یا اپنے خاص مخفی خزانہ غیب ہی میں اس کو محفوظ رکھا ہے ۔ استدعا کرتا ہوں کہ قرآنِ عظیم کو میرے دل کی بہار بنا دے ، اور میری فکروں اور میرے غموں کو اس کی برکت سے دور فرما دے) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمای کہ : “جو بندہ بھی ان کلمات کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی فکروں اور پریشانیوں کو دور فرما کر ضرور بالضرور اس کو کشادگی عطا فرما دے گا” ۔ (رزین) تشریح رسول اللہ ﷺ کی تعلیم فرمودہ اس دعا کی ایک ایک کلمہ عبدیت کی کیفیت سے لبریز ہے ۔ سب سے پہلے اپنی اور اپنے ماں باپ کی بندگی اور عبدیت کا اظہار و اعتراف کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ میں تیرا بندہ ہوں ، میرا باپ بھی تیرا بندہ اور میری ماں بھی تیری بندی تھی یعنی میں تیرا پشیتنی بندہ ہوں ، تو میرا مالک و رب ہے اور میرے ماں باپ کا بھی مالک و رب ہے ۔ اور میں ہمہ تن تیرے قبضہ میں ہوں میرے لیے جو بھی تیرا فیصلہ ہے وہ برحق ہے اور نافذ ہونے والا ہے ، مجھے اور کسی کو بھی چون و چرا کی مجال نہیں ہے ۔ اس کے بعد کہا گیا ہے کہ میرے پاس کوئی ایسا عمل اور کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کی بنا پر تجھ سے کچھ مانگنے کا مجھے حق ہو ، اس لئے تیرے ہی ان اسماء پاک کے واسطے سے جن سے تو نے اپنی ذاتِ پاک کو موسوم کیا ہے یا جو تیری کتابوں میں بتائے گئے ہیں یا جو صرف تیرے ہی علم میں ہیں اور جنہیں تیرے سوا کوئی نہیں جانتا ، تجھ سے استدعا کرتا ہوں کہ اپنے قرآنِ پاک کو میرے دل کی بہار بنا دے اور میری فکریں اور پریشانیاں اس کی برکت سے دور فرما دے ۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ : “جب بندہ اس طرح دعا کرے گا تو اس کی فکریں اور پریشانیاں ضرور بالضرور دور فرما دی جائیں گی” ۔
مصائب اور مشکلات کے وقت کی دعائیں
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “ذوالنون (اللہ کے پیغمبر یونس علیہ السلام) جب سمندر کی ایک مچھلی کا لقمہ بن کر اس کے پیٹ میں پہنچ گئے تھے تو اس وقت اللہ کے حضور میں ان کی دعا اور پکار یہ تھی : “لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ” (میرے مولا تیرے سوا کوئی معبود نہیں جس سے رحم و کرم کی درخواست اور مدد کی التجا کروں تو پاک اور مقدس ہے تیری طرف سے کوئی ظلم و زیادتی نہیں میں ہی ظالم اور پاپی ہوں) جو مسلمان بندہ اپنے کسی معاملہ اور مشکل میں ان کلمات کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرے گا ، اللہ تعالیٰ اس کو قبول ہی فرمائے گا ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی ، سنن نسائی) تشریح اس دنیا میں انسانوں کو بعض اوقات بڑے مصائب اور مشکلات سے سابقہ پڑتا ہے ، اس میں خیر کا خاص پہلو یہ ہے کہ ان ابتلاءات اور مجاہدات کے ذریعہ اہل ایمان کی تربیت ہوتی ہے اور یہ ان کے لئے انابت الی اللہ اور رتعلق باللہ میں ترقی کا وسیلہ بنتے ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے ایسے مواقع کے لئے جو دعائیں تعلیم فرمائیں ہیں وہ مصائب و مشکلات سے نجات کا وسیلہ بھی ہیں اور قرب خداوندی کا ذریعہ بھی ۔ ان میں سے شند دعائیں ذیل میں پڑھئے۔ تشریح ..... حضرت یونس علیہ السلام کی یہ دعا قرآن مجید (سورہ انبیاء) میں انہی الفاظ میں مذکور ہوئی ہے ۔ بظاہر تو اس مین صرف اللہ کی توحید و تسبیح اور اپنے قصور وار ، خطاکار ہونے کا اعتراف ہے لیکن فی الحقیقت یہ اللہ کے حضور میں اظہارِ ندامت اور استغفار و انابت کا بہترین انداز ہے ، اور اس میں اللہ کی رحمت کو کھینچ لینے کی خاص تاثیر ہے ۔
مصائب اور مشکلات کے وقت کی دعائیں
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “جب کوئی بھاری اور بہت مشکل معاملہ پیش آ جائے تو کہو “حَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ” (اور وہی سب کام سپرد کرنے کے لیے اچھا ہے) ۔ (ابن مردویہ) تشریح یہ بھی قرآن مجید کا خاص کلمہ ہے ۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب ان کی قوم کے بت پرستوں نے آگ کے ڈھیر میں ڈالا تو ان کی زبانِ مبارک پر یہی کلمہ تھا : “حَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ” مصائب و مشکلات کے موقع پر ہر بندہ مومن کا یہی نعرہ ہونا چاہئے ۔
مصائب اور مشکلات کے وقت کی دعائیں
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو بندہ (کسی سخت مشکل اور پریشانی میں مبتلا ہو اور) اللہ کے حضور میں عرض کرے : “اللَّهُمَّ رَبَّ السَّمَوَاتِ السَّبْعِ، وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، اكْفِنِي كُلَّ هَمٍّ مِنْ حَيْثُ شِئْتَ، وَكَيْفَ شِئْتَ، وَمِنْ أَيْنَ شِئْتَ” (اے میرے اللہ ! ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کے مالک ! میری مہمات و مشکلات حل کرنے کے لئے تو کافی ہو جا اور حل کر دے جس طرح تو چاہے اور جہاں سے تو چاہے) تو اللہ اس کی مشکل کو حل کر کے پریشانی سے اس کو نجات عطا فرما دے گا ۔ (مکارم الاخلاق خرائطی)
مصائب اور مشکلات کے وقت کی دعائیں
حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے ارشاد فرمایا : اے علیؓ ! جب تمہیں کسی پریشانی اور مصیبت کا سامنا ہو تو اللہ سے اس طرح دعا کرو : “اللَّهُمَّ احرسني بِعَيْنِك الَّتِي تا فِي نحور الْأَعْدَاء والجبارين” (اے اللہ ! اپنی اس آنکھ سے میری نگہبانی فرما جو کبھی نیند اور اونگھ سے آشنا نہیں ہوتی ، اور مجھے اپنی اس حفاظت میں لے لے جس کے قریب جانے کا بھی کوئی ارادہ نہیں کر سکتا ، اور مجھ مسکین و گناہگار بندے پر تجھے جو قدرت اور دسترس حاصل ہے اس کے صدقہ میں تو میرے گناہ معاف فرما دے کہ میں ہلاکت و بربادی سے بچ جاؤں تو ہی میری امیدوں کا مرکز ہے ۔ اے میرے مالک و پروردگار ! تو نے مجھے کتنی ہی ایسی نعمتوں سے نوازا جن کا شکر مجھ سے بہت ہی کم ادا ہو سکا ، اور کتنی ہی آزمائشوں میں مبتلا کیا گیا اور ان آزمائشوں کے وقت مجھ سے صبر میں بڑی کمی اور کوتاہی ہوئی ۔ پس اے میرے وہ کریم رب ، جس کی نعمتں کا شکر ادا کرنے میں میں نے کوتاہی کی وت اس نے مجھے نعمتوں سے محروم کرنے کا فیصلہ نہیں کیا (بلکہ میری اس کوتاہی کے باوجود اپنی نعمتیں مجھ پر انڈیلتا رہا) اور آزمائشوں میں صبر سے میرے قاصر رہنے کے باوجود اس نے مجھے اپنی نگاہِ کرم سے نہیں گرایا (بلکہ میری بےصبری کے باوجود مجھ پر کرم فرماتا رہا) اور اے میرے وہ کریم رب جس نے مجھے معصیتیں کرتے ہوئے خود دیکھا مگر اپنی مخلوق کے سامنے مجھے رسوا نہیں کیا (بلکہ مجھ گنہگار کی پردہ داری فرمائی) اے ہمیشہ اور تا ابد احسان و کرم فرمانے والے اور بےشمار و بےحساب نعمتوں سے نوازنے والے پروردگار ! میں تجھ سے استدعا کرتا ہوں کہ اپنے بندے اور پیغمبر حضرت محمدﷺ پر اور ان کے خاص متعلقین پر اپنی رحمتیں نازل فرما ۔ خداوندا ! میں تیرے ہی زور پر اور تیرے ہی بھروسہ پر مقابلہ میں آتا ہوں دشمنوں اور جباروں کے ۔ (مسند فردوس دیلمی) تشریح رسول اللہ ﷺ کی تعلیم فرمائی ہوئی اس دعا کے ایک ایک کلمہ میں غور کیا جائے ، اس کا ہر جملہ عبدیت کی روح سے لبریز ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان حقائق کا فہم اور ان کی قدر اور نفع اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے ۔
حاکم وقت کے ظلم سے حفاظت کی دعا
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کو حاکمِ وقت کے ظلم و عدوان کا خطرہ ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ اللہ سے یوں دعا کرے : “اللهُمَّ رَبَّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ تا وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ” (اے اللہ ! ہفت افلاک اور عرشِ عظیم کے مالک ! فلاں ابن فلاں (حاکم) کے شر سے اور سارے شریر انسانوں اور جنوں اور ان کے چیلوں کے شر سے میری حفاظت فرما ، اور مجھے اپنی پناہ میں لے ، کہ ان میں سے کوئی مجھ پر ظلم و زیادتی نہ کر سکے ۔ جو تیری پناہ میں ہے وہ باعزت ہے ، تیری ثناء و صفت باعظمت ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں ، صرف تو ہی معبودِ برحق ہے) ۔ (معجم کبیر طبرانی) تشریح بسا اوقات انسان خاص کر حق پرست انسان کو ایسے مواقع پیش آتے ہیں کہ وہ وقت کے اربابِ اقتدار کے غصہ اور ناراضی کا نشانہ بن جاتا ہے ، اور ان کے ظلم و عدوان کا خطرہ فطری طور پر اس کے لئے فکر و پریشانی کا باعث ہوتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے لئے مستقل طور سے دعا تعلیم فرمائی ۔
قرض اور تنگ حالی سے نجات کی دعا
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف لائے تو ایک انصاری کو (جن کا نام ابو امامہ تھا) آپ ﷺ نے مسجد میں بیٹھے دیکھا ، آپ ﷺ نے انؓ سے فرمایا : کیا بات ہے کہ تم اس وقت جب کہ کسی نماز کا وقت نہیں ہے مسجد میں بیٹھے ہو ؟ انہوںؓ نے عرض کیا : حضرتﷺ مجھ پر بہت سے قرضوں کا بوجھ ہے اور فکروں نے مجھے گھیر رکھا ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : میں تمہیں ایسا دعائیہ کلمہ بتا دوں جس کے ذریعے دعا کرنے سے اللہ تعالیٰ تمہیں ساری فکروں سے نجات دے دے اور تمہارے قرضے بھی ادا کر دے ؟ (ابو امامہؓ نے بیان کیا کہ) میں نے عرض کیا : حضرتﷺ ! ضرور بتا دیں ۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : تم صبح و شام اللہ تعالیٰ کے حضور میں عرض کیا کرو : “اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْهَمِّ تا وَقَهْرِ الرِّجَالِ” (اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں فکر اور غم سے اور نکمے پن اور ٹھول پنے سے ، اور سستی و کاہلی سے ، اور بزدلی و کنجوسی سے ، اور پناہ مانگتا ہوں قرضے کے بار کے غالب آ جانے سے اور لوگوں کے دباؤ سے) ابو امامہؓ نے بیان کیا ککہ : میں نے رسول اللہ ﷺ کی اس ہدایت پر عمل کیا (اور اس دعا کو اپنا صبح و شام کا معمول بنا لیا) تو خدا کے فضل سے میری ساری فکریں ختم ہو گئیں ، اور میرا قرض بھی ادا ہو گیا ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح یہ صاحب واقعہ ابو امامہ مشہور صحابی ابو امامہ باہلیؓ کے علاوہ دوسرے صحابی ہیں ۔
قرض اور تنگ حالی سے نجات کی دعا
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مکاتب ان کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ : میں زرِ کتابت ادا کرنے سے عاجز ہو رہا ہوں آپ اوس میں میری مدد کر دیجئے ؟ آپ نے فرمایا : میں تم کو وہ دعائیہ کلمات نہ بتا دوں جو مجھے رسول اللہ ﷺ نے تعلیم فرمائے تھے ، اگر تم پر کسی بڑے پہاڑ کے برابر بھی قرضہ ہو گا تو اس دعا کی برکت سے اور اللہ کے حکم سے وہ ادا ہو جائے گا (وہ مختصر دعا یہ ہے) : “اللَّهُمَّ اكْفِنِي بِحَلاَلِكَ عَنْ حَرَامِكَ وَأَغْنِنِي بِفَضْلِكَ عَمَّنْ سِوَاكَ” (اے میرے اللہ ! مجھے حلال طریقے سے اتنی روزی دے جو میرے لئے کافی ہو اور حرام کی ضرورت نہ ہو ، اور اپنے فضل و کرم سے مجھے اپنے ماسوا سے بےنیاز کر دے) ۔ (جامع ترمذی ، دعوات کبیر للبیہقی) تشریح “مکاتب” اس غلام کو کہا جاتا ہے جس کے آقا نے اس کے بارے میں طے کر دیا ہو کہ تم اتنی رقم ادا کر دو تو آزاد ہو ، ایسا غلام جب وہ معینہ رقم ادا کر دے گا تو آزاد ہو جائے گا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت م یں اسی طرح کوئی بےچارہ مکاتب آیا تھا جو زرِ کتابت ادا کرنے سے عاجز ہو رہا تھا ، آپؓ اس وقت رقم سے تو اس کی کوئی مدد نہیں کر سکے لیکن اسی مقصد کے لئے ایک خاص دعا آپؓ نے اس کو تعلیم فرما دی جو رسول اللہ ﷺ نے آپؓ کو تعلیم فرمائی تھی ۔ معلوم ہوا کہ ضرورت مند سائل کی اگر روپیہ پیسہ سے کسی وقت مدد نہ کی جا سکے تو اس کو اس طرح کی دعا ہی کی طرف رہنمائی کر دی جائے ، یہ بھی اعانت اور خدمت کی ایک صورت ہے ۔
خوشی اور غم کے وقت کی دعا
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کوئی ایسی بات دیکھتے جس سے آپ ﷺ کو مسرت اور خوشی ہوتی تو کہتے : “الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي بِنِعْمَتِهِ تَتِمُّ الصَّالِحَاتُ” (حمد و ستائش اس اللہ کے لئے جس کے فضل و احسان سے اچھائیاں تکمیل پاتی ہیں) اور جب کوئی ایسی بات دیکھتے جو آپ ﷺ کو ناپسند اور ناگوار ہوتی تو کہتے : “الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ” (ہر حال میں اللہ کی حمد اور اس کا شکر) ۔ (ابن النجار) تشریح اس دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے چاہے اس میں ہمارے لئے مسرت اور خوشی کا سامان ہو یا رنج و غم کا وہ سب بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور اس کے حکم سے ہوتا ہے ، اور وہ حکیم مطلق ہے اس کا کوئی فیصلہ حکمت سے خالی نہیں ، اس لئے وہ ہر حال میں حمد و ستائش کا مستحق ہے ۔
غصہ کے وقت کی دعا
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں دو آدمیوں کے درمیان کچھ سخت کلامی ہو گئی ، یہاں تک کہ ان میں سے ایک کے چہرہ پر غصہ کے آثار محسوس ہو گئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں جانتا ہوں ایک دعائیہ کلمہ ، اگر یہ آدمی اس وقت وہ کہہ لے تو اس کا غصہ ٹھنڈا پڑ جائے گا ، وہ کلمہ ہے ۔ “أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيم” ۔ (جامع ترمذی) تشریح بلاشبہ اگر آدمی شعور اور دعا کی کیفیت کے ساتھ غصہ کی حالت میں بھی یہ کلمہ کہے اور اللہ سے پناہ طلب کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے غصہ کی آگ کو ٹھنڈا کر دے گا ، اور وہ غصہ کے نتائج بد سے محفوظ رہے گا ۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے : وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّـهِ ۖإِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ اور اگر (کسی وقت شیطان کی طرف سے وسوسہ اندازی ہو (اور اس سے تمہارے اندر غصہ کی آگ بھڑک اٹھے) تو اللہ کی پناہ مانگو ، وہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے (وہ تمہیں پناہ دے گا) ۔ لیکن یہ بھی واقعہ ہے کہ غصہ کی بحرانی کیفیت میں جب آدمی سنجیدگی اور توازن اور اچھائی برائی کا احساس کھو بیٹھتا ہے تو بہت ہی کم ایسا ہوتا ہے کہ یہ باتیں اسے یاد آئیں ۔ ایسے وقت میں خیر خواہوں کو چاہئے کہ وہ حکمت سے اس کو اس طرف متوجہ کریں اور رسول اللہ ﷺ کی یہ زریں ہدایت یاد دلائیں ۔
عیادت کے وقت کی دعائیں
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب ہم میں سے کوئی آدمی بیمار ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اپنا داہنا ہاتھ اس کے جسم پر پھیرتے اور یہ دعا پڑھتے : “أَذْهِبِ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ الخ” (اے سب آدمیوں کے پروردگار ! اس بندے کی تکلیف دور فرما دے اور شفا عطا فرما دے ، تو ہی شفا دینے والا ہے ، بس تیری ہی شفا شفا ہے ، ایسی کامل شفا عطا فرما جو بیماری کا اثر بالکل نہ چھوڑے) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح بیماروں کی عیادت اور خدمت کو رسول اللہ ﷺ نے اونچے درجہ کی نیکی اور ایک طرح کی مقبول ترین عبادت قرار دیا ہے اور اس کی بڑی ترغیب دی ہے ، نیز اپنے عمل اور ارشادات سے اس کی تعلیم دی ہے کہ جب کسی مریض کی عیادت کی جائے تو اس کے لئے دعائے صحت بھی کی جائے ۔ ظاہر ہے کہ اس سے اس کو تسلی بھی ہو گی اسی سلسلہ معارف الحدیث کی تیسری جلد میں “کتاب الجنائز” کے ذیل میں اس سلسلہ کی متعدد حدیثیں درج کی جا چکی ہیں یہاں کتاب الدعوات میں بھی بعض حدیثوں کے اضافہ کے ساتھ ان کو درج کیا جا رہا ہے ۔
عیادت کے وقت کی دعائیں
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (رسول اللہ ﷺ ایک دفعہ کچھ بیمار ہوئے تو) جبرئیل امینؑ نے یہ دعا پڑھ کے جھاڑا : “بِاسْمِ اللَّهِ أَرْقِيكَ مِنْ كُلِّ شيء يُؤْذِيكَ مِنْ شَرِّ كُلِّ نَفْسٍ أَوْ عَيْنِ حَاسِدٍ اللَّهُ يَشْفِيكَ بِاسْمِ اللَّهِ أَرْقِيكَ” (میں اللہ کے نام سے تمہیں جھاڑتا ہوں ، ہر اس چیز سے جو تمہیں ایذا پہنچائے ، اور ہر نفس اور ھاسد کے شر سے اللہ تم کو شفا دے ، میں اللہ کے نام سے تمہیں جھاڑتا پھونکتا ہوں) ۔ (صحیح مسلم)
عیادت کے وقت کی دعائیں
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب خود بیمار ہوتے تو معوذاب پڑھ کر اپنے اوپر دم فرماتے اور خود اپنا دستِ مبارک اپنے جسم پر پھیرتے پھر جب آپ ﷺ کو وہ بیماریی لاحق ہوئی جس میں آپ ﷺ نے وفات پائی تو میں وہی معوذات پڑھ کر آپ پر دم کرتی جن کو پڑھ کر آپ ﷺ دم کیا کرتے تھے ، اور آپ ﷺ کا دستِ مبارک آپ ﷺ کے جسم پر پھیرتی ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں “معوذات” سے مراد بظاہر سورہ “قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ” اور “قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ” ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ دعائیں مراد ہوں جن میں اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگی جاتی ہے اور جو آپ ﷺ بیماروں پر پڑھ کر اکثر دم کیا کرتے تھے ۔ اس طرح کی بعض دعائیں اوپر بھی بعض حدیثوں میں آ چکی ہیں ۔
چھینک آنے کے وقت کی دعا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو اس کو چاہئے کہ کہے : “الحمدلله” (اللہ کی حمد اور اس کا شکر) اور جو بھائی اس کے پاس ہوں ، انہیں جواب میں کہنا چاہئے : “يَرْحَمُكَ اللهُ” (تم پر اللہ کی رحمت ہو) اور جب وہ یہ کہیں تو چھینکنے والے کو چاہئے کہ وہ جواب الجواب کے طور پر کہے : “يَهْدِيكُمُ اللَّهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ” (اللہ تم کو صحیح راہ پر چلائے اور تمہارا حال درست فرمائے) ۔ (صحیح بخاری) تشریح آدمی کو چھیک آ جانے کی بظاہر کوئی اہمیت نہیں ، لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس موقع کے لئے بھی دعا تلقین فرمائی ، اور اس کو بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق بڑھانے کا ذریعہ بنا دیا ۔ چھینک اگر زکام وغیرہ کسی بیماری کی وجہ سے نہ ہو تو دماغ کی صفائی اور اس کے ہلکے ہونے کا ذریعہ ہے ۔ جو مادہ چھینک کے ذریعہ خارج ہوتا ہے اگر وہ خارج نہ ہو تو طرح طرح کی دماغی بیماریاں پیدا ہو سکتی ہیں ، اس لئے بندے کو چاہئے کہ چھینک آنے پر اللہ کی حمد اور اس کا شکر ادا کرے ، اور کم از کم الحمدللہ کہے ۔ بعض روایات میں اس موقع کے لئے “الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ” اور بعض دوسری روایات میں “الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ” بھی وارد ہوا ہے ۔ اس لئے ان میں سے ہر کلمہ کہا جا سکتا ہے ۔ سننے والوں کو اس کے جواب میں “يَرْحَمُكَ اللَّهُ” کہنا چاہئے ۔ یہ چھینکنے والے کے حق میں دُعائے خیر ہو گی ، اس کا جواب چھینکنے والے کو بھی دعائے خیر سے دینا چاہئے ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے لئے “يَهْدِيكُمُ اللَّهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ” تعلیم فرمایا ۔ قربان اس تعلیم کے ، ایک چھینک کو خود چھینکنے والے کے لئے اور اس کے پاس والوں کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کو تازہ کرنے کا اور بڑھانے کا کیسا ذریعہ بنایا ۔ اگر کسی کو نزلہ اور زکام کی وجہ سے مسلسل چھینکیں آتی ہوں تو اس صورت میں نہ چھینکنے والا ہر دفعہ “الْحَمْدُ لِلَّهِ” کہنے کا مکلف ہے ، نہ سننے والے کو ہر دفعہ “يَرْحَمُكَ اللَّهُ” کہنے کا حکم ہے ۔
چھینک آنے کے وقت کی دعا
حضرت سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص کو رسول اللہ ﷺ کے سامنے چھینک آئی تو آپ ﷺ نے “يَرْحَمُكَ اللَّهُ” فرمایا ۔ وہ پھر چھینکا تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس آدمی کو زکام ہے (اس لئے ہر دفعہ يَرْحَمُكَ اللَّهُ کہنا ضروری نہیں) ۔ (صحیح مسلم) تشریح اور جامع ترمذی کی ایک روایت میں ہے کہ یہ بات حضور ﷺ نے اس وقت فرمائی جب اس آدمی کو تیسری دفعہ چھینک آئی ۔ ایک دوسرے صحابی عبید ابن ابی رفاعہ سے رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد بھی مروی ہے ۔ شَمِّتِ العَاطِسُ ثَلَاثًا، فَمَا زَادَ فَإِنْ شِئْتَ فَشَمِّتْهُ وَإِنْ شِئْتَ فَلَا چھینکنے والے کو تین دفعہ تک تو یرحمک اللہ کہو اس کے آگے کہو چاہے نہ کہو ۔ (رواہ ابو داؤد والترمذی)
چھینک آنے کے وقت کی دعا
حضرت عبداللہ بن عمر کے خادم نافع سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمر کے پاس ایک شخص بیٹھا تھا ، اسے چھینک آئی تو اس نے کہا : “الْحَمْدُ لِلَّهِ وَالسَّلاَمُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ” تو حضرت ابن عمر نے فرمایا : میں بھی کہتا ہوں “الْحَمْدُ لِلَّهِ وَالسَّلاَمُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ” یعنی یہ کلمہ فی نفسہ بڑا مبارک ہے ، اس میں اللہ کی حمد ہے اور رسول اللہ ﷺ پر سلام ہے ، لیکن اس موقع پر یہ کہنا صحیح نہیں ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس موقع کے لئے ہمیں تعلیم دی ہے کہ “الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ” کہیں ۔ (جامع ترمذی) تشریح حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد ایک بڑی اہم اور اصولی بات معلوم ہوئی کہ رسول اللہ ﷺ نے خاص مواقع کے لئے جو اذکار تعلیم فرمائے ہیں ان میں صلوٰۃ و سلام کا اضافہ بھی ٹھیک نہیں ہے ۔ اگرچہ وہ فی نفسہ بہت مبارک ہے ۔ اللہ تعالیٰ رسول اللہ ﷺ کی پوری قدر شناسی و احسان مندی اور کامل اتباع نصیب فرمائے ۔
بادل گرجنے اور بجلی چمکنے کے وقت کی دعا
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب بادلوں کی گرج اور بجلیوں کی کڑک سنتے تو اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے : “اللَّهُمَّ لاَ تَقْتُلْنَا بِغَضَبِكَ وَلاَ تُهْلِكْنَا بِعَذَابِكَ وَعَافِنَا قَبْلَ ذَلِكَ” (اے اللہ ! ہمیں اپنے غضب سے ختم نہ کر ، اور اپنے عذاب سے ہمیں ہلاک نہ کر ، اور ہمیں اس سے پہلے عافیت دے) ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی) تشریح بلاشبہ بادل کی گرج اور بجلی کی کڑک اور چمک اللہ تعالیٰ کے جلال کے مظہر ہیں ، اور جب خدا پرست بندہ ان سے دوچار ہو تو پوری عاجزی کے ساتھ اس کو اللہ تعالیٰ سے رحم و کرم اور عافیت کی دعا کرنی چاہئے ۔ یہی رسول اللہ ﷺ کی تعلیم اور آپ ﷺ کا اسوہ حسنہ ہے ۔
آندھی اور تیز و تند ہوا کے وقت کی دعا
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب کبھی تیز ہوا چلتی تھی تو رسول اللہ ﷺ اپنے زانوؤں کے بل اللہ تعالیٰ کے حضور میں جھک جاتے اور دعا کرتے تھے کہ : “اے اللہ ! یہ ہوا ہمارے حق میں رحمت اور سامانِ حیات ہو ، عذاب اور سامانِ ہلاکت نہ ہو ۔ یہ وہ نہ ہو جس کو قرآن نے “ریح” کہا ہے ، وہ ہو جس کو “ریاح” کہا ہے” ۔ (مسند شافعی والبیہقی فی الدعوات الکبیر) تشریح تیز و تند ہوائیں اور آندھیاں کبھی عذاب بن کر آتی ہیں اور کبھی رحمت الٰہی (یعنی بارش کا مقدمہ بن کر ، اس لئے خداشناس اور خدا پرست بندوں کو چاہئے کہ جب اس طرح کی ہوائیں چلیں تو وہ جلالِ خداوندی کے خطرے کو محسوس کرتے ہوئے دعا کریں کہ یہ ہوائیں شر اور ہلاکت کا ذریعہ نہ بنیں بلکہ رحمت کا وسیلہ بنیں ۔ یہی رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا ۔ قرآن مجید کی بعض آیات میں اس ہوا کو جو کسی قوم کو ہلاک کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجی گئی “ریح” کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ، اور بعض دوسری آیات میں ان ہواؤں کے لئے جو رحمت بن کر آتی ہیں “ریاح” کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔ اسی بناء پر رسول اللہ ﷺ تیز ہوا کے وقت یہ دعا بھی فرماتے تھے کہ ۔ “اے اللہ ! یہ “ریح” یعنی عذاب والی ہوا نہ ہو بلکہ “ریاح” یعنی رحمت والی ہوا ہو” ۔
آندھی اور تیز و تند ہوا کے وقت کی دعا
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا جب تیز و تند ہوا چلتی اور آندھی کی کیفیت ہوتی تو اس طرح دعا کرتے : “اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ تا وَشَرِّ مَا أُرْسِلَتْ بِهِ” (اے اللہ ! میں تجھ سے مانگتا ہوں اس ہوا کی خیر و برکت اور اس ہوا میں جو کچھ مضمر ہے اور جس کے ساتھ وہ بھیجی جا رہی ہے اس کی خیر و برکت اور میں پناہ مانگتا ہوں تجھ سے اس ہوا کے شر سے اور جو کچھ اس میں مضمر ہے اور جس کے ساتھ وہ بھیجی گئی ہے اس کے شر اور برے اثرات سے) اور جب آسمان پر ابر گھر کے آتا (جس میں خیر و شر اور رحمت و عذاب کے دونوں پہلو ہو سکتے ہیں) تو اللہ کے قہر و جلال کے خوف سے رسول اللہ ﷺ کا یہ حال ہو جاتا کہ آپ ﷺ کا رنگ بدل جاتا ، کبھی باہر جاتے کبھی اندر آتے ، کبھی آگے بڑھتے کبھی پیچھے ہٹتے ۔ پھر جب خیریت سے بارش ہو جاتی تو آپ ﷺ کی یہ کیفیت ختم ہوتی ۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس کیفیت کو محسوس کیا تو آپ ﷺ سے پوچھا کہ : “آپ ﷺ کا یہ حال کیوں ہو جاتا ہے ؟” آپ ﷺ نے فرمایا کہ : “آسمان پر ابر دیکھ کے مجھے خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں یہ اس قسم کا اَبر نہ ہو جسے اپنی وادیوں کی طرف بڑھتا دیکھ کر قومِ عاد نے کہا تھا کہ یہ بادل ہمارے علاقے پر برس کے ہماری کھیتیوں کو شاداب کرے گا (حالانکہ وہ عذاب کا بادل تھا جو ان کی مکمل تباہی و بربادی کا سامان لے کر آیا تھا)” ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
بادل اور بارش کے وقت کی دعا
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب ہم لوگ آسمان پر بادل چڑھتا دیکھتے تو رسول اللہ ﷺ کا حال یہ ہو جاتا کہ جس کام میں آپ ﷺ مشغول ہوتے اس کو چھوڑ کے بادل کی طرف رخ کر لیتے اور اللہ سے دعا کرتے کہ : “اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا فِيهِ” (اے اللہ ! اس بادل میں جو شر ہو اس سے میں تیری پناہ مانگتا ہوں) پھر اگر وہ بادل گھٹ کر آسمان صاف ہو جاتا تو آپ ﷺ اللہ کی حمد اور اس کا شکر ادا کرتے ، اور اگر وہ بادل برستے لگتا تو دعا فرماتے کہ : “اللَّهُمَّ سَقْيًا نَافِعًا” (اے اللہ ! اس بارش سے پوری سیرابی کر دے ، اور اس کو نفع مند بنا) ۔ (سنن ابی داؤد ، سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ ، مسند شافعی)
بادل اور بارش کے وقت کی دعا
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب بارش ہوتی دیکھتے تو اللہ تعالیٰ سے دعا فرماتے : “اللَّهُمَّ صَيِّبًا نَافِعًا” (اے اللہ ! بھرپور اور نفع مند بارش ہو) ۔ (صحیح بخاری) تشریح بارش کا حال بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعہ تباہیاں اور بربادیاں بھی آتی ہیں اور مخلوق کے لئے وہ سامانِ حیات بن کر بھی برستی ہے ، اس لئے جب بارش ہو تو خدا پر ایمان رکھنے والے بندوں کو دعا کرنی چاہئے کہ بارش نفع مند ارو رحمت بن کر بَرسے ۔ رسول اللہ ﷺ جب بارش کی ضرورت محسوس کر کے اس کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا فرماتے جب بھی آپ ﷺ کی دعا یہی ہوتی ۔
بارش کے لئے دعا
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایک دفعہ ہاتھ اٹھائے بارش کے لئے اس طرح دعا کرتے ہوئے دیکھا ، آپ ﷺ بارگاہِ خداوندی میں عرض کر رہے تھے : “اللَّهُمَّ اسْقِنَا غَيْثًا مُغِيثًا، مَرِيئًا مَرِيعًا، نَافِعًا غَيْرَ ضَارٍّ، عَاجِلًا غَيْرَ آجِلٍ” (اے اللہ ! ہم پر ایسی بھرپور بارش نازل فرما جو زمین کے لئے موافق اور سازگار ہو ، کھیتوں میں سرسبزی اور شادابی لائے ۔ اس سے نفع ہی نفع ہو نقصان بالکل نہ ہو ۔ اے اللہ ! جلدی نازل فرما دیر نہ ہو) حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ کے دعا کرتے کرتے آسمان پر گھٹا چھا گئی اور بھرپور بارش ہوئی ۔ (سنن ابی داؤد)
بارش کے لئے دعا
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب بارش کے لئے دعا فرماتے تو اللہ تعالیٰ کے حضور میں اس طرح عرض کرتے : “اللَّهُمَّ اسْقِ عِبَادَكَ، وَبَهِيْمَتَكَ، وَانْشُرْ رَحْمَتَكَ، وَأَحْيِ بَلَدَكَ الْمَيِّتَ” (اے اللہ ! اپنے بندوں اور اپنے پیدا کئے ہوئے بےزبان چوپایوں اور جانوروں کو سیراب فرما ، اپنی رحمت بھیج اور تیری جو بستیاں بارش نہ ہونے کی وجہ سے مُردہ ہو گئی ہیں بارش نازل فرما کر ان میں جان ڈال دے) ۔ (موطا امام مالک ، سنن ابی داؤد) تشریح غور کیا جائے اس دعا میں کیسی اپیل ہے ، اور رحمت الٰہی کو متوجہ کرنے کی کتنی طاقت ہے ۔
مہینہ کا نیا چاند دیکھنے کے وقت کی دعا
حضرت طلحہ بن عبیداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی مہینہ کا چاند دیکھتے تو اس طرح دعا کرتے : “اللهُمَّ أَهِلَّهُ عَلَيْنَا بِالْيُمْنِ وَالْإِيمَانِ، وَالسَّلامَةِ وَالْإِسْلامِ، رَبِّي وَرَبُّكَ اللهُ” (اے اللہ یہ چاند ہمارے لئے امن و ایمان اور سلامتی و اسلام کا چاند ہو ۔ اے چاند تیرا رب اور میرا رب اللہ ہے) ۔ (جامع ترمذی) تشریح ہر مہینہ زندگی کا ایک مرحلہ ہے ۔ جب ایک مہینہ ختم ہو کے دوسرے مہینے کا چاند آسمان پر نمودار ہوتا ہے تو گویا اعلان ہو جاتا ہے کہ ہر آدمی کی زندگی کا ایک مرحلہ پورا ہو کے آگے کا مرحلہ شروع ہو رہا ہے ، ایسے موقع کے لئے مناسب ترین دعا یہی ہو سکتی ہے کہ : “اے اللہ ! یہ شروع ہونے والا مرحلہ یعنی مہینہ بھی امن و امان اور ایمان و اسلام کے ساتھ گزرے اور تیری فرمانبرداری نصیب رہے” ۔ چونکہ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو چاند کو ایک رب اور دیوتا مانتے ہیں ، اس لئے رسول اللہ ﷺ مندرجہ بالا دعا کے ساتھ یہ بھی اعلان فرماتے تھے کہ چاند اللہ کی صرف ایک مخلوق ہے ، اور جس طرح ہمارا رب اللہ ہے اسی طرح اس کا رب بھی اللہ ہے ۔
مہینہ کا نیا چاند دیکھنے کے وقت کی دعا
قتادہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے یہ روایت پہنچی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب مہینہ کا نیا چاند دیکھتے تو تین دفعہ کہتے : “هِلَالُ خَيْرٍ وَرُشْدٍ” (خیر و برکت اور رشد و ہدایت کا چاند ہے) پھر تین ہی دفعہ کہتے : “آمَنْتُ بِالَّذِي خَلَقَكَ” (میرا ایمان ہے اس اللہ پر جس نے تجھے پیدا کیا) اس کے بعد فرماتے حمد و شکر اس اللہ کے لئے جس کے حکم سے فلاں مہینہ ختم ہوا اور فلاں مہینہ شروع ہوا ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح رویت ہلال کے وقت کی یہ دوسری دعا ہے ۔ سمجھنا چاہئے کہ آپ ﷺ نیا چاند دیکھ کے کبھی مندرجہ بالا حدیث والی دعا کرتے تھے اور کبھی یہ دوسری دعا ۔ تین دفعہ “هِلَالُ خَيْرٍ وَرُشْدٍ” کہنے کا منشاء غالبا یہ تھا کہ بہت سے طبقے بعض مہینوں کو منحوس اور نامبارک سمجھتے ہیں ، اس کلمہ سے اس توہم پرستی کلی تردید کر کے یہ بتانا مقصود ہوتا تھا کہ ہر مہینہ خیر و برکت اور رشد و ہدایت کا مہینہ ہے ۔ “آمَنْتُ بِالَّذِي خَلَقَكَ” تین دفعہ کہہ کے آپ ﷺ ان گمراہوں کے مشرکانہ عقیدہ پر ضرب لگاتے تھے جو چاند کو رب اور دیوتا مانتے ہیں ۔ قتادہ ، جو اس حدیث کے راوی ہیں یہ غالبا قتادہ بن وعامہ سدوسی تابعی ہیں ، انہوں نے یہ حدیث کسی صحابی سے سنی ہو گی ، بعض تابعین اور اسی طرح بعض تبع تابعین بھی کبھی درمیانی راوی کا ذکر کئے بغیر اس طرح روایت کرتے ہیں کہ ہمیں یہ حدیث پہنچی ہے ۔ محدثین کی اصطلاح میں ایسی حدیث کو بلاغات کہا جاتا ہے ۔ امام مالکؒ کی موطا میں ان کی اچھی خاصی تعداد ہے ۔
لیلۃ القدر کی دعا
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا : حضرتﷺ ! اگر میں شبِ قدر کو پا لوں تو کیا دعا کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ کے حضور میں یوں عرض کرو : “اللهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي” (اے اللہ ! تو قصور والوں کو بہت معاف فرمانے والا ہے ، اور معاف کر دینا تجھے پسند ہے ، پس تو مجھے معاف فرما دے) ۔ (جامع ترمذی) تشریح قبولیت دعا کے لحاظ سے شبِ قدر کو جو امتیاز حاصل ہے اس کے بارے میں حدیثیں “معارف الحدیث جلد چہارم” کتاب الصوم میں درج ہو چکی ہیں ۔ اس رات کے لئے رسول اللہ ﷺ کی تعلیم فرمائی ہوئی ایک مختصر ترین دعا یہاں بھی درج کی جا رہی ہے ۔
عرفات کی دعا
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عرفہ کے دن کی بہترین دعا اور بہترین کلمہ جو میری زبان سے اور مجھ سے پہلے نبیوں کی زبان سے ادا ہوا یہ کلمہ ہے : “لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ وَلَهُ الحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ” (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہی ایک معبود ہے ، کوئی اس کا ساجھی اور شریک نہیں ، اسی کی فرمانروائی ہے ، صرف اسی کے لئے حمد و ستائش سزاوار ہے اور ہر چیز اس کے زیرِ قدرت ہے) ۔ (جامع ترمذی) تشریح ۹؍ذی الحجہ کو عرفات کے میدان میں جب اللہ کے خصوصی مہمان ، حجاج بارگاہ خداوندی میں حاضر ہوتے ہیں تو جیسا کہ کتاب الحج میں درج ہونے والی حدیثوں سے معلوم ہو چکا ہے اس دن وہاں رحمتِ خداوندی کی موسلا دھار بارش ہوتی ہے ، وہ قبولیت دعا کا خاص الخاص موقع ہے ۔ اس موقع کی جو دعائیں رسول اللہ ﷺ سے منقول ہیں وہ ذیل میں پڑھئے : تشریح ..... اس کلمہ میں اگرچہ بظاہر دعا اور سوال نہیں ہے لیکن یہ کہنا کہ “بس وہی رب اور معبود ہے اور ہر چیز پر اس کو قدرت ہے اور اس کی ا ور صرف اس کی فرمانروائی ہے” ۔ یہ بھی دعا ہی کی ایک صورت ہے اور بڑی بلیغ صورت ہے اور بلاشبہ بعض حیثیتوں سے اور بعض پہلوؤں سے یہی افضل ترین کلمہ ہے ۔ کلماتِ ذکر کے سلسلہ میں جہاں اس کلمہ سے متعلق درج کی گئی ہے وہاں اس کی کچھ وضاحت بھی کی جا چکی ہے ۔
عرفات کی دعا
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عرجہ کے دن وقوف کے وقت رسول اللہ ﷺ نے سب سے زیادہ یہ دعا کی : “اللَّهُمَّ لَكَ الحَمْدُ تا مِنْ شَرِّ مَا يَجِيءُ بِهِ الرِّيحُ” (اے اللہ ! تیرے ہی لئے ساری حمد و ستائش سزاوار ہے ، اس طرح جس طرح تو فرماتا ہے ، اس سے بہتر جو ہم تیری حمد و ثناء میں کہتے ہیں ! اے اللہ ! میری نماز اور میرا حج اور میری ساری عبادات اور میرا جینا مرنا سب تیرے ہی لئے ہے ، اور مجھے زندگی ختم کر کے تیرے ہی حضور میں واپس جانا ہے ، اور جو کچھ میں چھوڑ کے جاؤں تو ہی اس کا وارث ہے ۔ اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں ، عذابِ قبر سے اور دل کے وسوسوں سے اور پراگندہ حالی سے اور پناہ مانگتا ہوں ہواؤں کے شر سے اور ان کے برے اثرات اور عواقب سے) ۔ (جامع ترمذی)
عرفات کی دعا
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حجۃ الوداع میں عرفہ کی شام کو میدانِ عرفات میں رسول اللہ ﷺ کی خاص دعا یہ تھی : “اے اللہ ! تو میری بات سنتا ہے ، اور میں جہاں اور جس حال میں ہوں تو اس کو دیکھتا ہے ، اور میرے ظاہر و باطن سے تو باخبر ہے ، تجھ سے میری کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں ۔ میں دُکھی ہوں ، محتاج ہوں ، فریادی ہوں ، پناہ جو ہوں ، ترساں ہوں ، ہراساں ہوں ، اپنے گناہوں کا اقراری ہوں ۔ تجھ سے سوال کرتا ہوں جیسے کوئی عاجز مسکین بندہ سوال کرتا ہے ۔ تیرے آگے گڑگڑاتا ہوں جیسے گنہگار ذلل و خوار گڑگڑاتا ہے ، اور تجھ سے دعا کرتا ہوں جیسے کوئی خوف زدہ آفت زدہ آفت رسیدہ دعا کرتا ہے ۔ اور اس بندے کی طرح مانگتا ہوں جس کی گردن تیرے سامنے جھکی ہوئی ہو اور آنسو بہہ رہے ہوں اور تن بدن سے وہ تیرے آگے فروتنی کئے ہوئے ہو اور اپنی ناک تیرے سامنےرگڑ رہا ہو ۔ اے اللہ ! تو مجھے اس دعا مانگنے میں ناکام اور نامراد نہ رکھ اور میرے حق میں بڑا مہربان نہایت رحیم ہو جا ۔ اے ان سب سے بہتر و برتر جن سے مانگنے والے مانگتے ہیں اور جو مانگنے والوں کو دیتے ہیں” ۔ (معجم کبیر للطبرانی) تشریح اس دعا کا ایک ایک لفظ عبدیت کی روح سے لبریز اور کمالِ معرفت کا ترجمان ہے ۔ دنیا بھر کے دینی و مذہبی ادب میں اور کسی بھی زبان کی دعاؤں اور مناجاتوں میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی ۔ اس عاجز کو زندگی میں کئی دفعہ اس کا موقع ملا کہ بعض خدا پرست غیر مسلموں کو میں نے رسول اللہ ﷺ کی یہ دعا سنائی اور اس کا ترجمہ کر کے بتایا تو وہ اپنا یہ تاثر ظاہر کرنے پر مجبور ہو گئے کہ یہ دعا اسی دل سے نکل سکتی ہے جسے اللہ نے اپنے علم کا خاص حصہ دیا ہو اور اس کو معرفتِ نفس اور معرفتِ رب کا اعلیٰ سے اعلیٰ مقام حاصل ہو ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں رسول اللہ ﷺ کے اس قیمتی ورثہ کی قدر شناسی اور اس سے استفادہ کی توفیق دے ۔ خاص اوقات و مقامات اور خاص مواقع کی دعاؤں کا سلسلہ یہاں ختم ہوا ۔ وَالْحَمْدُلِلهِ عَلَى ذَالِكَ.
جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعا فرمایا کرتے تھے : “اللهُمَّ أَصْلِحْ لِي تا رَاحَةً لِي مِنْ كُلِّ شَرٍّ ” (اے اللہ ! میری دینی حالت درست فرما دے جس پر میری خیریت اور سلامتی کا دار و مدار ہے اور میری دنیا بھی درست فرما دے جس میں مجھے یہ زندگی گزارنا ہے ، اور میری آخرت بھی درست فرما دے جہاں مجھے لوٹ کر جانا ہے اور ہمیشہ رہنا ہے ، اور میری زندگی کو خیر اور بھلائی میں اضافہ اور زیادتی کا ذریعہ بنا دے ، اور میری موت کو ہر شر سے راحت اور حفاظت کا وسیلہ بنا دے) ۔ (صحیح مسلم) تشریح عرض کیا گیا تھا کہ کتبِ حدیث میں رسول اللہ ﷺ سے جو دعائیں ماثور اور منقول ہیں اگر ان کو مضامین اور موقع محل کے لحاظ سے تقسیم کیا جائے تو وہ تین قسم کی ہیں : ایک وہ جن کا تعلق نماز سے ہے ، دوسری وہ جن کا تعلق خاص اوقات یا مواقع اور حالات سے ہے تیسری وہ جن کا تعلق نہ نماز سے ہے نہ خاص اوقات یا مواقع سے بلکہ وہ عمومی قسم کی ہیں ۔ پہلی دو قسم کی دعائیں درج کی جا چکیں ، تیسری قسم کی اب پیش کی جا رہی ہے ۔ ان میں زیادہ تر مضامین کے لحاظ سے ہمہ گیر اور جامع قسم کی ہیں ، اسی لئے ائمہ حدیث نے اپنی مؤلفات میں ان دعاؤں کو “جامع الدعوات” کے زیرِ عنوان درج کیا ہے ۔ یہ دعائیں امت کے لئے رسول اللہ ﷺ کا خاص الخاص عطیہ اور بیش بہا تحفہ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہم امتیوں کو قدر شناسی اور تشکر کی اور ان دعاؤں کو اپنے دل کی آواز اور دھڑکن بنا لینے کی توفیق دے ۔ جس بندے کو یہ دولت مل گئی اسے سب کچھ مل گیا ۔ اس تمہید کے بعد اس سلسلہ کی احادیث ذیل میں پڑھئے : تشریح ..... جیسا کہ ظاہر ہے یہ بہت سی جامع دعا ہے ، اس کا پہلا جز یہ ہے : اللهُمَّ أَصْلِحْ لِي دِينِي الَّذِي هُوَ عِصْمَةُ أَمْرِي اے اللہ ! میری دینی حالت درست فرما دے جس پر میری خیریت اور میری ہر چیز کی سلامتی اور تحفظ کا دار و مدار ہے دراصل دین ہی وہ چیز ہے اگر وہ درست اور سلامت ہو تو آدمی اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور لعنت اور اس کے غضب و عذاب سے مامون و محفوظ ہو کر اس کے لطف و کرم کا مستحق ہو جاتا ہے اور اسلامی قانون کی رو سے اس کے جان و مال اور عزت و آبرو کو ایک خاص درجہ کی حرمت و عصمت حاصل ہو جاتی ہے اس لئے اسی پر آدمی کی سلامتی ٰخیریت اور صلاح و فلاح کا دار و مدار ہے ۔ اسی چیز کو اس دعاء نبوی ﷺ میں “عِصْمَةُ أَمْرِي” کہا گیا ہے ۔ دین کی درستی کا مطلب یہ ہے کہ بندے کا ایمان و یقین صحیح ہو ، اس کے افکار و جذبات اور اعمال و اخلاق درست ہوں ، وہ زندگی کے ہر شعبہ میں نفس کی خواہش کے بجائے اللہ کے احکام پر چلنے والا ہو ، اور ظاہر ہے کہ اس کا دار و مدار اللہ کی توفیق پر ہے ، اس لئے ہر بندہ مومن کے دل کی اولین مانگ اور پکار یہی ہونا چاہئے ۔ اس دعا کا دوسرا جز ہے : وَأَصْلِحْ لِي دُنْيَايَ الَّتِي فِيهَا مَعَاشِي اور میری دنیا درست فرما دے جس میں مجھے یہ زندگی گزارنا ہے ۔ دنیا کی درستی کا مطلب یہ ہے کہ یہاں کی رزق وغیرہ کی ضرورتیں حلال اور جائز راستوں سے پوری ہوتی رہیں ۔ بلاشبہ ہر مومن بندے کی دوسری مانگ اللہ تعالیٰ سے یہی ہونا چاہئے ۔ تیسرا جز دعا کا یہ ہے : وَأَصْلِحْ لِي آخِرَتِي الَّتِي فِيهَا مَعَادِي اور میری آخرت اچھی بنا دے ، جہاں مجھے لوٹ کے جانا اور ہمیشہ رہنا ہے ۔ اگرچہ دین کی درستی کا لازمی نتیجہ آخرت کی صلاح و فلاح ہے ، اس کے باوجود رسول اللہ ﷺ نے مستقل طور سے آخرت کی درستی کی یہ دعا کی ۔ ایک تو غالباً اس لئے کہ آخرت کی غیر معمولی اہمیت کا یہ حق ہے ، دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ دینی لحاظ سے اچھی حالت ہونے کے باوجود بندے کو آخرت کے بارے میں مطمئن اور بےفکر نہیں ہونا چاہئے ۔ قرآن مجید میں اچھے بندوں کی شان یہی بتائی گئی ہے : “وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوا وَّقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَىٰ رَبِّهِمْ رَاجِعُونَ” (المومنون : ۶۰) (1) چوتھا اور پانچواں جز دعا کا یہ ہے : وَاجْعَلِ الْحَيَاةَ زِيَادَةً لِي فِي كُلِّ خَيْرٍ، وَاجْعَلِ الْمَوْتَ رَاحَةً لِي مِنْ كُلِّ شَرٍّ اور زندگی کو میرے نیکی اور بھلائی میں اضافہ اور زیادتی کا ذریعہ بنا دے ، اور موت کو ہر شر اور برائی سے راحت اور حفاظت کا وسیلہ بنا دے ۔ ہر آدمی کو اس دنیا میں اپنی زندگی کا وقت پورا کر کے مرنا یقینی ہے ۔ اللہ کی دی ہوئی عمر سے آدمی نیکی بھی کما سکتا ہے اور بدی بھی ، وہ اس کے لئے سعادت میں ترقی کا وسیلہ بھی بن سکتی ہے اور شقاوت میں اضافہ کا ذریعہ بھی ، اور سب کچھ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ دین و دنیا اور آخرت کی صلاح و فلاح کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا بھی کرتے تھے کہ اے اللہ ! میری حیات کو خیر اور سعادت میں اضافہ اور ترقی کا وسیلہ بنا دے یعنی مجھے توفیق دے کہ میں عمر کے لمحات اور زندگی کے اوقات کو تیری رضا والے کاموں میں صرف کر کے سعادت کے راستہ میں آگے بڑھتا چلوں ، اور میری موت کو شرور و فتن کی اذیتوں سے راحت کا ذریعہ بنا دے ، یعنی مستقبل کے جو شر اور فتنے میرے لئے اذیت کا باعث ہو سکتے ہیں تیرے حکم سے آنے والی میری موت ان سے میری حفاظت کا ذریعہ بن کر ان سے مجھے راحت دے دے ۔ یہ دعا بھی “جوامع الکلم” اور دریا بکوزہ کی بہترین مثال ہے ، الفاظ کتنے مختصر اور مضامین کتنے وسیع !
جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اکثر و بیشتر یہ دعا کیا کرتے تھے : “اللَّهُمَّ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً، وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً، وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ” (اے میرے اللہ ! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما ، اور ہمیں آتشِ دوزخ کے عذاب سے بچا) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح سبحان اللہ ! کتنی مختصر اور کتنی جامع دعا ہے ۔ اس میں اللہ تعالیٰ سے اس دنیوی زندگی میں بھی اور آخرت کی کبھی ختم نہ ہونے والی زندگی میں بھی بھلائی مانگی گئی ہے ۔ ظاہر ہے اس میں دنیا اور آخرت کی ساری ہی اچھی مرغوبات اور مطلوبات آ گئیں ۔ اور آخر میں عذاب دوزخ سے بچانے اور محفوظ رکھنے کی استدعا کی گئی ہے ۔ الغرض دنیا اور آخرت میں ایک بندے کو جو کچھ چاہئے وہ سب ہی اس مختصر ترین دعا میں مانگ لیا گیا ہے ۔ پھر اس کی ایک یہ بھی خصوصیت ہے کہ یہ دراصل قرآن مجید کی دعا ہے ، اس فرق کے ساتھ کہ قرآن پاک مین اس کا پہلا لفظ “رَبَّنَا” ہے اور حدیث میں اس کی جگہ پہلا لفظ “اَللَّهُمَّ” ہے ۔ حاصل ایک ہی ہے ۔ حضرت انسؓ کی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعا بہ کثرت کیا کرتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ ہم امتیوں کو بھی رسول اللہ ﷺ کے اس اکثری معمول کی پیروی کی توفیق دے ۔
جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ دعا فرمایا کرتے تھے : “اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ تا وَالْغِنَى” (اے میرے اللہ ! میں تجھ سے مانگتا ہوں ہدایت اور تقویٰ اور پاک دامنی اور مخلوق کی نامحتاجی) ۔ (صحیح مسلم) تشریح اس دعا میں اللہ تعالیٰ سے چار باتوں کا سوال ہے : ایک ہدایت یعنی راہِ حق پر چلنا ، اور استقامت کے ساتھ چلتے رہنا ۔ دوسرے تقویٰ اور پرہیزگاری یعنی اللہ سے ڈرتے ہوئے معاصی و منکرات سے بچنا ۔ تیسرے عفت و پاک دامنی ۔ چوتھے غنی ، یعنی دل کی یہ حالت کہ بندہ اپنے اندر کسی مخلوق کی محتاجی اور درست نگری محسوس نہ کرے ، اپنے مالک کی عطا پر مطمئن ہو ۔ یہ دعا بھی “جوامع الکلم” کی اعلیٰ مثال ہے ۔
جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے : “اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الصِّحَّةَ تا وَالرِّضَا بِالْقَدَرِ” (اے اللہ ! میں تجھ سے مانگتا ہوں صحت و تندرستی اور عفت و پاکدامنی اور امانت کی صفت اور اچھے اخلاق اور راضی بہ تقدیر رہنا) (دعوات کبیر للبیہقی) تشریح اس دعا میں رسول اللہ ﷺ نے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ سے صحت مانگی ہے ۔ صحت و تندرستی دین و دنیا دونوں کے لحاظ سے بلاشبہ بہت بڑی نعمت ہے ۔ اس کی قدر اس وقت معلوم ہوتی ہے جب کسی وقت بندہ اس سے محوررم کر دیا جاتا ہے اور کسی بیماری اور تکلیف میں مبتلا ہو جاتا ہے ، اس وقت اسے معلوم ہوتا ہے کہ صحت کا ایک ایک لمحہ کتنی بڑی دولت اور اللہ تعالیٰ کی کتنی عظیم نعمت ہے ۔ عارفین کو اس کا احساس اس لئے اور بھی زیادہ ہوتا ہے کہ صحت کی خرابی کی حالت میں اکثر و بیشتر عبادت کا نظام بھی درہم برہم ہو جاتا ہے اور توجہ الی اللہ کا ذوق و کیف بھی متاثر ہوتا ہے ، اور یہ چیز ان کے لئے شدید روحانی کرب اور بےچینی کا باعث بنتی ہے ۔ امانت ، قرآنی اور دینی زبان کا نہایت اہم اور وسیع المعنی لفظ ہے اس سے مراد انسان کے اندرون کا یہ حال ہوتا ہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کی نسبت سے اور بندوں کے تعلق سے جو ذمہ داریاں ہیں وہ ان کو ٹھیک ٹھیک ادا کرنے کی فکر اور کوشش کرے ۔ حسن اخلاق اور راضی بہ تقدیر رہنا کسی تشریح کے محتاج نہیں ۔ اس دعا میں رسول اللہ ﷺ نے صحت کے علاوہ عفت ، امانت ، حسن اخلاق اور رضا بالقدر کا سوال کیا ہے یہ سب ایمانی صفات اور ایمان کے اہم شعبے ہیں اور ان سے محرومی بلاشبہ بڑی محرومی ہے ، اور ساری دینی اور دنیوی نعمتوں کی طرح یہ بھی اللہ تعالیٰ کی عطا ہی سے کسی کو مل سکتے ہیں ۔؎ ایں سعادت بزورِ بازو نیستگر نہ بخشد خدائے بخشندہ
جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے ایک دعا تعلیم فرمائی ، اور مجھ سے ارشاد فرمایا : “اللَّهُمَّ اجْعَلْ سَرِيرَتِي تا غَيْرِ الضَّالِّ وَلَا المُضِلِّ” (اے اللہ ! میرا باطن میرے ظاہر سے اچھا کر دے اور میرے ظاہر کو بھی اصلاح سے آراستہ فرما دے ۔ اے اللہ! تو اپنے بندوں کو (اپنے فضل و کرم سے) جو ایسے صالح گھر والے ، صالح مال اور صالح اولاد عطا فرماتا ہے جو نہ خود گمراہ ہوں اور نہ دوسروں کے لئے گمراہ ک ہوں ۔ میں بھی تجھ سے ان چیزوں کا سائل ہوں (مجھے بھی اپنے فضل و کرم سے یہ چیزیں عطا فرما) ۔ (جامع ترمذی) تشریح اس دعا کا پہلا جز یہ ہے کہ اے اللہ ! مجھے ایسا بنا دے کہ میرا ظاہر بھی صالح ہو اور میرا باطن بھی صالح ہو ، اور باطن کی حالت ظاہر سے بھی بہتر ہو ۔ اور دوسرا جز یہ ہے کہ میرے اہل خانہ اور میری اولاد اور میرا مال و منال یہ سب بھی صالح ہوں ، نہ خود ان میں ضلال و فساد ہو ، نہ دوسروں کے لئے یہ باعث ضلال و فساد بنیں ۔
جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ایک دعا رسول اللہ ﷺ سے سن کر یاد کی تھی (وہ دعا میں برابر کیا کرتا ہوں) اس کو میں کبھی نہیں چھوڑتا (وہ یہ ہے) “اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي أُعَظِّمُ شُكْرَكَ تا وَأَحْفَظُ وَصِيَّتَكَ” (اے اللہ ! مجھے ایسا کر دے کہ میں تیری نعمتوں کے شکر کی عظمت و اہمیت کو سمجھوں (تا کہ پھر شکر میں کوتاہی نہ کروں) اور تیرا ذکر کثرت سے کروں اور تیری نصیحتوں کی پیروی کروں اور تیری وصیتوں اور حکموں کو یاد رکھوں (اور ان کی تعمیل سے غفلت نہ بررتوں) ۔ (جامع ترمذی)
جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعا کیا کرتے تھے : “رَبِّ أَعِنِّي وَلَا تُعِنْ عَلَيَّ تا وَاسْلُلْ سَخِيمَةَ صَدْرِي” (اے میرے رب ! میری مدد فرما ، میرے خلاف (میرے دشمنوں کی کارروائیوں میں ان کی) مدد نہ فرما ، میری حمایت فرما (میرے مخالفین کی) میرے خلاف حمایت نہ فرما ، اپنی لطیف خفیہ تدبیر میرے حق میں استعمال فرما ، میرے خلاف استعمال نہ فرما ۔ مجھے ٹھیک راستے پر چلا اور صراطِ مستقیم پر چلتے رہنا میرے لئے آسان فرما ، جو کوئی مجھ پر ظلم و زیادتی کرے اس کے مقابلے میں میری مدد فرما ۔ اے پروردگار ! مجھے بنا دے اپنا خوب شکر کرنے والا ، خوب ذکر کرنے والا ، اپنے سے بہت ڈرنے والا ، سراپا اطاعت گزار و فرنبردار ، اپنے حضور میں عاجزری اور نیاز مندی سے جھکنے والا ، نرم دل اور تیری بارگاہِ کرم کی طرف رجوع ہونے اور پلٹنے والا ۔ اے میرے رب ! میری توبہ قبول فرما لے ، میرے گناہوں کے میل کچیل کو دھو دے ، میری دعا قبول فرما ، میرا ایمان (جو آخرت مین میری حجت بننے والا ہے اس کو) مستحکم کر دے ، میری زبان کو ٹھیک چلنے والا بنا دے ، میرے دل کو ہدایت بخش دے اور میرے سینہ کے کینہ کپٹ اور ہر قسم کی کھوٹ نکال دے ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ) تشریح اس دعا کی جامعیت ظاہر ہے ۔ مندرجہ بالا سب ہی دعاؤں کا خاص قابل غور پہلو یہ ہے کہ ہر دعا میں رسول اللہ ﷺ نے اپنے کو اللہ تعالیٰ کے حضور میں اس طرح پیش کیا ہے کہ میں زندگی کے ہر معاملہ میں تیرا محتاج ہوں ، خود عاجز اور بےبس ہوں ، یہاں تک کہ اپنے ظاہر و باطن اور زبان و قلب پر بھی میرا اختیار اور قابو نہیں ۔ اپنے اخلاق و جذبات اور اعمال و احوال کی اصلاح میں بھی تیری نظرِ کرم کا محتاج ہوں ۔ میری صحت اور بیماری بھی تیرے ہی ہاتھ میں ہے ، دشمنوں اور بدخواہوں کے شر سے تو ہی میری حفاظت فرما سکتا ہے ، میں اس معاملہ میں بھی عاجز و بےبس ہوں ، تو کریم رب اور داتا ہے اور میں سائل و منگتا ہوں ۔ یہ رسول اللہ ﷺ کا کمالِ عبدیت ہے ، اور بلاشبہ یہ کمال آپ ﷺ پر ختم ہے ، اور یہ دوسرے تمام کمالات سے بالاتر ہے ۔ صَلَّى اللَّهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَآلِهِ وَاَصْحَابِهِ وَسَلَّمَ
جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے یہ جامع دعا تعلیم فرمائی : “اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنَ الْخَيْرِ كُلِّهِ تا كُلَّ قَضَاءٍ قَضَيْتَهُ لِي خَيْرًا” (یعنی اے اللہ ! میں تجھ سے ہر قسم کی خیر اور بھلائی مانگتی ہوں ، دنیا کی خیر بھی اور اخرت کی خیر بھی ، وہ خیر بھی مانگتی ہوںٰ جس کو میں جانتی ہوں اور وہ بھی جس کو میں نہیں جانتی ، اور میں تیری پناہ چاہتی ہوں ہر قسم کے شر اور برائی سے دنیا کے بھی شر سے اور آخرت کے بھی شر سے ، اس شر سے بھی جس کو میں جانتی ہوں اور اس سے بھی جس کو میں نہیں جانتی ۔ اے میرے اللہ ! تیرے خاص بندے اور پیارے نبی ﷺ نے جس جس خیر کا بھی تجھ سے سوال کیا میں تجھ سے اس کی سائل ہوں ، اور جس جس شر سے انہوں نے تیری پناہ چاہی اے اللہ میں بھی اس شر سے تیری پناہ چاہتی ہوں ۔ اے اللہ ! میں تجھ سے مانگتی ہوں اور اس وقول و عمل کی توفیق کی سائل ہوں جو مجھے جنت سے قریب کر دے ، اور میں تجھ سے دوزخ سے پناہ چاہتی ہوں اور ہر اس قول و عمل سے جو دوزخ سے قریب کرنے والا ہو ۔ اور اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتی ہوں کہ جو فیصلہ تو میرے حق میں فرمائے وہ میرے لئے خیر اور بھلائی کا ضامن ہو) ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ و سنن ابن ماجہ) تشریح اس دعا کے ایک ایک جز پر غور کیا جائے ، انسان کو دنیا اور آخرت میں جس چیز کی بھی ضرورت ہو سکتی ہے یہ اس سب پر حاوی ہے ۔ اسی حدیث کی ایک روایت میں یہ تفصیل بھی بیان کی گئی ہے کہ ایک دن حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آپ ﷺ کے گھر پر حاضر ہوئے اور کوئی بات بالکل تنہائی میں کرنا چاہتے تھے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اس وقت نماز پڑھ رہی تھیں ، اور بہت طویل طویل دعائیں مانگ رہی تھیں ۔ آنحضرت ﷺ نے جلدی تخلیہ کرانے کے لئے ان سے فرمایا کہ : جامع قسم کی دعائیں کر کے جلدی پوری کر لو ۔ انہوں نے عرض کیا کہ : مجھے ایسی جامع دعا بتا دیجئے ؟ اس وقت آپ ﷺ نے ان کو یہ دعا تلقین فرمائی ۔
جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بہت سی دعائیں فرمائیں جو ہمیں یاد نہیں رہیں ، تو ہم نے آپ ﷺ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ نے بہت سی دعائیں فرمائی تھیں ان کو ہم یاد نہیں رکھ سکے (اور چاہتے یہ ہیں کہ اللہ سے وہ سب دعائیں مانگیں ، تو کیا کریں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : میں تمہیں ایسی دعا بتائے دیتا ہوں جس میں وہ ساری دعائیں آ جائیں ! الہ تعالیٰ کے حضور میں یوں عرض کرو کہ : “اے اللہ ! ہم تجھ سے وہ سب مانگتے ہیں جو تیرے نبی محمد ﷺ نے تجھ سے مانگا ، اور ہم ان سب چیزوں سے تیری پناہ چاہتے ہیں جن سے تیرے نبی محمدﷺ نے تیری پناہ چاہی ، بس تو ہی ہے جس سے مدد چاہی جائے اور تیرے ہی کرم پر موقوف ہے مقاصد اور مرادوں تک پہنچنا ۔ اور کسی مقصد کے لئے سعی و حرکت اور اس کو حاصل کرنے کی قوت و طاقت بس اللہ ہی سے مل سکتی ہے”) ۔ (جامع ترمذی) تشریح دنیا میں ایسے ہی بندوں کی تعداد زیادہ ہے جو رسول اللہ ﷺ سے منقول شدہ زیادہ دعائیں یاد نہیں رکھ سکتے ۔ ان کے لیے اس حدیث میں نہایت آسان طریقہ بتا دیا گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اس طرح مانگا کریں کہ : اے اللہ ! تجھ سے جو کچھ تیرے نبی حضرت محمد ﷺ نے مانگا میں وہ سب تجھ سے مانگتا ہوں ، اور جن چیزوں سے انہوں نے تیری پناہ چاہی میں ان سب چیزوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔ ناچیز راقم السطور عرض کرتا ہے کہ اس میں بھی کوئی خسارہ اور مضائقہ نہیں ہے کہ یہ بات اپنی ہی زبان میں کہی جائے ۔ مگر اللہ تعالیی کے حضور میں دل سے عرض کیا جائے ، دراصل دعا ہی ہے جو دل سے ہو ۔
جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے یہ دعا روایت کی ہے : “اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ تا مِنَ النَّارِ” (اے اللہ ! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں تیری رحمت کو واجب کر دینے والے ، اور تیری مغفرت کو پکا کر دینے والے اعمال کا اور ہر گناہ سے محفوظ رہنے کا اور ہر نیکی کی توفیق کا اور تجھ سے مانگے ہیں جنت کا حصول اور دوزخ سے نجات) ۔ (مستدرک حاکم)
جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے یہ دعا روایت کی ہے : “اللَّهُمَّ احْفَظْنِي تا خَزَائِنُهُ بِيَدِكَ” (اے اللہ ! میری حفاظت فرما اسلام کے ساتھ کھڑے ہونے کی حالت مین اور بیٹھے ہانے کی حالت میں اور سونے کی حالت میں (یعنی میں کھڑے ، بیٹھے اور سوتے ہر حال میں ایمان و اسلام کے ساتھ محفوظ رہوں) اور میرے دشمنوں اور حاسدوں کو تیرے کسی فیصلہ سے شماتت کا موقع نہ ملے ۔ اے میرے اللہ! تیرے ہاتھ میں خیر کے جو خزانے ہیں میں تجھ سے ان کو مانگتا ہوں ، اور تیرے قبضہ میں جو شر ہے اس سے میں تیری پناہ چاہتا ہوں ۔ (مستدرک حاکم)
جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺسے یہ دعا روایت کی ہے : “اللَّهُمَّ اجْعَلنِي تا كَبِيرا” (اے اللہ ! مجھے اپنا شکر کرنے والا اور صبر کرنے والا بندہ بنا ، اور مجھے اپنی نگاہ میں چھوٹا اور دوسرے لوگوں کی نگاہ میں بڑا بنا دے) ۔ (مسند بزار) تشریح اس دعا کا آخری جزو خاص طور سے قابل غور ہے ۔ بندے کو چاہئے کہ اپنے کو وہ چھوٹا اور حقیر و ذلیل سمجھے اور ساتھ ہی اللہ سے دعا کرتا رہے کہ دوسروں کی نگاہ میں وہ ذلیل نہ ہو ۔
جامع اور ہمہ گیر دعائیں
امام اوزاعیؒ نے بطریق ارسال رسول اللہ ﷺسے روایت کی ہے : “اللهم إني أسألك تا وحسن الظن بك” (اے اللہ ! میں تجھ سے استدعا کرتا ہوں تو مجھے توفیق دے ان اعمال کی جو تجھے محبوب ہیں ، اور عطا فرما مجھے سچا توکل اور اپنی ذات پاک کے ساتھ حسن ظن) ۔ (حلیہ ابی نعیم)
جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ ﷺ کی یہ دعا روایت کی گئی ہے : “اللَّهُمَّ افْتَحْ مَسَامِعَ قَلْبِي تا وَعَمَلًا بِكِتَابِكَ” (اے اللہ ! اپنے ذکر کے لئے اور اپنی نصیحت کے لئے میرے دل کے کان کھول دے ، اور مجھے اپنی فرمانبرداری اور اپنے رسول پاکﷺ کی تابعداری نصیب فرما اور اپنی مقدس کتاب قرآن مجید پر عمل کی توفیق دے) ۔ (معجم اوسط طبرانی)
جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ ﷺ کی یہ دعا روایت کی گئی ہے : “اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ صِحَّةً تا وَرِضْوَانًا” (اے اللہ ! میں تجھ سے مانگتا ہوں صحت و تندرستی ایمان کے ساتھ ، اور استدعا کرتا ہوں ایمان کی حسن اخلاق کے ساتھ ، اور سوال کرتا ہوں تجھ سے مقاصد میں کامیابی کا آخرت کی فلاح کے ساتھ اور سائل ہوں تجھ سے رحمت اور عافیت کا ، اور تیری مغفرت اور رضامندی کا) ۔ (معجم اوسط للطبرانی ومستدرک حاکم)
جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ ﷺ کی یہ دعا روایت کی گئی ہے : “اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ تا بِمَا قَسَمْتَ لِي” (اے اللہ ! میں تجھ سے مانگتا ہوں ایسا ایمان جو میرے دل میں پیوست ہو جائے ، اور ایسا یقین صادق جس کے بعد یہ حقیقت میرا علم بن جائے کہ مجھ پر صرف وہی تکلیف آئے گی جو تو نے میرے لئے لکھ دی ہے ، اور اور میں تجھ سے استدعا کرتا ہوں کہ میرا یہ حال کر دے کہ زندگی کا جو سامان تو مجھے دے مین اس پر دل سے راضی ہوں) ۔ (مسند بزار)
جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ ﷺ کی یہ دعا روایت کی گئی ہے : “اللهم الطف بي تا في الدنيا والآخرة” (اے اللہ ! میری ہر دشواری کو آسان فرما کے مجھ پہ مہربانی فرما ، ساری دشواریوں اور مشکلوں کو آسان کرنا تیرے لئے بالکل آسان ہے ۔ اور میں تجھ سے استدعا کرتا ہوں دنیا اور آخرت میں سہولت اور آسانی کے لئے اور کامل عافیت کے لئے) ۔ (معجم اوسط للطبرانی)
جامع اور ہمہ گیر دعائیں
امام مالکؒ سے مروی ہے ، انہوں نے بیان کیا کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعا فرمایا کرتے تھے : “اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ تا غَيْرُ مَفْتُونٍ” (اے اللہ ! میں تجھ سے مانگتا ہوں اچھے عمل کرنے کی توفیق اور برے اعمال کو چھوڑ دینے کی توفیق اور تیرے مکین بندوں کے ساتھ محبت کرنے کی توفیق ۔ اور اے اللہ ! جب تیرا فیصلہ کسی قوم کو فتنہ اور عذاب میں مبتلا کرنے کا ہو تو مجھے اس فتنہ میں مبتلا کئے بغیر اپنی طرف اُٹھا لے) ۔ (مؤطا امام مالک) تشریح پہلے بھی ذکر کیا جا چکا ہے کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ جو تبع تابعین میں سے ہیں کبھی کبھی بعض حدیثیں سند کا ذکر کئے بغیر “بلغنی” کے عنوان سے بھی بیان کرتے ہیں ۔ ان کو اصطلاح میں “بلاغات مالک” کہا جاتا ہے اور محدثین کے نزدیک یہ سب قابلِ قبول ہیں ۔ یہ روایت بھی انہیں “بلاغات” میں سے ہے ۔
جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت بسر بن ارطات رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے یہ دعا نقل فرمائی : “اللهُمَّ أَحْسِنْ تا وَعَذَابِ الْآخِرَةِ” (اے اللہ ! ہمارے سارے کاموں کا انجام بہتر کر ، اور دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب سے ہمیں بچا اور ہماری حفاظت فرما) ۔ (مسند احمد ، صحیح ابن حبان ، مستدرک حاکم) تشریح یہ دعا بھی بہت ہی مختصر اور بہت جامع ہے ۔
جامع اور ہمہ گیر دعائیں
ام معبد خزاعیہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺ سے یہ دعا روایت کی ہے : “اللَّهُمَّ طَهِّرْ قَلْبِي تا وَمَا تُخْفِي الصُّدُورُ” (اے اللہ ! میرے دل کو نفاق سے ، میرے اعمال کو ریاء کی آمیزش سے ، میری زبان کو جھوٹ سے ، اور میری آنکھوں کو نظر خیانت سے بالکل پاک صاف کر دے ، تو آنکھوں کی خیانت اور دلوں کے رازوں کو بھی جانتا ہے ، تجھ سے میری کوئی چیز مخفی نہیں) ۔ (نوادر حکیم ترمذی ، تاریخ خطیب) تشریح ان سب دعاؤں کی جامعیت اور ہمہ گیری ظاہر ہے ۔ ان کے مضامین بھی کسی خاص تشریح اور وضاحت کے محتاج نہیں ۔ غور کرنے والوں اور سمجھنے والوں کے لئے ان کا ہر جز معرفت کا خزانہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ رسول اللہ ﷺ کے اس محفوظ اور نہایت قیمتی ورثہ کی قدر کریں ۔ اور ان دعاوں کے ذریعہ دنیا اور آخرت کی برکتیں اور رحمتیں براہِ راست مالک الملک کے خزانہ سے حاصل کیا کریں ۔
جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں یہ تعلیم فرماتے تھے کہ ہم دعا میں اللہ تعالیٰ سے یوں عرض کیا کریں : “اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الثَّبَاتَ تا إِنَّكَ أَنْتَ عَلَّامُ الغُيُوبِ” (اے اللہ ! میں مانگتا ہوں تجھ سے استقامت اور ثابت قدمی دین کے معاملہ میں اور طلب کرتا ہوں اعلیٰ صلاحیت اور سوجھ بوجھ میں پختگی اور تیری نعمتوں کے شکر کی اور حسن عبادت کی توفیق اور طالب ہوں تجھ سے لسان صادق اور قلب سلیم کا ، اور تیری پناہ چاہتا ہوں ہر اس شر سے جس کا تجھے علم ہے ۔ اور سائل ہوں ہر اس خیر اور بھلائی کا جو تیرے علم میں ہے اور معافی اور مغفرت چاہتا ہوں اپنے ان سب گناہوں سے جو تجھے معلوم ہیں ، تو ساری پوشیدہ باتوں کو بھی خوب جانتا ہے) ۔ (جامع ترمذی و سنن نسائی) تشریح اس دعا کے ایک ایک جز پر غور کیجئے ، یہ ان تمام مقاصد پر حاوی ہے جو ایک مومن کو عزیز ہونے چاہئیں ۔ اسی حدیث کو ابنِ عساکر نے بھی روایت کیا ہے اس کے آخر میں یہ اضافہ بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شداد بن اوس رضی اللہ عنہ کو یہ دعا تلقین کرنے کے بعد فرمایا کہ : “اے شداد بن اوس! جب تم دیکھو کہ لوگ سونے اور چاندی کو بطور خزانہ کے جمع کرتے ہیں تو تم اس دعا کو اپنا خزانہ سمجھو” ۔
جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک صاحب نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ : “رات میں نے آپ ﷺ کو دعا کرتے سنا ، اس دعا میں سے یہ الفاظ مجھے پوری طرح پہنچے ، آپ ﷺ اللہ تعالیٰ سے عرض کر رہے تھے : “اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي ذَنْبِي تا وَبَارِكْ لِي فِيمَا رَزَقْتَنِي” (اے اللہ ! میرے گناہ معاف فرما دے اور میرے لئے میرے گھر میں وسعت عطا فرما ، اور تو نے جو رزق مجھے عطا فرمایا ہے اس میں میرے لئے برکت دے) ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “تم نے دیکھا ان مختصر لفظوں نے کچھ بھی چھوڑا” ۔ (جامع ترمذی) تشریح اللہ تعالیٰ کی طرف سے جس بندے کے رزق میں برکت دی جائے اس کو رہنے بسنے کے لئے ایسا مکان عطا ہو جس کو وہ اپنے لئے کافی سمجھے اور اس میں وسعت محسوس کرے اور آخرت کے لئے اس کی لغزشوں ، گنوہوں کی مغفرت اور معافی کا فیصلہ ہو جائے تو اس کو سب ہی کچھ مل گیا ۔ رسول اللہ ﷺ کے آخری جملہ “هَلْ تَرَاهُنَّ تَرَكْنَ شَيْئًا ” کا مطلب یہی ہے کہ بندے کو جو کچھ چاہئے وہ اس مختصر سی دعا میں سب آ گیا ہے ، چھوٹے چھوٹے ان تین کلموں نے کچھ بھی نہیں چھوڑا ہے ۔
جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت طارق اشجعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک شخص آیا اور اس نے پوچھا کہ : “مجھے بتا دیجئے کہ جب میں اپنے پروردگار سے مانگوں تو کس طرح عرض کروں اور کیا عرض کرو ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : یوں عرض کیا کرو ۔ “اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي، وَعَافِنِي وَارْزُقْنِي” (اے اللہ ! میرے گناہ معاف فرما دے اور مجھے بخش دے ، مجھ پہ رحمت فرما مجھے عافیت اور آرام و چین نصیب فرما ، اور مجھے روزی عطا فرما) اس کے بعد آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ کےی چاروں انگلیاں ملا کے ۴ کا اشارہ کیا اور فرمایا کہ : یہ چار کلمے تیری دینی اور دنیوی ساری ضرورتوں پر حاوی ہیں ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ) تشریح بلاشبہ جس کو دنیا میں بقدرِ ضرورت روزی اور چین و آرام اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہو جائے اور آخرت میں اس کے لئے مغفرت اور رحمت کا فیصلہ ہو جائے اسے سب کچھ مل گیا یہ دعا بھی رسول اللہ ﷺ کی تعلیم فرمائی ہوئی نہایت جامع اور مختصر دعاؤں میں سے ہے ۔ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ جب کوئی شخص اسلام لاتا تو رسول اللہ ﷺ اس کو نماز کی تعلیم فرماتے ، اور اس دعا کی تلقین فرماتے : “وَارْحَمْنِي، وَعَافِنِي وَاهْدِنِي وَعَافِنِي، وَارْزُقْنِي”
جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺسے یہ دعا روایت کی : “اللهم عافني تا واجعل ثوابه الجنة” (اے اللہ ! مجھے اپنی قدرت سے عافیت عطا فرما اور مجھے اپنی رحمت کے سایہ میں لے لے ، اور میری زندگی اپنی طاعت و عبادت میں پوری کرا دے (یعنی میں زندگی کے آخری لمحہ تک تیری طاعت و عبادت کرتا رہوں) اور میرے بہترین عمل پر میرا خاتمہ فرما اور اس کے صلے میں مجھے جنت عطا فرما) ۔ (سنن کبریٰ للبیہقی)
جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺسے یہ دعا روایت کی ہے : “اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ تا إِلَّا أَنْتَ” (اے اللہ ! میں تجھ سے تیرا فضل اور تیری رحمت مانگتا ہوں ، بس تو ہی فضل و رحمت کا مالک ہے) ۔ (معجم کبیر طبرانی) تشریح اسی سلسلہ معارف الحدیث میں ذکر کیا جا چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو دینوی اور مادی نعمتیں نصیب ہوں ان کو قرآن و حدیث کی زبان میں “فضل” سے تعبیر کیا جاتا ہے اور روحانی و اُخروی نعمتوں کو “رحمت” سے ۔ اس بناء پر اس دعا کا مطلب یہ ہوا کہ : “اے اللہ ! دنیوی و اُخروی اور مادی و روحانی سب نعمتوں کا مالک تو ہی ہے ، تیرے سوا کوئی نہیں ہے جو کچھ بھی دے سکے ، اس لیے میں تجھ ہی سے دونوں قسم کی نعمتوں کا طالب و سائل ہوں”۔
جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺسے یہ دعا روایت کی ہے : “اللهم إني أسألك تا ولا فاضح” (اے اللہ ! میں تجھ سے مانگتا ہوں پاک صاف زندگی اور ڈھنگ کی موت (جس میں کوئی بدنمائی نہ ہو) اور (اصلی وطن آخرت کی طرف) ایسی مراجعت جس میں رسوائی اور فضیحت نہ ہو) ۔ (مسند بزار ، مستدرک حاکم ، معجم کبیر طبرانی) تشریح آدمی کے لئے تین ہی مرحلے ہیں : ایک اس دنیا کی زندگی کا مرحلہ ، دوسرا موت کا مرحلہ اور تیسرا دارِ آخرت کا مرحلہ ۔ اس مختصر دعا میں تینوں مرحلوں کے لئے بڑے سادہ انداز میں بہترین دعا موجود ہے ۔
جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺسے یہ دعا روایت کی ہے : “اللَّهُمَّ انْفَعْنِي تا مِنْ حَالِ أَهْلِ النَّارِ” (اے اللہ ! جو کچھ علم تو نے مجھے عطا فرمایا اس کو میرے لئے نفع مند بنا دے (یعنی مجھے اس پر عمل کرنے کی توفیق دے) اور مجھے وہ علم عطا فرما جو میرے لئے نافع ہو اور میرے علم میں اضافہ فرما ۔ اللہ کے لئے حمد و ستائش ہر حال میں ، اور میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں دوزخیوں کے حال سے) ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ)
جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺسے یہ دعا روایت کی ہے : “اللهم لا تكلنيتا ما أعطيتني” (اے اللہ ! مجھے پل بھر کے لئے میرے نفس کے حوالے نہ کر ، اور جو کوئی اچھی چیز (اچھا عمل یا اچھا حال) تو نے مجھے عطا فرمایا ہے اس کو مجھ سے واپس نہ لے) ۔ (مسند بزار) تشریح بندوں کے پاس جو کچھ خیر ہے وہ صرف اللہ کی توفیق اور اس کی عطا سے ہے ، اگر اللہ تعالیٰ ایک لمحہ کے لئے بھی نگاہِ کرم پھیر لے اور بندے کو اس کے نفس کے حوالے کر دے تو وہ محروم ہو کے رہ جائے گا ۔ اس لئے ہر عارف بندے کے دل کی یہ صدا ہوتی ہے کہ : “اے اللہ ! ایک لمحہ کے لئے مجھے میرے نفس کے حوالہ نہ کر ، ہر دم میری نگرانی اور مجھ پر نظرِ کرم فرما” ۔
جامع اور ہمہ گیر دعائیں
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺسے یہ دعا روایت کی ہے : “اللَّهُمَّ اجْعَلْ تا وَانْقِطَاعِ عُمُرِي” (اے اللہ ! میرے بڑھاپے کے دنوں میں اور میری عمر کے آخری حصے میں میری روزی میں زیادہ سے زیادہ وسعت فرما) ۔ (مستدرک حاکم) تشریح بڑھاپے میں اور عمر کے آخری حصے میں رزق کی تنگی زیادہ تکلیف دہ ہو سکتی ہے ، کیوں کہ آدمی اس وقت دوڑ بھاگ اور جدوجہد کے قابل نہیں ہوتا ۔ علاوہ ازیں موت کے قرب کا زمانہ ہوتا ہے ، اور ہر مومن کی آرزو یہ ہونی چاہئے کہ اس زمانہ میں آدمی اللہ کی یاد اور آخرت کی تیاری کے لئے دوسری تمام فکروں سے فارغ اور آزاد ہو ، اس لئے یہ مسنون دعا ہر مومن کے دل کی دھڑکن ہونی چاہیے : “اللَّهُمَّ اجْعَلْ أَوْسَعَ رِزْقِكَ عَلَيَّ عِنْدَ كِبَرِ سِنِّي، وَانْقِطَاعِ عُمُرِي”
جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺسے یہ دعا روایت کی ہے : “اللَّهُمَّ اجْعَلْ خَيْرَ عُمُرِي تا يَوْمَ أَلْقَاكَ فِيْهِ ” (اے اللہ ! میری عمر کے آخری حصے کو میری زندگی کا بہترین حصہ کر دے ، اور میرے آخری عمل میری زندگی کے بہترین عمل ہوں ، اور میرا سب سے اچھا دن وہ ہو جو تیرے حضور میں میری حاضری کا دن ہو) ۔ (معجم کبیر طبرانی)
جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺسے یہ دعا روایت کی ہے : “اللهُمَّ، اغْفِرْ لَنَا تا شَأْنَنَا كُلَّهُ” (اے اللہ ! ہم کو بخش دے ، ہم پر رحمت فرما اور دوزخ سے ہمیں بچا لے ، اور ہمارے حالات اور جملہ معاملات درست فرما دے) آپ سے عرض کیا گیا : حضور (ﷺ) ہمارے لئے اور زیادہ دعا فرمائیے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : کیا (اس دعا میں جو میں نے ابھی کی) ساری خیر کو ہم نے جمع نہیں کر لیا ۔ (مسند احمد ، سنن ابن ماجہ ، معجم کبیر طبرانی) تشریح اس دعا میں اللہ تعالیٰ سے مغفرت اور بخشش مانگی گئی ہے ، رحمت مانگی گئی ہے اللہ کی رضا اور قبولیت مانگی گئی ہے ، جنت کا داخلہ اور دوزخ سے نجات مانگی گئی ہے ، اور سب سے آخر میں استدعا کی گئی ہے کہ ہمارے جملہ معاملات اور سارے حالات درست فرمادے (وَأَصْلِحْ شَأْنَنَا كُلَّهُ) ظاہر ہے کہ اس کے بعد کوئی بھی انسانی حاجت اور ضرورت باقی نہیں رہتی ۔ اس سے زیادہ جو کچھ مانگا جائے گا وہ اسی اجمال کی تفصیل ہو گی ۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “أَوَ لَيْسَ قَدْ جَمَعْنَا الْخَيْرَكُلَّهُ” (یعنی اس دعا میں ہم نے وہ سب مانگ لیا ہے جو انسان کو دنیا اور آخرت میں مطلوب ہو سکتا ہے) ۔
جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ پر وحی نازل ہوئی (اور اس وقت آپ ﷺ کی وہ کیفیت ہو گئی جو نزولِ وحی کے وقت ہو جایا کرتی تھی ، جب وہ کیفیت ختم ہوئی) تو آپ ﷺ قبلہ رو ہو گئے اور ہاتھ اُٹھا کے یہ دعا فرمائی : “اللَّهُمَّ زِدْنَا تا وَارْضَ عَنَّا” (اے اللہ ! ہماری تعداد میں زیادتی اور اضافہ فرما ، کمی نہ فرما ، اور ہمیں عزت و عظمت عطا فرما ، ہماری اہانت و ذلت نہ فرما ، ہمیں اپنی ہر طرح کی نعمتیں عطا فرما ، ہمیں محروم نہ فرما ہمیں اپنا لے ، ہمارے مقابلے میں دوسروں کو ترجیح نہ دے ، ہم سے راضی ہو جا اور ہمیں خوش کر دے) ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی) تشریح اس حدیث میں آگے یہ بھی ہے کہ اس وقت آپ ﷺ پر سورہ مومنون کی ابتدائی دس آیتیں نازل ہوئی تھیں ، ان کا آپ ﷺ کے قلبِ مبارک پر غیر معمولی اثر تھا ، اسی تاثر کے ماتحت آپ ﷺ نے کاص اہتمام سے اپنی جماعت اور امت کے لئے یہ دعا فرمائی ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب کوئی دعا زیادہ اہتمام سے کرنی ہو تو بہتر ہے کہ قبلہ رو ہو کر اور ہاتھ اُٹھا کر کی جائے ۔
جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺسے یہ دعا روایت کی ہے : “اللهُمَّ أَصْلِحْ ذَاتَ بَيْنِنَا تا وَأَتِمَّهَا عَلَيْنَا ” (اے اللہ ! ہمارے آپس کے تعلقات درست فرما دے اور ہمارے دلوں کو جوڑ دے ، اور ہمیں سلامتی کے راستوں پر چلا ، اور ہر طرح کی گمراہیوں سے نکال کر ہمیں نور کی طرف لا ، اور ظاہری و باطنی قسم کی ساری بےحیائیوں سے ہمیں بچا ۔ اے اللہ ! ہماری سماعت و بصارت اور ہمارے قلوب میں اور اسی طرح ہمارے بیوی بچوں میں برکت عطا فرما ، اور ہماری توبہ قبول فرما کر ہم پر عنایت فرما ، تو بڑا عنایت فرمانے والا بڑا مہربان ہے اور ہمیں اپنی نعمتوں کا شکر گزار اور ثناء خواں اور قدر کے ساتھ قبول کرنے والا بنا اور ہمیں اپنی وہ نعمتیں بھرپور عطا فرما ۔ (معجم کبیر طبرانی ، مستدرک حاکم) تشریح اس جامع ترین ععا میں سب سے پہلے آپس کے تعلقات کی درستی اور دِلوں کے جوڑ کی استدعا کی گئی ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر دِلوں میں پھوٹ اور سینوں میں بغض و عداوت ہو تو دین بھی برباد ہوتا ہے اور دنیا بھی ۔ اللہ تعالیٰ کی دینی و دنیوی اور مادی و روحانی ساری نعمتوں سے صحیح طور پر فائدہ اٹھانے کے لئے ضروری ہے کہ معاشرہ بغض و عداوت کے عذاب سے محفوظ ہو ۔ علاوہ ازیں اہلِ ایمان کے دلوں کا باہمی جوڑ اور ان کے تعلقات کی خوش گواری بجائے خود اہم مطلوبات میں سے ہے ۔ آنکھوں ، کانوں اور بیوی بچوں وغیرہ میں برکت کا مطلب یہ ہے کہ یہ نعمتیں برابر نصیب رہیں ، اور ان سے وہ فوائد وبرکات حاصل ہوتے رہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان میں رکھے ہیں ۔ نعمتوں کی قدر اور ان پر شکر و حمد کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ملتی ہے اور ان سے محرومی بہت بڑی محرومی ہے ، اس لئے اس کو بھی اللہ سے مانگنا چاہئے اور ایک محتاج بندے کی حیثیت سے ہر نعمت کے اتمام کی بھی اس سے استدعا کرنی چاہئے ۔
جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺسے یہ دعا روایت کی ہے : “رَبِّ أَعْطِ نَفْسِي تا أَنْتَ وَلِيُّهَا وَمَوْلَاهَا” (اے میرے رب ! میرے نفس کو تقویٰ سے آراستہ فرما اور (اس کی گندگیاں دور فرما کر) اس کو پاکیزہ بنا دے ، تو ہی سب سے اچھا پاکیزہ بنانے والا ہے ، تو ہی اس کا والی اور مالک و مولیٰ ہے) ۔ (مسند احمد)
جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺسے یہ دعا روایت کی ہے : “اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ تا تَقْنَعُ بِعَطَائِكَ ” (اے اللہ ! میں تجھ سے مانگتا ہوں “نفس مطمئنہ” یعنی ایسا نفس جس کو تیری طرف سے اطمینان اور جمیعت کی دولت نصیب ہو ، اور مرنے کے بعد تیرے حضور میں حاضری کا اس کو کامل یقین ہو اور تیرے فیصلوں پر وہ راضی و مطمئن ہو ، اور تیری طرف سے جو کچھ ملے وہ اس پر قانع ہو) ۔ (مختارہ للضیاء المقدسی ، معجم کبیر طبرانی) تشریح “نفسِ مطمئنہ” وہی ہے جس میں یہ صفائی پائی جائیں اور یہ وہ نعمت ہے جو خاص ہی خاص بندوں کو عطا ہتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے نصیب فرمائے ۔
جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حارث اعور سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا کہ : “میں تم کو ایک دعا بتاؤں جو مجھے رسول ﷺ نے بتائی تھی ! مین نے عرض کیا : ضرور بتائیے ! آپ نے فرمایا : یوں عرض کیا کرو ۔ “اللَّهُمَّ افْتَحْ مَسَامِعَ قَلْبِي تا وَعَمَلًا بِكِتَابِكَ” (اے اللہ ! تو اپنے ذکر کے لئے (یعنی اپنی ہدایت و نصیحت قرآن پاک کے لئے) میرے دل کے کان کھول دے ، اور مجھے اپنی اور اپنے رسولِ پاک ﷺ کی تابعداری کی اور اپنی کتابِ پاک قرآن مجید پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما) ۔ (معجم اوسط للطبرانی)
جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺسے یہ دعا روایت کی ہے : “اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي تا وَلَا تُشْقِنِي بِمَعْصِيَتِكَ” (اے اللہ ! میرا حال ایسا کر دے کہ تیرے حضور میں حاضر ہونے تک (یعنی مرتے دم تک) تیرے قہر و جلال سے میں ہر وقت اس طرح ترساں و لرزاں رہوں کہ گویا ہر دم تجھے دیکھ رہا ہوں ، اور اپنے خوف و تقویٰ کی دولت نصیب فرما کر مجھے خوش بخت کر دے ، اور ایسا نہ ہو کہ تیری نافرمانی کر کے میں بدبختی میں مبتلا ہو جاؤں) ۔ (معجم اوسط طبرانی) تشریح غور کیا جائے مندرجہ بالا دعاؤں میں خاص کر اس دعا میں کتنے مختصر الفاظ میں کتنی عظیم نعمتوں کی استدعا کی گئی ہے ۔ یہ دعائیں آنحضرتﷺ کی خاص میراث میں سے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ان کی قدر و قیمت کو سمجھیں ۔
جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺسے یہ دعا روایت کی ہے : “اللهم ارزقني تا والأضراس جمرا ” (اے اللہ ! مجھے وہ آنکھیں نصیب فرما جو تیرے عذاب اور غضب کے خوف سے آنسوؤں کی بارش برسا کر دل کو سیراب کر دیں ، اس گھڑی کےک آنے سے پہلے جب بہت سی آنکھیں خون کے آنسو روئیں گی اور بہت سے مجرمین کی داڑھیں انگارہ ہو جائیں گی) ۔ (ابن عساکر) تشریح جن کو اللہ نے حقائق کی معرفت دی ہے ان کے نزدیک وہی آنکھ زندہ اور بینا ہے جو اللہ کے خوف سے روئے اور آنسوؤں کی بارش برسائے ان کے دل اسی بارش سے سیراب ہوتے ہیں ، اس لئے وہ اللہ سے رونے والی آنکھیں مانگتے ہیں ۔
جامع اور ہمہ گیر دعائیں
ھیثم بن مالک طائی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺسے یہ دعا روایت کی ہے : “اللَّهُمَّ اجْعَل حبك تا من عبادتك” (اے اللہ ! ایسا کر دے کہ کائنات کی ساری چیزوں سے زیادہ مجھے تیری محبت ہو ، اور ساری چیزوں سے زیادہ مجھے تیرا خوف ہو اور اپنی ملاقات کے شوق کو مجھ پر اتنا طاری کر دے کہ دنیا کی ساری حاجتوں کا احساس اس کی وجہ سے فنا ہو جائے اور جہاں تو بہت سے اہلِ دنیا کو ان کی مرغوبات دے کر ان کی آنکھین ٹھنڈی کرتا ہے تو میری آنکھیں طاعت و عبادت سے ٹھنڈی کر (یعنی مجھے عبادت کا وہ ذوق و شوق بخش دے کہ اس میں میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہو اور پھر مجھے عبادت کی بھرپور توفیق دے) ۔ (حلیہ ابی نعیم)
جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ : “اللہ کے پیغمبر داؤد علیہ السلام جو دعائیں کرتے تھے ان مین ایک خاص دعا یہ بھی تھی : “اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ تا وَمِنَ الْمَاءِ البَارِدِ” (اے میرے اللہ ! میں تجھ سے مانگتا ہوں تیری محبت (یعنی مجھے اپنی محبت عطا فرما) اور اپنے ان بندوں کی محبت بھی مجھے عطا فرما جو تجھ سے محبت کرتے ہین ، اور ان اعمال کی بھی محبت مجھے عطا فرما جو تیری محبت کے مقام تک پہنچاتے ہوں ۔ اے اللہ ! ایسا کر دے کہ اپنی جان اور اہل و عیال کی محبت اور ٹھنڈے پانی کی چاہت سے بھی زیادہ مجھے تیری محبت اور چاہت ہو) حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب حضرت داؤد علیہ السلام کا ذکر فرماتے تو ان کے متعلق یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ “وہ بہت ہی زیادہ عبادت گزار بندے تھے” ۔ (جامع ترمذی) تشریح حضرت داؤد علیہ السلام کی یہ دعا جو ان کے جذبہ محبت اور عشق الٰہی کی آئینہ دار تھی رسول اللہ ﷺ کو بہت ہی پسند تھی ، اسی لئے آپ ﷺ نے خاص طور سے صحابہ کرامؓ کو بتلائی ۔ وصفِ نبوت اگرچہ تمام انبیاء علیہم السلام کا مشترک شرف ہے ، لیکن اس کے علاوہ بعض انبیاء علیہم السلام کے کچھ خصائص بھی ہوتے ہین جن میں وہ دوسروں سے ممتاز ہوتے ہیں ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کثرتِ عبادت حضرت داؤد علیہ السلام کی امتیازی خصوصیت تھی ۔
جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت عبداللہ بن یزید خطمی انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک دعا یہ بھی کیا کرتے تھے : “اللَّهُمَّ ارْزُقْنِي تا فِيمَا تُحِبُّ” (اے اللہ ! مجھے اپنی محبت عطا فرما اور اپنے ان بندوں کی محبت عطا فرما جن کی محبت میرے لئے تیرے تیرے نزدیک نفع مند ہو ۔ اے اللہ ! میری چاہت اور رغبت کی جو چیزیں تو نے مجھے عطا فرمائی ہیں ان سے مجھے ان کاموں میں تقویت پہنچا جو تجھے محبوب ہیں ، اوری میری رغبت و چاہت کی جو چیزیں تو نے مجھے عطا نہیں فرمائیں (اور میرے اوقات کو ان سے فارغ رکھا) تو مجھے توفیق دے کہ میں اس فراغ کو ان کاموں میں استعمال کروں جو تجھے محبوب ہیں) ۔ (جامع ترمذی) تشریح آدمی کو اس کی مرغوبات دے دی جائیں تو اس کا بھی امکان ہے کہ وہ ان میں مست اور منہمک ہو کر خدا سے غافل ہو جائے ، یا وہ ان کو اس طرح استعمال کرے کہ معاذاللہ خدا سے اور دور ہو جائے ۔ اسی طرح مرغوبات نہ ملنے کی صورت میں بھی امکان ہے کہ وہ دوسری قسم کی خرافات میں اپنا وقت برباد کرے ۔ اس لئے بندے کو برابر یہ دعا کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اس کو اگر اس کی مرغوبات عطا فرمائے تو اس کو اس کی بھی توفیق دے کہ وہ مرغوبات کو تقربِ الی اللہ کا وسیلہ بنائے ، اور اگر مرغوبات نہ ملیں اور اس کی وجہ سے فرصت و فراغ حاصل ہو تو اس کو توفیق ملے کہ فارغ اور خالی وقت کو اللہ تعالیٰ کی مرضیات ہی میں لگائے ۔ رسول اللہ ﷺ کی ہر دعا اور اس کا ہر جزو بلاشبہ معرفت کا خزانہ ہے ۔
جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے یہ دعا تلقین فرمائی : “اللَّهُمَّ أَلْهِمْنِي رُشْدِي، وَأَعِذْنِي مِنْ شَرِّ نَفْسِي” (اے اللہ ! میرے دل میں وہ ڈال جس میں میرے لئے بھلائی اور بہتری ہو ، اور میرے نفس کے شر سے مجھے بچا ، اور اپنی پناہ میں رکھ) ۔ (جامع ترمذی)
جامع اور ہمہ گیر دعائیں
ام المومنین حضرت امِ سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب ان کے پاس ہوتے تو اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے : “يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ، ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ” (اے دلوں کو پلٹنے والے ! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت و قائم رکھ) ۔ (جامع ترمذی) تشریح اس روایت میں آگے حضرت امِ سلمہؓ کا یہ بیان بھی ہے کہ میں نے ایک دن حضور ﷺ سے عرض کیا کہ : کیا بات ہے کہ آپ ﷺ اکثر و بیشتر یہ دعا کرتے ہیں ؟ (حضرت امِ سلمہؓ کا مطلب غالبا اس سوال سے یہی ہو گا کہ آپ ﷺ تو لغزشوں سے محفوظ رہیں پھر آپ ﷺ یہ دعا کیوں کرتے ہیں) آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : ہر آدمی کا دل اللہ کے ہاتھ میں ہے اسی کے اختیار میں ہے جس کا دل چاہے سیدھا رکھے اور جس کا چاہے ٹیڑھا کر دے ۔ آپ ﷺ کے اس جواب کا مطلب یہ ہوا کہ میرا معاملہ بھی اللہ کی مشیت پر موقوف ہے اسی لئے مجھے بھی اس سے دعا مانگنے کی ضرورت ہے ۔ بلاشبہ جس بندے کو اپنے نفس کی اور ساتھ ہی اپنے رب کی معرفت نصیب ہو گی اس کا یہی حال ہو گا اور وہ کبھی اپنے کو مامون و محفوظ نہیں سمجھے گا ۔ بندوں کے حق میں یہی بلندی اور کمال ہے ۔ “قریباں را بیش بود حیرانی”
جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺسے یہ دعا روایت کی ہے : “اللَّهُمَّ إِنِّي ضَعِيفٌ تا وَإِنِّي فَقِيرٌ فارزقني” (اے میرے اللہ ! میں تیرا ایک کمزور بندہ ہوں تو اپنی رضاطلبی کی راہ میں میری کمزوری کو قوت سے بدل دے (تا کہ میں پوری تندہی اور تیز رفتاری سے تیری رضا کے لئے کام کر سکوں) اور میری پیشانی پکڑ کے میرا رُخ خیر کی طرف کر دے ، اور اسلام کو میرا منتہائے رضا بنا دے (یعنی میری انتہائی خوشی یہ ہو کہ میں پورا پورا مسلم ہو جاؤں) اے میرے اللہ ! میں ضعیف و ناتواں ہوں ، تو میری ناتوانی کو توانائی سے بدل دے اور میں ذلت و پستی کے حال میں ہوں تو مجھے عزت بخش دے ، اور میں فقیر و نادار ہوں تو مجھے میری ضرویات عطا فرما دے) ۔ (معجم کبیر طبرانی)
جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺسے یہ دعا روایت کی ہے : “إليك ربي فحببني تا فجنبني ” (اے میرے پروردگار ! مجھے اپنا پیارا بنا لے اور مجھے ایسا کر دے کہ میں اپنے کو تیرے حضور میں ذلیل سمجھوں اور دوسرے بندوں کی نگاہ میں مجھے باعظمت بنا دے ، اور برے اخلاق سے مجھے بالکل بچا اور دور رکھ) ۔ (مکارم الاخلاق ابنِ ہلال) تشریح کسی بندہ سے اللہ تعالیٰ کا محبت فرمانا عظیم ترین دولت ہے جس کی ہر مومن کو دلی آرزو ہونی چاہئے ، اس دعا میں سب سے پہلے یہی نعمت مانگی گئی ہے ۔ اسی طرح یہ بھی بندے پر اللہ تعالیٰ کا بڑا انعام ہے کہ وہ خود کو تو ذلیل و حقیر سمجھے لیکن اللہ کے بندے اس کو عزت کی نگاہ میں دیکھیں اور اس کا احترام و اکرام کریں ۔ رسول اللہ ﷺ کی یہ دعا پہلے گزر چکی ہے : “اللَّهُمَّ اجْعَلنِي فِي عَيْني صَغِيرا اللَّهُمَّ اجْعَلنِي فِي أعين النَّاس كَبِيرا”
جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نے مجھے یہ دعا تلقین فرمائی : “اللهم أنت الخلاق العظيم تا برحمتك يا أرحم الراحمين” (اے میرے اللہ ! تو خالق کل اور خلاق عظیم ہے تو سمیع و علیم (سب کچھ سننے والا اور جاننے والا) ہے ۔ تو غفور و رحیم (بخشنے والا اور نہایت مہربان) ہے ۔ تو مالکِ عرشِ عظیم ہے ، تو نہایت فیاض اور کریم ہے ۔ اپنی ان عالی صفات کے صدقہ میں ، تو مجھے بخش دے ، مجھ پر رحمت فرما ، مجھے عافیت عطا فرما ، مجھے رزق نصیب فرما ، میری پردہ داری فرما ، میری شکستگی کو جوڑ دے ، مجھے عزت و رفعت عطا فرما ، مجھے اپنی راہ پر چلا ، مجھے گمراہی سے بچا اور اے ارحم الراحمین (مرنے کے بعد آخرت میں) اپنی رحمت سے مجھے جنت میں داخلہ نصیب فرما) ۔ حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ دعا تلقین فرمائی اور مجھ سے ارشاد فرمایا : اس کو ایکھ لو اور اپنے بعد والوں کو سکھاؤ ۔ (مسند فردوس دیلمی) تشریح کس قدر جامع دعا ہے ! اس کو نہ سیکھنا اور اس سے فائدہ نہ اُٹھانا بلاشبہ بڑے خسارے کی بات ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان انمول جواہرات کی قدر نصیب فرمائے اور ان سے فائدہ اٹھانے کی توفیق دے ۔
دعوتِ استعاذہ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “اللہ کی پناہ مانگو بلاؤں کی سختی سے ، اور بدبختی کے لاحق ہونے سے اور بری تقدیر سے اور دشمنوں کی شماتت سے ” ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح ذخیرہ حدیث میں رسول اللہ ﷺ سے جو دعائیں ماثور و منقول ہیں جو آپ ﷺ نے مختلف اوقات میں اللہ تعالیٰ کے حضور میں خود کیں یا امت کو ان کی تعلیم و تلقین فرمائی ان میں زیادہ تر وہ ہیں جن میں اللہ تعالیٰ سے کسی دنیوی یا اُخروی ، روحانی یا جسمانی ، انفرادی یا اجتماعی نعمت اور بھلائی کا سوال کیا گیا ہے اور مثبت طور پر کسی حاجت اور ضرورت کے لئے استدعا کی گئی ہے ۔ ڈیڑھ سو سے کچھ اوپر جو دعائیں اس سلسلہ میں اب تک درج ہو چکی ہیں وہ سب اسی قبیل کی تھیں ۔ ان کے علاوہ بہت سی ایسی دعائیں بھی آپ ﷺ سے مروی ہیں جن میں کسی خیر و نعمت اور کسی مثبت حاجت و ضرورت کے سوال کے بجائے دنیا یا آخرت کے کسی شر سے اور کسی بلا اور آفت سے پناہ مانگی گئی ہے اور حفاظت و بچاؤ کی استدعا کی گئی ہے ۔ پھر جس طرح پہلی قسم کی دعاؤں کو مجموعی طور پر سامنے رکھ کر یہ کہنا برحق ہے کہ دنیا اور آخرت کی کوئی خیر اور بھلائی اور کوئی حاجت و ضرورت ایسی نہیں ہے جس کی دعا رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے نہ کی ہو ، اور امت کو تلقین نہ فرمائی ہو ۔ اسی طرح دوسری قسم کی دعاؤں کو پیشِ نظر رکھ کر یہ کہنا بھی بالکل صحیح ہے کہ دنیا اور آخرت کا کوئی شر ، کوئی فساد ، کوئی فتنہ اور کوئی بلا اور آفت اس عالم وجود میں ایسی نہیں ہے جس سے رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی پناہ نہ مانگی ہو اور امت کو اس کی تلقین نہ فرمائی ہو ۔ غور کرنے اور سمجھنے والوں کے لئے رسول اللہ ﷺ کا نہایت روشن معجزہ ہے کہ آپ ﷺ کی دعائیں انسانوں کی دنیوی و اخروی ، روحانی اور جسمانی ، انفرادی اور اجتماعی ظاہری اور باطنی ، مثبت اور منفی ساری ہی حاجتوں اور ضرورتوں پر حاوی ہیں اور کوئی خفی سے خفی اور دقیق سے دقیق حاجت نہیں بتائی جا سکتی جس کو آپ ﷺ نے بہتر سے بہتر پیرائے میں اللہ تعالیٰ سے نہ مانگا ہو ، اور امت کو اس کے مانگنے کا طریقہ نہ سکھایا ہو ۔ قرآن مجید میں بھی ان دونوں ہی قسموں کی یعنی مثبت اور منفی دعائیں موجود ہیں اور بالکل آخر کی دو مستقل سورتیں “قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ” اور “قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ” اول سے آخر تک منفی قسم کی دعا یعنی استعاذہ ہی پر مشتمل ہیں ، اور اسی لئے ان کو “معوذتین” کہا جاتا ہے اور ان ہی پر قرآن مجید ختم ہوا ہے ۔ قرآن پاک کے اس طریقے ہی کی پیروی میں یہ مناسب سمجھا گیا کہ جو احادیث ایسی دعاؤں پر مشتمل ہیں جن میں شرور و فتن اور بلیات سے اور برے اعمال و اخلاق اور ہر قسم کی ناپسندیدہ باتوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگی گئی ہے ، اُن کو آخر میں درج کیا جائے اور ان ہی کو اس سلسلہ کا خاتمہ بنایا جائے ۔ اب ذیل میں وہی حدیثیں پڑھئے : اس حدیث میں بظاہر تو چار چیزوں سے پناہ مانگنے کی تلقین فرمائی گئی ہے ، لیکن فی الحقیقت دنیا اور آخرت کی کوئی برائی اور کوئی تکلیف اور کوئی مصیبت اور کوئی پریشانی ایسی نہیں سوچی جا سکتی جو ان چار عنوانوں کے احاطہ سے باہر ہو ۔ ان میں سب سے پہلی چیز ہے : “جُهْدُ الْبَلَاءِ” (کسی بلا کی مشقت اور سختی) بلا ہر اس حالت کا نام ہے جو انسان کے لئے باعث تکلیف اور موجبِ پریشانی ہو ، اور جس میں اس کی آزمائش ہو ، یہ دینوی بھی ہو سکتی ہے اور دینی بھی ، روحانی بھی ہو سکتی ہے اور جسمانی بھی ، انفرادی بھی ہو سکتی ہے اور اجتماعی بھی ۔ الغرض یہ ایک ہی لفظ تمام مصائب اور تکالیف اور ا ٓفات و بلیات کو حاوی ہے ۔ اس کے بعد دوسری چیز جس سے پناہ مانگنے کی اس حدیث میں تلقین فرمائی گئی ہے ، وہ ہے “دَرْكُ الشَّقَاءِ” (بدبختی کا لاحق ہونا) اور تیسری چیز ہے : “سُوْءُ الْقَضَاءِ” (بری تقدیر) ان دونوں کی جامعیت بھی بالکل ظاہر ہے ، جس بندے کو ہر نوع کی بدبختی سے اور بری تقدیر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ اور حفاظت حاصل ہو گئی بلاشبہ اسے سب کچھ مل گیا ۔ آخری چیز جس سے پناہ مانگنے کی اس حدیث میں تلقین فرمائی گئی ہے وہ ہے “شَمَاتَةُ الْاَعْدَاءِ” (یعنی کسی مصیبت اور ناکامی پر دشمنوں کا ہنسنا) بلاشبہ دشمنوں کی شماتت اور طعنہ زنی بعض اوقات بڑی روحانی تکلیف و اذیت کا باعث ہوتی ہے ، اس لئے اس سے خصوصیت کے ساتھ پناہ مانگنے کے لئے فرمایا ، اگرچہ اس سے پہلے تین جامع عنوانات اس کو بھی حاوی تھے ۔ رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد کی تعمیل میں ان چاروں چیزوں سے پناہ مانگنے کے لئے صحیح اور مناسب الفاظ یہ ہوں گے : اللهم إنى أعوذ بك مِنْ جَهْدِ البَلاَءِ، وَدَرَكِ الشَّقَاءِ، وَسُوءِ القَضَاءِ، وَشَمَاتَةِ الأَعْدَاءِ اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں بلا کی سختی سے اور بدبختی لاحق ہونے سے اور بری تقدیر سے اور دشمنوں کے ہنسنے اور ان کی طعنہ زنی سے ۔
دعوتِ استعاذہ
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس طرح دعا کیا کرتے تھے : “اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الهَمِّ تا غَلَبَةِ الرِّجَالِ” (اے میرے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں فکر سے اور غم سے اور کم ہمتی اور کاہلی و بزدلی سے اور بخیلی و کنجوسی اور قرضہ کے بار سے اور لوگوں کے دباؤ سے) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس دعا میں جن آٹھ چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگی گئی ہے ، ان میں سے چار (فکر و غم ، قرضہ کا بار اور مخالفین کا غلبہ) ایسی چیزیں ہیں جو حساس و صاحبِ شعور آدمی کے لئے زندگی کے لطف سے محرومی اور سخت روحانی اذیت کا باعث ہوتی ہیں اور اس کی قوتِ کار اور صلاحیتوں کو معطل کر کے رکھ دیتی ہیں جس کے نتیجہ میں وہ دنیا اور آخرت کی بہت سی کامیابیوں اور سعادتوں سے محروم رہ جاتا ہے ۔ اور باقی چار (کم ہمتی ، کاہلی ، کنجوسی اور بزدلی) ایسی کمزوریاں ہیں جن کی وجہ سے آدمی وہ جرأت مندانہ اقدامات اور محنت و قربانی والے وہ اعمال نہیں کر سکتا جن کے بغیر نہ دنیا میں کامرانی حاصل کی جا سکتی ہے اور نہ آخرت میں فوز و فلاح اور نہ اللہ کی رضا کا مقام حاصل ہو سکتا ہے اس لئے رسول اللہ ﷺ ان سب چیزوں سے اللہ کی پناہ چاہتے تھے ، اور اپنے عمل سے امت کو بھی اس کی تلقین فرمایا کرتے تھے ۔
دعوتِ استعاذہ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ دعا کرتے تھے : “اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الكَسَلِ تا بَاعَدْتَ بَيْنَ المَشْرِقِ وَالمَغْرِبِ” (اے میرے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں سستی ، کاہلی سے اور انتہائی بڑھاپے سے (جو آدمی کو بالکل ہی اذکار رفتہ کر دے) اور قرضہ کے بوجھ سے ، اور ہر گناہ سے ۔ اے میرے اللہ ! میں تیری پناہ لیتا ہوں دوزخ کے عذاب سے او ر دوزخ کے فتنہ سے اور فتنہ قبر سے ، اور عذابِ قبر سے ، اور دولت و ثروت کے فتنہ کے شر سے ، اور مفلسی و محتاجی کے فتنہ کے شر سے اور فتنہ دجال کے شر سے ۔ اے میرے اللہ ! میرے گناہوں کے اثرات دھو دے اولے اور برف کے پانی سے اور میرے دل کو (گندے اعمال و اخلاق کی گندگیوں سے) اس طرح پاک صاف کر دے جس طرح سفید کپڑا میل کچیل سے صاف کیا جاتا ہے ، اور میری اور گناہوں کے درمیان اتنی دوری پیدا کر دے جتنی دوری تو نے مشرق و مغرب کے درمیان کر دی ہے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس دعا میں علاوہ اور چیزوں کے “ھرم” یعنی بڑھاپے سے بھی پناہ مانگی گئی ہے ۔ عمر کی اس حد تک درازی کہ ہوش و حواس صحیح سالم رہیں (اور آخرت کی کمائی کا سلسلہ جاری رہے) اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے ، لیکن ایسا بڑھاپا جو بالکل ہی اذکار رفتہ کر دے جس کو قرآن پاک میں “اَرْذَلُ الْعُمُرِ” فرمایا گیا ہے ۔ ایسی ہی چیز ہے جس سے اللہ کی پناہ مانگی جائے “ھرم” بڑھاپے کا وہی درجہ ہے ۔ اس دعا میں “عذابِ نار” کے ساتھ “فتنہ نار” سے اور “عذابِ قبر” کے ساتھ “فتنہ قبر” سے بھی پناہ مانگی گئی ہے ۔ عذابِ نار سے مراد بظاہر دوزخ کا وہ عذاب ہے جو ان دوزخیوں کو ہو گا جو کفر و شرک جیسے سنگین جرائم کی وجہ سے دوزخ میں ڈالے جائیں گے ۔ اسی طرح عذابِ قبر سے مراد بظاہر قبر کا وہ عذاب ہے جو اسی طرح کے بڑے مجرموں کو قبر می ہو گا ۔ لیکن جو ان سے کم درجہ کے مجرمین ہیں ان کو اگرچہ دوزخیوں کی طرح دوزخ میں نہیں ڈالا جائے گا اور قبر میں بھی ان پر درجہ اول کے ان مجرمین والا وہ سخت عذاب مسلط نہیں کیا جائے گا ، لیکن دوزخ اور قبر کی کچھ تکلیفوں سے ان لوگوں کو بھی گزرنا پڑے گا اور بس یہی سزا ان کے لئے کافی ہو گی ۔ اس عاجز کے نزدیک “فتنہ نار” اور “عذابِ قبر” کے ساتھ اس “فتنہ نار” اور “فتنہ قبر” سے بھی پناہ چاہی اور اپنے عمل سے ہم کو بھی اس کی تلقین فرمائی ہے ۔ دجال کا فتنہ بھی ان عظیم ترین فتنوں میں سے ہے جن سے رسول اللہ ﷺ بکثرت پناہ مانگتے تھے ، اور اہلِ ایمان کو اس کی تلقین فرماتے تھے ۔ اللہ تعالی دجالِ اکبر کے فتنہ سے (جس کی رسول اللہ ﷺ نے خبر دی ہے) اور ہر دجالی فتنہ سے اپنی پناہ میں رکھے ۔ اس دعا میں دولت مندی کے فتنہ سے اور اس کے ساتھ فقر و محتاجی کے فتنہ سے بھی اللہ کی پناہ مانگی گئی ہے ۔ دولت و ثروت بذاتِ خود کوئی بری چیز نہیں ، بلکہ اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے ، اگر اس کا حق ادا کرنے اور اس کو صحیح طور پر استعمال کرنے کی توفیق ملے ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنی دولت ہی سے وہ مقام پایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے بارے میں اعلان فرمایا کہ : “عثمان اس کے بعد جیسا بھی عمل کریں ان پر کوئی عتاب نہ ہو گا اور ان سے کوئی باز پرس نہ ہو گی (مَا عَلَى عُثْمَانَ مَا عَمَلَ بَعْدَ مَرَّتَيْنِ) (1) ” اسی طرح فقر کے ساتھ اگر صبر و قناعت نصیب ہو تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے خود اپنے لئے اور اپنے گھر والوں کے لئے فقر ہی کی زندگی پسند فرمائی ، اور فقر اور اہلِ فقر کے بڑے فضائل بیان فرمائے ۔ لیکن اگر بدقسمتی سے دولت مندی و خوش حالی تکبر و غرور پیدا کرے اور مال و دولت کے صحیح استعمال کی توفیق نہ ملے تو پھر وہ قارونیت ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے ۔ اسی طرح اگر فقر و محتاجی کے ساتھ صبر و قناعت نہ ہو اور اس کی وجہ سے آدمی ناکردنی کرنے لگے تو وہ خدا کا ایک عذاب ہے ، اور اسی کے برے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “كَادَ الْفَقْرُ أَنْ يَكُونَ كُفْرًا” (محتاجی اور مفلسی آدمی کو کفر تک بھی پہنچا سکتی ہے) اس دعا میں غنا اور فقر (دولت مندی اور ناداری)کے جس شر و فتنہ سے پناہ مانگی گئی ہے وہ یہی ہے ، اور وہ ایسی ہی چیز ہے کہ اس سے ہزار بار پناہ مانگی جائے ۔ اس دعا کے آخر میں گناہوں کے اثرات دھونے کی اور دل کی صفائی کی اور گناہوں سے بہت دور کئے جانے کی جو دعا کی گئی ہے وہ اگچہ بظاہر مثبت دعاؤں میں سے ہے ، لیکن غور کیا جائے تو وہ بھی ایک طرح کہ سلبی دعا ہے اور گویا استعاذہ ہی ہے ۔
دعوتِ استعاذہ
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ دعا کیا کرتے تھے : “اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْعَجْزِ تا وَمِنْ دَعْوَةٍ لَا يُسْتَجَابُ لَهَا” (اے میرے اللہ ! میں تیری پناہ لیتا ہوں کم ہمتی سے اور سستی و کاہلی اور بزدلی سے ، اور بخیلی و کنجوسی سے اور انتہائی درجہ کے بڑھاپے سے اور قبر کے عذاب سے ۔ اے میرے اللہ ! میرے نفس کو تقویٰ عطا فرما دے اور اس کا تزکیہ فرما کے اس کو مصفیٰ بنا دے تو ہی سب سے اچھا تزکیہ فرمانے والا ہے ، تو ہی اس کا والی اور مولیٰ ہے ۔ اے میرے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس علم سے جو نفع مند نہ ہو ، اور ایسے دل سے جس میں خشوع نہ ہو اور اس (ہوسناک) نفس سے جس کی سیری نہ ہو ، اور ایسی دعا سے جو قبول نہ ہو) ۔ (صحیح مسلم) تشریح علم غیر نافع ، قلب غیر خاشع اور ہوسناک نفس جس کی ہوسناکی ختم ہی نہ ہو اور وہ دعا جس کی اللہ کے ہاں سماعت نہ ہو ۔ ان چاروں چیزوں سے اللہ کی پناہ مانگنے کا مطلب یہی ہو گا کہ اللہ تعالیٰ علم نافع عطا فرمائے ، قلب کو خشوع کی صفت مرحمت فرمائے ، نفس کو ہوسناکی سے پاک فرما کر اس کو قناعت سے آراسشتہ فرمائے اور دعاؤں کو قبولیت سے نوازے ۔
دعوتِ استعاذہ
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی دعاؤں میں سے ایک دعا یہ بھی تھی : “اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ تا وَجَمِيعِ سَخَطِكَ” (اے میرے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں تیری نعمتوں کے زائل ہو جانے سے ، اور تیری بخشی ہوئی عافیت کے چلے جانے سے ، اور تیرے عذاب کے ناگہانی آ جانے سے ، اور تیری ہر قسم کی ناراضی اور ناخوشی ہے) ۔ (صحیح مسلم) تشریح رسول اللہ ﷺ کی اس دعا سے بلکہ اس سلسلہ کی ساری ہی دعاؤں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ نبوت رسالت بلکہ مقامِ محبوبیت پر بھی جائز ہونے کے باوجود قضاء و قدر کے فیصلوں سے آپ ﷺ کتنے لرزاں و ترساں رہتے تھے ، اور اپنے کو اللہ تعالیٰ کی نگاہِ کرم اور اس کی حفاظت و پناہ کا کتنا محتاج سمجھتے تھے ، صحیح ہے ۔ “قریبان را بیش بود حیرانی”
دعوتِ استعاذہ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ دعا کیا کرتے تھے : “اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الشِّقَاقِ، وَالنِّفَاقِ، وَسُوءِ الْأَخْلَاقِ” (اے میرے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں ۔ شقاق یعنی آپس کے سخت اختلاف اور نفاق سے اور برے اخلاق سے) ۔ (سنن ابی داؤد ، سنن نسائی) تشریح “شقاق” اس شدیدی اختلاف کو کہتے ہیں جس کے نتیجہ میں فریقین ایک دوسرے سے بالکل جدا ہو جائیں اور ان کی راہیں الگ الگ ہو جائیں ۔ نفاق کے معنی ہیں ظاہر و باطن کا فرق ، یہ اعتقادی نفاق کے علاوہ عملی زندگی میں منافقانہ رویہ کو بھی شامل ہے ، یہ تینوں چیزیں جن سے اس دعا میں اللہ کی پناہ چاہی گئی ہے (یعنی خلاف و شقاق ، نفاق اور برے اخلاق) آدمی کے دین کو بلکہ اس کی دنیا کو بھی برباد کر دیتی ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ اگرچہ معصوم اور قطعاً محفوظ تھے لیکن ان کے باوجود ان مہلکات کی ہلاکت خیزی ہی کی وجہ سے ان سے اللہ کی پناہ مانگتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ان چیزوں سے اپنے کو محفوظ رکھنے کی اُتنی فکر کریں جتنی ایک مومن کو ہونی چاہئے اور ہمیشہ ان سے اللہ کی پناہ مانگتے رہیں ۔
دعوتِ استعاذہ
شکل بن حمید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ : یا رسول اللہ! مجھے کوئی تعوذ تعلیم فرما دیجئے (یعنی کوئی ایسی دعا بتا دیجئے) جس کے ذریعہ میں اللہ سے پناہ و حفاظت طلب کیا کروں ؟ آپ ﷺ نے میرا ہاتھ اپنے دستِ مبارک میں تھام کر فرمایا : کہو “اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ سَمْعِي تا وَمِنْ شَرِّ مَنِيِّي” (اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں اپنے کانوں کے شر سے ، اپنی نگاہ کے شر سے ، اور اپنی زبان کے شر سے ، اور اپنے قلب کے شر سے ، اور اپنے مادہ شہوت کے شر سے) ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی ، سنن نسائی) تشریح سمع و بصر اور زبان و قلب اور اسی طرح جنسی خواہش کا شر یہ ہے کہ یہ چیزیں احکامِ خداوندی کے خلاف استعمال ہوں ، جس کا انجام اللہ کا غضب اور اس کا عذاب ہے ۔ اس لئے ضروری ہے کہ اس شر سے محفوظ رہنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کی جائے اور اس کی پناہ مانگی جائے ، وہی اگر بچائے گا تو بندہ بچ سکے گا ورنہ مبتلا ہو کر ہلاک ہو جائے گا ۔
دعوتِ استعاذہ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ دعا کیا کرتے تھے : “اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْجُوعِ تا بِئْسَتِ الْبِطَانَةُ” (اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں بھوک اور فاقہ سے ، وہ بڑا تکلیف دہ رفیقِ کواب ہے اور خیانت کے جرم سے ، وہ بہت بری ہمراز ہے) ۔ (سنن ابی داؤد ، سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ) تشریح جب آدمی کو بھاک اور فاقہ کی تکلیف ہو تو نیند نہیں آتی ، بس اسی احساس کے ساتھ کروٹیں بدلتا رہتا ہے ۔ اسی لحاظ سے بھوک کو “رفیقِ خواب” (یعنی بستر کا ساتھی) کہا گیا ہے ۔ اور خیانت ہمیشہ چوری چھپے ہی کی جاتی ہے اور اس کا راز بس خیانت کرنے والے ہی کو معلوم ہوتا ہے ، اس لئے خیانت کو “بِطَانَةُ” (ہمراز) کہا گیا ہے ۔ بھوک اور خیانت جیسی چیزوں سے رسول اللہ ﷺ کا پناہ مانگنا کمالِ عبدیت کا وہ آخری اور انتہائی مقام ہے جو بلاشبہ آپ ﷺ کا طرہ امتیاز ہے اور اس مین ہمارے لئے بڑا سبق ہے ۔
دعوتِ استعاذہ
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ دعا کیا کرتے تھے : “اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ تا وَمِنْ سَيِّئِ الْأَسْقَامِ” (اے میرے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں ، برص ، جذام اور پاگل پن سے ، اور سب خراب بیماریوں سے) ۔ (سنن ابی داؤد ، سنن نسائی) تشریح برص ، جذام ، جنون اور اس طرح کی وہ بس بیماریاں جن کی وجہ سے لوگ مریض سے نفرت اور گھن کریں اور جن کی وجہ سے آدمی زندگی ہر موت کو ترجیح دینے لگے ۔ بلاشبہ ان سے ہر آدمی کو پناہ مانگنی چاہئے ، لیکن ہلکی اور معمولی قسم کی بیماریاں بعض پہلوؤں سے یقیناً خدا کی رحمت ہوتی ہیں ۔
دعوتِ استعاذہ
ابوالیسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ دعا کیا کرتے تھے : “اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ تا وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أَمُوتَ لَدِيغًا” (اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگیا ہوں (اپنے اوپر کسی عمارت وغیرہ کے) ڈھے جانے سے اور (کسی بلندی کے اوپر) گر پڑنے سے اور (دریا وغیرہ میں) ڈوب جانے سے ، اور آگ میں جل جانے سے ، اور انتہائی بڑھاپے سے ، اور تیری پناہ چاہتا ہوں ، اس بات سے کہ موت کے وقت شیطان مجھے وسوسوں میں مبتلا کردے اور تیری پناہ چاہتا ہوں اس سے کہ میں میدانِ جہاد میں پیٹھ پھیر کر بھاگتا ہوا مروں ، اور پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ کسی زہریلے جانور کے ڈسنے سے مجھے موت آ جائے) ۔ (سنن ابی داؤد ، سنن نسائی) تشریح کسی دیوار وغیرہ کے نیچے دب کر مر جانا ، اور اسی طرح کسی بلندی سے نیچے گر کر ، یا دریا وغیرہ میں ڈوب کے ، یا آگ میں جل کر یا کسی زہریلے جانور سانپ وغیرہ کے ڈسنے سے ختم ہو جانا ، یہ سب صورتیں مفاجاتی اور ناگہانی موت کی ہیں ۔ علاوہ اس کے کہ انسانی روح موت کی ان سب صورتوں سے فطری طور پر بہت زیادہ گھراتی ہے ، ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ان صورتوں میں مرنے والے کو موت کی تیاری ، تجدید ایمان اور توبہ و استغفار وغیرہ کا موقع نہیں ملتا (جو موت کی دوسری عام شکلوں میں عموماًً مل جاتا ہے) اس لئے ایک مومن کو موت کی ان سب ناگہانی صورتوں سے پناہ ہی مانگنا چاہئے ۔ اسی طرح اس سے بھی پناہ مانگنا چاہئے کہ میدانِ جہاد میں پیٹھ پھیر کر بھاگتے ہوئے موت آئے ’ اللہ کی نگاہ میں یہ نہایت سنگین جرم ہے ، علیٰ ہذا اس سے بھی پناہ مانگتے رہنا چاہئے کہ موت کے وقت شیطان وسوسہ اندازی کے ذریعہ ہم کو گڑبڑا سکے اور گمراہ کر سکے ۔ خاتمہ ہی کے اچھے یا برے ہونے پر سارا دار و مدار ہے ۔ موت کی جن ناگہانی صورتوں سے اس دعا میں پناہ مانگی گئی ہے ، دوسری حدیثوں میں اس قسم کے حوادث سے مرنے والوں کو شہادت کی بشارت سنائی گئی ہے ، اور ان کو شہید قرار دیا گیا ۔ ان دونوں باتوں میں کوئی تضاد اور منافات نہیں ہے ۔ اپنی بشری کمزوری کے لحاظ وسے موت کی ان سب صورتوں سے ہمیں اللہ کی پناہ مانگنی چاہئے لیکن جب تقدیر الٰہی سے کسی بندے کو اس طرح سے موت آ جائے تو ارحم الراحمین کی رحمت پر نگاہ رکھتے ہوئے توقع رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ مفاجاتی موت ہی کی وجہ سے اس کو “اعزازی شہادت” کا مقام عطا فرمائے گا ۔ اور اگر عقائد و اعمال کے حساب سے کچھ بھی گنجائش ہو گی تو یقینا رب کریم کی طرف سے ایسا ہی ہو گا ۔ “إِنَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ”
دعوتِ استعاذہ
قطبہ بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ دعا کیا کرتے تھے : “اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ مُنْكَرَاتِ الأَخْلَاقِ ، وَالأَعْمَالِ وَالأَهْوَاءِ” (اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں برے اخلاق ’ برے اعمال اور بری خواہشات سے) ۔ (جامع ترمذی)
دعوتِ استعاذہ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ دعا کیا کرتے تھے : “اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا عَمِلْتُ، وَشَرِّ مَا لَمْ أَعْمَلْ” (اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں ان اعمال کے شر سے جو میں نے کئے ہیں ، اور ان اعمال کے شر سے جو میں نے نہیں کئے) ۔ (صحیح مسلم) تشریح کسی برے عمل کا سرزد ہو جانا اور اسی طرح کسی اچھے عمل کا فوت ہو جانا ، دونوں ایسی چیزیں ہیں جن کے شر سے ہم جیسے عامی بھی پناہ مانگتے ہیں ، لیکن عارفین اچھے سے اچھے عمل کرنے اور برے اور گندے اعمال سے دامن بچانے کے بعد بھی ڈرتے ہیں کہ کہیں ہمارے اندر اس کی وجہ سے عجب و غرور اور نیکی و پاکدامنی کا پندرانہ پیدا ہو جائے (جو اللہ کی نگاہ میں جرمِ عظیم ہے) اس لئے وہ اپنے اچھے اعمال کے شر اور برے اعمال کے ترک کے شر سے بھی اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ۔ سچ ہے “حسنات الأبرار سيئات المقربين”
بیماری اور برے اثرات سے تحفظ کے لئے استعاذہ
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ (اپنے دونوں نواسوں) حضرت حسن و حسین پر دم کیا کرتے تھے (یہ کلمات پڑھ کے دم فرماتے تھے) : “أُعِيذُكُمَا بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ، وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ” (میں تم کو اللہ کے پورے پورے کلموں کی پناہ میں دیتا ہوں ہر شیطان کے اثر سے ، اور ڈَسنے والے ہر زہریلے کیڑے سے ، اور لگنے والی ہر نظرِ بد سے) ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد) تشریح یہ کلمات پڑھ کر بچوں پر دم کرنا رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے ، اور آپ ﷺ سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بھی سنت ہے ۔ بلاشبہ بڑے بابرکت ہیں یہ کلمات ۔
بیماری اور برے اثرات سے تحفظ کے لئے استعاذہ
حضرت عثمان بن ابی العاص ثقفی سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اپنی تکلیف عرض کی کہ : جب سے میں اسلام لایا ہوں جسم کے فلاں حصہ میں درد رہتا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جس جگہ درد ہے اس جگہ اپنا ہاتھ رکھو اور تین دفعہ بسم اللہ پڑھ کر سات دفعہ کہو : “أَعُوذُ بِاللهِ وَقُدْرَتِهِ مِنْ شَرِّ مَا أَجِدُ وَأُحَاذِرُ” (میں اللہ تعالیٰ اور اس کی قدرت کاملہ کی پناہ چاہتا ہوں اس تکلیف کے شر سے جو مجھے لاحق ہے اور اس سے بھی جس کا مجھے خطرہ ہے) ۔ (صحیح مسلم) تشریح ہر جسمانی تکلیف کے لئے یہ عمل اور تعوذ رسول اللہ ﷺ کا خاص عطیہ ہے اور بہت مجرب ہے ۔
توبہ و استغفار بلند ترین مقام: توبہ و استغفار کے باب میں رسول اللہ ﷺ کا اسوہ حسنہ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : “خدا کی قسم میں دن میں ستر دفعہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں توبہ و استغفار کرتا ہوں” ۔ (صحیح بخاری) تشریح دُعا ہی کی ایک خاص قسم استغفار ہے ، یعنی اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں اور قصوروں کی معافی اور بخشش مانگنا اور تونہ کرنا گویا اس کے لوازم میں سے ہے ، بلکہ یہ دونوں ہی آپس میں لازم و ملزوم ہیں ۔ توبہ کی حقیقت یہ ہے کہ جو گناہ اور نافرمانی یا ناپسندیدہ عمل بندے سے سرزد ہو جائے اس کے برے انجام کے خوف کے ساتھ اس پر اسے دِلی رنج و ندامت ہو ، اور آئندہ کے لئے اس سے بچے رہنے اور دور رہنے کا اور اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور اس کی رضاس جوئی کا وہ عزم اور فیصلہ کرے ۔ ظاہر ہے کہ جب یہ توبہ والی کیفیت نصیب ہو گی تو جو گناہ سرزد ہو چکے ہیں بندہ اللہ تعالیٰ سے ان کی معافی اور بخشش کی استدعا بھی ضرور کرے گا ، تا کہ ان کی سزا اور برے انجام سے بچ سکے ۔ اور اسی طرح جب سزا اور عذاب کے خوف سے معافی اور بخشش مانگے گا تو اس کو گناہ پر رنج و افسوس اور آئندہ کے لئے اس کے پاس نہ جانے کا عزم بھی ضرور ہو گا ۔ اسی بناء پر کہا گیا ہے کہ فی الحقیقت یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں ۔ توبہ و استغفار کی حقیقت اس مثال سے اچھی طرح سمجھی جا سکتی ہے کہ کوئی آدمی مثلاً غصہ کی حالت میں خودکشی کے ارادہ سے زہر کھا لے ، اور جب وہ زہر اندر پہنچ کر اپنا عمل شروع کرے اور آنتیں کٹنے لگیں اور وہ ناقابل برداشت تکلیف اور بےچینی ہونے لگے جو زہر کے نتیجہ میں ہوتی ہے ، اور موت سامنے کھڑی نظر آ ئے تو اس کو اپنی اس احمقانہ حرکت پر رنج و افسوس ہو اور اس وقت وہ چاہے کہ کسی بھی قیمت پر اس کی جان بچ جائے ، اور جو دوا حکیم یا داکٹر اسے بتائیں وہ اسے استعمال کرے اور اگر قے کرنے کے لئے کہیں تو قے لانے کے لئے بھی ہر تدبیر اختیار کرے ۔ یقیناً اس وقت وہ پوری صدق دلی کے ساتھ یہ بھی فیصلہ کرے گا کہ اگر میں زندہ بچ گیا تو آئندہ کبھی ایسی حماقت نہیں کروں گا ۔ بالکل اسی طرح سمجھنا چاہئے کہ کبھی کبھی صاحبِ ایمان بندہ غفلت کی حالت میں اغواءِ شیطانی یا خود اپنے نفسِ امارہ کے تقاضے سے گناہ کر بیٹھتا ہے ، لیکن جب اللہ کی توفیق سے اس کا ایمانی حاسہ بیدار ہوتا ہے اور وہ محسوس کرتا ہے کہ میں نے اپنے مالک و مولیٰ کی نافرمانی کر کے اپنے کو ہلاک کر ڈالا ، اوراللہ کی رحمت و عنایت اور اس کی رضا کے بجائے میں اس کے غضب اور عذاب کا مستحق ہو گیا اور اگر میں اسی حالت میں مر گیا تو قبر میں اور اس کے بعد حشر میں مجھ پر کیا گزرے گی اور وہاں اپنے مالک کو کیا منہ دکھاؤں گا اور آخرت کا عذاب کیسے برداشت کر سکوں گا ۔ الغرض جب توفیقِ الٰہی سے اس کے اندر یہ فکر و احساس پیدا ہوتا ہے تو وہ یہ یقین و عقیدہ رکھتے ہوئے کہ میرا مالک و مولیٰ بڑا رحیم و کریم ہے ، معافی مانگنے پر بڑے سے بڑے گناہوں ، قصوروں کو وہ بڑی خوشی سے معاف فرما دیتا ہے ، وہ اس سے معافی اور بخشش کی استدعا کرتا ہے اور اسی کو گناہ کے زہر کا علاج سمجھتا ہے ۔ نیز اس کے ساتھ وہ آئندہ کے فیصلہ کرتا ہے کہ اب کبھی اپنے مالک کی نافرمانی نہیں کروں گا اور کبھی اس گناہ کے پاس نہیں جاؤں گا ۔ بس بندے کے اسی عمل کا نام استغفار اور توبہ ہے ۔ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ مقبولین و مقربین کے مقامات میں سب سے بلند مقام عبدیت اور بندگی کا ہے ، اور دعا چونکہ عبدیت اور بندگی کا سب سے اعلیٰ مظہر ہے ، بلکہ ارشادِ نبویﷺ کے مطابق “مُخُّ العِبَادَةِ” (یعنی بندگی اور عبادت کا مغز اور جوہر ہے) اس لئے انسانی اعمال و احوال میں سب سے اکرم و اشرف دعا ہی ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد اپنے موقع پر درج ہو چکا ہے : “لَيْسَ شَيْءٌ أَكْرَمَ عَلَى اللهِ مِنَ الدُّعَاءِ” (اللہ کے یہاں کوئی چیز دعا سے زیادہ عزیز اور قیمتی نہیں ہے) ۔ اور استغفار و توبہ کے وقت بندہ چونکہ اپنی گنہگاری اور تقصیر کے احساس کی وجہ سے انتہائی ندامت اور احساسِ پستی کی حالت میں ہوتا ہے ، اور گناہ کی گندگی کی وجہ سے مالک کو منہ دکھانے کے قابل نہیں سمجھتا ، اور اپنے کو مجرم اور خطاوار سمجھ کر معافی اور بخشش مانگتا اور آئندہ کے لئے توبہ کرتا ہے ، اس لئے بندگی اور تذلل اور گنہگاری و قصورواری کے احساس کی جو کیفیت استغفار و توبہ کے وقت میں ہوتی ہے وہ کسی دوسری دعا کے وقت میں نہیں ہوتی بلکہ نہیں ہو سکتی اس بناء پر استغفار و توبہ دراصل اعلیٰ درجہ کی عبادت اور قربِ الٰہی کے مقامات میں بلند ترین مقام ہے ، اور توبہ و استغفار کرنے والے بندوں کے لئے صرف معافی اور بخشش ہی کی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت و محبت اور اس کے پیار کی بشارت سنائی گئی ہے ۔ وہ حدیثیں آگے آئیں گی جن سے معلوم ہو گا کہ خود رسول اللہ ﷺ ہر وقت توبہ و استغفار کرتے تھے ۔ اوپر کی سطروں میں توبہ و استغفار کے متعلق جو کچھ عرض کیا گیا اس کی روشنی میں آنحضرتﷺ کے اس کثرتِ استغفار کی وجہ آسانی سے سمجھی جا سکتی ہے ۔ دراصل یہ خیال بہت ہی عامیانہ اور غلط ہے کہ استغفار و توبہ عاصیوں اور گنہگاروں ہی کا کام ہے ، اور انہی کو اس کی ضرورت ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ اللہ کے خاص مقرب بندے یہاں تک کہ انبیاء علیہم السلام جو گناہوں سے محفوظ و معصوم ہوتے ہیں ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی وہ محسوس کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کا حق بالکل ادا نہ ہو سکا ، اس لئے وہ برابر توبہ و استغفار کرتے ہیں ، اور اپنے ہر عمل کو حتیٰ کہ اپنی نمازوں تک کو قابلِ استغفار سمجھتے ہیں ۔ اس سلسلہ کی تیسری جلد “کتاب الصلوٰۃ” میں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کی حدیث گزر چکی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز کا سلام پھیرنے کے بعد تین مرتبہ کہتے تھے : “أَسْتَغْفِرُ اللهَ ، أَسْتَغْفِرُ اللهَ ، أَسْتَغْفِرُ اللهَ ” (یعنی اے اللہ میں تجھ سے بخشش و معافی چاہتا ہوں) نماز کے بعد آپ ﷺ کا یہ استغفار اسی بنیاد پر ہوتا تھا کہ آپ ﷺ محسوس کرتے تھے کہ نماز کا حق ادا نہیں ہوا ۔ واللہ اعلم ۔ بہرحال توبہ و استغفار عاصیوں اور گنہگاروں کے لئے مغفرت و رحمت کا ذریعہ اور مقربین و معصومین کے لئے درجاتِ قرب و محبوبیت میں بےانتہا ترقی کا وسیلہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان حقائق کا فہم و یقین اور ان سے استفادہ کی توفیق عطا فرمائے ۔ اس تمہید کے بعد استغفار و توبہ سے متعلق احادیث پڑھئے ۔ اور سب سے پہلے وہ احادیث پڑھئے جن میں توبہ و استغفار کے باب میں خود رسول اللہ ﷺ کا معمول ذکر کیا گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی اور جلال و جبروت کے بارے میں جس بندے کو جس درجہ کا شعور و احساس ہو گا وہ اسی چرجہ میں اپنے آپ کو اداءِ حقوقِ عبودیت میں قصوروار سمجھے گا ، اور رسول اللہ ﷺ کو چونکہ یہ چیز بدرجہ کمال حاصل تھی اس لئے آپ ﷺ پریہ احساس غالب رہتا تھا کہ عبودیت کا حق ادا نہ ہو سکا ، اسی واسطے آپ ﷺ بار بار اور مسلسل توبہ و استغفار فرماتے تھے ۔ اور اس کا اظہار فرما کر دوسروں کو بھی اس کی تلقین فرماتے تھے ۔
توبہ و استغفار بلند ترین مقام: توبہ و استغفار کے باب میں رسول اللہ ﷺ کا اسوہ حسنہ
حضرت اغر مزنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگو ! اللہ کے حضور میں توبہ کرو ، میں خود دن میں سو سو دفعہ اس کے حضور میں توبہ کرتا ہوں ۔ (صحیح مسلم) تشریح پہلی حدیث میں “أَكْثَرَ مِنْ سَبْعِينَ مَرَّةً” (دو دفعہ) دراصل صرف کثرت کے بیان کے لئے ہیں ، اور قدیم عربی زبان کا یہ عام محاورہ ہے ، ورنہ حضور ﷺ کے استغفار و توبہ کی تعداد یقیناً اس سے بہت زیادہ ہوتی تھی ۔ جیسا کہ آگے درج ہونے والی حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ظاہر ہوتا ہے ۔
توبہ و استغفار بلند ترین مقام: توبہ و استغفار کے باب میں رسول اللہ ﷺ کا اسوہ حسنہ
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کی ایک ایک نشست میں شمار کر لیتے تھے کہ آپ ﷺ سو سو دفعہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں عرض کرتے تھے : “رَبِّ اغْفِرْ لِي وَتُبْ عَلَيَّ، إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الْغَفُورُ” (اے میرے رب مجھے معاف کر دے ، بخش دے اور میری توبہ قبول فرما کر مجھ پر عنایت فرما ، بےشک تو بہت ہی عنایت فرمانے اور بہت ہی بخشنے والا ہے) ۔(مسند احمد ، جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ) تشریح حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے اس بیان کا مطلب یہ نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ بطورِ ورد و وظیفہ کے استغفار و توبہ کا یہ کلمہ ایک نشست میں سو دفعہ پڑھتے تھے ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ مجلس میں تشریف فرما ہوتے ، ہم لوگ بھی حاضر رہتے ، بات چیت کا سلسلہ بھی جاری رہتا اور آپ ﷺ اسی درمیان میں بار بار اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو کر ان کلمات کے ساتھ استغفار و توبہ بھی کرتے رہتے ، اور ہم اپنے طور پر اس کو شمار کرتے رہتے تو معلوم ہوتا کہ ایک نشست میں آپ ﷺ نے سو دفعہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں یہ عرض کیا ۔ واللہ اعلم ۔
توبہ و استغفار بلند ترین مقام: توبہ و استغفار کے باب میں رسول اللہ ﷺ کا اسوہ حسنہ
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ دعا فرمایا کرتے تھے: “اللهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ الَّذِينَ إِذَا أَحْسَنُوا اسْتَبْشَرُوا، وَإِذَا أَسَاءُوا اسْتَغْفَرُوا” (اے اللہ ! مجھے اپنے اُن بندوں میں سے کر دے جو نیکی کریں تو خوش ہوں ، اور ان سے جب کوئی غلطی اور برائی سرزد ہو جائے تو تیرے حضور میں استغفار کریں) ۔ (سنن ابن ماجہ ، دعوات کبیر للبیہقی) تشریح کسی بندے کو ان اچھے اعمال کی توفیق ملنا جن کے صلہ میں جنت اور رضائے الٰہی کا وعدہ ہے اس بات کی علامت اور نشانی ہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کی نظر عنایت ہے ، اس لئے اس کا حق ہے کو اس کو چاہئے کہ وہ اعمالِ حسنہ کی اس توفیق پر خوش ہو اور شکر ادا کرے ۔ قرآن پاک میں ارشاد فرمایا گیا ہے : قُلْ بِفَضْلِ اللَّـهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا اللہ کے فضل اور اس کی رحمت و عنایت پر اس کے بندوں کو خوش ہونا چاہئے ۔ اسی طرح جب کسی بندے سے کوئی چھوٹی بڑی معصیت یا لغزش ہو جائے تو اسے اس کا رنج اور دکھ ہونا چاہئے ، اور فوراً اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنا چاہئے ۔ جس بندے کو یہ دونوں باتیں حاصل ہوں وہ بڑا خوش نصیب ہے ۔ رسول اللہ ﷺ خود اپنے لئے دعا فرماتے تھے کہ : اللہ تعالیٰ مجھے بھی یہ دونوں باتیں نصیب فرمائے ۔
گناہوں کی سیاہی اور توبہ و استغفار سے اس کا ازالہ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مومن بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے نتیجہ میں اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے ، پھر اگر اس نے اس گناہ سے توبہ کی اور اللہ تعالیٰ کے حضور میں معافی اور بخشش کی التجا و استدعا کی تو وہ سیاہ نقطہ زائل ہو کر قلب صاف ہو جاتا ہے ، اور اگر اس نے گناہ کے بعد توبہ و استغفار کے بجائے مزید گناہ کئے اور گناہوں کی وادی میں قدم بڑھائے تو دل کی وہ سیاہی اور بڑھ جاتی ہے ، یہاں تک کہ قلب پر چھا جاتی ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ : یہی وہ زنگ اور سیاہی ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ذکر فرمایا ہے : كَلَّا ۖ بَلْ ۜرَانَ عَلَىٰ قُلُوبِهِم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ (مسند احمد ، جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ) تشریح قرآن مجید میں ایک موقع پر بد انجام کافروں کا حال بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے “كَلَّا ۖ بَلْ ۜرَانَ عَلَىٰ قُلُوبِهِم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ” جس کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کی بدکرداریوں کی وجہ سے ان کے دلوں پر زنگ اور سیاہی آ گئی ہے ۔رسول اللہ ﷺ کی مندرجہ بالا حدیث سے معلوم ہوا کہ گناہوں اور بدکرداریوں کی وجہ سے صرف کافروں ہی کے دل سیاہ نہیں ہوتے ، بلکہ مسلمان بھی جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں بھی گناہ کی نحوست سے ظلمت پیدا ہوتی ہے ، لیکن اگر وہ سچے دل سے توبہ و استغفار کر لے تو یہ سیاہی اور ظلمت ختم ہو جاتی ہے اور دل حسبِ سابق صاف اور نورانی ہو جاتا ہے ، لیکن اگر گناہ کے بعد توبہ و استغفار نہ کرے یا کہ معصیت و نافرمانی ہی کے راستہ پر آگے بڑھتا ہے تو پھر یہ ظلمت برابر بڑھتی رہتی ہے ، یہاں تک کہ پورے دل پر چھا جاتی ہے ، اور کسی مسلمان کے لئے بلاشبہ یہ انتہائی بدبختی کی بات ہے کہ گناہوں کی ظلمت اس کے دل پر چھا جائے ، اور اس کے قلب میں اندھیرا ہی اندھیرا ہو جائے ۔ اعاذنا اللہ منہ
گناہوں کی سیاہی اور توبہ و استغفار سے اس کا ازالہ
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر آدمی خطا کار ہے (کوئی نہیں ہے جس سے کبھی کوئی خطا اور لغزش نہ ہو) اور خطاکاروں میں وہ بہت اچھے ہیں جو (خطا و قصور کے بعد) مخلصانہ توبہ کریں ، اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہو جائیں ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ ، سنن دارمی)
گناہوں کی سیاہی اور توبہ و استغفار سے اس کا ازالہ
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : گناہ سے توبہ کر لینے والا گنہگار بندہ بالکل اس بندے کی طرح ہے جس نے گناہ کیا ہی نہ ہو ۔ (سنن ابن ماجہ ، شعب الایمان للبیہقی) تشریح مطلب یہ ہے کہ سچی توبہ کے بعد گناہ کا کوئی اثر اور داغ دھبہ باقی نہیں رہتا ، اور بعض روایات میں ہے کہ آدمی گناہوں سے توبہ کے بعد ایسا بے گناہ ہو جاتا ہے جیسا کہ وہ اپنی پیدائش کے وقت بےگناہ تھا (كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ) اور وہ احادیث ان شاء اللہ آگے درج ہوں گی جن سے معلوم ہو گا کہ توبہ کا نتیجہ صرف اتنا ہی نہیں ہوتا کہ گناہ معاف ہو جائیں ،اور معصیات کی ظلمت اور سیاہی کے داغ دھبے مٹا دئیے جائیں ، بلکہ تائب بندہ اللہ کا محبوب اور پیارا بن جاتا ہے ، اور اس کی توبہ سے اس کو بےحد خوشی ہوتی ہے ۔ اللهُمَّ اجْعَلْنَا مِنَ التَّوَّابِينَ
غفاریت کے ظہور کے لئے گناہوں کی ضرورت
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی وفات کے قت فرمایا کہ : میں نے ایک بات رسول اللہ ﷺ سے سنی تھی اور تم سے اب تک چھپائی تھی (اب جبکہ میرا ٓخری وقت ہے وہ میں تم کو بتاتا ہوں اور وہ امانت تمہارے سپرد کرتا ہوں) میں نے حضور ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ، آپ ﷺ فرماتے تھے اگر بالفرض تم سب (ملائکہ کی طرح) بےگناہ ہو جاؤ اور تم سے کوئی گناہ سرزد نہ ہو ، تو اللہ اور مخلوق پیدا کرے گا جن سے گناہ بھی سرزد ہوں گے پھر اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کا فیصلہ فرمائے گا (اور اس طرح اسکی شانِ غفاریت کا اظہار ہو گا) تشریح اس حدیث سے یہ سمجھنا کہ اللہ تعالیٰ کو معاذ اللہ گناہ مطلوب ہیں اور وہ گناہگاروں کو پسند فرماتا ہے ، اور رسول اللہ ﷺ نے ارشاد کے ذریعہ گناہوں اور گناہگاروں کی ہمت افزائی ہے ، بڑی جاہلانہ غلط فہمی ہو گی ۔ انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا مقصد ہی یہ ہے کہ لوگوں کو گناہوں سے بچایا جائے اور اعمالِ صالحہ کی ترغیب دی جائے ۔ دراصل حدیث کا منشاء اور مدعا اللہ تعالیٰ کی شانِ غفاریت کو ظاہر کرنا ہے ، اور مطلب یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی صفتِ خالقیت کے ظہور کے لئے ضروری ہے کہ کوئی مخلوق پیدا کی جائے اور فرمائے ۔ علیٰ ہذا جس طرح اللہ تعالیٰ کی صفتِ ہدایت کے لئے ضروری ہے کہ کوئی مخلوق ہو جس میں ہدایت لینے کی صلاحیت ہو اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو ہدایت ملے ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی شانِ غفاریت کے لئے ضروری ہے کہ کوئی ایسی مخلوق ہو جس سے گناہ بھی سرزد ہوں پھر وہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں استغفار کرے اور گناہوں کی معافی اور بخشش چاہے ، اور پھر اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت اور بخشش کا فیصلہ فرمائے ۔ اس لئے ناگزیر ہے اور ازل سے طے ہے کہ اس دنیا میں گناہ کرنے والے بھی ہوں گے اُن میں سے جن کو توفیق ملے گی وہ استغفار بھی کریں گے اور اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کا فیصلہ بھی فرمائے گا اور اس طرح اس کی صفتِ مغفرت اور شانِ غفاریت کا ظہور ہو گا ۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے حضور ﷺ کے اس ارشاد کا اپنی زندگی میں اس خیال سے کبھی تذکرہ نہیں کیا کہ کم فہم لوگ غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو جائیں پھر اپنے آخری وقت میں اپنے خاص لوگوں سے اظہار فرما کر امانت گویا اُن کے سپرد کر دی ۔ یہی مضمون الفاظ کے تھوڑے سے فرق کے ساتھ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے ۔
بار بار گناہ اور بار بار استغفار کرنے والے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا :اللہ کے کسی بندے نے کوئی گناہ کیا پھر اللہ سے عرض کیا اے میرے مالک ! مجھ سے گناہ ہو گیا ، مجھے معاف فرما دے ! تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا کوئی مالک ہے جو گناہوں پر پکڑ بھی سکتا ہے ، اور معاف بھی کر سکتا ہے ۔ میں نے اپنے بندے کا گناہ بخش دیا اور اس کو معاف کر دیا ۔ اس کے بعد جب تک اللہ نے چاہا وہ بندہ گناہ سے رُکا رہا ، اور پھر کسی وقت گناہ کر بیٹھا اور پھر اللہ سے عرض کیا میرے مالک ! مجھ سے گناہ ہو گیا تواس کو بخش دے اور معاف فرما دے ، تو اللہ تعالیٰ نے پھر فرمایا کہ میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا کوئی مالک ہے جو گناہ و قصور معاف بھی کر سکتا ہے اور پکڑ بھی سکتا ہے ۔ میں نے اپنے بندے کا گناہ معاف کر دیا ۔ اس کے بعد جب تک اللہ نے چاہا وہ بندہ گناہ سے رُکا رہا ، اور کسی وقت پھر گناہ کر بیٹھا اور پھر اللہ تعالیٰ سے عرض کیا اے میرے مالک و مولیٰ! مجھ سے گناہ ہو گیا تو مجھے معاف فرما دے اور میرا گناہ بخش دے ! تو اللہ تعالیٰ نے پھر ارشاد فرمایا کہ میرے بندے کو یقین ہے کہ اس کا کوئی مالک و مولیٰ ہے جو گناہ معاف بھی کرتا ہے ، اور سزا بھی دے سکتا ہے ۔ میں نے اپنے بندے کو بخش دیا اب جو اس کا جی چاہا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے بار بار گناہ اور بار بار استغفار کرنے والے جس بندے کا واقعہ بیان فرمایا ہے ، بعض شارحین نے کہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ وہ آپ ﷺ ہی کا کوئی امتی ہو اور ممکن ہے کہ انبیاء سابقین میں سے کسی کا امتی ہو ، لیکن اس عاجز کے نزدیک زیادہ قرین قیاس یہ ہے کہ یہ کسی خاص اور معین واقعہ کا بیان نہیں ہے ، بلکہ ایک کردار کا بیان ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے لاکھوں کروڑوں بندے ہوں گے جن کا حال اور کردار یہی ہے کہ اللہ اور آخرت پر ایمان کے باوجود اُن سے گناہ ہو جاتا ہے ، اور پھر وہ نادم و پشیمان ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور میں استغفار کرتے ہیں ، اور اس کے بعد بھی ان سے بار بار گناہ سرزد ہوتے ہیں ، اور وہ ہر بار سچے دل سے استغفار کرتے ہیں ، ایسے بندوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہی کریمانہ معاملہ ہے جو اس حدیث میں بیان فرمایا گیا ہے ۔ آخری دفعہ کے استغفار اور اس پر معافی کے اعلان کے ساتھ فرمایا گیا ہے : “غَفَرْتُ لِعَبْدِي فَلْيَفْعَلْ مَا شَاءَ”(یعنی میں نے اپنے بندے کو بخش دیا اب اس کا جو جی چاہے کرے) اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ اب اس کو گناہوں کی بھی اجازت دیدی گئی ہے ، بلکہ ان الفاظ میں بندے کے مالک و مولیٰ کی طرف سے صرف اس لطف و کرم کا اعلان فرمایا گیا ہے کہ : اے بندے تو جتنی بار بھی گناہ کر کے اس طرح استغفار کرتا رہے گا میں تجھے معافی دیتا رہوں گا اور تو اپنے اس صادق و مؤمنانہ استغفار کی وجہ سے گناہوں کے زہر سے ہلاک نہ ہو گا ، بلکہ یہ استغفار ہمیشہ تریاق کا کام کرتا رہے گا ۔ اللہ تعالیٰ نے جن بندوں کا کچھ ذوق نصیب فرمایا ہے وہ سمجھ سکتے ہیں کہ مومن بندے کے ضمیر پر ایسے کریمانہ اعلان کا کیا اثر پڑے گا ، اور اس کے دل میں مالک کی کامل وفاداری اور فرنبرداری کا کیسا جذبہ اُبھرے گا ۔ اس حدیث کی صحیح مسلم کی روایت میں تصریح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حدیث کا یہ پورا مضمون اللہ تعالیٰ کے حوالہ سے بیان فرمایا ۔ اس روایت کی بناء پر یہ “حدیث قدسی” ہے ۔
بار بار گناہ اور بار بار استغفار کرنے والے
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جو بندہ (گناہ کر کے) استغفار کرے (یعنی سچے دل سے اللہ سے معافی مانگے) وہ اگر دن میں ستر دفعہ بھی پھر وہی گناہ کرے تو (اللہ کے نزدیک) وہ گناہ پراصرار کرنے والوں میں نہیں ہے ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد) تشریح گناہ پر اصرار ، یعنی بےفکری اور بےخوفی کے ساتھ گناہ کرتے رہنا اور اس پر دائم و قائم رہنا بڑی بدبختی اور بہت برے انجام کی نشانی ہے ، اور ایسا عادی مجرم گویا اللہ تعالیٰ کی رحمت کا مستحق نہیں ہے ۔ اس حدیث میں واضح فرمایا گیا ہے کہ اگر بندہ گناہ کے بعد اللہ تعالیٰ سے استغفار کرے یعنی معافی مانگے تو پھر بار بار گناہ کرنے کے باوجود وہ “اصرار کرنے والوں” میں سے نہیں ہے ۔ مگر ملحوظ رہے کہ استغفار صرف زبان سے نکلنے والے الفاظ کا نام نہیں ہے ، بلکہ وہ دل کی ایک طلب ہے ، زبان اس کی صرف ترجمانی کرتی ہے ، اگر استغفار اور معافی طلبی دل سے ہو تو بلاشبہ ستر دفعہ بلکہ ستر ہزار دفعہ گناہ کرنے کے بعد بھی آدمی رحمتِ الٰہی کا مستحق ہے ، اور گناہ پر اصرار کرنے والے مجرموں میں سے نہیں ہے ۔
کس وقت تک کی توبہ قابلِ قبول ہے
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ اس وقت تک قبول کرتا ہے جب تک غرغرہ کی کیفیت شروع نہ ہو ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ) تشریح موت کے وقت جب بندے کی روح جسم سے نکلنے لگتی ہے تو حلق کی نالی میں ایک قسم کی آواز پیدا ہو جاتی ہے ، جسے عربی میں “غرغرہ” اور اردو میں “خرہ چلنا” کہتے ہیں ۔ اس کے بعد زندگی کی کوئی آس اور امید نہیں رہتی ، یہ موت کی قطعی اور آخری علامت ہے ۔ اس حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ غرغرہ کی اس کیفیت کے شروع ہونے سے پہلے پہلے بندہ اگر توبہ کر لے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمائے گا ۔ غرغرہ کی کیفیت شروع ہونے کے بعد آدمی کا رابطہ اور تعلق اس دنیا سے کٹ کر دوسرے عالم سے جُڑ جاتا ہے ، اس لئے اس وقت اگر کوئی کافر اور منکر ایمان لائے یا کوئی نافرمان بندہ گناہوں اور نافرمانیوں سے توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ کے یہاں قابلِ قبول نہ ہو گا ۔ ایمان اور توبہ اسی وقت تک کی معتبر اور قابلِ قبول ہے جب تک زندگی کی آس اور امید ہو ، اور موت آنکھوں ے سامنے نہ آ گئی ہو ۔ قرآنِ پاک میں بھی صراحت کے ساتھ فرمایا گیا ہے : وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ حَتَّىٰ إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّي تُبْتُ الْآنَ ایسے لوگوں کی توبہ قبول نہیں جو برابر گناہ کرتے رہتے ہیں ، یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے سامنے موت آ کھڑی ہو تو کہنے لگے کہ اب میں توبہ کرتا ہوں ۔ حدیث کے مضمون کا ماخذ بظاہر یہی آیت ہے اور اس کا پیغام یہی ہے کہ : بندے کو چاہئے کہ توبہ کے معاملہ میں ٹال مٹول نہ کرے ، معلوم نہیں کس وقت موت کی گھڑی آ جائے اور خدانخواستہ توبہ کا وقت ہی نہ ملے ۔
مرنے والوں کے لئے سب سے بہتر تحفہ استغفار
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قبر میں مدفون مُردے کی مثال بالکل اس شخص کی سی ہے جو دریا میں ڈوب رہا ہو اور مدد کے لئے چیخ پکار رہا ہو ۔ وہ بےچارہ انتظار کرتا ہے کہ ماں یا باپ یا بھائی یا کسی دوست آشنا کی طرف سے دعائے رحمت و مغفرت کا تحفہ پہنچے ، جب کسی طرف سے اس کو دعا کا تحفہ پہنچتا ہے تو وہ اس کو دنیا ومافیہا سے زیادہ عزیز و محبوب ہوتا ہے ۔ اور دنیا میں رہنے بسنے والوں کی دعاؤں کی وجہ سے قبر کے مُردوں کو اتنا عظیم ثواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتا ہے جس کی مثال پہاڑوں سے دی جا سکتی ہے ۔ اور مُردوں کے لئے زندوں کا خاص ہدیہ ان کے لئے دعائے مغفرت ہے ۔ (شعب الایمان للبیہقی)
مرنے والوں کے لئے سب سے بہتر تحفہ استغفار
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت میں کسی مرد صالح کا درجہ ایک دم بلند کر دیا جاتا ہے تو وہ جنتی بندہ پوچھتا ہے کہ اے پروردگار ! میرے درجہ اور مرتبہ میں یہ ترقی کس وجہ سے اور کہاں سے ہوئی ؟ جواب ملتا ہے کہ تیرے واسطے تیری فلاں اولا کے دعائے مغفرت کرنے کی وجہ سے ۔ (مسند احمد) تشریح اس حدیث میں اولاد کی دعا سے درجہ میں ترقی کا ذکر صرف تمثیلا کیا گیا ہے ، ورنہ دوسرے اہلِ ایمان کی دعائیں بھی اسی طرح نفع مند ہوتی ہیں ۔ زندگی میں جس طرح سب سے بڑا حق اولاد پر والدین کا ہے اور ان کی خدمت و اطاعت فرائض میں سے ہے ، اسی طرح مرنے کے بعد اولاد پر والدین کا خاص حق ہے کہ ان کے لئے رحمت و مغفرت کی دعا کرتے رہیں ۔ مرنے کے بعد ان کی خدمت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کا یہی خاص راستہ ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما کی ان دونوں حدیثوں کا مقصد صرف ایک حقیقت کی اطلاع دینا ہی نہیں ہے بلکہ ایک بلیغ انداز میں اولاد اور دوسرے اقارب و متعلقین کو ترغیب دی گئی ہے کہ وہ مرنے والوں کے لئے مغفرت و رحمت کی دعائیں کرتے رہیں ۔ ان کے یہ تحفے قبروں میں اور جنت تک مرحومین کو پہنچتے رہیں گے ۔ راقم السطور عرض کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کبھی کبھی اپنے بعض بندوں کو اس کا مشاہدہ بھی کرا دیتا ہے کہ کسی کی دعاؤں سے کسی بندے کو اس عالم میں کیا ملا ، اور اس کے حال اور درجہ میں کیسی ترقی ہوئی ۔ اللہ تعالیٰ ان حقائق کا یقین نصیب فرمائے ، اور ان سے فائدہ اٹھانے کی توفیق دے ۔
عام مومنین کے لئے استغفار
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو بندہ عام ایمان والوں اور ایمان والیوں کے لئے اللہ تعالیٰ سے مغفرت مانگے گا اس کے لئے ہر مومن مرد و عورت کے حساب سے ایک ایک نیکی لکھی جائے گی ۔ (معجم کبیر للطبرانی) تشریح قرآن مجید میں رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا گیا ہے کہ : “آپ اپنے لئے اور عام مومنین و مومنات کے لئے استغفار یعنی اللہ تعالیٰ سے معافی اور مغفرت کی استدعا کیا کریں (وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ) یہی حکم ہم امتیوں کے لئے بھی ہے ، اور رسول اللہ ﷺ نے اس کی بڑی ترغیب دی اور بڑی فضیلت بیان فرمائی ہے ۔ اس سلسلہ کی دو حدیثیں ذیل میں پڑھئے : تشریح ..... کسی صاحبِ ایمان بندے یا بندی کے لئے اللہ تعالیٰ سے مغفرت اور بخشش کی دعا کرنا ، ظاہر ہے کہ اس کے ساتھ بہت بڑا احسان اور اس کی بہت بڑی خدمت ہے اس لئے جب کسی بندے نے عام اہلِ ایمان (مؤمنین و مؤمنات) کے لئے استغفار کیا اور ان کے لئے اللہ کی بخشش کی دعا کی تو فی الحقیقت اس ن ے اولین و آخرین ، زندہ اور مردہ سب ہی اہل ایمان کی خدمت اور ان کے ساتھ نیکی کی اس لئے ہر ایک کے حساب میں اس کی یہ نیکی لکھی جائے گی ۔ سبحان اللہ ! ہمارے لئے لاتعداد نیکیوں کے کمانے کا کیسا راستہ کھولا گیا ہے ، اللہ تعالیٰ اس سے فائدہ اٹھانے کی توفیق دے ۔ جمیع مؤمنین و مؤمنات کے لئے دعائے مغفرت کے بہترین الفاظ وہ ہیں جو قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے نقل کئے گئے ہیں : رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ اے ہمارے رب ! مجھے بخش دے ، اور میرے ماں باپ کو بخش دے ، اور تمام ہی ایمان والوں کی مغفرت فرما دے قیامت کے دن ۔
عام مومنین کے لئے استغفار
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :“جو بندہ عام مؤمنین و مؤمنات کے لئے (ہر روز ۲۷ دفعہ) اللہ تعالیٰ سے معافی اور مغفرت کی دعا کرے گا وہ اللہ کے اُن مقبول بندوں میں سے ہو جائے گا جن کی دعائیں قبول ہوتی ہیں ، اور جن کی برکت سے دنیا والوں کو رزق ملتا ہے ”۔ (معجم کبیر طبرانی) تشریح اللہ تعالیٰ کو یہ بات بہت ہی محبوب ہے کہ اس کے بندوں کی خدمت و خیر خواہی اور ان کو نفع پہنچانے کی کوشش کی جائے ۔ ایک حدیث میں ہے : الْخَلْقُ عِيَالُ اللهِ، وَأَحَبُّ الْعِبَادِ إِلَى اللهِ أَنْفَعُهُمْ لِعِيَالِهِ سب مخلوق اللہ کا کنبہ ہے ، اس لئے لوگوں میں اللہ کو زیادہ محبوب وہ بندے ہیں جو اس کی مخلوق کو زیادہ نفع پہنچائیں ۔ پھر جس طرح مخلوق کے لئے کھانے ، کپڑے کے قسم کی زندگی کی ضروریات فراہم کرنا اور ان کو راحت و آرام پہنچانا وغیرہ اس دنیا میں ان کی خدمت اور نفع رسانی کی صورتیں ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ سے بندوں کے لئے مغفرت اور بخشش کی دعا کرنا بھی اُخروی زندگی کے لحاظ سے ان کی بہت بڑی خدمت اور ان کے ساتھ بہت بڑی نیکی ہے ، اور اس کی قدر و قیمت آخرت میں اس وقت معلوم ہو گی جب یہ بات کھل کر سامنے آ جائے گی کہ کسی کے استغفار نے کسی کو کیا دلوایا اور کتنا نفع پہنچایا ۔ پس جو مخلص بندے اخلاص اور دل کی گہرائی سے ایمان والے بندوں اور بندیوں کے لئے مغفرت اور بخشش کی دعائیں کرتے ہیں اور دن رات میں بار بار کرتے ہیں (جس کا کورس حدیث میں ۲۷ بتایا گیا ہے) وہ تمام مؤمنین و مؤمنات کے خاص الخاص محسن اور گویا آخرت کے لحاظ سے “اصحاب خدمت” ہیں اور اپنے اس عمل سے اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ ایسے مقرب اور مقبول ہو جاتے ہیں کہ ان کی دعائیں سنی جاتی ہیں ، اور ان کی دعاؤں کی برکت سے دنیا والوں کو اللہ تعالیٰ رزق دیتا ہے ۔ لیکن یہ بات یہاں قابل لحاظ ہے کہ اس دنیا میں تو ہر انسان بلکہ ہر جاندار کی خدمت اور اس کو ضروری درجہ کا آرام پہنچانے کی کوشش نیکی اور کارِ ثواب ہے ۔ حدیث پاک میں فرمایا گیا ہے : “كُلِّ ذَاتِ كَبِدٍ رَطْبَةٍ صَدَقَةٌ” لیکن اللہ سے مغفرت اور جنت کی دعا صرف اہلِ ایمان ہی کے لئے کی جا سکتی ہے ۔ کفر و شرک والے جب تک اس سے توبہ نہ کریں مغفرت اور جنت کے قابل نہیں ہیں ، اس لئے ان کے واسطے مغفرت اور جنت کی دعا بھی نہیں کی جا سکتی ۔ ماں ان کے واسطے ہدایت اور توبہ کی توفیق کی دعا کرنی چاہئے ، جس کے بعد ان کے لئے مغفرت اور جنت کا دروازہ کھل سکے ۔ ان کے حق میں یہی دعا کرنا ان کے ساتھ بہت بڑی نیکی اور خیر خواہی ہے ۔
توبہ و انابت سے بڑے سے بڑے گناہوں کی معافی: سو آدمیوں کا قاتل سچی توبہ سے بخش دیا گیا
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کہ تم سے پہلے کسی امت میں ایک آدمی تھا جس نے اللہ کے ننانوے بندے قتل کئے تھے (ایک وقت اس کے دل میں ندامت اور اپنے انجام اور آخرت کی فکر پیدا ہوئی) تو اس نے لوگوں سے دریافت کیا کہ اس علاقہ میں سب سے بڑا عالم کون ہے (تا کہ اس سے جا کر پوچھے کہ میری بخشش کی کیا صورت ہو سکتی ہے) لوگوں نے اس کو ایک راہب (کسی بزرک درویش) کے بارے میں بتایا ۔ چنانچہ وہ ان کے پاس گیا اور ان سے عرض کیا کہ میں (ایسا بدبخت ہوں) جن نے ننانوے خون کئے ہیں ، تو کیا ایسے آدمی کی بھی توبہ قبول ہو سکتی ہے ؟ (اور وہ بخشا جا سکتا ہے ؟) اس راہب بزرگ نے کہا : بالکل نہیں ، تو ۹۹ آدمیوں کے اس اس قاتل نے اس بزرگ راہب کو بھی قتل کر ڈالا اور سو کی گنتی پوری کر دی (لیکن پھر اس کے دل میں وہی خلش اور فکر پیدا ہوئی) اور پھر اس نے کچھ لوگوں سے کسی بہت بڑے عالم کے بارے میں پوچھا ۔ انہوں نے اس کو کسی بزرگ عالم کا پتہ بتا دیا ، وہ ان کے پاس بھی پہنچا اور کہا کہ : میں نے سو خون کئے ہیں تو کیا ایسے مجرم کی توبہ بھی قبول ہو سکتی ہے (اور وہ بخشا جا سکتا ہے ؟) انہوں نے کہا : ہاں ہاں ! (ایسے کی توبہ بھی قبول ہوتی ہے) اور کون ہے جو اس کے اور توبہ کے درمیان حائل ہو سکے ۔ (یعنی کسی مخلوق میں یہ طاقت نہیں ہے کہ اس کی توبہ کو قبول ہونے سے روک دے ۔ پھر انہوں نے کہا میں تجھے مشورہ دیتا ہوں کہ) تو فلاں بستی میں چلا جا ، وہاں اللہ کے عبادت گزار کچھ بندے رہتے ہیں تو بھی (وہیں جا پڑ اور) ان کے ساتھ عبادت میں لگ جا (اس بستی پر خدا کی رحمت برستی ہے) اور پھر وہاں سے کبھی اپنی بستی میں نہ آ ، وہ بڑی خراب بستی ہے ۔ چنانچہ وہ اس دوسری بستی کی طرف چل پڑا ۔ یہاں تک کہ جب آدھا راستہ اس نے طے کر لیا تو اچانت اس کو موت آ گئی ۔ اب اس کے بارے میں رحمت کے فرشتوں اور عذاب کے فرشتوں میں نزاع ہوا ۔ رحمت کے فرشتوں نے کہا کہ یہ توبہ کر کے آیا ہے اور اس نے صدقِ دل سے اپنا رخ اللہ کی طرف کر لیا ہے (اس لئے یہ رحمت کا مستحق ہو چکا ہے) اور عذاب کے فرشتوں نے کہا کہ اس نے کبھی بھی کوئی نیک عمل نہیں کیا ہے (اور یہ سو خون کر کے آیا ہے اس لئے یہ سخت عذاب کا مستحق ہے) اس وقت ایک فرشتہ (اللہ کے حکم سے) آدمی کی شکل میں آیا ، فرشتوں کے دونوں گروہوں نے اس کو حکم مان لیا ۔ اس نے فیصلہ دیا کہ دونوں بستیوں تک کے فاصلہ کی پیمائش کر لی جائے (یعنی شر و فساد اور خدا کے عذاب والی وہ بستی جس سے وہ چلا تھا اور اللہ کے عبادت گزار بندوں والی وہ قابلِ رحمت بستی جس کی طرف وہ جا رہا تھا) پھر جس بستی سے وہ نسبتا ً اس بستی سے قریب ہو اس کو اسی کا مان لیا جائے ، چنانچہ پیمائش کی گئی تو وہ نسبتاً اس بستی سے قریب پایا گیا جس کے ارادہ سے وہ چلا تھا ، تو رحمت کے فرشتوں نے اس کو اپنے حساب میں لے لیا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح قرآن و حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی رحمت بے حد وسیع ہے ، اور اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ وہ توبہ کرنے اور معافی مانگنے پر بڑے سے بڑا گناہ معاف فرما دیتا ہے ، اور بڑے سے بڑے پاپیوں اور گناہ گاروں کو بخش دیتا ہے ۔ اگرچہ اس میں قہر و جلال کی صفت بھی ہے ، اور یہ صفت بھی اس کی شانِ عالی کے مطابق بدرجہ کمال ہے ، لیکن وہ انہی مجرموں کے لئے ہے جو جرائم اور گناہ کرنے کے بعد بھی توبہ کر کے اس کی طرف رجوع نہ ہوں اور اس سے معافی اور مغفرت نہ مانگیں ، بلکہ اپنے مجرمانہ رویہ ہی پر قائم رہیں اور اسی حال میں دنیا سے چلے جائیں ۔ مندرجہ ذیل حدیثوں کا یہی مدعا اور یہی پیغام ہے ۔ تشریح ..... یہ حدیث دراصل صرف ایک جزئی واقعہ کا بیان نہیں ہے بلکہ اس پیرائے میں رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی صفتِ رحمت کی وسعت اور اس کے کمال کو بیان فرمایا ہے ، اور اس کی روح اور اس کا خاص پیغام یہی ہے کہ بڑے سے بڑا گنہگار اور پاپی بھی اگر سچے دل سے اللہ کے حضور میں توبہ اور آئندہ کے لئے فرمانبرداری والی زندگی اختیار کرنے کا ارادہ کر لے تو وہ بھی بخش دیا جائے گا اور ارحم الراحمین کی رحمت بڑھ کر اس کو اپنے آغوش میں لے لے گی ، اگرچہ اس توبہ و انابت کے بعد وہ فوراً ہی اس دنیا سے اُٹھا لیا جائے اور اسے اس کو اپنے آغوش میں لے لے گی ، اگرچہ اس توبہ و انابت کے بعد وہ فوراً ہی اس دنیا سے اٹھا لیا جائے اور اسے کوئی نیک عمل کرنے کا موقع بھی نہ ملے اور اس کا اعمال نامہ اعمالِ صالحہ سے بالکل خالی ہو ۔ اس حدیث کے مضمون پر ایک علمی اور اصولی اشکال بھی کیا گیا ہے ، اور وہ یہ ہے کہ “ناحق قتل” ان گناہوں میں سے ہے جن کا تعلق صرف اللہ ہی سے نہیں بلکہ حقوق العباد سے بھی ہے جس مجرم اور قاتل نے کسی بندے کو ناحق قتل کیا ، اس نے اللہ کی نافرمانی کے علاوہ اس مقتول بندے پر اور اس کے بیوی بچوں پر بھی ظلم کیا اور مسلمہ اصول یہ ہے کہ اس طرح کے مظالم صرف توبہ سے معاف نہیں ہوتے ، بلکہ ان کے لئے مظلوم بندوں سے معاملہ صاف کرنا بھی ضروری ہوتا ہے ۔ شارحین نے اس کا یہ جواب دیا ہے اور صحیح جواب دیا ہے کہ بےشک اصول اور قانون یہی ہے ، لیکن مظلوموں کے حق کی ادائیگی اور ان سے معاملہ صاف کرنے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ آخرت میں ان پر ظلم کرنے والے اور پھر اس ظلم سے سچی اور گہری توبہ کرنے والے بندوں کی طرف سے ان کے مظلوموں کو اپنے خزانہ رحمت سے دے کر راضی کر دے ۔ اس حدیث میں سو خون کرنے والے جس تائب بندے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے اس کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ یہی کرے گا ، اور اس کی طرف سے اس کے مقتولوں اور سب مظلوموں کو کو اپنے خزانہ رحمت سے اتنا دے دے گا کہ وہ راضی ہو جائیں گے ۔ اور یہ سو خون کرنے والا تائب بندہ اللہ کی رحمت سے سیدھا جنت میں چلا جائے گا ۔
مشرکوں اور کافروں کے لئے بھی منشور رحمت
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ ﷺ فرماتے تھے کہ مجھے اس آیت کے مقابلہ میں ساری دنیا (اور اس کی نعمتوں) کا لینا بھی پسند نہیں : يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ . (اے میرے بندو ! جنہوں نے (گناہ کر کے) اپنے نفسوں پر ظلم کیا ہے (اور اپنے کو تباہ کر لیا ہے) تم اللہ کی رحمت سے نااُمید مت ہو ، اللہ سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے ، وہ بہت بخشنے والا بڑا مہربان ہے) ایک شخص نے عرض کیا : حضرت ! جن لوگوں نے شرک کیا ہے ، کیا ان کے لیے بھی یہی ارشاد ہے ؟ آپ ﷺ نے پہلے تو کچھ سکوت کیا ، پھر تین دفعہ فرمایا : إِلَّا مَنْ أَشْرَكَ سن لو ! مشرکوں کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کا یہی ارشاد ہے ، سن لو مشرکوں کے لئے بھی یہی ارشااد ہے ، ہاں ! مرکوں کے لیے بھی میرے مالک کا یہی ارشاد ہے ۔ (مسند احمد) تشریح اس حدیث میں جس آیت کا حوالہ ہے ، وہ سورہ زمر کی آیت ہے ۔ بلاشبہ اس میں ہر قسم کے گنہگاروں کے لئے بڑی بشارت ہے ۔ خود ان کا مالک و پروردگار اُن ہی کو مخاطب کر کے فرما رہا ہے کہ تم بھی میری رحمت سے ناامید نہ ہو ۔ آگے اس کا تکملہ یہ ہے : وَأَنِيبُوا إِلَىٰ رَبِّكُمْ وَأَسْلِمُوا لَهُ مِن قَبْلِ أَن يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ ﴿٥٤﴾وَاتَّبِعُوا أَحْسَنَ مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ ﴿٥٥﴾ اور رخ کر لو اپنے پروردگار کی طرف قبل اس کے کہ تم عذاب میں گرفتار ہو جاؤ اور پھر کوئی تمہاری مدد اور حمایت نہ کر سکے ، اور جو بہترین ہدایت تمہارے لئے تمہارے پروردگار کی طرف سے نازل کی گئی ہے ، اس کی پیروی اختیار کر لو اس وقت کے آنے سے پہلے جب اچانک خدا کا عذاب نازل ہو کر تم کو اپنی گرفت میں لے لے ، اور تمہیں پہلے سے پتہ بھی نہ ہو گا ۔ اس تکملہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ہر قسم اور ہر درجہ کے مجرموں اور گنہگاروں کے لئے اللہ کی رحمت کا دروازہ کھلا ہوا ہے ، کسی کے لئے بھی دروازہ بند نہیں ہے ۔ شرط یہ ہے کہ عذاب یا موت کے آنے سے پہلے توبہ کر لیں ، اور نافرمانی کی راہ چھوڑ کر ہدایت ربانی کی فرمانبرداری اختیار کر لیں ۔ اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ “رحمتِ خداوندی” کا جو “منشور عام” سب کے لئے ہے کافر اور مشرک بھی اس کے مخاطب ہیں ۔ رسول اللہ ﷺچونکہ خود رحمۃ للعالمین تھے اس لئے آپ ﷺ کو اس “منشور رحمت” سے بےحد خوشی تھی ، اور فرماتے تھے کہ مجھے اس آیت کے نزول کی اتنی خوشی ہے کہ اگر ساری دنیامجھے دیدی جائے تو اتنی خوشی مجھے نہ ہو گی ۔
توبہ و استغفار کے خاص کلمات
رسول اللہ ﷺکے ایک آزاد کردہ غلام تھے) نقل کیا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : جس بندے نے ان الفاظ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور میں توبہ و استغفار کیا : أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ الَّذِي لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الحَيَّ القَيُّومَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ میں اس اللہ سے معافی اور بخشش چاہتا ہوں جو حی و قیوم ہے ، اور اس کے حضور میں توبہ کرتا ہوں تو وہ بندہ ضرور بخش دیا جائے گا ، اگرچہ اس نے میدانِ جنگ سے بھاگنے کا گناہ کیا ہو ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد) تشریح توبہ اور استغفار کی جو حقیقت بیان کی گئی ہے اس سے ناظرین نے سمجھ لیا ہو گا کہ اس میں اصل اہمیت اور بنیادی حیثیت معنی اور مقصد اور دل کی کیفیت کی ہے ۔ بندہ جس زبان میں اور جن مناسب الفاظ میں توبہ و استغفار کرے ، وہ اگر سچے دل سے ہے تو اللہ کے نزدیک حقیقی توبہ و استغفار ہے اور قابلِ قبول ہے ۔ اس کے باوجود رسول اللہ ﷺ نے توبہ و استغفار کے بعض کلمات بھی تلقین فرمائے ہیں اور ان کی خاص فضیلت اور برکت بیان فرمائی ہے ۔ اس سلسلہ کی چند حدیثیں ذیل میں پڑھئے : تشریح ..... جان بچانے کے لیے میدانِ جہاد سے بھاگنا بدترین کبیرہ گناہوں میں سے ہے ، لیکن اس حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ اگر اس بدترین اور سخت ترین گناہ کا مرتکب بھی ان الفاظ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں استغفار اور توبہ کرے گا تو وہ بخش دیا جائے گا ۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ اس طرح کی بات رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کی وحی و الہام کے بغیر نہیں فرما سکتے ، اس لئے سمجھنا چاہئے کہ گناہگاروں کے لئے معافی اور مغفرت کی درخواست کے یہ الفاظ خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے تعلیم فرمائے گئے ہیں ، اور ان الفاظ کے ساتھ درخواست کرنے والوں نے لئے بڑے سے بڑے گناہوں کی معافی اور مغفرت کا حتمی وعدہ بلکہ فیصلہ فرما دیا گیا ہے ۔ قربان اس رحمت کے ۔ لیکن یہ بات پھر بھی ملحوظ رہے کہ استغفار صرف الفاظ کا نام نہیں ہے ، اللہ کے نزدیک حقیقی استغفار وہی ہے جو دل سے ہو ۔
سید الاستغفار
حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ :“سید الاستغفار” (یعنی سب سے اعلیٰ استغفار) یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں یوں عرض کرے : اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي لاَ إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، خَلَقْتَنِي وَأَنَا عَبْدُكَ، وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ، أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ، وَأَبُوءُ لَكَ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي، فَإِنَّهُ لاَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ اے اللہ ! تو ہی میرا رب (یعنی مالک مولا) ہے ، تیرے سوا کوئی مالک و معبود نہیں ، تو نے ہی مجھے پیدا فرمایا اور وجود بخشا ۔ میں تیرا بندہ ہوں اور جہاں تک مجھ عاجز و ناتواں سے ہو سکے گا تیرے ساتھ کئے ہوئے (ایمانی) عہد و میثاق اور (اطاعت و فرمانبرداری کے) وعدے پر قائم رہوں گا ۔ تیری پناہ چاہتا ہوں اپنے عمل و کردار کے شر سے ، میں اقرار کرتا ہوں کہ تو نے مجھے نعمتوں سے نوازا ، اور اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے تیری نافرمانیاں کیں اور گناہ کئے ۔ اے میرے مالک و مولا ! تو مجھے معاف فرما دے اور میرے گناہ بخش دے ، تیرے سوا گناہوں کو بخشنے والا کوئی نہیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جس بندے نے اخلاص اور دل کے یقین کے ساتھ دن کے کسی حصے میں اللہ کے حضور میں یہ عرض کیا (یعنی ان کلمات کے ساتھ استغفار کیا) اور اسی دن رات شروع ہونے سے پہلے اس کو موت آ گئی تو وہ بلا شبہ جنت میں جائے گا اور اسی طرح اگر کسی نے رات کے کسی حصے میں اللہ تعالیٰ کے حضور میں یہی عرض کیا اور صبح ہونے سے پہلے اس رات میں وہ چل بسا تو بلاشبہ وہ جنت میں جائے گا ۔ (صحیح بخاری) تشریح مندرجہ ذیل حدیث سے استغفار کے ایک کلمہ کو رسول اللہ ﷺ نے “سید الاستغفار” بتایا ہے ، اور اس کی غیر معمولی فضیلت بیان فرمائی ہے ، اور بلاشبہ اپنے مضمون و مفہوم کے لحاظ سے بھی وہ ایسا ہی کلمہ ہے ۔ تشریح ..... اس استغفار کی اس غیر معمولی فضیلت کا راز بظاہر یہی ہے کہ اس کے ایک ایک لفظ میں عبدیت کی روح بھری ہوئی ہے ۔ سب سے پہلے عرض کیا گیا ہے : اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي لاَ إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، خَلَقْتَنِي وَأَنَا عَبْدُكَ اے اللہ ! تو ہی میرا رب ہے ، تیرے سوا کوئی مالک و معبود نہیں ، تو نے ہی مجھے وجود بخشا اور میں بس تیرا بندہ ہوں ۔ اس کے بعد عرض کیا گیا ہے کہ : وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ یعنی میں نے ایمان لا کے تیری عبادت و اطاعت کا جو عہد میثاق اور وعدہکیا ہے جہاں تک مجھ سے بن پڑے گا اس پر قائم رہنے کی کوشش کروں گا ۔ یہ بندے کی طرف سے اپنی کمزوری کا اعتراف کے ساتھ ایمانی عہد و میثاق کی تجدید ہے ۔ اس کے آگے عرض کیا گیا ہے: أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ مجھ سے جو غلطیاں اور کوتاہیاں ہوئیں اور آئندہ ہوں ، اس کے برے نتیجے سے اے میرے مالک و رب میں تیری پناہ کا طالب ہوں ۔ اس میں اعترافِ قصور کے ساتھ اللہ کی پناہ بھی چاہی گئی ہے ۔ اس کے بعد عرض کیا گیا ہے: أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ وَأَبُوءُ لَكَ بِذَنْبِي میں تیرے انعامات اور احسانات کا اور اپنی گناگاریوں اور خطاکاریوں کا اعتراف کرتا ہوں ۔ آخر میں عرض کیا گیا ہے: فَاغْفِرْ لِي، فَإِنَّهُ لاَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ میرے مالک و مولا ! تو اپنے رحم و کرم سے میرے جرائم ، میرے گناہ بخش دے ، جرموں اور گناہوں کو بخشنے والا بس تو ہی ہے ۔ حق یہ ہے کہ جس صاحبِ ایمان بندے کو وہ معرفت و بصیرت نصیب ہو جس کے ذریعے وہ اپنی اور اپنے اعمال کی حقیقت کو سمجھتا ہو ، اور اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلالت اور اس کے حقوق کو بھی کچھ جانتا ہو تو وہ خود کو صرف قصوروار اور گناہگار اور خیر اور بھلائی کے معاملہ میں بالکل مفلس ار تہی مایہ محسوس کرے گا اور پھر اس کے دِل کی آواز اور اللہ تعالیٰ کے حضور میں اس کی التجا یہی ہو گی جو رسول اللہ ﷺ کے تعلیم فرمائے ہوئے اس استغفار میں محسوس ہوتی ہے ۔ اس کو “سید الاستغفار” اسی خصوصیت کی وجہ سے کہا گیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث پہنچ جانے کے بعد آپ ﷺ پر ایمان رکھنے والے ہر اُمتی کو چاہئے کہ وہ اس کا اہتمام کرے کہ ہر دن اور رات میں کم از کم ایک دفعہ ضرور وہ سچے دل سے اللہ تعالیٰ کے حضور میں یہ استغفار کر لیا کرے ۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو ہمارے استاذ حضرت مولانا سراج احمد صاحب رشیدیؒ پر ، اب سے ۴۵ سال پہلے دارالعلوم دیوبند میں ان ہی سے مشکوٰۃ شریف پڑھی تھی ۔ جب سبق میں یہ حدیث آئی تو حضرت مولاناؒ نے پوری جماعت کو حکم دیا کہ یہ “سید الاستغفار” سب یاد کر لیں کل میں سب سے سنوں گا ۔ چنانچہ اگلے دن قریب قریب سب طلباء سے سنا اور وصیت فرمائی کہ دن رات میں کم از کم ایک دفعہ اس کو ضرور پڑھ لیا کرو ۔
سید الاستغفار
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ بارگاہِ خداوندی میں اس طرح عرض کیا کرتے تھے : “اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي خَطِيئَتِي” تا “وَكُلُّ ذَلِكَ عِنْدِي” (اے اللہ ! میری خطا ، میرے قصور معاف کر دے ، اور (علم و معرفت کے تقاضے کے خلاف) جو نادانی کا کام میں نے کیا ہو اس کو معاف فرما دے اور اپنے جس معاملہ میں بھی میں نے تیرے حکم اور تیری رضا کی حد سے تجاوز کیا ہو اس کو بخش دے ۔ اے میرے اللہ ! میرے وہ گناہ بھی معاف فرما دے جو ہنسی مذاق میں مجھ سے سرزد ہو گئے ہوں اور وہ بھی معاف کر دے جو میں نے سوچ سمجھ کے اور سنجیدگی سے کئے ہوں ۔ میرے مالک ! میری وہ خطائیں بھی معاف کر دے جو بلا ارادہ مجھ سے سرزد ہو گئی ہوں ، اور وہ بھی معاف فرما دے جو میں نے جان بوجھ کے ارادہ سے کی ہوں ۔ اور (اے میرے مالک ! تو جانتا ہے کہ) یہ سب طرح کی خطائیں میں نے کی ہیں ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اللہ اکبر ! سید المرسلین محبوبِ رب العٰلمین ْ جو یقیناً معصوم تھے ، اُن کے احساسات اپنے بارے میں یہ تھے ، اور وہ اپنے کو سر تا سر خطاکار اور قصوروار سمجھتے ہوئے بارگاہِ خداوندی میں اس طرح استغفار کرتے تھے ۔ حق یہ ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ کی جتنی معرفت ہو گفی وہ اتنا ہی زیادہ اپنے کو ادائے حق عبدیت کے بارے میں قصوروار سمجھے گا ۔ “قریباں را بیش بود حیرانی” ۔ رسول اللہ ﷺکے اس استغفار کے ایک ایک لفظ عبدیت کی روح بھری ہوئی ہے ، اور ہم امتیوں کے لیے اس میں بڑا سبق ہے ۔
حضرت خضرؑ کا استغفار
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہم لوگوں سے اکثر فرمایا کرتے تھے : اے میرے ساتھیوں ! تمہارے لئے کیا چیز اس سے مانع ہو سکتی ہے کہ چند آسان کلموں کے ذریعے اپنے گناہوں کی صفائی کر لیا کرو ! عرض کیا گیا : یا رسول اللہ ! وہ کون سے کلمے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ کہا کرو جو میرے بھائی خضر کہا کرتے تھے ۔ عرض کیا گیا : یا رسول اللہ ! وہ کیا کہا کرتے تھے ؟ فرمایا : وہ کہا کرتے تھے “اللهم إني أستغفرك لما تبت إليك منه، ثم عدت فيه تا اللهم لا تخزني فإنك بي عالم، ولا تعذبني فإنك علي قادر” (اے اللہ ! میں تجھ سے معافی اور بخشش چاہتا ہوں اُن گناہوں کی جن سے میں نے تیرے حضور میں توبہ کی ہو (اور شامتِ نفس سے) پھر پلٹ کر وہی گناہ دوبارہ کئے ہوں ، اور میں تجھ سے معافی اور بخشش چاہتا ہوں اس عہد کے بارے میں جو میں نے اپنی ذات کی طرف سے تجھ سے کیا ہو اور پھر میں نے اس کو وفا نہ کیا ہو ، (بلکہ عہد شکنی کی ہو) اور میں تجھ سے معافی اور بخشش چاہتا ہوں اُن نعمتوں کے بارے میں جن سے طاقت و قوت حاصل کر کے میں نے تیری نافرمانیاں کی ہوں اور تجھ سے معافی اور بخشش کا سوال کرتا ہوں ہر اس نیکی کے بارے میں جو میں نے تیری رضا جوئی کی نیت سے کرنی چاہی ہو پھر اس میں تیرے ماسوا دوسرے اغراض کی آمیزش ہو گئی ہو ۔ اے میرے اللہ ! مجھے (دوسروں کے سامنے) رسوا نہ کرنا ۔ بےشک تو مجھے خوب جانتا ہے ، تجھ سے میرا کوئی راز ڈھکا چھپا نہیں ہے اور (میرے گناہوں پر) مجھے عذاب نہ دینا ، تجھے مجھ پر ہر طرح قدرت حاصل ہے ۔ (اور میں بالکل عاجز اور تیرے قبضہ و اختیار میں ہوں) ۔ (مسند احمد دیلمی) تشریح بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اللہ کا بندہ پورے صدق و خلوص کے ساتھ کسی گناہ سے توبہ کرتا ہے لیکن پھر اس سے وہی گناہ ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ سے کوئی عہد و میثاق کرتا ہے اور پھر کسی وقت اس کے خلاف کر بیٹھتا ہے ۔ اور بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ بندے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رزق اور راحت و آرام وغیرہ کی جو نعمتیں حاصل ہوتی ہیں ان کے استعمال سے وہ جو قوت و طاقت یا دولت حاصل کرتا ہے اس کو وہ بجائے طاعت کے معصیت کی راہ میں استعمال کرتا ہے ۔ اسی طرح بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی نیک عمل خالص اللہ کے لئے اور اس کی رضا جوئی کے جذبہ کے ساتھ شروع کیا جاتا ہے لیکن بعد میں دوسرے غلط جذبات اور ناپسندیدہ اغراض کی اس میں آمیزش ہو جاتی ہے ۔ یہ سب روزمرہ کے تجربے اور روزمرہ کی واردات ہیں اور اچھے اچھوں کو پیش آتی ہیں ۔ ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ سے تعلق اور آخرت کی فکر رکھنے والے بندوں کے دل و زبان کی استدعا کیا ہونی چاہئے ؟ مندرجہ بالا استغفار کے کلمات میں اسی کی پوری رہنمائی اور تلقین فرمائی گئی ہے اور یہ کلمات اپنے مضمون کی گہرائی اور جامعیت کے لحاظ سے یقینا معجزانہ ہیں ، اسی لئے اس حدیث کو یہاں درج کیا گیا ہے ، اگرچہ “کنز الاعمال ” میں اس کی تخریج صرف دیلمی سے کی گئی ہے جو محدثین کے نزدیک سند کے لحاظ سے ضعیف ہونے کی علامت ہے ۔ “کلمات استغفار” کے زیرِ عنوان یہاں صرف ان چار ہی حدیثوں پر اکتفا کیا گیا ہے ، نماز کے متعلق دُعاؤں میں ، اور اسی طرح مخصوص حالات و اوقات کی دعاؤں میں ، اور علیٰ ہذا جامع اور ہمہ گیر دعاؤں میں ان کے علاوہ استغفار کے بیسیوں بلکہ پچاسوں کلمات گزر چکے ہیں ۔ اس طرح استغفار کے ان کلمات کی مجموعی تعداد بہت زیادہ ہے جو رسول اللہ ﷺ سے کتب حدیث میں ماثور و منقول ہیں اور بلاشبہ وہ سب ہی بڑے بابرکت ہیں ۔
استغفار کی برکات
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو بندہ استغفار کو لازم پکڑ لے (یعنی اللہ تعالیٰ سے برابر اپنے گناہوں کی معافی مانگتا رہے) تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر تنگی اور مشکل سے نکلنے اور رہائی پانے کا راستہ بنا دے گا ۔اور اس کی ہر فکر اور ہر پریشانی کو دور کر کے کشادگی اور اطمینان عطا فرمائے گا ، اور اس کو ان طریقوں سے رزق دے گا جن کا اس کو خیال و گمان بھی نہ ہو گا ۔ (مسند احمد ، سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ) تشریح استغفار کی اصل غرض و غایت اور اس کا موضوع تو اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کو معاف کرانا ہے تا کہ بندہ ان کے عذاب و وبال سے بچ جائے لیکن قرآن مجید سے بھی معلوم ہوتا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے زیادہ وضاحت اور تفصیل کے ساتھ بتلایا ہے کہ استغفار بہت سے دنیوی برکات کا بھی باعث بنتا ہے اور بندے کو اس دنیا میں بھی اس کے طفیل بہت کچھ ملتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ یقین و عمل نصیب فرمائے ۔ ملحوظ رہے کہ یہ وعدہ صرف زبان سے کلماتِ استغفار پڑھنے پر نہیں ہے ، بلکہ استغفار کی حقیقت پر ہے جس کی پہلے وضاحت کی جا چکی ہے ، اللہ تعالیٰ شانہ نصیب فرمائے ۔
استغفار کی برکات
حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : خوشی ہو اور مبارک ہو اس بندے کو جو اپنے اعمال نامہ میں بہت زیاادہ استغفار پائے (یعنی آخرت میں وہ دیکھے کہ اس کے اعمال نامہ میں استغفار بکثرت درج ہے) ۔ (سنن ابن ماجہ ، سنن نسائی) تشریح واضح رہے کہ اعمال نامہ میں جو حقیقی استغفار کے طور پر وہی استغفار درج ہو گا جو حقیقت کے لحاظ سے عنداللہ بھی استغفار ہو گا ۔ اور جو صرف زبان سے استغفار ہو گا اگر درج ہو گا تو صرف زبانی اور لفظی استغفار کے طور پر درج ہو گا اور اگر اندراج پانے کے قابل نہ ہو گا تو درج ہی نہ ہو گا اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں یہ نہیں فرمایا کہ : “طُوبَى لِمَنْ اسْتَغْفَرَ كَثِيرًا” (خوشی اور مبارک ہو اس بندے کو جو اپنے اعمال نامہ میں بہت زیادہ استغفار پائے) بلکہ یہ فرمایا کہ : “طُوبَى لِمَنْ وَجَدَ فِي صَحِيفَتِهِ اسْتِغْفَارًا كَثِيرًا” (خوشی اور مبارک ہو اس بندے کو جو اپنے اعمال نامہ میں بہت زیادہ استغفار پائے) امت کی مشہور عارفہ حضرت رابعہ عدویہ قدس سرہا سے منقول ہے ، وہ فرماتی تھیں کہ : ہمارا استغفار خود اس قابل ہوتا ہے کہ اللہ کی حضور میں اس سے بہت زیادہ استغفار کیا جائے ۔ اس حدیث میں “طوبیٰ” کا لفظ بہت ہی جامع ہے ، دنیا اور آخرت اور جنت کی ساری ہی مسرتیں اور نعمتیں اس میں شامل ہیں ۔ بلاشبہ جس بندے کو حقیقی استغفار نصیب ہو اور خوب کثرت سے نصیب ہو وہ بڑا خوش نصیب ہے اور اس کو سب ہی کچھ نصیب ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے نصیب فرمائے ۔
استغفار پوری اُمت کے لئے امان
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ نے میری امت کے لئے دو امانیں مجھ پر نازل فرمائیں (سورہ انفال میں ارشاد فرمایا گیا) “وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ الاية” (یعنی اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کرے گا کہ تم ان کے درمیان موجود ہو اور ان پر عذاب نازل کر دے ، اور اللہ انہیں عذاب میں مبتلا نہیں کرے گا جب کہ وہ استغفار کرتے ہوں گے اور معافی و مغفرت مانگتے ہوں گے) آپ ﷺ نے فرمایا : پھر جب میں گزر جاؤں گا تو قیامت تک کے لئے تمہارے درمیان استغفار کو (بطور امان) چھوڑ جاؤں گا ۔ (جامع ترمذی) تشریح سورہ انفال کی آیت نمبر ۳۳ “وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ” جس کا اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے حوالہ دیا ہے اس کا مدعا اور مقتضا یہ ہے کہ ایک تو خود آپ ﷺ کے ذات اور آپ ﷺ کا وجود امت کے لئے عذاب سے امان ہے ، جب تک آپ ﷺ ان میں موجود ہیں ان پر عذابِ عام نازل نہیں کیا جائے گا ۔ اور دوسری چیز جو ان کے لئے وسیلہ امان ہے وہ خود ان کا استغفار ہے جب تک یہ اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی اور مغفرت مانگتے رہیں گے اور استغفار کرتے رہیں گے عذابِ عام سے ہلاک نہیں کئے جائیں گے ۔ گویا ایک امان خود آپ ﷺ کا وجود تھا ، جس سے امت آپ ﷺ کی وفات کے بعد محروم ہو گئی ۔ دوسری امام خود آپ ﷺ کی امت کو ہی کے ذریعہ ملا ہے ، اور وہ قیامت تک باقی رہے گا ۔ اور امت انتہائی بداعمالیوں کے باوجود عذابِ عام سے آج تک محفوظ ہے ، یہ استغفار کرنے والے بندوں کے استغفار ہی کی برکت ہے ۔
توبہ و استغفار سے اللہ کتنا خوش ہوتا ہے
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ ﷺ ارشاد فرماتے تھے : خدا کی قسم ! اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندے کی توبہ سے اس مسافر آدمی سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جو (اثنائے سفر میں) کسی ایسی غیرا ٓباد اور سنسان زمین پر اُتر گیا ہو جو سامانِ حیات سے خالی اور اسبابِ ہلاکت سے بھرپور ہو اور اس کے ساتھ بس اس کی سواری کی اونٹنی ہو اسی پر اس کے کھانے پینے کا سامان ہو ، پھر وہ (آرام لینے کے لئے) سر رکھ کے لیٹ جائے پھر اسے نیند آ جائے پھر اس کی آنکھ کھلے تو دیکھے کہ اس کی اونٹنی (پورے سامان سمیت) غائب ہے ، پر وہ اس کی تلاش میں سرگرداں ہو ، یہاں تک کہ گرمی اور پیاس وغیرہ کی شدت سے جب اس کی جان پر بن آئے تو وہ سوچنے لگے کہ (میرے لئے اب یہی بہتر ہے) کہ میں اسی جگہ جا کر پڑ جاؤں (جہاں سویا تھا) یہاں تک کہ مجھے موت آ جائے پھر وہ (اسی ارادہ سے وہاں آ کر) اپنے بازو پر سر رکھ کے مرنے کے لئے لیٹ جائے ، پھر اس کی آنکھ کھلے تو وہ دیکھے کہ اس کی اونٹنی اس کے پاس موجود ہے اور اس پر کھانے پینے کا پورا سامان (جوں کا توں محفوظ) ہے تو جتنا خوش یہ مسافر اپنی اونٹنی کے ملنے سے ہو گا خدا کی قسم مؤمن بندے کے توبہ کرنے سے خدا اس سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح توبہ و استغفار سے متعلق احادیث و روایات کے سلسلہ کو مندرجہ ذیل حدیث پر ختم کیا جاتا ہے جو صحیحین میں بھی متعدد صحابہ کرام سے مروی ہے ، اور جس میں رسول اللہ ﷺ نے توبہ کرنے والے گناہگاروں کو وہ بشارت سنائی ہے جو کسی دوسرے بڑے سے بڑے عمل پر بھی نہیں سنائی گئی ۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی شانِ رحمت کو سمجھنے کے لئے صرف یہی ایک حدیث ہوتی تو کافی تھی ۔ حق یہ ہے کہ اس چند سطری حدیث میں معرفت کا ایک دفتر ہے ۔ اللہ تعالیٰ فہم اور یقین نصیب فرمائے ۔ تشریح ذرا تصور کیجئے اس بدو مسافر کا جو اکیلا اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر اور راستہ بھر کے لئے کھانے پینے کا سامان اسی پر لاد کر دور دراز کے سفر پر کسی ایسے راستہ سے چلا جس میں کہیں دانہ پانی ملنے کی امید نہیں ، پھر اثنائے سفر میں وہ کسی دن دوپہر میں کہیں سایہ دیکھ کر اترا اور آرام کرنے کے ارادہ سے لیٹ گیا ، اس تھکے ماندے مسافر کی آنکھ لگ گئی ، کچھ دیر کے بعد جب آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ اونٹنی اپنے سازو سامان کے ساتھ غائب ہے ، وہ بےچارہ حیران و سراسیمہ ہو کر اس کی تلاش میں دوڑا بھاگا ، یہاں تک کہ گرمی اور پیاس کی شدت نے اس کو لبِ دم کر دیا ، اب اس نے سوچا کہ شاید میری موت اسی طرح اس جنگل بیابان میں لکھی تھی ، اور اب بھوک پیاس میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کے یہاں مرنا ہی میرے لئے مقدر ہے ، اس لئے وہ اسی سایہ کی جگہ میں مرنے کے لئے آگے پڑ گیا اور موت کا انتظار کرنے لگا ، اسی حالت میں اس کی آنکھ پھر جھپکی ، اس کے بعد جب آنکھ کھلی تو دیکھا کہ اونٹنی اپنے پورے ساز و سامان کے ساتھ اپنی جگہ کھڑی ہے ۔ ذرا اندازہ کیجئے کہ بھاگی ہوئی اور گم شدہ اونٹنی کو اس طرح اپنے پاس کھڑا دیکھ کے اس بدو کو جو مایوس ہو کر مرنے کے لئے پڑ گیا تھا کس قدر خوشی ہو گی ۔ صادق مصدوق ﷺ نے اس حدیث پاک میں قسم کھا کے فرمایا کہ : خدا کی قسم ! بندہ جب جرم و گناہ کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا اور سچے دل سے توبہ کر کے اس کی طرف آتا ہے تو اس رحیم و کریم رب کو اس سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے جتنی کہ اس بدو کو اپنی بھاگی ہوئی اونٹنی کے ملنے سے ہو گی ۔ قریب قریب یہی مضمون صحیحین میں حضرت ابن مسعودؓ کے علاوہ حضرت انسؓ کی روایت سے بھی مروی ہے ۔ اور صحیح مسلم میں ان دونوں بزرگوں کے علاوہ حضرت ابو ہریرہؓ ، حضرت نعمان بن بشیر اور حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہم سے بھی یہی مضمون مروی ہے ، بلکہ حضرت انسؓ کی روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس بدو مسافر کی فرطِ مسرت کا حال بیان کرتے ہوئے گرمایا کہ : اونٹنی کے اس طرح مل جانے سے وہ اتنا خوش ہوا کہ اللہ تعالیٰ اس بے انتہا عنایت اور بندہ نوازی کے اعتراف کے طور پر وہ کہنا چاہتا تھا کہ “اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي وَأَنَا عَبْدُكَ” (خداوندا ! بس تو ہی میرا رب ہے اور میں تیرا بندہ) لیکن خوشی کی سرمستی میں اس کی زبان بہک گئی اور اس نے کہا “اللَّهُمَّ أَنْتَ عَبْدِىْ وَأَنَا رَبُّكَ” (میرے اللہ ! بس تو میرا بندہ اور میں تیرا خدا ۔) آنحضرتﷺ نے اس کی اس غلطی کی معذرت کرتے ہوئے فرمایا : “أَخْطَأَ مِنْ شِدَّةِ الْفَرْحِ” (فرطِ مسرت اور بےحد خوشی کی وجہ سے اس بےچارے بدو کی زبان بہک گئی) ۔ (1) بلا شبہ اس حدیث میں توبہ کرنے والے گناہگاروں کو اللہ تعالیٰ کی جو خوشنودی کی بشارت سنائی گئی ہے وہ جنت اور اس کی ساری نعمتوں سے بھی فائق ہے ۔ شیخ ابن القیمؒ نے “مدارج السالکین” میں توبہ و استغفار ہی کے بیان میں اسی حدیث پر کلام کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی اس خوشنودی کی وضاحت میں ایک عجیب و غریب مضمون لکھا ہے جس کو پڑھ کر ایمانی روح وجد میں آ جاتی ہے ۔ ذیل میں اس کا صرف حاصل و خلاصہ پیش کیا جاتا ہے ۔ “اللہ تعالیٰ نے اپنی پیدا کی ہوئی ساری کائنات میں انسان کو خاص شرف بخشا ہے ، دنیا کی ساری چیزیں اس کے لئے پیدا کی گئی ہیں اور اس کو اپنی معرفت اور اطاعت و عبادت کے لئے پیدا فرمایا ہے ، ساری مخلوقات کو اس کے لئے مسخر کیا ، اور اپنے فرشتوں تک کو اس کا خادم اور محافظ بنایا ، پھر اس کی ہادیت و رہنمائی کے لئے کتابیں نازل فرمائیں اور نبوت و رسالت کا سلسلہ جاری فرمایا ، پھر ان ہی میں سے کسی کو اپنا خلیل بنایا اور کسی کو شرفِ ہم کلامی بخشا اور بہت بڑی تعداد کو اپنی ولایت اور قربِ خصوصی کی دولت سے نوازا ۔ اور انسانوں ہی کے لئے دراصل جنت و دوزخ کو بنایا ۔ الغرض دنیا و آخرت میں عالمِ خلق و امر میں جو کچھ ہے اور ہو گا اس سب کا اصل مرکز و محور بنی نوع انسان ہی ہے ، اس نے امانت کا بوجھ اٹھایا ، اسی کے لیے شریعت کا نزول ہوا ، اور ثواب و عذاب دراصل اسی کے لئے ہے ۔ پس اس پورے کارخانہ عالم میں انسان ہی اصل مقصود ہے ، اللہ نے اس کو اپنے کاص دستِ قدرت سے بنایا ، اس میں اپنی روح ڈالی ، اپنے فرشتوں سےئ اس کو سجدہ کرایا ، اور ابلیس اس کو سجدہ ہی نہ کرنے کے جرم میں مردود بارگاہ ہوا اور اللہ نے اس کو اپنا دشمن قرار دیا ۔ یہ سب اس لئے کہ اس خالق نے انسان ہی میں اس کی صلاحیت رکھی ہے کہ وہ ایک زمینی اور بادی مخلوق ہونے کے باوجود اپنے خالق و پروردگار کی (جو وراء الوراء اور غیب الغیب ہے) اعلیٰ درجہ کی معرفت حاصل کرے ، ممکن حد تک اس کے اسرار اور اس کی حکمتوں سے آشنا ہو ، اس سے محبت اور اس کی اطاعت کرے ، اس کے لئے اپنے نفسانی مرغوبات اور اپنی ہر چیز کو قربان کرے ، اور اس دنیا میں اس کی خلافت کی ذمہ داریوں کو ادا کرے ، اور پھر اس کی خاص الخاص عنایتوں اور بےحساب بخششوں کا مستحق ہو کر اس کی رحمت و رافت ، اس کے پیار و محبت اور اس کے بےانتہا لطف و کرم کا مورد بنے ۔ اور چونکہ وہ ربِ کریم اپنی ذات سے رحیم ہے اور لطف و کرم اس کی ذاتی صفت ہے (جس طرح بلا تشبیہ مامتاں کی ذاتی صفت ہے) اس لئے اپنے وفادار اور نیک کردار بندوں کو انعامات و احسانات سے نوازنا اور اپنے عطیات سے ان کی جھولیوں کو بھر دینا اس کے لئے بلاتشبیہ اسی طرح بےانتہا خوشی کا باعث ہے جس طرح اپنے بچے کو دودھ پلانا اور نہلا دھلا کر اچھے کپڑے پہنانا مامتا والی ماں کے لئے انتہائی خوشی کا باعث ہوتا ہے ۔ اب اگر بندے نے بدبختی سے اپنے اس خالق و پروردگار کی وفاداری اور فرمانبرداری کا راستہ چھوڑ کے بغاوت و نافرمانی کا طریقہ اختیار کر لیا اور اس کے دشمن اور باغی شیطان کے لشکر اور اس کے متبعین میں شامل ہو گیا اور رب کریم کی ذاتی صفت رحمت و رافت اور لطف و کرم کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے بجائے وہ اس کے قہر و غضب کو بھڑکانے لگا تو ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ میں (بلاتشبیہ) اس غصہ اور ناراضی کی سی کیفیت پیدا ہو گی جو نالائق اور ناخلف بیٹے کی نافرمانی اور بدکرداری دیکھ کر مامتا والی ماں کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے ۔ پھر اگر اس بندے کو کبھی اپنی غلطی کا احساس ہو جائے اور وہ محسوس کرے کہ میں نے اپنے مالک و پروردگار کو ناراض کر کے خود کو اور اپنے مستقبل کو برباد کر لیا اور اس کے دامنِ رحم و کرم کے سوا میرے لئے کوئی جائے پناہ نہیں ہے ، پھر وہ اپنے کئے پر نادم و پشیمان ہوا اور مغفرت و رحمت کا سائل بن کر اس کی بارگاہِ کرم کی طرف رجوع کرے ، سچے دل سے توبہ کرے ، روئے اور گڑگڑائے اور معافی مانگے اور آئندہ کے لئے وفاداری اور فرمانبرداری کا عہد و ارادہ کر لے تو سمجھا جا سکتا ہے کہ اس کے اس کریم رب کو جس کی ذاتی صفت رحمت و رأفت اور جس کا پیار ماں کے پیار سے بھی ہزاروں گنا زیادہ ہے ، اور جو بندوں پر نعمتوں کی بارش برسا کے اتنا خوش ہوتا ہے جتنا نعمتوں کو پا کر محتاج بندے خوش نہں ہوتے ، تو سمجھا جا سکتا ہے کہ ایسے کریم پروردگار کو اپنے اس بندے کی اس توبہ و انابت سے کتنی خوشی ہو گی ۔” شیخ ابن القیمؒ نے اس سے بہت زیادہ وضاحت اور بسط کے ساتھ یہ مضمون لکھنے کے بعد آخر میں کسی عارف کا ایک واقعہ لکھا ہے جو شیطان یا نفسِ امارہ کے اغواء سے غلط راستے پر پڑ گئے تھے اور سرکشی و نافرمانی کے جراثیم ان کی روح میں پیدا ہونے لگے تھے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ : “وہ عارف ایک گلی سے گزر رہے تھے ، انہوں نے دیکھا کہ ایک گھر کا دروازہ کھلا اور ایک بچہ روتا چلاتا ہوا اس میں سے نکلا ، اس کی ماں اس کو گھر سے دھکے دے دے کر نکال رہی تھی ، جب وہ دروازے سے باہر ہو گیا تو ماں نے اندر سے دروازہ بند کر لیا ، بچہ اسی طرح روتا چلاتا بکتا بڑبڑاتا کچھ دور تک گیا ، پھر ایک جگہ پہنچ کر کھڑا ہو گیا اور سوچنے لگا کہ میں اپنے ماں باپ کے گھر کے سوا کہاں جا سکتا ہوں اور کون مجھے اپنے پاس رکھ سکتا ہے ، یہ سوچ کر ٹوٹے دل کے ساتھ وہ اپنے گھر کی طرف لوٹ پڑا ۔ دروازہ پر پہنچ کر اس نے دیکھا کہ دروازہ اندر سے بند ہے تو وہ بےچارہ وہیں چوکھٹ پر سر رکھ کے پڑ گیا اور اسی حالت میں سو گیا ۔ ماں آئی اس نے دروازہ کھولا اور اپنے بچے کو اس طرح چوکھٹ پر سر رکھ کے پڑا دیکھ کے اس کا دل بھر آیا اور مامتا کا جذبہ اُبھر آیا ۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ، بچے کو اٹھا کر سینے سے لگایا اور اس کو پیار کرنے لگی ، اور کہہ رہی تھی : بیٹے تو نے دیکھا تیرے لئے میرے سوا کون ہے ، تو نے نالائقی ، نادانی اور نافرمانی کا راستہ اختیار کر کے اور میرا دل دکھا کے مجھے وہ غصہ دلایا جو تیرے لئے میری فطرت نہیں ہے ، میری فطرت اور مامتا کا تقاضا تو یہی ہے کہ میں تجھ پر پیار کروں اور تجھے راحت و آرام پہنچانے کی کوشش کروں ، تیرے لئے ہر خیر اور بھلائی چاہوں میرے پاس جو کچھ ہے تیرے ہی لئے ہے ۔ ان عارف نے یہ سارا ماجرا دیکھا اور اس میں اُن کے لئے جو سبق تھا وہ لیا ۔ ” اس قصہ پر غور کرتے وقت رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد سامنے رکھئے : “اَللهُ اَرْحَمُ لِعِبَادِهِ مِنْ هَذِهِ بِوَلَدِهَا” (خدا کی قسم ! اللہ تعالیٰ کی ذات میں اپنے بندوں کے لئے اس سے زیادہ پیار اور رحم ہے جتنا کہ اس ماں میں اپنے بچے کے لئے ہے) ۔ کیسے بدبخت اور محروم ہیں وہ بندے جنہوں نے نافرمانی کی راہ اپنا کے ایسے رحیم و کریم پروردگار کی رحمت سے اپنے کو محروم کر لیا ہے اور اس کے قہر و غضب کو بھڑکا رہے ہیں ، حالانکہ توبہ کا دروازہ اُن کے لئے کھلا ہوا ہے اور وہ اس کی طرف قدم بڑھا کے اللہ تعالیٰ کا وہ پیار حاصل کر سکتے ہیں جس کے سامنے ماں کا پیار کچھ بھی نہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان حقائق کا فہم اور یقین نصیب فرمائے ۔ يَا غَفَّارُ اغْفِرْ لِي، يَا تَوَّابُ تُبْ عَلَيَّ، يَا رَحْمَانُ ارْحَمْنِي، يَا رَءُوفُ ارْأُفْ بِي، يَا عَفُوُّ اعْفُ عَنِّي، يَا رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكَرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ، وَطَوِّقْنِي حُسْنَ عِبَادَتِكَ.
صلوٰۃ و سلام: احادیث میں درود و سلام کی ترغیبات اور فضائل و برکات
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو بندہ مجھ پر ایک دفعہ صلوٰۃ بھیجے ، اللہ تعالیٰ اس پر دس بار صلوٰۃ بھیجتا ہے ۔ (صحیح مسلم) تشریح “صلوٰۃ و سلام” دراصل اللہ تعالیٰ کے حضور میں کی جانے والی بہت اعلیٰ اور اشرف درجہ کی ایک دعا ہے جو رسول اللہ ﷺکی ذاتِ پاک سے اپنی ایمانی وابستگی اور وفا کیشی کے اظہار کے لئے آپ ﷺ کے حق میں کی جاتی ہے ، اور اس کا حکم ہم بندوں کو خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآنِ کریم میں دیا گیا ہے ، اور بڑے پیارے اور مؤثر انداز میں دیا گیا ہے ۔ ارشاد فرمایا گیا ہے : “ إِنَّ اللَّـهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ” (الاحزاب ع : ۷) اس آیت میں اہلِ ایمان کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے کہ وہ اللہ کے نبی ﷺ پر صلوٰۃ و سلام بھیجا کریں (اور یہی آیت کا اصل موضوع اور مدعا ہے) لیکن اس خطاب اور حکم میں خاص اہمیت اور وزن پیدا کرنے کے لئے پہلے بطورِ تمہید فرمایا گیا ہے کہ : “إِنَّ اللَّـهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ” یعنی نبی ﷺ پر صلوٰۃ (جس کا تمہیں حکم دیا جا رہا ہے) خدا وند قدوس اور اس کے پاک فرشتوں کا معمول و دَستور ہے ، تم بھی اس کو اپنا معمول بنا کے اس محبوب و مبارک عمل میں شریک ہو جاؤ ۔ حکم اور خطاب کا یہ انداز قرآن پاک میں صرف صلوٰۃ و سلام کے اس حکم ہی کے لئے اختیار کیا گیا ہے ۔ دوسرے کسی اعلیٰ سے اعلیٰ عمل کے لئے بھی نہیں کہا گیا کہ خدا اور اس کے فرشتے یہ کام کرتے ہیں تم بھی کرو ۔ بلاشبہ صلوٰۃ و سلام کا یہ بہت بڑا امتیاز ہے ، اور رسول اللہ ﷺ کے مقامِ محبوبیت کے خصائص میں سے ہے ۔ صلوٰۃ علی النبی کا مطلب اور ایک اشکال کا حل سورہ احزاب کی اس آیت میں بہت سے لوگوں کو یہ اشکال محسوس ہوتا ہے کہ اس میں اللہ اور فرشتوں کی نسبت سے بھی “صلوٰۃ” کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ، اور مومن بندوں کی نسبت سے بھی وہی لفظ استعمال فرمایا گیا ہے ، حالانکہ حقیقت کے لحاظ سے ان میں سے ہر ایک کا عمل دوسرے سے یقینا مختلف ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ ﷺ جپر صلوٰۃ کا جو عمل ہوتا ہے (جسکو اس آیت میں فرشتوں کے عمل کے ساتھ جوڑ کر “يُصَلُّونَ ” کے لفظ سے ذکر کیا گیا ہے) وہ ہرگز فرشتوں اور مؤمنین کا عمل نہیں ہو سکتا ۔ اور اسی طرح ایمان والے بندوں سے جس عملِ صلوٰۃ کا مطالبہ “صَلُّوا” کے لفظ سے کیا گیا ہے وہ ہرگز خدا کا فعل نہیں ہو سکتا ۔ اس کو حل کرنے کے لئے اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ نسبت بدلنے سے صلوٰۃ کے معنی بدل جاتے ہیں جب اللہ تعالیٰ کی طرف اُس کی نسبت ہو تو اس کا مطلب ہوتا ہے رحمت نازل کرنا ، اور جب ملائکہ یا مومنین کی طرف نسبت ہو تو اس کا مطلب ہوتا ہے اللہ سے رحمت کی دعا کرنا ۔ لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ صلوٰۃ کے معنی میں بہت وسعت ہے ۔ تکریم و تشریف ، مدح و ثناء ، رفعِ مراتب ، محبت و عطوفت ، برکت و رحمت ، پیار دُلار ، ارادہ خیر و دعائے خیر ، ان سب کو صلوٰۃ کا مفہوم حاوی ہے ۔ اس لئے اس کی نسبت اللہ اور اس کے فرشتوں کی طرف ایمان والے بندوں کی طرف یکساں طور پر کی جا سکتی ہے ۔ البتہ یہ فرق ہو گا کہ رسول اللہ ﷺ پر اللہ تعالیٰ کی صلوٰۃ اس کی شانِ عالی کے مطابق ہو گی ، اور فرشتوں کی طرف سے ان کے مرتبہ کے مطابق اور مومنین کی طرف سے اُن کی حیثیت کے مطابق ۔ اس بناء پر آٰت کا مطلب یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کی اپنے نبی ﷺ پر خاص الخاص عنایت و نوازش اور پیار دُلار سے ، اور وہ ان کی مدح و ستائش کرتا اور عظمت و شرف کے بلند ترین مقام تک انکو پہنچانا چاہتا ہے ، اور فرشتے بھی ان کی تکریم و تعظیم اور مدح و ثناء کرتے ہین اور ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے بیش از بیش الطاف و عنایات اور رفع درجات کی دعائیں کرتے ہیں ۔ اے ایمان والو ! تم بھی ایسا ہی کرو ، اور آپ ﷺ کے لئے اللہ تعالیٰ سے خاص الخاص لطف و عنایت ، محبت و عطوفت ، مراتب اور درجات کی رفعت ، پورے عالم کی سیادت و امامت اور مقامِ محمود و قبولیت شفاعت کی دعا کیا کرو اور آپ ﷺ پر سلام بھیجا کرو ۔ صلوٰۃ و سلام کی عظمت و اہمیت اس آیت میں جیسی شاندار تمہید اور جس اہتمام کے ساتھ اہلِ ایمان کو صلوٰۃ و سلامکا حکم دیا گیا ہے اس سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کی کتنی اہمیت و عظمت ہے اور وہ کیسا محبوب عمل ہے ۔آگے درج ہونے والی حدیثوں سے معلوم ہو گا کہ اس میں اہلِ ایمان کے لئے کس قدر خیر ، کتنی رحمت اور کیسی برکات ہیں ۔ صلوٰۃ و سلام کے بارے میں فقہاء کے مسالک امت کے فقہاء اس پر تقریباً متفق ہیں کہ سورہ احزاب کی اس آیت کی رو سے رسول اللہ ﷺ پر درود و سلام بھیجنا ہر فردِ امت پر فرض ہے ، پھر ائمہ امت میں سے امام شافعیؒ اور ایک روایت کے مطابق امام احمدؒ بھی اس کے قائل ہیں کہ خاص کر ہر نماز کے قعدہ اخیرہ میں تشہد کے بعد درود شریف پڑھنا واجباتِ نماز میں سے ہے ، اگر نہ پڑھی تو ان ائمہ کے نزدیک نماز ہی نہ ہو گی ۔ لیکن امام مالک اور امام ابو حنیفہ اور اکثر دوسرے فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ قعدہ میں تشہد تو بےشک واجب ہے جس کے ضمن میں رسول اللہ ﷺ پر سلام بھی آ جاتا ہے لیکن اس کے بعد مستقلا درود شریف پڑھنا فرض یا واجب نہیں بلکہ ایک اہم اور مبارک سنت ہے جس کے چھوٹ جانے سے نماز میں بڑا نقص رہ جاتا ہے ۔ مگر اس اختلاف کے باوجود اس پر تقریبا اتفاق ہے ک اس آیت کے حکم کی تعمیل میں رسول اللہ ﷺ پر صلوٰۃ و سلام بھیجنا ہر مسلمان پر اسی طرح فرضِ عین ہے جس طرح مثلا آپ ﷺ کی رسالت کی شہادت دینا ، جس کے لئے کسی وقت اور تعداد کا تعین نہیں کیا گیا ہے اور اس کا ادنیٰ سے ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ ایک دفعہ پڑھ لے اور پھر اس پر قائم رہے ۔ آگے بعض وہ حدیثیں آئیں گی جن سے معلوم ہو گا کہ جب جب رسول اللہ ﷺ کا ذکر آئے آپ ﷺ پر لازما درود بھیجا جائے اور اس میں کوتاہی کرنے والوں کے لئے سخت وعیدیں بھی آئیں گی ۔ ان احادیث کی بناء پر بہت سے فقہاء اس کے بھی قائل ہیں کہ جب کوئی آپ ﷺ کا ذکر کرے یا کسی دوسرے سے سنے تو اس وقت آپ ﷺ پر درود بھیجنا واجب ہے ۔ پھر ایک رائے یہ ہے کہ اگر ایک ہی نشست اور ایک ہی سلسلہ کلام میں بار بار آپ ﷺ کا ذکر آئے تو ہر دفعہ درود پڑھنا واجب ہو گا اور دوسری رائے یہ ہے کہ اس صورت میں ایک دفعہ درود پڑھنا واجب ہو گا اور ہر دفعہ پڑھنا مستحب ہو گا اور محققین نے اسی کو اختیار کیا ہے ۔ واللہ اعلم درود شریف کی امتیازی خاصیت اللہ تعالیٰ نے جس طرح ہماری اس مادی دنیا میں پھلوں اور پھولوں کو الگ الگ رنگتیں دی ہیں اور ان میں مختلف قسم کی خوشبوئیں رکھی ہیں (ہر گلے را رنگ و بوئے دیگر ست) اسی طرح مختلف عبادات اور اذکار و دعوات کے الگ الگ خواص اور برکات ہیں ۔ درود شریف کی امتیازی خاصیت یہ ہے کہ خلوصِ دل سے اس کی کثرت ، اللہ تعالیٰ کی خاص نظر رحمت ، رسول اللہ ﷺ کے روحانی قرب اور آپ ﷺ کی خصوصی شفقت و عنایت حاصل ہونے کا خاص الخاص وسیلہ ہے ۔ آگے درج ہونے والی بعض حدیثوں سے یہ بھی معلوم ہو گا کہ ہر اُمتی کا درود سلام اس کے نام کے ساتھ رسول اللہ ﷺ تک پہنچایا جاتا ہے اور اس کے لئے فرشتون کا ایک پورا عملہ ہے ۔ ذرا غور کریں ! اگر آپ کو معلوم ہو جائے کہ اللہ کا فلاں بندہ آپ کے لئے اور آپ کے گھر والوں اور سب متعلقین کے لئے اچھی سے اچھی دعائیں برابر کرتا رہتا ہے ، اپنے لئے اللہ تعالیٰ سے اتنا نہیں مانگتا جتنا آپ کے لئے مانگتا ہے اور یہ اس کا محبوب ترین مشغلہ ہے تو آپ کے دل میں اس کی کیسی قدر و محبت اور خیرخواہی کا کیسا جذبہ پیدا ہو گا ۔ پھر جب کبھی اللہ کا وہ بندہ آپ سے ملے گا اور آپ کے سامنے آئے گا تو آپ کس طرح اس سے ملیں گے ۔ اس مثال سے سمجھا جا سکتا ہے کہ اللہ کا جو بندہ ایمان و اخلاص کے ساتھ رسول اللہ ﷺ پر کثرت سے درود و سلام پڑھے اس پر آپ کی کیسی نظر عنایت ہو گی اور قیامت و آخرت میں اس کے ساتھ آپ کا معاملہ کیا ہو گا ۔ اور رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی محبوبیت کا جو مقام حاصل ہے اس کو پیش نظر رکھ کر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس بندے سے اللہ تعالیٰ کتنا خوش ہو گا اور اس پر اس کا اکیسا کرم ہو گا ۔ درود و سلام کا مقصد یہاں ایک بات یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ درود و سلام اگرچہ بظاہر رسول اللہ ﷺ کے حق میں اللہ تعالیٰ سے ایک دعا ہے لیکن جس طرح کسی دوسرے کے لئے دعا کرنے کا اصل مقصد اس کو نفع پہنچانا ہوتا ہے ، اسی طرح رسول اللہ ﷺ پر درود و سلام بھیجنے کا مقصد آپ ﷺ کی ذات پاک کو نفع پہنچانا نہیں ہوتا ، ہماری دعاؤں کی آپ ﷺ کو قطعاً کوئی احتیاج نہیں ۔ بادشاہوں کو فقیروں ، مسکینوں کے تحفوں اور ہدیوں کی کیا ضرورت ۔ بلکہ جس طرح اللہ تعالیٰ کا ہم بندوں پر حق ہے کہ اس کی عبادت اور حمد و تسبیح کے ذریعہ اپنی عبدیت اور عبودیت کا نذرانہ اس کے حضور میں پیش کریں اور اس سے اللہ تعالیٰ کو کوئی نفع نہیں پہنچتا بلکہ وہ خود ہماری ضرورت ہے ، اور اس کا نفع ہم ہی کو پہنچتا ہے ، اسی طرح رسول اللہ ﷺ کے محاسن و کمالات ، آپ ﷺ کی پیغمبرانہ خدمات اور امت پر آپ ﷺ کے عظیم احسانات کا یہ حق ہے کہ امتی آپ ﷺ کے حضور میں عقیدت و محبت اور وفاداری و نیاز مندی کا ہدیہ اور ممنویت و سپاس گزاری کا نذرانہ پیش کریں ، اسی کے لئے درود و سلام کا یہ طریقہ مقرر کیا گیا ہے ۔ اور جیسا کہ عرض کیا گیا اس کا مقصد آپ ﷺ کو کوئی نفع پہنچانا نہیں ہوتا ۔ بلکہ اپنے ہی نفع کے لئے یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا و ثوابِ آخرت اور اس کے رسولِ پاک کا روحانی قرب اور ان کی خاص نظرِ عنایت حاصل کرنے کے لئے درود و سلام پڑھا جاتا ہے اور پڑھنے والے کا اصل مقصد بس یہی ہوتا ہے ۔ پھر یہ اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہے کہ وہ ہمارا درود و سلام کا یہ ہدیہ اپنے رسولِ پاک تک فرشتوں کے ذریعہ پہنچواتا ہے اور بہت سوں کا آپ ﷺ کو قبرِ مبارک میں براہ راست بھی سنوا دیتا ہے (جیسا کہ آگے درج ہونے والی احادیث سے معلوم ہو گا) نیز ہمارے اس درود و سلام کے حساب میں بھی رسول اللہ ﷺ پر اپنے الطاف و عنایات اور تکریم و تشریف میں اضافہ فرماتا ہے ۔ درود و سلام کی خاص حکمت انبیاء علیہم السلام اور خاص کر سید الانبیاء ﷺ کی خدمت میں عقیدت و محبت اور وفاداری و نیاز مندی کا ہدیہ اور ممنونیت و سپاس گزاری کا نذرانہ پیش کرنے کے لئے درود و سلام کا طریقہ مقرر کرنے کی سب سے بڑی حکمت یہ ہے کہ اس سے شرک کی جڑ کٹ جاتی ہے ، اللہ تعالیٰ کے بعد سب سے مقدس اور محترم ہستیاں انبیاء علیہم السلام ہی کی ہیں اور ان میں سب سے اکرم و افضل خاتم النبیین سیدنا حضرت محمدﷺ ہیں ۔ جب ان کے بارے میں یہ حکم دے دیا گیا کہ ان پر درود و سلام بھیجا جائے (یعنی اللہ تعالیٰ سے ان کے لئے خاص الخاص عنایت و رحمت اور سلامتی کی دعا کی جائے) تو معلوم ہوا کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت اور نظر کرم کے محتاج ہیں ، اور ان کا حق اور مقام عالی یہی ہے کہ ان کے واسطے اللہ تعالیٰ سے اعلیٰ سے اعلیٰ دعائیں کی جائیں اس کے بعد شرک کے لئے کوئی گنجائش نہیں رہتی ۔ کتنا بڑا کرم ہے رب کریم کا کہ اس کے اس حکم نے ہم بندوں اور اُمتیوں کو نبیوں اور رسولوں کا اور خاص کر سید الانبیاء ﷺ کا دعاگو بنا دیا ۔ جو بندہ ان مقدس ہستیوں کا دعاگو ہو وہ کسی مخلوق کا پرستار کیسے ہو سکتا ہے ۔ اس تمہید کے بعد ہو حدیثیں پڑھئے جن میں رسول اللہ ﷺ پر درود و سلام کی ترغیب دی گئی ہے ، اور اس کی فضیلت اور برکات کا بیان فرمایا گیا ہے ۔ تشریح ..... اوپر عرض کیا جا چکا ہے کہ صلوٰۃ کے مفہوم میں بڑی وسعت ہے ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ ﷺ کی جو تکریم و تشریف اور آپ ﷺ پر جو خاص الخاص عنایت و نوازش ہوتی ہے اس کو بھی صلوٰۃ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور عام ایمان والے بندوں کے ساتھ رحمت و کرم کا جو معاملہ ہوتا ہے اس کے لئے بھی صلوٰۃ کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ اس لئے اس حدیث میں اس رحمت و عنایت کے لئے بھی جو رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجنے والے بندے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے صلوٰۃ کا لفظ استعمال ہوا ہے فرمایا گیا ہے “صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ عَشْرًا” (یعنی حضور ﷺ پر ایک دفعہ صلوٰۃبھیجنے والے بندے پر اللہ تعالیٰ دس دفعہ صلوٰۃ بھیجتا ہے) مگر ظاہر ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر اللہ تعالیٰ کی صلوٰۃ میں اور دوسرے کسی ایمان والے بندے پر اس کی صلوٰۃ میں وہی فرق ہو گا جو رسول اللہ ﷺ کے مقامِ عالی اور اس بندے کے درجہ میں ہو گا ۔ آگے درج ہونے والی بعض حدیثوں سے یہ معلوم ہو گا کہ رسول اللہ ﷺ پر ہم بندوں کے صلوٰۃبھیجنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے آپ پر صلوٰۃ بھیجنے کی استدعا کریں ۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ اس حدیث کا مقصد و مدعا صرف ایک حقیقت اور واقعہ کی اطلاع دینا نہیں ہے بلکہ اس مبارک عمل (الصَّلَوةُ عَلَى النَّبِيِّ) کی ترغیب دینا ہے جو اللہ تعالیٰ کی صلوٰۃ یعنی خصوصی رحمتوں اور عنایتوں کے حاصل کرنے اور خود رسول اللہ ﷺ کے قربِ روحانی کی برکات سے بہرہ ور ہونے کا خاص الخاص وسیلہ ہے ۔ اسی طرح آگے درج ہونے والی حدیثوں کا مقصد و مدعا بھی یہی ہے ۔
احادیث میں درود و سلام کی ترغیبات اور فضائل و برکات
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو بندہ مجھ پر ایک صلوٰۃ بھیجے اللہ تعالیٰ اس پر دس صلواتیں بھیجتا ہے اور اس کی دس خطائیں معاف کر دی جاتی ہیں اور اس کے دس درجے بلند کر دئیے جاتے ہیں ۔ (سنن نسائی)
احادیث میں درود و سلام کی ترغیبات اور فضائل و برکات
ابو بردہ بن نیار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرا جو اُمتی خلوصِ دل سے مجھ پر صلوٰۃ بھیجے ، اللہ تعالیٰ اس پر دس صلواتیں بھیجتا ہے اور اس کے صلہ میں اس کے دس درجے بلند کرتا ہے ، اور اس کے حساب میں دس نیکیاں لکھاتا ہے ، اور اس کے دس گناہ محو فرما دیتا ہے ۔ (سنن نسائی) تشریح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ والی پہلی حدیث میں رسول اللہ ﷺ پر ایک دفعہ صلوٰۃ بھیجنے والے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دس صلوٰتوں کے بھیجے جانے کا ذکر تھا ۔ اس کے بعد حضرت انس رضی اللہ عنہ والی دوسری حدیث میں دس صلوٰتوں کے علاوہ دس درجوں کی بلندی اور دس گناہوں کی معافی کا بھی ذکر فرمایا گیا ۔ اور ابو بردہ بن نیار رضی اللہ عنہ والی اس تیسری حدیث میں ان سب کے علاوہ اس بندے کے نامہ اعمال میں مزید دس نیکیوں کے لکھے جانے کی بشارت بھی سنائی گئی ۔ اس عاجز کے نزدیک یہ صرف اجمال اور تفصیل کا فرق ہے ، یعنی دوسری اور تیسری حدیث میں جو کچھ فرمایا گیا ہے ، وہ پہلی حدیث کے اجمال کی تفصیل ہے ۔ واللہ اعلم ۔ تیسری حدیث سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ صلہ پانے کے لئے شرط ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر صلوٰۃ“اخلاص قلب” سے بھیجی جائے ۔
احادیث میں درود و سلام کی ترغیبات اور فضائل و برکات
حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن تشریف لائے اور آپ کے چہرہ انور پر خوشی اور بشاشت کے آثار نمایاں تھے (اس کا سبب بیان کرتے ہوئے) آپ ﷺ نے فرمایا کہ : آج جبرئیل امین آئے اور انہوں نے بتایا کہ تمہارا رب فرماتا ہے کہ اے محمدﷺ! کیا یہ بات تمہیں راضی اور خوش نہیں کر دے گی کہ تمہارا جو امتی تم پر صلوٰۃ بھیجے اس پر دس صلوٰتیں بھیجوں ، اور جو تم پر سلام بھیجے اس پر دس سلام بھیجوں ۔ (سنن نسائی ، مسند دارمی) تشریح قرآن پاک میں ارشاد فرمایا گیا ہے “وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَىٰ” (اے نبیﷺ تمہارا رب تم کو اتنا عطا فرمائے گا کہ تم راضی ہو جاؤ گے) اس وعدہ کا پورا ظہور تو آخرت میں ہو گا ، لیکن یہ بھی اس کی ایک قسط ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کا اتنا اکرام فرمایا ، اور محبوبیت کبریٰ کا وہ مقامِ عالی آپ ﷺ کو عطا فرمایا کہ جو بندہ آپ ﷺ کی محبت اور آپ ﷺ کے احترام میں خَالِصًا لله آپ ﷺ پر صلوٰۃ و سلام بھیجے ، اللہ تعالیٰ نے اس پر دس صلوٰتیں اور دس سلام بھیجنے کا دستور اپنے لئے مقرر فرمایا اور جبرائیل امینؑ کے ذریعہ آپ ﷺ کو اس کی اطلاع دی اور اس پیارے انداز میں دی : “إِنَّ رَبَّكَّ يَقُوْلُ أَمَا يُرْضِيكَ يَا مُحَمَّدُ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ) ” (تمہارا رب فرماتا ہے اے محمد (ﷺ) ! کیا تمہیں ہمارا یہ فیصلہ راضی اور خوش نہیں کر دے گا) ۔ اللہ تعالیٰ نصیب فرمائے تو ان احادیث سے رسول اللہ ﷺ کے مقامِ محبوبیت کو کچھ سمجھا جا سکتا ہے ۔
احادیث میں درود و سلام کی ترغیبات اور فضائل و برکات
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ آبادی سے نکل کر کھجوروں کے ایک باغ میں پہنچے اور سجدے میں گر گئے اور بہت دیر تک اسی طرح سجدے میں پڑے رہے ، یہاں تک کہ مجھے خطرہ ہوا کہ آپ ﷺ وفات تو نہیں پا گئے ۔ میں آپ ﷺ کے پاس آیا اور غور سے دیکھنے لگا ۔ آپ ﷺ نے سر مبارک سجدے سے اٹھایا اور مجھ سے فرمایا کیا بات ہے اور تمہیں کیا فکر ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ (آپ کے دیر تک سجدے سے سر نہ اٹھانے کی وجہ سے) مجھے ایسا شبہ ہوا تھا اس لئے میں آپ کو دیکھ رہا تھا ۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اصل واقعہ یہ ہے کہ جبرائیل نے آ کر مجھ سے کہا تھا کہ میں تمہیں بشارت سناتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جو بند تم پر صلوٰۃ بھیجے میں اس پر صلوٰۃ بھیجوں گا ، اور جو تم پر سلام بھیجے میں اس پر سلام بھیجوں گا ۔ (مسند احمد) تشریح اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ پر صلوٰۃ و سلام بھیجنے والے کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے صلوٰۃ و سلام بھیجے جانے کا ذکر ہے ، لیکن دس کا عدد اس روایت میں مذکور نہیں ہے ، مگر اس سے پہلی حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ والی روایت سے معلوم ہو چکا ہے کہ حضرت جبرئیلؑ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دس دفعہ صلوٰۃ بھیجے جانے کی بشارت دی تھی ۔ پھر یا تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو بتاتے وقت دس کا عدد کا ذکر ضروری نہیں سمجھا ، یا بعد کے کسی راوی کے بیان کرنے سے رہ گیا ۔ اسی حدیث کی مسند احمد کی ایک روایت میں یہ لفظ بھی ہے کہ : “فَسَجَدْتُّ للهِ شُكْرًا” (یعنی میں نے اس بشارت کے شکر میں یہ سجدہ کیا تھا) امام بیہقی نے اس حدیث کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سجدہ شکر کے ثبوت میں میری نظر میں یہ سب سے زیادہ صحیح حدیث ہے ۔ واللہ اعلم ۔ 297) قریب قریب اسی مضمون کی ایک حدیث طبرانی نے اپنی سند کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کی ہے ، اس میں بھی رسول اللہ ﷺ کے ایک غیر معمولی قسم کے سجدے کا ذکر ہے ، اس کے آخر میں ہے کہ آپ ﷺ نے سجدے سے اُٹھ کر مجھے بتایا کہ : " إِنَّ جِبْرَئِيْلَ اَتَانِىْ فَقَالَ مَنْ صَلَّى عَلَيْكَ مِنْ اُمَّتِكَ صَلَاةً صَلَّى الله عَلَيْهِ عَشْرًا، وَرُفِعَهُ بِهَا عَشْرَ دَرَجَاتٍ " (معجم اوسط للطبرانى وسنن سعيد بن منصور) جبرئیلؑ میرے پاس آئے اور انہوں نے یہ پیغٖام پہنچایا کہ تمہارا جو اُمتی تم پر ایک صلوٰۃ بھیجے گا اللہ تعالیٰ اس پر دس صلوٰتیں بھیجے گا اور اس کے دس درجے بلند فرمائے گا ۔ ان سب حدیثوں کا مقصد و مدعا ہم امتیوں کو یہی بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے صلوٰۃ و سلام کا تمغہ اور اس کی بے انتہا عنایتیں اور رحمتیں حاصل کرنے کا ایک کامیاب اور بہترین ذریعہ خلوص قلب سے رسول اللہ ﷺ پر صلوٰۃ و سلام بھیجنا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ایک دفعہ کے صلوٰۃ و سلام کے صلہ میں دس دفعہ صلوٰۃ و سلام بھیجتا ہے دس درجے بلند فرماتا ہے ، نامہ اعمال میں سے دس گناہ محو کر دئیے اور مٹا دئیے جاتے ہیں اور دس نیکیاں لکھا دی جاتی ہیں ۔ مثلاً اگر کوئی بندہ رسول اللہ ﷺپر روزانہ صرف سو دفعہ درودِ پاک پڑھتا ہے تو ان احادیث کی بشارت کے مطابق (جو ایک دو نہیں بلکہ بہت سے صحابہ کرامؓ (1) سے صحاح اور سنن و مسانید کی قریبا سب ہی کتابوں میں قابلِ اعتماد سندوں کے ساتھ مروی ہیں) اس پر اللہ تعالیٰ ایک ہزار صلوٰتیں بھیجتا ہے ، یعنی رحمتیں اور نوازشیں فرماتا ہے ، اس کے مرتبہ میں ایک ہزار درجے ترقی دی جاتی ہے ، اس کے اعمال نامہ سے ایک ہزار گناہ محو کئے جاتے ہیں اور ایک ہزار نیکیاں لکھی جاتی ہیں ۔ اللہ اکبر ۔ کتنا ارزاں اور نفع بخش سودا ہے ۔ اور کتنے خاسر اور بےنصیب ہیں وہ لوگ جنہوں نے اس سعادت اور کمائی سے خود کو محروم کر رکھا ہے ۔ اللہ تعالیٰ یقین نصیب فرمائے اور عمل کی توفیق دے ۔
آپ ﷺ کے ذِکر کے وقت بھی درود سے غفلت کرنے والوں کی محرومی اور ہلاکت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ذلیل و خوار ہو وہ آدمی جس کے سامنے میرا ذکر آئے اور وہ اس وقت بھی مجھ پر صلوٰۃ یعنی درود نہ بھیجے ، اور اس طرح ذلیل و خوار ہو وہ آدمی جس کے لئے رمضان (رحمت و مغفرت والا) مہینہ آئے اور اس کے گزرنے سے پہلے اس کی مغفرت کا فیصلہ نہ ہو جائے (یعنی رمضان کا مبارک مہینہ بھی وہ غفلت و خدا فراموشی میں گزار دے اور توبہ و استغفار کر کے اپنی مغفرت کا فیصلہ نہ کرا لے) اور ذلیل و خوار ہو وہ آدمی جس کے ماں باپ یا دونوں میں سے کوئی ایک اس کے سامنے بڑھاپے کو پہنچیں اور وہ (ان کی خدمت کر کے) جنت کا استحقاق حاصل نہ کر لے ۔ (جامع ترمذی) تشریح اس حدیث میں تین قسم کے جن آدمیوں کے لئے ذلت و خواری کی بددعا ہے ان کا مشترک سنگین جرم یہ ہے کہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص عنایت اور رحمت و مغفرت حاصل کرنے کے بہترین مواقع فراہم کئے ، لیکن انہوں نے خدا کی رحمت و مغفرت کو حاصل کرنا ہی نہیں چاہا اور اس سے محروم رہنا ہی اپنے لئے پسند کیا ، بےشک وہ بدبخت ایسی ہی بددعا کے مستحق ہیں اور آگے درج ہونے والی حدیث سے معلوم ہو گا کہ ایسے محروموں کے لئے اللہ کے مقرب ترین فرشتے حضرت جبرئیل امینؑ نے بھی بڑی سخت بددعا کی ہے ، اللہ کی پناہ !
آپ ﷺ کے ذِکر کے وقت بھی درود سے غفلت کرنے والوں کی محرومی اور ہلاکت
حضرت کعب بن عجر انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے ہم لوگوں کو فرمایا : میرے پاس آ جاؤ ؟ ہم لوگ حاضر ہو گئے (آپ ﷺ کو جو کچھ ارشاد فرمانا تھا اس کے لئے آپ ﷺ منبر پر جانے لگے) جب منبر کے پہلے درجے پر آپ ﷺ نے قدم رکھا تو فرمایا : آمین ۔ پھر جب دوسرے درجے پر قدم رکھا تو پھر فرمایا : آمین ۔ اسی طرح جب تیسرے درجے پر قدم رکھا تو پھر فرمایا : آمین ۔ پھر جو کچھ آپ ﷺ کو فرمانا تھا جب اس سے فارغ ہو کر آپ ﷺ منبر سے نیچے اُتر آئے تو ہم لوگوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آج ہم نے آپ سے ایک ایسی چیز سنی جو ہم پہلے نہیں سنتے تھے (یعنی منبر کے ہر درجے پر قدم رکھتے وقت آج آپ آمین ۔ کہتے تھے ، یہ نئی بات تھی) آپ نے بتایا کہ : “جب میں منبر پر چڑھنے لگا تو جبرئیل امین آ گئے ۔ انہوں نے کہا کہ : “بَعُدَ مَنْ أَدْرَكَ رَمَضَانَ فَلَمْ يُغْفَرْ لَهُ” (تباہ و برباد ہو وہ محروم جو رمضان مبارک پائے اور اس میں بھی اس کی مغفرت کا فیصلہ نہ ہو) تو میں نے کہا آمین ۔ پھر جب میں نے منبر کے دوسرے درجے پر قدم رکھا تو انہوں نے کہا: “بَعُدَ مَنْ ذُكِرْتَ عِنْدَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْكَ” (تباہ و برباد ہو وہ بےتوفیق اور بےنصیب جس کے سامنے تمہارا ذکر آئے اور وہ اس وقت بھی تم پر درود نہ بھیجے) تو میں نے اس پر بھی کہا آمین ۔ پھر جب میں نے منبر کے تیسرے درجے پر قدم رکھا تو انہوں نے کہا: “بَعُدَ مَنْ أَدْرَكَ اَبَوَيْهِ الْكِبَرَ عِنْدَهُ أَوْ أَحَدُهُمَا، فلَمْ يُدْخِلِ الْجَنَّةَ” (تباہ و برباد ہو وہ بدبخت آدمی جس کے ماں باپ یا اُن دونوں میں سے ایک اس کے سامنے بوڑھے ہو جائیں ، اور وہ (اُن کی خدمت کر کے اور ان کو راضی کر کے) نت کا مستحق نہ ہو جائے) اس پر بھی میں نے کہا آمین ۔ (مستدرک حاکم) تشریح اس حدیث کا مضمون بھی قریب قریب ہی ہے جو اس سے پہلی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث کا تھا ، فرق اتنا ہے کہ اس میں اصل بددعا کرنے والے حضرت جبرئیل علیہ السلام ہیں اور رسول اللہ ﷺ نے ان کی ہر بددعا پر آمین کہا ہے ۔ حضرت جبرئیلؑ کی بددعا اور رسول اللہ ﷺ کے آمین کہنے کا یہی واقعہ الفاظ کے تھوڑے سے فرق کے ساتھ حضرت کعب بن عجرہ انصاری کے علاوہ حضرت ابن عباس ، حضرت جابر بن سمرہ ، حضرت مالک بن الحویرث اور عبداللہ بن الحارث رضی اللہ عنہم سے بھی حدیث کی مختلف کتابوں میں روایت کیا گیا ہے ۔ان میں سے بعض روایتوں میں یہ بھی ہے کہ حضرت جبرئیلؑ بددعا کرتے تھے اور رسول اللہ ﷺ سے مطالبہ کرتے تھے کہ آپ آمین کہئے تو آپ آمین کہتے تھے ۔ ان سب حدیثوں میں مذکورہ بالا تین قسم کے محروموں کے لئے رسول اللہ ﷺ اور حضرت جبرئیلؑ کی طرف سے سخت ترین بددعا کے انداز میں جس طرح انتہائی ناراضی اور بیزاری کا اظہار کیا گیا ہے ، یہ دراصل ان تینوں کوتاہیوں کے بارے میں سخت ترین انتباہ ہے ۔ نیز اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی محبوبیت کی وجہ سے فرشتوں کی دنیا اور ملاءِ اعلیٰ میں عظمت و محبوبیت کا وہ بلند ترین مقام حاصل ہے کہ جو شخص آپ کے حق کی ادائیگی کے معاملہ میں صرف اتنی کوتاہی اور غفلت کرے کہ آپ ﷺ کے ذکر کے وقت آپ ﷺ پر درود نہ بھیجے تو اس کے لئے سارے ملاءِ اعلیٰ کے امام اور نمائندے حضرت جبرئیل کے دل سے اتنی سخت بددعا نکلتی ہے اور وہ اس پر رسول اللہ ﷺ سے بھی آمین کہلواتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اس قسم کی ہر تقصیر اور کوتاہی سے محفوظ رکھے ، اور آنحضرتﷺ کی حق شناسی اور حق کی ادائیگی کی توفیق دے ۔ ان ہی احادیث کی بناء پر فقہا نے یہ رائے قائم کی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کا ذِکر آئے تو آپ ﷺ پر درود بھیجنا ذِکر کرنے والے پر بھی اور سننے والے پر بھی واجب ہے ، جیسا کہ پہلے ذِکر کیا جا چکا ہے ۔
آپ ﷺ کے ذِکر کے وقت بھی درود سے غفلت کرنے والوں کی محرومی اور ہلاکت
حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اصل بخیل اور کنجوس وہ آدمی ہے جس کے سامنے میرا ذِکر آئے اور وہ (ذرا سی زبان ہلا کے) مجھ پر درود بھی نہ بھیجے ۔ (جامع ترمذی) تشریح مطلب یہ ہے کہ عام طور پر سے بخیل ایسے آدمی کو سمجھا جاتا ہے جو دولت کے خرچ کرنے میں بخل کرے ، لیکن اس سے بھی بڑا بخیل اور بہت بڑا بخیل وہ آدمی ہے جس کے سامنے میرا ذکر آئے اور وہ زبان سے درود کے دو کلمے کہنے میں بھی بخل کرے ۔ حالانکہ آپ ﷺ نے امت کے لئے وہ کیا ہے اور امت کو آپ کے ہاتھوں سے وہ دولتِ عظمیٰ ملی ہے کہ اگر ہر اُمتی اپنی جان بھی آپ ﷺ کے لئے قربان کر دے تو حق ادا نہ ہو سکے گا ۔ ؎ مرحبا اے پیک مشتاقاں بدہ پیغامِ دوست تاکنم جاں اَز سرِ رغبت فدائے نامِ دوست
مسلمانوں کی کوئی نشست ذِکر اللہ اور صلوٰۃ علی النبی ﷺ سے خالی نہ ہونی چاہئے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو لوگ کہیں بیٹھے اور انہوں نے اس نشست میں نہ اللہ کو یاد کیا اور نہ اپنے نبیﷺ پر درود بھیجا (یعنی ان کی وہ مجلس اور نشست ذِکر اللہ اور صلوٰۃ علی النبیﷺ سے بالکل خالی رہی) تو قیامت میں یہ اُن کے لئے حسرت و خسران کا باعث ہو گی ۔ پھر چاہے اللہ ان کو عذاب دے اور چاہے معاف فرما دے اور بخش دے ۔ (جامع ترمذی) تشریح معلوم ہوا کہ مسلمان کی کوئی نشست اور مجلس ایسی نہ ہونی چاہئے جو اللہ کے ذکر سے اور رسول پاکﷺ پر درود و سلام سے خالی رہے ۔ اگر زندگی میں ایک نشست بھی ایسی ہوئی تو قیامت میں اس پر باز پرس ہو گی ۔ اور اس وقت سخت حسرت اور پشیمانی ہو گی پھر چاہے اللہ کی طرف سے معافی مل جائے یا سزا دی جائے ۔ یہی مضمون قریب قریب ان ہی الفاظ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ حضرت ابو سعید خدری، حضرت ابو امامہ باہلی اور حضرت واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہم سے بھی حدیث کی مختلف کتابوں میں مروی ہے ۔
درود شریف کی کثرت قیامت میں حضور ﷺ کے خصوصی قُرب کا وسیلہ
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن مجھ سے قریب ترین اور مجھ پر زیادہ حق رکھنے والا میرا وہ امتی ہو گا جو مجھ پر زیادہ صلوٰۃ بھیجنے والا ہو گا ۔ (جامع ترمذی) تشریح مطلب یہ ہے کہ ایمان اور ایمان والی زندگی کی بنیادی شرط کے ساتھ میرا جو امتی مجھ پر زیادہ سے زیادہ صلوٰۃ و سلام بھیجے گا ، اس کو قیامت میں میرا خصوصی قرب اور خاص تعلق حاصل ہو گا ۔ اللہ تعالیٰ یہ دولت و سعادت حاصل کرنے کی توفیق دے ۔
درود شریف کی کثرت قیامت میں حضور ﷺ کے خصوصی قُرب کا وسیلہ
حضرت رویفع بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرا جو امتی مجھ پر صلوٰۃ بھیجے اور ساتھ ہی یہ دعا کرے کہ : “اللَّهُمَّ أَنْزِلْهُ الْمَقْعَدَ الْمُقَرَّبَ عِنْدَكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ” (اے اللہ ! ان کو یعنی اپنے نبی محمدﷺ کو قیامت کے دن اپنے قریب کی نشست گاہ (کرسی) عطا فرما) اس کے لئے میری شفاعت واجب ہو گی ۔ (مسند احمد) تشریح اس حدیث کو طبرانی نے بھی معجم کبیر میں روایت کیا ہے اور اس کے یہ الفاظ ہیں : “اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَنْزِلْهُ الْمَقْعَدَ الْمُقَرَّبَ عِنْدَكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَجَبَتْ لَهُ شَفَاعَتِي” اس میں صلوٰۃ اور دعا کے پورے الفاظ آ گئے ہیں اور بہت مختصر ہیں ۔ یوں تو رسول اللہ ﷺ اپنے سب ہی امتیوں کی ان شاء اللہ شفاعت فرمائیں گے ، لیکن جو اہلِ ایمان آپ ﷺ پر ان الفاظ میں درود بھیجیں اور اللہ تعالیٰ سے آپ کے لئے یہ دعا کریں ۔ ان کی شفاعت کا آپ ﷺ اپنے پر خصوصی حق سمجھیں گے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان کی سفارش اُمید ہے کہ اہتمام سے فرمائیں گے ۔
اگر کوئی اپنے مقصد کے لئے دعاؤں کی جگہ بھی درود ہی پڑھے تو اس کے سارے مسائل غیب سے حل ہوں گے
حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا : میں چاہتا ہوں کہ آجپﷺ پر درود زیادہ بھیجا کروں (یعنی اللہ تعالیٰ سے آپ ﷺ پر صلوٰۃ کی استدعا زیادہ کیا کروں) آپ ﷺ مجھے بتا دیجئے کہ اپنی دعا میں سے کتنا حصہ آپ ﷺ پر صلوٰۃ کے لئے مخصوص کر دوں ؟ (یعنی میں اپنے لئے دعا کرنے میں جو وقت صرف کیا کرتا ہوں اس میں سے کتنا آپ ﷺ پر صلوٰۃ کے لئے مخصوص کر دوں) آپ نے فرمایا : جتنا چاہو ۔ میں نے عرض کیا کہ : میں اس وقت کا چوتھائی حصہ آپ پر صلوٰۃ کے لئے مخصوص کر دوں گا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا جتنا تم چاہو اور اگر اور زیادہ کر دو گے تو تمہارے لئے بہتر ہی ہو گا ۔ میں نے عرض کیا کہ : تو پھر میں آدھا وقت اس کے لئے مخصوص کرتا ہوں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا جتنا چاہو اور اگر اور زیادہ کرو گے تو تمہارے لئے بہتر ہی ہو گا ۔ میں نے عرض کیا کہ : تو پھر میں اس میں سے دو تہائی وقت آپ ﷺ پر صلوٰۃ کے لئے مخصوص کرتا ہوں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا جتنا تم چاہو کر دو ، اور اگر زیادہ کر دو گے تو تمہارے لئے خیر ہی کا باعث ہو گا ۔ میں نے عرض کیا: پھر تو میں اپنی دعا کا سارا ہی وقت آپ پر صلوٰۃکے لئے مخصوص کرتا ہوں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا اگر تم ایسا کرو گے تو تمہاری ساری فکروں اور ضرورتوں کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کفایت کی جائے گی (یعنی تمہارے سارے دینی و دنیاوی مہمات غیب سے انجام پائیں گے) اور تمہارے گناہ و قصور معاف کر دئیے جائیں گے ۔ (جامع ترمذی) تشریح حدیث کا مطلب سمجھنے کے لئے جتنی تشریح کی ضرورت تھی وہ ترجمہ میں کر دی گئی ہے ۔ عام طور سے شارحین نے لکھا ہے کہ اس حدیث میں “صلوٰۃ” دعا کے معنی میں استعمال ہوا ہے ، جو اس کے اصل معنی ہیں ۔ حضرت ابی بن کعب کثیر الدعوات تھے ، اللہ تعالیٰ سے بہت دعائیں مانگا کرتے تھے ۔ ان کے دِل میں آیا کہ میں اللہ تعالیٰ سے جو دعائیں مانگتا ہوں اور جتنا وقت اس میں صرف کرتا ہوں اس میں سے کچھ وقت رسول اللہ ﷺ پر صلوٰۃ کے لئے (یعنی اللہ تعالیٰ سے آپ کے واسطے مانگنے کے لئے) مخصوص کر دوں ۔ اس بارے میں انہوں نے خود حضور ﷺ سے دریافت کیا کہ میں کتنا وقت اس کے لئے مخصوص کر دوں ۔ آپ ﷺ نے اپنی طرف سے وقت کی کوئی تحدید و تعین مناسب نہیں سمجھی ، بلکہ ان ہی کی رائے پر چھوڑ دیا ، اور یہ اشارہ فرما دیا کہ اس کے لئے جتنا بھی زیادہ وقت دو گے تمہارے لئے بہتر ہی ہو گا ۔ آخر میں انہوں نے طے کیا کہ میں سارا وقت جس میں اپنے لئے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتا ہوں ، رسول اللہ ﷺ پر صلوٰۃ بھیجنے ہی میں یعنی اللہ تعالیٰ سے آپ ﷺ کے لئے مانگنے میں صرف کروں گا ۔ اُن کے اس فیصلہ پر رسول اللہ ﷺ نے بشارت سنائی کہ اگر تم ایسا کرو گے تو تمہارے وہ سارے مسائل و مہمات جن کے لئے تم دعائیں کرتے ہو اللہ تعالیٰ کے کرم سے آپ سے آپ حل ہوں گے ، اور تم سے جو گناہ و قصور ہوئے ہوں گے وہ بھی ختم کر دئیے جائیں گے ، اُن پر کوئی مواخذہ نہ ہو گا ۔ “معارف الحدیث” کی اسی جلد میں تلاوتِ قرآن مجید کے فضائل کے بیان میں وہ حدیث قدسی گزر چکی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد نقل فرمایا ہے : “مَنْ شَغَلَهُ الْقُرْآنُ عَنْ ذِكْرِي وَمَسْأَلَتِي أَعْطَيْتُهُ أَفْضَلَ مَا أُعْطِي السَّائِلِينَ” جس کا مطلب یہ ہے کہ جو بندہ تلاوتِ قرآن میں اتنا مشغول رہے کہ اس کے علاوہ اللہ کے ذکر کے لئے اور اپنے مقاصد کے واسطے دعا کرنے کے لئے اسے وقت ہی نہ ملے ، تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنی طرف سے اس سے بھی زیادہ اور بہتر دے گا جتنا دعا کرنے والوں اور مانگنے والوں کو دیتا ہے ۔ جس طرح اس حدیث میں اُن بندوں کے لئے جو تلاوتِ قرآن میں اپنا سارا وقت صرف کر دیں ، اور بس اسی کو اپنا وظیفہ بنا لیں ، اللہ تعالیٰ کی اس خاص عنایت و نوازش کا ذکر فرمایا گیا ہے کہ وہ ان کو دعائیں کرنے والوں اور مانگنے والوں سے بھی زیادہ اور بہتر عطا فرمائے گا ۔ اسی طرح حضرت ابی بن کعب والی اس زیرِ تشریح حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے لئے وقف کر دیں ، اور اپنے ذاتی مسائل و مقاصد کے لئے دعاؤں کی جگہ بھی بس آپ ﷺ پر صلوٰۃ بھیجیں ، بتایا ہے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کا یہ خاص الخاس کرم ہو گا کہ ان کے مسائل و مہمات غیب سے حل کئے جائیں گے اور ان کے گناہ دُھو ڈالے جائیں گے ۔ اس کا راز یہ ہے کہ جس قرآن مجید کی تلاوت سے خاص شغف اور بس اسی کو اپنا وؓظیفہ بنا لینا اللہ کی مقدس کتاب پر ایمان اور اس سے محبت و تعلق کی خاص نشانی ہے ، اور اس لئے ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے خاص الخاص فضل کے مستحق ہیں ۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ پر صلوٰۃ و سلام سے ایسا شغف کہ اپنے ذاتی مقاصد و مسائل کے لئے دعا کی جگہ بھی بس آپ ﷺ پر صلوٰۃ بھیجی جائے ، اور اپنے لئے کچھ مانگنے کی جگہ بس آپ ﷺ ہی کے لئے خدا سے مانگا جائے ۔ اللہ کے محبوب رسول ﷺ پر صادق ایمان اور سچے ایمانی تعلق اور قلبی محبت کی علامت ہے اور ایسے مخلص بندے بھی اس کے مستحق ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے سارے مسائل اپنی رحمت سے بِلا اُن کے مانگے حل فرمائے ۔ علاوہ ازیں وہ احادیث ابھی گزر چکی ہیں جن میں بیان فرمایا گیا ہے کہ جو بندہ رسول اللہ ﷺ پر ایک صلوٰۃ بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر دس صلوٰتیں بھیجی جاتی ہیں ۔ اس کے اعمال نامے میں دس نیکیاں درج کی جاتی ہیں ، دس گناہ مِٹا دئیے جاتے ہیں اور دس درجے بلند کر دئیے جاتے ہیں ۔ ذرا غور کیا جائے جس بندے کا حال یہ ہو کہ وہ اپنی ذاتی دعاؤں کی جگہ بھی بس رسول اللہ ﷺ پر صلوٰۃ بھیجے ، اللہ سے اپنے لئے کچھ بھی نہ مانگے ، صرف حضور ﷺ کے لئے صلوٰۃ کی استدعا کرے ، اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے صلوٰۃ و برکات اور رحمتوں عنایتوں کی کیسی موسلادھار بارش ہو گی ، جس کا لازمی اثر اور انجام یہی ہو گ کہ اللہ کی رحمت بِلا مانگے اس کی چاہتیں اور ضرورتیں پوری کرے گی ، اور گناہوں کے اثرات سے وہ بالکل پاک صاف کر دیا جائے گا ۔ اللہ تعالیٰ ان حقائق کا یقین اور عمل نصیب فرمائے ۔
درود شریف دُعا کی قبولیت کا وسیلہ
حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا : دعا آسمان اور زمین کے درمیان ہی رکی رہتی ہے اوپر نہیں جا سکتی جب تک کہ نبی پاکﷺ پر درود نہ بھیجا جائے ۔ (جامع ترمذی) تشریح وہ حدیث “آداب دعا” کے ذیل میں (صفحہ ۹۹پر) گزر چکی ہے ۔ جس میں ہدایت فرمائی گئی ہے کہ دُعا کرنے والے کو چاہئے کہ پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کرے اور رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجے ، اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور میں اپنی حاجت عرج کرے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ دعا کے بعد بھی رسول اللہ ﷺ پر صلوٰۃ بھیجنی چاہئے ، وہ دعا کی قبولیت کا خاص وسیلہ ہے ۔ “حصن حصین” میں شیخ ابو سلیمان دارانیؒ سے نقل کیا گیا ہے انہوں نے فرمایا کہ درود شریف (جو رسول اللہ ﷺ کے حق مین ایک اعلیٰ و اشرف دعا ہے) وہ تو اللہ تعالیٰ ضرور ہی قبول فرماتا ہے ، پھر جب بندہ اپنی دعا سے پہلے بھی اللہ تعالیٰ سے حضور ﷺ کے حق میں دعا کرے اور اس کے بعد بھی دعا کرے تو اس کے کرم سے یہ بہت ہی بعید ہے کہ وہ اول و آخر کی دعائیں تو قبول کر لے اور درمیان کی اس بےچارے کی دعا رد کر دے ، اس لئے پوری امید رکھنی چاہئے کہ جس دعا کے اول و آخر رسول اللہ ﷺ پر صلوٰۃ بھیجی جائے گی وہ ان شاء اللہ ضرور قبول ہو گی ۔ مندرجہ بالا روایت میں اس کا ذکر نہیں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بات (جو انہوں نے دعا کی قبولیت کے بارے میں فرمائی) رسول اللہ ﷺ سے سنی تھی ، لیکن چونکہ یہ ایسی بات ہے کہ کوئی شخص اپنی رائے اور فہم سے ایسا دعویٰ نہیں کر سکتا ، بلکہ اللہ کے پیغمبر ﷺ سے سُن کے ہی ایسی بات کہی جا سکتی ہے ، اس لئے محدثین کے مسلمہ اصول کے مطابق یہ روایت حدیث مرفوع ہی کے حکم میں ہے ۔
دنیا میں کہیں بھی درود بھیجا جائے ، رسول اللہ ﷺ کو پہنچتا ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے خود سنا ، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : تم اپنے گھروں کو قبریں نہ بنا لو ، اور میری قبر کو میلہ نہ بنا لینا ہاں مجھ پر صلوٰۃ بھیجا کرنا ، تم جہاں بھی ہو گے مجھے تمہاری صلوٰۃ پہنچے گی ۔ (سنن نسائی) تشریح اس حدیث میں تین ہدایتیں فرمائی گئی ہیں : پہلی یہ کہ : “اپنے گھروں کو قبر نہ بنا لو” ۔ اس کا مطلب عام طور سے شارحین نے یہ بیان کیا ہے کہ جس طرح قبروں میں مُردے ذِکر و عبادت نہیں کرتے ، اور قبریں ذکر و عبادت سے خالی رہتی ہیں ، تم اپنے گھروں کو ایسانہ بنا لو کہ وہ ذِکر و عبادت سے خالی رہیں ، بلکہ ان کو ذکر و عبادت سے معمور رکھو ۔ اس سے معلوم ہوا کہ جن گھروں میں اللہ کا ذکر اور اس کی عبادت نہ ہو وہ زندوں کے گھر نہیں ، بلکہ مُردوں کے قبرستان ہیں ۔ دوسری ہدایت یہ فرمائی گئی ہے کہ “میری قبر کو میلہ نہ بنا لینا” یعنی جس طرح سال کے کسی معین دن میں میلوں میں لوگ جمع ہوتے ہیں اس طرح میری قبر پر کوئی میلہ نہ لگایا جائے ۔ بزرگانِ دین کی قبروں پر عرسوں کے نام سے جو میلے ہوتے ہیں اُن سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اگر خدانخواستہ رسول اللہ ﷺ کی قبر شریف پر کوئی میلہ اس طرح کا ہوتا تو اس سے روح پاک کو کتنی شدید اذیت پہنچتی ۔ تیسری ہدایت یہ فرمائی گئی ہے کہ تم مشرق یا مغرب میں خشکی یا تری میں جہاں بھی ہو ، مجھ پر صلوٰۃ بھیجو ، وہ مجھے پہنچے گی ۔ یہی مضمون قریب قریب ان ہی الفاظ میں طبرانی نے اپنی سند سے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کیا ہے ، اس کے الفاظ ہیں : “حَيْثُمَا كُنْتُمْ فَصَلُّوا عَلَيَّ، فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ تَبْلُغُنِي” اللہ تعالیٰ نے جن بندوں کو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ قلبی تعلق کا کچھ حصہ عطا فرمایا ہے اُن کے لئے یہ کتنی بڑی بشارت اور تسلی کی بات ہے کہ خواہ وہ ہزاروں میل دور ہوں ، اُن کا صلوٰۃ و سلام آپ ﷺ کو پہنچتا ہے ۔ ؎ قرب جانی چو بودِ بُعد مکانی سہل اَست
دنیا میں کہیں بھی درود بھیجا جائے ، رسول اللہ ﷺ کو پہنچتا ہے
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : اللہ کے کچھ فرشتے ہیں جو دنیا میں چکر لگاتے رہتے ہیں اور میرے امتیوں کا سلام و صلوٰۃ مجھے پہنچاتے ہیں ۔ (سنن نسائی ، مسند دارمی) تشریح ایک دوسری حدیث میں جس کو طبرانی وغیرہ نے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے ، یہ بھی تفصیل ہے کہ صلوٰۃ و سلام پہنچانے والا فرشتہ بھیجنے والے امتی کے ام کے ساتھ صلوٰۃ و سلام پہنچاتا ہے ، کہتا ہے : “يا محمد صلى عليك فلان كذا وكذا” (اے محمدﷺ ! تمہارے فلاں اُمتی نے تم پر اس طرح صلوٰۃ و سلام بھیجا ہے) اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی اسی حدیث کی بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ وہ فرشتہ صلوٰۃ و سلام بھیجنے والے امتی کا نام اس کی ولدیت کے ساتھ ذکر کرتا ہے یعنی حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کرتا ہے : “يا محمد صلى عليك فلان كذا وكذا” کتنی خوش قسمتی ہے اور کتنا اَرزاں سودا ہے کہ جو امتی اخلاص کے ساتھ صلوٰۃ و سلام عرض کرتا ہے ، وہ حضور ﷺ کی خدمت میں اس کے نام اور ولدیت کے ساتھ فرشتے کے ذریعہ پہنچتا ہے ، اور اس طرح آپ ﷺ کی بارگاہِ عالی میں اُس بےچارے مسکین اُمتی اور اس کے باپ کا ذِکر بھی آ جاتا ہے ۔ ؎ جاں میدہم در آرزو اے قاصد آخر باز گو در مجلس آں نازنیں حرفے کہ اَز ما مے رَوَد
دنیا میں کہیں بھی درود بھیجا جائے ، رسول اللہ ﷺ کو پہنچتا ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جب کوئی مجھ پر سلام بھیجے گا تو اللہ تعالیٰ میری روح مجھ پر واپس فرمائے گا تا کہ میں اس کے سلام کا جواب دے دوں ۔ (سنن ابی داؤد دعوات کبیر للبیہقی) تشریح حدیث کے ظاہری الفاظ “إِلَّا رَدَّ اللَّهُ عَلَيَّ رُوحِي” سے یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ آپ کی روحِ مبارک جسدِ اطہر سے الگ رہتی ہے ، جب کوئی سلام عرض کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کے جسد اطہر میں روحِ مبارک کو لوٹا دیتا ہے تا کہ آپ سلام کا جواب دے سکیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ بات کسی طرح صحیح نہیں ہو سکتی ، اگر اس کو تسلیم کر لیا جائے تو ماننا پڑے گا کہ ایک دن میں لاکھوں کروڑوں دفعہ آپ ﷺ کی روحِ مبارک جسمِ اقدس میں ڈالی اور نکالی جاتی ہے ، کیوں کہ کوئی دن ایسا نہیں ہوتا کہ آپ کے لاکھوں کروڑوں اُمتی آپ ﷺ پر صلوٰۃ و سلام نہ بھیجتے ہوں ۔ روضہ اقدس پر حاضر ہو کر سلام عرض کرنے والوں کا بھی ہر وقت تانتا بندھا رہتا ہے ، اور عام دنوں میں بھی ان کا شمار ہزاروں سے کم نہیں ہوتا ۔ علاوہ ازیں انبیاء علیہم السلام کا اپنی قبور میں زندہ ہونا ایک مسلم حقیقت ہے ۔ اگرچہ اس حیات کی نوعیت کے بارے میں علماء امت کی رائیں مختلف ہیں ، لیکن اتنی بات سب کے نزدیک مسلم اور دلائل شرعیہ سے ثابت ہے کہ انبیاء علیہم السلام اور خاص کر سید الانبیاء ﷺ کو اپنی قبور میں حیات حاصل ہے اس لئے حدیث کا یہ مطلب کسی طرح نہیں ہو سکتا ہے کہ آپ ﷺ کا جسدِ اطہر روح سے خالی رہتا ہے اور جب کوئی سلام عرض کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ جواب دلوانے کے لئے اس میں روح ڈال دیتا ہے ۔ اس بناء پر اکثر شارحین نے “رد روح” کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ قبرِ مبارک میں آپ ﷺ کی روحِ پاک کی تمام تر توجہ دوسرے عالم کی طرف اور اللہ تعالیٰ کی جمالی و جلالی تجلیات کے مشاہدہ میں مصروف رہتی ہے (اور یہ بات بالکل قرین قیاس ہے) پھر جب کوئی اُمتی سلام عرض کرتا ہے اور وہ فرشتہ کے ذریعہ یا براہ راست آپ ﷺ تک پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے اذن سے آپ ﷺ کی روح اس طرف بھی متوجہ ہوتی ہے اور آپ ﷺ سلام کا جواب دیتے ہین ، بس اس روحانی توجہ و التفات کو “رد روح” سے تعبیر فرمایا گیا ہے ۔ عاجز راقم السطور عرض کرتا ہے کہ اس بات کو وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو عالمِ برزخ کے معاملات و احوال سے کچھ مناسبت رکھتے ہوں ۔ اللہ تعالیٰ ان حقائق کی معرفت نصیب فرمائے ۔ اس حدیث کا خاص پیغام یہ ہے کہ جو امتی بھی اخلاصِ قلب سے آپ ﷺ پر سلام بھیجتا ہے ، آپ ﷺ عادی اور سرسری طور پر صرف زبان سے نہیں بلکہ روح اور قلب سے متوجہ ہو کر اس کے سلام کا جواب عنایت فرماتے ہیں ۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر عمر بھر کے صلوٰۃ و سلام کا کچھ بھی اجر و ثواب نہ ملے صرف آپ ﷺ کا جواب مل جائے تو سب کچھ مل گیا ۔ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ
دنیا میں کہیں بھی درود بھیجا جائے ، رسول اللہ ﷺ کو پہنچتا ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو آدمی میری قبر کے پاس مجھ پر درود بھیجے گا (یا سلام عرض کرے گا) وہ میں خود سنوں گا ، اور جو کہیں دور سے بھیجے گا تو وہ مجھے پہنچایا جائے گا ۔ (شعب الایمان للبیہقی) تشریح اس حدیث سے یہ تفصیل معلوم ہو گئی کہ فرشتوں کے ذریعہ آپ ﷺ کو صرف وہی درود و سلام پہنچتا ہے جو کوئی دور سے بھیجے ، لیکن اللہ تعالیٰ جن کو قبرِ مبارک کے پا پہنچا دے اور وہ وہاں حاضر ہو کر صلوٰۃ و سلام عرض کریں تو آپ ﷺ اس کو بنفسِ نفیس سنتے ہین ، اور جیسا کہ ابھی معلوم ہو چکا ہے ہر ایک کو جواب بھی عنایت فرماتے ہیں ۔ کتنے خوش نصیب ہیں وہ بندے جو روزان سینکڑوں یا ہزاروں بار صلوٰۃ و سلام عرض کرتے ہیں اور آپ ﷺ کا جواب پاتے ہیں ۔ حق یہ ہے کہ اگر ساری عمر کے صلوٰۃ و سلام کا ایک ہی دفعہ جواب مل جائے تو جن کو محبت کا کوئی ذرہ نصیب ہے اُن کے لئے وہی دو جہاں کی دولت سے زیادہ ہے ۔ کسی محبّ نے کہا ہے ۔ ؎ بہر سلام مکن رنجہ دَر جواب آں لب کہ صد سلام مرا بس یکے جواب از تو اللهُمَّ صَلِّ عَلَى سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ وَآلِهِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلِّمْ كَمَا تُحِبُّ وَتَرْضَى عَدَدَ مَا تُحِبُّ وَتَرْضَى
درود شریف کے خاص کلمات
مشہور جلیل القدر تابعی عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے روایت ہے بیان کرتے ہیں کہ میری ملاقات کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے ہوئی (جو اصحاب بیعت رضوان میں سے ہیں) اُنہوں نے مجھ سے فرمایا میں تمہیں ایک خاص تحفہ پیش کروں (یعنی ایک بیش بہا حدیث سناؤں) جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے ، میں نے عرض کیا مجھے وہ تحفہ ضرور دیجئے ! انہوں نے بتایا کہ ہم لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کرتے ہوئے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ تو ہم کو بتا دیا کہ ہم آپ ﷺ پر سلام کس طرح بھیجا کریں (یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ نے ہم کو بتا دیا ہے کہ ہم تشہد میں “السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ” کہہ کر آپ ﷺ پر سلام بھیجا کریں) اب آپ ہمیں یہ بھی بتا دیجئے کہ ہم آپ پر صلوٰۃ (درود) کیسے بھیجا کریں ، آپ ﷺ نے فرمایا یوں کہا کرو : اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ اے اللہ ! اپنی خاص نوازش اور عنایت و رحمت فرما حضرت محمدﷺ پر اور حضرت محمد ﷺ کے گھر والوں پر جیسے کہ تو نے نوازش اور عنایت و رحمت فرمائی حضرت ابراہیم پر اور حضرت ابراہیم کے گھر والوں پر ، بےشک تو حمد و ستائش کا سزاوار اور عظمت و بزرگی والا ہے ۔ اے اللہ ! خاص برکتیں نازل فرما حضرت حمدﷺ پر اور حضرت محمد ﷺ کے گھر والوں پر جیسے کہ تو نے برکتیں نازل فرمائیں حضرت ابراہیم پر اور حضرت ابراہیم کے گھرانے والوں پر ، تو حمد و ستائش کا سزاوار اور عظمت و بزرگی والا ہے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولِ پاک ﷺ پر درود و سلام بھیجنے کا ہم بندوں کو حکم دیا اور بڑے مؤثر اور پیارے انداز میں حکم دیا ، اور خود رسول اللہ ﷺ نے مختلف پیرایوں میں اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے اس کے وہ برکات اور فضائل بیان فرمائے جو ناظرین کو مندرجہ سابق احادیث سے معلوم ہو چکے ہیں ۔ پھر صحابہ کرام کے دریافت کرنے پر رسول اللہ ﷺ نے درود و سلام کے خاص کلمات بھی تعلیم فرمائ ۔ اپنے امکان کی حد تک کتبِ حدیث کی پوری چھان بین کے بعد اس سلسلہ کی مستند روایات جمع کر کے ذیل میں درج کی جا رہی ہیں ۔ تشریح ..... حضرت کعب بن عجرہ نے عبدالرحمن ابن ابی لیلیٰ کو یہ حدیث جس طرح اور جس تمہید کے ساتھ سنائی اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ اس حدیث کو اور اس درود شریف کو کتنا عظیم اور کیسا بیش بہا تحفہ سمجھتے تھے ۔ اور طبری کی اسی حدیث کی روایت میں یہ بھی ہے کہ کعب بن عجرہ نے یہ حدیث عبدالرحمن ابن ابی لیلیٰ کو بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے سنائی تھی ۔ (1) اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے دل میں اس کی کتنی عظمت تھی ۔ اسی حدیث کی بیہقی کی روایت میں یہ بھی مذکور ہے کہ صلوٰۃ یعنی درود کے طریقہ کے بارے میں یہ سوال رسول اللہ ﷺ سے اس وقت کیا گیا جب سورہ احزاب کی یہ آیت نازل ہوئی (2) إِنَّ اللَّـهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا اس آیت میں صلوٰۃ و سلام کا جو حکم دیا گیا ہے اس کے بارے میں تفصیل سے پہلے لکھا جا چکا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سوال کے جواب میں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر صلوٰۃ و سلام بھیجنے کا ہم کو جو حکم دیا ہے اس کا کیا طریقہ ہے اور کس طرح ہم آپ ﷺ پر صلوٰۃ بھیجا کریں ؟ صلوٰۃ کے جو کلمات اس حدیث میں اور اس کے علاوہ بھی بہت سی دوسری حدیثوں میں تلقین فرمائے یعنی اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ الخ ان سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ پر ہمارے صلوٰۃ بھیجنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہم اللہ سے التجا اور استدعا کریں کہ وہ آپ ﷺ پر صلوٰۃ بھیجے اور برکتیں نازل فرمائے ۔ یہ اس لئے کہ ہم خود چونکہ محتاج و مفلس اور تہی مایہ ہیں ، ہرگز اس لائق نہیں ہیں کہ اپنے محسنِ اعظم اور اللہ کے نبی محترم ﷺ کی بارگاہ میں کچھ پیش کر سکیں ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے حضور میں استدعا اور التجا کرتے ہیں کہ وہ آپ ﷺ پر صلوٰۃ اور برکت بھیجے یعنی آپ ﷺ کی تشریف و تکریم آپ پر نوازش و عنایت ، رحمت و رأفت ، پیار دُلار میں اور مقبولیت کے درجات و مراتب میں اضافہ فرمائے اور آپ ﷺ کو اپنی خاص برکتوں سے نوازے ، نیز آپ ﷺ کے گھر والوں کے ساتھ بھی یہی معاملہ فرمائے ۔ استدعاء “صلوٰۃ” کے بعد “برکت” مانگنے کی حکمت صلوٰۃ کے بارے میں پہلے بقدرِ ضرورت کلام کیا جا چکا ہے اور بتایا جا چکا ہے کہ اس کے مفہوم میں بڑی وسعت ہے ۔ تشریف و تکریم ، مدح و ثنا ، رحمت و رأفت ، محبت و عطوفت ، رفع مراتب ، ارادہ خیر ، اعطاء خیر ، اور دعائے خیر سب ہی کو صلوٰۃ کا مفہوم حاوی ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی بندہ پر “برکت” ہونے کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ اس کے لئے بھرپور نوازش و عنایت اور خیر و نعمت کا اور اس کے دوام اور اس میں برابر اضافہ و ترقی کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے فیصلہ ہے ۔ بہرحال برکت کسی ایسی چیز کا نام نہیں ہے جس کو “صلوٰۃ” کا وسیع مفہوم حاوی نہ ہو ۔ اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے حضور میں رسول اللہ ﷺ کے لئے صلوٰۃ کی استدعا کرنے کے بعد آپ ﷺ کے واسطے برکت یا رحمت کی دعا اور التجا کرنے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی ، لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں دعا اور سوال کے موقع پر یہی مستحسن ہے کہ مختلف الفاظ و عبارات میں بار بار عرض و معروض کی جائے ، اس سے بندہ کی شدید محتاجی اور صدقِ طلب کا اظہار ہوتا ہے اور سائل اور منگتا کے لئے یہی مناسب ہے ۔ اس لئے اس درود شریف میں رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کی آل کے لئے اللہ تعالیٰ سے صلوٰۃ کی استدعا کے بعد برکت کی التجا بھی کی گئی ہے اور بعض دوسری روایات میں (جو عنقریب درج ہوں گی) صلوٰۃ اور برکت کے بعد ترحم کا بھی سوال کیا گیا ہے ۔ دُرود شریف میں لفظ “آل” کا مطلب اس دُرود شریف میں “آل” کا لفظ چار دفعہ آیا ہے ، ہم نے اس کا ترجمہ “گھرانے والوں کا کیا ہے ۔ عربی زبان اور خاص کر قرآن حدیث کے استعمالات میں کسی شخص کی آل ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو ان لوگوں کے ساتھ خصوصی تعلق رکھتے ہوں ، خواہ یہ تعلق نسب اور رشتہ کا ہو ، جیسے اس کے بیوی بچے یا رفاقت اور عقیدت و محبت اور اتباع و اطاعت کا ، جیسے کہ اس کے مشن کے خاص ساتھی اور محبین و متبعین (1) اس لئے نفس لغت کے لحاظ سے یہاں آل کے دونوں معنی ہو سکتے ہیں ۔ لیکن اگلے ہی نمبر پر اسی مضمون کی حضرت ابو حمید ساعدی کی جو حدیث درج کی جا رہی ہے اس میں دُرود شریف کے جو الفاظ ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں “آل” سے “گھرانے والے” ہی مراد ہیں ۔ یعنی آپ ﷺ کی ازواجِ مطہرات اور آپ ﷺ کی نسل و اولاد ، اور جس طرح ان کو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خصوصی قرابت و جزئیت اور زندگی میں شرکت کا خاص شرف حاصل ہے (جو دوسرے حضرات کو حاصل نہیں ہے اگرچہ وہ درجہ میں ان سے افضل ہوں) اسی طرح یہ بھی ان کا ایک مخصوص شرف ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ان پر بھی درود و سلام بھیجا جاتا ہے ۔ اور اس سے ہرگز یہ لازم نہیں آتا کہ ازواجِ مطہرات وغیرہ جو لفظ “آل” کے مصداق ہیں ، امت میں سب سے افضل ہوں ، عنداللہ افضلیت کا مدار ایمان اور ایمان والے اعمال اور ایمانی کیفیات پر ہے جس کا جامع عنوان تقویٰ ہے ۔ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ اس کو بالکل یوں سمجھنا چاہئے کہ ہماری اس دنیا میں بھی جب کوئی مخلص محبّ اپنے کسی محبوب بزرگ کی خدمت میں کوئی خاص مرغوب تحفہ اور سوغات پیش کرتا ہے تو اس کے پیش نظر خود وہ بزرگ اور ان کے ذاتی تعلق کی بناء پر ان کے گھر والے ہوتے ہیں اور اس مخلص کی یہ خوشی ہوتی ہے کہ یہ تحفہ ان بزرگ کے ساتھ ان کے گھر والے یعنی اہل و عیال بھی استعمال کریں ، کسی کے ساتھ تعلق و محبت کا دراصل یہ فطری تقاضا ہے ۔ دُرود شریف بھی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک تحفہ اور سوغات ہے ، اس میں آپ ﷺ کے ساتھ ساتھ آپ کے خاص متعلقین یعنی اہل و عیال کو بھی شریک کرنا بلا شبہ آپ ﷺ کی محبت کا تقاضا ہے ، اور اس سے آپ ﷺ کے قلبِ مبارک کا بہت زیادہ خوش ہونا بھی ایک فطری بات ہے ۔ اس کی بنیاد پر افضلیت اور مفضولیت کی کلامی بحث کرنا کوئی خوش ذوقی کی بات نہیں ہے ۔ بہرحال اس عاجز کے نزدیک راجح یہی ہے کہ دُرود شریف میں آل محمدﷺ سے آپ کے گھر والے یعنی ازواجِ مطہرات اور ذریت مراد ہیں ، اور اسی طرح سے آل ابراہیم علیہ السلام سے حضرت ابراہیمؑ کے گھر والے ! قرآن مجید میں حضرت ابراہیمؑ کی زوجہ مطہرہ کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے ۔ رَحْمَتُ اللَّـهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ ۚ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ بلاشبہ آلِ ابراہیمؑ وہی ہیں جن کو اس آیت میں اہل البیت فرمایا گیا ہے ۔ دُرود شریف میں تشبیہ کی حقیقت اور نوعیت رسول اللہ ﷺ کے تلقین فرمائے ہوئے اس دُرود شریف میں اللہ تعالیٰ سے رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کی آل پر صلوٰۃ اور برکت نازل کرنے کی درخواست کرتے ہوئے عرض کیا گیا ہے کہ ایسی صلوٰۃ اور برکت نازل فرما جیسی کہ تو نے حضرت ابراہیمؑ اور اُن کی آل پر نازل فرمائی ۔ اس تشبیہ کے بارے میں ایک مشہور علمی اشکال ہے کہ تشبیہ میں مشبہ ، مشبہ بہ کے مقابلہ میں کمتر ہوتا ہے اور مشبہ بہ اعلیٰ اور برتر ہوتا ہے ۔ مثلاً ٹھنڈے پانی کو برف سے تشبیہ دی جاتی ہے تو پانی خواہ کتنا ہی ٹھنڈا ہو ، ٹھنڈک میں بہرحال برف سے کمتر ہوتا ہے اور برف میں اس سے زیادہ ٹھنڈک ہوتی ہے ۔ اس اُصول پر دُرود شریفکی مذکورہ بالا تشبیہ سے لازم آتا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ اور آلِ ابراہیمؑ پر نازل ہونے والی صلوٰۃ و برکات ان صلوٰۃ و برکات سے اعلیٰ اور افضل ہوں جن کی اس دُرود پاک میں رسول اللہ ﷺ اور آپ کی آل کے لئے استدعا اور التجا کی گئی ہے ۔ شارحین حدیث نے اس اشکال کے بہت سے جوابات دئیے ہیں جو فتح الباری وغیرہ میں دیکھے جا سکتے ہیں ۔ اس عاجز کے نزدیک سب سے زیادہ تسلی بخش جواب یہ ہے کہ تشبیہ کبھی صرف نوعیت کی تعین کے لئے بھی ہوتی ہے مثلاً ایک شخص کسی خاص قسم کے کپڑے کا ایک پرانا ٹکڑا لے کر کپڑے کی بڑی دکان پر جاتا ہے کہ مجھے ایسا کپڑا چاہئے ، حالانکہ جس ٹکڑے کو وہ نمونے کے طور پر دکھا رہا ہے اور جو مشبہ بہ ہے وہ ایک پرانا اور بےقیمت ٹکڑا ہے اور اسی قسم کا جو کپڑا وہ دکاندار سے چاہتا ہے وہ ظاہر ہے کہ نیا اور قیمتی ہو گا اور اس لحاظ سے نمونہ والے ٹکڑے سے بہتر ہو گا ۔ پس دُرود شریف میں تشبیہ اسی قسم کی ہے اور مطلب یہ ہے کہ جس خاص نوعیت کی صلوٰۃ و برکات سے سیدنا ابراہیمؑ و آل ابراہیمؑ کو نوازا گیا ، اسی نوعیت کی صلوٰۃ و برکات سیدنا محمد ﷺ و آلِ محمد پر نازل فرمائی جائیں ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو تمام نبیوں بلکہ ساری مخلوق میں یہ امتیازات حاصل ہیں کہ اللہ نے ان کو اپنا خلیل بنایا (وَاتَّخَذَ اللَّـهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا) ان کو امامتِ کبریٰ کے عظیم شرف سے مشرف اور سرفراز فرمایا (إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا) ان کو بیت اللہ کا بانی بنایا ۔ ان کے بعد سے قیامت تک کے لئے نبوت و رسالت کا سلسلہ اُن ہی کی نسل اور ان ہی کے اخلاف میں منحصر کر دیا گیا ۔ رسول اللہ ﷺ سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو سوا کسی پر بھی اللہ تعالیٰ کی یہ نوازشیں اور عنایتیں نہیں ہوئیں اور کسی کو بھی محبوبیت و مقبولیت کا یہ مقام عالی عطا نہیں ہوا ۔ پس دُرود شریف میں اللہ تعالیٰ سے یہی دعا اور التجا کی جاتی ہے کہ اسی قسم کی اور اسی نوع کی عنایتیں اور نوازشیں اپنے حبیب حضرت محمدﷺ اور ان کی آل پر بھی فرما اور محبوبیت و مقبولیت کا ویسا ہی مقام ان کو بھی عطا فرما ۔ الغرض یہ تشبیہ صرف نوعیت کی تعین اور وضاحت کے لئے جس میں بسا اوقات مشبہ ، مشبہ بہ کے مقابلہ میں اعلیٰ و برتر ہوتا ہے اور اس کی مثال وہی ہے جو اوپر کپڑے کی دی گئی ہے ۔ دُرود شریف کا اول و آخر اللَّهُمَّ ......... إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ دُرود شریف کو اللَّهُمَّ سے شروع کر کے اللہ تعالیٰ کے دو مبارک اور پاک ناموں حمید و مجید پر ختم کیا گیا ہے ۔ بعض جلیل القدر ائمہ سلف سے نقل کیا گیا ہے کہ اللَّهُمَّ اللہ تعالیٰ کے تمام اسماء حسنیٰ کے قائم مقام ہے ۔ اور اس کے ذریعہ دعا کرنا ایسا ہے جیسا کہ تمام اسماء حسنیٰ کے ذریعہ دعا کی جائے ۔ “جلاء الافہام” میں اس پر بڑی نفیس فاضلانہ بحث کی ہے جو اہلِ علم کے لئے قابلِ دید ہے ۔ انہوں نے بتایا ہے کہ یہ معنی اللَّهُمَّ کی میم مشدد سے پیدا ہوتے ہیں اور اس کو فلسفہ لغت سے ثابت کیا ہے ۔ پھر اس دعوے کی تائید میں چند ائمہ سلف کے اقوال بھی نقل کئے ہیں (1) اور حمید و مجید اللہ تعالیٰ کے یہ دو مبارک نام اس کی تمام صفاتِ جلال و جمال کے آئینہ دار ہیں حمید وہ ہے جس کی ذات میں سارے وہ محاسن و کمالات ہوں جن کی بناء پر وہ ہر ایک کی حمد و ستائش کا مستحق و سزاوار ہو ۔ اور مجید وہ ہے جس کو ذاتی جلال و جبروت اور عظمت کبریائی بدرجہ کمال حاصل ہو ۔ اس بناء پر إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ کا مطلب یہ ہوا کہ اے اللہ تو تمام صفاتِ جمال و کمال اور شانِ جلال کا جامع ہے اس لئے سیدنا محمدﷺ اور آلِ محمد پر صلوٰۃ اور برکت بھیجنے کی تجھ ہی سے استدعا ہے ۔ قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور اُن کے گھر والوں پر اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت و برکت کا جہاں ذکر کیا گیا ہو وہاں بھی اللہ کے ان دونوں ناموں کی اسی خصوصیت اور امتیاز کی وجہ سے انہی کو بالکل اسی طرح خاتمہ کلام بنایا گیا ہے ۔ سورہ ھود میں فرشتوں کی زبانی فرمایا گیا ہے رَحْمَتُ اللَّـهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ ۚ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ الغرض اللَّهُمَّ سے درود شریف کا آغاز اور إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ پر اس کا اختتام اپنے اندر بڑی معنویت رکھتا ہے اور ان دونوں کلموں کی اس معنویت کا لحاظ کرنے سے درود شریف کا کیف بےحد بڑھ جاتا ہے ۔ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَّعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيْدٌ اس دُرود شریف کے الفاظ کی روایتی حیثیت حضرت کعب بن عجرہ کی روایت سے دُرود شریف کے جو الفاظ اوپر نقل کئے گئے ہیں وہ امام بخاریؒ نے صحیح بخاری کی کتاب الانبیاء میں روایت کئے ہیں (جلد اول ص ۴۴۷) اس کے علاوہ کم سے کم دو جگہ اور یہ حدیث امام بخاریؒ نے روایت کی ہے ۔ ایک سورہ احزاب کی تفسیر میں (ص ۷۰۸، ج ۲)اور دوسرے کتاب الدعوات میں ص ۹۴۱ ، ج : ۲) ان دونوں جگہوں پر دُرود شریف میں “كَمَا صَلَّيْتَ” اور “كَمَا بَارَكْتَ” کے بعد “عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ” کی جگہ صرف “عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ” روایت کیا ہے اور صحیح مسلم کی روایت میں بھی اسی طرح ہے لیکن حافظ ابنِ حجرؒ نے اس حدیث کی صحیحین اور غیر صحیحین کی تمام روایات کو سامنے رکھتے ہوئے فتح الباری میں اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ کعب بن عجرہ کی روایت میں دُرود شریف کے پورے الفاظ یہی ہیں جو یہاں نقل کئے گئے ہیں اور جن روایات میں صرف “عَلَى إِبْرَاهِيمَ” یا “عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ” وارد ہوا ہے وہاں بعض راویوں کے حافظہ کے فرق سے ایسا ہو گیا ہے ۔ (1) (فتح الباری جزء ۲۶ ، ص ۵۱) حضرت کعب بن عجرہ کے علاوہ اور بھی متعدد صحابہ کرام سے قریب قریب یہی مضمون اور درود شریف کے قریباً یہی الفاظ کتبِ حدیث میں روایت کئے گئے ہیں ۔ وہ تمام روایات آگے پیش کی جا رہی ہیں ۔
درود شریف کے خاص کلمات
ضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا گیا کہ حضرت ! ہم آپ پر صلوٰۃ (درود) کس طرح پڑھا کریں ؟ آپ صﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ سے یوں عرض کیا کرو ۔ “اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ” اے اللہ ! اپنی خاص نوازش اور عنایت و رحمت فرما حضرت محمدﷺ پر اور آپ کی (پاک) بیبیوں اور آپ ﷺ کی نسل پر جیسے کہ آپ نے نوازش اور عنایت و رحمت فرمائی آلِ ابراہیم پر ، اور خاص برکت نازل فرما حضرت محمدﷺ پر اور آپ ﷺکی (پاک) بیبیوں اور آپ ﷺ کی نسل پر جیسے کہ آپ نے برکتیں نازل فرمائی آلِ ابراہیم پر ، اے اللہ تو ساری حمد و ستائش کا سزاوار ہے اور تیرے ہی لئے ساری عظمت و بڑائی ہے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں دُرود شریف کے جو الفاظ تلقین فرمائے گئے ہیں وہ کعب بن عجرہؓ والی پہلی حدیث سے کچھ مختلف ہیں ۔ پہلی حدیث میں “اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ” اور “اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ” فرمایا گیا تھا ، اور اس حدیث میں دونوں جگہ “وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ” کے بجائے “وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ” فرمایا گیا ہے ، اسی بناء پر اس عاجز نے پہلی حدیث کی تشریح میں ان حضرات کے قول کو راجح قرار دیا تھا جنہوں نے کہا ہے کہ دُرود شریف میں آلِ محمد سے مراد ازواجِ مطہرات اور آپ ﷺ کی ذریت طیبہ ہے ۔ ایک دوسرا خفیف لفظی فرق یہ بھی ہے کہ پہلی حدیث میں “كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ” اور “كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ” فرمایا گیا تھا اور اس حدیث میں دونوں جگہ صرف “عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ” ہے ۔ اور حضرت ابو حمید ساعدی کی اس روایت کے علاوہ دوسرے اکثر صحابہ کی حدیثوں میں بھی جو آگے درج ہوں گی ، اسی طرح صرف “عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ” وارد ہوا ہے ۔ لیکن جیسا کہ عرض کیا گیا یہ صرف لفظی فرق ہے ۔ اس سے معنی میں کوئی فرق نہیں آیا ۔ عربی محاورات میں جب کسی کا نام لے کر اس کی آل کا ذکر کیا جائے اور خود اس کا ذکر نہ کیا جائے تو وہ بھی اس میں شامل ہوتا ہے مثلاً قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے “ إِنَّ اللَّـهَ اصْطَفَىٰ آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ” (اللہ تعالیٰ نے دنیا کی ساری قوموں میں برگزیدہ کیا آدمؑ کو اور نوحؑ کو اور آل ابراہیم) کو ظاہر ہے کہ یایہاں آلِ ابراہیم میں کود حضرت ابراہیم بھی شامل ہیں ۔ اسی طرح “وَأَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ” اور “أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ” میں خود فرعون بھی شامل ہے ۔ بہرحال ان دونوں حدیثوں میں دُرود شریف کے جو کلمات وارد ہوئے ہیں ان میں خفیف سا فرق صرف الفاظ میں ہے ۔ اسی لئے علماء و فقہا نے تصریح کی ہے کہ ان میں سے ہر ایک دُرود نماز میں پڑھا جا سکتا ہے ۔ اور اسی طرح دوسرے صحابہ کرام کی روایتوں سے آئندہ درج ہونے والی حدیثوں میں دُرود شریف کے جو کلمات آ رہے ہیں جن میں الفاظ کی کچھ کمی بیشی ہے ، وہ سب بھی نماز میں پڑھے جا سکتے ہیں ۔
درود شریف کے خاص کلمات
حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم کچھ لوگ سعد بن عبادہ کی نشست گاہ میں بیٹھے ہوئے تھے ، وہیں رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے تو (حاضرین مجلس میں سے) بشیر بن سعد نے آپ ﷺ سے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو آپ پر صلوٰۃ بھیجنے کا حکم دیا ہے (ہمیں بتائیے کہ) ہم کس طرح آپ ﷺ پر صلوٰۃ بھیجا کریں ؟ حدیث کے راوی ابو مسعود انصاری کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کچھ دیر تک خاموش رہے اور آپ ﷺ نے بشیر بن سعد کے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا (جس سے ہمیں یہ شبہ ہو کہ شاید یہ سوال آپ کو اچھا نہیں لگا) یہاں تک کہ ہمارے دل میں آیا کہ کاش یہ سوال نہ کیا گیا ہوتا پھر کچھ دیر خاموشی کے بعد (اس سوال کا جواب دیتے ہوئے) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یوں کہا کرو : اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ فِي الْعَالَمِينَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، وَالسَّلَامُ كَمَا قَدْ عَلِمْتُمْ اے اللہ ! اپنی خاص نوازش اور عنایت و رحمت فرما حضرت محمدپر اور ان کے گھرانے والوں پر جس طرح تو نے نوازش و عنایت اور رحمت فرمائی حضرت ابراہیم کے گھرانے پر ، اور اپنی خاص برکتیں نازل فرما حضرت محمداور ان کے گھرانے پر ، جسطرح تونے برکتیں نازل فرمائیںحضرت ابراہیم کے گھرانے پر ، ساری حمد و ستائش کا سزاوار ہے اور تیرے ہی لئے ساری عظمت و بزرگی ہے اور سلام اس طرح جس طرح کہ تمہیں معلوم ہو چکا ہے ۔ (صحیح مسلم) تشریح حضرت ابو مسعود انصاری کی اس حدیث کی طبری کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ جب بشیر بن سعد نے آپ ﷺ سے سوال کی اکہ ہم آپ ﷺ پر کس طرح درود بھیجا کریں ؟ تو آپ ﷺ خاموش رہے یہاں تک کہ آپ ﷺ پر وحی آئی (فَسَكَتَ حَتَّى جَاءَهُ الْوَحْىُ) اس کے بعد آپ ﷺ نے مندرجہ بالا دُرود تلقین فرمایا ۔ اس اضافہ سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ آپ کی خاموشی وحی کے انتظار میں تھی اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ دُرود شریف کے کلمات آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تعلیم فرمائے گئے تھے ۔ اور مزید یہ بھی معلوم ہو گیا کہ دُرود کے بارے میں آپ ﷺ سے پہلی دفعہ سعد بن عبادہ کی مجلس ہی میں کیا گیا تھا جس کے جواب میں آپ ﷺ کو وحی کا انتظار کرنا پڑا ۔ دوسرے بعض صحابہ (کعب بن عجرہ اور ابو حمید ساعدی وغیرہ) کی روایات میں جو اسی طرح کے سوال کا ذکر ہے وہ یا تو اسی مجلس کے واقعہ کا بیان ہے یا مختلف حضرات نے مختلف موقعوں پر رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں سوال کیا تھا اور آپ ﷺ نے جواب میں ان کو دُرود شریف کے وہ کلمات تلقین فرمائے جو ان کی روایات میں وارد ہیں ۔ اکثر احادیث کے سیاق اور الفاظ و کلمات کے فرق سے اسی دوسرے احتمال کی تائید ہوتی ہے ۔ واللہ اعلم ۔ حضرت ابو سعید انصاری کی اس حدیث کی امام احمد اور ابن خزیمہ اور حاکم وغیرہ کی روایات میں ایک اضافہ یہ بھی ہے کہ بشیر بن سعد نے دُرود بھیجنے کے بارے میں سوال کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا تھا : كَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ اِذَا نَحْنُ صَلَّيْنَا عَلَيْكَ فِىْ صَلَاتِنَا جب ہم نماز میں آپ ﷺ پر درود بھیجیں تو کس طرح بھیجا کریں؟ اس سے معلوم ہوا کہ یہ سوال خاص طور سے نماز میں دُرود پڑھنے کے بارے میں کیا گیا تھا اور یہ دُرود ابراہیمی رسول اللہ ﷺ نے خصوصیت سے نماز میں پڑھنے کے لئے تلقین فرمایا ۔ حضرت ابو مسعود انصاریؓ کی اس روایت میں بھی ابو حمید ساعدی کی حدیث کی طرح “كَمَا صَلَّيْتَ” اور “كَمَا بَارَكْتَ” کے بعد “عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ” روایت کیا گیا ہے اور آخر میں “إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ” سے پہلے “فِى الْعَالَمِيْنَ” کا اضافہ بھی ہے ۔
درود شریف کے خاص کلمات
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ہم نے عرض کیا حضرت ! آپ پر سلام بھیجنے کا طریقہ تو ہم کو معلوم ہو گیا (یعنی تشہد کے ضمن میں بتا دیا گیا “السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ” اب ہمیں یہ بھی بتا دیا جائے کہ ہم آپ پر “صلوٰۃ” کس طرح بھیجا کریں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ سے یوں عرض کیا کرو : اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ وَرَسُولِكَ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَآلِ إِبْرَاهِيمَ (رواه البخارى) اے اللہ ! اپنی خاص عنایت و نوازش اور محبت و رحمت فرما اپنے خاص بندے اور رسول (حضرت) محمد پر ، جیسی تو نے نوازش و عنایت اور محبت و رحمت فرمائی (اپنے خلیل حضرت) ابراہیم پر ، اور خاص برکتیں نازل فرما حضرت محمد و آلِ محمد پر ، جس طرح تونے برکتیں نازل فرمائیں حضرت ابراہیم و آلِ ابراہیم پر ۔ (صحیح بخاری)
درود شریف کے خاص کلمات
حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ اے پیغمبرِ خدا ہم آپ ﷺ پر کس طرح صلوٰۃ بھیجا کریں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : یوں کہا کرو اے اللہ ! نوازش و عنایت اورمحبت و رحمت فرما محمد ﷺ پر جیسی نوازش و عنایت اور محبت و رحمت فرمائی تو نے ابراہیمؑ پر ، تو حمد و ستائش کا سزاوار ہے اور ہر طرح کی عظمت و بزرگی تیرے لئے ہے ۔ (سنن نسائی)
درود شریف کے خاص کلمات
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ہم لوگوں نے عرض کیا کہ حضرت آپ(ﷺ) پر سلام بھیجنے کا طریقہ تو ہمیں معلوم ہو چکا ہے ۔ اب بتا دیجئے کہ آپ(ﷺ) پر صلوٰۃ کس طرح بھیجی جائے ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ، اللہ کے حضور میں یوں عرض کیا کرو : «اللَّهُمَّ اجْعَلْ صَلَوَاتِكَ وَرَحْمَتَكَ وَبَرَكَاتِكَ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا جَعَلْتَهَا عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ» اے اللہ ! اپنی خاص نوازشیںو عنایتیںاوراپنی مخصوص رحمت نازل فرما حضرت محمد اور ان کے گھرانے والوں پر جیسے تو نے نازل فرمائیں حضرت ابراہیم پر ، تو ہر حمد و ستائش کا سزاوار ہے اور تیرے عظمت و کبریائی تیری ذاتی صفت ہے ۔ (مسند احمد)
درود شریف کے خاص کلمات
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جب تم مجھ پر صلوٰۃ بھیجو تو اس طرح کہا کرو “اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ” (مسند احمد ، صحیح ابن حبان ، سنن دار قطنی ، سنن بیہقی) (چونکہ دُرود پاک کے ان کلمات کا ترجمہ بار بار کیا جا چکا ہے اس لئے اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں سمجھی گئی)۔ تشریح حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے روایت کردہ اس دُرود میں رسول اللہ ﷺ کا نام پاک آپ کی امتیازی صفت اور خاص لقب “النبی الامی” کے اضافہ کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے ، قرآن مجید میں آپ ﷺ کی یہ صفت ایک خاص نشانی اور پہچان کے طور پر ذکر کی گئی ہے (الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ ..... الاعراف) اس آیت میں اشارہ ہے کہ تورات و انجیل میں آپ ﷺ کا ذکر اس صفت کے ساتھ کیا گیا تھا “امی” کے معنی ہیں “بے لکھے پڑھے” مطلب یہ ہے کہ جو علم و ہدایت آپ ﷺ لے کر آئے وہ آپ ﷺ نے کسی استاد یا کتاب سے حاصل نہیں کیا ہے ، بلکہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی تعلیم سے حاصل ہوا ہے ۔ لکھنے پڑھنے کے لحاظ سے آپ ﷺ بالکل ویسے ہی ہیں جیسے ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے تھے ۔ ظاہر ہے آپ ﷺ کی اس صفت اور اس لقب میں ایک خاص محبوبیت ہے اور اس چھوٹے سے لفظ میں آپ ﷺ کی نبوت و رسالت کی ایک بڑی روشن دلیل پیش کر دی گئی ہے ؎ نگارِ من کہ بمکتب نہ رفت و خط نہ نوشت بغمزہ مسئلہ آموز صد مدرس شُد
درود شریف کے خاص کلمات
حضرت زید بن خارجہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ آپ ﷺ پر دُرود کس طرح بھیجی جائے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا مجھ پر درود بھیجا کرو اور خوب اہتمام اور دِل لگا کے دعا کیا کرو اور یوں عرض کیا کرو : “اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَآلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ” (اے اللہ ! حضرت محمد آلِ محمد پر اپنی خاص عنایت و رحمت اور برکت نازل فرما جس طرح تو نے حضرت ابراہیم اور آلِ ابراہیم پر برکتیں نازل فرمائیں ، تو ہر حمد و ستائش کا سزاوار ہے اور عظمت و کبریائی تیری ذاتی صفت ہے) ۔ (مسند احمد ، سنن نسائی) تشریح رسول اللہ ﷺ نے حضرت زید بن خارجہ کے اس سوال کے جواب میں کہ آپ ﷺ پر دُرود کس طرح بھیجی جائے ؟ دُرود کے کلمات بھی تلقین فرمائے اور اس سے پہلے ارشاد فرمایا “صَلُّوا عَلَيَّ وَاجْتَهِدُوا فِي الدُّعَاءِ” اس عاجز نے “وَاجْتَهِدُوا فِي الدُّعَاءِ” کا مطلب یہی سمجھا ہے کہ دُرود شریف جو دراصل اللہ تعالیٰ کے حضور میں رسول اللہ ﷺ کے لئے ایک دعا ہے ، صرف زبان سے سرسری طور پر نہیں ، بلکہ اہتمام اور دل کی پوری توجہ سے مانگی جائے ۔ واللہ اعلم ۔
درود شریف کے خاص کلمات
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : جس نے مجھ پر اس طرح دُرود بھیجا “من قَالَ: اللَّهُمَّ {صل على مُحَمَّد وعَلى آل مُحَمَّد، كَمَا صليت على إِبْرَاهِيم وعَلى آل إِبْرَاهِيم، وَبَارك على مُحَمَّد وعَلى آل مُحَمَّد، كَمَا باركت على إِبْرَاهِيم وعَلى آل إِبْرَاهِيم، وترحم على مُحَمَّد وعَلى آل مُحَمَّد، كَمَا ترحمت على إِبْرَاهِيم وعَلى آل إِبْرَاهِيم” تو میں قیامت کے دن اس کے لئے شہادت دوں گا اور اس کی شفاعت کروں گا ۔ (تہذیب الآثار للطبرانی) تشریح حضرت ابو ہریرہؓ کی رایت کی ہوئی اور اس درود میں رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کی آل کے لئے صلوٰۃ اور برکت کے علاوہ ترحم کی بھی دعا ہے ۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ بہت سے علماء اور فقہاء نے رسول اللہ ﷺ کے لئے رحمت کی دعا سے منع فرمایاکیوں کہ یہ دعا تو عام مومنین کے لئے بھی کی جاتی ہے لیکن اگر صلوٰۃ و سلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے رحمت و ترحم کی استدعا آپ ﷺ کے لئے کی جائے تو مضائقہ نہیں ہے ۔ تشہد میں “السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ” ہر نما زمیں پڑھا جاتا ہے ار اس میں آپ ﷺ کے لئے سلام کے ساتھ رحمت کی دعا بھی ہے ، اسی طرح حضرت ابو ہریرہ کے روایت کئے ہوئے اس دُرود میں صلوٰۃ اور برکت کی استدعا کے بعد ترحم کی استدعا بھی کی گئی ہے ۔ اس طرح ترحم کی استدعا صلوٰۃ و سلام کا تکملہ بن جاتی ہے ۔
درود شریف کے خاص کلمات
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جس کو اس سے خوشی ہو اور وہ چاہے کہ مجھ پر اور میرے گھر والوں پر درود بھیج کر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں زیادہ سے زیادہ ار بھرپور حاصل کرے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں یوں عرض کرے ۔ “اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَأَزْوَاجِهِ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ، وَذُرِّيَّتِهِ وَأَهْلِ بَيْتِهِ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ” اے اللہ ! اپنی خاص نوازش اور عنایت و رحمت فرما اُمی حضرت محمد ﷺ پر اور ان کی ازواجِ مطہرات امہات المومنین اور اُن کی نسل پر اور اُن کے سب گھر والوں پر ، تو ہر حمد و ستائش کا مستحق و سزاوار ہے اور عظمت و کبریائی تیری ہی صفت ہے ۔ تشریح اس حدیث کی بنا پر بعض حضرات کا خیال ہے کہ درودوں میں یہ درودسب سے افضل ہے کیوں کہ فرمایا گیا ہے کہ جو زیادہ سے زیادہ اور بھرپور رحمت و برکت اور اجر و ثواب حاصل کرنا چاہے وہ یہ درود پڑھے اور بعض حضرات نے لکھا ہے کہ نماز میں تو وہ درود پڑھنا افضل ہے جو ابتدائی حدیثوں میں گزر چکا ، اور نماز سے باہر یہ درود افضل ہے جس کو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس حدیث میں روایت کیا ہے ۔ واللہ اعلم ۔
درود شریف کے خاص کلمات
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جبرئیل امین نے میرے ہاتھ کی انگلیوں پر گن کر دُرود شریف کے یہ کلمات تعلیم فرمائے اور بتایا کہ رب العزت جل جلالہ کی طرف سے یہ اسی طرح اُترے ہیں وہ کلمات یہ ہیں ۔ اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ ..... الخ (مسند فردوس دیلمی ، شعب الایمان للبیہقی) تشریح اس دُرود میں رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے گھر والوں کے لئے اللہ تعالیٰ سے صلوٰۃ اور برکت اور ترحم کی استدعا کے علاوہ سلام اور تحسنن کی استدعا کی گئی ہے ۔ تحسنن کے مفہوم کو اردو زبان میں شفقت اور پیار دُلار سے ادا کیا جا سکتا ہے اور سلام کے معنی ہیں ہر برائی اور ناپسندیدہ چیز سے سلامتی ار حفاظت ۔ اس حدیث کے بارے میں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ کنز العمال جلد اول میں جہاں یہ حدیث ذکر کی گئی ہے وہیں سند کے لحاظ سے اس کے ضعیف ہونے کی تصریح بھی کر دی گئی ے ۔ پھر اسی کی دوسری جلد میں اسی مضمون کی ایک اور حدیث اور دُرود شریف کے یہی کلمات حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے بھی صاحب مستدرک ابو عبداللہ حاکم نیشاپوری کی “معرفۃ علم الحدیث” کے حوالے سے ان کی مسلسل سند کے ساتھ نقل کئے گئے ہیں اور اس سند کے بھی بعض راویوں پر سخت جرح کی گئی ہے ، ساتھ ہی سیوطی سے نقل کیا گیا ہے کہ انہیں اس حدیث کے بعض اور “طریقے” بھی ملے ، نیز حضرت انس سے بھی قریبا اسی مضمون کی ایک حدیث روایت کی گئی ہے جو ابن عساکر کے حوالے سے کنز العمال میں بھی درج ہے اور اصحاب فن کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ ضعیف حدیث تعدد طرق کی وجہ سے قابلِ قبول ہو جاتی ہے ۔ خاص کر فضائلِ اعمال میں ایسی حدیث سب کے نزدیک قابلِ عمل ہے ۔ ملا علی قاریؒ نے شرح شفاء میں ھاکم کی روایت کردہ حضرت علی والی حدیث کے راویوں پر سخت جرح کا ذکر کر کے لکھا ہے کہ “غایۃ الامر یہ ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث کو بھی قابلِ اعتماد سمجھا جاتا ہے ۔ ” (شرح شفاء ص : ۴۷۳، ج:۳) انہی سب باتوں پر نظر رکھتے ہوئے یہ حدیث ضعیف ہونے کے باوجود یہاں درج کر دی گئی ہے ۔ یہاں تک جو احادیث درج ہوئیں جن میں دُرود و سلام کے کلمات تلقین فرمائے گئے ہین ، یہ سب مرفوع حدیثیں تھیں ، یعنی رسول اللہ ﷺ کے ارشادات تھے ۔ اور ان میں دُرود و سلام کے جو کلمات تعلیم فرمائے گئے ہیں ۔ ان سب کی بنیاد وحی ربانی پر ہے ۔ حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ کی حدیث کے ذیل میں اوپر گزر چکا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ سے بشیر بن سعد نے دریافت کیا کہ ہم آپ پر درود کس طرح بھیجا کریں ؟ تو آپ ﷺ کچھ دیر خاموش رہے ، یہاں تک کہ وحی آئی اس کے بعد آپ ﷺ نے درودِ ابراہیمی تلقین فرمایا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ دُرود شریف کے بارے میں آپ ﷺ کو بنیادی رہنمائی وحی سے ملی تھی ، اس بناء پر کہا جا سکتا ہے کہ دُرود و سلام کے جو کلمات بھی کسی وقت آپ ﷺ نے تلقین فرمائے ان کی بنیاد وحی پر ہے اور یہ فضیلت دُرود و سلام کے انہیں کلمات کو حاصل ہے جو کسی وقت آپ ﷺ نے تعلیم فرمائے ۔ ان کے علاوہ بعض صحابہ کرام اور دوسرے سلف صالحین سے دُرود و سلام کے جو کلمات منقول ہیں ان کو یہ خصوصیت اور فضیلت ھاصل نہیں ہے ، اگرچہ ان میں سے بعض لفظی اور معنوی لحاظ سے بہت ہی بلند ہیں اور ان کی مقبولیت میں کوئی شبہ نہیں ہے ۔ ان میں سے ایک جو کتبِ حدیث میں فقیہ الامۃ حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت کیاگیاہے ، اور دوسرا جو حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے یہاں درج کئے جا رہے ہیں اور انہی پر روایات کا یہ سلسلہ ختم کیا جا رہا ہے ۔
درود شریف کے خاص کلمات
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ : جب تم رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجو تو بہتر سے بہتر طریقہ پر درود بھیجنے کی کوشش کرو ، تم جانتے نہیں ہو ان شاء اللہ تمہارا وہ درود آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا جائے گا ۔ لوگوں نے عرض کیا تو آپ ﷺ ہمیں بتا دیجئے اور سکھا دیجئے کہ ہم کس طرح درود بھیجا کریں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا یوں عرض کیا کرو : اللَّهُمَّ اجْعَلْ صَلَاتَكَ، وَرَحْمَتَكَ وَبَرَكَاتِكَ ...... الى قوله .... إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ» (اے اللہ ! اپنی خاص عنایات اور رحمتیںاور برکتیں نازل فرما سید المرسلین ، امام المتقین ، خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ پر جو تیرے خاص بندے اور رسول ہیں ، نیکی اور بھلائی کے راستہ کے امام اور راہنما ہیں ، رحمت والے پیغمبر ہیں (یعنی جن کا وجود ساری دنیا کے لئے باعث رحمت ہے) اے اللہ ! ان کو اس “مقام محمود” پر فائز فرما جو اولین و آخرین کے لئے قابلِ رشک ہو ۔ اے اللہ ! حضرت محمد اور آلِ محمد پر اپنی خاص نوازشیں اور عنایتیں فرما جس طرح کہ تو نے حضرت ابراہیم و آلِ ابراہیمؑ پر نوازشیں اور عنایتیں فرمائیں اور حضرت محمد پر و آلِ محمد پر اپنی خاص برکتیں نازل فرما جس طرح تو نے حضرت ابراہیمؑو آلِ ابراہیمؑ پر برکتیں نازل فرمائیں ، تیری ذات ہر حمد و ستائش کی سزاوار ہے اور عظمت و کبریائی تیری ذاتی صفت ہے ۔ (سنن ابن ماجہ) تشریح دُرود شریف کے یہ کلمات حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنے لوگوں کو تعلیم فرمائے تھے ۔ بلاشبہ بڑے مبارک اور مقبول کلمات ہیں اور اس میں وہ درود ابراہیمی بھی لفظ بہ لفظ شامل ہے جو کعب بن عجرہ کی اس روایت میں گزر چکا ہے جو صحیحین کے حوالہ سے سب سے پہلے درج کی جا چکی ہے ۔
درود شریف کے خاص کلمات
حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے روایت کیا گیا ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ پر اس طرح درود بھیجتے تھے ۔ (پہلے سورہ احزاب کی یہ آیت تلاوت فرماتے جس میں رسول اللہ ﷺ پر درود و سلام بھیجنے کا حکم دیا گیا ہے) إِنَّ اللَّهَ وَمَلاَئِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا اس کے بعد کہتے لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ رَبِّي وَسَعْدَيْك اے میرے اللہ میں تیرے اس فرمان کی بسر و چشم تعمیل کرتاہوں اور عرض کرتا ہوں ۔ صَلَوَاتُ اللَّهِ الْبَرِّ الرَّحِيمِ، وَالْمَلَائِكَةِ الْمُقَرَّبِينَ، وَالنَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ، وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ..... الخ اس خداوند تعالیٰ کی طرف سے جو بڑا احسان فرمانے والا اور نہایت مہربان ہے ۔ خاص نوازشیں اور عنایتیں ہو ں ، اور اس کے ملائکہ مقربین اور انبیاء و صدیقین اور شہداء و صالحین کی اور اس ساری مخلوقات کی جو اللہ کی تسبیح و حمد کرتی ہے ۔ بہترین دعائیں اور نیک تمنائیں ہوں ۔ حضرت محمد بن عبداللہ کے لئے جو خاتم النبیین ، سید المرسلین اور رسول رب العالمین ہیں ، جو اللہ کی طرف سے شہادت ادا کرنے والے ہیں ، اللہ کے فرمانبردار بندوں کو رحمت و جنت کی بشارت سنانے والے اور مجرموں ، نافرمانوں کو برے انجام سے اور اللہ کے عذاب سے آگاہی دینے والے ہیں ، جو تیرے بندوں کو تیرے حکم سے تیری طرف دعوت دیتے ہیں اور تیرے ہی روشن کئے ہوئے چراغ ہیں ، اور ان پر سلام ہو ۔ (شفاء قاضی عیاض) تشریح یہ درود پاک جیسا کہ ظاہر ہے الفاظ و مطالب کے لحاظ سے نہایت بلند اور ایمان افروز ہے لیکن حدیث کی کسی کتاب میں اس کی روایت نظر سے نہیں گزری ، البتہ پانچویں اور چھٹی صدی کے عالم اور محدث قاضی عیاضؒ نے اپنی کتاب “الشفاء بحقوق المصطفیٰ” میں اس کو حضرت علی مرتضی سے نقل کیا ہے (1) اور علامہ قسطلانی نے “مواھب لدنیہ” میں شیخ زین الدین بن الحسین مراغی کی کتاب “تحقیق النصرۃ فی دار الھجرۃ” کے حوالہ سے ذکر کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی نماز جنازہ میں حضرت علی مرتضی نے آپ ﷺ پر یہی درود پاک پڑھا تھا اور لوگوں کے دریافت کرنے پر ان کو بھی تعلیم فرمایا تھا (2) ..... بہرحال الفاظ و مطالب کے لحاظ سے بڑا پیا ر اور روح پروریہ درود ہے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہما سے دُرود و سلام کے جو کلمات یہاں نقل کئے گئے ان سے معلوم ہو گیا کہ امت کے لئے یہ پابندی نہیں ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ پر صرف آپ ﷺ کے تلقین فرمائے کلمات ہی کے ذریعہ دُرود و سلام بھیجے ، بلکہ ارباب ذوق و محبت کے لئے دروازہ کھلا ہوا ہے ۔ وہ حدود شریعت کے پابند رہتے ہوئے اپنے ذوق و شوق کے تقاضے کے مطابق دوسرے کلمات کے ذریعہ بھی آپ ﷺ پر صلوٰۃ و سلام بھیج سکتے ہیں ۔ چنانچہ بہت سے اکابر امت ، تابعین اور بعد کے علماء عارفین سے اور بھی کلمات منقول ہیں لیکن وہ سلسلہ معارف الحدیث کے دارئرہ سے باہر ہیں اس لئے ان کو یہاں درج کرنا مناسب نہیں سمجھا گیا ، اگر اللہ نے توفیق دی تو ان میں سے بھی چند منتخب کلمات کو ایک مستقل مضمون میں جمع کرنے اور ان پر کچھ لکھنے کا ارادہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی توفیق سے معارف الحدیث کی پانچویں جلد یہاں ختم ہو گئی ۔ اللہ تعالیٰ اس کو قبول فرمائے اور اس کے مولف اور ناظرین کے لئے وسیلہ رحمت و مغفرت بنائے ۔ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ العَلِيمُ